عشق کا رنگ سفید ہے یارا۔۔۔
میرے عشق کا رنگ ہے سفید”
ریڈیو پر گانا چل رہا تھا۔
مالا نے کھڑکی سے پردہ ہٹا کر باہر دیکھا۔ موسم قدرے خوشگوار ہو گیا تھا۔ ہوا میں ہلکی ہلکی خنکی بڑھنے لگی تھی۔ درختوں نے مردہ پتوں کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ اور وہ شاخوں سے ٹوٹ کر زمیں کی آغوش میں پناہ لینے لگے تھے ۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا اور پھر پردے آگے کر دیے۔ غیر شعوری طور پر گانا سنتے ہوئے وہ اپنے اندر سوچوں کے امڈتے ہوئے اک طوفان سے نبرد آزما تھی۔
اسکی زندگی پر بھی قسمت کا سفید رنگ اس قدر چھا گیا تھا کہ اسے سفید رنگ سے وحشت سی ہونے لگی تھی۔
عشق تو ست رنگی ہے پھر اسے کیوں تحفے میں سفید رنگ دے گیا؟ ۔ اس عشق کی سوغات بھی ہر کسی کے لیے الگ ہے۔ کسی کو لال رنگ دے تو کسی کو سفید ۔۔کسی کا پالا زرد عشق سے پڑ جائے تو کسی کی روح تک نیلگوں ہو جائے۔ اس عشق کے تو ہزار رنگ۔۔۔ یہی سوچتے ہوئے وہ مڑی اور بیڈ کے نیچے جھک کر جوتے تلاش کرنے لگی۔ اس نے جوتے نکالے اور جلدی سے پہن کر باہر کی طرف چل دی۔ وہ کھڑکی سے نظر آنے والے اس منظر کا جلد از جلد حصہ بن جانا چاہتی تھی۔
شاخوں سے پتوں کے گرنے کا یہ منظر اسے ہمیشہ سے ہی رومانی لگتا تھا۔ سوکھے پتوں کی چرمراہٹ گویا محبت کی کوئی نامکمل داستان ہو جو اپنے ادھورے پن پر ماتم کناں ہو۔
بنچ پر بیٹھ کر ان پتوں کو لوگوں کے پاؤں تلے رندھتے دیکھ کر وہ چشمِ تصور میں ایک ایک پتے کی داستان ذہن میں لاتی۔ اور پھر اپنی حماقت پر خود ہی مسکرا دیتی۔
سوکھے پتوں کے نصیب میں جدائی ہی ہوتی ہے۔ اس کا دماغ دہائی دیتا مگر یہ کہاں کا انصاف ہے؟ محبت تو اچھے برے وقت کا ساتھ مانگتی ہے۔ اس کا دل گواہی دیتا کہ یہ سوکھے پتے خاک میں مل کر پھر سے اسی درخت کی آبیاری کریں گے جس نے انہیں خزاں کی پہلی ہوا کے ساتھ ہی اڑانا شروع کر دیا۔محبت کا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہو گا۔ درخت لاکھ بے وفا سہی، موسم ظالم سہی مگر قدرت تو خود سراپاِ محبت ہے۔ وہ ان پتوں کی قربانی رائیگاں نہیں ہونے دے گی۔ یہ پھر سے جنم لیں گے کسی اور شاخ پر۔ کسی اور کونپل کے بطن سے۔ ہو سکتا ہے اگلے جنم میں یہ پتے پھول بن کر مہکیں اور فضاؤں میں اپنی خوشبوؤں کا رس گھولیں۔
یہ سوچ کر اسے طمانیت کا احساس ہوتا۔ محبت کے معاملوں میں وہ ایسی ہی تھی مثبت سوچ رکھنے والی۔ اسکے نزدیک محبت کی ہر کہانی کا مثبت انجام کہانی کا حق تھا ۔۔۔پگلی!!! نہیں جانتی کیا کہ محبت قسمت اور زندگی کی محتاج ہے ۔
اسے بنچ پر بیٹھے دو گھنٹے سے زاید ہو گئے تھے۔ آس پاس کے مناظر میں ڈوب کر وہ اتنا کھب چکی تھی کہ دو بار کھنکار کی آواز سے بھی اسکا طلسم نہ ٹوٹا
“سنیے”
آواز سن کر وہ اچانک چونکی “جی جی”
اس کے سامنے قدرے خوش شکل آدمی کھڑا تھا ۔ وہ اس کے یوں مخاطب کرنے پر اچانک گڑبڑا کر اٹھنے ہی لگی تھی کہ وہ بولا “ارے نہیں نہیں بیٹھیے! میرا مقصد آپ کو اٹھانا نہیں تھا۔ بس یہاں بنچ پر بیٹھنے سے پہلے آپ سے اجازت لینا چاہتا ہوں اگر آپ اجازت دیں گی تو بیٹھ جاؤں گا ورنہ آپ یوں ہی منظر میں گم رہیں گی اور میں یوں ہی کھڑا آپ کو دیکھنے میں محو رہوں گا “آخری جملہ کہتے ہوئے اسکے لبوں پر شریر سی مسکراہٹ آ گئی۔
وہ خفت بھرے انداز میں اس پر نگاہ ڈال کر ادھر ادھر نظر دوڑانے لگی۔ تو اس نے دیکھا کہ واقعی سب بنچ بھرے ہوئے تھے۔ اچھے موسم نے سب کو ہی گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ عورت ہونے کیوجہ سے کسی نے اسکے بنچ پر بیٹھنے کی ہمت نہیں کی تھی مگر یہ آدمی عجیب تھا۔ اسکی بات کا بے تکلفانہ انداز پسند نہ آنے کے باوجود اسے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہ دینے کا اسے کوئی اخلاقی جواز سمجھ نہیں آیا تو مجبورا اس نے اسے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ ویسے بھی اگر اجنبی چاہتا تو اسکی اجازت کے بغیر بھی بیٹھ سکتا تھا۔ پبلک پلیس پر وہ یوں اپنا حق نہیں جما سکتی تھی۔
لہذا سر اثبات میں ہلا کر بولی “بیٹھ جائیے۔مگر اپنے کام سے کام رکھیے گا۔ زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہےے”
اجنبی اسکی بات سن کر بولا ” ارے آپ تو برا ہی مان گئیں ۔ ابھی تو آپ سے کوئی بات چھیڑی بھی نہیں ۔ اور آپ نے منع بھی کر دیا۔ خیر چلیے کوئی بات نہیں ۔ خاموشی کی زباں سے ہی کام چلا لیں گے “.
یہ کہتے ہوئے وہ مسکرا کر اسکے پہلو میں بیٹھ گیا تو وہ جو پہلے ہی کنارے پر بیٹھی تھی مزید سمٹ کر بیٹھ گئی۔ “بدتمیز کہیں کا” دل ہی دل میں بڑبڑائی۔ اسکے چہرے پر ابھر آنے والے ناگوار جذبات کو اجنبی نے محسوس کر لیا مگر کچھ بولا نہیں
چند ساعتیں یوں ہی گزر گئیں۔ وہ اور اجنبی یوں ہی بیٹھے سامنے دیکھتے رہے۔ اور پھر وہ اچانک اٹھ کر چل دی۔ اجنبی حیرت اور اشتیاق کے ملے جلے جذبے کیساتھ اسے دیکھتا رہا۔
گھر واپس آ کر مالا جلدی جلدی چیزیں سمیٹنے لگی۔ اسے معلوم تھا کہ ابھی ابھی نور کا فون آجائے گا۔ اور وہی ہوا۔ فون کی گھنٹی بجی ۔ اس نے جلدی سے ریسیور کان سے لگایا تو نور کی کھنکتی ہوئی آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی۔
“کمال ہے یار جس دن تم دیر نہیں لگاؤ گی اس دن مجھے ڈر ہے کہیں سورج مغرب سے نہ نکل آئے”
وہ جوابا مسکراتے ہوئے بولی “ارے نہیں نور! بس پارک میں بیٹھے بیٹھے تھوڑی دیر ہو گئی”
“اچھا اچھا ۔۔۔اب زیادہ بہانے بنانے کی ضرورت نہیں ۔ ویسے بھی اب اس پارک اور اس بنچ کی جان چھوڑ دو۔ پہلے ہی تم نے لیٹ کروا دیا ہے۔ اب مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ہے ۔ جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ میں پہنچ رہی ہوں۔ اور اب تمہارا کوئی بہانا نہیں چلے گا۔ ”
فون ٹھک سے بند ہو گیا۔ اس نے مسکراتے ہوئے ریسور واپس رکھا اور تیار ہونے کیلیے اندر چلی گئی۔ صرف ایک نور ہی تھی جو اسکے چہرے پر یوں اتنی آسانی سے مسکان لا سکتی تھی
نور کے ساتھ اسکا شاپنگ کا پلان ہفتہ پہلے سے طے تھا۔ مگر اسے حسب معمول دیر ہو گئی تھی۔ اور اب وہ نور کی مزید ناراضگی سے بچنے کیلیے جلدی سے تیار ہوجانا چاہتی تھی۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ اور نور شاپنگ سنٹر کے اندر موجود تھیں۔ نور مسلسل بولے جا رہی تھی۔ “ارے مجھے اس گولڈن شرٹ کیساتھ لال رنگ میچ کرنا ہے یا پھر نیلا دیکھ لوں گی۔ ویسے کالا اور گولڈن بھی اچھا لگے گا نا؟ ”
اور وہ اسکی باتیں سننے کے ساتھ دکانوں پر بھی نظر دوڑائے جا رہی تھی کہ پہلے کس دکان میں جایا جائے۔ ورنہ نور کا تو کچھ پتہ نہ تھا کہ پورا شاپنگ مال کھنگال ڈالے اور اسے کچھ پسند نہ آئے یا پھر جو چیز خرید لے پھر سارا راستہ اسکا دماغ کھاتی جائے کہ وہ اسے بدل کر دوسرا رنگ یا کپڑا لینا چاہتی ہے ۔ دکانوں پر نظر دوڑاتے ہوئے اچانک اسکی نظر ٹھہر گئی۔ نور نے اسکی ٹکٹکی کو محسوس کر کے بات کرتے ہوئے اپنی گردن موڑ کر اسکی نظروں کی سمت گھمائی تو ایک ثانیے کو رکی اور پھر خوشی بھری چیخ کیساتھ بولی “احمد”
آواز اتنی اونچی تھی کہ نوجوان نے بھی بے اختیار نظر اٹھا کر انکی طرف دیکھا۔ اگلے ہی لمحے نوجوان کے چہرے پر بھی مانوس تاثرات ابھرے اور وہ خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات کیساتھ انکی طرف بڑھا۔
مالا اس اچانک افتاد پر گڑبڑا گئی۔ نور کے فورا ردعمل نے اسے نور کو روکنے کا موقع ہی نہ دیا اور نتیجتاً اب وہ نوجوان اسکے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا ۔
نور نے انتہائی گرمجوشی کے ساتھ اسے سلام کیا۔ اسے خوش اخلاقی اور جواباً اسی گرمجوشی سے جواب دے کر وہ مالا کیطرف متوجہ ہوا تو مالا نے بھی اسے قدرے ہلکی آواز میں سلام کیا۔ جس کا جواب دیتے ہوئے اس نے اوپر سے نیچے تک مالا کا بغور جائزہ لیا۔ مالا کھڑے کھڑے ہی سمٹ گئی۔
نور نے احمد سے بے تکلفی سے ہوچھا “آپ یہاں کہاں جناب؟ ایسے غائب ہوئے تھے جیسے گدھے کے سر سے سینگ”
احمد مسکراتے ہوئے بولا ” چند دن پہلے ہی یہاں پوسٹنگ ہوئی ہے میری۔ لہذا اس شہر چلے آئے۔ اب پتہ چلا کہ ہم نہیں آئےیہ شہر ہی کھینچ لایا ہے۔ اگر پہلے پتہ ہوتا کہ آپ بھی یہیں ہیں تو ہم تو کب کے یہیں کے باسی ہو جاتے۔ ” نور بھی مصنوعی ناراضگی کیساتھ بولی “ارے رہنے دیں ۔ پہلے تو ہمارا خیال تک نہ آیا۔ اور اب یہیں چلے آتے۔ جھوٹے کہیں کے”
احمد بھی کہاں رکنے والا تھا “ارے آپ کی بات کون کر رہا ہے۔ میں تو مالا جی کی بات کر رہا ہوں۔ ”
وہی ہمیشہ کی خوش مزاجی اور برجستگی لیے انداز تکلم !..
مالا نظریں چرا کر زمین کی جانب دیکھنے لگی۔یہ بے رخی دیکھ کر درد کا اک رنگ احمد کے چہرے پر آ کر گزر گیا۔ مالا سے اسے اسی رویے کی توقع تھی۔ مگر یوں برسوں بعد آمنا سامنا ہو جائے گا۔ یہ بات تو اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔
مگر پھر بھی دونوں نے یہ سامنا ہو جانے پر خود کو کمال کا سنبھالا تھا ۔ دونوں ہی نہ جانتے تھے کہ دوسری جانب اس ملاقات پر دل میں کیا جذبہ ہے؟
تبھی نور خفت بھرے انداز میں بولی ” “اچھا اب تو آ گئے ہیں نہ۔۔اب نہ گم جائیے گا۔ لائیے اپنا نمبر دیجیئے ”
نور کو اپنا نمبر نوٹ کرواتے ہوئے اسکی نگائیں مسلسل مالا کا طواف کرتی رہیں جو بالکل انجان نظر آنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ نمبر سن کر اسکے ذہن میں وہی نمبر گردش کرنے لگا۔ بارہ سال بعد بھی وہی نمبر۔ “چلو نور دیر ہو رہی ہے۔ پھر کہو گی کہ فلاں چیز میری وجہ سے رہ گئی ہے۔ ”
مالا نور کا ہاتھ پکڑ کر تقریبا کھینچتے ہوئے اسے اپنے ساتھ آگے لے گئی۔ احمد ان دونوں کو سامنے ہی مشہور برانڈ کے کپڑوں کی دکان میں جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ جب وہ دونوں اندر جا چکیں تو سر جھکا کر مڑا اور مال سے باہر نکل گیا۔
دکان میں داخل ہوتے ہی ڈسپلے میں لگے کپڑے دیکھنے کے بہانے مالا نے شیشے سے باہر دیکھا مگر احمد اب وہاں نہیں تھا۔
یونیورسٹی میں کشیدگی بڑھنے لگی تھی۔ دونوں گروپوں کے مابین تصادم سے بچنے کیلیے انتظامیہ اپنی سی کوشش کر رہی تھی مگر ظاہر ہے نوجوانوں پر اپنا پورا تسلط قائم رکھ پانا مشکل تھا خاص طور سے جب بڑے پیمانے پر بغاوت جنم لے رہی ہو ۔ ملکی حالات و سیاست کا یونیورسٹی کی فضاء پر بھی گہرا اثر پڑا تھا۔ ایک طرف مذہبی طبقہ اور دوسری طرف لبرل نوجوان۔۔۔دونوں ہی ملک کی ترقی کے خواہشمند تو تھے مگر اس منزل کو پانے کیلیے اپنی راہ کو صحیح منوانے پر بضد بھی تھے۔ ٹارگٹ گلنگ کی وجہ سے ملکی فضاء پہلے ہی کشیدہ تھی اور ہر حکومتی درجے پر ایک فرقے کے لوگ دوسرے فرقے سے کھچ رہے تھے۔ یونیورسٹی میں پچھلے ایک مہینے میں دو بار نوجوانوں کے مابین تصادم اور زخمی ہونے کے واقعات ہو چکے تھے۔
یونیورسٹی لان میں بیٹھی مالا نے احمد کو آتے دیکھا تو منہ پھلا لیا۔ احمد پاس آ کر بولا “جناب اجازت ہو تو ہم بھی آپ کے ہمراہ تشریف آوری کا شرف حاصل کریں”.”ہونہہ”کہہ کر مالا نے دوسری طرف منہ کر لیاتو احمد جھٹ دوسری جانب جا کھڑا ہوا۔ “ارے یہ ناراضگی آپ پر بالکل نہیں جچتی محترمہ”
“پرے ہو جاؤ تم۔ بات مت کرنا مجھ سے” مالا نے مصنوعی غصے سے کہا تو احمد چہرے پر سنجیدگی طاری کرتے ہوئے بولا ” تم سے بات نہ کرنا ناممکن یے۔ کہو تو سانس نہ لوں مگر بات بنا رہنا ایسے ہے جیسے زمین بغیر مدار کے”۔۔
اور مالا ہنس دی ” کیسی کیسی مثالیں ڈھونڈ لاتے ہو۔ اب مدار اور زمین بھی بھلا کوئی مثال ہوئی۔ ”
“ارے چلو شکر تم ہنسی تو۔ اب کہو ناراض کیوں تھی”
احمد نے پوچھا تو مالا پھر سے چہرے پر سنجیدگی طاری کر کے بولی” احمد تمہیں ہزار دفعہ کہا ہے کہ ان جھمیلوں سے دور رہا کرو۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔ یونیورسٹی کا ماحول کچھ عجیب سا ہو گیا ہے۔ تم نے دیکھا نہیں کیسے bba11/2 والے نوجوان کی بری حالت کر دی تھی۔ کسی دن تمہاری دانشوری بھی تمہیں لے نہ ڈوبے۔ یہ معاشرہ ابھی اپنا دامن اتنا وسیع نہیں کر پایا کہ اس میں ہر مکتبہِ فکر کے لوگ بغیر ٹکرائے سما جائیں۔ اور تم جتنا کھل کر بولتے ہو۔ پلیز احمد۔ مجھے لگتا کسی دن تم مجھ سے دور نہ ہو جاؤ”
احمد اسکی خواہ مخواہ کی فکر دیکھ کر مسکرا دیا “ارے نہیں بابا! تم بھی نا۔۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔دیکھو مالا ہم نوجوان نہیں بولیں گے تو بھلا معاشرے میں آواز کون اٹھائے گا؟ مجھے بولنے دو۔ میری آواز ایک مدھم سی چیخ سہی مگر یقین کرو ایک نہ ایک دن اس معاشرے کو متوجہ کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی۔ ”
“احمد بس مجھ سے دور نہ ہو جانا ” مالا کی آنکھوں میں فکر کے سائے گہرے تھے۔ مگر احمد نے ہنس کر ٹال دیا کہ وہ اور مالا دو جسم ایک جاں ہیں اور انہیں الگ کر پانا ناممکن ہے۔
* * * *
بنچ پر بیٹھی مالا اس دور میں کھوگئی جب احمد کے بغیر اسکا سانس لینا بھی محال تھا۔ اور آج وہ احمد کے بغیر بھی ایک زندہ جیتی جاگتی حقیقت تھی۔ انسان کیا سوچتا ہے اور کیا ہوتا ہے۔ مالا کو کبھی کبھی تو یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ خود بھی وہی مالا ہے جو احمد کے بغیر جی گئی۔ انہی سوچوں میں گم اس نے سر گھمایا تو دیکھا کہ وہی اس دن والا نوجوان بنچ پر بیٹھا سامنے کھیلتے ہوئے بچے دیکھ رہا ہے ۔ مالا گڑبڑا سی گئی ۔ دل ہی دل میں اسے اس نوجوان پر غصہ آنے لگا۔ یہ بنچ اسکا تھا۔ وہ برسوں سے یہیں اسی بنچ پر بیٹھتی آ رہی تھی۔ جب اسکا دل بھر آتا یا وہ اداس ہوتی یہیں اسی بنچ پر آ کر بیٹھ جاتی اور دنیا جہان کے خیال اسکے ذہن میں گردش کرتے رہتے۔ مگر آج اس اجنبی کی موجودگی نے اسے بے چین کر دیا تھا۔ اسے لگا جیسے وہ اس سے اسکی جگہ چھین لے گا۔ اس سوچ کے ذہن میں لہراتے ہی وہ بے چینی کے عالم میں بولی “آپ”
اجنبی نےاسے مڑ کر یوں دیکھا جیسے اچانک اس کی آواز سے وہ کسی گہری سوچ سے واپس آیا ہے ۔
“جی میں” آپ کو دیکھا یہاں بیٹھے ہوئے تو بس آکر میں بھی بیٹھ گیا۔ ”
“مگر یہ کیا بدتمیزی ہے. آپ میرے بنچ پر کیوں بیٹھ گئے۔ آپ کو شرم نہیں آتی۔ آپ مردوں کا کیا ہے۔ جہاں اکیلی عورت دیکھی وہیں اپنا ٹانکہ اڑانے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ بنچ میرا ہے اور میں یہاں اکیلے ہی بیٹھتی ہوں۔ اسلیے برائے مہربانی کوئی اور جگہ دیکھیں بیٹھنے کیلیے ”
اجنبی کے چہرے پر مالا کی بات سن کر شرمندگی اور غصے کے ملے جلے جذبات آ گئے۔ اس نے کچھ کہنے کیلیے منہ کھولا مگر پھر خاموش ہو کر جلدی سے اٹھ گیا۔ مالا اسے تیز تیز قدموں سے دور جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
اجنبی کے اوجھل ہوتے ہی مالا کو الجھن اور شرمندگی نے آ گھیرا۔ وہ غصے میں کچھ زیادہ ہی کہہ گئی تھی ۔ اجنبی نے تو جواب میں بھی اسے کچھ نہیں کہا تھا۔ اسے یوں بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ خواہ مخواہ ہی اس بچارے کو اتنی سنا دیں۔ کیامعلوم یہاں کیوں بیٹھا تھا۔؟
انہی سوچوں میں الجھی مالا اٹھ کر گھر کی طرف چل دی۔ اب اس سے مزید یہاں بیٹھا نہیں جا رہا تھا۔