"زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے اسفند.. تھوڑا اعصابی جھٹکا لگا ہے. میں نے سکون آور انجکشن دیا ہے صبح جاگے گا تو طبیعت ٹھیک ہو گی." ڈاکٹر عدیل نے اپنا بیگ اٹھایا اور انہیں تسلی دے کر رخصت ہوئے تھے. زرک جہاں کی بیہوشی سے گھبرا کر انہوں نے اپنے دوست ڈاکٹر عدیل کو بلایا تھا جو ان کی فون کال پر سر کے بل بھاگے چلے آئے تھے. ان کے جانے کے بعد وہ وہیں اس کے کمرے میں بیٹھ رہے. اس کی حالت اور شیریں جہاں کی باتیں دونوں ہی نے مل کر انہیں کشمکش ک شکار کر دیا تھا. وہ عجیب مشکل میں پھنسے تھے، نا بیوی کی بات رد کرنے کا یارا تھا اور نہ ہی اکلوتے لختِ جگر کی حالت نظرانداز کیے جانے کے قابل تھی. کچھ سوچ کر انہوں نے اسید کا نمبر ملایا تھا. ایک وہی تھا جو انہیں صحیح راہ دکھا سکتا تھا.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
رات کے دس بجے تھے وہ لیپ ٹاپ پر آفس کی کوئی فائل کھولے بیٹھا تھا. جب موبائل اسکرین پر اسفند جہاں کا نمبر جگمگایا.
"انکل کا فون اور اس وقت.... " وہ حیران ہوا "الٰہی.! زرک جہاں ٹھیک ہو." پہلا خیال زرک جہاں کا ہی آیا تھا.
"السلام علیکم.!"
"کیا تم ابھی گھر آ سکتے ہو اسید؟" اس نے "کیا, کیوں" جیسا کوئی سوال نہیں پوچھا تھا اور صرف "اوکے میں آدھے گھنٹے تک پہنچتا ہوں." کہہ کر فون رکھا اور لیپ ٹاپ بند کرکے شرٹ تبدیل کی تھی اور گاڑی کی چابیاں اور موبائل اٹھا کر گھر سے نکل آیا تھا. اور آدھے گھنٹے بعد زرک جہاں کے گیٹ پر کھڑے گارڈ نے اسے زرک جہاں کے کمرے میں جانے کا کہا تھا. اور وہاں اسفند جہاں کو دیکھ کر اسے حقیقتاً حیرت ہوئی تھی. وہ دونوں اگرچہ ایک دوسرے پر جان دیتے تھے لیکن اس کے باوجود دونوں باپ بیٹا کے بیچ دوستانہ تعلقات ذرا کم ہی تھے.
"کیا ہوا اسے انکل.؟" وہ متفکر سا زرک جہاں کے سرہانے بیٹھا اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر ٹمپریچر چیک کرنے لگا. انہوں نے تفصیل اس کے گوش گزار کی, اس سے بھلا چھپاتے بھی کیوں.؟ اس سے کیا چھپا تھا اور کیا پردہ تھا؟ زرک جہاں اور اسید.. یہ دونوں انہیں ہمزاد لگا کرتے تھے ایک دوجے کا سایہ, ایک دوسرے کی پریشانی میں پریشان اور خوشی میں خوش. اسید نے سب سنا اور چپکا بیٹھا رہا. کمرے میں ہلکی رفتار میں چلتے پنکھے کی مدھم سی آواز کے سوا دوسری کوئی آواز نہ تھی. ایک ذی روح ہوش کی دنیا سے ماورا تھا تو دو ذی نفس وہاں ہو کر بھی وہاں نہیں تھے.
"مجھے بتاؤ اسید کہ وہ لڑکی کون ہے؟" اس سکوت کو اسفند جہاں نے توڑا تھا. اسید نے گہری سانس کھینچی اور سمجھ لیا کہ اب احتساب کا وقت آن پہنچا تھا. اور اب نہ بھاگنا ممکن تھا نا چپ رہنا.
"میں نہیں جانتا انکل سوائے اس کے کہ وہ زرک جہاں کی زندگی جیسی ہے."
"زندگی جیسی ہے.؟ زندگی کیوں نہیں؟" انہیں عجیب لگا.
"مجھ سے مت پوچھیے انکل میں سمجھا نہیں پاؤں گا. وقت خود بتائے گا."
؎ کوئی خاک ہوتا ہے کس طرح, کوئی پھول چنتا ہے کس لیے.
یہ وقت وقت کی بات ہے تجھے زندگی بتائے گی.
"کہاں ملا تھا وہ اس سے؟"
"کہیں بھی نہیں انکل.. کبھی نہیں ملا.. اس کی تو بس ایک جھلک نے ہی زرک جہاں کو دو عالم سے بےپرواہ کر دیا ہے." اس نے پہلی جھلک دیکھنے کی روداد کہی.
"وہ مذاق میں اپنے لیے عشق مانگا کرتا تھا اسے سچ مچ عشق عطا کر دیا گیا، اس نے مجازی یا حقیقی کی شرط نہیں لگائی تھی بس عشق کی طلب کی تھی.. اور طالب نے مطلوب کی طلب کا جام عشق کی مے سے لبریز کر دیا تھا. ہاں بس..ابھی مطلوب اس مے کا عادی نہیں ہو پا رہا "
ؔ؎ شغل بہتر ہے عشق بازی کا.
کیا حقیقی و کیا مجازی کا.
"کیا تم مجھے اس کے گھر لے جا سکتے ہو اسید؟"اب کی بار وہ اسفند جہاں کے سوال پر حیران نہیں ہوا تھا کیونکہ اس کا دل اسے پہلے ہی مطلع کر چکا تھا کہ اب وہ یہی مطالبہ کریں گے. لیکن وہ دل میں آئے سوال کو زبان پر لانے سے روک نہیں پایا تھا.
"کیوں انکل.؟"
"میں اس لڑکی کو اپنے بیٹے کے لیے مانگنے جاؤں گا اسید." عشق میں طالب کے مطلوب سے ملن کی گھڑی کا پہلا سامان ہونے کی امید بندھی تھی.
ؔ؎ اے ولی سرو قد کوں دیکھوں گا.
وقت آیا ہے سرفرازی کا.
لیکن.... کیا کیا جائے کہ تدبیر کے ناخن سے تقدیر کی گرہ نہیں کھلتی. کچھ فیصلوں میں تقدیر ہماری پسند و ناپسند اور خوشی و ناخوشی کا خیال بالکل نہیں رکھتی. اور یہی وقت ہوتا ہے جب انسان ربِّ واحد کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
"ارے واہ..! تم.." دروازے پر زرک جہاں کو دیکھتے ہی سعادت علی کا چہرہ کھل اٹھا تھا. جو اگلی صبح ہوش میں آنے پر رات کا قصّہ بھول چکا تھا یا اسفند جہاں اور اسید کے سامنے جان بوجھ کر بھول جانے کی اداکاری کرتا ان سے نظریں بچا کر بنا گاڑی لیے نکل کھڑا ہوا تھا اور ٹیکسی میں سعادت علی کے گھر آیا تھا.
"کیا نا آتا؟" شکوہ کناں لیکن اپنائیت بھرا لہجہ.
"خود ہی تو کہا تھا جب جی کرے آ جانا."
"ارے تو میں نے کب کہا کہ نہ آتے یا کیوں آئے؟" وہ ہنسے اور بازو سے پکڑ کر اسے اندر لے آئے. وہ مسکرایا تھا. سعادت علی نے پہلی بار اس کے چہرے پر وہ مسکراہٹ دیکھی تھی کہ جس میں اس کی آنکھیں بھی ہونٹوں کے ساتھ مسکرائی تھیں. زرک جہاں نے ان کے گھر کی جانب دیکھا تھا چھوٹا سا لیکن پختہ اینٹوں سے بنا گھر، رہائشی حصّے کو جالی دار گرل سے صحن سے الگ کر رکھا تھا. بائیں جانب آم کا بڑا سا پیڑ تھا اور اس کے چاروں جانب بنی کیاری میں مختلف رنگوں کے گلاب اور موتیا کے پھول اپنی بہار دکھلا رہے تھے. پاس ہی دو کرسیاں بچھی تھیں درخت کا سایہ دور صحن تک پھیلا تھا وہ اسے وہیں لے آئے اور بیگم کو کھانے میں کچھ اچھا بنانے کا کہہ کر اس کے پاس آ بیٹھے.
"ایک بات پوچھوں سر.؟"
انہوں نے اثبات میں سر ہلایا.
"آپ کے بچے کہاں؟" وہ مکمل سوال کرتے جھجک گیا وہ قہقہہ مار کر ہنسے اور بولے:
"جھلیا... اس سوال کے پوچھنے میں اتنا تردّد.. میں سمجھا میری عمر پوچھنے لگے ہو." پھر سنجیدگی اختیار کرتے بولے:
"یار پتر.! اللّٰہ نے دیے ہی نہیں بچے، شادی کے بعد شروع دس سالوں میں خوب بھاگے دوڑے ہر در، ہر ڈاکٹر کے پاس گئے... پھر دل نے کہا سعادت علی... نام تیرا کیا ہے اور عمل دیکھ... صبر کر صبر. اور بس پھر تو صبر کا دامن ایسا پکڑا کہ آج شادی کو چالیس سال ہو گئے نہ کبھی شکوہ کیا نہ کمی کا احساس ہوا." انہوں نے پیچھے کی جانب دیکھا کہ کہیں بیگم تو نہیں آ رہی اور دوبارہ بولے:
"صبر تو آتے آتے ہی آیا بچے... ہر ہر دن بھاری سِل سینے پر رکھ کر جینا پڑتا تھا، اور ہر روز زندگی نئے نئے طریقوں سے امتحان لینے کو تیار کھڑی ملتی تھی. کبھی لوگوں کے طعنے تو کبھی بیگم کا رونا دھونا، کہ دوسری شادی کر لوں. اور میں کہتا کہ محبت کی شادی اسی دن کے لیے تو نہیں کی تھی کہ محبوب میں کوئی کمی ملے تو نیا محبوب ڈھونڈ لوں.." زرک جہاں کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی تھی.
"کمی دی تھی تو اللّٰہ نے شاید میری محبت کی آزمائش کے لیے ہی دی تھی. اور بس میں تب سے اب تک اپنی محبت کے لیے اس آزمائش پر پورا اترنے کی کوشش میں ہوں.باقی اللّٰہ ہی دلوں کے حال جانتا ہے"
"محبت ملتی ہے کیا؟" زرک جہاں نے سوال کیا تھا اور وہ چپ ہوئے تھے.
"مجھے بھی ملے گی نا محبت سر؟" وہ چھوٹے بچوں کی سی بیقراری سے پوچھ رہا تھا.
"مل جائے گی، صبر کر صبر.!" وہ بات ٹالنے کو بولے کیونکہ کچھ سوالوں کے جواب ان کہے ہی اچھے رہتے ہیں.لیکن سامنے کوئی اور نہیں زرک جہاں تھا. کبھی نہ ٹلنے والا.
"نہیں ہوتا صبر، آخر کتنا صبر کروں؟ اور پتا تو چلے کب جا کر یہ جان لیوا صبر ختم ہو گا؟"
"صبر سے کام لے زرک جہاں! صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے."
"جو پھل وقت پہ نہ ملے اس کے میٹھے ہونے کا بھی کیا فائدہ؟" اس نے ہٹیلے پن سے کہا
"ارے محبوب کا التفات اتنی جلدی کب نصیب ہوتا ہے بچے.. تُو کیوں اتنی اڑی کرتا ہے؟ کیوں اتاولا ہوا جاتا ہے." وہ سمجھانے لگے.
"تو بتائیں نا کب وہ وقت آئے گا؟ کب نصیب ہو گا اس کا التفات؟"
ؔ؎ تُو تو عالم ہے سمجھتا ہے کتابوں کی زباں.
میرا چہرہ بھی کبھی پڑھ میرے بھی حالات بتا.
بس ہو جائے مجھے میری محبت حاصل.
تُو کوئی ایسی دعا، کوئی ایسی مناجات بتا
"سر.!"وہ ان کے قریب گھٹنوں کے پاس آکر زمین پر بیٹھ گیا اور بیتابی سے بولا:
"میرے دل کو اب اس کے بغیر سکون نہیں ملتا. آپ تو اللّٰہ کے بہت قریب ہیں مجھے.. مجھے بتا دیں کہ کون سی دعا مانگوں کہ وہ مجھے مل جائے؟ ایسا کون سا ورد پڑھوں کہ اللہ کو منا لوں اور اللہ اسے میرے نصیب میں لکھ دے؟" اس کی آواز بھیگ رہی تھی. پل میں تولہ پل میں ماشہ والا حساب تھا. انہوں نے شفقت بھرے لہجے میں کہا:
"میں تو بہت گنہگار اور ادنٰی سا بندہ ہوں اس کا بچے، میری تو خوش قسمتی ہی ہوگی کہ ربِّ کریم کا قرب ملے."
"نہیں سر.. مجھے علم ہے کہ آپ کے پاس بہت علم ہے، آپ نے اللّٰہ کو سمجھا ہے, جانا ہے، ایسے ہی مجھے بھی سمجھا دیں"
"میں کہاں کا عالم بچے.. اپنی مقدور بھر کوشش کرتا ہوں اور اللّٰہ تو جتنا میرا ہے اتنا تیرا ہے. تُو خود مانگ اس سے. وہ تو خود ہی یہ سب فیصلے کرنے والا اور سب کو نوازنے والا ہے." اور زرک جہاں سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی اسے ملے گا؟
"وہ ایک کن کہہ کر دلوں کی دنیا بدل دیتا ہے، تو بھی اس سے مانگ کہ تیرے دل کی دنیا بدل جائے."
"زرک جہاں کے دل کی دنیا تو اسی دن بدل گئی تھی جب اسے ایک نظر دیکھا تھا. اور مجھے نہیں بدلنی اب دل کی یہ دنیا، مجھے تو وہ چاہیے جس کے سبب میرا یہ حال ہوا ہے." وہ ان سے کہہ رہا تھا وہ بس اسے سنے جا رہے تھے.
" کیا رشتے جڑ کر ٹوٹ نہیں سکتے؟ شادیاں ختم نہیں ہو سکتیں؟ آپ مانگیے نا میرے لیے اللہ سے کہ وہ حورعین کو زرک جہاں کے مقدر میں لکھ دے." سعادت علی کو محسوس ہوا جیسے وہ ابھی رو دے گا. پہاڑوں سی آن بان والے مضبوط مرد کا یوں بکھرنا ان سے دیکھا نہیں گیا.
"اپنے حق میں کی گئی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے زرک جہاں!" انھوں نے اسے زمین سے اٹھا کر کرسی پہ بٹھایا.
" نہیں قبول ہوتی دعا، کتنی بار مانگ کر دیکھ لیا، اس کے ڈیڈی سے بھی کہا، لیکن وہ کہتے کہ مجھ امیر زادے کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کرکے وہ اسے کھونا نہیں چاہتے. میں امیر ہوں، وہ غریب ہے، میرا کیا قصور ہے؟ ممی کو وہ ہمارے حسب نسب کے مطابق نہیں لگتی، تو اس میں اُس کا کیا قصور ہے؟" وہ ہلکان ہوا: "محبت امیری غریبی کو دیکھ کر کرنی ہوتی تو اب تک میں کتنی محبتیں کر چکا ہوتا..."
"زرک جہاں! رشتے ناطے ہم پلہ لوگوں ہی میں جچتے ہیں بیٹا.! انھوں نے سمجھانا چاہا.
"آپ بھی..." اس نے بےیقینی سے انھیں دیکھا. اور یاسیت سے گویا ہوا:
"میں ہی نہ رہا تو کیا کرنا اس حیثیت، اس حسب نسب کا سر.!؟"
**،،،***،،،***،،،***،،،**
"مبارک ہو بہت آپ کو بہن." سعد عمر کی ماں، ہادیہ کی ممانی نے مٹھائی سے زلیخا بی کا منہ میٹھا کروایا تھا.
"ہم بس اگلے مہینے کی 27 تاریخ کو اپنی امانت لینے آئیں گے. انشاءاللہ." یوسف محمد کی آنکھ بھیگ گئی کہ ان کہ شہزادی اب صرف چالیس یا پینتالیس دنوں کی مہمان تھی اس گھر میں." حورعین نے دل کو پسلیوں کے پنجرے میں بیتابی سے پھڑپھڑاتے محسوس کیا تھا. اس کی سانس بند ہونے لگی تھی. ایکدم وہ بیٹھے بیٹھے ہادیہ کے بازوؤں میں جھول گئی تھی.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
"میں اس سے مانگتا ہوں وہ دیتا کیوں نہیں ہے؟"
"ایسے تھوڑی نا دے دے گا پتر! محبوب کا وصل آسانی سے نصیب نہیں ہوتا، عشق کی، صبر و اذیت کی بھٹی میں تپ کر کندن بننا پڑتا ہے تب کہیں جا کر دعائیں قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہیں."رات کے پچھلے پہر کھڑکی میں کھڑا آسمان پر اکّا دکّا چمکتے ستاروں پر نگاہ جمائے زرک جہاں, سعادت علی سے ہونے والی گفتگو ذہن میں دہرا رہا تھا.
"دعائیں کیسے قبول ہوتی ہیں؟ میری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟" آخری راتوں کا مدھم پڑتا جان بادلوں سے چھپ کر آسمان پر چمکا تھا.
"جیسے اس چاند نے بادلوں کو شکست دی ہے اور آسمان پر چمکا ہے کیا ایسے ہی میں بھی اپنی ناکامی کو شکست دے پاؤں گا؟" وہ خود سے پوچھ رہا تھا لیکن جواب ندارد.. تھک ہار کر وہاں سے ہٹا اور بیڈ پر بیٹھ گیا. خیال کی رو بھٹک گئی تھی. دل نے پھر سے اسی کوچے کی طرف دھیان جمایا تھا جس نے اسے دو عالم سے بےپرواہ کر دیا تھا. وہ اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا تھا. تیز تیز... دل و دماغ میں جنگ چھڑی تھی. وہ عام سا انسان تھا نفس و شیطان کے طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے قطعاً ناواقف. ابھی دل ادھر ہوتا تو ابھی اُدھر. دل بےچین ہو کر شکوے پر اتر آیا تھا.
"کیوں اللّٰہ کیوں..؟ مجھے تُو وہی کیوں نہیں دیتا جو میں تجھ سے مانگتا ہوں. آج تک ہر چیز مانگے بنا دیتا آیا ہے تب تو تیرے خزانے کم نہیں پڑے, اور آج جب میں اپنی خواہش سے کچھ مانگ رہا ہوں تو دیتا کیوں نہیں ہے.؟ مانگنے کا سارا اختیار دے کر بھی تُو ہمیں اتنا بےاختیار کیوں رکھتا ہے؟" گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ کر وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رویا تھا:
"مجھے اور کچھ نہیں لینا.. صرف حورعین دیدے اللّٰہ، صرف حورعین بس... میرا دل جل کر خاک ہو جائے گا اس کے بغیر... مجھے بس حورعین..." اس کے الفاظ ختم ہو گئے تھے آنسو متواتر بہتے چلے جا رہے تھے. یونہی روتے روتے اس پر غنودگی طاری ہوئی تھی. اور پردۂِ چشم نے خواب کی گلیوں کا سفر باندھا تھا. اس نے خود کو خواب میں اسی جگہ دیکھا جہاں سے وہ پلٹ آیا تھا. بنا کچھ کہے, بنا کچھ مانگے.. محبوبِ مجازی کا خیال محبوبِ حقیقی کے در سے کھینچ لایا تھا اور آج, خواب میں وہی محبوبِ مجازی عشقِ حقیقی کی جانب لے جا رہا تھا. اس نے خود کو خانۂِ خدا کے بالکل سامنے کھڑا پایا تھا. اس سے قبل کہ اس کے ہاتھ مقدّس غلاف کو چُھو سکتے, اس کی آنکھ کھُل گئی تھی. سارا جسم پسینے میں بھیگا تھا. تنفس بڑھا ہوا اور رنگت زرد...
"میں اتنا برا ہوں مولا کہ تجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ میں تیرے گھر کو چُھو بھی سکوں.." اس جان لیوا خیال نے اُس کی روح تک کو لرزا کے رکھ دیا تھا.
"ہاں برا تو ہوں نا.. تیرے در پہ جا کر تجھ سے ملے بنا واپس جو آیا تھا تُو نے مجھے اپنا مہمان کیا اور میں بےرُخی سے چہرہ موڑ کر پلٹ آیا تھا, تجھے بہت برا لگا ہو گا نا اللّٰہ.!؟" وہ دل میں محبوبِ حقیقی سے مخاطب ہوا تھا.
"مجھے یہ بالکل اچھا نہیں لگتا کہ کوئی میرے سامنے بیٹھ کر کسی اور طرف دھیان رکھے, اور میں تو جب جب تیرے پاس آیا ہمیشہ کسی اور کا دھیان لے کر آیا. تجھے تب بھی بہت برا لگتا ہو گا نا مولا..." دل کا عجب حال ہو رہا تھا ایک چھوٹے سے خواب نے یک بیک دل کی دنیا زیر و زبر کر دی تھی. وہ اٹھ بیٹھا اور موبائل اٹھا کر بےتابانہ سعادت علی کا نمبر ملایا. مسلسل بیل جانے کے بعد کال بند ہو گئی اس نے دوسری اور پھر تیسری بار نمبر ملایا بنا رکے, بنا تھکے... آخر پانچویں بیل پر کال ریسیو کر لی گئی تھی.
"زرک جہاں.! بچے خیریت تو ہے نا.؟ میں نیند کی گولی لے کر سوتا ہوں نا تو آنکھ جلدی نہیں کھل سکی میں..."
"آپ نے کہا تھا کہ میں اگر سچے دل سے اللّٰہ کو پکاروں تو وہ مجھے سنے گا, میں کب سے بلا رہا ہوں وہ جواب کیوں نہیں دے رہا؟" بچوں سی ضد اور شکوہ لیے تھا اس کا انداز. وہ سمجھ گئے کہ اسے پھر دل و دماغ میں جاری کشمکش نے بےچین کیا ہے. انہوں نے فقط اتنا ہی کہا:
"بےشک, انسان بہت جلد باز ہے" وہ چپ ہوا تھا. بالکل چپ...
"صبح نیشنل پارک میں ملتے ہیں, فجر وہیں پڑھیں گے, انشاءاللہ" اس نے فون رکھ دیا اور سر تھام کر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا. اور شدت سے صبح کا انتظار کرنے لگا.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
"لڑکیوں کو کیسا شوق ہوتا ہے اپنی شادی پر کپڑوں اور جوتوں کا, ایک ہماری دھی رانی ہے ساری دنیا سے نرالی." زلیخا بی اس کے جہیز کے بستر تہہ لگاتی قریب بیٹھیں ہادیہ کی امی ساجدہ بیگم سے مخاطب تھیں. "صاف کہہ دیا کہ امّاں جو آپ کو اچھا لگے لے آئیں. اب میں ٹھہری پرانے وقتوں کی بوڑھی عورت, مجھے آج کل کے رواج کا کیا پتا, وہ تو اللّٰہ بھلے کرے ہادیہ کا, بڑا ساتھ دیا" اب وہ اس کی اوڑھنے والی گرم چادر ہاتھ میں لیے بیٹھی تھیں.
"ہادیہ نے تو ہاتھ بٹانا ہی تھا زلیخا, بچپن کا بہناپا ہے دونوں کا, بس دعا کرو اللّٰہ آگے بھی ایسا سلوک اور محبت برقرار رکھے." ساجدہ بیگم نے چادر ان کے ہاتھ سے لے کر خود تہہ لگا کر رکھی اور وہ جو لاڈلی بیٹی کی رخصتی کے خیال سے یکدم پھر افسردہ ہو گئی تھیں, ان کے کندھے پر محبت سے ہاتھ رکھ کر کہا:
"بیٹیاں ہوتی ہی پرایا دھن ہیں زلیخا. انہیں ایک نہ ایک دن تو وداع کرنا ہی ہوتا ہے. بس ان کے اچھے نصیبوں کی دعا کرنی چاہیے" وہ آنکھوں کی نمی پونچھ کر مسکرائیں اور دوبارہ کپڑوں کی طرف متوجہ ہوئیں. اکلوتے کمرے میں گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھی حور عین کو ماں باپ سے وچھوڑے کا دکھ کم اس امانت میں خیانت کا دکھ زیادہ رلا رہا تھا جو اس اجنبی کے عشق کے طفیل اسے نصیب ہوئی تھی.
"کیوں خود کی دشمن ہوئی ہو حورعین؟" ہادیہ اچانک ہی آئی تھی اور اسے یوں ملول و غمگین دیکھ کر تاسّف سے بولی:
"میں کیا کروں ہادیہ.؟ امّاں اور ابّا کی خوشی کے لیے راضی برضا ہو کر بھی شکر کرنے والی نہیں بن پا رہی. مجھے لگتا ہے کہ اس اجنبی کی چند روزہ محبت میرے امّاں ابّا کی تئیس برس کی محبت پر حاوی ہو کر مجھے نافرمان اور خدا کے عتّاب کا شکار نہ بنا دے." ہادیہ نے اس کا چہرہ دیکھا چند دن پہلے جس چہرے کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے دودھ میں سرخ گلاب کی پتیاں گھول دی ہوں آج اسی صبیح چہرے پر سرسوں کے پھول سی زردی کھنڈی تھی اور غزال سی روشن آنکھیں حزن و ملال میں ڈوبی تھیں.
"ہادیہ.. مجھے بتاؤ کہ کیا کروں میں؟" وہ اس کے ہاتھ تھام کر رو دی تھی.
"مجھے نفس اکساتا ہے کہ ساری زندگی اللّٰہ نے جو دیا اس پر راضی رہی ہو اور اب تئیس سال میں پہلی بار کچھ مانگا تم نے اور اللّٰہ نے وہی نہیں دیا. ہادیہ میں ہر روز خود سے لڑتی ہوں کہ اللّٰہ نے وہی دیا جو میرے حق میں بہتر تھا اور روز ہی ہار جاتی ہوں جب یہ خیال آتا ہے کہ اللّٰہ نے وہی بہتر کر کے کیوں نہ مجھے دے دیا جو میں مانگ رہی ہوں. میں روز خود کو سمیٹتی ہوں اور ہر دن پھر بکھر جاتی ہوں. میں تھک جاتی ہوں ہادیہ. اور اب ہمت جواب دینے لگی ہے." اور تب وہاں بیٹھے بیٹھے ہادیہ نے ایک انتہائی فیصلہ کیا تھا, دو دن بعد اس نے امی کے ساتھ ماموں کے گھر جانا تھا جہاں ممانی کو شادی کی شاپنگ میں مدد کروانی تھی. اس نے اپنے دل میں سارا لائحہ عمل تیار کیا تھا.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
"اتنے لاکھوں کروڑوں لوگوں میں, میں بھلا کہاں یاد رہوں گا اللّٰہ کو." بنچ پر بیٹھا وہ مایوسی سے بولا. سعادت علی اس کی بات پر یوں مسکرائے جیسے ماں چھوٹے بچے کی نادانیوں پر مسکراتی ہے.
"جس وقت اللّٰہ نے تجھےتخلیق کیا ہوگا. اس وقت کئی اور ہزاروں لاکھوں کو بھی تخلیق کیا ہوگا, کیا ہو گا نا.!" انہوں نے اس سے تصدیق چاہی اس نے نا سمجھتے ہوئے بھی سر ہلایا:
"تو اس وقت لاکھوں ہزاروں کی تخلیق کے دوران جب اس نے تمہارے ناک نقشے میں کوئی شے, کوئی عضو نامکمل نہیں چھوڑا, تمہیں ہر لحاظ سے ایک مکمل اور حسین صورت دی, تو ایسے ہی وہ ربّ ابھی بھی تمہیں نہیں بھولا, وہ بھولنے اور چُوکنے جیسی خطاؤں سے مبرّا اور پاک ہے." وہ سمجھ گیا تھا لیکن تشفی نہیں ہوئی تھی جس کا اندازہ انہوں نے اس کے چہرے سے لگایا تھا.
"ایک ماں جس کے سات یا آٹھ بچے ہوں تو اسے بھی سب کی پسند نا پسند یاد رہتی ہے. اسے پتا ہوتا ہے کہ کس بچے کو ابلا انڈہ پسند ہے اور کسے آملیٹ.."
"مجھے کیا پتا سر..؟ میری تو ممّی کو ابھی, جبکہ میں ایک ہی ہوں میری پسند کا علم نہیں. زیادہ ہوتے تو جانے کیا ہوتا؟" وہ ہنسا تھا, تکلیف دہ سی ہنسی... وہ چپ سے ہوئے, بولنے کو کچھ رہا جو نہیں تھا. کبھی کبھی خاموشی الفاظ سے زیادہ دکھ دیتی ہے.
"اللّٰہ اگر مجھے نہیں بھولا تو وہ دیتا کیوں نہیں جو میں مانگتا ہوں؟ میں کب سے مانگ رہا ہوں اور وہ ہر بار خالی کیوں لوٹا دیتا ہے..؟"
"شاید مانگی جانے والی چیز تمہارے حق میں اچھی نہ ہو, تم کچھ اور مانگو." اس نے عجیب سی نگاہوں سے انہیں دیکھا جیسے ان کی ذہنی حالت پر شک ہو. اور بولا:
"مجھ پر نہ کشف اترتے ہیں نہ مجھے الہام ہی ہوتے ہیں. مجھے کیسے پتا چلے گا کہ جو مانگ رہا ہوں وہ اچھا ہے یا برا؟ مجھے صرف کہا گیا ہے کہ جو بھی مانگنا ہے اللّٰہ سے مانگو. اور پھر..." وہ سانس لینے کو رکا تھا "کیا اچھا ہے یا برا میں نہیں جانتا, میں تو بس وہی مانگوں گا جو مجھے چاہیے، مجھے حورعین چاہیے تو بس وہی چاہیے."
"تُو پھر ضد پر اتر آیا ہے. مت کر.."
"وہ اللّٰہ, جتنا آپ کا ہے اُتنا میرا بھی ہے نا؟" اس نے ان کی بات کاٹی تھی.
"ہاں ہے, تو....؟" وہ سمجھ نہیں پائے کہ وہ کیا کہنا چاہتا تھا.
"تو میں ضد کروں گا, ایسے ہی ضد کروں گا جیسے بچہ ماں سے کرتا ہے. اور اس وقت تک کرتا رہوں گا جب تک ضد پوری نہ ہو جائے." سعادت علی نے بےبسی سے اسے دیکھا تھا اور اسے, اس کے حال پر چھوڑتے ہوئے چپ سادھ لی تھی.
**،،،***،،،***،،،***،،،**"اچھا.. واقعی.!؟" شیریں جہاں نے جب سنا کہ اسفند جہاں نے زرک جہاں کے لیے لڑکی دیکھ ہی نہیں لی بلکہ پسند بھی کر لی ہے تو انہیں حیرت کا جھٹکا لگا تھا, یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ان معاملات سے یکسر لاتعلق رہنے والے ایکدم ہی اتنی دلچسپی کیونکر لینے لگے..
"کون ہے وہ خوش نصیب, جو آپ کو اپنی بہو کے طور پر پسند آ گئی ہے؟" چہرے سے میک اپ صاف کرتے انہوں نے خوشگواریت سے پوچھا.
"حورعین.." ان کی ساری خوشگواریت و بشاشت ایک پل میں ہوا ہوئی تھی. اس نام اور اس نام سے وابستہ چہرے کو کیسے بھول سکتی تھیں وہ, کیا وہ چہرہ ایسا تھا کہ بھلایا جاتا...؟ دل نے "نہیں" کہا تھا. لیکن اس کے باوجود وہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگانے کو ہرگز تیار نہ تھیں. اسفند جہاں شیشے کے اس پار دکھتے ان کے چہرے کے سبھی رنگوں کا بخوبی مطالعہ کر رہے تھے.
"ہمیں زرک جہاں کی خوشی مقدم رکھنی چاہیے." اسفند جہاں نے ان کی ناراضی بھانپ لی تھی. انہوں نے طویل سانس خارج کرکے خود کو ریلیکس کیا ہاتھ میں پکڑی کاٹن ٹیبل پر پٹخی اور بولیں.
"آپ دونوں باپ بیٹا پاگل ہو چکے ہیں. اپنی اور اس لڑکی کی کلاس کا فرق دیکھا ہے آپ نے؟ لوگ کیا کہیں گے کہ اسفند و شیریں جہاں کے بیٹے زرک جہاں کی بہو کا تعلق کس کلاس سے ہے.. میرے آکسفورڈ کے پڑھے لکھے بیٹے کے لیے ایک وہی.."
"وہ ہمارے اسی آکسفورڈ کے پڑھے لکھے بیٹے کی پسند ہے شیریں." انہوں نے بات کاٹی تھی.
"اسفند.! وہ بچہ ہے ، آپ اس کے ساتھ بچے مت بنیں. بجائے اسے سمجھانے کے آپ اسی کے ہمنوا بن رہے ہیں."
"وہ بچہ نہیں ہے شیریں. وہ اس لڑکی کو لے کر کتنا سنجیدہ ہو گیا ہے تمہیں اندازہ نہیں ہے اس بات کا." شیریں جہاں نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکا اور چند لمحوں کے توقف کے بعد بولیں تو لہجہ کافی نرم تھا پہلی سی خفگی اور تندی کا شائبہ تک نہ تھا:
"فی الحال میرا دماغ کام نہیں کر رہا اسفند.! مجھے رات بھر سوچنے کا وقت دیں." اسفند جہاں نے اثبات میں سر ہلایا تھا اور خود بھی سونے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
"زرک جہاں نہیں آیا؟" اسفند جہاں نے ناشتے کی میز پر اس کی غیرموجودگی کے بارے میں ملازم سے استفسار کیا.
"سر وہ صبح چھ بجے گھر آئے تھے اور مجھے کہہ گئے تھے کہ انہیں ڈسٹرب نہ کیا جائے." میز پر ناشتے کے لوازمات رکھتے ملازم نے مؤدبانہ لہجے میں بتایا.
"وہ رات بھر گھر نہیں آیا تھا اور میں نے دھیان ہی نہیں دیا." انہیں خود پر غصّہ آنے لگا تھا کہ اس کی ذہنی و دلی حالت سے واقف ہونے کے باوجود وہ اس سے کیسی غفلت برت گئے.
"اب بھی تمھیں لگتا ہے کہ اس لڑکی کے لیے زرک جہاں کا یہ حال ایک وقتی ابال ہے؟" اسفند جہاں نے خفگی سے بیوی کو دیکھا تھا.
"آپ کچھ بھی کہیے اسفند! لیکن میں زرک جہاں اور آپ کو یہ بےوقوفی ہرگز نہیں کرنے دوں گی. اور نہ ہی اس پاگل پن میں آپ کی ساتھی بنوں گی." سلائس پہ جیم لگاتے وہ ترشی سے کہنے لگیں:
"بھئی میرا ایک نام ہے سوسائٹی میں، ایک دنیا شیریں جہاں کے حسب نسب سے واقف ہے. کل کیا جواب دوں گی اپنی ہم پلہ خواتین کو، سوسائٹی کو.. کہ بہو کس خاندان کی ہے؟ کس کلاس کی ہے؟ یہ بتاؤں گی کہ اس کا باپ ایک معمولی سا مزدور ہے، اس کا گھر ہمارے سرونٹس کوارٹرز سے بھی گیا گزرا ہے."ان کی آواز غصے سے کانپنے لگی تھی.
"اور یہ کہ میرے لائق فائق بیٹے کا اپنا انتخاب ہے، جناب اس کے حسن پہ مر مٹے تھے... ہونہہ." انھوں نے نخوت سے سر جھٹکا.
"آنکھوں سے عشق کی پٹی اتار کر دیکھے تو اس لڑکی سے بڑھ کر، ایک سے ایک حسین صورت اس کے سامنے لاک کھڑی کروں." انھوں نے گلاس میں جوس انڈیلا اور خود کو نارمل کرنے لگیں. اسفند جہاں دم سادھے، انھیں دیکھ رہے تھے، ناشتہ کرنا تو دور، الفاظ تک منھ سے نہیں نکل پا رہے تھے. کافی دیر میں بولے تو فقط اتنا..
"وہ ہمارا ایک ہی بیٹا ہے شیریں.!"
" تو کیا ہوا..؟؟" وہ اس کے اکلوتے پن کو بھی خاطر میں نہ لائی تھیں.
"اکلوتا ہے تو کیا اس کی محبت میں گلی کا کچرا اٹھا کر گھر میں لے آؤں؟" انھوں نے گلاس میز پہ پٹخا، کچھ جوس میز پہ چھلک گیا تھا. "بیٹے کی محبت میں میں اپنی برسوں سے کمائی عزت اور پہچان داؤ پہ نہیں لگا سکتی. آنے والی نسلیں یہ نہیں سنیں گی کہ ہمارے بیٹے زرک جہاں نے دھواں دھار عشق کے بعد شادی کی تھی، وہ صرف یہ سنیں گی کہ اس نے ایک کمی اور معمولی خاندان کی لڑکی سے شادی کی تھی." اسفند جہاں نے ان کی بات سن کر کہا:
"میں شادی کرواؤں گا زرک جہاں کی اس لڑکی سے."
"اچھاااااا؟؟ واقعی.!!" رومال سے ہاتھ پونچھتے انھوں نے طنزاً پوچھا اور سرد لہجے میں گویا ہوئیں:
"اگر آپ نے ایسا کچھ کیا اور میرے خلاف جا کر زرک جہاں کی شادی کا سوچا، تو یاد رکھیے گا کہ میں اس لڑکی کا اس گھر میں تو کیا اس دنیا میں جینا دشوار کر دوں گی." بات مکمل کرکے وہ انھیں حیران پریشان چھوڑ کر ہال سے نکلتی چلی گئیں. اسفند جہاں تاسف سے سر پکڑے بیٹھے تھے.
شیریں جہاں آفس کے لیے نکلیں, تو انہوں نے اپنے پی-اے کو فون کرکے آج کی ساری میٹنگز منسوخ کروائیں اور زرک جہاں کے کمرے میں چلے آئے. ان کا خیال تھا کہ وہ سو رہا ہوگا لیکن وہ تو کھڑکی کے پاس، ہاتھ میں ادھ جلی سگریٹ لیے دنیا و مافیہا سے بےخبر کھڑا تھا. آہٹ پر چونک کر پلٹا انہیں دیکھ کر حیران ہوا پھر سمجھ کر پھیکی سی ہنسی ہنسا اور بولا:
"یہی دیکھنے آئیں ہوں گے نا کہ میں ہوش میں ہوں یا نہیں.؟" اور سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دیا.
"لیں دیکھ لیں ہوش میں ہی ہوں بظاہر." ان کے دل کو کچھ ہوا, شہزادوں سا اکلوتا بیٹا کیسے کملا سا گیا تھا.
"کتنے دن ہو گئے زرک جہاں کہ میں نے تمہارے چہرے اور تمہاری آنکھوں کی وہ مخصوص مسکراہٹ نہیں دیکھی بیٹا.. ترس گیا ہوں میں کہ تم اسی طرح مسکرا کر میرے سینے سے آ لگو." وہ چاہ کر بھی مسکرا نہیں پایا تھا. دلگرفتگی سے بولا:
"کیا کروں ڈیڈی.. زندگی جیسے بند گلی میں آ کر رک گئی ہے. کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا."
"تمہیں یاد ہے زرک جہاں کہ جب تمہاری فرمائش پر میں نے تمہاری پسند کی گاڑی امپورٹ کروائی تھی.؟" وہ اسے ساتھ لیے صوفہ کم بیڈ پر بیٹھے.
"جی ڈیڈی.! یاد ہے"
"تو اس وقت وہ گاڑی پا کر جیسی مسکراہٹ تمہارے ہونٹوں پر اور جیسی چمک تمہاری آنکھوں میں آئی تھی... مجھے ویسی چمک اور مسکراہٹ دیکھنی ہے بیٹا."
"میرے بس میں کب ہے یہ سب ڈیڈی.. میں چاہ کر بھی خوش نہیں رہ پاتا اب.." اس نے ہاتھ مسلے گویا ہتھیلی کی لکیریں مٹانے کے درپے ہو. انھوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ایسا کرنے سے روکا تھا.
"اور اگر اب بھی میں تمھیں ، تمھارے دل کی مراد پوری ہونے کا مژدہ سناؤں تو؟؟؟" اسے لگا کہ وہ اس کے لیے پھر سے نئی گاڑی امپورٹ کروا رہے تھے.
"مجھے اب ان چیزوں سے کوئی خوشی نہیں مل پائے گی شاید.." مایوسی اس کی رگ رگ میں سرایت کر چکی تھی.
"مایوسی گناہ ہے."
"نہیں ڈیڈی.! مجھ جیسا بندہ گناہ ثواب کی باتیں کرتا اچھا نہیں لگتا. میں نہیں جانتا کہ اللہ سے کیا مانگنا درست ہے اور کیا غلط؟ اور جب وہ ہر شے پہ قادر ہے تو میری منھ مانگی چیز دینے پہ بھی تو قادر ہے. تو دیتا کیوں نہیں ہے؟" وہ بچوں کی طرح مچل کر ان سے پوچھنے لگا تھا.
"میں اللہ سے مانگوں گا ایک بار نہیں بار بار مانگوں گا، اس وقت تک کہ یا تو میری دعا قبول ہو گی یا زندگی کی سانس آخری ہو گی."
ؔ؎ مانگیں گے مانگے جائیں گے مُنھ مانگی پائیں گے
سرکار میں نہ ’’لا‘‘ ہے نہ حاجت ’’اگر‘‘ کی ہے.
اس کی اس دیوانگی کا ان کے پاس کوئی نہ حل تھا اور جواب... وہ تو سرے سے تھا ہی نہیں. اب بھلا وہ کیا جواب دیتے؟ اللہ کے کام، اس کے فیصلے.. وہ خود منجدھار میں آن پھنسے تھے، ایک طرف شیریں جہاں کا دو ٹوک انداز میں سنایا گیا فیصلہ تھا اور دوسری طرف اکلوتی اولاد کی زندگی... وہ اسے ایک لفظ تسلی کا بھی نہیں بول پا رہے تھے. عجیب سی تکلیف دہ خاموشی ماحول پہ چھا گئی تھی.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
"تمہیں یاد ہے ہادیہ. میں سیکنڈ ائیر کے پیپر دے کر فارغ ہوا تھا، جھ تمھارے گھر آیا تھا" ہادیہ دوپہر میں امی کے ساتھ وہاں پہنچی تھی اور اس سے پہلے کہ وہ حورعین کے بارے میں سعد عمر سے بات کرتی وہ خود ہی اس کے پاس بیٹھا ماضی کو کھنگالنے لگا:
"ہاں یاد ہے. اور اس کے بعد اتنے سالوں میں پلٹ کر اپنی لاڈلی پھپھو کے گھر کا چکر نہیں لگایا تھا تم نے." ہادیہ ہمیشہ کی طرح شکوہ کیا تھا. وہ فی الحال کچھ بھی کہنے کا ارادہ ترک کر کے صرف اس کی سن رہی تھی.
"میں بنا بتائے گیا تھا اور اندر قدم رکھتے ہی پہلی نظر اس پر پڑی تھی." وہ سمجھ گئی کہ سعد عمر، حورعین کا ذکر کر رہا ہے.
"اور تب سے اب تک اس کی وہی ایک جھلک دل و دماغ پر چھائی ہے. میں سوچتا تھا کیا کہوں اسے؟ کس چیز سے تشبیہ دوں؟ میر و سودا کی غزل, فیض کی نظم یا عمر خیام کی رباعی؟ میں کوئی ایک تشبیہ بھی ایسی نہیں ڈھونڈ پاتا تھا جو اس کے حسن کی مکمل تفسیر بنتی." ہادیہ اس کی باتوں کے معنی اخذ کرنے میں لگی تھی.
"میں جب تک وہاں رہا اس کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستا رہا اور اسی حسرت کو دل میں دبائے گھر چلا آیا اور یہاں آ کر احساس ہوا کہ سعد عمر تم تو گئے کام سے. تین سال ہادیہ, تین سال اس کی ایک جھلک مجھے پریشان کرتی رہی اور میں اس سے دامن چھڑاتا رہا. اور پھر جب دل و دماغ اس بات پر متفق ہوئے کہ مجھے اس لڑکی سے محبت ہو گئی ہے تو.. میں ایسا پرسکون ہوا گویا کبھی بےچین تھا ہی نہیں."
"تو تم حورعین سے محبت.." ہادیہ نے بےیقینی سے پوچھا تھا. اس نے سر ہلایا اور مسکرا کر بولا:
"وہ ایسی ہی ہے کہ اس سے محبت کی جائے، ایسا ہی ہے نا ہادیہ!؟" اس نے اپنی بات کی تصدیق چاہی تھی. ہادیہ کے ذہن میں اس ان دیکھے اجنبی کا خیال آیا. وہ غائب دماغی کی سی کیفیت میں سر ہلانے لگی کہ واقعی ایسا تھا.
"کئی بار یہ خیال آیا تھا کہ اسے دیکھنے جاؤں یا تمہیں رازدار کروں, لیکن دل نے کہا نہیں.. عشق کی آگ میں جتنا جلو گے اتنا ہی یہ آگ مزہ دے گی. یہ سوچ کر میں نے پھپھو کے بارہا کہنے پر وہاں جانا ترک کر دیا. ہاں بس دعا دن رات مانگتا, چپکے سے..." وہ ہاتھ باندھے دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا تھا ہادیہ نے دیکھا, بڑی الوہی سی چمک تھی اس کے چہرے پر. اس کے دل کو کچھ ہوا. ایک طرف بہنوں ایسی دوست تھی تو دوسری طرف بھائی جیسا کزن.
"اور جس دن امی نے کہا کہ وہ تمہاری دوست حورعین کو میری دلہن بنانے کا سوچ رہی ہیں تو اس دن مجھے اپنے جذبوں کی صداقت اور دعاؤں کی قبولیت پر یقین مزید پختہ ہو گیا. اور اب دل کہتا ہے کب وہ دن آئے گا جب وہ سامنے ہوگی اور ساری بیقراریوں اور شب بیداریوں کا حال اسے کہہ سناؤں گا."
ؔ؎ نصیب آزمانے کے دن آ رہے ہیں.
قریب ان کے آنے کے دن آ رہے ہیں.
جو دل سے کہا ہے، جو دل سے سنا ہے.
سب اُن کو سنانے کے دن آ رہے ہیں.
ابھی سے دل و جاں سرِ راہ رکھ دو.
کہ لٹنے لٹانے کے دن آ رہے ہیں.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
زرک جہاں ہاسپٹل میں تھا. اس کا نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا. آج صبح اسفند جہاں سے بات کرتے وہ جیسے زندگی سے ہی اکتا گیا تھا تبھی ایک دم سے بےہوش ہوا تھا. ان کی سانس اس میں اٹکی تھی. پچھلے دو گھنٹوں سے وہ جلے پیر کی بلی کی مانند ہاسپٹل میں ڈاکٹرز کے ساتھ اس کی حالت کے بارے میں ان کی رائے جانچتے پھر رہے تھے. کچھ نہیں تھا سوائے ذہنی اذیت کے. رہ رہ کر انہیں یہ خیال ستاتا کہ کاش وہ اس اذیت سے اسے نکال پاتے.
زرک جہاں نے آخری بات یہی تو بتائی تھی کہ اس لڑکی کی شادی طے ہو چکی ہے. اس کے بعد وہ ہوش سے بیگانہ ہی تو ہوا تھا.
کاش انہیں پہلے پتا چلتا تو وہ اس لڑکی کے باپ کے پاؤں پڑ کر, کیسے بھی منتیں کرکے اسے منا لیتے. کاش.... کاش.. کاش... اتنے زیادہ کاش ان کے دماغ میں چکرا رہے تھے. اسید نے انہیں یوں آشفتہ حال دیکھا تو رنجیدگی سے اس کا دل بھر آیا. وہ بمشکل انھیں ہاسپٹل کی کینٹین تک لایا تھا کہ زیادہ نہ سہی صرف چائے ہی پی آئیں. وہ بادلِ نخواستہ چلے آئے تھے. چائے بھی منگوا لی لیکن ایک بار نگاہ اٹھا کر بھی کپ کو نہیں دیکھا تھا. حتیٰ کہ چائے سامنے رکھے ہی ٹھنڈی ہو گئی تھی.
"مجھے آج اندازہ ہوا ہے کہ زرک جہاں اس لڑکی کو لے کر اس حد تک سنجیدہ ہو چکا ہے." اسفند جہاں نے بات شروع کی تھی
"میں ایک بار اس لڑکی سے ملنا یا صرف اسے دیکھنا چاہتا ہوں اسید." انھوں نے اچانک ہی عجیب سا مطالبہ کیا تھا،
کیوں انکل.؟" اسید متحیّر تھا. بھلا اب کیا ہو سکتا تھا.؟
"بس ایسے ہی بیٹا.. دیکھنا چاہتا ہوں ایک بار اس لڑکی کو، جس کی ایک جھلک نے زرک جہاں کو اس حال تک پہنچا دیا." دکھ سے ان کی آواز لرز رہی تھی. اسید سے کچھ بولا نہیں گیا تھا. ادب و لحاظ مانع آیا تھا ورنہ ان سے کہتا:" اس سب میں اس لڑکی کا کیا قصور؟ جو ہو رہا تھا وہ زرک جہاں کی دعا ہی تو تھی، اس نے خود مانگ کر عشق لیا تھا. اب یہ عشق کا جذبہ ودیعت کرنے والے رب کی مرضی کہ وہ محبوب کا وصل دے یا ہجر و فراق مقدر کرے." وہ یہ سب صرف سوچ کر ہی رہ گیا تھا. اب ان سے کیسے کہتا کہ جب منزلیں بےنشان ہو جائیں تو راستوں کو ماپنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا. لیکن اکلوتی اولاد کے دکھ سہتے باپ سے وہ یہ سب کہہ بھی نہیں سکتا تھا. کہا تو فقط اتنا ہی..
"انکل.. گم شدہ راہوں کی تلاش میں اکثر موجودہ منزلیں گم ہو جاتی ہیں." وہ ہاتھ میں پکڑی پنسل کو گھمانا چھوڑ کر سیدھےہو بیٹھے, اور یاسیت سے بولے:
تم بھی ٹھیک کہتے ہو اور شیریں کی باتیں بھی اپنی جگہ ٹھیک لگتی ہیں، ہم اسی معاشرے کا حصہ ہیں، ہمیں اپنے ساتھ کے لوگوں میں ہی رشتہ کرنا چاہیے، ورنہ لوگ کیا کہیں گے؟" انھوں نے ہاتھ میں پکڑی پینسل میز پہ پٹخی:
"لوگ کیا کہیں گے، بس اسی سوچ کی وجہ سے ہم اپنی اور اپنے بچوں کی کتنی خوشیاں کھا جاتے ہیں.."اسید چپ چاپ ان کی سن رہا تھا. انھیں آج ایک سامع کی ضرورت تھی. اور وہ ایک اچھا سامع تھا.
"تمہاری ہر بات سے متفق ہوں بیٹا.! لیکن کیا کروں کہ اپنے اکلوتے بیٹے کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی. ایک پل سکون نہیں ملتا مجھے, جب اسے اس طرح حالتِ اضطراب میں دیکھتا ہوں. تو دل خون کے آنسو روتا ہے. کہ کیسے بچپن سے آج تک اس کی ہر خواہش بنا مانگے پوری کرتا آیا اور اب اس مقام پر آ کر اتنی بےبسی.. بیٹا میں اس کے لیے کچھ نہیں کر پا رہا یہ سوچ سوچ کر میرا دماغ پھٹنے لگتا ہے." ان کی آواز رندھ گئی."انکل پلیز.! سنبھالیے خود کو." اسید نے پانی کا گلاس انہیں دیا. وہ ایک ہی گھونٹ میں سارا پانی پی گئے تھے.
"انسان اپنی ساری تدبیر اور کوششوں کے باوجود قضا و تقدیر کے سامنے بےبس ہو جاتا ہے. تدبیر کے ناخن سے تقدیر کی گرہیں نہیں کھلتیں اور انکل یہ بات تو طے ہے کہ جو چیز مقدّر میں ہو وہ کسی نہ کسی طرح آپ کومل ہی جاتی ہے. بس مناسب وقت کے لیے صبر کا دامن تھامے رکھنا پڑتا ہے." وہ کافی حد تک خود کو سنبھال چکے تھے. اس کی بات پر سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا تھا.
"صبر ہی تو مشکل ہے." انھوں نے ٹھنڈی چائے پیالی ہی اٹھا لی. دونوں میں مزید کوئی بات نہیں ہوئی بس خاموشی سے کسی سوچ میں غرق ٹھنڈی چائے ہی پیتے رہے. لیکن یہ ضرور تھا کہ دونوں کی سوچ کا محور زرک جہاں ہی تھا. ان دونوں کو اس کے ہوش میں آنے کی اطلاع ملی تھی، لیکن ابھی اسے انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا تھا، فی الحال اس سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں تھی. اسفند جہاں نے ہسپتال سے قدم باہر نہیں نکالا تھا، جبکہ شیریں جہاں نے ایک مختصر سی فون کال کرنا ہی کافی سمجھا تھا. انھیں فکر نہیں تھی، وہ خود تو تھے ہی اس کے پاس. اب وہ ڈاکٹر کی اجازت کے منتظر تھے کہ اس سے ملیں اور دل کو تسلی دیں.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
پانچ سے چھ گھنٹوں کے طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد ڈاکٹر نے زرک جہاں کو کمرے میں منتقل کیا اور ملنے کی اجازت دی تھی. اسفند جہاں بے تابانہ اس کے پاس آئے تھے. اس نے یکبارگی انہیں دیکھا اور رخ پھیر کر آنکھیں موند لیں. اسفند جہاں کا دل کسی نے مٹھی میں لیا تھا. اس کے قریب آئے, اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے پوچھا تھا.
"کیسا محسوس کر رہے ہو زرک جہاں.؟" اس نے ان کا ہاتھ ہٹایا اور بولا:
"میں ٹھیک ہوں, پر ڈیڈی پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دیں."
؎ پل میں جہاں کو دیکھتے میرے ڈبو چکا.
اک وقت میں یہ دیدہ بھی طوفان رو چکا.
افسوس میرے مردے پر اب اتنا نہ کر کہ اب.
پچھتاتا یوں ہی سا ہے جو ہونا تھا ہو چکا
اگلے تین دن اس نے بمشکل ہسپتال میں گزارے تھے، ڈاکٹر نے مکمل بیڈ ریسٹ کا کہا تھا اور کسی صورت اسے ڈسچارج نہیں کرنا چاہتے تھے، اور یہ سب اسفند جہاں کی ایما پر ہی ہو رہا تھا، وہ صرف ہسپتال میں رہ کر ہی آرام کر سکتا تھا، گھر پہ رہتا، تو آرام کرتا. تیسرے دن اسید رات کو اسے ملنے آیا تو اسے دیکھتے ہی وہ پھٹ پڑا تھا
"اسید.. مجھے یہاں سے جانا ہے." اور بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے یوں بیٹھا تھا جیسے ابھی اٹھ کر بھاگ جائے گا.
"کہاں جانا ہے؟" اسید نے اچنبھے سے پوچھا. رات کے نو بجے کا عمل تھا. آتی سردیوں کی قدرے خنک راتیں.
"ڈاکٹرز نے ابھی تمہیں ڈسچارج نہیں کیا اور نہ تمہاری حالت ہی کہیں جانے جیسی ہے." اسید اس کے قریب بیٹھ گیا.
"اسید.. میں نے کہا نا کہ مجھے جانا ہے. خدا کی قسم میں کچھ دیر اور یہاں رہا تو میں مر جاؤں گا. تم مجھے یہاں سے لے چلو بس، پھر بتاؤں گا کہ کہاں جانا ہے." ضدی بچوں کے سے ہٹیلے انداز.. اسید نے ہار مان لی. کیونکہ وہ قسم نہیں کھاتا تھا, اگر آج قسم لی تھی تو کچھ تھا ہی. وہ باہر اسفند جہاں کے پاس چلا آیا. انہیں ساری بات بتائی.
"میں ڈاکٹر سے بات کرتا ہوں. باقی وہ تمہارے گھر جائے یا اپنے گھر... کہیں بھی جائے, بس ٹھیک ہو جائے." اگلے آدھے گھنٹے میں وہ چھٹی لے چکے تھے. شیریں جہاں سرِشام ہی کسی ضروری میٹنگ میں جا چکی تھیں. زرک جہاں نے ان کی غیر موجودگی کو محسوس کیا لیکن اظہار نہیں کیا. بھلا برسوں پرانی عادات بھی بدلتی ہیں کیا؟
"کہاں جانا ہے؟" اسفند جہاں کی گاڑی نگاہوں سے اوجھل ہوئی تو اسید نے پوچھا, اگرچہ وہ جانتا تھا لیکن پھر بھی پوچھا...
"جب جانتے ہو تو پوچھتے کیوں ہو؟" زرک جہاں نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں.
"جس منزل کا راستہ ہی کھو چکا ہو اس منزل کی جستجو لاحاصل ہوتی ہے زرک جہاں." اس نے نرمی سے کہا اور گاڑی اسٹارٹ کی.
"دل کو چین نہیں پڑتا اسید. کسی پل سکون نہیں آتا کہ اللّٰہ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ کہ میں نے کتنے جتن کیے.. کیسے کیسے گڑگڑا کر اسے مانگا اور مجھے نامراد لوٹا دیا اس نے. ایسا کیوں کیا اللّٰہ نے اسید.؟"
"وہ اللّٰہ ہے، وہ کسی کے ساتھ کچھ برا نہیں کرتا بس وہی کرتا ہے جو جس کے حق میں بہتر ہو. اور کیا بہتر ہے کیا نہیں؟ صرف وہی اس سے واقف ہے. ہم تم کون ہوتے ہیں یہ سوال کرنے والے.. ہم تو بس حکم کے بندے ہوتے ہیں زرک جہاں.. طوھاً و کرھاً ہی سہی لیکن ہر بات ماننا ہی پڑتی ہے." سڑک پر نگاہ جمائے وہ بولا تھا.
"تمہیں پتا ہے زرک جہاں کہ اپنی تمام تر کوششوں, دعاؤں اور تدابیر کے باوجود انسان یہاں, اللّٰہ کے حکم اور اس کی مرضی پر آ کر بےبس ہو جاتا ہے. لیکن انسان کم عقل اور کج فہم ہوتا ہے وہ اس کی مصلحت نہیں جانتا. دل کوئی بات سمجھنا ہی نہیں چاہتا جیسے."
" پس بیشک آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینو ں میں ہیں" (القرآن)
زرک جہاں نے اس کی آخری بات پر نہایت تکلیف سے آنکھیں موند لی تھیں. واقعی وہ کر بھی کیا سکتا تھا؟ لاکھ اللّٰہ سے شکوے کرتا، لڑتا جھگڑتا, آخر تھک ہار کر وہی کرنا تھا جو اس کے مقدّر میں لکھ دیا گیا تھا. اسید نے گاڑی اسی مقامِ دلبراں پر روکی تھی جہاں سے اس قصّے کی ابتدا ہوئی تھی. زرک جہاں بےچینی سے باہر نکلا اور یک ٹک اس بند دروازے کی طرف دیکھے گیا جس کے دوسری جانب اس کی زندگی بستی تھی. کتنے ہی لمحے بِیت گئے, وہ بےحس و حرکت کھڑا تھا, اسید کو اس پر کسی پتھر کا گمان ہوا تھا.
"اب چلیں زرک جہاں.؟" اسید نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ بے طرح چونکا. خالی خالی نگاہوں سے اسید کو دیکھا. وہ وہاں ہو کر بھی وہاں نہیں تھا. اسید نے قدرے زور سے اس کا کندھا ہلایا تھا. وہ وہیں گاڑی سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھتا چلا گیا.
"اسید.! ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک اجنبی یوں اچانک سے ہماری کل کائنات بن جاتا ہے؟ اس کے بغیر زندگی ادھوری اور ہر خوشی ہیچ لگتی ہے. کیوں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟" اسید کے پاس اس کے کسی سوال کا جواب نہیں تھا.
"ابھی دل چاہ رہا ہے کہ وہ اس بند دروازے سے نکل آئے، میرے دل کا حال سنے، میرا اضطراب دیکھے اور میری تکلیف کا اندازہ کرے. دیکھے مجھے اور جان لے کہ میں اس کے عشق میں گھل گھل کر اب ختم ہوا چاہتا ہوں." دفعتاً اس نے اس گھر کی جانب قدم اٹھایا تھا.
"کہاں جا رہے ہو زرک جہاں.؟" اسید بوکھلا گیا، فوراً اس کے راستے میں حائل ہوا.
"مجھے اس کے گھر جانا ہے، میں اس سے ملنا، اسے دیکھنا اور سننا چاہتا ہوں اسید.!" اسے، خود کا روکے جانا برا لگا تھا.
"میرا دل شدت سے اس کے ملن کا خواہاں ہے، مجھے جانے دو خدارا.!"
"تم ہوش میں تو ہو زرک جہاں.؟" اسید نے دونوں بازوؤں سے اسے پکڑ رکھا تھا.
"اس کا تعلق ایک عام سے گھرانے سے ہے، کیا تم نے سوچا ہے کہ رات کے اس پہر تمھارا یوں اس کے گھر چلے جانا... اپنے آپ میں کتنے سوال پیدا کرتا ہے؟ وہ ہمارے جیسی ہائی کلاس سے تعلق نہیں رکھتی کہ ہمارا یوں اس کے گھر جانا معیوب نہ سمجھا جائے گا." اسید نے تحمل سے اسے سمجھایا.
"کیوں ایسی کسی بات کے لیے اس کا تماشا بنوانا چاہتے ہو جس کی اسے خبر ہی نہیں.؟!!" دل اگرچہ ان ساری مصلحتوں کا قائل نہیں تھا، لیکن عشق کو یہ بھی کہاں گوارا تھا کہ محبوب کی رسوائی کا سامان ہو. وہ وہیں زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھتا چلا گیا تھا.
"کیا اسے کبھی خبر نہیں ہو گی کہ میں اس سے..."آواز رندھ گئی تھی
"ہو گی، ہو بھی سکتی ہے، اور شاید ہو بھی چکی ہو، جس رب نے تمہارے دل میں عشق کی آگ لگائی ہے کیا پتا اسی رب نے یہ چنگاری اس کے دل میں بھی بھڑکا دی ہو" اسید اس کے سامنے جھکا
"لیکن اگر اسے خبر نہ ہوئی تو..؟" اس نے جھلملاتی آنکھوں سے اسید کو دیکھا تھا.
"تو...!!" اسید نے اسے اٹھایا، گاڑی کی طرف جاتے ہوئے بولا:
"ہر زلیخا کے مقدر میں یوسف نہیں ہوتا." زرک جہاں کے قدم ساکت ہوئے تھے.
"میں کبھی اس سے ملا نہیں, کبھی اس کی آواز تک نہیں سنی, میرا بنا ملے, بنا دیکھے یہ حال ہے جو اگر میں اس سے کبھی مل چکا ہوتا یا اسے سن لیا ہوتا تو پھر کیا کرتا میں؟ پر میں..." وہ بولتے بولتے چپ ہوا تھا, آواز بھر آئی تھی. اس نے سختی سے آنسو رگڑے تھے.
" میں اب بھی کچھ نہیں کر پایا اور تب بھی کچھ نہیں کر پاتا. بلکہ میں کچھ کرنے کے قابل تھا ہی نہیں اسید. پتا ہے یہ سب.. یہ سب عشق اور بےچینی مجھے میری اوقات دکھانے کے لیے میرے مقدر میں لکھی گئی تھی. تاکہ مجھے بتایا جائے کہ دیکھو زرک جہاں.! تم جو ہماری بنائی ہوئی زمین پر یوں تکبر اور غرور سے چلتے پھرتے ہو تو ہم تمہیں بتا دیں کہ جب وقت پلٹتا ہے تو آسمان کیسے کیسے لوگوں کو زمین کی خاک پر لے آتا ہے. اور دیکھو اسید.! کیسے وقت نے مجھے میری اوقات دکھائی اور کیسے آسمان سے زمین پر لے آیا." بولتے بولتے اس کی سانس تیز ہو گئی. وہ گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا اور کچھ دیر بعد بولا.
"اسید.! اس عشق نے آج میرے وجود کو جلا کر خاکستر کر دیا ہے. مجھے لگتا ہے میرا وجود... رفتہ رفتہ عشق کی آگ میں جل جائے گا. اور میں, میں نہیں رہوں گا."
عشق آں شعلہ است کہ چوں برفروخت
ہرچہ جز معشوق باقی جملہ سوخت
(عشق ایسا شعلہ ہے کہ جب وہ بھڑک اٹھا تو معشوق کے علاوہ جو کچھ بھی تھا جل کر خاک ہوگیا)( مولانا رومؒ)
**،،،***،،،***،،،***،،،**