ٹائی کی ناٹ کستے، اس نے آئینے میں اپنا ناقدانہ جائزہ لیا. بلیک ڈنر سوٹ میں اس کا چھ فٹ سے نکلتا قد مزید نمایاں تھا. سیاہ گھنے بال سلیقے سے بنے تھے. گہری سیاہ آنکھوں میں ذہانت چمکتی تھی. اور غرور سے کھڑی ناک اس کے نقوش میں جاذبیت پیدا کرتی تھی. وہ کسی کی طرف ایک نگاہ ڈال کر اس کے دل کی دنیا زیر و زبر کر سکتا تھا. وہ جانتا تھا کہ وہ چلتا تھا تو کتنوں کے دل اس کے ایک ایک قدم پر فنا کا کلمہ پڑھتے تھے.کلائی میں گھڑی باندھتے اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے پرفیوم اٹھایا. جس وقت اس نے پرفیوم واپس رکھا عین اسی لمحے دروازہ کھول کر اسید اندر داخل ہوا. اور یہ اعزاز بھی صرف اسید کو ہی حاصل تھا کہ وہ بنا دستک کیے بھی اس کے کمرے میں آ سکتا تھا ورنہ کسی کی مجال نہ تھی کہ بنا اجازت اندر داخل ہوتا. ان دونوں کے لیے ہمزاد کا لفظ استعمال کیا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا. اس نے پلٹ کر ایک نگاہ اس کی تیاری پر ڈالی اور بولا:
"آج کیا ساری محفل لُوٹ لینے کا ارادہ ہے؟" اسموکی گرے سوٹ میں اسید بھی خوب جچ رہا تھا.
"حق ہاہ..." اسید نے ٹھنڈی آہ بھری. "یہ کیسے ممکن ہے کہ عالی جاہ زَرک جہاں کے ہوتے، میں ناچیز اسید رضا کوئی محفل لُوٹ لوں" اسید بہت ترنگ میں ہوتا تو اسے اسی طرح مخاطب کیا کرتا تھا. ایک بڑی دلفریب سی مسکراہٹ نے زرک جہاں کے لبوں کو چھوا تھا. اسید نے دیکھا اس کے ہونٹوں کے ساتھ اس کی آنکھیں بھی مسکرائی تھیں.
؎ وہ مسکرائے تو ہنس ہنس پڑیں کئی موسم
وہ چلے تو بادِ صبا ٹھہر جائے.
"یار...! میں مرد ہو کر تیری شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہوں. صنفِ نازک کے دل پر تو چھریاں چلتی ہوں گی تجھے دیکھ کر." اسید کی بات پر اس کا جاندار قہقہہ چارسُو بکھر گیا. وہ حقیقتاً اس کے تبصرے سے محظوظ ہوا تھا، اپنی تعریف بھلا کسے بری لگتی ہے.
"تم اب شادی کر ہی لو بس... آنٹی بھی کب سے پیچھے پڑی ہیں." اس نے وہ موضوع چھیڑ دیا جس سے ہر بار وہ صاف دامن بچا جاتا تھا.
"کر لوں گا شادی بھی، ایسی بھی کیا جلدی ہے. بس کوئی لڑکی تو ملے میری پسند کی، جسے دیکھتے ہی میرا دل کہہ اٹھے کہ ہاں زرک جہاں یہی ہے وہ جس کے لیے تم کب سے دشت و بیابان کی خاک چھان رہے ہو." وہ متبسّم لہجے میں بولا تھا.
"ہممم...چار سال امریکہ جیسے ملک میں لگا آئے... کوئی ایک بھی نہ پسند آئی..." اسید نے تاسف سے سر ہلایا.
" میں وہاں بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری لینے گیا تھا کسی کو پسند کرنے نہیں. اور یوں بھی اسید.! میں دیدہ و دانستہ کسی کو بھی پسند کر سکتا ہوں. لیکن خواہش ہے کہ..." اس نے بڑا ڈرامائی سا وقفہ دیا تھا
"کہ..." اسید کو اس کی یہ تجسس پیدا کرنے والی عادت سخت ناپسند تھی.
"مجھے عشق ہو کسی سے، دھواں دھار قسم کا... میرا اس کے بغیر جینا دشوار ہو جائے اور اس کے عشق میں، مَیں دنیا سے ٹکرا جاؤں." زرک جہاں نے دل میں چھپی عجیب و غریب خواہش کا اظہار کیا.اسید نے حیرت سے اسے دیکھا اور بولا:
؎ یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
"کمال کرتے ہیں آپ بھی عالی جاہ زرک جہاں.! ہشاش بشاش زندگی کے ہوتے، ندیا جیسی پرسکون زندگی میں دریا سا تلاطم خود مانگ رہے ہیں."
"میر تقی میر کے ابّا کہا کرتے تھے عشق کرو میاں عشق..." زرک جہاں کا لہجہ شرارتی تھا. برسوں پہلے پڑھا کوئی مضمون اب تک حافظے میں محفوظ تھا
"وہ میرؔ کے ابّا تھے تمہارے ابّا تو کہتے ہیں بزنس کرو بزنس..."
"خیر..ڈیڈی جو بھی کہیں.. غالبؔ کہہ گئے ہیں.
؎ یہ عشق ہے وہ آتش غالب.
جو لگائے نہ لگے بجھائے نہ بجھے
یا الٰہی خیر.! آج زرک جہاں کو خلافِ معمول شاعری سوجھ رہی ہے" اس نے گھبرانے کی مصنوعی کوشش کی تھی. اور دعا کے لہے ہاتھ بلند کرکے کہا تھا:
"یا اللّٰہ.! عالی جاہ زرک جہاں کے دل میں جلد ہی یہ آتشِ عشق بھڑک جائے." اسید نے باقاعدہ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی. جواباً اس نے بھی اونچا سا "آمین" کہا تھا. اور کاتبِ تقدیر نے ان کی اس دعا پر قبولیت کی مہر لگا دی تھی.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
"حورعین.! رات کا سالن بچا پڑا ہے پتر. وہ گرم کرکے ساتھ دو چپاتیاں ڈال دے تیرے ابّے کو تو کھانا دیں. تیری میری خیر ہے پودینے کی چٹنی رگڑ لیں گے. اس نمانے کو تو نہ بھوکا ماروں جو صبح سے شام تک ہمارے لیے سردی گرمی میں محنت مزدوری کرتا ہے." مغرب کی نماز سے فارغ ہوئی زلیخا بی نے اکلوتی بیٹی کو پکارا.
"اچھا اماں.!" اس نے دعا مانگ کر جلدی سے جائے نماز تہ لگا کر رکھی اور صحن میں بنے مختصر سے باورچی خانے کی طرف بھاگی. اس نے روٹیاں پکا کر پودینے اور ہری مرچوں کی چٹنی بنائی. بس آدھے گھنٹے میں کھانا تیار تھا. اور وہیں چولہے کے قریب بیٹھی رہی سردی کا اثر زائل کرنے کا آسان حل.. یہاں تک کہ یوسف محمد نے دروازے کے کواڑ بجائے اور اسے آواز دی.
"حورعین بچے.!" پہلی ہی آواز پر وہ دروازے پر موجود تھی. اس نے سر جھکا کر ابّا کو سلام کیا.
"جیتی رہ، خوش رہ. اللّٰہ تیرے نام اور تیری صورت کی طرح تیرے نصیب بھی اچھے کرے." انہوں نے سر پر ہاتھ پھیر کر معمول کی دعا دی. برسوں سے وہ گھر سے جاتے اور آتے وقت اسے انہیں الفاظ میں دعا سے نوازا کرتے تھے اور وہ باپ کی حد درجہ محبت پر سرشار ہمیشہ دعا کے الفاظ کی گھمن گھیریوں میں گم جاتی تھی. اور سکون کی ایک لہر اس کے پورے رگ و پے میں سرایت کر جاتی تھی. بچپن میں وہ ابّا سے کہا کرتی تھی.
"ابّا یہ کیسی دعا دیتے ہو" تب وہ مسکرا کر اس کا سر تھپکتے اور کہتے.
"جیسی موہنی تیری صورت ہے اور جیسا پیارا تیرا نام ہے دھیے... اس کے لیے مجھ ان پڑھ کو یہی الفاظ سوجھتے ہیں. اور میرا اللّٰہ بڑا کریم ہے بہت دینے والا... جب وہ مجھ کمی کمین کو بیٹی جیسی رحمت سے نواز سکتا ہے تو تجھے بھی وہ سب دے سکتا ہے جو میں مانگتا ہوں." ابّا کا دعا پر حد درجہ پکا یقین تھا.
"یاد رکھ دھیے.! یہ صورت، یہ دھن دولت اور نام سب آنی جانی چیزیں ہیں سدا رہے گا تو نام صرف اللّٰہ کا... تو بس میری ایک بات پلُّو سے باندھ کے رکھنا... کہ کبھی بھی ان فنا ہونے والی چیزوں پر غرور نہ کرنا. یہ صورت مٹّی میں مل کر خاک ہو جائے گی تم اپنا اخلاق سنوارنا ہمیشہ.. اور حیا کا دامن تھامے رہنا.." یوسف محمد چٹّا ان پڑھ تھا لیکن اسے جو درس زندگی نے دیے تھے وہ دنیا کا کوئی مکتب نہیں دے سکتا تھا.
"اللّٰہ چاہے تو ایک پل میں ہمیں ایسا بنا دے کہ ہم خود ہی خود کو دیکھنا گوارا نہ کریں. ساری عزت ساری ذلّت میرے رب سوہنے کے ہاتھ ہے." ایسے ہی کتنے سبق تھے جو وہ ہر روز اپنی جان سے عزیز بیٹی کو دیتا آیا تھا اور وہ بھی سچے دل سے گھول گھول کر تمام سبق ازبر کرتی آئی تھی. اس نے جب سے گھر میں آنکھ کھولی تھی غربت اور کسمپرسی کا دور دیکھا تھا. چادر اتنی چھوٹی تھی کہ سر ڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہوتے پاؤں چھپاتے تو سر ننگا ہوتا. لیکن آفرین تھی ان دونوں میاں بیوی پر جنہوں نے کبھی شکوے کا لفظ زبان سے نہیں نکالا تھا. روکھی سوکھی ملی یا کسی دن بھوکا سونا پڑا انہوں نے سوائے شُکر کے کبھی کوئی کلمہ نہیں کہا تھا. اور آفرین تھی ان کی تربیت کہ پریوں سے حسن اور شہزادیوں سی آن بان والی ان کی اکلوتی بیٹی من وعن ان کا پرتو تھی. اس کا تو خمیر ہی گویا اس مٹّی سے گوندھا گیا تھا کہ جس مٹّی کی سرشت ہی حیا، وفا، عاجزی اور شکرگزاری ہوتی ہے.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
"کل تم عثمانی صاحب کے ہاں بزنس ڈنر پر تھے زرک جہاں.!؟ " بیگم اسفند جہاں نے سلائس پر مکھن کی ہلکی سی تہہ لگاتے اس سے دریافت کیا. ناشتہ عموماً وہ تینوں افراد ایک ساتھ ہی کیا کرتے تھے علاوہ ازیں روز و شب کے مصروف ترین معمولات میں ایک دوسرے کے لیے وقت بمشکل ہی نکال پاتے تھے. اسفند جہاں شہر کے جانے مانے انڈسٹریلسٹ تھے جبکہ بیگم اسفند جہاں بھی ایک بین الاقوامی این جی او کی روح رواں تھیں. وہ جدّی پشتی رئیس تھے دولت گھر کی باندی تھی. اور جہاں دولت و شہرت نسلوں سے آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہو وہاں انسان کے اندر غرور و تکبّر کا آ جانا معمولی سی بات ہوتی ہے. بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو زیادہ مل جانے ہر پھلدار درخت کی طرح عاجزی سے جھک جاتے ہیں. ورنہ اکثریت تو سرو کے درخت کی طرح بے پھل ہو کر بھی تنے ہی رہتے ہیں. اسفند جہاں کی فیملی بھی ایسی ہی ایک فیملی تھی. غرور و تکبّر کا عملی نمونہ. اپنے سامنے کسی کو کچھ نہ سمجھنے والی.
"جی گیا تو تھا.. کیوں.. ؟" کافی مگ میں انڈیلتے اس نے سرسری سا دریافت کیا.
"کوئی لڑکی پسند آئی کیا؟ عثمانی صاحب کی پارٹیز میں تو یوں بھی پورے شہر کی کریم اکٹھی ہوتی ہے."
"کمال ہے ممّی.! کل کی اس کریم میں بیگم اسفند جہاں نہیں تھیں." زرک جہاں کا شرارتی لہجہ صاف ان کا مذاق اڑا رہا تھا.
"میں مدعو تھی لیکن کسی مصروفیت کے باعث میں نے بیگم عثمانی سے معذرت کر لی تھی. بہرحال تم میرا سوال مت ٹالو... جواب دو." انہوں نے جوس کا گلاس منہ سے لگایا اور سوالیہ نگاہیں اس کے چہرے پر ٹکا دیں.
"اوہ کم آن ممّی.! میں صرف ڈنر اٹینڈ کرنے گیا تھا سوئمبر رچانے نہیں."
"مجھے لگتا ہے کچھ دنوں بعد مجھے واقعی تمہارے لیے سوئمبر رچانا پڑے گا." ان کا انداز قطیعت لیے ہوئے تھا. جس کی زرک جہاں نے ہمیشہ کی طرح کوئی پرواہ نہیں کی تھی. اسفند جہاں نے بھی اخبار تہ کر کے رکھا اور ان کی گفتگو میں شامل ہوئے.
"کیا گفتگو ہو رہی ہے ماں بیٹے میں؟"
"ہو گیا اخبار ختم؟ مل گئی فرصت." شیریں جہاں نے کافی کا مگ انہیں تھمایا. وہ مسکرا دیے اور زرک جہاں سے بولے.
"یہ ساری عورتیں ہم مردوں کی آزادی کے سخت خلاف ہوتی ہیں. تم اپنی ممّی کی باتوں میں ہرگز مت آنا اور سکون سے لائف انجوائے کرو." زرک جہاں نے شرارتی آنکھوں سے انہیں دیکھا گویا کہہ رہا ہو اب کہیے.
"جو بھی ہو میں اب جلد از جلد تمہاری شادی کروا ہی دوں گی بس." وہ بھی ان کی باتوں میں آنے والی نہیں تھیں.
"ممّی پلیز..! کہا تو ہے کہ جب مجھے اپنے معیار کی لڑکی مل گئی میں اسی دن شادی کی ہامی بھر لوں گا. بس ملے تو سہی." اس نے کافی کا مگ پھر سے بھرا تھا. کافی کا وہ یوں ہی جنون کی حد تک رسیا تھا.
"سرکل میں کتنی ہی لڑکیاں ہیں ایک سے بڑھ کر ایک حسین اور طرح دار... تمہیں کوئی ایک بھی نہیں بھائی..؟"
"جانتا ہوں ممّی.! لیکن فی الحال نہ مہرا شادی کا کوئی ارادہ ہے اور نہ کوئی لڑکی ہی جچی ہے. سب مصنوعی سی لگتی ہیں." وہ بیزار سا بولا، گویا اب یہ موضوع ختم کرنا چاہتا ہو.
"یہ بھی ٹھیک ہے آخر میرے شہزادوں سی آن بان والے بیٹے کے لیے لڑکی بھی تو کوئی خاص ہی ہونی چاہیے، اسی جیسی آن بان اور حسن رکھنے والی." بیگم اسفند جہاں نے اثبات میں سر ہلایا.
" لڑکی چاہے جو بھی ہو زرک جہاں! میں ہر قدم پہ تمھارے ساتھ ہوں."اسفند جہاں نے خالی کپ میز پہ رکھتے اس کا شانہ تھپک کر کہا تھا." تمھاری ماں مانے یا نہ مانے، مجھے اپنے ساتھ پاؤ گے."
اور اس نے بلا ٹل جانے پر اللّٰہ کا شکر ادا کیا تھا. کاتبِ وقت نے ان کا ایک ایک لفظ محفوظ کیا تھا.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
"خالہ.! حورعین کہاں ہے؟" اس کی واحد سہیلی ہادیہ نے گھر میں قدم رکھا ہاتھ میں کوئی پلیٹ تھی. وہ جب بھی کوئی نئی چیز بناتی حورعین کے لیے لانا نہیں بھولتی تھی. ان کی نسبت ہادیہ کے گھر کے حالات قدرے اچھے تھے. حورعین نے میٹرک تک محلے کے گورنمنٹ اسکول میں پڑھا تھا اس کے بعد سے وہ گھر پر ہی تھی جبکہ ہادیہ اب فورتھ ائیر میں تھی.
"تم میری عادتیں مت خراب کرو ہادیہ." اس نے گاجر کا حلوہ دیکھ کر کہا.
"مہینے میں ایک آدھ بار کی عیاشی سے عادتیں خراب نہیں ہوتیں. یوں بھی اللّٰہ نے تمہارا خمیر جس مٹّی سے گونددھا ہے اس مٹّی میں ہے ہی نہیں اپنے محور سے ہٹنا یا بگڑنا." ہادیہ کے لفظ لفظ میں اس کے لیے ڈھیروں پیار چھپا تھا.
"ہوں تو میں بھی انسان ہی ہادیہ اور انسان خطا نہ کرے یہ ممکن ہی نہیں. جب مقدّر میں محور سے ہٹنا یا بگڑنا لکھ دیا جاتا ہے تو کوئی چیز اسے ٹال نہیں سکتی." وہ اس کے ساتھ باورچی خانے میں ہی بیٹھ گئی.
"کیا ہوا حورعین.!؟ کچھ پریشان دکھ رہی ہو؟ ہادیہ فوراً اس کی اداسی کو بھانپ گئی تھی.
"آج کل زندگی عجیب سی محسوس ہونے لگتی ہے. دل انجانے خوف سے لرزنے لگتا ہے ہادیہ. یوں جیسے کچھ انہونی ہونے والی ہے." وہ ماچس کی جلی تیلی سے زمین کریدتے ہوئے بولی.
"ایسے ہی محسوس ہوا ہوگا تمہیں. مجھے تو لگتا ہے جلدی ہی میری پری کے مقدّر کا شہزادہ آنے والا ہے." ہادیہ نے شرارتی لہجے میں کہتے اس کا موڈ بحال کرنا چاہا.
"شہزادے کی چاہ نہیں رہی کبھی مجھے ہادیہ.. شہزادے بھلا غریب کی کٹیا میں کب آتے ہیں." اس نے کہا
"جو شہزادے اصل ہیرے کی تلاش میں ہوں وہ ضرور آتے ہیں. کیونکہ نایاب ہیرے کوئلے کی کان ہی میں ملتے ہیں." شوخی میں شروع کی گئی بات سنجیدہ پہلو اختیار کر گئی تھی.
"کوئلے کی کان میں ہاتھ اور منہ سیاہ کرنے کا حوصلہ ہر کسی میں نہیں ہوتا ہادیہ." حورعین نے عام سے لفظوں میں بہت گہری بات کہہ دی تھی. لیکن اس نے بھی ایک پتے کی بات کہہ کر گفتگو لپیٹ دی تھی.
"گدڑی کا لعل ہر خاص و عام کا مقدّر نہیں بنتا حورعین. اس لعل کو لینے کے لیے ساری حیات وارنا پڑے تو بھی اس کے چاہنے والے پروا نہیں کرتے اور تم ہمارا گدڑی کا لعل ہی ہو." حورعین نے اس بات کو ہادیہ کا پاگل پن یا خود سے اس کی محبت کی انتہا قرار دیا اور ذرا بھی قابلِ توجہ نہ سمجھا تھا. اس بات سے بےخبر کہ دور کہیں کسی شہزادے کا اس گدڑی کے لعل کی چاہ میں فقیر ہونا لکھ دیا گیا تھا.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
"ایک تو میں سخت تنگ ہوں تمہارے اس سوشل ورک سے، کس گدھے نے مشورہ دیا تھا تمہیں شہر کے اس آخری کونے میں آنے کا؟" وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرتے اسید کو کوستے ہوئے غصّے میں تپ رہا تھا. ریڈی ایٹر گرم ہونے کی وجہ سے انجن بند ہو گیا تھا. اور اس پر مستزاد یہ کہ گاڑی میں پانی نہیں تھا اور آس پاس کوئی دکان اگر تھی بھی تو وہ اس وقت بند تھی. دائیں جانب کھلا میدان تھا اور بائیں طرف ایک اکلوتا مکان تھا جس کا اکھڑا ہوا رنگ و روغن مکینوں کے مالی حالات کا عکاس تھا.
"زرک جہاں.! جا نا یار سامنے والے گھر سے ایک بوتل پانی ہی لا دے" اسید نے عاجزانہ سے لہجے میں التجا کی جبکہ وہ تو جیسے ہتھے سے اکھڑ گیا.
"تمہارا مطلب ہے کہ میں وہاں جاؤں؟ میں زرک جہاں؟؟" وہ انگلی سے اپنی جانب اشارہ کرتے حد درجہ تحیّر سے بولا تھا.
"جی ہاں.! عالی جاہ زرک جہاں.! آپ جائیے کیونکہ یہ عالیشان گاڑی بھی آپ ہی کی ملکیت ہے اور جس کے نخرے میں خاکسار پچھلے آدھے گھنٹے سے اٹھا رہا ہوں." وہ بھی جھنجھلا کر بولا تھا. اسے خود پر غصّہ آ رہا تھا کہ کیوں زرک جہاں کو ساتھ لے آیا.
"میری گاڑی ورکشاپ میں نہ ہوتی تو مجھے کیا پڑی تھی کہ تمہارے اور تمہاری اس گاڑی کے نخرے برداشت کرتا." زرک جہاں نے اس کی خفگی اور بڑبڑاہٹ کو ذرا درخو اعتنا نہ سمجھا، وہ ایسا ہی تھا بس اپنی سوچنے والا اپنی کرنے والا. ذات کا تفاخر اور غرور و تکبّر اسے وراثت میں ملا تھا. اس کے برعکس اسید بہت مختلف عادات کا مالک تھا عاجزی و انکساری اس میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی.لیکن عادات کے ان تفاوات کے باوجود وہ دونوں ناصرف بچپن سے ساتھ تھے بلکہ دونوں کو کسی تیسرے کی ضرورت بھی کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی.
"تُو جائے گا یا نہیں؟" اسید نے کڑے تیوروں سے پوچھا.
"ناٹ ایٹ آل... یہ کام مجھ سے نہیں ہوتے مانگنے والے" ایک شانِ بےنیازی سے کہہ کر وہ گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا. غرور سے کھڑی ناک اس وقت مزید کھڑی تھی سیاہ گاگلز نے آنکھوں کو ڈھانپ رکھا تھا. اسید نے خوب جل کر اس شاہانہ مزاج والے اپنے دوست کو دیکھا اور تپ کر بولا:
"عالی جاہ زرک جہاں اللّٰہ کرے کہ تجھے سچ مچ عشق ہو جائے اور پھر وہ عشق تیرے سارے کَس بل نکال دے تجھے ناکواکوں چنے چبوائے اور... تُو ایسا جھکے کہ سارا طنطنہ سارا غرور مٹّی میں ملے تیرا. آمین." زرک جہاں کہ دل نے بےساختہ ہی آمین کہا تھا. دل کی اس بےساختگی پر وہ خود بھی متحیّر تھا.لیکن زبان نے چپ سادھی تھی. اسید اس پر تین حرف بھیج کر خود اس گھر کی طرف گیا تھا. وہ اسی پوزیشن میں کھڑا اسید کو دیکھ رہا تھا. جو اب دروازے پر دستک دے رہا تھا. گاڑی سے گھر تک کا فاصلہ اتنا تھا کہ وہ آواز نہیں سن سکتا تھا لیکن اسید کو بخوبی دیکھ سکتا تھا. لکڑی کا دروازہ کھلا تھا اسی وقت اس کا سیل بجا. ممّی کی ایک فریںڈ کی بیٹی کا فون تھا جس سے وہ سخت نالاں تھا. اس نے کال اٹینڈ کیے بنا فون گاڑی کے اندر پھینکا. اسی دوران سامنے گھر کا دروازہ دوبارہ کھلا تھا اور کسی لڑکی نے پانی کی ایک بوتل اسید کو تھمائی تھی. اسید نے سر اٹھا کر ایک بار بھی اوپر نہیں دیکھا تھا. جبکہ اس پری وش کی ایک جھلک ہی زرک جہاں کے دل کی دنیا زیر و زبر کر گئی تھی.
؎ ناوک و نیشتر تری پلکیں
سحر پرداز و فتنہ گر آنکھیں
"تجھے عشق ہو پھر یقین ہو.." اس کے دل پر عشق نے وار کر دیا تھا. چند لمحے قبل اسید کی لاپروائی سے مانگی گئی دعا قبول کر لی گئی تھی.
"یہ کیا ہو گیا ہے مجھے..." اس کے دل کو بےتحاشا بےچینی نے آن گھیرا تھا. وہ گویا اپنے آپ میں نہیں تھا. اسید نے گاڑی میں پانی ڈالا اور انجن چیک کیا. اس دوران وہ منہ سے ایک لفظ نہیں بولا تھا بس عجب وارفتگی کے سے عالم میں اس گھر کے بوسیدہ بند دروازے کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا.
"تجھے کیا ہوا؟" اسید نے اس کی خاموشی محسوس کی. اور اس کی نظروں کا ارتکاز بھی سیاہ گاگلز کے پیچھے سے تاڑ لیا تھا. وہ دانستہ رخ موڑ کر لاپروائی سے بولا:
"آں ہاں..! کچھ نہیں." اور گاگلز سیٹ کرتا ڈرائیونگ سِیٹ پر آ بیٹھا. اسید جو اس کی رگ رگ سے واقف تھا، اسے، اس کا یہ انداز ہضم نہیں ہورہا تھا. آخر کیا ہوا تھا.؟ لیکن کچھ سوچ کر اس نے کریدنا مناسب نہ سمجھا.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
اسید کو ڈراپ کرنے کے بعد وہ سیدھا گھر آیا تھا. اسے اس وقت گھر دیکھ کر ملازم چوکنے ہو گئے تھے. بیگم اسفند جہاں بھی حیران ہوئیں.
"زرک جہاں تم اس وقت خیریت تو ہے؟" وہ این جی او کے لیے نکل رہی تھیں اسے دیکھ کر رک گئیں.
"یس ممّی..." مختصر سا جواب... اسے وضاحتیں مانگنا اور دینا دونوں ہی سخت ناپسند تھا. انہوں نے سر ہلایا اور ساڑھی کا پلّو سنبھالتے ہوئے ڈرائیور کو آواز دیتیں باہر نکل گئیں. وہ کمرے میں آیا اور ساری روشنیاں جلا دیں سارے پردے اور بلائنڈز ہٹا کر ہوا اور روشنی کو اندر آنے کا راستہ دیا. شاید ایسے دل میں لگی آگ کچھ کم ہوتی. مگر سب بےسود... اس ایک جھلک نے جو چنگاری بھڑکائی تھی اس کا مداوا اب ناممکن ہی تھا. رہ رہ کر وہ چہرہ نگاہوں میں پِھر جاتا اور دل نئے سرے سے بےچین ہو جاتا.
"کیا دعائیں اتنی جلدی بھی قبول ہوتی ہیں؟" وہ خود سے پوچھ رہا تھا. جواب تو اس کے پاس نہیں تھا ہی نہیں. ہوتا بھی کیسے آج تک اسے کبھی کچھ مانگنے کا موقع ملا ہی نہیں تھا. دنیا کی ہر ہر نعمت اور ہر ہر آسائش بِن مانگے ہی ملتی آئی تھی اور مل رہی تھی. اسے نہیں پتا تھا کہ کوئی من چاہی چیز جب نہیں ملتی تو اسے حاصل کرنے کے لیے کیسے کیسے حیلے بہانوں سے اللّٰہ سے مانگا جاتا ہے کیا کیا جتن کرکے اللّٰہ کو منایا جاتا ہے. اسے تو کچھ پتا ہی نہیں تھا مانگنے اور گڑگڑا کر مانگنے کی لذّت سے وہ آگاہ ہوا ہی نہیں تھا. لیکن اب لگتا تھا اس سب کا وقت آگیا تھا کہ اسے دَر پر جھکایا جاتا اور اس سے کہا جاتا کہ مانگ... کیا مانگتا ہے..؟
**،،،***،،،***،،،***،،،***،،،**
ہادیہ کی نسبت اپنے ماموں زاد جو اسلام آباد پارلیمنٹ میں کلرک تھے سے طے تھی اور اس کا چھوٹا بھائی ایک گورنمنٹ اسکول میں معلّم تھا اس کی امّی نے حورعین کو ہادیہ کے گھر دیکھا اور پہلی ہی نگاہ میں اس پر فدا ہو گئی تھیں. اور نند سے مشورہ کرکے زلیخا بی کے پاس دستِ سوال دراز کیے آ گئی تھیں.
ہادیہ کے گھرانے سے برسوں کی جان پہچان تھی دیکھے بھالے لوگ تھے یوسف محمد اور زلیخا بی ان کی آمد پر خوشی سے پھولے نہ سمائے تھے. چند دن کی رسمی مہلت مانگی گئی اور پھر ہاں کر دی گئی تھی. جلد ہی اس کے ہاتھ میں سعد عمر کے نام کی انگوٹھی سج گئی. شادی کے لیے ایک سال کا وقت لیا گیا تھا. ہادیہ بہت مسرور تھی کہ اس کے بچپن کی سہیلی تاعمر اس کے ساتھ رہے گی. لیکن خود وہ اپنی کیفیات سمجھنے سے قاصر تھی.وہ خوش تھی یا ناخوش، اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی یہ سچ تھا کہ اس نے آج تک ذہن میں شریکِ سفر کا کوئی خاکہ نہیں بنایا تھا اور ایسی صورت میں تو اسے بہت خوش ہونا چاہیے تھا لیکن پتا نہیں ایسی کون سی بات تھی جو پوری طرح اسے خوش بھی نہیں ہونے دے رہی تھی.
**...**...**...**...**..**
بےچینی و بےکلی حد سے سوا تھی اس کا کسی کام میں جی نہیں لگتا تھا. یوسف محمد نے اس کی بےچینی بھانپ لی تھی انہوں نے محسوس کیا کہ نسبت طے ہو جانے کے بعد سے ہی وہ یوں بےچین اور اپنے آس پاس سے اکتائی ہوئی رہنے لگی تھی. دل کو ہمہ وقت یہ خیال ستاتا کہ کہیں وہ ناخوش تو نہیں اور انہوں نے دانستگی میں اس کی ناخوشی کا سامان تو نہیں کر دیا؟ دل بھی عجیب تھا وہ خوش ہوتی تو بھی "اسے نظر نہ لگ جائے" کا دھڑکا لیے ہلکان رہتا اب اداس تھی تو بھی پریشان تھا... کسی پل چین ہی نہ تھا. وہ دونوں میاں بیوی خود سے بڑھ کر اپنی اکلوتی بیٹی کو چاہتے تھے. شادی کے دس سال میں زلیخا بی نے تین بیٹوں کو جنم دیا جو تینوں ہی ایک ایک ہفتے کے اندر اللّٰہ کو پیارے ہوئے تھے. اور جب پندرھویں سال امید لگی تو دونوں ہی بہت ڈرے ہوئے تھے... یوسف محمد نے دن رات رو رو کر اللّٰہ سے دعا مانگی تھی.
"اللّٰہ مجھے بیٹے کی آرزو نہ کل تھی نہ آج ہے مجھے صرف اولاد چاہیے بیٹا ہو یا بیٹی... مجھے پتا ہے کہ تُو اپنے بندوں کو آزماتا ہے لیکن اللّٰہ بندے کی برداشت سے زیادہ بوجھ بھی تو نہیں دیتا نا تُو... میں مرد ہوں تُو نے مردوں کا کلیجہ بہت مضبوط بنایا ہے ہر دکھ تکلیف سہہ جاتے ہیں بھلے مشکل ہی سے سہا جاتا ہے... لیکن یہ جو میری گھر والی ہے نا زلیخا... یہ نمانی اب صبر اور برداشت کر کر کے تھک گئی ہے. ایک وہ ہی کیا میں بھی... اور مت آزما میرے مولا.. کہیں تیرا یہ گنہگار بندہ شکر اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دے اور دونوں جہاں میں زیرِ عتاب ٹھہرے. اب مجھ سے اپنا سُونا آنگن نہیں دیکھا جاتا مولا.. کرم کر.. رحم کر." وہ راتوں کو اٹھ کر زار زار رو کر اللّٰہ سے بھیک مانگتا تھا.اور آخری وقت تک زلیخا بی شوہر کا ہاتھ پکڑ کر رو رو کر کہتی رہیں:
" یوسف محمد... اللّٰہ اب تو کرم کرے گا نا.! اب تو اولاد زندہ رہے گی نا.!" اور وہ بھلا کیا کہتا وہ عام سا گنہگار بندہ.. بس یقین سے دعا ہی مانگ سکتا تھا جو وہ پہلے دن سے مانگتا چلا آرہا تھا. وہ ولی تو تھا نہیں جو اسے کشف و کرامات سے پتا چلتا کہ دعا مقبول ہوئی یا نامقبول." بس ایک صبر تھا جو وہ کر رہا تھا. یہی تو حکم تھا. اور وہ تو بندہ ہی حکم و رضا کا تھا. بس سر جھکا کر راضی رہنا.
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی تھیں اللّٰہ نے انہیں اپنی رحمت سے نوازا تھا. بچی کیا تھی گویا چاند کا ٹکڑا تھی. ایسی حسین و جمیل کہ ان کے خاندان اور محلے میں کوئی اس کا ثانی نہ تھا. لیکن دونوں ہی خوف سے سہمے ہوئے تھے. کہ نجانے کب اجل آئے اور اس پری کو اپنے پروں میں سمیٹ لے جائے. ایک ہفتہ جیسے سولی پر گزرا کون سا ایسا ورد نہ تھا جو انہوں نے بچی کی درازئِ عمر بالخیر کے لیے نہ کیا ہو.. کون سی دعا تھی جو نہ مانگی گئی تھی. آخر رفتہ رفتہ ایک ماہ گزرنے کے بعد جب یقین ہوا کہ اللّٰہ کی رحمت ان کے مقدّر میں لکھ دی گئی ہے تب جا کر انہیں بچی کا نام رکھنے کا خیال آیا. اور ایک روز سورۃ الرحمٰن کی تلاوت کرتے وقت یوسف محمد کو لگا کہ اس کی چاند سی بیٹی کے لیے حورعین نام ہی بہترین ہوگا اور یوں اسے حورعین نام دیا گیا تھا. جو اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا نور اور دل کی ٹھنڈک تھی. وقت گزرتا گیا لیکن پندرہ برسوں سے دل میں کنڈلی مارے بیٹھا خوف اب بھی ساتھ رہتا تھا. انسان بھی کیا کرے یہ امید و یاس کی سی کیفیت تو جیسے اس کے خمیر میں گھلی ہوتی ہے. یوسف محمد اور زلیخا بی نے اپنی چادر کے اندر بیٹی کے سارے شوق اور چاؤ پورے کیے تھے. تنکا تنکا جوڑ کر اسے پڑھایا تھا. صبر و شکر کی جس مٹّی سے ان دونوں میاں بیوی کا خمیر گوندھا گیا تھا وہی خاک جیسے حورعین کی تخلیق میں شامل تھی.دونوں شکر کرتے نہ تھکتے کہ اللّٰہ نے تین بیٹے لےکر ہیروں ایسی بیٹی سے نوازا تھا. بس اب اس کے نصیب تھے جس نے زندگی یا تو اجال دینی تھی یا اندھیر کرنی تھی. اور یہی فکر تھی جو حورعین کو بےچین دیکھ کر ہوسف محمد کو لاحق ہوئی تھی.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
ایزی چیئر پر جھولتے اس نے مسلسل اسموکنگ جاری رکھی. پچھلے دو گھنٹوں میں وہ بلامبالغہ تین پیکٹ پھونک چکا تھا. رات کے دو بجے تھے اور یہ تیسرا دن تھا کہ اس کی آنکھوں سے نیند یوں دور تھی جیسے تھر واسیوں سے برسات دور رہتی ہے.
اپنی جلتی آنکھوں پر یخ پانی کے چھینٹے مار کر واش روم سے باہر آیا تو اس کے من میں نجانے کیا سمائی کہ بنا کوئی گرم شال یا جرسی پہنے گاڑی لےکر باہر نکل پڑا ایک عجب وارفتگی کا سا عالم تھا اسے خود پر ہی اختیار نہیں رہا تھا. سڑکوں کی خاک چھانتے اسے کچھ خبر نہ تھی کہ کدھر کو جارہاہے. ہوش تب آیا جب گاڑی ایک جھٹکے سے رکی. پیٹرول ختم ہو چکا تھا. تبھی اسے احساس ہوا کہ یہ وہی جگہ تھی جہاں وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوا تھا.
**...**...**...**...**..**
ستارۂِ صبح کے نمودار ہونے میں وقت تھا وہ گاڑی سے نکل کر ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا. سردی اتنی شدید تھی کہ ہڈیوں میں گودا جما رہی تھی لیکن وہ ہر احساس سے عاری سرد و گرم سے بےنیاز دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اس پری وش کے گھر کی جانب بنا پلکیں جھپکائے دیکھ رہا تھا. کتنے ہی پل اسی وارفتگی کے عالم میں بیت گئے. دل میں آگ سی بھڑکی تھی، تب سے اب تک ایک پل کو آرام نہ لینے دیا تھا دل نے...
؎ آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مِل بنا.
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دِل بنا.
یوں لگتا تھا کہ اس نے آج وہیں آسن جمانے کا تہیہ کرلیا تھا. ہوش تو تب آیا جب سیل فون پر اسید کی کال آئی.
"زرک جہاں.! کہاں ہو تم؟؟ ابھی آنٹی کا فون آیا کہ تم اپنے کمرے میں نہیں ہو..."
"ممّی کیا اب میری جاسوسی کروانے پر کمربستہ ہو گئی ہیں؟ سخت تنگ ہوں میں اس سب سے..." کچھ نیند کی کمی کچھ دل کی حالت... وہ ایک دم ہی آپے سے باہر ہو گیا تھا. اسید کے لیے اس کا یہ رویہ عجیب تھا. مانا کہ وہ بہت شاہانہ مزاج کا بندہ تھا لیکن تمام تر غرور و تکبّر کے باوجود وہ اپنے غصّے اور مزاج کو رشتوں کے احترام پر حاوی نہیں ہونے دیتا تھا. خصوصاً اپنی ممّی سے اس انداز میں بات کرنا ہی ناممکن تھا اس کے لیے.
"تمہاری طبیعت ٹھیک ہے زرک جہاں ..؟" اسید نے بہت نرمی سے دریافت کیا.
"ھممم.!" وہ مبہم سا بولا.
"گاڑی میں پیٹرول ختم ہے اور یہاں دور تک کوئی پیٹرول پمپ نہیں ہے. تم یہاں آ جاؤ." اور جگہ کا نام سن کر ایک پل کو اسید ہکّا بکّا رہ گیا تھا. لیکن منہ سے کچھ کہے بنا آنے کا کہہ کر فون بند کردیا. فل اسپیڈ میں گاڑی بھگاتا وہ بیس منٹ میں اس کے پاس پہنچا. راستے میں ٹریفک نہ تھی اسی لیے قدرے جلدی آ پہنچا تھا. اور وہاں اسے سخت سردی میں بنا کسی گرم کپڑے کے دیکھ کر اسے عجیب سی بےچینی نے آن گھیرا.
"دل بہت گھبرا رہا تھا میں ایسے ہی لانگ ڈرائیو پر نکلا تھا لیکن یہاں آکر پیٹرول ہی ختم ہوگیا." اگرچہ اس نے زرک سے کوئی سوال نہیں کیا تھا لیکن اس کی سوالیہ نگاہیں بہت کچھ پوچھ رہی تھیں. حیرت در حیرت تھی جس نے اسید کو آن گھیرا.. زرک جہاں کو وضاحتیں لینے اور دینے دونوں سے چِڑ تھی اور آج وہ بنا مانگے ہی... اب وہ کیا کہتا کہ:
"لانگ ڈرائیو کرتے ہوئے وہ پہلے تو کبھی شہر کے اس آخری کونے میں نہیں آیا تھا. آج کیوں؟" لیکن اس نے بنا کچھ کہے اس کی گاڑی میں پیٹرول ڈالا جو وہ راستے سے لیتا آیا تھا. اس کام سے فارغ ہو کر زرک جہاں سے کہا.
"اس سے پہلے کہ لوگوں کی آمدورفت شروع ہو چلتے ہیں.شام کو جِم میں ملیں گے." اس نے محض اثبات میں سر ہلایا اور گاڑی میں بیٹھا اور بس ایک آخری نظر اس مکان کی جانب ڈالی. اور وہ آخری نظر اسید سے پوشیدہ نہ رہی تھی. اس کے دل نے کچھ انہونا ہونے کا اشارہ دیا تھا اور وہ جانتا تھا کہ اس کا دل غلط نہیں کہتا تھا.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
وہ چھوٹے سے صحن میں دائیں جانب بنی مختصر سی کیاری کے پاس آلتی پالتی مارے بیٹھی کسی سوچ میں گم تھی. زلیخا بی پڑوس میں قرآن خوانی میں گئی تھیں. جمعہ کا دن تھا تو یوسف محمد گھر ہی تھے انہوں نے جب حورعین کو دنیا و مافیہا سے بےخبر دیکھا تو اس کے سامنے آکر خود بھی چوکڑی مار کر بیٹھ گئے.
"ارے ابّاجی! آپ کیوں یہاں بیٹھ گئے؟ ٹھنڈ لگ جائے گی" وہ خرد کی دنیا میں واپس آئی. وہ مسکرا کر بولے:
"جب میری دھی کو ٹھنڈ نہیں لگ رہی تو مجھے کیسے لگ سکتی ہے؟ اور دیکھ تو شاہ خاور کیسا چمک رہا ہے اس کے ہوتے کیسی ٹھنڈ.؟" اس نے محبت سے باپ کے ہاتھ تھام لیے اور محبت پاش نظروں سے انہیں دیکھنے لگی.
"اچھا سن حورعین..!" وہ رازداری سے بولے
"جی ابّاجی." وہ آگے کو جھکی. سمجھ گئی تھی کہ کوئی خاص بات کرنی ہے.
"تُو... خوش... میرا مطلب ہے.. یہ جو رشتہ ہوا.." باپ تھے نا.! جھجک سے گئے لیکن دل کی خلش کا کیا کرتے جو کسی پل چین نہ لینے دیتی تھی. وہ شرما کر سرخ چہرہ لیے ایک دم پیچھے کو ہو گئی "تو کیا اس کا اضطراب چہرے سے عیاں تھا کہ ابّاجی نے بھی دیکھ لیا.؟" ایک یہ سوچ آتے ہی، کوئی بات اور وجہ نہ ہوتے ہوئے بھی شرم سے پانی پانی ہو گئی. یوسف محمد نے بغور اس کے چہرے کے بدلتے تمام رنگوں کا جائزہ لیا تھا.
"مجھے علم ہے کہ یہ بات تیری ماں کے پوچھنے کی ہے، لیکن تجھے بھی تو علم ہے نا کہ بچپن سے آج تک جتنا تیرے باپ نے تجھے سنبھالا اور تیرے لاڈ اٹھائے ہیں اتنے اس نے بھی نہیں اٹھائے. وہ نمانی تو دل میں دبے خوف سے ہی اب جا کر نکلی ہے." ان کے وضاحتی بیان نے اس کی سانس بحال کی تھی.
"نہیں ابّاجی ایسا کچھ نہیں. میں آپ کے فیصلے سے بہت خوش ہوں. بس پتا نہیں کیوں دل چند دنوں سے بہت بےچین سا رہتا ہے ہر وقت.." وہ انگلیاں مروڑنے لگی. یوسف محمد نے اس کے ہاتھ تھامے اور گویا ہوئے:
"دیکھ پتر یہ جو دل ہوتا ہے نا.! بڑا ہی عجیب ہوتا ہے. ہمیں سنوارتا ہے تو بگاڑتا بھی ہے. کبھی کسی کے سر کا تاج بنا دیتا ہے تو کبھی پاؤں کی دھول چٹواتا ہے. اسے عادت سی ہوتی ہے خوشی میں دکھی رہنے کی اور سکون کے عالم میں بےچین رہنے کی. جیسے ہم بچوں کو سدھارنے کے لیے ان کی بری عادتوں کو فراموش کرتے ہیں اور انہیں سمجھاتے ہیں نا.! ایسے ہی دل کو راہ پر لانے کے لیے ان سب باتوں کو نظرانداز کرکے دل کو سمجھا اور اگر نہ سمجھے تو اللّٰہ سے مدد مانگ کہ وہی دلوں کو سکون اور صبر دیتا ہے." اس کا سر تھپک کر وہ کپڑے جھاڑتے اٹھ کھڑے ہوئے مسجد سے عصر کی اذان کی صدا بلند ہو رہی تھی. وہ اس سے بولے
"اور ہمیشہ یاد رکھنا دھیے.! اللّٰہ کی یاد میں ہی دلوں کا چین ہے." اس نے دل کا اضطراب اور بےچینی چھپا کر مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا تھا.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
وہ ٹیرس پر کرسی پر آنکھیں موندے بیٹھا تھا جب اسید بنا آہٹ کیے اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا. وہ کافی دیر جم میں اس کا انتظار کرنے کے بعد اب گھر ہی چلا آیا تھا. اس کے پرفیوم کی دلفریب مہک نے زرک جہاں کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا تھا. سرخ ہوتی کئی رت جگوں کی پہچان لیے گہری آنکھیں اسید کو بہت کچھ سمجھا گئی تھیں.
"کیا ہوا ہے تجھے زرک جہاں.؟" وہ حقیقتاً اس کے لیے فکرمند تھا.
"کچھ بھی تو نہیں.." وہ بمشکل مسکرایا اور ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ ہمیشہ ہونٹوں کے ساتھ مسکرانے والی آنکھیں آج بجھی بجھی سی تھیں.
"تم بدل رہے ہو زرک جہاں.! اور آج یہ میں نے محسوس کیا ہے کل سب کریں گے. مجھے بتاؤ کیا ہوا؟" زرک جہاں سیدھا ہو بیٹھا اور عجیب سے لہجے میں بولا:
"میں جانتا ہوں اسید کہ مجھے کچھ ہو گیا ہے یا کچھ ہو رہا ہے. لیکن ابھی مجھے خود کو ادراک نہیں کہ کیا ہوا ہے؟ تو تمہیں کیسے بتا دوں؟ " بات کے اختتام میں لہجے میں ایک ناقابلِ بیان سی بےبسی در آئی تھی اور اسید کے لیے یہ سب بہت ہی عجیب تھا اس نے بھلا کب زرک جہاں کو ایسا بےبس دیکھا تھا.
"تم صبح وہاں، اس جگہ کرنے کیا گئے تھے؟" اسید نے ذرا ٹھہر کر پوچھا جواباً زرک جہاں کی تڑپتی نگاہیں جیسے سب عیاں کر گئی تھیں.
؎ کیا رنگِ زرد و گریہ، کیا ضعف و درد و افغاں
افشا کریں ہیں مل کر میرا یہ راز، پانچوں
**،،،***،،،***،،،***،،،**