اچھا اچھا ویسے دیکھ تو لیتے ہیں
پھر وہ مان گئی دیکھنے میں کیا حرج ہے. ویسے اندر جانے کا اشتیاق ہو رہا تھا
وہ جیسے اندرداخل ہوئی اندر کے انٹر کو دیکھ کر بےہوش ہونے کے قریب ہو گئی پھر اس نے جیولری دیکھی چھوٹی چھوٹی کے رینجر میں وہ فیکٹری خرید سکتی تھی
پھر اس نے ایک نیکلس دیکھا بلیک سٹون کا قیمتی اس کے اردگرد سفید ڈائمنڈ لگے ہوئے تھے تین لڑیوں میں تھا اور سب سے زیادہ خوبصورت بھی
جب قیمت پوچھی تو ایک منٹ کے لیے اس کا سر چکرا گیا
اف خدا دس لاکھ کا نیکلس بہلول چلو یہاں سے میرا بہ پی لو ہو جائے گا بہلول ہنس پڑا
یہ تو اتنا قیمتی نہیں ہے
It not that really expensive sweetheart
لے لیتے ہیں
نو وے چلو یہاں سے دماغ خراب ہو گیا تمارا میم آپ کی ٹین اسکن پر بہت صوٹ کرے گا اینڈ بلیک ڈریس اٹ ول لک پر فیکٹ ان یو ۔وہ انگلش میں بولی
میرا دماغ خراب ہے اتنے میں میری دس نسلیں پل جائیں
سرینہ اردو میں بولی جو، اس کو تو نہیں بہلول سن کر قہقہ لگا کر ہنسا
سرینہ اسے ہنستے دیکھ کر باہر آ گئی پھر پتہ نہیں اس نے کب خریدا
تم بہت عجیب ہو میں نہیں پہن رہی اگر کئ کھو گیا
وہ اتارنے لگی بہلول نے ٹوکا
اے خبر دار اتارا تو ماروں گا چلو پہلے سے ہی دیر ہو رہی ہے وہ اس کی بات سنے بغیر بازو پکڑ کر باہر لے گیا
وہ اس کے ساتھ اندر داخل ہوئی
وہ اپنے اردگرد دیکھ رہی تھی کیا یہ خواب اگر تھا تو کتنا خوبصورت اس جیسی عام لڑکی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے وہ پریسہ کی قسمت پر رشک کر رہی تھی اور اب اپنی قسمت پر بے شک جتنی تھی بہت حسین تھی اب موت بھی آ جائے تو کوئی شکوہ نہیں تھا خدا سے ہاں ایک تکلیف تھی بہلول سے جدا نہیں ہونا چاہتی تھی قسمت بھی کتنی پلیر ہے جو پریسہ کا تھا وہ سرینہ کو اور جو سرینہ کا تھا وہ پریسہ کو مل گیا جیسے ایک دوسرے کی قسمت کی سواپنک ہوئی ہو
بہلول نے سرینہ کا تعارف سب سے کروایا پھر سرینہ نے دیکھا بہلول کا رنگ ایک دم سفید پڑ گیا مگر جلد ہی کپوز کیا
سرینہ نے دیکھا ایک چالیس کے اوپر خاتون جس نے سفید ساڑی کے ساتھ سٹبلش بال کٹوائے ہوئے قیمتی جیولری پہنے گرس فل لگ رہی تھی
سرینہ کو سمجھ نہیں آئی کے وہ کون تھی لیکن جب سرینہ نے اس کی ہیزل آنکھیں دیکھی بالکل بہلول جیسی تو، سب سمجھ گی وہ سامنے سے آ رہی تھی بہلول بولا تم بیٹھو میں تمارے لئے ڈرنک لاتا ہوں
لیکن سرو نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
بھالو یہ تمہاری ماما ہے نا؟
بہلول نے حیران ہو کر سرینہ کو دیکھا
تمہیں ۔۔۔۔۔۔
بہلول میرے بچے ۔وہ اس کے سامنے آئی اس کا ماتھا چومنے کے لئے اگے بڑھی بہلول پیچھے ہو گیا
سرینہ میں ابھی آیا وہ چل پڑا
مسسز فرقان نے اسے جاتا دیکھ کر مایوس ہوئی
ناراض ہے ابھی بھی مجھ سے
پھر انہوں نے سرینہ کو دیکھا
تم سرینہ ہو نا بہلول کی؟؟؟
سرینہ نے سر ہلایا
اسے سمجھ نہیں آ، رہی تھی کیا کہے
بہت پیاری ہو مگر خاصی کمزور بیٹا اتنا سکنی ہونا بھی اچھا نہیں انہوں نے پیار سے سرینہ کے گال چھوئے
وہ اس سے ایسے بات کر رہی تھی جیسے پہلے سے جانتی ہو
بیٹا گھبرا کیوں رہی ہو میں بہلول کی امی ہوں اور یہ میرے بیٹے کی پارٹی ہے
سرینہ کا منہ کھل گیا
ام فرحان آپ کا بیٹا ہے؟
ہاں فرحان میرا ہی بیٹا ہے وہ گہرا سانس لے کر بولی
تو بہلول کی دوستی ۔۔سرینہ کنفیوز ہو گئی تھی
آؤ میرے ساتھ بہلول ٹائم لگائے گا، سب سمجھتی ہوں
______________________
میں ایک لڑکے سے بہت پیار کرتی تھی شیر آفگن نام تھا پولیس فورس میں تھا وہ بے انتہا قسم کا حسین مرد تھا کوئی ہو گا وہ میرا نیبر تھا میں اس کے عشق میں پاگل ہو گئی میں اس کے گھر جاتی اس کی چھوٹی بہن سے دوستی کر لی اس کی امی کی فیورٹ بن گئی بس اس کی نظر میں ایک اچھی لڑکی نہ بن سکی۔
پتہ نہیں وہ مجھے بالکل پسند نہیں کرتا تھا مجھے لگا شاید وہ میری ہیزل آنکھوں کا دیوانہ ہو جائے گا میرے اخلاق سے متاثر ہو گا یا میرا عشق دیکھ کر اپنا لے گا. لیکن اس کو مجھ میں نقص ہی نظر آئے
میں ہلکالہ کر بولتی تھی کوئی لفظ صحیع سے ادا نہیں کر پاتی تھی
کوشش کے باوجود بھی عجیب بات ہے نا میرے پیرنٹس وکیل تھے جو حق کے لیے بول بول کر ان کی زبان نہیں تھکتی تھی ان کی اکلوتی بیٹی کو بولنے میں پرابلم ہوتا تھا سکول میں بھی مزاق اڑایا جاتا بہت تکلیف کے دن تھے کوئی بندہ جس نے میرا مزاق نہ اڑایا ہو ہاں ایک تھا جو بالکل بھی نہیں اڑاتا، تھا
فرقان اسد عجیب بات ہے وہ میرے ڈرائیور کا بیٹا تھا مجھ سے پیار کرتا تھا لیکن مجھے لگا میں مالک کی بیٹی ہوں تو ایسے کرتا ہے میرے رک کر بولنے کا انتظار کرتا تھا مزاق نہیں اڑاتا تھا مجھے اخبار پڑھنے کو دیتا مجھے غصہ آتا اس کھری سنا کر رکھ دیتی مسکرا کر سنتا خاموش رہتا بہت عجیب تھا فرقان سی ایس ایس کے امتحان دے رہا تھابہت شاپ تھا خوبصورت نہیں تھا میں بھی اس کا مزاق اڑانے لگ جاتی تم کالے ہو
وہ ایک کان سنتا دوسرے سے نکال دیتا
اگلے دن پھر میرے پاس آتا کوئی میرا دوست نہیں تھا کوئی میرے قریب نہیں آتا تھا مگر وہ آتا تھا
ہاں بات تھی شیر آفگن کی میں اس کے پاس گئ اظہار کیا تو وہ ہنسنا شروع ہو گیا ۔
مجھے کتنی دیر ویٹ کرنا پڑے گا جب ریڈیو ٹھیک ہو جائے تب آنا اور میں بتاتا چلوں میری منگنی ہو چکی ہے اس لیے اپنا ٹائم ویسٹ نہیں کرو اپنے جیسا ریڈیو ڈھونڈو
میرا دل کسی نے بہت زور سے توڑا اس دن میں بہت روئی میں نے کہا اس زندگی کا کوئی فائدہ نہیں خودکشی کر لیتی ہوں
میں کچن گئ نیند کی گولیاں ڈھونڈنے مل گئی تو کھانے لگی کسی نے مجھے زور سے تھپڑ مارا میں نے دیکھا تو فرقان تھا
دماغ خراب ہو گیا تمہارا تمہیں کچھ ہو جاتا تو میں زندہ رہ پاتا
اس وقت میں دکھی تھی اسے مارا برا بھلا کہنا شروع کر دیا وہ چپ چاپ مار کھاتا رہا میں نے کہا چلے جاؤ میری زندگی سے ہمیشہ کے لیے وہ پاگل سچ مچ چلا گیا
میں نے پڑھائی بیچ سے چھوڑ دی امی ابو نے میری شادی عدیل سے کروا دی عدیل بابا کے دوست کا بیٹا تھا لا کمپیکٹ کیا تھا خوبصورت بھی تھا میں حیران اس نے مجھ سے شادی کیوں کی پھر اصل بات پتہ چلی اس نے میری جائیداد کی وجہ سے شادی کی عیاش پسند آدمی تھا مجھے اگنور کرتا اور میں چپ چاپ سہتی پھر بہلول ہونے والا تھا میں الله سے دعا کرتی اس میں کوئی ڈفیکٹ نہ ہو ۔کوئی بھی کمی میرے بچے میں نہ ہو اور واقعی ہی میرے بچے میں کوئی کمی نہیں تھی وہ بہت شارپ اور خوبصورت بچہ تھا عدیل کو مجھ میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا اصل گڑ بڑ تب ہوئی جب میرے ابو فوت ہوئے عدیل نے مجھ سے میری ساری جائداد اپنے نام کروا لی اور مجھے طلاق دے دی اور میری ماں کو یہ بتایا کے وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ پکڑی گئی ہے
جب میں امی کے گھر پہنچی تو مجھے دھکے دے کر نکال دیا اور مجھ سے بہلول بھی لے لیا جو میرا سب کچھ تھا کوئی ماں بھی اپنی بیٹی کو ایسے کرتی ہے میں بارش کی رات باہر روتی سٹرکوں پر گزارتی رہی سامنے سے ایک کار آئی اسکے نیچے آنے لگی تھی کہ اس نے کار روک لی
جب بندہ باہر آیا تو وہ کئی اور نہیں فرقان تھا بہت عمدہ لباس مہنگی کار میں وہ کوئی اور ہی لگ رہا تھا
فرقان نے مجھے پہچان لیا اور میرے بے ہوش وجود کو ہسپتال پہنچایا میرے ہوش میں آنے کے بعد ایک ہی رٹ تھی مجھے میرا بچہ چاہئے مجھے بہلول چاہئے اور فرقان ممی سے لنے آیا۔
ممی مجھ سے ناراض تھی انہوں نے کہاکہ صرف ملوانا تھا اور وہ دوبارہ لے گئیں مجھ سے میں بہت ٹوٹ گئی تھی اکیلی ہو گئی تھی فرقان نے مجھے سھبالا میری عدت کے کے فورا بعد مجھ سے شادی کی بعد اس وقت میں بھی سلفش ہو گئی تھی کسی کی پروا نہیں رہی تھی حتی کہ اپنی بھی نہیں گو زندگی گزارنے لگی فرقان مجھے امریکہ لے گئے ہر طرح کی خوشی تھی مگر میں خوش رہتی نہیں تھی ہر وقت کڑوی باتیں کہہ دیتی چپ چاپ سن لیتے پھر اس نے مجھ سے بحث لگانا شروع کر دی میں بھی لگاتی
کوشش سے میں بھی ٹھیک بولنے لگی وہ بھی مجھ سے چیزوں کا تبصرہ کرنے لگ جاتا. جب تک میں جواب نہیں دیتی بولتا چلا جاتا. میں کافی اسی میں بولنے لگ گئیں اخبار ناول پڑھتی شیشے کے اگے پرکٹس کرتی اس نے میرا ایڈمیشن کروا دیا پھر میں نے criminology Psychology
میں ڈبل ماسٹر کیا اسکے بعد کانسلیینگ میں ڈپلومہ کیا اور اب سٹفورڈ یونیورسٹی کی ہیڈ کنسلر ہوں
حیران ہو نا؟ یہ سب فرقان کی بدولت تھا مجھے فرقان سے عشق ہو گیا جو اس نے مجھے کیا سے کیا بنا دیا
ہم دونوں کا ایک ہی بیٹا ہے فرحان لیکن مجھے بہلول کبھی نہیں بولا. ممی کو کال کرتی رہتی ممی کی ناراضگی کم ہوتی گئی وہ بہلول کی بہت اچھی پرورش کر رہی تھی
مجھے اس کی خوشی تھی اچھا تھا کے وہ ممی کے پاس تھا ورنہ میں اس طرح شاید خیال نہیں رکھ پاتی کیوں کہ میں بہت عجیب ہو گئی تھی مجھے بہلول فرقان سے زیادہ عزیز تھا اب بھی یاد کرتی ہوں لیکن میرا بیٹا مجھ سے ناراض ہے
مسسز فرقان نے اپنے آنسو پونچھے
سرینہ ان کے گلے لگ گئی
انٹی اپ مت روائیں میں بھالو کو سمجھا لوں گی اس نے دیکھا سامنے بہلول کھڑا، تھا
سرینہ کچھ بولنے لگی اسے حیرت ہوئی وہ اپنی ممی کے گلے لگ چکا تھا اور رو رہا تھا
مام آپ نے اتنا کچھ سہا؟ ائم سوری مام مجھے نہیں پتہ تھا اپ کے ساتھ سوری مامآئی مسڈ یو اینڈ، آئی لو یو
مسسز فرقان کا دل پرسکون ہو گیا سرینہ ان کو ملتا دیکھ کر مسکرا رہی تھی
بابھی مجھے نہیں پتہ تھا بڑے بھییا اتنے بے بی ہیں فرحان سرینہ کے پاس آیا اور اس سے بولا
سرینہ نے دیکھا وہ بالکل بہلول کی کاپی تھا رنگت تھوڑی سانوالی تھی مگر تھا پرکشش
اوے بکواس نہ کر اس کے لیے بازلہ جیسی لڑکی کیسی رہے گی سرو جو اس کا دماغ ٹکانے لگا، دے گی
بہلول مام سے الگ ہو کر اسے مکا مار کر بولا
ویسے بازلہ ہے کون؟ فرحان دلچسپی سے بولا
سرینہ ہکا بکا بہلول کو دیکھنے لگی
بہلول آپ۔۔۔۔
ہاں بیٹا یہ بازلہ ہے کون؟ مسسز فرقان مسکراتے ہوئے بولی
سرو کی چھوٹی بہن ہے پٹخا ہے بہلول مسکرا کر بولا
سرینہ ہنس پڑہ اگر بازلہ ہوتی شرم سے اس کا برا حال ہوتا
________________
وہ دونوں نیویارک پہنچ گئے تھے آج سرینہ کا پہلا کیوتھرپی تھا
انہوں نے مسسز فرقان کے گھر سٹے کیا اور اب وہ سرینہ کا بہت خیال رکھ رہی تھی انہیں سن کر بہت جھٹکا لگا کے ٹومر ہے وہ بہت زیادہ دکھی ہوئی بہلول سے کہہ علاج میں کوئی کوتائی نہیں ہونی چاہیے
انٹی آپ خوامخوہ تکلیف کر رہی ہیں
مسسز فرقان نے اس کے سامنے ڈھیروں لوازات رکھے تھے وہ بھی اسکی صحت کے مطابق
بیٹا بہت کمزور ہو رہی ہو آج کا سیشن بہت پین فل تھا
واقعی آج سرینہ کو لگا اسکی جان نکل جائے گی بہت تکلیف دہ مرحلہ تھا
یہ لو سوپ پیو پھر میں نے تمہارے لے مساج کروانے والی بلوائ ہے. "
آنٹی آپ "
"اے چپ اور مجھے آنٹی مت بلانا ممی کہا کرو. "
فرحان فورا اندر داخل ہوا.
کیا ہو رہا ہے بہابی کئ خاطر مدرات ...... "
"ایک ہی تو بہو ہے میری وہ بھی بیمار اس کی بھی نہ کروں.. "مسز فرقان مسکراتے ہوے بولی.
سرینہ شرمندگی سے مسکرای.
"ممی انکل نہیں نظر آرہے. "
مسز فرقان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئ.
"بابا کئ ڈیتھ تو چار سال پہلے ہوگی تھی بھابی ."فرحان بولا..
"اوام دوری.. "سرینہ دکھی لہجے میں بولی.
"ڈونٹ بی اس کے جانے کا وقت تھا وہ چلا گیا تم سوپ پیو میں آتی ہوں. "
سرینہ پریشانی سے انہیں جاتا دیکھنے لگی
بھابی پریشان نہ ہوں ممی ایکچلچی پاپا سے پیار بہت کرتی تھیں اس لئے ایسے ہو جاتی ہیں. "
سرینہ نے سر ہلایا.
-------_-------------------------------
بہلول اسے ٹام سکویر لیے کر گیا تھا وہ دونوں بس کی راءڈ لے کر بولی.
"اف ویسے اور اب کیا کیا دیکھنا پڑے گا. "سرینہ تھک کر بولی..
"ابھی تم نے دیکھا کیا ہے سرو ابھی تو بہت کچھ دیکھنا ہے ویسے اگر تھک گئ ہو تو گھر چلیں. "
نہیں ہر جگہ پہلے سے بڑھ کر اچھی ہے میں حیران ہوں اور کیا کیا دیکھنا رہتا ہے. ویسے بھالو میں واپس جانا چاہتی ہوں. "
"کیوں ؟؟ابھی تمہارا علاج تو رہتا ہے"-
"بہلول ہمارے سی اے کے آخری چار پیپر رہتے ہیں تم نے بھی نہیں دیے میں نے بھی نہیں. "
"سو واٹ سی اے از ناٹ ابرابلم ہم اگلے سال سے دیں گے. "بہلول سر جھٹکتے ہوے بولا.