ہےCarcinoid tumour مسٹر ربانی صاحب آپ کی بیٹی کو.
ڈاکٹر کی بات سن کر ربانی صاحب کو اپنے اردگرد دھماکے محسوس ہوئے۔ کککک کیا کہہ رہے ہیں آپ ڈاکٹر صاحب؟
سیدھی سی بات ہے آپ کی بیٹی کے پیٹ میں ٹیومر ہے بہت زیادہ تو نہیں لیکن کافی پھیل جکا ہے ۔ربانی صاحب ایک دم رونے لگے۔
میری پھول سی بچی۔۔۔ریلکس ربانی صاحب اس وقت سرینہ کو آپ کے سپورٹ کی ضرورت ہے ابھی سٹیج تھری ہے اس لیے اس کا علاج ممکن ہے
ربانی صاحب نڈھال حال میں باہر آئے۔
بازلہ فورا بھاگی
ابو ڈاکٹر نے کیا کہا آپی اب کیسی ہے؟
ربانی صاحب کی لال آنکھیں دیکھ کر اور خوفزدہ ہو گئی ۔ربانی صاحب نے جب بتایا تو ساکت ہو کے نیچے بیٹھ گئی ۔
آج وہ کسی اور کو انگوٹھی پہنائے گا۔اور جب وہ پیار سے پری کو دیکھ رہا ہو گا اس کے کانوں میں پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا ہو گا اس کی تعریف کرے گا تو میں کیسے برداشت کروں گی ۔مجھے لگتا ہے اس وقت مر جاؤں گی۔منگنی سے پہلے سرینہ تیار ہوتے ہوئے رو، بھی رہی تھی اور بازلہ کو اپنے دل کی حالت بتا رہی تھی ۔آپ کیا آپ بہلول سے اتنا، عشق کرتی ہو۔کہ اس کے لیے مرنے لگی۔؟
نہیں ایسا نہیں ہے میں ایسا نہیں ہونے دوں گی ۔چاہئے کچھ بھی ہو جائے ۔آپ کو آپ کی محبت مل کر رہے گی ۔۔اور آپ کا عشق بھی
بازلہ کا دل اپنی بہن کے لیے کٹ گیا ۔وہ فورا اٹھ کر کمرے میں آئی۔سرینہ کے پیٹ کے ساتھ ساتھ ناک میں بھی نلکی لگی ۔اپنی بہن کو اس حاات میں نہیں دیکھ پا رہی تھی اور قریب آ کر اس کے گال چومنے لگی۔
آپی آئی پرامس آئی ول برنگ یورلور ۔۔اور پھر وہ باہر نکل گئی ۔
آنٹی کیا میں بہلول سے مل سکتی ہوں?
بازلہ اگلے دن ان کے گھر پہنچی ہوئی تھی اس نے گھر کا پتہ پریسہ سے پتا کروایا اور جب پریسہ نے پوچھا تو کہہ رہی تھی کہ میں نے مبارکباد کا پھول بہلول بھائی کو بھیجنا ہے اس لیے اس نے ایﮈریس اس طرح حاصل کیا.
بیٹا آپ کون ہیں..نانو اسے گیٹ پر کھڑا دیکھتے ہوئے بولی.
نانو میں سرینہ کی چھوٹی بہن ہوں.
ارے بیٹا! آؤآؤ!سرینہ نہیں آئی.خیریت تو ہے نا?وہ حیران بھی ہوئی کہ سرینہ کی بہن کو بہلول سے کیا کام?
آنٹی بہلول بھائی?وہ بولی.
ہاں ہاں ابھی بلواتی ہوں.تم اندر تو چلو"
نہیں آنٹی میں یہی ٹھیک ہوں.وہ سنجیدگی سے بولی
نانو کو کچھ گڑبڑ لگی.
سرینہ ٹھیک تو ہے نا?کل منگنی میں بھی اچانک سے غائب ہوگئی."
جی آنٹی ٹھیک ہے."
کون آیا ہے نانو?.بہلول لان کی طرف ورزش کر رہا تھا.ادھر آیا.
"ارے بازلہ تم واؤ سرینہ تمھیں لے آئی.ویسے وہ کدھر ہے.بہلول نےبازلہ کی فوٹودیکھی تھی اسلیے فورأ پہچان گیا.
بہلول بھائی اگر آپ مائنڑ نا کریں تو میرے ساتھ چلیں گے"
کہاں..وہ چونکا.
پلیز بہلول بھائی مجھ سے کچھ نا پوچھیے.آپ میرے ساتھ چلیں گے.بازلہ تیزی سے بولی.
خیریت ہے بازلہ. سرینہ تو ٹھیک ہے نا.بہلول لو ایک دم ٹینشن ہوگئ.
پلیز آئی ریکویسٹ یو"
جاؤ بہلول بچی کے ساتھ اور مجھے بتانا."
جی نانو."
وہ اس کو اپنی کار میں بیٹھایا اور بولا.
کہاں جانا ہے بازلہ اور کیا ہوا سرینہ تو ٹھیک ہے نا. بہلول کو بےچینی شروع ہوگئ.
آپ سی ایم ایچ چلیں"
کیا ہوسپیٹل.میرا دل گھبرا رہا ہےکچھ تو بولو"وہ ہوسپٹل کا نام سن کر پریشان ہوگیا لیکن بازلہ چپ رہی اور یہ چپ بہلول کے لیے بہت بھاری تھی.
وہ اسے وہاں لیکر گیا.وہ دونوں باہر نکل آئے.
مجھے بتاؤ گی سرو کو کیا ہوا پلیز بازلہ میں پریشان ہوں"
آپ کو پتہ چل جائے گابھائی ٹینشن کیوں لیتے ہیں.بازلہ کا لہجہ پرسکون تھا..
بہلول پریشان ہورہا تھا کہ سرینہ نے اپنے ساتھ کچھ کرتو نہیں دیا.اس نے دروازہ کھولا.
اور بہلول داخل ہوااور ادھر ہی کھڑا کا کھڑا رہا.
رک کیوں گئے?آئیں دیکھیں کیا حالت ہوگئی ہے میری بہن کی.آپ کے عشق نے اسے پاگل کر دیا ہے.وہ مرنے لگی ہے صرف آپ کی وجہ سےآپ کا کسی اور کا ہونا اسے برداشت نا ہو پایا.تو وہ موت کو گلے لگانے لگی.
بہلول بھائی.!پلیز میری بہن کو بچالیں.آپ کو خدا کا واسطہ ہے.بے شک وہ بچے نا لیکن آپکا نام لے کر آپ کی محبت پا کر سکون سے
مر جاۓ پلیز بھائی۔
بازلہ نے بہلول کے آگے روتے ہوۓ ہاتھ جوڑے۔
بہلول کا دماغ ماؤف ہوچکا تھا۔
----------------------
"بازلہ سرینہ کو کب تک ہوش آۓ گا؟" بہلول نے تین دن بعد اسے کال کی تھی۔
"آپی ہوش میں آچکی ہیں بھائی لیکن کچھ بول نہیں رہیں۔" بازلہ نے سرینہ کو دیکھا، امی اسے زبردستی سوپ پلا رہی تھیں۔
"بازلہ میں نے نانو سے بات کی، انہوں نے کہا کہ میں سرینہ سے شادی کرلوں لیکن تم جانتی ہو میری منگنی پری سے ہوئی وی ہے اور میں اسے چاہتا ہوں۔"
"بہلول بھائی! ٹھیک ہے مت کریں آپی سے شادی، ویسے بھی ان کی تقدیر موت ہی ہے، چاہے خوش ہوکر رخصت ہوں یا اذیت سے، اختتام تو ایک ہی ہے"بازلہ تلخ لہجے میں بولی۔
بہلول تڑپ گیا۔
"پلیز بازلہ! ایسے تو مت کہو اللہ نہ کرے جو سرو کو کچھ
"بہرحال وسیم بھائی نے تو انکار کر دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ کسی مرتی ہوئی لڑکی کے لیۓ اپنی زندگی قربان نہیں کر سکتے۔"
بہلول خاموشی سے سنتا رہا اور فون بند کر دیا۔
---------------------
"ابو پلیز مان جائیں ناں، اتنے پیار سے انہوں نے رشتہ بھیجا ہے آپی کے لیۓ، آپ مان کیوں نہیں جاتے۔"
بازلہ ربانی صاحب کے ساتھ بیٹھی انہیں سمجھا رہی تھی۔
"تمھارا دماغ تو نہیں خراب بازلہ! یہ لڑکا پریسہ کا منگیتر ہے کیسے کر دیں ہم سرینہ کی اس سے شادی۔" امی نے اسے غصے سے ڈانٹا۔
امی بات سنیں، آپی بہلول کے ساتھ خوش "رہے گی۔"
"چپ کرو تم ہم نے نہیں کرنی سرینہ کی اس سے شادی۔"
"آپ لوگ نہیں چاہتے آپی ٹھیک ہوں؟" بازلہ انہیں دکھ سے دیکھتے ہوۓ بولی۔
"بازلہ کہنا کیا چاہتی ہو؟"
یہی کہ آپی بہلول بھائی سے محبت کرتی ہیں اور ان سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن
جانتی تھی یہ سب ممکن نہیں تھا تو ان کی یہ حالت ہو گئی۔" بازلہ نے ان کے سروں پر بم گرایا۔
"کیا کہا تم نے ؟" ابو کی پہلی بار حیرت ذدہ آواز آئی۔
بازلی پریشان ہو گئی مگر خود کو مضبوط کرتے ہوۓ بولی۔
"ابو بہلول بھائی آپی کا علاج کروانے امریکہ لے کر جائیں گے، جبکہ وسیم بھائی نے کیا کیا ابو کو اکیلا چھوڑ دیا، اگر آپ کو آپی کی زندگی پیاری ہے تو پلیز ساچ سمجھ کر فیصلہ کیجیے گا۔"
بازلہ انہیں پریشانی میں چھوڑ کر چلی گئی۔
---------------------
"کیا کہا تم نے، تم یہ منگنی توڑ رہے ہو؟" پریسہ اس کے سامنے چیخی۔
"ایم سوری پریسہ پر میں مجبور ہوں۔" بہلول نے انگھوٹی اس کے سامنے رکھی۔
"تمھارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا بہلول، تم آخر ایسا کیوں کر رہے ہو؟"
"پریسہ تمھیں کوئی اور چاہنے والا مل سکتا ہے لیکن سرینہ کو میری ضرورت ہے وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔"
"واٹ ڈڈ یو جسٹ سیڈ۔"پریسہ ساکت ہو کر پھر
"میرا کل سرینہ کے ساتھ نکاح ہے۔" بہلول تحمل سے بولا۔
"ہاو کڈ یو؟"پریسہ نے آگے بڑھ کر اسے تھپڑ مارا۔ بہلول کو اس قدر شدید ری ایکشن کی توقع نہیں تھی۔
"تم نے سمجھ کیا رکھا ہوا ہے ایک دن مجھے پروپوز کرتے ہو اور دوسری طرف اس گھٹیا لڑکی کے ساتھ نکاح کرتے ہو، یو چیٹر۔" پریسہ زہر خند لہجے میں بولی۔
"اسٹاپ اٹ پریسہ ! میں جانتا ہوں اس وقت تم غصے میں ہو، تم کبھی سرو کے لیۓ ایسے لفظ استعمال نہ کرتی، تم جانتی ہو وہ تکلیف میں ہے وہ مر رہی ہے اسے میری ضرورت ہے۔"
"تو اس کا منگیتر کیا مر گیا؟"پریسہ چیخ کر بولی۔
"منگیتر نے اس سے منہ موڑ لیا لیکن میں نہیں موڑوں گا۔"
"ہماری منگنی ٹوٹی ہے، نکاح نہیں اب بس بھی کرو تم کوئی بھی چاہنے والا مل سکتا ہے پری اس لیۓ پلیز جسٹ فورگیٹ اٹ، فورگیٹ ایوری تھینگ وچ ہیپن بٹوین اس۔" بہلول کو یہ سب کہتے ہوۓ تکلیف ہو رہی تھی۔
"اوکے فائن جسٹ گو ٹو ہیل تین دن میں تمھیں نکاح کر کے دکھاوں گی ایسی گری پڑی نہیں ہوں سرینہ کی طرح، تم سے ہزار بہتر مل جائیں گے ناؤ گیٹ لوسٹ۔" پریسہ زور سے دھاڑی-
بہلول نے ایک دکھ بھری نگاہ پریسہ پہ ڈالی اور وہاں سے چلا گیا.
"اللہ کرے تم برباد ہو جاو سرینہ تم نے میرا بہلول چھین لیا تمہیں موت آجاے ابھی اسی وقت مر جاو تم -"
پریسہ ہر چیز کمرے میں اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی اور ساتھ میں سرینہ کو بد دعا دے رہی تھی.
"ارے بھی کیا کر رہی ہو بہلول نے کچھ کہا ہے تمہیں ??" پریسہ کی مام اندر داخل ہویں ..
"امی اس ڈائن نے میرا بہلول چھین لیا میں اسے ماردوں گی. پریسہ منہ چھیا کر رونے لگی.
" پری جانو !کون ڈائن ??? بتاو مجھے."
اس کی امی کو جٹھکا لگا ابھی منگنی کو ایک ہفتہ ہوا ہے اسے اور یہ سب ..
مام آی ول ڈسڑروے ہر شی روین مای لاءف .. پریسہ امی کے گلے لگتے ہوے بولی .
"پری ڈارلنگ مجھے سب کچھ بتاو ایک دم یہ سب ."
اور پریسہ نے انہیں روتے ہوے سب کچھ بتا دیا.
تم نے سب کیا نا بتاو مجھے بہلول کو تم فورس کیا ہے نا؟؟سرینہ چیخ کر بازلہ کو بولی.
"ہوں آپی اور اس میں کوئ غلط بات بھی نہیں ہے. "بازلہ سے تھپر کھانے کے بعد بھی پر سکون لہجے میں بولی جانتی تھی اس کی آپی کا یہی ری ایکشن ہونا تھا.
"کیوں کیا تم نے ایسا بازلہ آخر کیوں ؟"سرینہ نے اپنا سر تھام لیا.
"تم نے مجھے بہلول کئ نظر میں گرادیا پہلی ہی اس سے نظر ملانے کے قابل نہیں ہوں. "سرینہ رو پڑی.
"پلیز آپی آپ کی طبیعت خراب ہو جاے گئ بازلہ ڈرتے ہوے سرینہ کا کندھا پکڑتے ہوے بولی.
سرینہ نے روتے ہوے جھٹکا.
"مجھے سے اب تم کبھی بات نا کرنا امی ابو میری بات نہیں مان رہے نا بہلول میری بات سن رہا مجھے اپنی شکل بھی نہ دیکھنا .
سرینہ نے روتے ہوے وہاں سے چلی گئ.
بازلہ کو دکھ تو ہوا لیکن یہ سب ضروری تھا بہت ضروری
نانو نوکروں کو سامان اٹھانے کا کہہ رہی تھی
جمیل بہلول صاب کو بلوا کر او جدی کرو لیٹ ہو رہے ہم لوگ انتطار میں بیٹھے ہوئے
جی بی بی
ایک دم فون کال پر چونکی
دیکھا اور گہرا سانس لے کر اٹھایا
بولو مائرہ
امی آج بہلول کی شادی ہے؟
ہاں
امی کیا میں آ سکتی ہوں؟
دیکھو مائرہ آج بہلول کی شادی کا دن ہے اور میں نہیں چاہتی تم آ کر یہ دن خراب کرو
نانو نے جھوٹ بولا جانتی تھی وہ کتنا دکھی ہے اگر اپنی ماں کو دیکھ لیا تو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا
امی وہ میرا بیٹا ہے جانتی ہوں میں نے اسے چھوڑ دیا مگر اس کا مطلب یہ نہیں میں اس سے پیار نہیں کرتی میں نے اسے جنم دیا ہے
نانو کچھ کہنے لگی کے بہلول نے فون لے لءا
آپ سے میری درخواست ہے امی ائندہ یہاں فون مت کیجیے گا اگر آپ چاہتی ہیں میں خوش رہوںآپ جہاں ہیں وہی خوش رہیں میری اور نانو کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں
بہلول نے پرسکون لہجے میں بات کی اور فون بند کر دیا
نانو نے نم آنکھوں سے نواسے کو دیکھا جو بلیک شلوار قمیض میں کسی پرنس سے کم نہیں لگ رہا تھا
نانو چلیں سرو ہمارا انتظار کر رہی ہے بہلول نے مسکرا کر کہا
لیکن نانو جانتی تھی اس مسکراہٹ میں کرب تھا
ہاں چلو
_______________________
سرینہ بہلول کے سامنے سجی سنوری بیٹھی تھی دونوں خاموش تھے مگر ان کی خاموشی بہت کچھ کہہ رہی تھی
بہلول نے گہرا سانس لیا اور پھر اس کا ہاتھ تھام کر بولا
زیادہ مت سوچو جو ہو رہا ہے ہونے دو
سرینہ نے روتے ہوئے ایک دم ہاتھ چھروڑیا
بہلول بس کر دو اپنے اوپر خول چڑھنا بند کر دو کیوں کیا تم نے ایسا کیوں تم نے ترس کھا کر کی مجھ سے شادی
شاٹ آپ سرو آج تو بول دیا دوبارہ مت کہنا
تمہیں مجھ سے محبت ایک دم سے تو نہیں ہو گئی نا
بہلول چند منٹ اسے دیکھتا رہا پھر اس کے قریب ہو کر اس کا ماتھا چوم کر بولا
یہ نہیں کہوں گا ابھی ہوئی بہت پہلے سے تھی تمارا خیال ہر پل میرے ساتھ تھا
اب تم میری بیوی ہو اور میرا پورا حق ہے میں تمہیں پیار دوں اور ہمارے بیچ اب پریسہ کا زکر نہیں ہو گا
_______________________
وہ نیویارک پہنچ چکے تھے پہلے ہسپتال سے اپونیمنٹ لی
بہلول تم خوامخواہ اپنے پیسے ضائع کر رہے ہو میں نے نہیں بچنا ہاں اتنا ہے میں اپنے آخری ٹائم خوشی سے سپنڈ کرنا چاہتی ہوں
بہول کا چہرہ سفید پڑ گیا اسکی اس بات پہ لیکن خاموشی سے اگے چلنے لگا
وہ اتنا تیزی سے چل رہا تھا سرینہ جان گئ وہ حد سے زیادہ ناراض ہو گیا وہ بھی کیا کرتی اس کی محبت چھین لی گئی تھی کتنا خوش تھا اپنی مگیتر سے اب عمر بھر کا روگ وہ شاید گلٹ میں اس کے بعد شادی ہی نہ کرے اس لیے موت سے زیادہ یہ چیز سرینہ کو تکلیف دے رہی تھی
بہلول بہلول وہ بہت اگے نکل چکا تھا وہ بھاگنے لگی سڑیٹ بھی اتنی بزی تھی کہ بامشکل بہلول کے پاس پہنچی اور اس کا بازو پکڑ کر لمبے لمبے سانس لینے لگی
کہاں جا رہے ہو مجھے اکیلا چھوڑ کر
سرو کس نے کہا تھا میرے پیچھے آنے کو
بہلول فکر مندی اور غصے کے ملے جلے الفاظ میں بولا
میں تمارے بنا اس اجنبی ملک میں کہاں جاتی
سٹوپڈ لڑکی سامنے ہوٹل تھا وہاں چلی جاتی اس نے اسے غصے سے جھنجوڑ کر بینچ پر بیٹھایا
پیٹ میں تکلیف تو نہیں ہو رہی وہ اس کے پاس بیٹھ کر بولا
سرینہ نے نفی میں سر ہلایا
وہ اس کے بالوں کو کانوں کے پیچھے کرتے ہوئے بولا
چلو آؤ کہیں چلتے ہیں
کدھر اس نے بہلول کا ہاتھ تھام کر پوچھا
بس جہاں میں اور تو تم ہوں کھل کر اپنی دنیا جیتے ہیں جیسے ہم دو دوست جیتے تھے
سرو ہم میاں بیوی کے ساتھ ایک دوسرے کے اچھے دوست بھی تھے
اب یہ سوچنا چھوڑ دو کے تم بیمار ہو مرنے لگی ہو
انسان کی زندگی کا پتہ نہیں ہوتا میرا کوئی پتہ ہے ابھی زندہ ہوں دو منٹ میں کچھ ہو جائے
اس کی اس بات پر سرینہ کا دل بند ہوتا محسوس ہوا
ایسے مت بکواس کیا کرو بھالو۔۔وہ غصے سے اس کی بازو پر مارتے ہوئے بولی
بہلول اس کے ساتھ چلتے ہوئے ہنسا
تمہیں پتہ ہے تم نے پورے دو مہینے دو دن تیرا گھنٹے چار منٹ بارہ سیکنڈ بعد مجھے بھالو کہا
اف ابھی تک تمارے ڈرمائی انداز والی عادت نہیں گئ
ویسے ہم جا کہاں رہے ہیں
پہلے تو میں نے رینٹ کار منگوائی آتی ہو گی وہ ایک جگہ ویٹ کرتے ہوئے بولا
مطلب تم ناراض ہو کر نہیں آئے تھے تم کار لینے آئے تھے ؟
سرینہ منہ کھولتے ہوئے بولی
بہلول نے ہنس کر اس کا منہ بند کیا
اور پلیز زیادہ مت بولو ہمیشہ کی طرح میرا سر کھا جاتی ہو
سرینہ اس کو مارنے کے لیے لپکی اور وہ ہنستا ہوا بھاگنے لگا
بہلول اس کو زندگی میں لانے کے لئے کامیاب ہونے لگا تھا
وہ چاہتا تھا کہ سرینہ کو یہ گلٹ ہرگز نا ہوکہ اسکی وجہ سے وہ اورپری دور ہوۓ تھے.یہ تو قسمت کا لکھا تھا بہلول کا نام سرینہ سے جڑا تھا بہلول سرینہ کا تھا اور سرینہ بہلول کی تھی اس دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی ان دونوں کو ایک نا ہونے پہ اور موت بے شک انہیں الگ کردے لیکن جب تک زندگی ہے وہ ایک دوسرے کے لیے جیتے رہے گے اور یہ بات بہلول کو نکاح کے دو بولوں نے سمجھا دی تھی کہ پریسہ ایک انسیت تھی جبکہ سرینہ عشق اسکا پہلا عشق....
.......
وہ اس سے راک فلر سینٹر لے آیا تھا
کار سے باہر نکل آۓ
سرینہ نے اپنی جیکٹ پہنی
واو ویسے ہم لوگوں کو سکیٹنگ کرتا دیکھے گے
بہلول نے مفلر اپنے گلے میں باندھا اور ﮈگی سے آیس سکیٹس نکالے
جی نہیں ہم دونوں کرے گے
سرینہ کا منہ کھل گیا
کیا مطلب ہے تمہارا
مطلب کو چھوڑو چلو میرے ساتھ
اونو بلکل بھی نہیں مسٹر شاہ میں یہ نہیں کر سکتی سرینہ کا چہرہ سردی میں بھی پسینہ ہوگیا
مسز شاہ آپ یہ کر سکتی ہیں اگر نا کیا مجھ سے تین تک کٹی
بہلول سیریسلی میں یہ نہیں کر پاؤ گی میں گر جاؤ گی
میں تمھیں گرنے نہیں دوں گا
وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا.
ایک منٹ کے لیے سرینہ اسے دیکھتی رہی اسے بہلول کی آنکھیں بہت پسند تھیں وہ آنکھیں اسے سب کچھ کہہ رہی تھی جس سے وہ مان گئی کیونکہ وہ آنکھیں سرینہ کی سب سے بڑی کمزوری تھی.
That's my girl
بہلول کے ساتھ وہ سکیٹنگ ایریا میں داخل ہوئی لیکن ۃس نے بہلول کا بازو سختی سے پکڑا بہلول میں گر جاؤ گی قسم خدا کی ہاۓ میں مر گئی امی بچاؤ
اور بہلول نے اس کی کمر میں بازو پکڑ کر سیدھا کیا.
اف لڑکی میں تو سوچ رہا تھا ہم اسکائی ﮈرایونگ کرے لیکن تمھاری یہاں بھی حالت خراب ہو رہی ہے
وہ مسکراہٹ دباتے ہوۓبولا
سرینہ نے اسے گھورا بہلول نے اسے پکڑے رکھا لیکن ساتھ ساتھ تیزی سے ماہر انداز میں سکیٹنگ کرنے لگا
کہ سرینہ چیخنے لگی لوگ اس جناتی پھاڑ کھانے والی چیخ کو حیرت سے دیکھنے لگے
او لڑکی لوگوں کو کیوں ﮈرا رہی ہومیں نے کہا ہے میں تمھیں گرنے نہیں دوں گا
بہلول اسے اٹھا کر اڑنے لگا
اللہ میاں بچاۓ مجھے وہ اسکی بازو میں پھر ﮈری سہمی بچی کی طرح چیخنے لگی
سرو ایک دفعہ انکھیں بند کرو اور محسوس کرو تم اڑھ رہی ہو لسٹﮈواٹ پھر دیکھنا تمھارا سارا ﮈر ختم ہو جاۓ گا
سرینہ نے ﮈرتے ہوۓ انکھیں بند کی اور پھر اسے محسوس کرنے لگی بہلول سورل کی انداز میں اس گھمانے لگا سرینہ کو یہ سب اچھا لگنے لگا وہ اڑھنے لگی ساری پریشانیاں جیسے اڑتے ساتھ ہی غائب ہوتی جارہی تھی
سرو آنکھیں کھولو بہلول نے اسے نیچے کیا
اس نے آنکھیں کھولی اسے دیکھ رہی تھی میرا ہاتھ پکڑو اور پھر سکیٹنگ کرو
کوشش کرو تم کر سکتی ہو تم سب کر سکتی ہو
میں کر سکتی ہوں بھالو
ہاں کر سکتی ہو سب کچھ کر سکتی ہو پھر وہ چلنے لگی آہستہ آہستہ پھر وہ لڑکھڑائی لیکن اتنا مشکل نہیں تھا بہلول کے مضبوط ہاتھ اس کے ساتھ تھے
وہ جانتی تھی وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہیں گے
______________________
ڈاکٹر بیلا نے سرینہ کا چیک آپ کرنے کے بعد بہلول کو آفس بلوایا
مسٹر بہلول آپ کی وائف نے منٹلی اس بیماری کو سوچنا چھوڑ دیا، ہے اب وہ بہت خوش رہنے لگی ہے
وہ وقتی طور پر تو ٹھیک ہے مگر سچویشن کرٹیکل ہوتی جا رہی ہے
بہلول اس بات پر ایک منٹ چپ ہو گیا اس کا دل کیا یہاں سے بھاگ جائے کہیں کونے میں بہت روئے زندگی میں ایک ہی خوشی ملی تھی وہ بھی اس سے چھین لی جائے گی یہ قیمتی رشتے اس کے ساتھ ٹیکتے کیوں نہیں
ام ڈاکٹر از دیر ناٹ اوئے جس سے سرینہ کے بچنے کے چانسس ہوں
فل حال تو اس کا کیمو تھیراپی کرنا پڑے گا جو بہت پین فل ہے پھر دیکھتے ہیں آپ ہر ممکن کوشش کریں وہ سوچیں مت۔
Make her ahappist women
بہلول نے سر اثبات میں ہلا دیا
_________________________
پریسہ میرے گھر آئی تھی
نانو سے وہ فون پر بات کر کے بند کیا سرینہ نے اس بتایا
کب بہلول نے اس کا سنجیدہ چہرہ دیکھا
ابھی بازلہ نے بتایا کل آئی تھی
سرینہ منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی
دوائی لی تم نے
بہلول نے ٹاپک بدلنا ضروری سمجھا
بہلول تم کب سے ٹاپک بدلنے لگے ابھی نانو سے بات کرنے سے پہلے خود ہی تو مجھے دی تھی
سرینہ نے اس کے کندھے پر سر رکھا
تھکی لگ رہی ہو آؤ سوتے ہیں بہلول نے اسے اٹھانا چاہا
نہیں بھالو پریسہ نے شادی کر لی
بہلول نے سپاٹ چہرے سے اسے دیکھا
سرینہ نے اس کا چہرہ پڑھنا چاہا کچھ نا پا کر اس حیرت ہوئی
اچھا یہ تو اچھا ہوا مجھے کہہ رہی تھی تماری شادی کے فورن بعد میری بھی شادی ہے اور واقعی اس نے پروف کر دیا
بہلول اٹھا اور باتھ روم جانے لگا
سرینہ کی آواز پر پلٹا
اس نے وسیم سے شادی کر لی ہے بہلول
بہلول خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر بولا
اچھا ٹھیک ہے ابھی سوتے ہیں کل کہیں چلیں گے اور پھر شام کو کلی فورنیا کے لیے نکلنا ہے
ابھی مجھے ڈاکٹر بیلا کا میسج آیا تھا ڈاکٹر ڈیوڈ پانچ دن تک آئیں گے تب تک ہم گھوم لیتے ہیں
وہ مسکراتے ہوئے اندر گھس گیا اور سرینہ حیرت سے آنکھیں کھولے بہلول کا ریاکشن دیکھ رہی تھی
اسے کسی بات کا اثر نہیں ہوا ایسا کیسے ہو سکتا ہے وہ پریسہ سے پیار کرتا تھا کوئی مرد اتنا پاگل نہیں ہوتا جس طرح اس کو پرپوز کیا تھا دھوم دھام سے منگنی کی ڈھیروں شاپنگ اور اب یہ الله یہ کیا ہو رہا ہے
______________________
اس کی آنکھ رات کے تین بجے کھولی بہلول گہری نیند سو رہا تھا ۔اس کی حالت عجیب ہو رہی تھی پیٹ میں جیسے آگ سی محسوس ہو رہی تھی
اس نے لیمپ آن کیا
پانی ڈال کر پیا مگر اس کی تکلیف کم نہیں ہو رہی تھی رنگ پیلا آنکھیں سفید ہو رہی تھی
لمبے لمبے سانس لینے لگی
بہلول نے کروٹ بدل کر ہلکی سی آنکھ کھولی پھر ایک دم سے اٹھ گیا
سرو ٹھیک تو ہو اس کو بازو سے پکڑ کر پوچھنے لگالیکن سرینہ تیزی سے باتھ روم گھسی اسے ابکائی آی تھی
بہلول تیزی سے اس کے پیچھے آیا
وہ گر رہی تھی بہلول نے اسے پکڑا
آرام سے میں ابھی تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتا ہوں
تم مجھے بالکل بھی ٹھیک نہیں لگ رہی وہ اس کا ٹاول سے منہ صاف کرنے لگا۔
بہلول میں ٹھیک ہوں میڈیسن لوں گی سہی ہو جاؤں گی
وہ حد سے زیادہ مرجائی اور کمزور لگ رہی تھی پورے ایک ہفتے سے اس کا وزن بھی گرتا جارہا تھا ہڈیوں کا ڈانچہ بنتی جا رہی تھی کچھ بھی اس کے پیٹ میں نہیں ٹکتا تھا
بہلول نے اسے لیٹا کر میڈسن دی
میں تمارے لئے کچھ منگواتا ہوں بہت زیادہ حالت خراب کر لی ہے اپنی رات کو بھی بنا کھائے سوئی تھی وہ پریشانی سے اس کے چہرے سے بال ہٹانے لگا
سرینہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
میں ٹھیک ہوں بہلول چلو سوتے ہیں میں نے تماری نیند خراب کر دی وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی
اس کا بھی سفید ہو گیا تھا
میں تو اب ایک منٹ بھی نہیں سو سکوں گا تم نے میری جان نکال دی وہ اس کے ہاتھ چومتے ہوئے بولا آنکھیں شدت سے لال ہو گئی تھی
ماینڈ نہ کرو تو میں اس وقت ہارور فلم دیکھنا چاہتی ہوں وہ مسکرائی وہ اس وقت بہلول کو ٹینشن نہیں دینا چاہتی تھی
خیریت تو ہے متحرمہ رات کے اس وقت ڈرانی فلم اپنی چیخوں سے ہوٹل کے لوگوں کو جگانا ہے وہ ہنستے ہوئے بولا
سرینہ ہارور فلم سے کتراتی تھی اس بار بہلول دیکھنے لگا، تھا پھر کیا تھا کتنا ٹائم اس کی نیند حرام ہو گئی وہ سوتی بازلہ کو بھی اٹھانے لگ جاتی سارے کمرے کی لائٹیں آن کوئی چیز ہل جاتی تو پورا گھر سر پر اٹھا لیتی جس سے جن بھوت بھی بھاگ جائیں
نہیں میں تمہارے سینے میں چھپ جاؤں گی تمہیں زور سے پکڑ لو گی تم بانہوں میں لے کر دلاسا دینا پیار کرنا میری ساری تکلیفیں ایک دم گم جائیں گی ہاں یہ ہوگا میری نیند سے تماری بھی حرام ہو جائے گی..