بہلول نیچے تیار ہو کر آیا تو نانو ناشتہ لگا رہی تھی
اسلام علیکم نانو۔۔بہلول آرام سے کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا
نانو نے بہلول کو دیکھا تو اس کی آنکھیں بہت لال ہوئی تھی
بہلول کیا ہوا تمہیں؟ انہوں نے پریشانی سے اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر چیک کیا ۔۔کچھ نہیں ہوا نانو آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں
تمہاری آنکھیں پھر لال کیوں ہیں ۔
بہلول ہنس پڑا۔۔کسی کی یاد میں جاگتا رہا نانو اسے سوچتے نیند اڈھ گئی تھی ۔۔بہلول دیکھو ہر وقت مزاق اچھا نہیں ہے بتاؤ مجھے کیا بات ہے بہت بوجھل لگ رہے ہو ۔
میں ابھی کسی کام سے ہو کر آتا ہو
کون سا کام؟
نانو پری نے اپنی پسند کا سوٹ بھیجا ہے وہ کلر مجھے نہیں پسند میں اپنے لیے لینے جا رہا ہوں ۔پری کو بر لگے گا نانو نے سمجھایا
سوری نانو پیار اپنی جگہ مگر میں یہ نہیں پہن سکتا۔آپ کو پتہ ہے ایک دن سرو وائٹ کلر پہن آئی میرا پارہ چڑ گیا ڈانٹ دیا کے دوبارہ ایسے بھوت بن کر میرے سامنے مت آنا تو اس کا پسند کا کلر اس نے میری وجہ سے اپنی پسند کے کلر کو زندگی سے نکال ہی دیا ۔
بہلول ہنستے ہوئے ایک دم چپ سا ہو گیا ۔سرو سے آج دس دن ہو گئے بات نہیں ہوئی وہ خود کو بہت ادھورا محسوس کر رہا تھا ۔سرو اسکی بسٹ فرینڈ جو کہتا کرتی تھی ۔اتنا یقین تھا کہ اگر وہ اس کے کہنے پر عمارت سے جمپ بھی لگا دیتی۔ بنا چوں چراں کیے۔
بہلول کو چپ دیکھ کر نانو نے پوچھا بات ہوئی سرو سے ۔؟
نہیں نانو پری نے بتایا کے اس کی طبیعت خراب ہے ۔۔
نانو پریشان ہوئی کیا ہو گیا بچی کو بہلول بہت پریشان تھا نانو نے محسوس کیا محبت کسی اور سے کرتا ہے مگر فکر کسی اور کی کرتا ہے ۔۔وہ اسکے رویے کو دیکھ رہی تھی ۔وہ شاپنک مال میں لفٹ میں آیا دوسری طرف سرینہ کو دیکھ کر جھٹکا لگا۔لفٹ میں وہ دونوں تھے صرف۔
سرو تم کہاں غائب ہو گئی تھی؟ کیوں فون نہیں اٹھا رہی تھی؟ میں کتنا پریشان ہو گیا تھا ۔سرینہ شاکیڈ ہو کر اسے دیکھ رہی تھی ۔پھر اس کا ہاتھ جھٹک کر بولی۔ میری مرضی میں کسی کی غلام ہوں ۔
جو فون کر کے بتاتی پھروں ۔
بہلول کو اس کے ترش لہجے سے جھٹکا لگا۔
سرووو۔۔
پلیز مجھے اس نام سے مت پکارا کرو۔اپنی حد میں رہو تم بہتر ہے ۔مسٹر بہلول شاہ۔
بہلول کو پہلی بار دکھ کے ساتھ شدید غصہ آیا وہ ٹھنڈے دماغ کا مالک تھا ۔نہ جانے کیوں اسے سرینہ کا رویہ برداشت نہیں ہوا۔ویسے سب کا کر سکتا تھا مگر اس کا نہیں کر پایا۔
وہ کچھ بولنے ہی والا تھا کے لفٹ کھولنے کی آواز آئی اور سرینہ جلدی سرنکل گئی ۔
بہلول بھی اس کے پیچھے آیا اور بازو سے پکڑ لیا ۔۔آواز مت نکالنا۔چپ کر کے میرے ساتھ چلو۔ورنہ مجھے تماشہ کرنے سے فرق نہیں پڑے گا ۔تمہیں شرمندگی اٹھانی پڑے گی ۔۔بہلول کا لہجہ بہت سخت تھا ۔۔۔سرینہ نے حیرت سے بہول کو سخت لہجے میں دیکھا ۔
بہلول مجھے کوئی کام ہے مجھے جانے دو۔سرینہ کے لہجے میں کپکپی آ گئی اور آنکھوں میں آنسوں۔۔بہلول اچانک نرم پڑھ گیا ۔سرینہ کے آنسو اسکی کمزوری تھے ۔نہیں سرو تم جھوٹ بول رہی ہو
چپ کر کے میرے ساتھ چلو مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔دس دن سے مجھے پاگل کیا ہوا ہے اس کا حساب دو۔اب کے بار اس کا لہجہ تھکا ہوا تھا ۔سرینہ کو مزید جھٹکا لگا۔یہ بہلول کیوں کر رہا ہے ایسا میرے ساتھ ۔تمہیں پتہ ہے تم مجھے کتنی تکلیف دے رہی ہو ۔دوستی میں پاگل ہو میں عشق میں پاگل ہوں وہ دل میں اس سے مخاطب تھی ۔۔چلو آو مجھے منگنی کے سوٹ لینے میں ہلپ کرو۔میں تم سے ناراض تھا مگر اب نہیں ہوں ۔کتنا مس کیا تمہیں کتنے بور دس دن گزارے تمہارے بغیر اف سرو تمہاری شادی ہو گئی تو کیسے رہوں گا تمہارے بغیر ۔۔؟سرو شاکٹ ہو گئی ۔رک گئی بہلول نے اس کا چہرہ سفید پڑتے ریکھ کر چونکا ۔
سرو آریو آل رائٹ؟
بہلول نے اس کا ہاتھ دبایا۔
سرینہ نے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور جانے لگی۔بہلول نے اسے دوبارہ بازو سے پکڑ لیا ۔نہیں سرو مجھے آج دس دن کا حساب لینا ہے ۔بہلول اسے پہلی بار حکم دے رہا تھا سرینہ کی برداشت ختم ہو گئی تھی ۔
تم لگتے کیا ہو میرے؟ جو میں تمہیں حساب کتاب دوں۔ہاں بولو بہلول شاہ کیا لگتے ہو تم میرے؟
سرو۔۔۔۔
شٹ اپ جسٹ شٹ اپ بہت کر لی تم نے بکواس۔اب اور نہیں ورنہ سب کے سامنے تمھارا منہ توڑ دوں گی ۔سرینہ کی آنکھیں لال ہو رہی تھی ۔۔لال تو بہلول کی بھی ہو گئی تھی ۔اور اتنی کے سرینہ کو دیکھ کر ڈر لگ گیا تھا ۔
What did you just say sarina rabani
بہلول کا لہجہ انجانے میں سرد ہو گیا اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔
I just said back off mr behlul shah
سرینہ بھی اسی انداز میں بولی۔بہلول نے کہرا سانس لیا ۔
کیا ہو گیا ہے سرینہ کیوں کر رہی ہو ایسا؟ کچھ بتاؤ تو سہی
وہ اپنے آپ کو نارمل کر رہا تھا ۔اسے سرینہ کی بےگانگی تکلیف دے رہی تھی ۔تم نے کچھ نہیں کیا کیا تو میں نے ہے تم جیسے گھٹیا انسان سے دوستی کر کے
سرینہ جان بوجھ کر یہ بول رہی تھی تا کے وہ اس سے دور ہو جائے ۔
ٹھیک ہے اندر چلو پہلے سوٹ پسند کرو میں تمہیں ڈراپ کر دوں گا اکیلے آئی ہو نا۔
سرینہ نے دیکھا بہت لوگ ان کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔
اس لیے وہ شاپ کے اندر داخل ہو گئی ۔۔بہلول نے شکر کیا اور اسکے پیچھے اندر آ گیا ۔۔سرینہ نے شاپ کا جائزہ لیا ۔وہ سوٹ پر پرائیزز دیکھنے لگی جو آسمان سے باتیں کر رہے تھے ۔یہ مجھے پسند ہے ۔۔۔
تمہاری پسند واقعی ہی لا جواب ہے ۔وہ اس کے پیچھے کھڑا بول رہا تھا ۔۔سرینہ نے جھٹکے سے اسے دیکھا وہ مسکرا رہا تھا ۔
نیوی بیلو کوٹ اور پینٹ کے ساتھ وائٹ شرٹ جو بہت خوبصورت تھی اسے پتہ تھا بہلول اس میں بہت پیارا لگے گا ۔اس کے ساتھ کون سی ٹائی ججے گی؟ وہ ایسے بات کر رہا تھا جیسے ان کے بیچ کوئی تلغ کلامی نہیں ہوئی۔
وہ ایسے بات کر رہا تھا جیسے کوئی تلخ کلامی نہیں ہوئی تھی ۔
تمہاری مرضی۔۔وہ بے نیازی سے بولی۔اور اگے چل پڑی اچانک اس کی نظر ڈور سے آتے وسیم پر پڑی جو کسی لڑکی کے ساتھ دوسری شاپ میں تھے ۔۔اس نے آنکھیں سیکڑی وسیم تو سہی نظر آ گیا مگر لڑکی اگے نکل گئی ۔
کیا ہوا؟
اس نے سرو کو گلاس ڈور کو گھورتے دیکھ کر پوچھا ۔۔
سرینہ ایک دم بہلول کو دیکھنے لگی پھر ایک دم اسے احساس ہوا
اگر وسیم نے بھی بہلول کے ساتھ دیکھ لیا؟؟
وہ تیزی سے باہر نکلی اور لفٹ کا بٹن اون کیا
لفٹ کھولنے میں وقت لگا اندر کافی لوگ تھے ان کو نکالنے میں وقت لگا اتنے میں بہلول بھی آ گیا ۔سرینہ کا چہرہ زرد پڑ گیا ۔وہ جانتی تھی بہلول پیچھے آئے گا مگر اسے کیسے پتہ چلا میں تو کافی اگے والی لفٹ سے آئی۔لفٹ کو بند ہوتے دیکھ کر سرینہ نے رونا شروع کر دیا ۔۔۔وہ نیچے بیٹھ گئی منہ چھپا کر رونے لگی ۔
مجھے بتاو گی تمہارے ساتھ مسلہ کیا ہے اب بہلول نے شاپر پھینک کر دھاڑا۔۔اس نے اسے بازو سے پکڑ کے اوپر کھنچا وہ اس کے سینے سے لگ گئی اور کرنٹ کھا کر پیچھے ہو گئی ۔ڈونٹ ٹیچ می
بہلول کو لگا وہ پاگل ہو جائے گا ۔اسے سرینہ پاگل لگ رہی تھی ۔کیا ہو گیا ہے ۔اسے جب سے ہوٹل سے نکلی اس کا یہی انداز تھا ۔
لفٹ کھل گئی بہلول شاپر اٹھا کر اس کا ہاتھ کھنچا ۔
چھوڑ مجھے مگر بہلول اسے گھسیٹا گیا
کار کھول کر اسے اندر دھکیلا اور خود آ کر بیٹھ گیا ۔
سرینہ نے کھولنے کی کوشش کی مگر وہ لاک لگا چکا تھا ۔
کھولو کار بہلول میں کہہ رہی ہوں کھولو وہ بنا اس کی سنے چلاتا رہا
سرینہ نے اپنا کلیچ دیکھنا چاہا مگر اس کے پاس نہیں تھا اسے یاد آیا لفٹ میں رہ گیا ۔یا بہلول اٹھا چکا تھا ۔میرا کلچ رہ گیا اس میں فون اور پیسے تھے ۔وہ غصے سے بولی بہلول تو جیسے بہرہ ہو چکا تھا ۔
سرینہ نے اپنے ناخن زور سے اس کے بازو پر پنجا مارا۔بہلول نے ایک طرف کار روکی سرینہ بہت جنونی لگ رہی تھی ۔بہلول آئی سویر ٹو گاڈ میں تمھارا قتل کر دوں گی ۔چھوڑ مجھے ۔وہ چیخی اور رو دی۔
کتنے کمینے انسان ہو تم ۔پری سے دل بھر گیا اب مجھے اپنی ہوس کا نشانہ۔۔۔۔۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔
سرینہ نے ایک دم اسے پھٹی نگاؤں سے دیکھا ۔
What your mouth lady
بہلول چیخا
زور سے سٹیرینگ پر مکا مار کر چلایا۔ سرینہ نے اسے اتنے غصے میں پہلی بار دیکھا، اور ڈر سے آنکھیں بند کر لی۔سرینہ نے اس کے کردار پر جو چوٹ لگائی وہ بہت شدید تھی ۔اب میں تمہیں بتاتا ہوں سرینہ ربانی ہوس کیا چیز ہے ۔اس کی آنکھوں میں نمی تھی ۔
اس نے کار اسٹاٹ کی ریش ڈرائیونگ کرنے لگا۔سرینہ دہل گئی اسکے انداز کو دیکھ کر ۔بہلول مجھے واپس جججج جانا ہے وہ ہکلاتے بولی۔۔لیکن اب بہلول جنونی ہو گیا تھا ۔اس نے اسلام آباد کے ایک جگہ کار روکیا اور اسے بازو سے گھسٹا۔کدھر لے جا، رہے ہو مجھے ۔
چوکیدار سامنے بیٹھا تھا ۔
س لام بہلول بابا وہ جھٹ سے کھڑا ہو گیا
وعلیکم السلام بابا۔اس نے سرینہ کا بازو پکڑے رکھا۔پلیز مجھے بچائیں سرینہ نے روتے ہوئے کہا ۔بہلول نے اس کا ہاتھ مروڑ کر کان میں بولا کے یہاں کچھ بھی بولی تو میں سب کے سامنے لہاظ نہیں کروں گا ۔بہلول کی سرد آواز پر وہ کانپ گئی ۔۔بابا مجھے فلیٹ کی چابی دے دیں ۔۔بابا پریشانی سے سرینہ کو دیکھ رہے تھے ۔
بہلول بچہ میڈم نہیں آئی اور یہ کون ہے؟
بابا چابی وہ زور دے کر بولا۔
یہ پوری عمارت بہلول کی تھی ۔نانو نے بہلول کے نام کی تھی ۔چابی لے کر بولا نانو کو کچھ نہیں بتائے گا سمجھ گئے ۔؟
جی بچہ۔وہ سر ہلا کر بولا
بہلول اسے کھنچا اور لفٹ کہ بجائے سیڑھوں سے لے گیا لفٹ خراب تھی ۔۔آئم سوری بہلول مجھے چھوڑ دو۔سرینہ کی آواز ابھری
وہ بار بار یہی بولے جا، رہی تھی ۔بہلول نے سیکنڈ فلور کا دروازہ کھولا اسے اندر پھینکا ۔وہ نیچے منہ کے بل گری۔
سرینہ نے اپنے ہاتھ جوڈ دیے۔پلیز مجھے معاف کر دو۔میں نے انجانے میں غصے میں کچھ غلط بول دیا معاف کر دو۔
Sorry sarina but you have left me no choice
وہ اسے پکڑنے لگا سرینہ اس کے سینے سے لگ کے رونے لگی ۔
بہلول تم ایسا مت کرو میں ٹوٹ جاؤں گی ۔میں نے بس یہ سب اس لیے کیا کے تم مجھ سے نفرت کرو۔میں نہیں دیکھ سکتی تمہیں پریسہ کے ساتھ ۔بہت تکلیف ہوتی ہے جانتے ہو کیوں؟
Because I am madly in love with you.
Deeply in love with you i just cant see with you anyone
بہلول ساکت اس کا اعتراف سن رہا تھا ۔۔سرینہ اور اس سے پیار
بہلول تم بہت اچھے ہو ۔سب مردوں سے اچھے ۔پھر ایسا مت کرنا میں مر جاؤں گی ۔پلیز وہ اس کے سینے میں منہ چھپا کر رو رہی تھی ۔
**************
وہ فلیٹ کے فرش پر بیٹھی تھی بہلول کچھ دیر کے لئے باہر چلا گیا ۔
وہ زمین کو گھورے جا رہی تھی آج اس نے اعتراف کر لیا تھا ۔
نا جانے بہلول کیا سوچ رہا ہو گا ۔کتنی بری ہوں میں ۔اس کی دو دن میں منگنی ہے اور میں نے اس بول دیا میں اسے چاہتی ہوں ۔سرینہ نے سر تھام لیا اور رونے لگی ۔دروازہ کھولنے کی آواز آئی۔بہلول اندر داخل ہوا اس کے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی ۔وہ بھی اس کے پاس نیچے بیٹھ گیا ۔اس کے سامنے پانی کی بوتل رکھ دی
بھول جاؤ سرینہ جو تم نے کہا تھا ۔میں بھی بھول جاؤں گا ۔
کیا؟؟؟
سب بھول جاؤ سب ویسا ہی ہے میں تمھارا دوست تم میری بڈی
بہلول نے اس کا ہاتھ پکڑا
بہلول پلیز مجھے گھر چھوڑ دو امی ابو پریشان ہو رہے ہوں گے ۔میں مانتی ہوں مجھ سے غلطی ہوئی اب میں تم لوگوں سے بہت دور چلی جاؤں گی ۔وہ خاموشی سے اٹھا اور اس کے ساتھ چل پڑا۔
***********
کیسی لگ رہی ہوں ۔پری گرین کلر لمبفراک ہیوی کام والا۔ڈائمنڈ کا سیٹ پہنے۔حور لگ رہی تھی ۔سرینہ مسکرائی بہت پیاری لگتا ہے کوئی حور زمین پر اتر آئی۔
سرو تم نے میری خوامخواہ زیادہ تعریف کر دی ۔آج بہلول نے بے ہوش ہو جانا ہے ۔تمہیں دیکھ کر ۔وہ اپنا ٹیکا سیٹ کر رہی تھی ۔یہ نا ہو منگنی کے بجائے نکاح کا بول دیے۔
پری کا چہرہ لال ہو گیا ۔
پاگل اتنا دیوانہ نہیں ہے وہ
سرینہ نے جائزہ لیا ۔بلیو کلر میں اچھی لگ رہی تھی لیکن پری کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی ۔
پری تیار ہو گئی؟ پری کی آنی نے آ کر پوچھا ۔
یس مام آئی ایم ریڈی پریسہ نے گھوم کر اپنا آپ دکھایا۔
او میرے خدا پریسہ کی مام نے اس کے گال پر بوسہ دیا۔
اینڈ یو کانٹ بیلواٹ بہلول تو پرنس چارمنگ۔نرمین کا تو منہ کھل گیا جب انہوں نے میرے داماد کو دیکھا ظاہر ہے میری پری کی چوائس زبردست کیوں نہیں ہو گی۔وہ اور کچھ کہہ رہی تھی
سرینہ چپ کر کے بیٹھی تھی نہ جانے کیوں اسے اپنا آپ ان فٹ لگ رہا تھا ۔سرینہ تم نیچے جا کر دیکھو ساری اریجمنٹ ٹھیک ہے پری کی امی نے اس سے کام کروانا ضروری سمجھا
وہ مسکرا کر اٹھی
اف دروازہ جیسے بند کیا پری کی امی کی آواز سنائی دی
سریلی ریل ائی ڈونٹ لائک ہر۔۔بہت ہی بد صورت ہے تماری دوست تم کہہ رہی ہو اس کی منگنی ہو گئی اس کوجی سے کس نے کر لی
سرینہ کا چہرہ دھواں دھواں ہو گیا آج اسے اپنا آپ اتنا برا لگ رہا تھا دل کر رہا تھا تیزاب اپنے منہ پر پھنک دے۔
اس نے اپنے آنسو پونچے اور باہر نکل گئی
وہاں بہلول کو دیکھا نیوی بیلو سوٹ میں اتنا پیارا لگ رہا تھا ایک منٹ کے لیے سرینہ مسمر ائز ہو گئی وہ کس بات پر مسکرا رہا تھا گالوں پر پڑا ڈیمپل اور ہیزل آنکھوں کی چمک مزید اسے دلکش بنا رہی تھی ۔سرینہ کے دل پر بجتے شور کو اگنور کرتے ہوئے اسکے پاس آئی وہ نانو سے کچھ کہہ رہا تھا ۔اسے دیکھ کر چونکا پھر مسکرایا ۔
سرو تم.؟ نانو یہ دیکھیں مل لیجئیے سرو سے ۔آج آپ کی خواہش پوری ہو گئی ۔۔سرینہ نے نانو کو دیکھا جو گرین سادہ شلوار قمیض میں بہت گریس فل لگ رہی تھی انہوں نے سرینہ کو گلے لگا لیا
ماشاءاللہ بہت پیاری بچی ہے ویسے بیٹا میں بہت ناراض ہوں بہلول کی تین سال پرانی دوست ہو اور ابھی تک مجھ سے نہیں ملی۔
سرینہ مسکرا دی۔
یہ آپ اس بھالو کو کہیتں مجھے تو ایک دفعہ بھی انوائیٹ نہیں کیا
بہلول نےاسے غور سے دیکھا وہ جیسے دکھ ملال رنج نام کی کوئی چیز نہیں تھی تو کیا سرینہ سب کچھ بھول گئی ۔
آئی جھوٹی! تم خود نہیں آئی تھی کتنی دفعہ بلوایا تھا ۔
بہلول مصنوعی غصے سےبولا۔
وہ دیکھو پری آ گئی ۔۔اس نے پری کو دیکھا جو اپنے ڈیڈ کے ساتھ آ رہی تھی ۔۔۔لائنوں میں دونوں طرف اس کے کذن کھڑے تھے ۔جیسے ہی اس نے اسٹیج پر قدم رکھا پھولوں کی پتیاں اس پر گرنے لگی۔اس کے ارد گرد سپاکل فائر ہونے لگے
بہلول مسکرا کر بھرپور فلمی انداز میں ایک ٹانگ بنڈ کر کے ہاتھ اس کے سامنے پھلا دیا۔
سرینہ کو لگا وہ کوئی فلمی سین دیکھ رہی ہے پریسہ نے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھام لیا اور ہوٹینگ شروع ہو گئی ۔
اوپر آتش بازی ہونے لگی اور سب قہقہے گونجنے لگےادھر سرینہ کے اندر گھٹن پیدا ہو رہی ہے
اس نے دیکھا دونوں بیٹھ چکے تھے اور خوش گپیوں میں لگ گئے وہ یوہی ان کو دیکھتی رہی۔
سرینہ تم زرا نیچے چلی جاؤ۔ابھی فوٹو سیشن ہونے لگا ہے میں نہیں چاہتی ہماری پکچرز خراب ہوں۔۔۔پریسہ کی امی نے حد کر دی ۔
سرینہ سر جھکا کر نیچے اتر گئی ۔اور چلتی گی اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔جہاں قہقہے تھے ہنسی تھی مسکراہٹ وہ چلتی گئی وہ ان کا حصہ نہیں تھی وہ چلتی باہر آ گئی ۔ادھر اُدھر سڑکوں پر دیکھنے لگی۔اس نے پریسہ کے ڈرائیور سے کہا اسے ڈراپ کر دے کیونکہ پریسہ کہہ چکی تھی وہ سرینہ کو اس کے گھر چھوڑ دے۔
ڈرائیور اس کے اتنے جلدی جانے پر حیران ہوا پر کیا کر سکتا تھا
اس لیے چپ کر کے اسے چھوڑ گیا اس نے بیل بجائی۔
دروازہ بازلہ نے کھولا. آپی آپ جلدی آ گئی آپی آپ کی ناک سے خون؟ بازلہ چیخ پڑی۔
سرینہ نے ایک نظر بازلہ کو دیکھا اور سامنے آتے ابو کو اور وہ لہرا کر نیچے گر گئی ۔