زوہان اس کے پاس بھاگتے ہوئے آیا۔
سرینہ سرینہ
سرینہ یونی سے باہر نکل رہی تھی ۔اپنے کلاس فیلو زوہان کی بات پر مڑی۔۔ہاں زوہان بولو
وہ نا بہلول
کیا ہوا بہلول کو اس کا دل دھڑکا
وہ بہلول کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے
واٹ؟؟ سرینہ چیخیی یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟
ہاں اس کی بہت سیریس کنڈیشن ہے مجھے لگا تمہیں پتہ ہو گا ۔
کون سے ہسپتال میں ہے؟ وہ روتے ہوئے بولی۔
زوہان نے اسے ایم ایچ کہہ کر ڈراپ کرنے کی آفر دی
اس نے منع کر کے اپنے وین والے کو واپس بھیجا اور پھر ٹیکسی منگوا کر سیدھا ہسپتال پہنچی۔اس کا دل بہت رو رہا تھا ۔اگر اسے کچھ ہو گیا تو وہ بار بار بہلول کے لئے دل سے دعا کر رہی تھی ۔وہ وی آئی پی روم میں آئی دروازہ کھولا ۔اس کی حیرت سے آنکھیں پھٹ گئیں
Happy birthday to you
Happy birthday dear saru
بہلول نے ہسپتال کے کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔سر پر پٹی تھی بازو پر پلاستر چڑھا تھا ۔لیکن یہ کیا وہ تو ناچ رہا تھا ۔اور یہاں بہلول کے علاوہ اس کے سب دوست بھی تھے ۔امبرین نے نرس کا لباس پہنا ہوا تھا ۔ٹونی یعنی تنویر نے ڈاکٹر کا روپ دھار رکھا تھا ۔
عامر نے پولیس کے کپڑے پہن رکھے تھے ۔ساتھ پیٹ بھی نکالا تھا تکیے سے ۔علی نے پی اے کا جب کہ شازمین نے بڈھوں والا روپ دھارا تھا ۔تاکہ بہلول کی نانی لگے۔ان سب نے یہ حرکت بہلول کے کہنے پر کی تھی ۔تا کہ سرو کی برتھ ڈے کچھ نئے انداز میں کی جائے ۔
کمرہ بھی سجایا گیا تھا ۔سرینہ کو غصہ آ گیا ۔اتنا بڑا مزاق اس نے اگے بڑھ کر بہلول کے سینے پر مکا مارا
بہلول کافی لمبا تھا اوپر سے اچھل بھی بہت رہا تھا ۔
بہلول نے چونک کر اسے دیکھا پھر وہ مکوں کی بارش کرنے لگی۔اتنا گھٹیا مزاق آئی ہیٹ یو بہلول وہ رو دی
بہلول کے ساتھ سب ہی گھبرا اٹھے۔بہلول نے کچھ سوچ کر قہقہہ لگایا ساتھ سب کو بھی اشارہ کیا سب ہنسنے لگے ۔سرینہ نے سب کو حیرانگی سے دیکھا اس کی بھی ہنسی نکل گئی بہلول نے اسے ہنستا دیکھا تو سکون کا سانس لیا ۔چلو بڈیا آؤ کیک کاٹو بھوک لگ رہی ہے ۔۔اس نے سرینہ کو ہاتھ سے پکڑ کر کھنچا ۔
پھر ان کی زندگی میں پریسہ نے قدم رکھا پریسہ جاپان سے آئی ہوئی تھی ۔وہ ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی نٹ کھٹ خوبصورت سی۔۔۔سرینہ کی دوستی اس سے تب ہوئی۔جب وہ رستہ ڈھونڈ رہی تھی تو شرارتی لڑکوں نے اسے پرنسپل کا آفس بتا دیا ۔سرینہ نے دیکھ لیا اور اسے روکا۔بات سنے آپ یہاں جا رہی ہیں وہ پرنسپل کا آفس ہے ۔لیکن ان لوگوں نے تو بتایا تھا کہ وہ بلاک بی ہے
وہ تنگ کر رہے تھے میں آپ کو لے کے چلتی ہوں ۔
اوہو تھینک یو
میں سرینہ ربانی سیکنڈ سمسٹر میں ہوں اور آپ؟
میں پریسہ عالم سیم سمسٹر لیکن فرسٹ کے پیپر اگلے سال دوں گی ۔پھر تو اپ ہمارے ساتھ ہیں دوستی پریسہ مسکرائی اور اثبات میں سر ہلا دیا۔دونوں نے ہاتھ ملایا اور ابھی کلاس میں داخل ہونے ہی والی تھی کہ بہلول آ گیا ۔ہو از شی؟ بہلول نے اس پیاری لڑکی کو سرینہ کے ساتھ دیکھ کر پوچھا
یہ پریسہ ہے میری دوست ۔
بے وفا لڑکی تم نے نئ دوست بنا لی۔بہلول مصنوعی غصہ دیکھنے لگا
ہاں آج میں نے بھی سوچا کچھ نیا کروں ۔پریسہ یہ میرا پاگل دوست ہے ۔بہلول لیکن ہم اسے پیار سے بھالو کہتے ہیں ۔آپ بھی مجھے بھالو کہہ سکتی ہیں وہ مسکرایا
پھر تینوں گہرے دوست بن گئے ۔۔ایک دن سرینہ اور بہلول کسی بات پر ہنس رہے تھے تو پریسہ بولی
Gusy do you like each other
سرینہ کا دل رکا جیسے
نہیں یار ایسی کوئی بات نہیں ہم جسٹ فرینڈ ہیں ہوتا تو تب نا کے جب پریٹی لڑکی انگیجیڈ نہیں ہوتی
سرینہ کے دل کی رفتار تیز ہو گئی ۔
کیا رینہ انگجیڈ ہے کبھی بتایا نہیں ۔
بس یاد نہیں رہا
کیا مطلب میری تماری دوستی کو مہنہ ہو گیا
اچھا نا سوری
ویسے ہے کون لکی
میرے بابا کا کزن وسیم
بس زیادہ مت پوچھو شرماتی ہے ۔چھوڑو بھی بھالو سر عدیل کے نوٹس تم نے ابھی تک نہیں دیے مجھے ۔
سرینہ نے ٹاپک بدلا
وہ تو میں تمہیں بھیج چکا اگر بدلنے کے لئے ٹاپک نہیں مل رہا تو میں بتاؤں وہ ہنسا۔
بھالوووو سرینہ چیخی
پری ہنس پڑی
تم کیا روز اسی طرح لڑتے ہو
ہاں کچھ ایسا ہی ہے مگر لڑائی ہمیشہ یہی کرتی ہے
بہلول کے بچے میں اب بالکل بھی بات نہیں کروں گی ۔
سرینہ اٹھ گئی بہلول نے اسے روکا۔
اچھا بابا سوری۔تم آج کچھ زیادہ ہی ایموشنل ہو رہی ہو ۔بہلول نے مسکرا کر اس کی ناک دبائی۔۔سرینہ چڑی
پریسہ نے محسوس کیا کے بہلول کے نام سے سرینہ مسکراتی ہے وسیم کے نام سے اس کی مسکراہٹ غائب ہو جاتی ہے ۔اسے عجیب لگا
پری چھوڑو اس پاگل کو ہم مووی دیکھنے چلتے ہیں ۔
سرینہ نے پریسہ کا ہاتھ پکڑا تو پریسہ چونکی
ارے تم مجھے اکیلے نہیں چھوڑ سکتی تم میری دوست ہو ۔
بہلول نے مسکنیت چہرے پر طاری کر کے بولا۔
لیکن یہ پہلے میری دوست ہے سرینہ نے دلیل دی
لیکن پری میری سب سے بسٹ بڈی ہے ۔بہلول کی نظریں پری پر گئی
اس وقت سرینہ چونکی
اوہو تم دونوں بھی نا چلو مل کر دیکھتے ہیں سب
آج اسے بہلول میں بہت تبدیلی نظر آرہی تھی ۔
وہ بدلا تو نہیں تھا پر نہ جانے کیوں بدلا بدلا لگ رہا تھا ۔اس کا اس طرح بدلنا بھی اچھا نہیں لگا۔۔۔اس نے پری کو دیکھا وہ بے تحاشا خوبصورت تھی سرینہ کا سانولا رنگ اس کے سامنے کالا تھا ۔بہلول بھی اتنا ہی خوبصورت تھا
ارے کہا کھو گئی سرو
چلو پری نے پروگرام بنا لیا فلم کے بعد ہم دامنے کو چلیں گے
بہلول کی آواز پر سرینہ چونکی اور ان کے ساتھ چلنے لگی۔لیکن اس کے دل میں عجیب سی بے چینی آگئ تھی ۔۔
وہ جب گھر میں داخل ہوئی تھی وسیم کی امی اور اس کا چھوٹا بھائی آیا ہوا تھا سرینہ بیٹا آج اتنی دیر کیوں لگا، دی۔تمہیں پتہ تھا چاچی آنے والی ہے ۔سرینہ کی امی نے اسے ڈانٹا
ارے کیوں ڈانٹ رہی ہو ۔۔بچی کو دیر ہو جاتی ہے بڑی یونی ہے جب کنزہ نے ماستر کیا تھا اسی طرح لیٹ ہو جاتی تھی
چاچی بہت پیار سے اسے ملی اور اس کی امی کو سمجھایا ۔
میں ابھی آئی وہ اوپر چلی گئی اور دروازہ بند کر لیا ۔
اف یہ لوگ کیا بار بار لینے آ جاتے ہیں ان کو اپنے گھر آرام نہیں لگتا۔۔۔اس نے غصے سے ہاتھ میں پکڑی فائل بیڈ پر پھینک دی۔کاٹن کا سادہ گرین سوٹ نکال کر واش روم گھس گئی ۔
جب نیچے آئی تو دیکھا وسیم بھی بیٹھا ہوا مسکرا رہا تھا
اف یہ بھی سرینہ نے غصے سے وسیم کو دیکھا
وسیم کی نظر سرینہ پر پڑی عام سے حلیے میں تھی
سرینہ کو اس کا اس طرح دیکھا بے حد برا لگا۔۔
بھائی سنمھبل کر ساتھ بھابی بیٹھی ہیں ۔ولید نے اس کے بازو پر کونی ماری۔اور کان میں سرگوشی کی ۔وسیم مسکرا کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔
سرینہ کچن میں جا کر دیکھو کھانا پک گیا ہے سلاد دوبازلہ کو کہہ دیتی ہوں لیکن اس کا پیپر ہے امی اسے دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔سرینہ کے لیے یہی بہت تھا ۔
وہ اندر گھس گئی اور سلاد کا سامان لے کر کاٹنے لگی۔اچانک کوئی اندر داخل ہوا ۔سرینہ نے سر اٹھا کر دیکھا تو وسیم ۔اس نے غصہ ضبط کر کے پوچھا کیا چاہتے ہیں آپ؟
پانی بہت سوچ کر بولا۔
سرینہ نے جلدی سے فریج سے پانی کی بوتل نکال کر گلاس میں ڈال کر اسے دیا۔
تھینک یو سرینہ ایک بات پوچھو؟
جی بولیں بے زاری سے بولی۔۔
کیا تم خوش نہیں ہو اس رشتے سے وسیم نے اسے کہری نظروں سے دیکھا ۔۔
سرینہ کا ایک دل تو کیا کہ بول دے ہاں تم بالکل بھی اچھے نہیں لگتے۔ لیکن ابو کا ڈر اسے چپ کرا گیا ۔
میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے سرینہ۔۔
یہ آج منگنی کے دو سال بعد آپ کو کیوں خیال آیا؟
سرینہ کا لہجہ عجیب تھا ۔
وسیم نے گلاس رکھا ۔۔سرینہ کو حیرت نہیں ہوئی ۔کے وہ اتنے آرام سے کچن میں آ گیا ۔
پتہ نہیں تم بہت کم نظر آنے لگی ہو جب بھی تمارے گھر آتا ہوں منگنی سے پہلے تو تم مزے سے کھل کے بات کرتی تھی ۔ہنسی بھی تمارے چہرے سے ہٹتی نہیں تھی ۔اب یہ سنجیدگی ایک دم تمارا خاموش سا ہو جاناپھر ہم سب میں نہ بیٹھنا مجھے کرتی تو شرم سمجھتا لیکن تم نے میرے بہن بھائیوں کو بھی پوچھنا چھوڑ دیا ۔
وہ کچھ کہنے لگی تو بازلہ آ گئی
آپی آپ کی دوست آئی ہے
کون؟؟؟
پریسہ
پری آئی ہے سرینہ خوشی سے باہر نکلی۔وسیم کو بہت حیرت ہوئی کے اس کی دوست کے آنے سے چہرہ اتنا خوش۔بے زاری جیسے گم گئ تھی ۔وہ باہر نکل آیا۔اس نے دیکھا وہ کسی سے مل رہی تھی ۔جب سرینہ ہٹی تو ایک منٹ کے لئے وسیم جم گیا ۔
وہ کیا تھی جیسے آسمان سے اتری ہوئی پری۔اس کا نام یہی ہونا چاہیے۔پریسہ نے پنک کلر کی لمبی قمیض کے ساتھ بلیک جینز ساتھ میچ دوپٹہ۔سانوں پر ۔اس کے گالوں کی سرخی نے وسیم کا دل عجیب دھڑکا۔اس نے اتنی حسین لڑکی پہلے کبھی نہیں دیکھی سرینہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی ۔۔۔اوہو تو آپ ہیں سرینہ کے منگیتر ۔۔۔میں سرینہ کی دوست پریسہ
پریسہ سب سے ملی ایک خوش شکل لڑکا کھڑا تھا پریسہ نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو ولید نے بتایا یہ ہے سرینہ کا منگیتر اور میرا بھائی وسیم
یوسف
سرینہ کا منہ بگڑ گیا چاچی اور امی کچن گھس گئی ۔پری وسیم کے پاس آئی ۔وسیم بے خودی میں اسے دیکھا جا رہا تھا پھر سنبھلا۔۔۔اسلام وعلیکم آپ ہیں سرینہ کی دوست؟
پریسہ مسکرائی تو اس کے چمکتے دانتوں نے وسیم کا دل لوٹ لیا ۔
جی ہاں میں ہوں سرینہ کی دوست اس نے کبھی مجھے آپ کی فوٹو نہیں دیکھائی تھی ۔میں سمجھ رہی تھی شاید آپ بد صورت ہیں اس لیے مگر آپ تو کافی ہنیڈ سم ہیں ۔اس کی اس بات نے وسیم کے چھکے چھڑا دیے۔
پری میرے ساتھ اوپر چلو سرینہ نے پری کا ہاتھ پکڑ کر اوپر لے جانے لگی ۔
اٹ واز نائس ٹو میٹ یو۔اس نے وسیم کی طرف ہاتھ بڑھایا سب حیرانگی سے اسے دیکھ رہے تھے مگر سرینہ جانتی تھی کے پری بولڈ سی ہے ۔وسیم کا دل مچل اٹھا۔وسیم نے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔اور پری نے ہاتھ ملا کر اتنی سنگین غلطی کی تھی جس سے اس کی زندگی بدل جائے گی
یو نوسرو آج بہلول مجھے اپنی نانو سے ملوانے لے گیا تھا ۔شی از سو سویٹ اتنی امیزنگ خاتون میں نے زندگی میں نہیں دیکھی۔
سرینہ کو مزید جھٹکا لگا اسے کبھی نہیں لے کر گیا نانو، سے ملوانے دل میں سوچنے لگی میں بھی تو دوست تھی مجھے کبھی نہیں لے گئےبہلول حتی کے ایسا نہیں تھا وہ بہت بار آفر کر چکا تھا مگر یہ گھبرا جاتی تھی انکار کر دیتی۔مگر پری کو کوئی مسلہ نہیں تھا وہ کہیں بھی آ جا سکتی تھی اس کے گھر تھا بھی کون ڈیڈی بزنس میں ماما دوستوں کے ساتھ پارٹی میں
پتہ ہے نانو نے تمارا بھی پوچھا تھا
اچھا کیا کہہ رہی تھی سرینہ کو سن کے بہت اچھا لگا۔
وہ بہلول کو ڈانٹ رہی تھی کے پری کو لے آئے اپنی سرو کو بھول گئے
تو بہلول نے کہا وہ بہت مصروف ہے اگر انا ہوتا تو خود آ جاتی بنا بتائےسرینہ چپ کر کے سنتی رہی۔وہ آج کچھ زیادہ بول رہی تھی ۔بہلول کے بارے میں اس کے منہ سے سننا بہت برا لگ رہا تھا سرو کو۔
دل اس کا کہہ رہا تھا کے بہلول میرا ہے بس میرا دل کمنگی کر، رہا تھا اور دماغ کہہ رہا تھا تم وسیم کی ہو اور کا سوچنا بھی تمارے لئے گناہ ہے دل نہیں وسیم سے نکاح تو نہیں ہوا اسے بھی سوچنا گناہ ہے منگنی ٹوٹ بھی جاتی ہے
سرو سرو کہا کھو گئی یار
سرینہ چونکی پری اسے بہت پریشانی سے دیکھ رہی تھی جو چپ کھویا ہوا اسے دیکھ کر ۔
کچھ نہیں چلو کھانا لگ گیا ہو گا کھاتے ہیں ۔
پھر کبھی سہی ابھی مجھے جانا ہے ۔سرینہ نے بھی زیادہ نہیں روکا اور وہ چلی گئی ۔
بہلول میں سوچ رہی ہوں تمہارے اگزامز کے بعد ایک چھوٹی سی پارٹی رکھیں ۔
بہلول ہنس کر خیریت ہے نانو آپ کو کب سے پارٹیوں کا شوق ہو گیا ۔
بھئ میں چاہتی ہوں میں سرو سے بھی ملوں۔
تو اس کے لیے پارٹی کیوں؟
تم جس طرح اس بچی کا مجھے بتاتے ہو ایسے لگتا ہے میری چھوٹی بہن سارہ کا زکر ہو رہ ہو۔۔تصویریں بھی اس کے جیسی لگ رہی تھی ۔اس لئے بہت شوق ہے میں اس سے ملوں۔مجھے دکھ ہے کے اس کی منگنی ہو گئی ۔
ارے نانو دکھ کی بات کہاں سے آ گئی ۔
کاش اسکی منگنی نہیں ہوئی ہوتی تو میں تمہارے لیے اس کو مانگ لیتی ۔
بہلول کو اچھو لگا۔
ارے لڑکے کیا کر رہا ہے یہ لو پانی پیو۔نانو نے اسے پانی دے کر اس کی پیٹھ پر تھپکی دی
نانو آپ نے یہ بات کیوں سوچی سرو تو بالکل دوست کی طرح ہے
نانو وہ بہت اچھی ہے اس نے سنجیدگی کا خول چڑھا رکھا ہے ورنہ اندر سے بہت کچھ کرنا چاہتی ہے ۔جو ایک آزاد بندہ کرتا ہے گھومنا پھرنا ہنسنا موج مستی ڈرائیونگ لیکن اسے یہ سب سے روکا جاتا ہے اس کے اندر نھنی خواہشات دب گئی ہیں ۔میں اسے بس اس خول سے نکالنا چاہتا ہوں ۔رہی بات شادی کی جس سے ملوایا تھا وہ آپ کو بہو کے طور پر نہیں پسند ۔؟
نانو نے ایک دم حیرانگی سے اسے دیکھا ۔
کیا تم پری میں انٹرسٹڈ ہو نانو کی آواز میں حیرت تھی ۔
بس یہی سمجھتے نانو۔بہلول کے دل کو کوئی بھا گیابہلول شرارت سے آنکھ مار کر بولا۔
چل ہٹ بے شرم نانو نے کان مروڑے. ۔بہلول ہنس کر نانو کے گلے لگ گیا
اور اسی طرح تین سال گزر گئے ۔بہلول کو اتنی ہمت نہیں تھی کہ پری سے دل کی بات کرے۔وہ ہمیشہ بعد میں بتانے کی سوچ کر خاموش رہتا
ادھر وسیم کو سرینہ میں دلچسپی نہیں رہی تھی ۔
اسے سرینہ کا سانولہ رنگ کالا لگنے لگا تھا ۔اسے پری کا حسن دیوانہ کر گیا تھا ۔اس نے سرینہ کے گھر آنا بند کر دیا اور ماسٹر کے لیے لاہور چلا گیا ۔۔۔سرینہ کو کون سا فرق پڑتا کے وہ کدھر ہے کہاں ہے ۔اسے دن بہ دن بہلول سے کہری محبت ہو گئی تھی ۔ایک دن جب بازلہ کو پتہ چلا اس نے اپنی بہن کو جھنجوڑ ڈالا۔آپی آپ کا دماغ خراب ہے ۔آپ کیا کر رہی ہیں اپنے ساتھ ۔اپنے ساتھ نا صرف وسیم کو دھوکہ دے رہی ہیں بلکہ ماما پاپا کو بھی دھوکہ دے رہی ہیں ۔آپ نے اس شخص کو دل میں کیوں جگہ دی جو سرے سے آپ کا تھا ہی نہیں ۔۔کیوں اسے سجدے میں مانگ رہی ہیں کیوں؟
سرینہ روتے ہوئے اس کے گلے لگ گئی ۔میرا دل پر اختیار نہیں بازلہ میں نے بہت روکا خود کو ملامت کی ۔میں بس دل میں اسے چاہتی ہوں کوئی اس کے ساتھ بھاگ نہیں رہی۔میں بس چپ ہوں تو ابو کے مان کی وجہ سے ۔جو ان کو مجھ پر ہے ۔وہ ایک دم روتے ہوئے بے ہوش ہو گئی ۔کیونکہ اس دن بازلہ کو پتہ چلا جب بہلول نے پری کو پرپوز کیا ۔
جب سرینہ دکھ سے نڈھال گھر پہنچی تو بازلہ اسے لعنت ملامت کرنے لگی۔بازلہ سرینہ کو ہلانے لگی اور خود پر غصہ آیا اسے کے کیوں بہن کو ستایا محبت کرنا کوئی جرم نہیں ۔۔آپی آنکھ کھولیں امی امی دیکھیں آپی کو کیا ہو گیا ۔امی نے سرینہ کو دیکھا ان کا دل دہل گیا ۔
بازلہ ہوا کیا اسے؟
امی پتہ نہیں ایک دم بےہوش ہو گئی بازلہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔پاپا بھی گھر نہیں کیا کرو۔اب اسے
سرینہ کو بیس منٹ بعد ہوش آیا۔رستے میں ہی تھے ابھی جب وہ امی ابو کو بولانے لگی تو بازلہ نے شور کر دیا آپی کو ہوش آ گیا
سرینہ میرے بچے کیا ہو گیا تھا ۔
ہم کہاں جا رہے ہیں؟ سرینہ نے بازلہ کی گود سے سر اٹھانے کی کوشش کی ۔لیٹی رہیں آپی۔آپ کو ہسپتال لے جا رہیں ہیں ۔
نہیں میں ٹھیک ہوں ابو واپس چلیں۔۔
نہیں بیٹا تم ٹھیک نہیں چیک آپ کروا لیں ربانی صاحب پیار سے بولے
ڈاکٹر پاس گئے ۔ڈاکٹر نے کہا ٹینس کی وجہ سے اس کی طبعیت خراب ہوئی ہے ۔بازلہ تو سمجھ گئ امی ابو پڑھائی کی ٹینس سمجھتے رہے ۔
امی ملکشیک بنا لائی اس زبردستی پلوایا۔سرینہ دودھ سے بنی کوئی چیز پسند نہیں کرتی تھی اس لیے منہ بنا کر پیا۔
بیٹا تمہارے ابو تماری وجہ سے رات بھر نہیں سوئے
یہ بات سن کر سرینہ کی آنکھیں نا جانے کیوں بھیگ گئی ۔جس کو پاگلوں کی طرح چاہتی ہے اسے کوئی پرواہ نہیں سرینہ کے اندر سے آواز آئی۔
اب تم نے فل ہال کوئی پڑھائی نہیں کرنی بہت ٹائم ہے آگزمز میں بازلہ کے ساتھ کوئی فلم دیکھو۔امی نے اس کا ماتھا چوما اور چلی گئی ۔
فون کی بیل پر چونک دیکھا تو بہلول کالنگ۔اس نے بند کر دیا ٹی وی اون کر کے بیٹھ گئی ۔دوبارہ پھر بیل ہوئی دیکھا پھر بہلول کالنگ۔
اس نے فون ہی آف کر دیا فل حال وہ کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتی تھی ۔نہ بہلول نہ پری اور نہ کچھ دن ان کی شکل دیکھنا چاہتی تھی ۔۔
عجیب بات ہے نانو۔سرو دو دن سے میرا فون نہیں اٹھا رہی ۔اور اب مسلسل اس کا فون بند جا رہا ہے ۔
ہو سکتا ہے بیٹا وہ آج کل بزی ہو ۔۔نہیں نانو میں نے جب سے پری کو پرپوز کیا وہ بہت چپ چپ سی ہو گئی پھر ایک دم فون بند ہو جانا کچھ عجیب سا لگ رہا ہے ۔
نانو ایک دم چپ ہو گئی جو وہ بات کر رہا تھا اس پر نانو بھ ٹھٹک گئی ۔۔نانو کیسی ہیں آپ ایک دم پری ان کے سامنے آئی۔اور گلے ملنے لگی۔بہلول جو سوچ میں تھا اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔خیر تو ہے سسرال کی یاد کیسے آ گئی؟
پری کا چہرہ گلابی ہو گرناک چڑا کے بولی
ہیلو میں نانو سے ملنے آئی ہوں ۔مجھے کچھ شاپنگ کرنی ہے میں بہلول کے ساتھ بالکل نہیں جا رہی آپ چلیں۔
وہ بہت فضول شاپنگ کرتا ہے ۔بے مطلب ہی لے لیتا ہے
تو تمارا کیا خیال ہے یہ جو اتنی مہنگی انگھوٹی نانو کی پسند سے لیآپ کی سوچ غلط ہے ۔میری ہر چیز کمال ہوتی ہے دنیا واہ واہ کرتی ہے سرو کبھی کسی سے مشورہ نہیں لیتی مجھ سے لیتی ہے کیا پہنو کیا سہی ہے ۔سرو تو پاگل ہے جو تم پر فدا ہو ہے ۔
اس کے کہنے کی دیر تھی نانو ہنستے ہوئے ایک دم چپ ہو گئی
کیا سرو بہلول کو نہیں نہیں وہ تو منگنی شدہ ہے ۔دونوں کی نوک جھوک سن کر نانو سوچ میں پڑ گئی
بھالو
او خدا کو مانو اب تو بھالو نہیں بولو میں تمہارے ہونے والا شوہر ہوں ۔
ہوئے تو نہیں نا۔ابھی۔ ویسے بھی تم میرے بھالو ہی ہو
اگر سرو ہوتی ساتھ بہت مزہ آتا تمہارے ساتھ بہت بوریت ہوئی۔
پری بہلول کچھ سوچتے ہوئے بولا
ہاں بولو وہ شاپ سے نکل رہی تھی
سرینہ سے تمہاری بات ہوئی.؟
نہیں اس کا فون بند جا رہا ہو
گھر فون کیا تو بازلہ نے بتایا آپی سو رہی ہے ۔تم اس کے گھر جاتی نا تمہیں پتہ ہے میں نہیں جا سکتا ۔پر مجھے اس کی بہت فکر ہو رہی ہے ۔بہلول وہ ٹھیک ہی ہو گی ۔شاید وسیم آیا ہو بزی ہو۔پری لاپرواہی سے بولی۔۔بہلول کو اس کی لاپرواہی بہت بری لگی ۔
دیکھو پری مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تم جانا ان کے گھر ۔۔
اچھا بابا جاؤں گی اب کچھ کھلاؤ بہت بھوک لگ رہی ہے
پری جب اس کے گھر گئ بازلہ نے بتایا اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تو وہ بہت غصہ ہو گئی میں نے جب فون کیا تم نے کیوں نہیں بتایا کے سرو بیمار ہے ۔سوری پری آپی مجھے آپی نے ہی منا کیا تھا ۔
وہ آہستگی سے بولی۔
ٹھیک ہے میں ابھی اسکی خبر لیتی ہوں ۔وہ اوپر اس کے کمرے میں، آ گئی ۔سرینہ فون میں بہلول کی تصویریں دیکھ رہی تھی دروازہ کھولنے پر فورا اٹھی۔۔ہاں مم بتانا پسند کریں گی میں آپکی کیا لگتی ہوں ۔۔۔پری تم۔۔؟؟؟؟
ہاں میں ۔۔۔مجھے بتاؤ کے ایسا کیوں کر رہی ہو؟ کیا میں تمہاری کچھ نہیں لگتی؟ بھالو اتنا فکر مند تمہارے لیے ۔تم پانچ دن سے فون بند کر کے رکھا ہوا ہے ۔۔ایسا کیوں بولو۔؟
تمہاری طبیعت خراب تھی تو بتایا کیوں نہیں؟
پری ایسی کوئی بات نہیں میں بہت تھک گئی تھی تھوری ڈپریشن ہو گئی منگنی کی تیاری.؟؟؟
بہلول تمہیں بہت مس کر رہا ہے ۔کہتے ہیں کاش سرو ہوتی تو بہت مزا آتا۔
تماری ممی کب آرہی ہیں سرو کو غصہ آیا اس نے بات بدل دی۔
منگنی کے ایک دن پہلے آئیں گی ۔منگنی ہوٹل میں ہو گی مگر میں کہہ رہی ہوں ۔میرے گھر ہو
اچھا
میرے ساتھ تم پالر چلنا تمہیں تیار ہونا ہے لڑکی۔
میں نہیں آ سکوں گی سرینہ کے لہجے میں تیزی تھی
اس دن شاید وسیم آئے
تو وسیم کو بھی ساتھ لانا
میں نے بولا نا پری کے میں نہیں آسکتی
ٹھیک ہے مجھ سے اور بہلول سے اب تمارا کوئی رشتہ نہیں
پری ناراض ہو کر چلی گئی ۔
*******************