ابیہا اچانک سے با باجان کا خیال آتے ہی ناجیہ کو واپس جانے کا بول کے گاڑی میں آگی۔۔۔ناجیہ بھی گاڑی میں آگی اسطرح وہ گھر کے لے روانہ ہوگی ۔ ۔۔۔
آبی مجھے اب تم میرے گھر ہی اتار دینا ۔۔اس طرح وہ اسے چھوڑ کر اپنے گھر آگی ۔۔جہاں اسکے بابا اسکا ہی انتظار کر رہے تھے۔۔۔آبی آتے ہی انکے گلے میں باہیں ڈال دی اسکے بابا نے اسجے ماتھے پے بوسہ دیا۔۔۔اور کمرے میں فریش ہونے آگی ۔۔کپڑے چینج کر کے وہ باہر آگی جہاں اسکے بابا چاۓ پے اسک انتظار کر رے تھے۔۔۔۔
بیٹا اب اپکا آگے کیا ارادہ ھے نواب صاحب نے چاۓکا سپ لیتے ہوے پوچھا۔۔۔۔
بابا میں گاؤں میں لڑکیوں کے لے کالج کھولنا چاہتی ھوں
نواب صاحب نے خوش ہوتے ھوے اپنی بیٹی کی تعریف کی اور اسے کل سے کالج میں جانے کا عندیہ دے دیا۔۔۔۔۔
دن بہت تیزی سے گزرہے تھے اور وہ اپنے کالج کی ہیڈ کے طور پے وہاں اپنے فراہض نبھا رہی تھی۔۔۔۔۔۔جب اچا نک اسے گھر سے فون آیا کے اسکے بابا کی طبیعت خراب ہوگی ھے اور وہ بھا گتے ہوے گھر پہنچی۔ اسکے بابا کا بی پی تیز تھا ۔۔۔انیہں دوا دے کے وہ انکے پاس ہی بیٹھ گی ۔۔۔۔۔
اگلے دن کالج سے چٹھی کر لی اور اپنے بابا کی خدمف میں لگ گی کیونکہ اسکے بابا کے علاوہ کوی بھی نہ تھا۔۔۔۔
آبی اپنے بابا سے بہت پیار کرتی ھیں وہ اپنے بابا کی گرتی ہوھی صحت کے لے بہت پریشان رہتی ھے اور انہیں شہر ڈاکٹر کو دیکھانے کے لیے پروگرام ترتیب دینے لگی۔جب بابا کو بتایا انہوں نے بہت منع کیا لیکن اسکی ضد کے آگے انھیں ہار ماننی پری۔۔۔۔اس طرح وہ شہر کے لیے روانہ ھوگے۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرے عشق میں رنگ چکی ہوں میں
خود کو کھو چکی ہوں میں
میری ذات کیا ہے ؟؟؟
تیری ذات میں کھو چکی ہوں میں ۔ ۔ ۔ ۔
وہاں اسکے بابا کے دوست ڈاکڑ تھے۔اس نے بابا کو چیک کروایا اور کچھ ٹیسٹ ھوے جسکی وجہ سے انہیں وہاں رہنا پڑا۔۔۔
اگلے دن جب رپورٹ ملی ۔۔۔ڈاکڑ کو دیکھایا ڈاکڑ نے بتایا کے انہیں بی پی کے ساتھ کولیسڑول کا مسلہ بھی ھے۔۔۔ابیہا نے جب سنا تب اپنے بابا کو صحت پر بہت بڑا لیکچر دیا۔اور بابا کے نہ نہ کہینے کے باوجود ڈاکڑ سے انکے لیے خوراک کا چارٹ بنوایا۔۔۔۔اور گھر کے لے روانہ ھوگے۔۔۔۔۔
گھر واپس جب آہے تب سے ابیہا اپنے بابا کا اسطرح خیال رکھ رہی تھی جسے چھوٹے بچے کا رکتھے ۔۔۔۔۔
صبح کے وقت موسم اس قدر سہانا ہوتا تھا کے وہ اپنے بابا کو لے کے واک پے نکل جا تی تھی۔۔۔۔نواب صاحب بغیر انکا ر کرے اپنی بیٹی کی ہر بات مان لیتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دور دراز ایبٹ آباد کے نزدیک ایک آرمی ریٹایڑڈ افیسر اپنے ملازم بشیر کے ساتھ رہتا تھے ۔۔۔کرنل عطاء ابراہیم ایک بار اپنے ملازم بشیر کے ساتھ معمول کے مطابق سیر کے کے وادی کے نیچے گے ۔۔جہاں انہوں نے ایک نوجوان کو شدید زخمی حالت میں دیکھا اور جب پاس گے وہ ہلکی ہلکی سانس لے رھا تھا۔۔۔۔کرنل نے ملازم کی مدد سے اسے اپنے گھر لے گے اور قریبی گھر سے اپنے دوست کو بلوایا جو ڈاکڑ تھا۔۔۔۔انکے دوست نے انہیں ایڈمٹ کرنے کی تجویز دی جو انہوں نے نہ مانی اور گھر پر ہر ترا کی سہولت فراہم کی جو نوجوان کے کے درکار تھی۔۔۔۔۔
اس وقت انیں اس نوجوان کی جیکٹ سے کارڈ ملا تھا جس سے انہیں پتا چلا کہ اسکا نام عالیان فخر زماں ھے۔۔۔۔جو ایک سال سے کومہ میں تھا۔۔۔۔۔
وقت یوں ہی پنکھ لگا کے اڑتا رھا۔۔,۔۔
صبح کی ہوا تجھ سے ملے تو کہہ دینا
شام کی منڈیروں پر دیے ہم جلاہیں گے
ہم تیری محبت کے جگنوؤں کی آمد پر۔
تتلیوں کے رنگ سے رستے سجاہیں گے
ابیہا کے بابا ہر وقت اسے شادی کرنے پر راضی کر تے لیکن اسکی نا ہاں میں نہ بدل سکے۔۔۔۔۔۔۔
ابیہا کا ماننا یہ تھا کے اسکی محبت عالیان سے اسطرح کی ھے جسے سانسیں اسکے احساس کے ساتھ جڑی ھوی ھیں ۔۔۔اگر عالیان کا احساس اس سے چیھن لیا تو وہ بھی مر جاے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" ہر کسی کی زندگی محبت اپنے رنگ بکھیرتی ھے۔چکور اپنےلافانی عشق سے باز نہیں آتا۔۔۔۔۔۔۔اسے پتا ھوتا ھے کہ چاند اس کی دسترس میں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مگر پھر بھی وہ اڑان بھرنے سے باز نہیں آتا
دوپل جب کسی کو دیکھ کر یہ لگے کہ رتیں بدل گی 'گردش کاءنات تھم گی تولگتا ھے۔۔کہ ہر راستہ اسی طرف مڑنے لگتا ھے"۔۔۔۔۔۔
یہ ہی ابیہا ساتھ ہوا تھا ۔ ۔۔