آسمان پر کالے بادلوں کا ہجوم تھا وہ نجانے کب سے اپنی سوچوں میں مصروف تھی جب اچانک ا سکو کسی نے آواز دی آبی آبی تم سن تو رھی ھوں نہ ,,,,
ابیہا تمیہں کیا ہوا ھے پہلے تو تم ایسی نہیں تھی۔
ناجیہ کیا تم جانتی ھوں میں نے اسکی پرتش کی تھی عبادت کی تھی ۔۔۔اسے میں نے سب سے اوپر والے درجے میں بیٹھایا تھا۔
لیکن اس نے مجھے اسی بلندی سے نیچے گرا دیا۔۔۔۔میرا قصور بس اتنا تھا میں نے مھبت کی تھی عشق کیا تھا
آبی انسان کے لیے جو بہتر ہوتا وہ ھی ملتا ھے اور تم دیکھنا عالیان اگر تمہارے لیے بنا ھے تو وہ تجھے ملے گا۔۔۔
ناجیہ تم بہت اچھی ہوں
نا جیہ ہنستے ہوے ہاں ہاں میں جانتی ھوں ویسے بھی جس کے پاس آبی جیسی دوست ھوں وہ اچھی ہی ہوتی ھے ۔۔۔۔ناجیہ اسے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوے اٹھ گہی
ناجیہ نے دل ہی دل میں بہت سی دعاہیں اپنی جان سی پیاری سہیلی کے لے اللہ سے مانگتے ھوے کلاس کی طرف روانہ ہو گی جہاں آبی نے اپنے قدم رکھے تھے۔۔۔
ابیہا اپنی برادری میں پہلی تھی جس نے یونیورسٹی میں قدم رکھا تھا۔۔۔۔۔اکلوتی بیٹی ہونے کے باوجود ابیہا میں ٹھہراؤ تھا ۔۔۔۔تعلیمی قابلیت اسکی آنکھوں کو اور روشن کر دیتی تھی۔۔۔۔۔خوبصورتی اسکی آنکھوں میں نظر آتی تھی ۔۔۔۔۔وہ تھی ہی اتنی خوبصورت ۔۔۔لیکن اس نے اپنی خوبصرتی کو کبھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Love is a life ۔۔۔۔۔
Life is a way where love sacrifice ۔۔۔۔۔
نجانے رات کا کونسا پہر تھا وہ اپنی کتاب میں مگن تھی جب ناجیہ نے ساتھ پڑے ھوے میز پر جھکے ابیہا کے طلسم کو توڑا۔۔۔۔۔
آبی!!!!!!!
ابیہا اسکی طرف آنکھیں غصے سے دانت کچلتے ھوے بولی ۔۔۔۔
کیا ھے ناجیہ کتنی دفعہ کہو رات میں مجھے مت تنگ کیا کرو ۔۔۔۔۔۔
آبی غصہ مت کیا کرو تم غصے میں اور پیاری لگتی ھوں ۔۔۔۔۔۔ابیہا نے وہی سے کتاب اسکی طرف اچھال دی جو ناجیہ نے پکڑ لی ۔۔۔۔۔
رات ویسے ہی گزر گی۔۔۔۔۔۔۔
صبح کا سورج طلوع ہونے سے ہر طرف چرند پرند اللہ کی حمدوثنا کر رہے تھے ابیہا روز کے معمول کے مطابق کھڑکی کے پاس کھڑی باہر کا جاہزہ لینے میں مشغول تھی جب اسکو ناجیہ نے زور سے چٹکی کاٹ کے کمرے میں اپنی موجودگی کا احساس دلوایا
آبی میں بھی موجود ھوں کبھی مجھ پر بھی اپنی کرم نیازی کر دیا کر۔۔۔۔۔۔ناجیہ میں سوچ رہی تھی پرندے آزاد ہوتے ہیں لیکن انسان اپنوں کی عزت کی بیڑی میں اتنا ہی قید۔۔۔۔۔
ہمہم ہمہم ۔۔۔۔بس کر آج اپنے گھر جا کر سوچ لینا۔۔۔۔۔پتہ بھی ہے تجھے آج گھر جانا ہے ۔۔۔تم اور انتظار کروا رہی ۔۔۔۔آٹھ گھنٹے کا سفر کرنا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ چادر کرتے ہوے بیگ اٹھاے کھڑی ہوگی۔۔۔۔اب نکل بھی پڑو اور وہ سست روی سے چل پڑی۔۔۔۔۔
آٹھ گھنٹے کے سفر نے اگرچہ انیہں تھکا دیا تھا ۔۔لیکن نواب حسنین علی خان جو اپنے علا قے کے بڑے ہونے کا اعزاز رکتھے تھے انہوں نے اپنی عزیزوجان بیٹی ابیہا کے لے گاڑی بھیجوای تھی تاکہ ان کی بیٹی کو مشکل نہ ھو۔۔۔۔۔
ابیہا کو اسکے بابا جان نے اپنی شریک حیات کی وفات کے بعد بہت لاڈ پیار سے پالا تھا ۔۔۔۔۔۔بچپن سے جوانی کی دہلیز پے قدم رکتھے ہی اسے اپنے بابا جان کی فکر رہتی تھی وہ ہر بار انہیں اپنے ساتھ لیجانے کی ضد کرتی لیکن وہ ہمیشہ گاؤں میں مصر وفیات کا بہانہ بنا کر ٹال دیتے۔۔۔
نواب صاحب آج اپنی بیٹی کا بہت بےصبری سے انتظار کر رہے تھے ۔جب انہیں اطلاع ملی کے ان کی بیٹی پہنچنے والی ھے۔۔۔۔
ابیہا جب گھر پہنچی تو اپنے بابا جانی کے گلے بھا گتے ہوھے لگ گی۔,
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابیہا نے ایبٹ آباد سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر کے واپس آگی تھی۔۔۔۔۔۔
ماضی کے بھنور میں گم۔۔۔۔۔وہ ایک بار پھر اپنے کمرے میں جاتے ہی ماضی میں گم ہوگی ۔۔۔۔۔۔
اپنے باباجانی کے گرد اپنی موج میں مگن وہ ہنستی ہوے اچا نک انکے گھر میں اسکے باباجانی کے عزیز جان جگری دوست کی آمد نے اسکی زندگی میں ہلچل مچا دی۔۔۔۔۔۔
انکل فخر زمان جو اسکے بابا جانی کے بچپن کے دوست تھے۔۔۔۔بہت عرصہ دیارغیر میں رہے کر اپنے دیس واپس آگے تھے جن کے ہمراہ ان کا ہونہار بیٹا عالیان فخرزمان تھا ۔۔۔۔
اونچا لمبا قدوجسامت میں وہ بہت کشش کے حامل خدوخال میں جازب نظر لگ جانے کی حد تک پیارا تھا۔۔۔۔۔وہ ایسی نہ تھی کے لڑکوں سے دوستیاں بناتی تھی اسے عالیان میں ایسی کشش محسوس ہوتی تھی جو اسے دیکنھے کے بعد اپنے دل میں ایک احساس تازگی کا محسوس کرتی تھی۔۔کب کسے وہ اسکی دیوانی ہوگی اسے پتہ نہ چلا,۔ ۔۔۔۔
دوسری طرف عالیان کا حال بھی اس سے مختلف نہ تھا۔۔۔۔۔
وہ اپنے باباجانی کی وجہ سے کبھی بھی اس سے اسطرح نہ مل سکی اور اس جھجک نے عالیان کی زندگی میں اسکا الگ مقام پیدا کر دیا۔۔۔۔۔۔۔
عالیان کی پسند کی وجہ سے دونوں کا رشتہ طے پا گیا ۔۔۔۔۔ابیہا کو اپنی قسمت پر رشک ہوا اور وہ اپنے اپکو دنیا کی خوشنصیب لوگوں میں شمار کرنے لگ گی جس نے محبت کی اور اسے پالیا۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی انسان جو سوچتا ھے اسکے الٹ ہوجاتا ھے ۔۔۔اس طرح اسکی زندگی میں بھی ھوا جسکا اسے اندیشا بھی نہ تھا آندھیوں نے اسکی زندگی کو اس دوراے پے کھڑا کردیا تھا جہاں وہ موت بھی مانگتی تو وہ بھی نہ آتی تھی ۔۔کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اسکی قسمت یوں بھی پلٹا کھا سکتی ھے۔۔۔۔۔
عالیان دوستوں کے ساتھ گھومنے گیا لیکن کبھی واپس نہ آیا ۔۔۔۔۔اسکا دل اس حقیقت کو ماننے سے انکاری آج بھی ھے وہ آج بھی اسکا انتظار کر رہی ھے۔۔۔۔۔۔وہ دن آج بھی یاد ھے جب اسکے گھر انکل کا ٹیلی فون آیاجسکو سنتے ہی وہ اپنے حواس کھو بیٹھی ۔۔۔جس نے اسے بہوشی میں کافی دن رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔
,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج مو سم کافی خوشگوار تھا ابہیا چھت پر آگی جہاں وہ آسمان پر بادلوں کو رقص کرتے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
آہمہم آہمہم ,,,آبی تم یہاں ہوتمہارے روم میں تمہارا انتظار کر رہی تھی انکل نے بتایا تم اوپر ہو۔۔۔۔۔۔کیا کر رہی تھی آؤ باہر چلے جب سے آے ھیں گھر میں بند ھیں ۔۔۔
ناجیہ تم جاؤ میرا موڈ نیہں ھیں ۔۔۔نیہں جی آبی میں تمیں لے کے جاؤ گی انکل سے اجازت لے لی ھے اب نو اگر مگر چل ٹھ اب۔۔۔۔۔۔
اچھا اچھا آتی کپڑے تو چینج کرنے دے وہ باتیں کرتے کرتے روم میں آیں ۔۔۔۔۔
یار اورنج کلر والا کرتا نکالو جس پر سرخ رنگ کی کڑاہی کی ہوی ھے ۔۔۔۔اوکے میڈم۔۔۔۔۔۔
وہ تبدیل کر کے گاڑی میں آبیٹھی ۔۔۔۔ابیہا ڈراہیونگ کرتے ہوے ناجیہ کی باتوں میں بس سر ہلانے میں اکتفا کر رہی تھی۔۔۔۔۔سفر جاری تھا۔ وقت گزرتا رھا,۔۔۔