شام ہوتے ہی بادلوں کی زور دار گرج رضا ہاؤس میں گونجنے لگی،مگر گھر کے مکینوں کی زندگی میں طوفان تو کب کا آچکا تھا۔رضا احمد بے چینی سے پورے ہال میں ٹہل رہے تھے ۔دائیں بائیں چکر کاٹتے اُنھیں ایک گھنٹہ بیت چکا تھا۔اُن کا غمزدہ چہرہ اُن کے دل کو لگے سنگین صدمے کی عکاسی کر رہا تھا۔ریحانہ فکرمندی سے دعائیں پڑھتے گاہے بگاہے اُن پر بھی نظر ڈال رہی تھیں۔رضا احمد نے غصے سے گھڑی کی طرف دیکھا۔شام کے چھے بج چکے تھے۔باہر مکمل اندھیرا تھا۔جیسے سکھ کے ہوتے دکھ سازش کرتا ہے ،ویسے ہی آج باہر رات سے پہلے رات کا سماں تھا۔
"فہمیدہ کو فون کرو، اگر وہ اب تک نہیں پہنچی تو اُس کے لیے رعایت کے سب در بند ہو جائیں گے۔”
رضا احمد کے سخت لہجے میں فکر کے ساتھ دھمکی بھی تھی۔
ریحانہ دوپہر سے ہی اُس کی سب دوستوں اور فہمیدہ کو بار بار فون کر رہی تھیں،لیکن وہ کہیں بھی نہیں تھی۔اُس نے جو کارنامہ سر انجام دیا تھا ۔اُس کا کچھ وقت کے لیے چھپنا تو فطری تھا۔
ریحانہ نے جلدی سے فون اُٹھایا اور کانپتے دل کے ساتھ ایک بار پھر اپنی بہن کا نمبر ملانے لگیں۔کچھ دیر تک اُن کے چہرے کے تنّے ہوئے تاثرات ڈھیلے پڑ گئے تھے اور آواز میں خوف کی جگہ اطمینان اُتر آیا تھا۔رضا بھی گہری سانس لے کر صوفے پر بیٹھ گئے کیونکہ اُنھیں معلوم ہو چکا تھا کہ اُن کی لاڈلی بیٹی محفوظ ہے۔
"اُس نے جو آج کیا ہے یہ نافرمانی بھلانے کے قابل نہیں ریحانہ۔نوید بھائی کے علاوہ میرا تھا ہی کون ؟یاد کرو آج ہم ساتھ ہیں تو نوید بھائی کے تعاون اور مدد سے ہیں ۔یہ جو ہم اپنی الگ دنیا بنائے بیٹھے ہیں اِس کی پہلی اینٹ نوید بھائی نے ہی رکھی تھی۔کتنے احسانات تھے اُن کے۔سب کچھ ختم ہوگیا۔میرا اکلوتا رشتہ میرے جیتے جی مر گیا۔”
رضا احمد نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے شکستہ آواز میں کہا۔اُن کا مایوس کن انداز ریحانہ کو تڑپا گیا تھا۔
"ہمت کیجیے ۔خون کے رشتے اتنی جلدی نہیں مرتے ۔بھائی صاحب کی چند دن کی ناراضگی ہے ۔پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔”
ریحانہ اُن کے پاس بیٹھتے ہوئے تسلی آمیز لہجے میں بولیں۔
"کن خون کے رشتوں کی بات کرتی ہو؟ ہم اپنے کھوئے ہوئے رشتے آج تک نہیں پا سکے۔ہمارے والدین نے آج تک ہمیں معاف نہیں کیا۔ہر رشتہ قربانی مانگتا ہے۔اپنی اچھائی کا صلہ چاہتا ہے، اور آج ہم ایک اور رشتہ اِسی لیے کھو بیٹھے ہیں۔”
رضا احمد کی آواز شدت ِ جذبات سے بھیگنے لگی تھی۔
"رضا شاید ہم مالا کے ساتھ زیادتی کر رہے تھے۔جب ہم اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتے ہیں تو اُسے بھی تو حق ہے۔”
ریحانہ ڈرتے ڈرتے مالا کی کچھ حمایت کر گئی تھیں۔
"ہمارے حالات مختلف تھے ،ہم نا انصافیوں کے خلاف کھڑے ہوئے تھے ،مگر ہماری اولاد اپنے ساتھ ہی ناانصافی کر رہی ہے۔اُس کا جو مزاج ہے ،طرزِ زندگی ہے کوئی بھی باہر والا برداشت نہیں کر سکتا۔فراز اپنا خون تھا ۔کم از کم وہ مالا کی تمام ہٹ دھرمیوں سمیت اُسے خوش رکھتا ۔”
رضا احمد نے ریحانہ کی حمایت کا وہ جواب دیا کہ وہ لاجواب ہوگئیں۔
"آپ ٹھیک کہتے ہیں،مگر اب بات ہاتھ سے نکل گئی ہے۔مالا کا قصور ہے تو غلطی فراز کی بھی ہے۔مالا نے اگر کچھ کڑوا بول ہی دیا تھا تو کیا ضرورت تھی ایک کی دس لگانے کی۔اُس نے بہت ہی امیچورٹی کا ثبوت دیا ہے۔”
ریحانہ رضا احمد سے اتفاق کرتی کرتی بات کا رُخ دوسری طرف موڑ گئیں۔
"ہماری اولاد کسی کو بے عزت کرتی پھرے اور ہم دوسروں کے بچوں سے احتجاج کی توقع بھی نہ کریں۔کمال کرتی ہو تم ریحانہ ۔”
رضا احمد کی بھاری کڑک دار آواز مزید بلند ہوئی۔
” مصلحت سے بھی کام لیا جا سکتا تھا ۔وہ کوئی دودھ پیتا بچہ نہیں کہ رشتوں کی نزاکت نہ سمجھ سکے۔”
ریحانہ کا انداز اور جواب بھی کاٹ دار تھا۔
"یہی امید تم اپنی بیٹی سے کیوں نہیں لگاتی ۔مالا کے اندر اخلاق، لحاظ مروت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔یاد کرو میں نے تمھیں کتنی بار سمجھایا ، ریحانہ اُسے سنبھالو ۔۔۔اُسے سمجھاؤ۔ہر بار تمھارے پاس یہی جواب تھا کہ ہمارے والدین نے تو ہمیں اپنی مرضی سے سانس لینے کی آزادی بھی نہیں دی ،مگر ہم اپنے بچوں کو جینے کی مکمل آزادی دیں گے۔دیکھو۔۔۔سوچو اُس نے اپنی آزادی کا کہاں کہاں اور کیسے استعمال کیا۔تمھیں نہیں لگتا کہ اپنی اولاد کے سب سے بڑے دشمن ہم خود ہیں۔”
رضا احمد ہاتھ میں محاسبے کا وہ آئینہ پکڑے کھڑے تھے کہ ریحانہ نے ملال سے نگاہیں جھکا لیں۔وہ انھیں کیا بتاتیں کہ پچھلے کئی مہینوں سے وہ اپنی خودسر بیٹی کو سمجھا رہی ہیں، لیکن شاید اُنھوں نے اتنی دیر کردی تھی کہ مالا کا واپس آنا مشکل ہوگیا تھا،ورنہ وہ بار بار اپنی غلطیاں نہ دہراتی۔ریحانہ نے گیلی آنکھیں دکھ سے بند کر لیں سامنے مالا کا چہرہ لہرایا اور اُس کے پیچھے گزشتہ تمام زندگی تھی۔
*****
ریحانہ نے ایک مڈل کلاس گھرانے میں آنکھ کھولی تھی ،جہاں لڑکیوں کی بنیادی ضروریات تو پوری کی جاتیں،مگر اپنی مرضی سے کسی فیصلے کا اختیار نہ دیا جاتا۔بچپن سے ہی انھوں نے اپنے گھر کا ایک روایتی گھٹا ہوا ماحول دیکھا ۔درخت تھے تو پینگ ڈالے پر پابندی۔۔۔ٹی وی تھا تو اپنی مرضی سے دیکھنے پر پابندی۔۔۔سہیلیا ں تھیں تو اُن سے ملنے پر پابندی۔۔۔صورت بھلی تو کھل کر ہنسنے پر پابندی۔ایسی کئی چھوٹی چھوٹی باتیں ریحانہ کے اندر بڑی بڑی حسرتیں اور محرومیاں بن گئی تھیں۔وہ بڑی ہوئیں تو ہر طرف امّاں کی یہی نصیحتیں تھیں۔۔۔ایسے مت بیٹھو۔۔۔ایسے مت کھاؤ۔۔۔یوں مت ہنسو۔۔۔یہ مت پہنو۔ہر بات پر روک ٹوک،ہر بات پر اعتراض، ہر بات پر ڈانٹنا ، ہر بات پر سمجھانا ریحانہ کو گھر کے ماحول سے بیزار کر رہا تھا۔شام ہوتی تو امّاں ابّا نصیحتوں کی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتے جنھیں سن سن کر وہ عاجز ہو چکی تھی۔
"ہمارے ماں باپ کو تو نہ محبت کرنا آتی ہے نا جتانا۔گھر کو جیل خانہ بنا رکھا ہے ۔اُٹھنے بیٹھنے ،ہنسنے بولنے ،سانس لینے تک کے اُصول ہیں۔آپا میں اِس خاندان میں شادی نہیں کرونگی۔ایک دوزخ کے بعد دوسری دوزخ مجھے گوارا نہیں ہے۔”
"چپ کر پاگل لڑکی امّاں نے سن لینا تو جان نکال دیں گیں۔”
بند کمرے میں ریحانہ نے جب جب بھی دل کی بھڑاس نکالی تو بڑی بہن فہمیدہ نے فوراً اُن کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
اکثر لڑکیاں ساری پابندیوں کو زیادتی کے ترازو میں تولتی ہیں،بنا یہ سمجھے کہ کچھ پابندیاں اُن کی عزت ،تحفظ اور وقار کی سلامتی کے لیے لگائی جاتی ہیں۔ریحانہ کا ذہن ابھی اِن مصلحتوں کو سمجھنے سے قاصر تھا ۔اُنھیں لگتا تھا اِس گھر میں لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیاں دیواروں سے بھی بلند ہیں جو اُن کے وجود کو احساسِ کمتری کی زمین میں گاڑ رہی ہیں۔وہ اِس کے خلاف آواز اُٹھانا چاہتی تھیں۔بڑے بڑے خواب دیکھنا چاہتی تھیں۔اُنھیں زندگی سے ایک موقع کی تلاش تھی جو اُنھیں رضا احمد کی صورت میں مل گیا تھا۔
شیریں گفتار رضا سے اُن کا سامنا اپنی سہیلی عالیہ کی شادی پر ہوا تھا۔امّاں کی جاسوس نظروں سے آنکھ بچا بچا کر انھوں نے کئی بار اپنی سہیلی کے بھائی کو دیکھا ۔رضا بھی سارا وقت اُس شرارتی حسینہ کو تکتے رہے تھے جس نے کچھ ہی پل میں اُن کی دل کی دنیا میں ہلچل مچا دی ۔عالیہ کی شادی ریحانہ اور رضا کے دل کے تار چھیڑ گئی تھی۔ شریف عاشق نے کچھ ہی دنوں میں ریحانہ کے گھر رشتہ بھجوا دیا تھا جسے نہ صرف سختی سے مسترد کیا گیا بلکہ ریحانہ اور عالیہ کی دوستی بھی ختم کرادی گئی۔ دنوں پر دن اور مہینوں پر مہینے گزرنے لگے ،مگر نہ ریحانہ کے والدین اپنی ضد سے پیچھے ہٹے نہ رضا کے والدین اپنی بے عزتی بھولے۔دونوں باغی دلوں کو جلد از جلد شادی کی قید میں باندھنے کی کوشش کی گئی تو اُن کے پاس فرار کی یہی راہ بچی کہ وہ اِن انا پرست رشتوں کی بڑی دنیا چھوڑ کر دور کہیں اپنا چھوٹا سا گھر بنا لیں۔
اپنی مرضی سے جینے کی خواہش ریحانہ کی سب سے بڑی خواہش تھی۔جو رضا احمد کو پا کر پوری ہوگئی۔ وہ دونوں ایک ساتھ بہت خوش تھے ۔اِن دس سالوں میں اُنھوں نے کئی بار مڑ کر دیکھا ،مگر نہ کوئی اُن کا منتظر تھا نہ کوئی اُنھیں معاف کرنے کو تیار۔گزرتے وقت نے ریحانہ کے دل میں سگے رشتوں کے لیے شکوے اور بڑھا دیے تھے۔وہ اِن اُصول پرست رشتوں کو اب نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگی تھیں۔وہ اکثر خود سے اور رضا سے یہی باتیں کرتیں کہ وہ نئے زمانے کے ساتھ چلیں گے ، اپنے بچوں کے دوست بنیں گے ،انھیں اپنی زندگی گزارنے کا پورا پورا حق دیں گے، کاش وہ حق کی بجائے جائز حق کے بارے میں سوچتیں تو آنے والا وقت اُن کے لیے آزمائش نہ بنتا۔
*****
صبح کے نو بجے فون کی گھنٹی بجی تو ریحانہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھیں۔
"مسز احمد بے وقت تکلیف کے لیے معذرت چاہتی ہوں ۔اصل میں بات ہی کچھ ایسی تھی کہ آپ کا جاننا ضروری ہے ۔”
سکول کی پرنسل مسز درانی نے پریشان کن آواز میں کہا۔
"بلا جھجک کہیے میں سن رہی ہوں ۔”
نیند خراب ہوجانے کی وجہ سے ریحانہ کے لہجے میں بیزاری تھی ۔
"آج ہی ہمارے علم میں آیا ہے کہ آپ کی بیٹی مالا اپنے انگلش کے ٹیچر میں دلچسپی لے رہی ہے۔مالا نے سر عرفان کو دو تین خط بھی لکھے ہیں جو انھوں نے ہمارے حوالے کر دیے ہیں۔”
مسز درانی کچھ ہچکچاتے ہوئے اصل بات بیان کر گئیں۔
"یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ۔مالا ایک سولہ سال کی نادان بچی ہے ۔آپ کے سکول کی شہرت اچھی ہے ،لیکن میں نہیں جاتی تھی کہ آپ لوگ اِس قدر غیر ذمہ داری کا ثبوت دیں گے۔ایسے استاد کو فوراً بے عزت کر کے نکال دینا چاہیے جو خود کو بے قصور ثابت کر کے معصوم بچی پر سارا الزام لگا دے ۔”
ریحانہ نے مسز درانی کی عمر اور رتبے کا لحاظ کیے بغیر اُنھیں کھری کھری سنا دیں۔اِس انکشاف سے نا صرف اُن کی آنکھیں پوری طرح سے کھل گئی تھیں بلکہ خون بھی غصے سے کھول اُٹھا تھا۔
"ہم آپ کو اپنے سٹاف کی شرافت کی ضمانت دے سکتے ہیں اور رہی بات مالا کی تو اُسے بچی سمجھ کر ہی سکول سے نہیں نکالا گیا ،کیونکہ آپ کے ہمارے سکول پر کافی احسانات ہیں۔ ہم آپ کی عزت کا مکمل تحفظ کر رہے ہیں۔”
مسز درانی نے ریحانہ کی بدتمیزی کے باوجود تحمل سے جواب دیا تھا۔
"خاک تحفظ کر رہی ہیں آپ ۔احسان یاد ہوتے تو آپ پہلے اُس دو ٹکے کے ٹیچر کو سکول سے باہر نکالتیں۔”
ریحانہ نے ایک بار پھر گرجتے ہوئے تمیز کی حد پار کی ۔
"آپ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں ،آپ کس طرح ایسے الفاظ استعمال کر سکتی ہیں؟ ہم اپنا سٹاف بہت سوچ سمجھ کر رکھتے ہیں اور پوری جانچ پڑتال کے بعد ہم جان پائے ہیں کہ سر عرفان کا اِس معاملے میں کوئی قصور نہیں ۔سر عرفان اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنی بیٹی کو سمجھائیں ۔”
مسز درانی نے بھی اب کی بار سخت لہجہ اختیار کیا ۔
"میری بیٹی ایسے سکول میں ہرگز نہیں پڑھے گی ،جہاں اخلاقیات کا درس تو دیا جاتا ہے ،مگر عمل نہیں کیا جاتا ۔ہم اپنی عزت کی حفاظت خود کرسکتے ہیں ۔ آپ اپنی جھوٹی ساخت بچائیے۔”
ریحانہ نے تند مزاجی سے دو ٹوک جواب دے کر فون بند کردیا تھا۔
دوسری طرف مسز درانی تاسف سے کچھ دیر ریسور کو دیکھتی رہیں اور یہ سوچنے پر مجبور ہو گئیں کہ کچھ والدین ہی اپنے بچوں کے خیر خواہ نہیں ہوتے۔
اچھی پڑھائی نہ ہونے کا بہانہ بنا کر اِس قصے کو رضا احمد سے چھپا لیا گیا تھا۔ شاید وہ اِس معاملے کو اہمیت دے کر اپنے شریکِ حیات سے ڈسکس کرتیں تو کوئی بہتر حل نکل آتا۔میٹرک کی طلبہ مالا کو معمولی ڈانٹ ڈپٹ ضرور کی گئی تھی ،مگر زمانے کی اونچ نیچ سمجھانے جیسا اہم فرض ریحانہ نہ نبھا پائی تھیں۔
وقت تیزی سے گزرتا گیا اور مالا یونیورسٹی میں آگئی ۔اپنی شرارتوں اور طوفانی طبیعت کی وجہ سے وہ کافی مشہور تھی۔کبھی اپنے شیطانی گروپ کے ساتھ مل کر کسی لڑکی کی کم صورت یا غربت کا مذاق اُڑاتی تو کبھی بھرے مجمعے میں اساتذہ کی پیروڈی کرکے خوب داد وصول کرتی۔کمزور کی ٹانگ کھینچنا ، طاقت ور سے پنگا لینا اُس کا من پسند مشغلہ تھا۔گھر میں بھی اُس کے حالات مختلف نہ تھے۔ چھوٹی بہنوں سے الجھنا ۔۔۔نوکروں کو نیچا دیکھانا ۔۔۔کسی کو خاطر میں نہ لانا جیسا رویہ اُس کی طبیعت کا حصہ تھا۔وقت نے اُس کے اندر ایک تبدیلی ضرور پیدا کی تھی کہ مردوں کے بارے میں اُس کے دیکھنے اور سوچنے کا نظر یہ یکسر بدل چکا تھا۔کم عمری میں کی گئی غلطی دوبارہ نہ دہرائی گئی تھی۔اپنی طرف بڑھنے والے کئی ہاتھوں کو اُس نے سختی سے جھٹک دیا تھا۔اُسے اپنے اُس آئیڈیل کی تلاش تھی جسے دیکھ کر آنکھ جھپکنا اور دل دھڑکنا بھول جائے۔جو ہر لحاظ سے اُس کے قابل ہو۔
زندگی مالا کے لیے ایک خوبصورت کہانی یا ایکشن مووی کی طرح بن چکی تھی ۔وہ جو سوچتی کر گزرتی ،جو چاہتی پا لیتی ۔رضا احمد اپنے کاروبار میں اُلجھے ہوئے تھے تو ریحانہ اپنی سوشل لائف میں ۔اُن دونوں کی غفلت کا مالا نے خوب فائدہ اُٹھایا تھا۔رضا کبھی کبھار ریحانہ کی توجہ اُس کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کرتے تو اُن کا ایک ہی جواب ہوتا۔
"رضا میں اُسے روکتی ٹوکتی تو ہوں ۔ اب کیا اُس پر بے جا پابندیاں لگائی جائیں۔میں کوئی سخت گیر ماں نہیں کہ بچوں کو لائف انجوائے ہی نہ کرنے دوں۔ابھی وہ بچی ہے۔وقت آنے پر خود ہی ٹھیک ہوجائے گی۔”
ایک ماں کی لاپرائی تھی کہ حد سے زیادہ بھروسہ مالا اور بگڑتی چلی گئی۔ریحانہ کو جب ہوش آیا تو پانی سر تک پہنچ چکا تھا،اور اُس کا موجودہ کارنامہ تو رضا احمد کے لیے سخت تکلیف اور ندامت کا باعث بنا۔
*****
اُس نے جس طرح فراز کی بے عزتی کی تھی اُسے یقین تھا کہ اِس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلنے والا۔ہوا بھی ایسے تھا فراز کے گھر جاتے ہی تایا جان ممی پاپا کی عدالت میں پہنچ گئے اور اُنھوں نے اپنے بیٹے کے احترام کی خاطر پرانے سارے رشتوں کا لحاظ نہ کرتے ہوئے انھیں توڑ دیا تھا۔چھوٹی بہن روبی نے اُسے فون پر ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔اپنی زیادتی پر پشیما ن ہونے کی بجائے اُس نے فراز کی کم عقلی پر اُسے خو ب ملامت کی۔اپنی دانست میں تو اُس نے راستے کا پتھر ہٹانا چاہا ، کیا خبر تھی کہ وہ دو بھائیوں کے بیچ ایک دیوار کھڑی کرنے جا رہی ہے۔کچھ دیر وہ اپنی دوست ثمن کے گھر چھپ کر بیٹھی رہی اور پھر شام ہوتے ہی آنی فہمیدہ کی طرف چلی آئی ۔وہ جانتی تھی کہ پاپا کا غصہ عروج پر ہوگا ۔اِس لیے یہ معاملہ ٹھنڈا ہونے تک وہ اُن کی نظروں سے دور رہنا چاہتی تھی ،مگر یہاں بھی آنی فہمیدہ نے اُسے اتنا سمجھایا کہ وہ چڑ سی گئی۔غلطی سدھارے کے لیے غلطی کا احساس ہونا ضروری ہوتا ہے اور اُس کے نزدیک اُس کی غلطی تھی ہی نہیں۔
ــ”ایک غلطی کرتی ہو اور پھر ستاتی بھی ہو ۔جو ہوا سو ہوا ، اب گھر آجاؤ پاگل لڑکی ۔تم جانتی ہو میں تمھارے بغیر نہیں رہ سکتی ۔”
ریحانہ کی آواز میں شکوہ کم محبت زیادہ تھی۔
کچھ دنوں تک ریحانہ نے خود ہی کال کی تو مالا کی مشکل جیسے آسان ہوگئی۔
"سوری ممی ! میں آج ہی آجاؤنگی ۔۔۔۔مگر پاپا کی ناراضگی ؟”
اپنے لہجے میں مصنوعی شرمندگی لاتے ہوئے اُس نے خدشہ ظاہر کیا۔
"وہ تم سے خفا تو ہیں ،لیکن کچھ دن تک اُن کی ناراضگی بھی ختم ہوجائے گی۔”
"سچّی۔۔۔۔لویو مام۔۔۔میں ابھی آئی۔”
ریحانہ کا گرین سگنل پاتے ہی وہ چہک کر بولی۔
اُسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ممی زیادہ دیر خفا نہیں رہ سکتیں،اور جب وہ خود مان جاتی ہیں تو پاپا کو منانا مشکل نہیں رہتا۔اُس نے خوشگوار موڈ میں آنی فہمیدہ کو الوداع کہا اور گنگناتی ہوئی گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔
ناچاہتے ہوئے بھی اُس پر اِس واقعے کا کافی اثر ہوا تھا۔۔۔ پورا ہفتہ نہ وہ ٹھیک سے کھاپائی نہ سو سکی ۔۔۔رہی سہی کسر آنی فہمیدہ کے مسلسل لیکچرز نے پوری کردی تھی۔۔۔سب ٹھیک ہوجانے کے باوجود بھی اُس کے دماغ میں ایک تناؤ سا تھا۔۔۔اُس نے ڈرائیو کرتے ہوئے اپنا فیورٹ میوزک آن کیا۔۔۔وہ گھر جانے سے پہلے خود کو پوری طرح سے ریلکس کرنا چاہتی تھی۔
نارمل سپیڈ سے ڈرائیو کرتے ہوئے اچانک اُسے اپنا آپ بہت کمزور سا محسوس ہوا ۔گاڑی کے ٹھنڈے ماحول میں کان کی لوئیں تپنے لگیں۔اُس نے زور سے سانس لیتے ہوئے گانے کا والیم فل کیا ۔گھبراہٹ یکدم بڑھی تو وہ گاڑی سائیڈ پر روک کر باہر نکل آئی ۔گرمی کی شدت اور سورج کی روشنی اتنی زیادہ تھی کہ اُس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔اُس نے سنبھلنے کی بہت کوشش کی ،مگر ہوش و حواس جیسے گم سے ہوگئے۔وہ اِس اندھیرے سے نکلنے کے لیے پوری شدت سے چلائی پھر جیسے محسوس کرنے کی ساری حسیں بے جان ہوگیں۔
"آنکھیں کھولیں مس۔۔۔کیا ہوا ہے آپ کو۔۔۔پلیز آنکھیں کھولیں۔”
گھپ اندھیرے میں کوئی آواز میلوں دور سے سنائی دی ۔ایسے جیسے وہ جنگل کے ایک کونے پر ہو اور آواز دینے والا دوسرے کنارے پر ۔۔۔یو ں جیسے وہ تپتے صحرا میں دھنس گئی ہو اور کوئی دور سے پکار رہا ہو۔کچھ دیر بعد جلتی ہوئی آنکھوں پر ٹھنڈک کا احساس گزرا۔پانی کی بوندیں اُس کے پورے چہرے کو بھگونے لگیں۔چند گھونٹ حلق تک پہنچے تو اُس نے جھرجھری سی لی۔اندھیرا آہستہ آہستہ چھٹنے لگا تو اُس نے گاڑی میں کسی اور کی موجودگی کو محسوس کیا تھا۔
"میں کہاں ہوں؟ کون ہیں آپ؟ ”
آنکھیں کھولتے ہی اُس نے گھبرا کر پوچھا ۔
"آپ اپنی گاڑی میں ہیں اور محفوظ ہیں۔آپ بے ہوش ہوگئی تھیں اِس وقت آپ کو ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔”
وہ جو کوئی بھی تھا، گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے تسلی آمیز لہجے میں بتانے لگا۔
"میں ٹھیک ہوں۔۔۔میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔مجھے کہیں نہیں جانا۔۔۔مجھے بس گھر جانا ہے۔۔۔آپ جا سکتے ہیں۔۔۔میں خود ڈرائیو کر لونگی۔”
وہ سنبھل کر بیٹھتے ہوئے پوری طاقت سے سانس لے کر بولی ۔
اجنبی نے اُسے گھور کر دیکھا جیسے کہہ رہا ہوں۔محترمہ آپ اتنی بد تہذیب ہیں کہ شکریہ ادا کرنے کی بجائے ،رعب جھاڑ رہی ہیں۔
"آپ ٹھیک ہونگی ،مگر اتنی نہیں کہ خود گھر جا سکیں۔خاموشی سے بیٹھی رہیں ۔مجھ پر بھروسہ کرنا اب آپ کی مجبوری ہے۔”
لفظ بعد میں ادا ہوئے تھے،لیکن اُس کی آنکھیں پہلے بولی تھیں۔وہ ایک ٹک اُسے دیکھنے لگی ۔ایسا چہرہ تو بس اُسے کہانیوں میں ملا تھا۔اُس کے نقوش تھے کہ کوئی گہرے الفاظ وہ پڑھنے کی جستجو میں اُلجھ کر رہ گئی ۔سفید چوڑی پیشانی پر بکھرے آوارہ بال اور ہلکی سیاہ موچھوں سے جھانکتی با رعب سنجیدگی ۔۔۔پتلی ناک کی سیدھ میں کھڑا ہوا غرور کا مینار اور پپوٹوں پر تنّی ہوئی مہاراجوں جیسی آن بان۔مالا چاہ کر بھی کچھ بولنے کی ہمت نہ کر پائی۔وہ اُسے ایڈرس سمجھا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔سارا رستہ خاموشی سے کٹا ،مگر دل میں کئی باتوں نے سر اُٹھایا تھا۔وہ دن بھولنے کے قابل نہ تھا جب ایک اجنبی اُسے گھر تو چھوڑ گیا،مگر اُس کا دل اپنے پاس رکھ کر۔وہ اپنے کمرے میں آئی تو سب سے پہلے اُس نے آئینہ دیکھا۔کیا ایک مرد کی آنکھیں اتنی بھی خوبصورت ہو سکتی ہیں۔اُس کی آنکھیں بار بار اُس سے یہی سوال کر رہی تھیں۔
*****
زندگی میں اب تک وہ سب کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوئی تھی۔اپنی حاضر جوابی سے وہ مقابل کو خاموش کرا دیتی تھی،مگر آج کسی کی بولتی آنکھوں نے اُسے ہی چپ لگا دی ،کسی کے دو جملوں نے سوچوں کے کتنے در وا کیے تھے، کسی کی سنجیدگی نے اُسے بغیر وجہ کے مسکرانے پر مجبور کیا تھا۔وہ جو بھی تھا مالا کی سر پر اُس کا ایک احسان چڑھ چکا تھا ، وہ احسان جو دل سے نہیں نکل سکتا تھا ۔کچھ قصّے ذہن میں اٹک جاتے ہیں تو کچھ کہانیاں سوچ کے پردے پر چلتی رہتی ہیں،لیکن وہ اجنبی تو سیدھا دل تک اُترا تھا۔وہ تھا بھی تو ایسا ہی کسی ناول کے مغرور کردار کی طرح ،کسی فلم کے پرکشش ہیرو جیسا۔
"سنا تھا شرافت چہرے پر لکھی ہوتی ہے اور کل تو میں نے دیکھ بھی لی۔وہ وقت پر نہ آتا تو شاید میری طبیعت اور بگڑ جاتی ۔”
ریحانہ کی گود میں سر رکھتے ہوئے وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔
اُس نے کچھ دیر قبل ریحانہ کو پورے واقعہ سے آگاہ کیا تھا ۔پہلے تو وہ صحت میں لاپرائی برتنے پر اُس سے خفا ہوئیں اور ساتھ ہی ساتھ اُس اجنبی کو دل سے دعا بھی دی۔
"شکر ہے ایسے نیک دل لوگ آج کل بھی ہیں ۔وہ ضرور کسی بھلے گھر کا لڑکا ہوگا۔”
انھوں نے مالا کے اُلجھے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے ممنون لہجے میں کہا تھا۔
"لڑکا وڑکا کوئی نہیں ۔۔۔کھڑوس اکڑو سا بندہ کہیے ۔۔۔جوانی میں بھی بوڑھوں جیسا رعب داب۔۔۔جانتی ہیں میں نے خود ڈرائیو کرنے کا کہا تو اُس نے سختی سے جھڑک دیا۔”
ریحانہ کے تاثرات دیکھنے کے لیے مالا نے پینترا بدلا۔
"شرم کرو اپنے محسن کے بارے میں ایسے نہیں کہتے ۔نجانے کب تمھیں لوگو ں کی عزت کرنا آئے گی۔”
مالا کی توقع کے مطابق ریحانہ نے اُسے گھور کر دیکھا۔
"تو کیا اُس کا ہم پر احسا ن بنتا ہے ؟”
وہ بھولی نہیں تھی،مگر بھولے پن کا مظاہرہ کرنے لگی۔
"تو اور کیا یہ اُس کا احسان ہی ہے کہ اُس نے بروقت تمھاری مدد کی، ورنہ ممکن تھا کہ تم اپنا کوئی نقصان کر بیٹھتی۔”
ریحانہ نے خوف سا محسوس کرتے ہوئے نا سمجھ بیٹی کو گلے سے لگا لیا۔
"تو اتار دیجیے نا احسان۔۔۔آپ ایسا کریں اُس نیک دل انسان کے لیے کوئی بڑی دعا کر دیں۔”
مالا نے لب کاٹتے ہوئے معنی خیز مسکراہٹ سے مشورہ دیا ۔
"اچھا کیسی دعا ؟”
اُس کے دل کے حال سے نا واقف ریحانہ نے اشتیاق سے پوچھا ۔
"یہی کہ بالغ کا عقد دنیا کی سب سے سندر لڑکی کے ساتھ ہو جائے۔”
شرارت سے بولتے ہوئے وہ خود بھی ہنس پڑی تھی۔
ریحانہ نے اُس کے سر پر محبت سے ایک ہلکی چپت لگائی اور دونوں کا قہقہہ فضا میں بلند ہوا۔
*****
بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا
سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا
اِس بات کو جتنے دن گزرتے جارہے تھے وہ اُتنی ہی بے چین ہو رہی تھی۔یہ خوف اُس کے دل میں بیٹھ رہا تھا کہ شاید یہ حسیں سپنا سپنا ہی رہے اور وہ خواب چہرہ حقییقت کی دنیا میں پھر نہ نظر آئے ،لیکن کچھ دن تک اُس کے سارے ڈر خودبخود مٹ گئے ۔وہ ہو رہا تھا جو اُس نے سوچا تک نہ تھا۔وہ جہاں جہاں دیکھتی وہ وہی نظر آتا۔وہ صبح کمرے کے پردے ہٹاتی تو وہ سامنے پارک کی بنچ پر بیٹھا دیکھائی دیتا،وہ کسی بھی شاپنگ مال جاتی تو وہ اُس سے پہلے وہاں موجود ہوتا،وہ اپنی فیورٹ کافی شاپ میں کافی پی رہی ہوتی تو بھاپ اُڑاتی کافی میں اُس کا ہی عکس اُبھرتا۔اُسے اُس اجنبی کا چھپ چھپ کر دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔سب جان کر بھی وہ انجان بنی ہوئی تھی ۔ کئی بار اُس کا دل کیا جاکر اُس بولتی آنکھوں والے سے بات کرے ،مگر ابھی وہ اِس فلمی صورتحال سے مزید محظوظ ہونا چاہتی تھی۔
"مس مالا یہ پنک والا زیادہ بہتر ہے۔۔۔”
وہ پنک اور بلیو کامدار کرتی کو موازنہ کی نگاہ سے دیکھ ہی رہی تھی کہ عقب میں کسی کی بے تکلفانہ آواز سے چونکی۔
"آپ۔۔۔آپ یہاں ؟”
مالا خوشگوار حیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر ارادی طور پر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔
"آپ کو میرا یوں مخاطب کرنا اچھا نہیں لگا کیا؟ ”
اُس نے جواب دیے بنا سوال پر سوال کیا۔
"نہیں ایسی بات نہیں ہے ۔اچھا ہوا آپ مل گئے ۔ویسے بھی آپ کا ایک ادھار چکانا تھا۔”
وہ کیسے کہتی کہ وہ تو اِس ملاقات کی کب سے منتظر تھی ،مگر اُس نے اپنے لڑکی ہونے کا بھرم رکھتے ہوئے سوچ سمجھ کر جواب دیا۔
"ادھار۔۔۔کیسا ادھار؟”
وہ مالا کے عاجزانہ انداز پر حیرت سے پوچھنے لگا۔
"اُس دن میں آپ کا شکریہ بھی ادا نہیں کر پائی تھی۔”
مالا کے چہرے اور لہجے میں بے پناہ ممنونیت تھی۔
"شکریے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔یہ انسانیت کا تقاضا تھا۔۔۔ویسے میں آپ کا حال ہی پوچھنے آیا ہوں مس مالا۔”
وہ اُس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اپنے آنے کی وجہ بیان کرنے لگا۔
ّّ”میں بالکل ٹھیک ہوں ،لیکن آپ میرا نام کیسے جانتے ہیں؟”
مالا دوسری بار اپنا نام پکارنے پر پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
” آپ کا نام ۔۔۔آپ کا نام تو ہر جگہ لکھا ہے ۔۔۔گاڑی کی چابی سے لٹکتی کی چین پر۔۔۔فرنٹ سیٹ پر رکھے لپ ٹاپ کے بیگ پر ۔۔۔آپ کے موبائل کے پنک کور پر ۔۔۔ہر کوئی آپ کا نام تو پکار رہا ہے ۔۔۔کبھی آ پ کی چھوٹی بہن ۔۔۔کبھی پارک کی نٹ کھٹ لڑکیاں ۔۔۔کبھی کافی شاپ والا گول مٹول بچہ۔”
اُس نے جاذب انداز میں تفصیل سے جواب دیا تو مالا کو حیرانی کا شدید جھٹکا لگا۔اُس کا انداز جتنا دلچسپ تھا ،اُس کی نگاہ اتنی گہری ۔اُس کی آواز جتنی سریلی تھی ، اُس کا مشاہدہ اُتنا تیز ۔دل ہی دل میں وہ اِس کی کڑی جاسوسی کو سراہنے لگی۔
چائے میں چینی ملانا اُس گھڑی بھایا بہت
زیر لب وہ مسکراتا شکریہ اچھا لگا
ساتھ ساتھ چلتے ہوئے وہ مالا کی فیورٹ جگہ پر آگئے تھے۔وہ بھاپ اڑاتی کافی میں اُس کے چہرے سے اجنبیت کا رنگ اترتے دیکھنے لگی تو وہ چائے کے گول گول دھویں میں اُس کی چمکتی آنکھوں میں اپنائیت کی جھلک محسوس کرنے لگا ۔مالا نے اچھی میزبانی کا ثبوت دیتے ہوئے چینی کا پوچھا اور دو چمچ چینی نزاکت سے پیالی میں مکس کرکے اُس کے سامنے رکھی ، جسے اُس نے شکریے کے ساتھ مسکراتے ہوئے قبول کیا تھا ۔یہ اُن کی پہلی باقاعدہ ملاقات تھی ۔اِس کے بعد کی کچھ ملاقاتیں دوستی کے رنگ میں رنگی ، تو کچھ محبت کا خوشبو بھرا پیغام لے آئیں۔جلد بازی تو مالا کی سرشت میں شامل تھی ،لیکن اُس کا دل اُس سے زیادہ جلد باز ثابت ہوا تھا۔وہ اُس شخص کی باتوں ، سوچ اور ظاہری حلیے سے اتنی متاثر ہوئی کہ ایک مہینے کے اندر اندر اپنی پوری زندگی اُس کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کر بیٹھی۔
*****
"تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے مالا۔بولنے سے پہلے تمھیں کچھ تو سوچنا چاہیے۔تم سے ہر طرح کی بیوقوفی کی امید کی جا سکتی ہے،مگر کیا خبر تھی کہ تم تو ہر حد سے گزر جاؤ گی۔”
اُس نے کچھ ایسا کہا جس سے ریحانہ سخت برہم ہوگئیں ۔
"اپنی شادی کے لیے اپنی پسند کا اظہار کرنا ،میرا حق ہے بیوقوفی نہیں۔”
وہ بغیر لحاظ شرم کے مستحکم آواز میں بولی۔
"یہ ایک بے تکی بات ہے۔۔۔احمقانہ سوچ ہے ۔۔۔ناجائز خواہش ہے۔۔۔تم کسی راہ چلتے اجنبی سے ٹکرائی اور اب اُس سے شادی کرنا چاہتی ہو۔”
ریحانہ کی غصیلی آواز میں طنز نمایاں تھا۔
"شادی ناجائز خواہش نہیں ہوتی ہے ممی اور نہ محبت۔پلیز سمجھنے کی کوشش کریں۔ وہ بہت اچھا انسان ہے ۔میں بہت خوش رہوں گی ۔”
مالا نے محبت سے انھیں سمجھانے کی کوشش کی۔
"محبت۔۔۔محبت کے قابل بھی تم نے اُس شخص کو چنا جو عزت سے رشتہ مانگنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتا۔تمھاری عقل پر تو بالکل پردے پڑ چکے ہیں مالا۔”
ریحانہ نے تیکھے لہجے میں اُسے اُس کی پسند کی نا اہلی کا احساس دلایا ۔
"مجھے اُس کے گھر والوں سے کوئی غرض نہیں۔وہ اِس قدر مکمل انسان ہے کہ مجھے کسی اور رشتے کی ضرورت ہی نہیں۔”
وہ بھی اِس رشتے کے کمزور پہلو کو اپنی طاقت بنانے پر تلی ہوئی تھی۔
"ہم خاندانی لوگ ہیں اور تم کوئی لے پالک بچی نہیں ہو جس کا ہاتھ ہم راہ چلتے ہوئے شخص کے ہاتھ میں پکڑا دیں۔تمھارے پاپا کسی صورت نہیں مانیں گے اور میری طرف سے بھی انکار سمجھو۔”
ریحانہ نے خفگی سے نگاہ پھیرتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا۔
"یہ میری زندگی ہے ۔فیصلہ بھی میرا ہوگا کہ مجھے کس کے ساتھ گزارنی ہے۔آپ نے بھی اپنی مرضی سے زندگی گزاری تھی۔میں بھی آپ ہی کی بیٹی ہوں۔”
وہ ریحانہ کے مقابل کھڑی ہوکر اُن کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔اُس کا سر گھمنڈ سے بلند تھا تو نظریں بغاوت سے بھری ہوئیں۔
"بدتمیز لڑکی اب تم اپنی ماں کو آئینہ دیکھا ؤ گی۔”
ریحانہ کا صبر جواب دے گیا تو بے اختیار اُن کا ہاتھ اُٹھ گیا تھا۔انگلیوں کے نشان مالا کے گال پر ثبت ہوچکے تھے اور تھپڑ کی آواز پورے ہال میں سنائی دی تھی۔
"ہاں دیکھاؤنگی ۔۔۔کیونکہ سب محبت کرنے والے اپنا وقت ۔۔۔اپنی ضد۔۔۔اپنی بغاوت اور اپنی غلطی بھول جاتے ہیں۔۔۔اپنے دور میں انھیں محبت ٹھیک لگتی ہے اور اپنے بچوں کی باری پر ناجائز۔۔۔میں بھی محبت کو ہارنے نہیں دونگی ۔۔۔میں بھی اِس ناانصافی کے خلاف آواز اُٹھاؤں گی ۔”
مالا سسکتے ہوئے جنونی انداز میں چلائی۔
ریحانہ نے پہلی بار اُس پر ہاتھ اُٹھایا تھا۔مالا کے لیے یہ صدمہ بہت بڑا تھا۔اُس کے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے اور وہ غصے سے کانپ رہی تھی۔
"بس کردو مالا۔۔۔یہ محبت نہیں جنون ہے۔۔۔اُس وقت اور آج کے وقت میں بہت فرق ہے۔۔۔اب لوگوں میں نہ مخلصی ہے نہ وفا۔۔۔ہم تمھارا بھلا سوچتے ہیں۔۔۔اِس دو ماہ کی محبت کے لیے ہمارے برسوں کے پیار کو رسوا مت کرو۔”
ریحانہ باغی بیٹی کے الفاظ پر بکھرتے ہوئے صوفے پر ڈھے سی گئیں۔
"اگر آپ میرا واقعی بھلا چاہتی ہیں تو پاپا سے بات کیجیے ۔شادی تو میں ہر صورت اُسی سے کرونگی۔آپ دونوں کی مرضی ہو یا نہ۔”
وہ حتمی فیصلہ سنا کر پیر پٹختی اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔
ریحانہ کتنی ہی دیر وہی سر پکڑے بیٹھی رہیں۔۔۔انھیں یوں لگا جیسے گزرا کل لوٹ کر سامنے آچکا ہے ۔۔۔جیسے پرانی کہانی پھر سے دہرائی جا رہی ہے ۔۔۔جیسے کچھ غلطیوں کی سزا ملنے کی گھڑی آگئی ہے۔۔۔ناچاہتے ہوئے انھوں نے اولاد کی خاطر ہتھیار ڈال دیے ۔۔۔رضا احمد سے بات کی گئی۔۔۔وہ جو ابھی پہلے غم سے اُبھر نہ پائے تھے ۔۔۔مالا کے اِس نئے کارنامے پر غصے سے بے قابو ہوگئے۔۔۔وہ کئی دن تک انھیں پیار اور دلائل سے منانے کی کوشش کرتی رہی۔۔۔کئی دن لڑائیوں کی نذر ہوتے رہے ۔۔۔کئی دن گھر میں عدالت لگتی رہی۔۔۔مگر نہ مالا اُن کو منا پائی نہ اُن کی مان سکی۔۔۔آخر اُس نے ایک دن دل کے حق میں فیصلہ دے کر خونی رشتوں کو بدنامی کی قید میں دھکیل دیا تھا۔
*****
سنا میں نے ۔۔۔تم نے بھی سنا ہوگا
اِن عشق کے ماروں میں ایک پیڑ کا چرچا ہے
وہ پیڑ جس کی چھاؤں دھوپ کو گلے نہیں لگاتی
وہ پیڑ جس کے پتے مراد بانٹتے نہیں تھکتے
اُس پیڑ کی ہوا میں کہانی سانس لیتی ہے
اُس پیڑ پر نام لکھنے سے کسی کا ساتھ ملتا ہے
میں اپنے آپ کو باندھ کر وہ پیڑ کھوجنے نکلا ہوں
طلب کی دنیا میں عشق ڈھونڈنے نکلا ہوں
میرا نصیب جاگا ہے
مجھے وہ پیڑ مل گیا ہے
پر اُس کی چھاؤں کے چہرے پر
دھوپ کی سینکڑوں جھریاں ہیں
پتوں نے ہرا لباس اتار کر
زرد رنگ اوڑھ لیا ہے
اُس کی ہوا نے میری سانسوں کو قبول کرنے سے ہے روکا
ایک عاشق نے کہا ہے تو دیر سے پہنچا ہے
میں ٹوٹتے زرد پتوں کو حسرت سے دیکھتا ہوں
پیڑ کے سینے پر لکھے ناموں میں ڈھونڈتا ہوں
میرا نام پتہ نہیں ہے
میری تمنا دعا نہیں ہے
ہزاروں لوگ مجھ سے ہیں
ہزاروں خواہشیں ہیں مجھ سی
پر اُس پیڑ کے سائے تلے
میری جگہ نہیں ہے
وہ ایک پیڑ کے نیچے سر جھکائے بیٹھا ہے۔۔۔کسی نے اُسے بتایا تھا کہ یہ ہرے پتوں والا عشق کا پیڑ ہے۔۔ ۔نجانے وہ کب سے یہاں بیٹھا ہے۔۔۔شاید وہ پتوں کے گرنے کا منتظر ہے۔۔۔اچانک ہوا چلتی ہے ۔۔۔ایک سر سبز پتا اُس کی گود میں آگرتا ہے ۔۔۔وہ خوشی سے سر اُٹھاتا ہے ۔۔۔کہنے والے نے سچ کہا تھا مراد پوری ہونے والی ہے ۔۔۔ہوا کے رستے پر ڈولتی پھولوں سے سجی ایک پالکی قریب آرہی ہے۔۔۔اُس کے قریب آنے سے پہلے خوشبو سے مہکتی ہوا نے پیغام دے دیا ہے کہ اُس پالکی میں کوئی اور نہیں پھولوں کی ملکہ جیون ہے۔۔۔پالکی دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی ہے ۔۔۔وہ پتا ہاتھوں میں لیے اُس کے استقبال میں کھڑا ہو چکا ہے۔۔۔ منہ زور ہوا شرارت پر اُتر کر اُس کی آنکھوں میں دھول ڈال دیتی ہے۔۔۔۔وہ بے چینی سے آنکھیں مل رہا ہے ۔۔۔پالکی کی دھندلی تصویر آہستہ آہستہ صاف ہو رہی ہے۔۔۔پالکی رک چکی ہے ۔۔۔ابھی بھی اُن کے بیچ کچھ قدموں کا فاصلہ ہے ۔۔۔جیون ایک ادا کے ساتھ اپنے مہندی رچے پیر زمین پر رکھتی ہے۔۔۔اُس کے پیر اُسے اپنے دل پر محسوس ہوتے ہیں ۔۔۔اُس کی کانچ کی چوڑیاں خاموش فضا میں ایسا راگ چھیڑتی ہیں کہ ہر شے جھوم اُٹھتی ہے۔۔۔اُس کے شانوں پر گلابوں کی شال ہے اور اُس کے جسم پر چاندنی کا لباس۔۔۔وہ دیکھتا ہے ۔۔۔پھر سوچتا ہے ۔۔۔اُسے یاد آجاتا ہے کہ کل شام جیون نے سرخ شال ہی تو پہنی تھی اور گول گول گھومتی سفید فراک وہ کہاں بھولا تھا۔۔۔وہ پھر اُسے دیکھتا ہے ۔۔۔کبھی وہ ایک روایتی دلہن کی طرح نظر آتی ہے۔۔۔۔کبھی کسی کہانی سے نکلی ہوئی جادو کی پری لگتی ہے۔۔۔وہ اُلجھن میں ہے۔۔۔شدید اُلجھن میں ہے ۔۔۔وہ نہیں جانتا یہ کونسی جگہ ہے۔۔۔لیکن یہ حویلی نہیں ہے۔۔۔کچھ دیر بعد دل سمجھ جاتا ہے ۔۔۔۔یہ محبت کا جزیرہ ہے۔۔۔۔اِس سے بڑھ کر کیا خوش قسمتی ہوگی کہ وہاں صرف وہ اور جیون ہیں۔
کچھ دیر وہ اُسے دیکھتا رہتا ہے ۔۔۔وہ خاموش کھڑی ہوئی ہے۔۔۔منظر پھر بدل جاتا ہے ۔۔۔ہوا تیز چلتی ہے اِس قدر تیز کہ درخت کے سارے پتے گر جاتے ہیں۔۔۔وہ گھبرا جاتا ہے ۔۔۔اُس کا ہاتھ اور عشق کا پیڑ خالی ہوچکے ہیں۔۔۔وہ اردگرد دوڑ رہا ہے ۔۔۔وہ ہرا پتا ڈھونڈ رہا ہے ۔۔۔لیکن سارے پتے زرد ہیں۔۔۔وہ دوڑتا دوڑتا پالکی کے قریب پہنچ جاتا ہے ۔۔۔۔یہ عشق کا کیسا جھل تھا کہ جیون اکیلی نہیں ہے ۔۔۔یہ اُس کا جزیرہ نہیں ہے ۔۔۔کیونکہ جیون کے ساتھ جازم ہے۔۔۔وہ اپنے قدم پیچھے ہٹاتا ہوا اُن دونوں کو دیکھ رہا ہے ۔۔۔وہ دونوں ایک دوسرے میں گم اُس سے غافل ہیں ۔۔۔جیون کی کالی گہری آنکھوں میں محبت ہے۔۔۔بھروسہ ہے۔۔۔سپردگی ہے۔۔۔جازم کی بھوری نشیلی آنکھوں میں دھوکہ ہے۔۔۔ مطلب ہے۔۔۔ ہوس ہے۔۔۔جیون اُس کے قریب ہے ۔۔۔ جازم اور قریب آرہا ہے ۔۔۔وہ اُس کا ہاتھ پکڑ رہا ہے۔
ـ”رک جاؤ جازم۔۔۔میں کہتا ہوں رک جاؤ۔”
جیسے ہی سیف کی چیخ ہوا میں بلند ہوئی سارے جزیرے پر آگ لگ گئی۔وہ جلتی ہوئی آنکھیں مسلتے ہوئے اُٹھ بیٹھا تھا۔اُس کی سانسیں تیز تھیں اور سخت سردی کے باوجود جسم پسینے سے بھیگا ہوا۔وہ اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا کہ ساری رات جاگنے کا عہد کرکے وہ کیسے سو گیا تھا۔اُس نے پریشان نظروں سے گھڑی کی طرف دیکھا ،صبح کے چار بج رہے تھے۔ نجانے کس جذبے اور خیال نے اُسے اُٹھنے پر مجبور کر دیا۔ننگے پاؤں بکھرے بال اُس وقت اُس کی حالت ایک مجنوں جیسی تھی ،جو ٹھنڈے فرش پر نہیں ریگستان میں دوڑ رہا ہو۔وہ دوڑتے دوڑتے اُس سے ٹکرا گیا۔ اُس کی آنکھیں، اُس کا چہرہ اور شانوں پر لٹکتی جازم کی شال سب کچھ بتا رہی تھی۔کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ اُس سمے پتھر کی حویلی میں ایک شخص پتھر کا بن چکا تھا۔
"تمھیں شرم نہیں آتی۔تمھاری اتنی جرت کہ تم میرا پیچھا کر رہے ہو۔دو ٹکے کے گھٹیا ملازم ! آخر کب تم اپنی اوقات میں رہنا سیکھو گے۔”
وہ ماتھے پر شکن لاتے ہوئے نخوت سے ہر لفظ چبا کر بولی۔
وہ بہت کچھ کہنا اور پوچھنا چاہتا تھا ،مگر وہ صدمے میں تھا ایک ایسا صدمہ جو کسی اپنے کے مرجانے پر ہوتا ہے۔وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سینہ پیٹنا چاہتا تھا،مگر دونوں ہاتھ سُن تھے۔وہ زار و قطار رونا چاہتا تھا،لیکن اشکوں کا سمندر خشک تھا۔
"خبردار جو کسی سے کچھ بھی بکواس کی۔تمھاری کھال اُدھیڑ دونگی۔ تمھاری جان نکال دو نگی ۔”
جیون نے اُسے گریبان سے پکڑ کر زور سے دھکا دیا تو وہ پیچھے ستون سے جا ٹکرایا۔وہ اُسے حقارت سے دھمکی دیتی جا چکی تھی۔وہ اُسے کیسے بتاتا کہ مان اور اعتبار کی کھال اُدھڑ چکی ہے اور محبت کی جا ن نکل گئی ہے۔
*****
اُس سے یہی کہتا ہوں واجب احترام عشق ہے
اندر سے یہ خواہش ہے وہ جیسا کہے ویسا کروں
عشق اور احترام کا بڑا گہرا گٹھ جوڑ ہے ۔یہ پھول خوشبو جیسا ساتھ ہے،یہ سانس جسم جیسا تعلق ہے،جیسے پھول خوشبو بنا بے مول ہے،جسم سانس بنا بے جان ہے ،ویسے ہی عشق احترام کے بغیر کھوکھلا ہے ۔سچّے عشق کا دام کوئی نہیں چکا سکتا کیونکہ ایسے عشق کی قیمت کا تعین ہی نہیں کیا جا سکتا، اور جس عشق میں طلب کی بولی لگ جائے وہ انسان کو انسانیت کے معیار سے گرا دیتا ہے ۔لحاظ ، شرم ،احترام کے معنی بدل جاتے ہیں ۔بس اِسی مقام پر انسان اپنے عشق کو سستا کر دیتا ہے ، اور وہ عشق ہی کیا جو انسان کی آبرو کی قیمت گھٹا دے ، جو نفس کے بازار میں اپنے محبوب کی عزت نیلام کردے۔جازم نے جس عشق کا خواب اُسے سونپا وہ تو خود اُس کی فریبی نگاہوں سے کوسوں دور تھا،جبکہ جیون سمجھ رہی تھی ع ش ق کا مفہوم ہے تو بس جازم کی آنکھیں ہیں ،جازم کے الفاظ ہیں ۔وہ تو پہلے ہی اُس کی دیوانی تھی ، لیکن قسمت کے ہاتھوں ملنے والے اِس موقعے نے اُس کے جنون کو اور بڑھا دیا تھا۔وہ مسرور تھی کہ وہ اپنے عشق کو پا گئی ہے۔ وہ نازاں تھی یہ عشق اُس کے بس میں ہے۔اُسے یقین تھا کہ جازم جلد اُسے اپنی دلہن بنائے گا اور وہ اُس کے دل سمیت اِس حویلی پر بھی حکمرانی کرے گی۔
"میں اُس سے ڈرتی نہیں ہوں جازم ،مگر صبح اُس کی خونخوار نگاہوں میں کچھ ایسا تھا کہ میں سو نہیں پائی۔ایک پل کے لیے لگا وہ اپنی حیثیت بھول کر میرا گلا دبا دے گا یا پھر پوری حویلی کو جگا کر ہمیں بے عزت کرے گا۔”
جیون نے سہمی ہوئی آواز میں اپنا خوف ظاہر کیا۔
وہ صبح پہلی ہی فرصت میں جازم کو اُس خطرے سے آگاہ کرنے چلی آئی جو اُسے سیف کی ذات سے محسوس ہوا تھا۔
"ہاہاہا۔۔۔اب جیون حیات جیسی نڈر شیرنی اُس سے ڈرے گی۔۔۔اُس کیڑے مکوڑے سے۔”
جیون کی پریشانی سن کر جازم کا بے ساختہ قہقہہ چھوٹا۔
"مت بھولو جازم یہ کیڑے مکوڑے بھی کاٹ لیتے ہیں ۔اِن کا بدن پر رینگنا ہی بے تاب کر دیتا ہے اور کوئی حلق تک جا پہنچے تو انسان مچھلی کی طرح تڑپ کر رہ جاتا ہے۔ ”
جیون مزید سنجیدہ ہوئی۔
"کچھ نہیں کر سکتا سیف ۔وہ ایک بے ضرر انسان ہے۔ اُس کے تو ابھی پر ہی نہیں نکلے،اگر نکل بھی آئے تو ہم کاٹنے میں ماہر ہیں۔اُس سے مت ڈرو۔تمھیں تو ہم سے ڈرنا چاہیے۔اِس جنگل کے شیر تو ہم ہیں۔”
جازم اُس کا ہاتھ تھام کر تسلی دیتے دیتے شرارت پر اترنے لگا۔
"اچھا تو ہم تم سے ڈر گئے ۔۔۔اب تمھارے آس پاس بھی نہ بھٹکیں گے۔”
جیون ساری باتیں بھول کر اُس کے انداز پر کھلکھلائی اور فوراً اپنا ہاتھ چھڑا کر کھلے دریچوں کی طرف بھاگی۔
خود کشی جرم بھی ہے صبر کی توہین بھی ہے
اس لیے عشق میں مر مر کے جیا جاتا ہے
سیف نے وہ رات اذیت میں کاٹی تھی اور آنے والا ہر دن اُس کی تقدیر میں یہ اذیت لکھ چکا تھا۔اُس کے لیے ا ب اُن کی ملاقاتیں ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی تھیں۔وہ چاہ کر بھی جازم کا گریبان پکڑ کر نہ اُسے زمین کی دھول چٹا سکا اور نہ جیون کا ڈوپٹہ تھام کر اُسے اُس کے وقار کی بلندی کا احساس دلا سکا۔ اُس کے دن کُھلے ہوئے زخموں کی طرح ہوگئے تھے اور راتیں قبر کی طرح تنگ۔ یہ سات دن سات جنموں کے مترادف تھے۔وہ جانتا تھا جیون تباہ ہو چکی ہے ،مگر وہ اُسے کسی طرح آباد دیکھنا چاہتا تھا۔ اب اُس کے لبوں پر جیون کو پانے کی نہیں ،جازم اور جیون کے ایک ہونے کی دعائیں تھیں۔
*****
مجھ کو مانگی ہوئی عزت نہیں پوری آتی
ٹوٹ جاؤں نہ یہ پوشاک بدلتا ہوا میں
ذکیہ بیگم کی واپسی ہوئی تو سیف کی جان میں جان آئی۔بے چینی کی آگ اُس کی محبت کے وجود کو تو جلا چکی تھی اب وہ صرف جیون کی چاہت کا آشیانہ بچانے کی خواہش میں تھا۔اُسے کبھی اتنی عزت نہیں ملی تھی کہ وہ سر اُٹھا کر بات کرتا لیکن جیون کی گردن جھکنے سے بچانے کے لیے اُسے آج غلامی سے جھکے سر کو اٹھانا ہی تھا۔
"مجھے ممانی جان کو جلد از جلد ساری صورتحال سے آگاہ کرنا چاہیے۔ہوسکتا ہے وہ مجھ پر بے اعتباری کی نگاہ ڈال کر گستاخ قرار دے دیں یا مجھ پر غفلت کا جرم عائد کرکے سخت سے سخت سزا سنا دیں ۔۔۔ ممکن ہے کہ جازم اِس بہادری پر مجھے بزدلوں کی موت مارے یا جیون اِس نافرمانی پر میرا جینا دوبھر کر دے ۔کچھ بھی ممکن ہے ،مگر میں یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ جیون مزید غلطیاں کرے ۔”
وہ کئی دن سوچ بچار کرتا رہا کیونکہ ذکیہ بیگم سے بات کرنے کے لیے اُسے اپنی عمر سے زیادہ ہمت درکار تھی۔
"ممانی جان میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔”
ذکیہ بیگم اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہی تھیں کہ سیف کی گھبرائی ہوئی آواز نے اُن کی توجہ کھینچی۔
"تمھاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی۔تمھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ میرے ہجرے میں میری اجازت کے بغیر کوئی نہیں آسکتا۔”
اِس سے پہلے وہ کچھ کہتا ذکیہ بیگم کرسی سے اُٹھتے ہوئے اُس پر برس پڑیں۔
"ممانی جان بات ضروری نہ ہوتی تو میں اپنی اوقات نہ بھولتا۔بس ایک بار میری بات سن لیں۔”
سیف نے عاجزی سے ہاتھ جوڑتے ہوئے کانپتی آواز میں کہا۔
"بتاؤ کونسی ایسی بات ہے جو حویلی کا غلام جانتا ہے اور میں بے خبر ہوں۔”
وہ چند ثانیے اُسے گھورنے کے بعد اجازت دیتے ہوئے طنزیہ بولی تھیں۔
"ممانی جا ن جیون بہت اچھی لڑکی ہے۔یوں لگتا ہے جیسے وہ نہ ہو تو حویلی سانس ہی نہ لے۔آپ اُسے اِس حویلی میں ہمیشہ کے لیے رکھ لیجیے ۔جازم لالہ کے لیے اُس سے بہتر کوئی اور لڑکی ہو ہی نہیں سکتی ۔”
سارے سوچے سمجھے لفظ گڈ مڈ ہوگئے تو وہ اٹکتے اٹکتے صرف اِتنا ہی کہہ پایا۔
"احمق لڑکے کیا تم مجھے جیون کی خوبیاں گنوانے آئے ہو اور تم ہوتے کون ہو مجھے اُن دونوں کی زندگی کے بارے میں مشورہ دینے والے۔”
ذکیہ بیگم نے غصے سے چلا کر کہا تو وہ لڑکھڑاتے ہوئے کچھ قدم پیچھے ہٹ گیا۔
"میں یہ کہنا چاہتا ہوں،میرا مطلب ہے کہ جیون اور جازم لالہ شاید ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔”
وہ ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے ہچکچا کر بولا۔ذکیہ بیگم کے غضب نے اُس کے سارے اعتماد کو ختم کردیا تھا۔
"یہ سب میں جانتی ہوں ۔تمھاری آنکھوں سے زیادہ دیکھتی ہیں میری آنکھیں اور تمھارے کانوں سے زیادہ سننے کا ہنر ہے میری سماعتوں میں۔کم عقل بونے نوکر ،تم نے میرا اچھا خاصا وقت برباد کر دیا۔”
وہ سابقہ لہجے میں اپنے عتاب سے اُسے مزید نیچا دیکھانے لگیں۔
"تمھاری اہم بات ہو چکی ہے تو دفع ہو جاؤ یہاں سے ۔”
ذکیہ بیگم نے دوبارہ سے اپنی کتا ب اُٹھاکر انگلی سے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔
"میں جو کہنے آیا ہوں۔وہ میں نہیں کہہ سکتا۔ایک لڑکی کی عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا ۔میں یوں اُسے ممانی جان کی نظر میں نہیں گرا سکتا۔میں اُسے ایسے بدنام نہیں کرسکتا۔”
وہ دل ہی دل میں خود کو ملامت کرتا ،آنکھیں ادب سے جھکاتا ہجرے سے نکل گیا تھا۔
بزدلی ایسی نامراد شئے ہے کہ انسان اپنے راستے کے کانٹے تو چن ہی نہیں سکتا اور اگر وہ دوسرے کی راہ میں پڑی کنکریاں بھی سمیٹنا چاہے تو وہ اُسے بڑے بڑے پتھر نظر آتی ہیں۔وہ کچھ دن اپنے کمرے میں بند ہوکر اپنی قسمت پر ماتم کرتا رہا۔وہ ایسے چھپ رہا تھا جیسے اُس نے کوئی گناہ کیا ہو اور گناہ کو چھپانا اُس پر آواز نہ اُٹھانا گناہ کرنے کے مترادف ہی تو ہوتا ہے۔
*****
اب میری راکھ اُڑا یا مجھے آنکھوں سے لگا
تجھ تلک آگیا ہوں آگ پہ چلتا ہوا میں
ّآج جازم حویلی میں نہیں تھا اُسے جیون سے بات کرنے کے لیے یہ موقع بہترین لگا۔۔۔وہ پوری حویلی میں اُسے دیوانہ وار ڈھونڈنے لگا۔۔۔نہ وہ بڑے آنگن میں مرغیوں کے پیچھے دوڑتی ہوئی ملی ۔۔۔نہ مہکتے باغ میں تتلیوں کے پیچھے بھاگتے ۔۔۔نہ وہ باورچی خانے میں مسالوں سے اُلجھتی نظر آئی ۔۔۔نہ ملازموں کے سر پر کھڑی چیختی چلاتی ہوئی۔۔۔وہ پوری حویلی کا چپّہ چپّہ دیکھتا۔۔۔آئینوں سے پوچھتا۔۔۔ستونوں سے ٹکراتا۔۔۔زینوں سے لڑتا حویلی کی تیسری چھت پر پہنچا تو وہ اُسے دور سے دیکھائی دی۔
نیلی پری دنیا جہاں سے غافل سفید کبوتروں کو دانہ ڈالنے میں مگن تھی ۔ اُس نے گہرے نیلے رنگ کی لمبی فراک پہن رکھی تھی جس پر جگہ جگہ لشکارے مارتے سفید شیشے ایسے معلوم ہو رہے تھے ، جیسے سمندر پر تیرتی ہوئی آوارہ سپیاں۔تیز دھوپ میں اُس کے گیلے بالوں سے ٹپکتا ہوا پانی شفاف فرش پر چمکتی ہوئی بوندوں کی طرح محسوس ہو رہا تھا۔کبوتروں کے سنگ غٹر غوں کرتی وہ بہت معصوم لگ رہی تھی ۔اُس کی اڑان اِن پرندوں جیسی ہی تھی ، وہ اُسے روکنا چاہتا تھا ، وہ اُسے روکنے ہی تو آیا تھا۔ وہ اتنی جاذبِ نظر لگ رہی تھی کہ سیف کا ٹوٹا دل پھر سے جڑنے لگا اور جمع کی گئی ساری ہمت بکھر سی گئی۔دل نے آگے بڑھنے سے روکا ،مگر وہ ہر صورت اپنی بات اُس تک پہچانا چاہتا تھا اور اب اُسے صرف ایک ہی راستہ نظر آیا۔
آنسوؤں سے لکھ رہے ہیں بے بسی کی داستاں
لگ رہا ہے درد کی تصویر بن جائیں گے ہم
"میں ایک بار تم سے وہ سب کچھ کہنا چاہتا ہوں جو شاید تم سن نہ سکو۔۔۔تم کہتی ہو میں دو کوڑی کا نوکر ہوں۔۔۔میں کمتر ہوں۔۔۔میںبدصورت ہوں۔۔۔میں مانتاہوں میں ہوں۔۔۔مگر تم اِس حویلی کے ہر انسان اور ہر شئے سے زیادہ قیمتی ہو۔۔۔انمول ہو۔۔۔خوبصورت ہو۔۔۔تم اِس حویلی کے ماتھے پر سجا ہوا غرور ہو۔۔۔مان ہو۔۔۔تمھیں اپنے محبوب رشتوں کا واسطہ ہے اپنی آن اور شان کو خاک میں مت ملاؤ۔۔۔عشق غلط نہیں ہو تا جیون! اور جو عشق غلط راہ لگا دے وہ عشق کے زمرے میں نہیں آتا۔۔۔عشق کی نظریں جب جھکی ہوتی ہیں تو دل کی آنکھیں کھل جاتی ہیں تب عاشق اور دھوکے باز میں فرق صاف دیکھائی دیتا ہے۔۔۔بس ایک بار آنکھیں بھر کر نہیں آنکھیں جھکا کر دیکھو۔۔۔تمھارا عاشق عشق نہیں جانتا ورنہ وہ محافظ ہوتا راہزن نہ بنتا۔۔۔میں تمھیں روکنا چاہتا تھا ، سمجھانا چاہتا تھا، مگر اُن حویلیوں کے نوکر اُن حویلیوں کی عزتوں کی حفاظت نہیں کر سکتے جن حویلیوں کے مالک ہی اپنی عزتوں کے لٹیرے ہوں۔۔۔تم ایک کانٹوں بھری راہ میں بھٹک چکی ہو۔۔۔ جانتا ہوں کہ تم واپس نہیں پلٹ سکتی ۔۔۔بس اِس راہ کو اپنے لیے گلزار بنا لو۔۔۔اگر وہ سچا ہے تو اُسے کہو تمھیں ساری دنیا کے سامنے اپنائے۔۔۔تمھیں اپنا نام دے۔۔۔تمھیں وہ عزت دے جس کی تم حقدار ہو۔”
اُس نے دو سفید کاغذ اپنے اندر کی بھڑاس سے سیاہ کر دیے تھے۔اُسے امید تھی کہ جیون خط کو پڑھ کر کوئی نہ کوئی مضبوط اور درست قدم ضرور اُٹھائے گی۔
*****
وہ ابھی تک نیم بے حوشی کی حالت میں تھا ۔اُس کی آنکھوں او ر منہ پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔وہ آوازوں سے بمشکل اندازہ لگا پایا کہ اُس کے اردگرد تین آدمی موجود ہیں ۔دائیں طرف والے نے سر پر پستول تان رکھی تھی تو بائیں جانب والا گاہے بگاہے گندی گالیا ں بکتا اور تیسرا آدمی سائے کی طرح پیچھے پیچھے چل رہا تھا، جو ہر کچھ دیر بعد لات مار کر اُسے زمین پر گراتا اور پھر بالوں سے پکڑ کر کھڑا کر دیتا۔ خوف وحشت اور نشے کی ادھوری کیفیت اُسے روح تک تکلیف پہنچا رہی تھی۔ اُس نے بوجھل ذہن پر زور ڈالتے ہوئے آج کے دن کی شروعات کے با رے میں سوچنے کی کوشش کی۔ وہ آج صبح صبح شہر جانے کے لیے روانہ ہوا تھا۔اُس کی جیب میں اچھی خاصی رقم اور سر پر حویلی کے ڈھیروں کام تھے۔ ایک سنسنان جگہ پر دو لوگوں نے اُس سے راستہ پوچھا اور پھر اندھیرا سا چھا گیا۔کچھ ہو ش آیا تو وہ جان گیا کہ اُسے اغوا کر لیا گیا ہے ، مگر کیوں ؟ کس لیے ؟ یہ سوال ابھی باقی تھے۔اُس کی جیب میں موبائل فون اور پیسوں کا موجود ہونا اِس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اغوا کرنے والوں کو اُس کے پیسے یا قیمتی سامان سے کوئی غرض نہیں تھی ۔
وہ کسی تنگ جگہ سے چلتے چلتے ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے رک گئے تھے۔اُن میں سے ایک آدمی نے آگے بڑھ کر دروازے کا تالا کھولا اور دوسرے نے وحشی پن سے کمزور وجود کو لات مار کر اندر دھکیل دیا۔تعفن زدہ ہوا کے جھونکے اُس کے نتھنوں سے ٹکرائے تو اُس نے جھرجھری سی لی۔کمرے میں پھیلی بدبو اور مٹی بتا رہی تھی کہ کمرہ کافی عرصے سے بند پڑا رہا ہے۔اُسے ایک کرسی کے ساتھ یوں باندھا گیا کہ وہ پوری طاقت لگا کر بھی اپنے ہاتھ اور پیروں کو حرکت نہیں دے سکتا تھا۔ اگلے ہی لمحے زخمی سر پر ٹھنڈا پانی ڈال کر اُسے مکمل ہوش کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا ۔ نشہ اترتے ہی اُسے دوگنی اذیت محسوس ہوئی۔ دھول کے اڑتے ذرّوں نے سانسوں کو تکلیف پہنچائی تو ان گنت چھوٹے چھوٹے کیڑے بدن پر رینگنے لگے ۔وہ اب سمجھ گیا تھا کہ اُس کو یہاں لانے اور قید کرنے کا مقصد بس سزا دینا ہے۔وہ درد سے بلبلاتے ہوئے گزشتہ دنوں پر نظر ثانی کرنے لگا کہ کب اُس نے کسی کا برا چاہا تھا؟ کب اُس نے کسی کا حق مارا تھا یا کب اُس نے کسی کو چوٹ پہنچائی تھی۔
*****
میرے مزار پہ آ کر دیے جلائے گا
وہ میرے بعد میری زندگی میں آئے گا
ایک دن گزر چکا تھا۔۔۔آنکھوں پر پٹی بندھی ہونے کے باوجود وہ محسوس کر سکتا تھا کہ کمرے میں مٹی بڑھ چکی ہے۔۔۔اندھیرا گہرا ہو چکا ہے اور کیڑے مکوڑوں کی فوج زیادہ ہو رہی ہے۔۔۔گرمی اور گھٹن ایسی تھی کہ اُسے اپنا وجود جہنم میں جلتا محسوس ہونے لگا ۔۔۔وہ اِس دردناک سزا کی وجہ جاننا چاہتا تھا۔۔۔وہ گمنام نہیں مرنا چاہتا تھا۔۔۔مگر امید جیسے مرتی جا رہی تھی۔۔۔اُسے لگا جلد ہی یہ چھت گر جائے گی۔۔۔کرسی کے ساتھ بندھے بندھے یہ زہریلے کیڑے اُس کا سارا لہو پی جائیں گے۔۔۔یا ناک منہ کانوں میں گھستی یہ چبھتی مٹی اُسے جلد ہی مٹی مٹی کردے گی۔۔۔ہائے موت۔۔۔آہ جیون۔۔۔اُس کے لبوں پر ایک ہی نام تھا۔۔۔وہ مرنے سے پہلے اپنے سب جذبوں کو زندہ کرنا چاہتا تھا۔۔۔وہ خاک ہونے سے پہلے اُس گلاب کو اظہار کی خوشبو سونپنا چاہتا تھا۔۔۔لمبی نیند سے پہلے وہ تھوڑا سا جینا چاہتا تھا۔۔۔بس اُسے دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔لیکن یہ ایک دیوانے کی آخری خواہش تھی۔۔۔وہ کہاں اِس کال کوٹھڑی میں آتی۔۔۔اب وہ اُس کی کہانی میں آتی بھی تو اُس کی کہانی ختم ہوجانے کے بعد۔۔۔رسمِ دنیا نبھانے کو۔۔۔ایک وفادار ملازم کی قبر پر پھول ڈالنے کے لیے۔
بچھڑ کے اُس کو گئے آج تیسرا دن ہے
اگر وہ آج نہ آیا تو پھر نہ آئے گا
دو دن مزید گزر گئے ، بھوک پیاس بدبو اور جسم پر رینگتے حشرات نے اُسے موت کے قریب کر دیا تھا۔بس بند آنکھوں کے آگے لہراتی جیون کی ہلکی سے شبیہہ تھی جو اکھڑتی سانسوں کو زندگی سے جوڑے ہوئے تھی۔
"کوئی ہے؟”
"کوئی ہے؟”
"کوئی تو میری مدد کرے ۔”
"کوئی تو مجھے یہاں سے نکالے۔”
جیون جیون کا ورد کرتے منہ کی پٹی گیلی ہو کر ڈھیلی ہوگئی تو وہ پوری شدت سے مدد کے لیے چلایا،مگر کوئی نہیں تھا جو اُس کی لرزتی آوازوں کا جواب دیتا،اُس کے رونے کی صدائیں سنتا۔چلاتے چلاتے وہ مایوسی سے خاموش ہو گیا۔
"شاید کوئی مجھے ڈھونڈ رہا ہو یا کوئی میرے لیے فکرمند ہو۔ہوسکتا ہے جلد ہی کوئی یہا ں آئے اور میری اذیت ختم ہوجائے۔”
اِس مشکل گھڑی میں ٹوٹی آس نے پھر سے اُس کی ہمت بندھائی۔
"بس ایک بار دعا کردو جیون۔۔۔ایک بار میرے لیے ہاتھ اٹھا لو۔۔۔ایک بار اِس بدقسمت انسان کا راستہ دیکھ لو۔۔۔ایک بار میری کمی کو محسوس کر لو۔”
بے بسی سے بولتے ہوئے وہ بچوں کی طرح سسک پڑا۔
اُس کی کانپتی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی کہ اچانک کچھ گرنے کی زور دار آواز سے وہ ڈر سا گیا۔آنے والے نے طاقت کے زور پر دروازے کو زمین کی دھول چٹا دی تھی۔کچھ دیر کوئی اُس کے ارد گرد مغرور قدموں سے گھومتا رہا پھر اُس کی آنکھوں اور ہاتھوں پر بندھی پٹی ایک جھٹکے کے ساتھ بے دردی سے کھول دی گئی ۔تین دن بعد اُس نے روشنی دیکھی تو بے چینی سے آنکھیں ملنے لگا ۔جلتی آنکھیں پوری طرح سے کھل گئیں تو وہ سامنے و الے کا چہرہ د یکھ کر دم بخود رہ گیا تھا۔
"بڑے ڈھیٹ ہو تم ابھی تک زندہ ہو۔۔۔میرا خیال تھا کہ اگر تم زندہ بچ گئے تو تمھارے ساتھ دشمنی کرکے مزہ آسکتا ہے ۔۔۔اور اب بہت مزہ آئے گا۔۔۔یہ کھیل اور دلچسپ ہوگا۔”
جازم نے سیف کے مٹی اور زخموں سے بھرے چہرے پر جھک کر شیطا نی قہقہہ لگایا۔
سیف کو یہ سمجھنے میں ذرہ بھی دیر نہیں لگی کہ وہ کیوں اور کس وجہ سے یہاں ہے ۔اُسے دل ہی دل میں جیون کی نادانی پر افسوس ہوا تھا۔
"اب تک تو تم سمجھ ہی گئے ہوگے کہ تم کس جرم کی پاداش میں یہاں لائے گئے ہو۔”
جازم نے بے رحمی سے اُس کے بال مٹھی میں دبوچ کر کہا۔
سیف کی گرد ن جھٹکے سے پیچھے ہوئی تو درد کی ایک لہر ریڑھ کی ہڈی سے ہوتی ہوئی پورے جسم میں پھیل گئی۔
"تم جیسے معمولی نوکر کی ہمت کیسے ہوئی کہ تم آتش زنی کا کھیل کھیلوں ۔۔۔حویلی کی ایک لڑکی کو خط لکھو۔۔۔۔ہماری جوتیوں میں پلنے والے کمتر انسان ۔۔۔ہمارے خلاف سازش کرنے چلے تھے۔”
سیف کے چہرے پر برسنے والے زور دار طمانچوں نے کمرے کے سکوت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
"اِس ہمت کی تو واقعی داد دینی پڑے گی کہ تم نے مجھے ! جازم خان کو ایک لڑکی کی نظر میں گرانے کا سوچا۔”
کئی لاتیں اُس کے نحیف بدن پر پڑی تو وہ اچھلتا ہوا دور جا گرا۔
"تمھاری جان اِس لیے بخشی جا رہی ہے کہ تمھاری زندگی مزید عذاب کر دی جائے۔جیون تو میرے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہے اور تمھاری آنکھوں کو یہ تماشا دیکھ کر بہت تکلیف ہوگی۔اور میں دونگا تمھیں یہ تکلیف ! بہت دونگا۔”
جازم محبت کی توہین کرکے مکروہ ہنسی ہنستا چلا گیا۔
سیف کے چہرے سے رسنے والے خون کے قطرے زمین میں جذ ہو رہے تھے جبکہ اُس کے جسم کا سارا خو ن صدمے سے منجمد ہو چکا تھا۔اُس کا دل کیا کہ وہ اِس گھناؤنی سوچ والے شخص کا منہ نوچ لے۔
"کاش !جیون اِس لمحے تم اپنے محبوب کے الفاظ سن سکتی۔۔۔اُس کی آنکھوں کے دھوکے کو پڑھ سکتی ۔۔۔اُس کے چہرے پر ٹپکنے والی خباثت دیکھ سکتی۔ ”
درد بھری اِس خواہش کے ساتھ سیف کی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہو گی تھیں۔
*****
"میرے سارے کپڑے پرانے اور بوسیدہ ہو چکے ہیں مجھے خوبصورت اور موجودہ فیشن کے مطابق کپڑے چاہیے۔”
وہ بغیر ہچکچائے چاچی شگو کو حکم جاری کر رہی تھی۔
چاچی شگو نے اُسے عجیب نظروں سے دیکھا۔زندگی سے بیزار رہنے والی لڑکی کا زندگی میں یوں دلچسپی لینا اُنھیں مخمصے میں ڈال رہا تھا۔
"اتنی حیرانی سے کیا دیکھ رہی ہیں۔ہرانسان کو وقت کے ساتھ ساتھ خواہش اور ضرورت بدلنی پڑتی ہے۔اور میں اِس حویلی کی ملکہ ہوں مجھے ویسا دکھنا بھی چاہیے۔”
چاچی شگو کو سوچتا پا کر اُس نے اپنی فرمائش کی خود ہی وضاحت کردی۔
"بی بی جی رنگ لکھ دیجیے ۔دو دن تک آپ کو تمام کپڑے مل جائیں گے۔”
چاچی شگو اُس کی بات پر سر ہلاتے ہوئے تابعداری سے بولیں۔
وقت نے اُس پر عائد پابندیوں میں بس ایک پابندی ختم کردی کہ اب وہ تمام رنگ پہننے کے لیے آزاد تھی ۔اب تک سب رنگ اُس کے لیے پھیکے تھے کیونکہ وہ چاہ کر بھی اپنا اور رنگوں کا عکس نہیں دیکھ پائی تھی ۔ دو دن بعد اُس کا کمرہ جدید کپڑوں اور زیورات سے بھر گیا تو اُسے ایک انجانی خوشی کا احساس ہوا۔صاحبہ کے خیال میں شاید اُ س دن اُس کے لباس اور سنگھار میں کوئی کمی ر ہ گئی تھی اِس لیے وہ اپنے شوہر کی نظرِ کرم حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی ، لیکن اب نہ صرف اُس کے پاس خوبصورت لباس تھے ، بلکہ چاچی شگو کے تعاون سے ایک ملازمہ نے اُسے تیار بھی کر دیا تھا۔وہ تیار ہوئی تو کبھی کوئی تاثر نہ دینے والے نوکروں کی آنکھوں میں بھی ستایش نظر آنے لگی۔اِن نوکرو ں کی آنکھیں ہی اُس کے آئینے تھے جو بتا رہے تھے کہ وہ اُس پل کتنی حسین لگ رہی ہے۔
"یہ گلابی رنگ تم پر بالکل نہیں جچتا۔”
"کاجل ہر آنکھ کے لیے نہیں ہوتا ۔یہ کچھ آنکھوں کو دلکش بناتا ہے تو کچھ آنکھوں کو مضحکہ خیز۔”
"زیوارات پہنے جاتے ہیں خود پر لادے نہیں۔”
"لال لپ سٹک سنجیدہ چہروں پر اچھی نہیں لگتی ،اچھی خاصی عورتیں ظالم نظر آتی ہیں۔”
"اِس اونچی ہیل کی ٹھک ٹھک اور اِن چوڑیوں کی کھن کھن سے مجھے سخت کوفت ہوتی ہے۔”
"پوری حویلی میں پھولوں کی خوشبو ہے ،لیکن تم اِس بیہودہ پرفیوم سے کیا ثابت کرنا چاہتی ہو۔”
"حلیہ بگاڑنے سے بہتر ہے سادگی اپنا لی جائے ۔سنا ہوگا تم نے کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا۔”
سات دن تھے اور اُس کے جملوں کے سات نشتر ۔۔ ۔صاحبہ پوری طرح سے لہولہان ہوچکی تھی۔۔۔پورا ہفتہ محبت اور توجہ پانے کے لیے جو محنت کی گئی ، وہ پوری کی پوری خاک میں مل گئی تھی۔۔۔اُسے اپنا آپ انتہائی کمتر محسوس ہوا۔۔۔اُسے نوکروں کی ستایشی نظریں بھی جھوٹی لگیں۔۔۔شاہانہ لباس مہنگے زیور اور نفیس میک اپ۔۔۔کوئی بھی وار ایسا نہ تھا جو اُس شخص کے دل پر جا لگا ہو۔
"ایک بازی الٹ جانے سے میں ہار نہیں مانو ں گی۔۔۔ میں اور چال چلوں گی۔۔۔تمھاری لگائی وہ ساری پابندیاں جو میں رو رو کر برداشت کرتی ہوں۔۔۔اب اُن پر مسکراؤ نگی۔۔۔میں تمھیں دکھا دونگی کہ مجھے پر کسی سختی کا کو ئی اثر نہیں۔۔۔میں تمھیں بتا دونگی کہ میں آئینے اور تمھارے بغیر رہ سکتی ہوں۔۔۔میں یہ ثابت کر کے رہوں گی کہ مجھے اِن بدصورت نوکروں اور تمھاری حسین سہلیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔میں یہ ظاہر کرونگی کہ یہ مستقل قید اور دو د ن کی آزادی مجھے گراں نہیں گزرتی۔۔۔تم دیکھو گے کہ میں اِن زیورات او ر کپڑوں سے جی لگا لوں گی ، پھر چاہے تم سمیت کوئی مجھ سے نہ بولے۔۔۔کوئی مجھے نہ دیکھے ۔۔۔کوئی مجھے نہ سنے ۔۔۔وہ وقت دور نہیں جب تم اپنے ہی ظلم سے مات کھاؤ گے اور میرا صبر جیت جائے گا۔”
دل کا ایک مشورہ کام نہ آیا تو دماغ سے دوسری صلاح لی گئی ۔اُسے اِس حویلی میں سکھ سے جینے کے لیے کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈنا تھا۔ وہ اپنے آپ کو جنونی انداز میں کئی دلاسے دے رہی تھی ۔
*****
کاش مجھے معلوم ہوجائے تیری سوچ کا محور
تو میں خود کو تراشوں تیرے اندازِ نظر سے
کتنا مشکل تھا اُس سے کہنا کہ مجھے تمھارے سب اصول،تمام پابندیاں،ساری سختیاں جائز لگتی ہیں۔مجھے سب شرائط خوشی خوشی منظور ہیں۔میں تمھارے سب فیصلوں کو دل سے قبول کرتی ہوں۔وہ اُس وقت سڈی روم میں تھا اور اُسے یہ سب کہنے کے لیے وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی ہوئی مسلسل سوچ رہی تھی۔ہر اگلے قدم کے ساتھ پچھلے قدم کا شور تھا ،ہر ہاں کے ساتھ گزری ہوئی نہ کی پکار تھی۔ اُسے ایک ایک کرکے وہ ساری باتیں یاد آنے لگیں جنھیں دل سے ماننے کا اعتراف وہ کرنے جا رہی تھی۔
"صاحبہ تم اب میری بیوی اور اِس حویلی کی مالکن ہو،تمھیں کچھ اصول و ضوابط کا خیال رکھنا ہوگا۔میں جو باتیں کرنے جا رہا ہوں اِنھیں حرف با حرف یاد کرلو،کیونکہ بھولنا نافرمانی کو جنم دیتا ہے اور نافرمانی سزاؤں کو۔”
وہ جو حویلی کا ماحول دیکھ کر خوف میں مبتلا تھی اِس نئے فرمان پر اُسے اُلجھی ہوئی نظرو ں سے دیکھنے لگی۔
"یہ حویلی تمھاری ہے اور تم اِس سے باہر قدم نہیں رکھ سکتی۔”
"تمھیں خود کو سجانے کا اختیار ہے ،مگر آئینے کا اور تمھارا ساتھ بس یہی تک تھا۔”
"کمرے کی ہر شئے سے دل لگا لو،مگر اِس میں ردو بدل کا سوچنا بھی مت۔”
"سارے نوکر تمھارے لیے ہیں ،لیکن اِن سے فاصلہ رکھنا تم پر لازم ہے۔”
"سوچو کہ تم پرانے دور میں آگئی ہو اور موبائل فو ن کی اب تک کوئی سہولت نہیں ۔”
"پانچ دن تمھارے لیے حویلی بند رہے گی ، اور ہفتے میں دو دن تم حویلی کے ہر کونے میں گھوم پھر سکتی ہو۔ ”
"رشتے یوں تو خود ٹوٹ گئے ہیں،مگر انھیں جوڑنے کی خواہش اِس زندگی میں ممکن نہیں۔”
"یہ کیا احماقانہ باتیں ہیں ۔یہ کیسا پاگل پن ہے؟ کیا یہ اِس دنیا کی باتیں ہیں ؟”
وہ خاموش ہوا تو وہ بے قابو ہوتے ہوئے حیرت سے چلا اُٹھی۔ اُسے لگا سامنے کھڑا شخص اُس کا شوہر نہیں کوئی نفسیاتی مریض ہے۔
” آرام سے بات کرو۔تمھارا یہ جذباتی پن تمھیں مشکل میں ڈال دے گا۔اِن باتوں میں کوئی بھی ناجائز بات نہیں۔اچھی بیویاں شوہر کی خوشی کی خاطر کیا کچھ نہیں کرتیں۔”
وہ حواس باختہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے رسانیت بھرے لہجے میں بولا تھا۔
"یہ سب تمھیں شادی سے پہلے بتانا چاہیے تھا ۔تم ہر معاملے میں زیادتی کر رہے ہو، دھوکہ دے رہے ہو ۔”
وہ اِن سب ناانصا فیوں پر روہانسی ہوئی۔
"شادی سے پہلے اور بعد کی زندگی میں بہت فرق ہے ڈارلنگ۔شادی کے بعد تو تمھارے سگے ماں باپ بھی ا پنے نہیں رہے۔”
اُس نے صاحبہ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر اُسے چپ کرا دیا تھا۔لڑنے جھگڑنے اور واویلا کرنے بعد آخر اُسے مجبوراً اِن سب قاعدوں پر چلنا ہی پڑا ۔
"صاحبہ بی بی یہاں کیوں کھڑی ہیں ؟کوئی کام ہے کیا آپ کو؟ ”
مورتیوں کی جھاڑ پونچھ کرتی ایک ملازمہ نے بلند آواز میں پکارا تو جیسے وہ ہوش کی دنیا میں واپس آگئی۔نجانے وہ کب سے آخری سیڑھی پر پاؤں رکھے بت بنی کھڑی تھی۔ اپنے نیچے اترنے کا مقصد یاد آیا تو وہ فوراً سڈی روم کی طرف بھاگی۔اُس نے دروازے کی اوٹ سے اندر جھانکا ،وہ وہاں اپنی بڑی کرسی پر بیٹھا کوئی کتا ب پڑھنے میں مصروف تھا۔
"مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے؟”
اُس نے پہلے بے ترتیب سانسوں کو درست کیا اور پھر بولنے کی اجازت طلب کی۔
وہ پہلے ہی بھاگتے قدموں کی آہٹ سن چکا تھا لیکن انجان بنا رہا۔
” ہوُں ۔۔۔کہو کیا کہنا ہے ؟”
اُس نے کتاب سے نظریں ہٹائے بغیر سرسری انداز سے پوچھا۔
"میں جانتی ہوں کہ ہمارے بیچ بہت محبت تھی اور شاید ا ب بھی ہے ۔میں دیر سے ہی سہی مگر سمجھ چکی ہوں کہ تمھارے بنائے گئے سب قاعدے سب اصول جائز ہیں ، اور میں اِن کو اب دل سے ماننا چاہتی ہوں۔ ”
سادہ لباس ، جگہ جگہ سے نکلی ہوئی بے لگام لٹیں اور بغیر میک اپ کے بولتی ہوئی وہ غضب ڈھا رہی تھی۔
"یہ آج سورج کہاں سے نکلا ہے ۔یہ تو واقعی بڑی تبدیلی ہے۔سن کر اچھا لگا۔”
وہ اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کنجوسی سے مسکرایا تھا جسے وہ اپنی بڑی جیت سمجھی ۔
"اگر کچھ اور نہیں کہنا تو تم جا سکتی ہو۔”
اُسے دروازے میں کھڑے خیالوں میں گم دیکھ کر وہ کچھ جھنجھلایا۔
” سنو صاحبہ ! یہ جو تم نے بہت محبت کہا ناں اِس جملے سے بہت نکال دینا اور اصولوں کو اپنانے سے پہلے اُنھیں یاد بھی رکھنا پڑتا ہے ۔آج تمھارے نیچے اترنے کا دن نہیں تھا۔آئیندہ خیال رہے۔”
وہ دامن میں اک نئی خوشی سمیٹ کر جانے کے لیے پلٹی ہی تھی کہ اِس بے عزتی نے اُسے پھر سے افسردہ کردیا ۔
*****
محبت محبوب کو منزل سمجھ کر اُس کی مرضی کا رستہ چنتی ہے۔۔۔محبت محبوب کی رضا میں راضی اپنی آرزو چھوڑ دیتی ہے۔۔۔محبت محبوب کا اعتبار بلند رکھ کر خود پر شک کر لیتی ہے۔۔۔محبت محبوب کی شان میں جھک کر اپنی آن سے کھیل جاتی ہے۔۔۔یہ محبت جب بدلنے پر آئے ظاہری تقاضے،دل کی تمنا ،روح کی خواہش ہر شئے بدل لیتی ہے۔۔۔یہ محبت جب قربان ہونے پر آئے رشتے ،خواب ، اپنا آپ سب کچھ نثار کر آتی ہے ۔۔۔ایسی محبت آسان نہیں ۔۔۔ایسی محبت عام نہیں۔۔۔ایسی محبت نایاب ہے ۔۔۔ایسی محبت کمیاب ہے ۔۔۔جو دینے میں امیر اور پانے میں غریب رہتی ہے ۔
صاحبہ بھی ایسی محبت کرنے کی سعی کر رہی تھی ۔اُس کا لباس ، عادات اور اب سوچ تک اُس شخص کی مرضی کے مطابق تھی، مگر وہ ویسا ہی رہا مغرور ، بے پرواہ، اکھڑ مزاج نہ اُس کے بات کرنے کے انداز میں فرق آیا نہ گھر آنے کی روٹین میں۔اتنی ساری تبدیلیوں کے باوجود نہ وہ محبت کو ایک انچ بڑھانے پر آمادہ ہوا ، نہ نظر اندازی کو ایک انچ کم کرنے پر۔صاحبہ نے تابعداری کے ڈھونگ اور فرمانبرداری کی اداکاری میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ،لیکن اِس یکطرفہ جدوجہد نے اُسے جلد ہی تھکا دیا ۔ایک مہینے کی مسلسل محنت پر کبھی اُسے ایک پل کے لیے بھی سراہا نہ گیا تھا۔
"توبہ توبہ ۔۔۔کیا سچ کہہ رہی ہے تو۔۔۔واقعی بھاگ گئی نازو۔”
چاچی شگو نے سفید ڈوپٹہ منہ اور ناک پر رکھ کر ایک بار پھر تصدیق چاہی۔
"گھر سے بھید لے کر آئی ہوں چاچی ۔۔۔دیکھ کم بخت نے کیسا ظلم کیا ماں باپ پر۔۔۔ماں تو نہ جیتی ہے نہ مرتی ۔۔۔آگ لگے ایسے آوارہ عشق کو جو سات پگڑیاں اُچھال دے ۔۔۔جنھوں نے پیدا کیا پالا پوسا ، ہر دکھ درد اُٹھایا اُن کی نہ بنی تو کسی کی کیا ہوگی۔۔۔بڑی کٹھور ہیں کچھ لڑکیاں۔۔۔جتنی چٹّی تھی اتنی کالک تھوپ کر گئی ہے۔”
جھاڑو لگاتی نیلما نے نازو پر ملامت کی خوب خاک اُڑائی تھی۔
"لگتی تو بڑی معصوم تھی۔۔۔”
چاچی شگو ہنوز بے یقینی میں تھیں۔
"معصوم تو اپنی بی بی بھی لگتی ہے۔۔۔شاید وہ بھی کوئی جنت چھوڑ کر آئی ہوگی جو اُسے جہنم ملی ہے۔”
نیلما کے آگ برساتے لفظوں پر جہاں پاس کھڑی چاچی شگو نے تائید میں سر ہلایا ،وہی کچھ دور سے اُن کی گفتگو سنتی صاحبہ سر تا پیر جل چکی تھی ۔
دھڑکن دھڑکن یادوں کی بارات اکیلا کمرہ
میں اور میرے زخمی احساسات اکیلا کمرہ
وہ جلدی سے کمرے کی طرف بھاگی اور بیڈ پر گر کر بے آواز رونے لگی۔اُسے لگا فقط وہ نہیں رو رہی ،ٹک ٹک کرتی گھڑی ،ہوا سے جھولتے پردے اور دیوار سے لٹکی تصویریں بھی رو رہی ہیں ۔اُسے لگا صرف آج نہیں سسک رہا ماضی سے جڑا یاد کا ہر پل سسک رہا ہے ۔وہ یہ حقیقت جانتی تھی ،مگر ایک ملازمہ کا یوں بے دھڑک کیچڑ اُچھالنا اُس کے احساسات کو بری طرح سے زخمی کر گیا تھا۔اُسے کمرے میں شدید وحشت کا احساس ہوا ۔ کوستے بے جان در و دیوار اور نیلما کے الفاظ اُسے ذلت کے گڑھے میں دھکیل رہے تھے۔اُس کا جی چاہا سب کے منہ پر سختی سے ہاتھ رکھ دے ،مگر وہ بے بس تھی۔اُسے زندگی بہت ہی بے معنی لگی،اُسے اعتراف تھا کہ اُس نے خود ہی زندگی کو بے معنی کیا تھا۔
” انسانوں کو اوقات کی زمیں پر رہنا چاہیے۔انھیں اڑنا زیب نہیں دیتا۔یہ غرور کی اڑان جن چیزوں کو دور سے خوبصورت دیکھاتی ہے۔زمین پر گرتے ہی وہ ساری چیزیں بدصورت نظر آنے لگتی ہیں۔بھاگی ہوئی عورت کسی بھی مقام پر پہنچ جائے عزت کی مسند پر کبھی نہیں بیٹھ سکتی۔”
کانوں کے قریب اُسے اپنی ماں کی آواز سنائی دی تو اُس نے جھٹکے سے آنکھیں کھول دیں۔
جب باتیں سچ ہوں اور آپ کی سوچ کے خلاف ہوں تو اُن سے نہ بھاگا جا سکتا ہے نہ انھیں اپنایا جا سکتا ہے ۔ اُس نے ماں کے ہر حکم کو ٹھکرا یا تھا ہر نصیحت کو ا ن سنا کیا تھا ۔ا ب وہ ساری باتیں اُس کا پیچھا کر رہی تھیں۔
"آپ ٹھیک کہتی تھیں بھاگی ہوئی عورت کی کوئی عزت نہیں کرتا۔میں تو خود کو سمجھدار اور زمانہ شناس سمجھ بیٹھی تھی اور یہی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہے ۔یہ شادی کسی سزا سے کم نہیں جسے برداشت کرتے ا ب میرا صبر تھکنے لگا ہے۔”
"بس کچھ مہینوں کی سزا سے تھک گئی تم۔۔۔ تم نے تو ہمیں ساری عمر کی سزا دی ہے۔”
کسی کی آنکھوں نے اُس کے دل کو جواب دیا تھا اور وہ اُس کے باپ کی جھکی ہوئی آنکھیں تھیں۔
وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھی ۔خشک ہوئے آنسو ایک بار پھر بہنے لگے تھے۔
*****
پانچ دن کے انتظار کے بعد کھل کر سانس لینے کا دن آیا تو وہ اُس کے سٹڈی روم میں چلی آئی ۔اپنے قد سے اونچی بک شیلف کو دیکھتے ہوئے اُسے اپنے شوہر کی چھوٹی سوچ پر افسوس ہوا تھا۔ وقت گزارنے کے لیے اُسے کسی اچھی کتاب کی تلاش تھی۔کتابوں کے ناموں پر انگلیاں پھیرتے ہوئے اُس کی نگاہ ایک کتاب پر ٹھر سی گئی ۔وہ کوئی نفسات کی کتا ب تھی۔ اُس نے موٹی موٹی کتابوں کے بیچ پھنسی ہوئی وہ پتلی کتاب باہر نکال کر غور سے دیکھی۔بے مقصد صفحے پلٹتے ہوئے اُس کی نظر ایک صفحے پر رک سی گئی تھی۔
"ہر ذہنی مرض کی ابتدا ء کسی نہ کسی نا خوشگوار واقعے سے ہوتی ہے۔اگر کوئی بغیر کسی خاص وجہ کے سختی سے بولتا ہے،سختی سے پیش آتا ہے تو اُس شخص کی بظاہر پرسکو ن دکھنے والی زندگی میں کوئی نہ کوئی طوفان گزر چکا ہے۔ظلم کرنے والا ہو سکتا ہے کسی محرومی کا شکار ہو،ڈرانے والا ہوسکتاہے کسی خوف میں مبتلا ہو، زہر اگلنے والا ہوسکتا ہے زہر پی چکا ہو۔”
"وہ مجھ پر سخت پہرے لگا تا ہے۔مجھے آئینہ دیکھنے سے روکتا ہے۔مجھے آزادی دینے سے ڈرتا ہے ۔تو کیا اِن سب باتوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہے۔محبت کا دعویدار محبت کو اتنا حقیر کیوں سمجھتا ہے ؟میرے حُسن پر مر مٹنے والا میرے حُسن کو چھپانے پر مصر کیوں ہے آخر؟ ”
کئی دنوں سے مایوسی کے دھارے پر بہتی ہوئی سوچ کسی اور سمت نکل گئی تھی۔
وہ تیزی سے ساری کتابیں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی ۔ساری چیزوںکو اپنی جگہ سے ہٹا کر کچھ ڈھونڈنے لگی ،مگر کوئی سراغ نہ مل سکا تھا۔
"شاید حویلی کے ملازم کچھ جانتے ہوں۔”
اچانک ایک خیال بجلی کی طرح ذہن میں لپکا۔
"اگر جانتے بھی ہونگے تو مجھے کونسا کچھ بتا دیں گے ؟ وہ سب اُس کا نمک کھاتے ہیں۔کوئی بھی میرا ساتھ نہیں دے گا۔”
اپنے فیصلے کو اُس نے خود ہی سختی سے مسترد کر دیا تھا۔
"ہاں ایک عورت سب حقیقتوں سے واقف ہوسکتی ہے ۔صرف وہی عورت کسی کمی ،کسی زیادتی ،کسی محرومی سے پردہ اُٹھا سکتی ہے ، لیکن میں بھی کتنی احمق ہوں ، اُس عورت سے مدد طلب کرنا چاہ رہی ہوں جس نے اپنی اکلوتی بہو سے دوبارہ ملنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔”
آخری منصوبے پر تو اُس نے اپنے آپ کو خوب ملامت کی۔
جب بھی موقع ملتا وہ اُس کی پراسرار شخصیت کے پیچھے بھاگنے لگتی۔ حویلی کے کمرے ۔۔۔اُس کی لائبریری ۔۔۔تینوں گودام۔۔۔ صاحبہ نے اُس کی گم شدہ شخصیت کو ہر جگہ ڈھونڈ لیا تھا ، مگر کئی دنوں کی جستجو کے بعد وہ ناکام ہوگئی۔
تجھ سے اب اور محبت نہیں کی جا سکتی
خود کو اتنی بھی اذیت نہیں دی جا سکتی
"بھاڑ میں جائے وہ اور اُس کی پرسرار شخصیت ۔۔۔بہت آسان سمجھتا ہے وہ زندہ لاش پر زیورات لا د دینا۔۔۔ اِس جیل خانے میں دن رات بسر کرنا۔۔۔اِن چڑیلیوں کا پہرہ ہنسی خوشی قبول کرنا۔۔۔وہ اِس قابل نہیں کہ اُس پر مزید محنت اور محبت ضائع کی جائے ۔۔۔ابھی اتنا وقت نہیں گزرا کہ سارے رستے بند ہو چکے ہوں۔۔ ۔کوئی نہ کو ئی اپنا میرا منتظر ضرور ہوگا۔”
آج شام کی آخری کوشش کے بعد اُس نے بالآخر اپنی زندگی کا ایک اہم فیصلہ کر لیا ۔ وہ جو سوچ رہی تھی اُس کے نزدیک ان اذیتوں کے خاتمے کا بس یہی حل تھا۔
*****
پورا گودام ٹوٹی پھوٹی چیزوں سے بھرا پڑا تھا۔اکثر چیزیں ٹھیک ہونے کے باوجود ضرورت نہ ہونے کے کارن وہاں پھینکی گئی تھیں۔وہ ٹارچ کی ہلکی روشنی میں اپنی مطلوبہ چیزیں تلاش کرنے لگی۔تھوڑی سی جدوجہد سے اُسے ایک کھلی ا لماری کے کونے میں موٹی رسّی کے چار پانچ ٹکڑے اور پلاسٹک کے ایک چوکور ڈبّے میں بڑے بڑے کیل مل گئے۔اُس نے بھاری چیزوں کو اِدھر اُدھر سرکا کر دیکھا، بڑے بڑے پلاسٹک اور لکڑی کے ڈبوں کے اندر اور پیچھے جھانکا، مگر کہیں بھی کوئی مکمل رسّی نہ تھی۔آدھے گھٹنے کی محنت اور تھکاوٹ کے بعد وہ چند ٹکڑے ہی اُسے غنیمت لگے جنھیں وہ بڑی سی چادر کے نیچے چھپا کر اندھیرے کمرے سے باہر نکل آئی۔ برآمدے کے دونوں اطراف کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد وہ احتیاط سے دائیں طرف چل پڑی۔اُسے صرف انسانوں سے ہی نہیں بلکہ راستے میں رکھی بے جان مورتیوں سے بھی خوف محسوس ہو رہا تھا۔وحشت زدہ برآمدوں سے نکل کر وہ آہستگی سے زینہ بہ زینہ چڑھنے لگی ایسے جیسے اُس کے پاؤں زمین پر نہ لگ رہے ہوں۔حفاظت سے کمرے میں پہنچ کر وہ اپنی آدھی کامیابی پر دل کھول کر خوش ہوئی تھی ۔ا ب کچھ گھنٹے اُسے باقی کے منصوبے پر غور کرنا تھا۔ اُس نے کھڑکی سے باہر کھلے احاطے میں جھانکا ،حویلی میں پوری رات اُتر چکی تھی ،مگر اُسے بے صبری سے آدھی رات کا انتظار تھا۔
وہ جانتی تھی کہ وہ آج حویلی میں نہیں ہے اور اِسی موقعے نے اُسے بھرپور اعتماد بخشا تھا۔رات کے ایک بجے سے پہلے ماہر ہاتھوں نے چند ٹکڑوں سے ایک مضبوط رسّی بنالی تھی۔دو بجے اُس نے کھڑکی سے گردن نکال کر کڑی نگاہ سے چاروں اور دیکھا اور دھڑکتے دل کے ساتھ رسّی نیچے پھینک دی۔ کمرے کی کھڑکی اور زمین تک کا فاصلہ اتنا بھی زیادہ نہیں تھا کہ اُس کا حوصلہ متزلزل ہوتا۔ سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی رسّی زمین سے جا لگی تو وہ گہرا سانس لے کر تیار ہوئی ۔اُس نے اپنی قابلیت اور ہمت پر پورا بھروسہ کرکے مضبوط رسّی کو نازک ہاتھوں کے گرد لپیٹا اور دھیرے دھیرے نیچے اترنا شروع ہوگئی ۔ تھوڑا فاصلہ رہ گیا تو اپنی بہادری کا امتحان لینے کے لیے اُس نے چھلانگ لگا دی۔جسم میں دو تین کانٹے چبھے تو ہونٹوں سے ہلکی سی آہ نکلی تھی،لیکن اُسے آج آزادی کی راہ میں ہر درد منظور تھا۔وہ سہج سہج کر قدم اٹھاتی اور تیز نظروں سے اِرد گرد دیکھتی حویلی کی پچھلی جانب چلنے لگی ۔
حویلی کے دو بڑے دروازے تھے ایک سامنے کی طرف جو آنے جانے کے لیے استعمال کیا جاتا اور ایک پچھلی طرف جو زیادہ تر بند رہتا۔دونوں دروازوں پر ہمہ وقت چوکیدار موجود ہوتے تھے،لیکن پچھلے دروازے پر اتنی سختی نہیں تھی ۔ملازموں کی زبانی وہ جان پائی تھی کہ ایک چوکیدار بیماری کے سبب کچھ دنوں سے غیر حاضر ہے اور اُسے اسی موقعے سے فائدہ اُٹھانا تھا۔بڑی بڑی دیواروں کے سائے میں چھپتے چھپتے وہ دروازے کے قریب پہنچ چکی تھی ۔ دروازہ اُس کے قد سے کہیں زیادہ لمبا اور اُس کے حوصلے سے کہیں زیادہ مضبوط تھا ۔دروازے کے اوپر سے نکلتی ہو ئی تکون شکل کی نوکدار سلاخیں اُس کے حوصلے کی حوصلہ شکنی کرنے کو تیار تھیں ۔
"صاحبہ اِن سب تکلیفوں اور رکاوٹوں سے ٹکراجا۔اِس کے بعد تیری زندگی بہت آسان ہوگی۔۔۔تو آزاد ہوگی۔۔۔تیری خوشیوں کی راہ میں نہ کوئی کھڑکی بند ہوگی ۔۔۔نہ کوئی دروازہ مقفل ہوگا۔۔۔بس ایک بار ہمت کر ! بس ایک بار۔”
دل کی آواز نے بار بار اکسا کر جوش دلایا تو وہ سارے ڈر جھٹکتے ہوئے آگے بڑھی۔اُس نے رسّی کے ایک کونے کو گولائی میں مضبوطی سے باندھ کر پوری طاقت سے نشانے پر پھینکا ،تین چار بار کی کوشش کے بعد وہ کامیاب ہو چکی تھی ۔اُس نے آخری تسلی کے لیے پیچھے پلٹ کر دیکھا اور ہاتھ میں موجود بقیہ رسّی کو اپنے آپ کے ساتھ اچھی طرح لپیٹ لیا۔ اب وہ دروازے پر بنے اُبھار کا سہارا لیتے ہوئے آہستہ آہستہ محتاط انداز سے اوپر چڑھنے لگی۔چند پل میں ہی مدھم روشنی کی دقت،کسی کے آنے کا خطرہ اور سردی کی کپکپاہٹ سے اُس کا توازن بگڑنے لگا تھا۔اُس نے دروازے پر ہاتھوں اور پیروں کے سہاروں سمیت اپنے اعصاب بھی مضبوط کیے ،لیکن سارے حواس جیسے شل ہوگئے۔ایک ہلکی سی چیخ ہونٹوں سے بلند ہوئی اور وہ بے اختیار نیچے کی طرف گرنے لگی ۔نیچے کی زمین پتھریلی تھی جو اُس کے نازک جسم کو گہری چوٹ پہنچانے والی تھی۔وہ گر چکی تھی ،لیکن کوئی بھی آواز پیدا نہ ہوئی ۔چیخ بلند ہونے کی بجائے خوف سے دب سی گئی ،اور آنکھیں درد کی بجا ئے دہشت سے پھیل گئیں۔وہ اُس کے چہرے کے بہت قریب تھا اور اُس کی پتلی کمر کے نیچے دو طاقت ور ہاتھوں کے سہارے تھے۔
*****