عائلے کہاں چلی گئی تھی گودی ہم کب سے تمہیں ڈھونڈ رہے تھے ۔ پھر تمہیں یوں پریشان، خود کو ڈھونڈتے دیکھا تو آگئے ۔ ہمیں معاف کر دو بچے ہم تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے ۔”
جواب میں عائلہ بنا کچھ کہے ان کے کندھے سے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دی جسے وہ عائلہ کے گم ہونے کا خوف سمجھ کے درگزر کر گئیں ۔ جب کہ عائلہ اِ س لیے رو رہی تھی کہ کہیں یہ اس کی وحشت ہی تو نہیں جو عبداللہ کا بہروپ دھارے یوں اس کے سامنے آکھڑی ہو گئی تھی۔
اماں ا سے خود سے لگائے سیڑھیاں ا ترنے لگیں۔ ذاکرہ بھی ان کے پیچھے سیڑھیاں ا ترنے لگی کہ اچانک عائلہ کے ذہن میں جھماکا سا ہوا ۔ ا س نے اپنے ہاتھ میں پکڑی وہ ننھی سی کلی آگے کی ۔ اگر عبداللہ اُس کا وہم تھا تو ، یہ پھول کیسے ؟
یہی پھول تو ا س نے عائلہ کے ہاتھوں میں تھمایا تھا ۔
اگر یہ اصلی ہے تو عبداللہ بھی اصلی تھا یقینا۔ وہ روتے روتے بے ساختہ مُسکرا دی ۔
وہ روتے روتے ہنسنے لگی اور دھوپ میں بارش ہونے لگی ۔
گھر آ کے عائلہ سیدھا اپنے کمرے میں گئی۔ پلنگ کے سرہانے رکھی ”ہاشم ندیم خان کی عبداللہ ”کھولی اور جہاں نظم تہ کر کے رکھی تھی، ا سی جگہ وہ ننھی سی کلی رکھ کے کتاب بند کر دی ۔
وہ جب سے مزار سے واپس آئی تھی کافی تروتازہ اور ہشاش بشاش نظر آ رہی تھی ۔ سب اس مثبت تبدیلی سے بے حد خوش تھے ۔ اماں جو شاہ بابا سے ملے بنا ہی واپس آ گئی تھیں ، اب ا ن سے ملنا اور لازم سمجھنے لگی تھیں ۔ا ن کا خیال تھا بنا ملے اتنا فرق آیا تھا، تو مل کے علاج کرا کے تو عائلہ بالکل ٹھیک ہو جائے گی ۔
اب وہ خود ہی عائلہ کو مزار پہ لے جایا کرتیں ۔ عائلہ ہجوم کا بہانہ کر کے اکثر آگے یا پیچھے رہ جاتی اور اپنے پیچھے پیچھے سیڑھیاں چڑھتے، اترتے عبداللہ سے باتیں کر لیتی۔
جب عشق کا جادو سر چڑھ کے بولنے لگتا ہے تو رنگ تو چڑھتا ہے ۔ عائلہ پہ بھی آہستہ آہستہ چڑھا نا رسائی کا کالا رنگ ا ترنے لگا اور اس کی جگہ محبت کا گلابی رنگ دمکنے لگا تھا ۔ ہجر جب زیست میں بدلتی ہے تو آپ ہی اعلان کرتی ہے بس یہ سننے والے کی سماعت پہ منحصر ہوتا ہے کہ وہ سنے یا نہیں ۔
عائلہ سے بے پناہ محبت کرنے والی اس کی سادہ سی ماں اِ س سب کومزار کی کرامات سمجھ رہی تھیں۔ لالا اور شانزے بھی اس تبدیلی سے بے حد خوش تھے۔ ذاکرہ کو اِ س دفعہ بھی سب خبر تھی، مگر اس مرتبہ بھی وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے، اندھی بنی ہوئی تھی۔
ایک میر ابراہیم سید تھے جنہیں عائلہ میں آتی اتنی بڑی تبدیلیاں ، خوش کرنے کے بجائے متفکر کیے ہوئے تھیں ۔ شک تھا کہ ان کا جینا محال کیے ہوئے تھا۔ وہ لاکھ کوشش کرتے، مگران کا دماغ نہ مانتا کہ صرف مزار پہ آنے جانے سے عائلہ اتنی جلدی زندگی کی طرف لوٹ رہی تھی ۔ اب تو وہ شاہ زین کے ذکر پہ بھی برا نہ مناتی۔ منگنی کی انگوٹھی بھی خود ہی پہن لی تھی اور اب اس کے مغرب میں وہ خضوع وخشوع بھی نہ تھا۔ اکثر شانزے کے ساتھ ہنستی کھلکھلاتی نظر آتی اور یہ سب باتیں میر صاحب کو باور کرا رہی تھیں کہ کچھ تو گڑ بڑ ہے ۔ تبھی ا نھوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ اب خودہی خبر لیں گے آخر یہ ماجرا کیا ہے ۔ آج پھر جمعرات کا دن تھا ۔ اِ ن لوگوں نے آج پھر مزار کا رخ کیا تھا ۔
سکینہ صاحبہ اور ذاکرہ کے پیچھے پیچھے چلتی عائلہ نے قد م سست کیے تھے۔ لوگ ا س سے آگے بڑھتے گئے ، اس کے اور سکینہ صاحبہ کے درمیان ہجوم اور فاصلہ بڑھتا گیا ۔ یہ عام سی بات تھی ۔ انہیں لگا ہجوم کی وجہ سے ایسا ہے ۔ ہمیشہ کی طرح عائلہ اوپر آجائے گی ۔
سست روی سے سیڑھیاں چڑھتے عبداللہ نے جب دیکھا عائلہ پیچھے رہ گئی ہے، تو تیز تیز زینے سر کرتا اُس کے پیچھے پہنچا تھا۔
”کیسی ہیں آپ ؟”
عبداللہ کی دھیمی آواز عائلہ کے کانوں میں رس گھول گئی ۔ وہ مُسکرائی۔
”ٹھیک ہوں اور آپ ؟”
عبداللہ بھی مُسکرایا:
”بالکل ٹھیک۔”
کچھ لمحے ا ن کے بیچ خاموشی سے گزر گئے ۔ وہ عائلہ کے پیچھے پیچھے سیڑھیاں چڑھتا رہا کہ اس کی نظر ریلنگ پہ رکھے عائلہ کے ہاتھ پہ گئی ۔ جہاں اس کی منگنی کی انگوٹھی جگمگا رہی تھی ۔ عبداللہ کے قدم وہیں تھم گئے ۔
دو تین زینے ،اکیلے ہی سر کرتی عائلہ کو اس کے قدموں کی چاپ نہ سنائی دی تو، وہ مڑی ۔ خود سے فاصلے پہ کھڑے عبداللہ کے فق چہرے کو دیکھ وہ اس کے قریب آئی اورحیرت سے پوچھا :
”کیا ہوا ؟”
عبداللہ کی آنکھوں میں بے یقینی کی چھب صاف دیکھی جا سکتی تھی۔
”کیا آپ کی منگنی ہوگئی ہے ؟”
اس کے اِ س طرح سے پوچھنے پہ عائلہ جس نے ہلکے گلابی رنگ کی چادر سے اپنے آدھے چہرے کو ڈھکا ہوا تھا ۔ چادر کا کونہ چھوڑ دیا ۔ اِ س پورے عرصے میں آج عبداللہ اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔ وہ مبہوت سا ا سے دیکھے جا رہا تھا ۔ اسی اثنا میں عائلہ سید نے اپنی انگلی سے شاہ زین کے نام کی انگوٹھی ، جس کے ارد گرد دو مزید انگوٹھیاں بھی تھیں ، اتار لیں ۔
یہ ایک اچھے خاصے بڑے اور قیمتی ہیرے سے آراستہ ، نہایت ہی دلکش انگوٹھی تھی جس کے اطراف میں دو مزید پتلی پتلی، ہیروں سے آراستہ انگوٹھیاں تھیں ۔ جنہیں ”گارڈ رنگز” یعنی پہرے دار انگوٹھیاں کہا جاتا تھا ۔
عائلہ کی ہتھیلی پہ تینوں انگوٹھیاں اور چہرے پہ عبداللہ کی نظریں جگمگا رہی تھیں۔ آج مدت بعد عائلہ کے چہرے پہ شرارت کا رقص صاف دیکھا جا سکتا تھا ۔
ا س نے مٹھی بند کی اور اپنی پوری طاقت سے انگوٹھیاں اونچائی سے نیچے کی طرف پھینک دی ۔
عبداللہ اس اچانک حرکت کے لیے ہرگز تیار نہ تھا ۔ حیرت سے پوچھنے لگا :
” یہ کیا کیا آپ نے ؟”
عائلہ شرارت سے بولی :
”کون سی منگنی ؟ کون سی انگوٹھی ؟اور کیا کیا میں نے ؟”
اس کی اِ س معصومانہ شرارت پہ وہ بے ساختہ کھلکھلا ا ٹھا ۔ عائلہ بھی مُسکراتے ہوئے، مبہوت سی ا س کے گالوں پہ بنتے گڑھے دیکھ رہی تھی ۔
یہ کتنا مکمل منظر تھا ۔ کاش وقت یہیں پہ تھم جاتا اور سالوں بعد اِن کے چمکتے چہرے یونہی چمکتے رہتے ، مگر وقت ہماری مرضی کے مطابق نہ ر کتا ہے نہ تھمتا ہے ۔ وقت تو اپنی مرضی کا مالک ہے عائلہ کو خیال آیا کہ کافی دیر ہو گئی یہاں تبھی وہ اوپر جانے کو پلٹی ، پلٹنے کے دوران غیر ارادی طور پہ اس کی نظریں ، پاس ہی واقعہ ا ترنے والی سیڑھیوں پہ گئیں۔
اس کا سارہ وجود کانپ سا گیا۔ تیزی سے اپنی چادر کا نقاب لیتے وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسی طرف دیکھ رہی تھی ۔ عبد اللہ اس کے تاثرات نہیں دیکھ سکتا تھا، لیکن یوں بت بنی کھڑی عائلہ سے تقریباً تین دفعہ پوچھ چکا تھا ۔
”کیا ہوا ؟”
اب کے اس نے محسوس کیا عائلہ کا پورا وجود کپکپا رہا تھا ۔ وہ حیران سا اس کی پشت کو دیکھے جا رہا تھا کہ اگلے ہی پل وہ چکرا کے بے ہوش ہو گئی ۔ عبداللہ اس کے پیچھے نہ ہوتا تو ا سے چوٹ بھی لگ سکتی تھی۔ عبداللہ نے ا سے سنبھا لتے ہوئے ، خود سے لگائے اوپر کی طرف قدم بڑھانا چاہے تا کہ اس کے چہرے پہ پانی کے چھینٹے ڈال سکے کہ ا سے خود پہ کسی کی نظروں کا ارتکاز محسوس ہوا ۔ ا س نے ارد گرد نظر دوڑائی تو اسے، میر ابراہیم سید کی دوشعلہ بار نظریں ، ہجوم میں گم ہوتی نظر آئیں۔
کیا کسی غیرت مند باپ کے لیے اِس سے بڑی قیامت کوئی ہوگی کہ جس بیٹی پہ ا نہوں نے ایک دفعہ اعتبار کیا ، دوسری دفعہ پھر ا س نے دھوکا دیا۔
کیسے ایک غیر مرد کے لیے باپ بھائی کی سالوں کی کمائی عزت، ان کی بیٹیاں یوں تار تار کردیتی ہیں ۔ کاش میں اولاد کی محبت میں یوں اندھا ہو کے عائلہ کومعاف نہ کرتا ۔ کاش جیسے میں نے آبگینے کو دوسرا موقع نہیں دیا تھا ویسے ہی اپنی بیٹی کو بھی موقع نہ دیتا ۔
مزار کی پارکنگ میں کھڑی اپنی مرسیڈیز میں بیٹھے میر صاحب کا خون کھول رہا تھا ۔ا ن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ عائلہ اور عبداللہ کو وہیں گولی مار دیں ۔
ان کی نظروں کے سامنے اب بھی تھوڑی دیر پہلے کے منظر گھوم رہے تھے ۔ ان کی وہ بیٹی جس کی طرف ایک دفعہ ایک گارڈ کے آنکھ اٹھا کے دیکھنے پر ا نہوں نے ا س گارڈ کی کھال اُتروا دی تھی ۔ وہی بیٹی آج بھرے مزار کے بیچ بے پردہ کھڑی ا س غیر مرد کے ساتھ ہنس رہی تھی، مُسکرا رہی تھی ۔
اُنہیں جانے کیا سوجھی ۔ اپنی گاڑی کا ڈیش بورڈ کھول کے اپنی پستول چیک کی ۔ان کا دل، جوش مارتا خون ، کنپٹیوں میں پھڑکتی رگ ابھی اور اسی وقت عائلہ ابراہیم سید کو محبت کی سزا دینے پہ مجبور کر رہے تھے ۔
مگر دماغ ، ان کی جدی پشتی عزت اور قبیلے کی نیک نامی کی دھائیاں دے رہا تھا۔ میر صاحب کو بھی دماغ کی بات میں دم لگا ۔ ا نہوں نے ڈیش بورڈ بند کرتے ہوئے ہارن بجایا۔ کئی چاک چوبند گارڈز ان کی گاڑی کے گرد کھڑے ہو گئے ۔ غصے میں غضب ناک ہوتے میر صاحب انہیں براہوی میں کچھ ہدایات دینے لگے۔
دھیرے دھیرے آنکھیں کھولتی عائلہ کو اپنی نسوں میں اگربتی اور گلاب کے پھولوں کی تیز خوشبو چبھتی محسوس ہوئی۔ ا س نے تیزی سے آنکھیں کھولیں ۔ اس کے گرد اماں ، ذاکرہ اور شاہ آغا سب تھے، مگر نہ تھا تو وہ جسے اس کی آنکھیں ڈھونڈ رہی تھیں ۔
”اماں وہ… وہ … بابا … ام م م ماں … عبد اللہ کہاں ؟”
ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اپنی اماں سے سوال کرتی ، عائلہ کی وحشت زدہ نگاہیں ، اردگرد کچھ تلاش کر رہی تھیں ۔ ا س کا پورا وجود اب بھی کپکپا رہا تھا ۔ پسینے میں شرابور وہ ہذیانی انداز میں چیخنے لگی :
”عبداللہ عبداللہ !کہاں ہو ؟عبداللہ…عبداللہ …”
وہ ، اس وقت مزار کی اترتی ہوئی سیڑھیوں کی بائیں جانب ، اونچائی پر قائم ہجرے کے اندر تھے ۔ دروازے سے مبرا ، بڑے بڑے دریچوں والا یہ ہجرا زیادہ تر شاہ بابا کے ہی زیر استعمال تھا ۔
عائلہ کے یوں چیخنے پہ سکینہ صاحبہ نے دھیمی آواز میں بابا کو اس کی اِس حالت کا بتایا ۔
” اسی طرح کی حالت ہو جاتی ہے بابا اس کی ۔ جب بھی جن چڑھتا ہے ۔ جب اس کی منگنی تھی تب تو جن نے بات بھی کی تھی ۔ اِس کے منہ سے مردانہ آواز میں ”تماشا ختم شد”کا جملہ نکل رہا تھا اس نے انگوٹھی وغیرہ سب اتار کے پھینک دیے تھے ۔ اب بھی جن ہی آیا ہے شاید تبھی اِس طرح کی باتیں کر رہی ہے ۔”
ان کی دھیمی آواز بہ غور سنتی عائلہ کی لال آنکھوں میں آنسو تھے ۔ اب کے ا س نے قدرے بلند آواز میں کہا :
”میں آسیب زدہ نہیں ہوں سنا آپ نے۔ اس دفعہ میں بابا کو اپنا عبد اللہ چھیننے نہیں دوں گی وہ میرا ہے سمجھیں۔”
تیز تیز آواز میں بولتی عائلہ بری طرح ہانپنے لگی تھی۔ ہانپتے ہانپتے وہ ہنسنے لگی ۔ فلک شگاف قہقہے قدرے اونچے اور بھاری آواز میں تھے۔ ہنستے ہنستے وہ ایک پل کو ر کی اور اپنی لال آنکھیں سکینہ صاحبہ پہ گاڑتے ہوئے ، تقریباً مردانہ آواز میں بولی:
”آسیب زدہ ؟ ہاں ہوں میں آسیب زدہ ۔ وہ رہتا ہے میرے اندر ہر پل ہر لمحہ۔ میں ا سی کی ہوں ۔ کیا کر لو گے تم سب ؟ بولو ؟ نکال سکتے ہو ا سے مجھ سے ؟ لو نکالو … نکال کے دکھا دو ۔”
اپنے دونوں بازو سکینہ صاحبہ کے سامنے پھیلاتے ہوئے ، عائلہ کی حالت غیر ہو رہی تھی ۔ اگلے ہی پل وہ پھر سے قہقہے لگانے لگی اور انہی قہقہوں کے بیچ ، وہ بے ہوش ہو کے گر پڑی ۔
دور کونے میں سہمی ہوئی ذاکرہ اس کے قریب آئی تو ہی سکینہ صاحبہ نے بھی ہمت کی ۔ وہ بالکل بے سدھ تھی ۔ ا س پہ غشی کا یہ دوسرا دورہ تقریباً پانچ منٹ کے وقفیسے آیا تھا ۔
سکینہ صاحبہ نے خاموشی سے عائلہ کا چہرہ دیکھتے شاہ بابا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ بالکل ایسے جیسے پوچھ رہی ہوں کہ آپ نے کیا کِیا ۔
بابا ان کی نظروں کا عندیہ سمجھ چکے تھے اور وہ تو ساری حقیقت سے بھی آگاہ تھے کہ عبداللہ سچ مچ عائلہ سے ملا تھا ۔ اُنہیں عبداللہ نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ میر صاحب نے ا ن دونوں کو باتیں کرتا دیکھ لیا ہے۔ نا صرف یہ بلکہ وہ یہ بھی کہہ گیا تھا کہ آپ عائلہ کا خیال رکھیں اِسی اثنا میں ، میں میر صاحب کو ڈھونڈ کے ان سے بات کرکے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ وہ چاہتے تو اب بھی سکینہ صاحبہ کو بتا سکتے تھے کہ آپ کی بیٹی کو آپ تک پہنچانے والا عبداللہ ہی تھا ،لیکن وہ اِ س وقت کسی اور جھمیلے میں پڑنے کے بجائے ا س پیاری سی لڑکی کی فکر میں تھے جس پہ کوئی آسیب نہ تھا بلکہ وہ شدید ذہنی دبائو اور ہر بات اپنے اندر دفن کرتے کرتے، ایک ذہنی بیماری کا شکار ہو گئی تھی ۔
بابا سکینہ صاحبہ سے عائلہ کی حالت مخفی نہیں رکھنا چاہتے تھے تبھی گویا ہوئے :
”میں سمجھتا ہوں میری بہن کہ آپ مجھ سے بہت سی ا میدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں، لیکن میں معذ رت چاہتا ہوں آپ کی بیٹی پہ کوئی آسیب نہیں۔ یہ ایک ذہنی بیماری کا شکار ہیں اور اِس کی وجہ کوئی اور نہیں عشق ہے ۔ عشق ہی ہے جس نے اِ س معصوم لڑکی کو آپ سب کے سامنے مجرم بنا کے اکیلا کر دیا ہے۔ یہ اکیلا پن ہی ہے جس نے اِ سے خود میں ہی محبوب کو بسانے پہ مجبور کر دیا ۔ ان کی شخصیت بری طرح سے متاثر ہو چکی ہے۔ یہ خود میں کسی اور کا بسیرا سمجھتی ہیں۔ سائنس اِسے ”ملٹی پل پرسنالٹی ڈس آرڈر” کا نام دیتی ہے جب کہ عرفِ عام میں اِ سے ”عشق ِ نامراد” کہتے ہیں ۔ یہ عشق ہی انسان کو سکھاتا ہے کہ جس سے عشق کرو ا سے اپنا لو ۔ اپنا آپ اس کے سانچے میں ڈھال لو۔ اتنی محبت کرو کہ تم تم نہ رہو وہ بن جائو۔”
سکینہ صاحبہ کی تحیر سے کھلی آنکھوں میں اب فکر کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا ۔
”بابا اس کا کوئی علاج تو ہو گا ؟ کوئی وظیفہ ؟ کوئی دوا ؟ کوئی تعویذ؟”
بابا دکھ سے مُسکرائے اور جواب دیا :
”لا علاج …”
عشقِ نامراد لا علاج ہے ۔ سائنس میں آپ کی بیٹی کی بیماری کے لیے دوائیں ہوں گی، دے کے دیکھ لیجیے ، مگر عشق کا علاج صرف عشق ہی ہے ۔ بے پناہ عشق اور عشق اور عشق اور عشق ۔”
سکینہ صاحبہ جیسی سادہ خاتون کی برداشت کی حد اتنی ہی تھی ۔ وہ جو پہلے صرف عائلہ سے ڈر رہی تھیں اب انہیں بابا سے بھی ڈر لگنے لگا تھا ۔
آنکھوں ہی آنکھوں میں ذاکرہ کو چلنے کا اشارہ کرتیں ، سکینہ صاحبہ نے عائلہ کو ذاکرہ کے سہارے کھڑا کیا اور ہجرے سے باہر نکل گئیں ۔
عائلہ کی پشت پہ شاہ آغا کی اداس نوحہ کناں نگاہوں نے دوشعر پڑھے تھے۔
وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے
یہ ضروری ہے حجابِ رخ ِ لیلیٰ نہ رہے
گلہِ جوڑ نہ ہو، شکوہِ بیداد نہ ہو
عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو
تیزی سے تسبیح کے دانے گھماتے شاہ آغا ، عبد اللہ کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے ۔
٭…٭…٭
”امی آج ایک اور دن گزر گیا ، بھائی کا کوئی پتا نہیں۔ اس طرح ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو باقی بچی جمع پونجی بھی ختم ہو جائے گی اور بھائی کو بھی نہ ڈھونڈ پائیں گے ۔ آخر آپ مجھے نوکری کی اجازت کیوں نہیں دے دیتیں ؟”
ماہا کی بات میں دم تو تھا۔ اب تو صغریٰ بیگم کا انکار بھی سست پڑتا جا رہا تھا ۔ اِ س وقت بھی بیٹی کی بات اُنہیں سوچ میں ڈال گئی ۔ اِ س سے پہلے کے وہ ہاں یا ناں کے بارے میں سوچتیں۔ دروازے پہ اچانک ہوتی دستک نے دونوں کو چونکا دیا ۔ ماہا تقریباً دوڑتے ہوئے دروازے تک گئی ۔ دروازہ کھولا تو سامنے ثنا ستے ہوئے چہرے اور روئی روئی آنکھوں کے ساتھ کھڑی تھی ۔
”ارے کیا ہوا چھوٹی سب خیر تو ہے نا ؟”
چھوٹی ، ماہا کا سوال ان سنا کرتی تیزی سے تخت کی جانب بڑھ گئی ۔ اب کے پریشان حال ماں نے پوچھا تھا ۔
”کیا ہوا چھوٹی تو بتاتی کیوں نہیں ؟ کیا تیرے بھائی کی گمشدگی کم تھی جو اب تو بھی ماں کو رلائے گی ۔”
ماں کے یوں پھوٹ پھوٹ کے رونے پہ شرمندہ ہوتی ثنا نے ماں کے گرد بازو پھیلاتے اپنی مشکل بیان کی ۔
”میں بھی کیا کروں امی ۔ میڈم روز فیس کے لیے میری بے عزتی کرتی ہیں۔ آج تو انہوں نے کہہ دیا کہ اگر اگلے ہفتے تک فیس جمع نہ کرائی تو وہ مجھے کلاس میں بیٹھنے نہیں دیں گی ۔”
ثنا کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرتے صغریٰ بیگم کے دوپٹے میں جذب ہو رہے تھے ۔ اکلوتے بیٹے کی گمشدگی نے تو صغریٰ بیگم کو جیسے دیمک کی طرح چاٹ ڈالا تھا ۔ وہ اِن کچھ ہی دنوں میں صدیوں کی بیمار لگ رہی تھیں ۔
ماہا جو پہلے ہی گھر پہ ٹیوشنز پڑھانے لگ گئی تھی اب ساتھ والی ہائوسنگ سوسائٹی میں واقع بیوٹی پارلر میں ریسیپشنسٹ کی جاب کرے گی جو بات اتنے دنوں سے ماہا نہ منوا سکی ، وہ بات پہلی مجبوری اور ثنا کے آنسوئوں نے منوا دی تھی۔
یہی تو ہے معاشرے کا المیہ ، جہاں باہر کام کرنے والی عورت کو برا ، شوق سے کہا جاتا ہے، لیکن اس کے گھر سے باہر قدم نکالنے کی وجہ نہ دریافت کی جاتی ہے ، نہ اُس کا کوئی سدِباب کیا جاتا ہے۔
کل جب بھائی کی لاڈلی بہن ماہا پہلی بار گھر کی دہلیز پار کرے گی، تو یہ دہلیز بین کرتے ہوئے اس کے قدم روکنے کی کوشش کرے گی، مگر جن گھروں کے واحد سائبان یوں لاپتا ہو جاتے ہیں اور وہاں افلاس کے ڈیرے پڑ جاتے ہیں ، تو وہیں ہی ماہا جیسی بہنیں گھر سے باہر قدم نکالتی ہیں ۔ اپنے گھر کا بیٹا بننے کی کوشش کرتی ہیں ۔
کیا ہی اچھا ہو کہ معاشرہ سفید پوش لوگوں کی سفید چادر سے سر ڈھانپی ہوئی بہنوں ، بیٹیوں کو بھی عزت کی روٹی ، عزت سے کمانے کا حق دے دے اور ان کی کردار کشی کی بجائے ان کے عزت کی حفاظت کرے مگر معاشرہ عزت کی بات صرف تب کرتا ہے جب کسی کی کردار کشی کرنا ہوتی ہے ۔ کبھی لاپتا نوجوانوں کے پسماندگان ، ان کی بیٹیوں ، ان کی بہنوں کی فکر کوئی نہیں کرتا ۔ تھانوں کورٹ کچہریوں کے دھکے کھاتے، اِن کی ساری جمع پونجی ختم ہو جاتی ہے، مگر گمشدہ کی کوئی خبر نہ آنا ہوتی ہے نہ آتی ہے ۔ ہاں آتی ہے تو کورٹ کی نئی تاریخ آجاتی ہے ۔
آج بھی ملک کے سینکڑوں تھانوں میں ہزاروں کیس درج ہیں جو لا پتا افراد کی تلاش چاہتے ہیں مگر ا ن کے ورثا یہ نہیں جانتے کہ اکثر لاپتا وہی ہوتے ہیں جو کسی اثرورسوخ رکھنے والی شخصیت کے زیرعتاب آتے ہیں یا جو کسی اندھی گولی کا نشانہ بنتے ہیں۔
بیگم جہاندیدہ خاتون تھیں کہیں نہ کہیں انہیں اندازہ تھا کہ عبداللہ کا واپس آنا اب کسی معجزے سے کم نہ تھا ۔
٭…٭…٭
پیاس کی شدت سے اس کی حالت خراب ہو رہی تھی ۔ ہونٹوں کو بار بار تر کرتے، اس کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے اور آنکھوں پہ بھی پٹی بندھی ہوئی تھی ۔
یہ جانے کون سی جگہ تھی ، مگر تھی یقینا کراچی سے باہر کی کوئی جگہ کیوں کہ یہاں پہنچنے تک اِ نہیں اچھا خاصا وقت لگا تھا ۔ رستے میں دو دفعہ تو عبداللہ کی آنکھ بھی لگی تھی ۔
میر صاحب کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ، عبداللہ مزار کی پارکنگ میں آیا تھا ۔ اِدھر اُدھر دیکھنے پہ اُسے میر صاحب اور اُن کے پیچھے گارڈز کی فوج نظر نہ آئی، تو وہ پلٹا ۔ اُس کے پلٹتے ہی کسی نے اُس کی پشت میں بندوق چبھوئی۔
” خبردار اگر اپنی جگہ سے ہلے تو گولی مار دوں گا ۔”
عبداللہ نے بے ساختہ اپنے دونوں ہاتھ اوپر کیے تھے ۔ اتنے میں ایک اور بندوق کی چبھن اسے دوسری طرف اپنی پیٹھ پہ محسوس ہوئی تھی ۔ ابھی وہ یہ ماجرا سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ تیسرا بندہ آیا اور ا س نے عبد اللہ کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھے تھے۔ اب وہ اس کی آنکھوں پہ پٹی باندھ رہا تھا کہ زن سے ا ن کے پاس آ کے ر کتی مرسڈیز میں بیٹھے میرصاحب پہ اس کی نظر پڑی تھی اور سارا ماجرہ ا سے سمجھ آگیا تھا۔
اب ا سے گاڑی میں ڈال کہ یہاں لایا گیا تھا ۔ یہ کوئی اندھیرا کمرا تھا جس کے دبیز غالیچے کی نرمی وہ محسوس کر سکتا تھا، مگر ا سے پیاس لگی تھی بہت زیادہ پیاس ۔ اس کے ہونٹ پھٹ گئے تھے۔ ا ن پہ زبان پھیرتا وہ ان کی سختی محسوس کر سکتا تھا ۔
”کوئی ہے مجھے پیاس لگی ہے۔”
ا س نے ڈرتے ڈرتے کہا تھا ۔ دروازہ کھلنے کی آواز ا س نے سنی۔ ساتھ ہی کمرے میں روشنی ہوئی۔ آنکھوں پہ بندھی پٹی کے کناروں سے ر وشنی ا سے دکھی تھی ۔
وہ جو کوئی بھی تھا کسی کو فون ملا رہا تھا ۔ پھر کسی مقامی زبان میں کچھ پوچھ کے فون بند کر دیا ۔
”تمہیں پانی دینے کا حکم نہیں ، شور مت مچانا ورنہ… تمہیں پتا ہے۔”
عبداللہ خاموشی سے ڈھے گیا ۔ اوہ خدایا یہ ہم نے کیا کر دیا ۔ ا س نے سوچا۔ پتا نہیں عائل لہ کس حال میں ہو گی ، امی اور بہنیں ؟
کاش میں ایک بار ا ن کے بارے میں سوچتا، مگر میں تو اندھا ہو گیا تھا ۔ شاہ بابا نے کتنی دفعہ منع کیا مجھے ، سمجھایا ، سختی سے ڈانٹا، مگر مجھے توصرف عائلہ سے مطلب تھا ۔اب جو ہو گا اُ س کا ذمہ دار میں خود ہوں۔ اپنے خیالوں میں گم جانے کتنی دیر ہو چکی تھی ، کہ کمرے میں جیسے بھونچال سا آگیا ۔ تیزی سے تالا کھولتے زور زور سے اپنی زبان بولتے، دو یا شاید ا س سے بھی زیادہ لوگ تھے جو ا سے لینے آئے تھے۔
پیاس اور بھوک کی شدت سے وہ کھڑا بھی نہیں ہو پارہا تھا ۔ ا سے تقریباً گھسیٹتے ہوئے باہر لے جایا گیا ۔باہر لے جا کے ا سے کھڑا کر دیا گیا ۔
دور دور سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں اس کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں ۔وہ کتنی دیر یونہی کھڑا رہا کہ میر صاحب کی گرج دار آواز میں کچھ کہنے پہ اس کی آنکھوں پہ بندھی پٹی ا تار لی گئی۔
”لڑکے ہم نے تمہیں ایک موقع دیا، مگر تم نے اسے ضائع کر دیا ۔ تمہیں تمہارا قصور پتا ہے تبھی ہم دہرانا نہیں چاہتے ۔ آنکھوں پہ بندھی پٹی اِس لیے ہٹائی ہے تاکہ تم دیکھ سکو ،ہمارا یہ عالی شان فارم ہائوس اور اندازہ لگا سکو کہ کیا تمہاری اوقات تھی میری بیٹی سے محبت کرنے کی ؟”
عبداللہ جو ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا تھا ۔ایک پل کو گھوما اور اپنے گرد پھیلے ا س شان دار لان، سوئمنگ پول اور عمارت کو دیکھا ، پھر گویا ہوا:
”بے شک میری اوقات نہ تھی، لیکن محبت تو آپ کی بیٹی نے بھی کی تھی ۔ ا س نے میری اوقات کیوں نہ دیکھی ؟”
عبداللہ کے جواب پہ وہ مزید برہم ہوئے :
”نہ کہو ا سے میری بیٹی ۔ ا سے تو میں بعد میں دیکھوں گا ۔ تم میں اتنی اکڑ کس بات کی ہے ؟ جانتے نہیں کس کے سامنے کھڑے ہو ؟ ”میر ابراہیم سید ” کے ۔ میرا تو نام بھی تمہارے دو کمروں کے تعفن زدہ کوارٹر سے بڑا ہے ۔”
ان کے چہرے کی طنزیہ مُسکراہٹ نے عبداللہ کے تن بدن میں آگ لگا دی ۔
”میرا تو ایمان یہ کہتا ہے کہ اللہ کا نام سب سے بڑا ہے اور وہ ہی ہر چیزپہ قادر ہے ۔ آپ تو سید ہیں ، میرا خیال تھا آپ کو مجھ سے زیادہ علم ہو گا۔”
عبداللہ کی بات پہ میر صاحب آگ بگولا ہوگئے۔
”بہت ہو گئی باتیں ، چلو کلمہ پڑھو نہیں تو پیر پکڑ لو ۔ شاید معافی مل جائے ۔”
عبداللہ نے کلمہ پڑھا۔ میر صاحب کے ہاتھ میں پستول تو وہ پہلے ہی دیکھ چکا تھااور ذہنی طور پہ ہر طرح کے انجام کے لیے تیار تھا۔ اس کی بہادری دیکھ کے ایک ثانیے کو تو میر صاحب بھی متاثر ہو گئے۔
”بہت خوب تو تم چاہتے ہو کہ تمہارا قتل میرے ہاتھوں ہو بے شک یہ کم اعزاز کی بات نہیں۔”
اگلے ہی پل انہوں نے عبداللہ کے سر پہ لیزر سے نشانہ لیتے ہوئے پستول تانی ۔ عبداللہ آنکھیں موندے زیرِ لب کچھ پڑھ رہا تھا۔
میر صاحب نے طنزیہ نظروں سے ا سے دیکھا اور نشانہ اس کے سر سے ہٹا کے سینے پہ عین دل کی جگہ تانا۔
عبداللہ نے آنکھیں کھول کے لیزر اپنے سینے پہ پڑتی دیکھی۔ سوالیہ نظروں سے میر صاحب کی طرف دیکھتا، ا س نے سوچا کہ شاید وہ اس کے دل کو مار کے اس کے دل سے عائلہ کی محبت ختم کر دینا چاہتے ہیں ۔
اس کی نظروں کا سوال سمجھتے وہ خود گویا ہوئے :
”اسی دل میں عشق کو چھپا ئے رکھتے ہو نا ؟آج اسی دل کو ہی ختم کر دیتے ہیں ۔ کیا خیال ہے؟”
مگر اُنہیں کیا خبر محبت کہاں مرتی ہے ۔ عبداللہ بہادروں کی طرح سینہ تانے کھڑا رہا۔
”میں آج آپ کو زبان دیتا ہوں کہ میں مر بھی جائوں میرا عشق زندہ رہے گا ۔ میں عائلہ کے اندر آبسوں گا ۔ ا س کو اپنا بنا لوں گا ، اس کی ہر چاہ لا میں ڈھل جائے گی ۔ وہ عشق لا کہتی ، ساری زندگی میری بنی رہے گی ۔ آپ جو بھی کر لیں ، ہمارا عشق نہیں مرے گا ۔ کبھی نہیں مرے گا۔”
گولی کی گرج نے عبداللہ کو چپ کرایا تھا۔
گولی اس کے سینے کو چیرتے ہوئے اس کے دل ، اس کے قیمتی د ل کے پار ہو ئی تھی ۔
اس کا دل جس کی دھڑکن سننے کی خواہش اکثر عائلہ کو بے چین کیے رکھتی تھی۔ اب دھڑکنا بھول گیا تھا۔
عبداللہ کھڑے قد کے سا تھ زمین پہ آگرا۔ اس کے ہونٹوں پہ اب کلمہ حق جاری تھا ۔ وہ تڑپتا رہا اور کوئی تب تک اس کے قریب نہ آیا جب تک وہ بے سدھ نہ ہو گیا۔
ا س شاندار لان کی گھاس ، ایک ماں کے اکلوتے لختِ جگر کے خون میں نہا چکی تھی۔
یہ کراچی کے قریب واقع بلوچستان کا علاقہ ”حب”تھا جہاں میر صاحب کا یہ فارم ہائوس بھی تھا۔ حب سے کراچی کے بیچ ایک گھنٹے کا فاصلہ تھا۔ میر صاحب کو ابھی واپس کراچی بھی جانا تھا ۔تبھی وہ اٹھے تھے ۔
”لاش کو سوئمنگ پول کے نیچے دفنا دو تاکہ کبھی نہ مل سکے ۔”
پست آواز میں غرور سے کہتے میر صاحب، تیز تیز قدم ا ٹھاتے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے ۔
ان کی گاڑی کے ہارن پہ چوکیدار گیٹ کھولتا، ا س سے پہلے ہی ا جڑی بکھری عائلہ نے بھاگتے ہوئے گیٹ کھولا تھا ۔ بالکل ایسے جیسے وہ گیٹ کے پاس بیٹھی ان کے آنے کا انتظار کر رہی ہو۔
میر صاحب کی گاڑی جیسے ہی اندر آئی وہ دوڑتی ہوئی ان کے پا س پہنچی ۔
”بابا !بابا !عبداللہ کہاں ہے ۔ پلیز بولیں آپ نے اس کے ساتھ کچھ برا تو نہیں کیا۔ بابا آپ کو اللہ کا واسطہ، مجھے مار دیں ا سے کچھ نہ کہیں۔ بابا آپ کچھ بولتے کیوں نہیں۔”
میر صاحب اس کی باتیں ان سنی کرتے اندر جانا چاہتے تھے ۔ وہ ان کے پیروں سے لپٹ گئی۔
”بتائیں بابا جواب دیں۔ کہاں ہے میرا عبداللہ ؟ کیا کیا آپ نے اس کے ساتھ کیا کیا۔ آپ کوقرآن کا واسطہ،پلیز اس دفعہ ہمیں معاف کر دیں ۔ آج کے بعد میں مر جائوں گی، مگر اپنے کمرے تک سے باہر نہ نکلوں گی ، بس آج ا سے چھوڑ دیں ۔ میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں، مگر ا سے جانے دیں۔ آپ کو میری چادر کا واسطہ ، بابا پلیز۔”
میر صاحب نے جھٹک کے ا سے اپنے پیروں سے پرے کیا ۔
”مار ڈالا میں نے ا سے ۔ اس کے دل کو۔ اس کے عشق کو اس کے غرور کو ۔ عبرت بنا ڈالا میں نے ا سے تاکہ پھر کبھی کوئی کسی سیدزادی سے عشق کرنے کا سوچے بھی نہ ۔ پھر کوئی عشق نہ کرے ، عشق کا نام بھی نہ لے ۔ سمجھی تم ۔”
عائلہ سکتے کی کیفیت میں وہیں بیٹھی رہ گئی ۔
اس کی سفید چادر پہ پیر رکھتے ، میر صاحب کے قدموں کی دھمک دور ہوتی چلی گئی ۔
ستون کے عقب میں چھپی ذاکرہ تیزی سے عائلہ کے قریب آئی اسے گلے لگا کہ ر لانا چاہا۔
”ذاکرہ سنا تم نے ۔ عبداللہ مر گیا ۔اس کا عشق مر گیا ۔ ذاکرہ میرا… عبداللہ مار دیا ۔
میں کیا کروں بولو ۔ اب میں کیا کروں بتائو۔”
عائلہ سنگ ِ مرمر کی روش پہ بیٹھی روتی رہی۔ ساتھ میں ا سے خود سے لگائے بیٹھی ذاکرہ بھی۔ اچانک عائلہ روتے روتے ہنسنے لگی۔
ذاکرہ ا س سے دو قدم پیچھے ہٹی ۔
میرا عشق نہیں مر سکتا ۔ میرا عشق تو ابھی زندہ ہواہے عبداللہ میرے اندر ہے ۔ بول رہا ہے ۔ باتیں کر رہا ہے۔ ا سے بھی مجھ میں رہنا اچھا لگ رہا ہے ۔ سنو ذاکرہ اس کی آواز سنو۔”
عائلہ اپنے ہوش کھو بیٹھی تھی۔ ذاکرہ کی آنکھوں میں خوف تھا۔ عائلہ اُ ٹھی اور روش کے بیچ کھڑے ہو کے ایک ہاتھ اوپر کی طرف ایسے اُٹھایا جیسے کوئی ان دیکھی رسی تھام رکھی ہو اور دوسرا ہاتھ ہوا میں پھیلائے ۔ وہ گول دائروں میں گھومنے لگی۔ اس کا سفید لباس، پورے چاند کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ گول گول گھومتی وہ گنگنا رہی تھی ۔
”عشقِ من نہ مرد و زندہ شد ، بگو عشق لا
یار ِ من مرد،
مر د و از من شد ، بگو عشق لا
صحرائے دل ام سیراب شد، آتشِ چشم ام یخ شد
ایتر کہ ”چاہ” من ”لا ” شد، زندگی من تمام شد
بخدا تمام شد
عشق لا شد
عشق لا شد
اس کی آواز کا سوز اور دیوانہ پن ذاکرہ کو حیران کیے جا رہاتھا کہ ا سے گول گول گھومتی عائلہ میں عبد اللہ کی جھلک دکھی ۔ ا سے ایسا لگا کہ عائلہ کے ساتھ ساتھ عبداللہ بھی گول دائروں میں گھوم رہا تھا ۔ اس کے ہاتھوں میں عبداللہ کے ہاتھ تھے، پیروں کے ساتھ ساتھ عبداللہ کے پیر اور چہرے میں عبداللہ کا چہرہ۔
آج ا سے عائلہ میں آبگینے بھی دِ کھی تھی اور عائلہ ، آبگینے بے شک جتنے نام بدل لو ، کردار تو ایک ہی ہے۔ عشق کو لا بنانے والوں کا انجام ایک ہی ہے۔
عشق جب تک ہے ، عشق کرنے والے کے لیے درد ہے، مگر جیسے ہی عشق کی چاہ ختم ہو جاتی ہے، زندگی سے جڑی ہر خواہش ختم ہو جاتی ہے ۔ ایک بے حسی سی ہر سو چھاجاتی ہے، پھرکسی چیز سے فرق ہی نہیں پڑتا ۔ ایسے لوگ رہیں نہ رہیں بات ایک ہی ہے ۔خواہ عائلہ ہو یا آبگینے آج یاکل ہر کوئی اُنہیں بھلادے گا، نہ بھلا پائے گا، توا ن کے عشق کو ۔ ”عشق لا”کو …
”بہت مبارک ہو آپ کو سکینہ بہن ۔ اللہ پاک مبارک کرے۔” اپنی ہی سوچوں میں گم سکینہ صاحبہ جبراً مُسکراتے ہو ئے مقابل کا شکریہ ادا کرنے لگی ۔
کھوئی کھوئی سی سکینہ سید جانے کب سے اِ س الگ تھلگ سے صوفے پہ بیٹھی تھیں ۔ انہیں اردگرد کی خبر ہی کہاں تھی ۔ وہ تو اپنی ہی فکروں میں گم تھیں ۔
آج ا س ہولناک واقعے کو کافی دن گزر گئے تھے، مگر عائلہ کی طبیعت تھی کہ سنبھل ہی نہیں پا رہی تھی ۔ ا سے جیسے ہی ہوش آتا ، وہ چیخنے چلانے لگتی ۔ بخار تھا کہ کم ہونے کا نام نہ لے رہا تھا ۔
ڈاکٹر آتے نیند کے انجکشن لگا کہ چلے جاتے ۔
میر صاحب کئی دن متذبذب سے سوچوں میں گم رہے ۔ بالآخر اُن کا فیصلہ آگیا۔ وہ چاہتے تھے عائلہ بھی ”ستی” بن کے اپنے کمرے میں مرتے دم تک قید ہو جائے ۔
معید جس نے کبھی بابا کی کسی بات ، کسی فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ آج پہلی دفعہ ان کے فیصلے کے خلاف بولا تھا اور بدلے میں عاق کیے جانے کی دھمکی نے ا سے چپ کرا دیا تھا ۔
ظہر کے بعد ، پر تکلف کھانے پر مدعو ، مہمانوں کے بیچ اعلان کیا گیا کہ عائلہ سید نے اپنی مرضی سے اللہ کی محبت کو دنیا پر ترجیح دیتے ہوئے ، ستی بننے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سب خواتین باری باری سکینہ صاحبہ کو مبارکباد دے رہی تھیں اور گم صم سکینہ صاحبہ کی نظروں کے سامنے آبگینے سید کاگلابی، معصوم چہرہ گھوم گیا۔ جس کو ستی بنانے میں سکینہ صاحبہ کا بھی اچھا خاصا ہاتھ تھا۔
آج جب یہی وقت اپنی بیٹی پہ آیا ، تو ان کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔
سلیمہ صاحبہ اور علیزے نے تو رو رو کے برا حال کرلیا تھا۔ ان کے نظروں کے سامنے شاہ زین کا اُداس شکست خوردہ چہرہ جو گھوم رہا تھا ۔
شانزے اور ذاکرہ ، عائلہ کے پاس ہی کمرے میں موجود تھیں ۔ دوائوں کے زیرِ اثر وہ بے ہوش پڑی تھی ۔ شانزے کی آنکھیں روتے رہنے کی وجہ سے سوج چکی تھیں ۔
مہمانوں کو بتایا گیا تھا کہ عائلہ کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے با قاعدہ رسم نہیں کی گئی ۔
مہمان رخصت ہونے لگے تو سکینہ صاحبہ کو اپنا دم مزید گھٹتا محسوس ہوا ۔ انہیں ایسا لگنے لگا کہ سالوں پہلے جو مشورہ انہوں نے میر صاحب کو آبگینے کے حوالے سے دیا تھا ۔ ا سی کی سزا آج ان کی پھولوں جیسی بیٹی کو مل رہی تھی ۔ وہ ایک کوشش کر کے یہ سب روکنا چاہتی تھیں ۔
تبھی وہ تیزی سے میر صاحب کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں ۔ میر صاحب اپنے کمرے میں آرام سے ، کوئی کتاب کھولے بیٹھے تھے ۔ آج کتنے عرصیبعد ا ن کے چہرے پہ یہ سکون چمک رہا تھا ۔
”میر! میں نے کبھی آپ سے اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں مانگا۔ آج پہلی دفعہ میں آپ سے کچھ مانگ رہی ہوں ۔ مجھے انکار نہ کیجیے گا خدارا ۔مجھے میری عائلہ واپس کر دیں۔”
آنسوئوں کے بیچ بہ مشکل اپنی بات مکمل کرتی سکینہ سید، کی طرف دیکھتے میر صاحب کے سکون میں کوئی کمی نہ آئی تھی ۔ وہ بدستور سکون سے اُنہیں دیکھتے ہوئے بولے:
”آپ یہ کیوں نہیں سمجھ لیتیں کہ ہماری عائلہ مر گئی ؟ میرے لیے تو عائلہ ا س دن ہی مر گئی تھی جس دن اس نے اس نامحرم کو خود کو چھونے دیا تھا ۔ یہ عائلہ کی کوئی پرچھائی ہے جو اِ س وقت اپنے کمرے میں قید ہونے جا رہی ہے ۔ آپ کی بیٹی تو ا س دن ہی چلی گئی تھی جس دن ا س نے سچا عشق کیا تھا۔ میں بھلا کیسے آپ کو آپ کی بیٹی لوٹا سکتا ہوں؟ جب کہ اب تو وہ خودہی ، خود میں باقی نہیں رہی۔”
اطمینان سے اپنی بات مکمل کر کے وہ کتاب کی طرف متوجہ ہو گئے ۔
رو تی سکینہ صاحبہ کے پاس اب وہاں ر کنے کا کوئی جواز نہ تھا ۔ وہ واپس صحن میں آ چکی تھیں جہاں مہمانوں کے جانے کے بعد نوکر صفائی کر رہے تھے ۔ آدھا چاند آسمان پہ چمک رہا تھا ۔ عائلہ کے چیخنے کی آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی ۔ وہ بھاری اجنبی آواز میں چیخ رہی تھی ۔
”وہ عشق نہیں مر سکتا جو ”لا” بن جائے۔ میرا عشق زندہ ہے زندہ رہے گا۔”
اس کی ہذیانی چیخیں ، چیخ چیخ کے بول رہی تھیں کہ اب عائلہ میں عائلہ کہیں نہیں۔
سکینہ صاحبہ نے آنسوئوں کی دھند کے پار ادھورے چاند کو دیکھا ۔ چاند نے انہیں دلاسا دیتے سرگوشی کی :
”نصیب کا لکھا نہیں مٹتا اور اس کے نصیب میں عشق تھا بس !عشق صرف عشق ، بے تحاشا عشق، چاہ کی عشق ، لا کی عشق ، عشق ہی عشق … بس عشق ہی عشق۔”
ان کے لبوں نے دھیرے سے سرگوشی کی تھی ”الوداع عائلے الوداع ” اور ممتا نے ہار کے اپنی بیٹی ”عشق لا”کو سونپ دی
ختم شد