علیزے نے اس کا بازو جھنجھوڑ کے ا سے خیالات کی دنیا سے باہر نکالا ۔
”ہمم !کیا ہوا ؟” حواس بحال کرتی عائلہ نے جواب دیا۔
”وہ آپ کو منگنی کی رسم کے لیے بلا رہے ہیں سب۔”
علیزے نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا ۔
عائلہ پتھرائی ہوئی نظروں سے ا سے اور اس کے پیچھے کھڑی لڑکیوں کو تک رہی تھی ۔
”گودی !”
اپنے پیچھے ذاکرہ کی آواز سنتی وہ پلٹی تھی ۔
ذاکرہ ا س سے نظریں ملائے بغیر، اس کا دوپٹا سر پہ اوڑھانے لگی۔ عائلہ کسی بت کے مانند کھڑی رہی ۔
بلا وجہ ہنستی ، کھلکھلاتی لڑکیوں نے ا سے گھیرا اور اس کے ہاتھ پکڑ کے اسٹیج کی طرف لے جانے لگیں۔ عائلہ نے مڑ کے پیچھے کھڑی ذاکرہ کو دیکھا جو اپنے آنسو پونچھ رہی تھی ۔
انگوٹھی پہنانے کی رسم کا آغاز ہونا تھا ۔ سادہ سیاہ دوپٹا کس کے سر پہ اوڑھے ، فق چہرہ لیے سوگوار سی دلہن کو ، چچی نے منگنی کی انگوٹھی پہنائی ۔ بلائیں لیتی ا س پر سے پیسے وارتی چچی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی اسے رخصت کرا کے اپنے ساتھ لے چلیں ۔
اب کے علیزے اس کے پاس آئی تھی ۔ خوبصورت لال دوپٹا جس پہ بھاری بھرکم کشیدہ کاری نہایت نفاست سے کی گئی تھی،ا سے اوڑھائی تھی ۔ بت بنی عائلہ کے جذبات اور احساسات بھی شاید پتھر کے ہی ہو گئے تھے ۔ تبھی ا سے کچھ محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا ۔
”مبارک ہو سلیمہ بہن ، اتنی پیاری سی دلہن آج سے آپ کے شاہ زین کی ہوئی ۔”
یہ کس کی آواز تھی عائلہ نہیں جانتی تھی ، مگر الفاظ کتنے زہریلے تھے یہ ضرور پہچانتی تھی ۔ وہ ان الفاظ کا زہریلا ڈنک اپنے دل میں پیوست ہوتا محسوس کر سکتی تھی ۔
کیا لڑکیاں اتنی ارزاں ہوتی ہیں کہ کوئی بھی آکے ایک انگوٹھی ان کی انگلی میں پہنا کے اپنا بنا لے ؟ لڑکیوں سے تو اچھی قسمت ریوڑھیوں کی ہے ۔ان کا مالک ، گاہک کو اُن کی قیمت کم کرنے نہیں دیتا اور گاہک اُنہیں خریدنے کے بعد کسی رنگین شیشے میں ڈال کے سجا لیتا ہے ۔ اُنہیں پھپھوندی لگنے نہیں دیتا ۔ پھپھوندی تو ا ن لڑکیوں کو اکثر لگ جاتی ہے جنہیں ایک انگوٹھی کے عوض کسی کا بھی بنا دیا جاتا ہے۔
پھپھوندی ؟ ہاں !
یہ پھپھوندی ہی تو تھی جو اس کی ادھوری مہندی لگی انگلی سے لپٹ چکی تھی یا شاید کوئی کیڑا جو اس کی انگلی سے لپٹ کر ا س کا خون چوس رہا تھا۔ عائلہ کی طرف کسی نے مٹھائی بڑھائی تھی ۔ بہت کوشش کے باوجود وہ بالکل چھوٹا سا مٹھائی کا ٹکڑا ہی لے سکی، مگر وہ پورے وثوق سے یہ بات کہہ سکتی تھی کہ ا س نے اپنی پوری زندگی میں اِ س سے زیادہ کڑوا کچھ نہیں چکھا تھا ۔ ا سے ایسا لگا جیسا کوئی سلگتا ہوا انگارہ زبان پہ رکھ دیا ہو ۔ وہ ا سے تھوکنا چاہتی تھی ۔
وہ اپنے سر پہ سجے بھاری بھرکم بوجھ کو اتار کے دور پھینک دینا چاہتی تھی ۔
رگڑ رگڑ کے اپنی انگلی دھونا چاہتی تھی جس میں کسی اور کے نام کی ہتھکڑی لگ چکی تھی ۔
لیکن اِ س عالمِ وحشت میں بھی کچھ تھا جو ا سے روک رہا تھا یہ سب کرنے سے ۔
شاید اس کے حواس تھے جو اب بھی بجا تھے ا س نے بہ مشکل خود پہ قابو پایا تھا کہ اماں اس کے پاس آکے بیٹھیں۔
”سکینہ بہن اب تو آپ میرے گھر کی رونق بھی اپنے گھر لے آئیں ہیں اب تو ہم سے انتظار نہیں ہوتا ۔ اب آپ بھی ہماری بیٹی جلد ہی ہمیں دے دیں ۔ میرا شاہ زین تو بچپن سے ، جب سے اِن کی بات طے ہوئی ہے تب سے صرف عائلہ ہی کے سپنے سجائے بیٹھا ہے ۔ اب تو ما شااللہ عائلہ کی پڑھائی بھی ختم ہو گئی ہے ۔ ہم اب کوئی بہانہ نہیں سنیں گے بس ۔”
تیز تیز بولتی چچی جیسے ہی خا موش ہوئی تھیں ۔ عائلہ کی تو جیسے دنیا ہی خاموش ہو گئی تھی ۔
اتنا بڑا دھوکا ؟
او میرے خدایا …
”بچپن سے بات طے تھی؟”
تو اماں نے مجھ سے جھوٹ ۔
کیوں میرا کیا قصور تھا؟
کیا ہوتا اگر مجھ سے یہ بات نہ چھپائی جاتی ؟
کم از کم شاید آج میری آنکھوں میں عبداللہ کے سپنے اور انگلی میں شاہ زین کے نام کی انگوٹھی نہ ہوتی ۔
کچی عمر کے رشتوں کے رنگ ویسے بھی بہت پکے ہوتے ہیں ۔ میں بھی شاہ زین کی طرح اس رشتے کے رنگ میں رنگ جاتی مگر…
مجھے دھوکے باز کہنے والے میرے بابا نے مجھے دھوکے میں رکھا اور اماں نے تو جھوٹ بول کے منگنی کرا دی ؟
اس کی اب تک کی ساری زندگی کسی فلم کی طرح اس کی نظروں کے سامنے گھوم گئی ۔ آج تک بِتایا اپنا ایک ایک دن ا سے جھوٹ لگا ، ڈھونگ لگا ۔
ایک زندگی سے اکتائے ہوئے انسان کے ساتھ جب دھوکا ہو تو سب ڈھونگ سب جھوٹ ہی لگتا ہے ۔
عائلہ کی بھی حالت غیر ہونے لگی تھی ۔وحشت پہ قابو پانا مشکل تھا ۔ بالآخرحواس نے ہار مانی اور وحشت کی جیت ہوئی ۔
ایک جھٹکے سے عائلہ نے اپنے سر پہ سجا لال دوپٹا دور پھینکا۔ نوچ کے انگوٹھی اتاری اور مٹھائی کا ٹکڑا تھوکتے ہوئے ، ہتھیلی کی پشت سے اپنا منہ صاف کیا ۔
وہ وہیں کھڑے ہو کے زور زور سے ہنسنے لگی ۔ لال آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور ہونٹوں کو قہقہوں سے فرصت نہ تھی ۔
جو جہاں تھا وہیں انگشت بدنداں رہ گیا اور قہقہے لگاتی عائلہ ، اب ایک اجنبی قدرے موٹی آواز میں قہقہوں سمیت کہہ رہی تھی ۔
”تماشا تمام شد ، تماشا تمام شد۔”
صوفے پہ بیٹھی سکینہ صاحبہ اس کے اچانک جھٹکے سے تھوڑا سنبھلیں ، تو اس کی طرف لپکیں ۔ ا ن کی دیکھا دیکھی ذاکرہ بھی آ گئی ۔
”عائلہ… گودی …”
ہر نام ، ہر چہرہ ا س وقت عائلہ کے لیے بیگانہ تھا۔ وہ کسی صورت قابو میں نہیں آرہی تھی ۔
”تماشا تمام شد۔” کا نعرہ بلند کیے، وحشت اس کے سر چڑھ کے ناچ رہی تھی۔ چار زانو بیٹھے ”حواس۔” اپنی ہار پہ ٹسوے بہا رہے تھے کہ بے حواسی آگے بڑھی اور عائلہ کوگلے لگا لیا۔
تماشا تمام ہوا کے نہیں ، عائلہ کی بے ہوشی نے اس کی وحشت ضرور تمام کر دی تھی ۔ اسے ذاکرہ کے سہارے کمرے کی طرف لے جاتے سکینہ صاحبہ ،کی سماعت سے ارد گرد ہونے والی چہ میگوئیاں مخفی نہ رہ سکیں ۔
”ائے ہئے لڑکی پہ جن عاشق ہے۔”
”ارے ہاں ! یہ تو آسیب زدہ دِکھتی تھی پہلے دن سے۔”
”مہندی کی رات بھی دیکھا تھا کیسے سب چھوڑ چھا ڑ کے چلی گئی تھی۔”
”نہیں ! دیکھ لینا یہ ذ ہنی مریضہ ہے۔”
”ارے کوئی اِ سے شاہ آغا کا پتا دو ۔”
”کون ؟ وہ”عبداللہ شاہ غازی” کے مزار کے متولی شاہ آغا؟ بڑے پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ بڑا علم ہے ان کے پاس ۔ کوئی بتائے اُنہیں ۔”
وہ عائلہ کے کمرے تک پہنچتے پہنچتے۔ ”شاہ آغا” سے ملنے کا فیصلہ کر چکی تھیں ۔
٭…٭…٭
عبداللہ ایک معمول کی طرح ہجوم کو چیرتا سیڑھیاں چڑھتا ، عبداللہ شاہ غازی کے مزار تک آیا تھا۔ یہ قدیم مزار شہر کی سطح سے کافی اونچائی پہ بنا ہوا تھا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ مزار میں کئی تبدیلیاں آئیں لیکن اس کی مشہور سو سیڑھیاں آج بھی اس کی پہچان تھے ۔
دن رات جاگتے رہنے والے شہرِ کراچی کے باسیوں کا مزار پہ تقریباً چوبیس گھنٹے ہی تانتا بندھا رہتا ۔ عبداللہ گزشتہ دو سال سے دوپہر کو یہاں آتا اور رات گئے گھر جاتا ۔ شاہ آغا کی سنگت نے اس کی شخصیت پہ کئی مثبت اثرات مرتب کیے تھے ۔
قطع دار ڈاڑھی ، سادہ سی قمیص شلوار اور کندھوں پہ ڈلا عمامہ ، عبداللہ کی شخصیت کو مزید نکھار بخش چکے تھے ۔ اِ سی مزار کے قریب واقع پوش علاقے کی مسجد میں وہ مغرب کی نماز کی امامت بھی کرانے لگا تھا۔ چہرے پہ پھیلی وحشت کی جگہ اب سکون کا ڈیرا نظر آتا تھا ۔البتہ آنکھوں میں پھیلی ویرانی اب بھی اپنی جگہ قائم تھی ۔
ان دو سالوں میں شاہ آغا نے اپنے علم کے وسیع سمندر سے چند قطرے ہی سہی عبداللہ کو بھی سونپہ تھے ۔ عبداللہ کو ان کے روحانی علم کا اندازہ تو تب ہی ہو گیا تھا جب وہ عبداللہ کے قلبی سکون کے لیے اسے پانی دم کر کے دیتے تھے ۔ وہ پانی پیتے ہی عبداللہ کو اپنے اندرسکون کے ٹھنڈے میٹھے چشمے بہتے محسوس ہوتے ۔
لیکن ا سے یہ خبر نہ تھی کہ شاہ آغا کے علم کا اتنا چرچہ ہو گا ۔ وہ تو جب مزار پہ باقاعدگی سے آنے لگا تب ا سے علم ہوا ۔
ان دو سالوں میں ا س نے شاہ آغا کو بہت سے لوگوں کے مشکلات کا حل قرآنی آیات اور سورتوں کے ذریعے نکالتے دیکھا تھا ۔ شاہ آغاکوئی پیشہ ور عالم یا عامل نہ تھے ۔ وہ تو ا س مزار کے متوالی اور خدا کے نیک بندے تھے جو اپنے علم کے مطابق لوگوں کو قرآنی آیات بتاتے جنہیں پڑھنے سے،اللہ پاک اپنا فضل فرماتے اور ا ن کی مشکلات آسان ہو جاتیں۔
اِ س مزار پہ اکثر آسیب زدہ لوگوں کو بھی لایا جاتا کہ شاہ آغا کو جن نکالنے میں خاص مہارت حاصل تھی ۔ عبداللہ کو شروعات میں تو شاہ آغا اس جگہ بیٹھنے تک کی اجازت نہ دیتے تھے جہاں وہ جن نکالتے تھے ، لیکن رفتہ رفتہ عبداللہ کا نڈر پن اور اُ س کا بڑھتا رجحان دیکھتے ہوئے انہوں نے ا سے بیٹھنے کی اجازت دے دی ۔
اب عبداللہ نہ صرف ان کے ساتھ بیٹھنے لگا تھا بلکہ اکثر ان کی مدد بھی کر دیا کرتا ۔ آج بھی اپنی ہی دھن میں گم سیڑھیاں چڑھتا عبداللہ شاہ آغا تک آیا تھا۔
لوگوں کے جھرمٹ میں گھرے شاہ آغا کی نظر عبداللہ پہ پڑی تو وہیں سے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا جواباً مُسکراتے ہوئے عبداللہ نے بھی ہاتھ اٹھا دیا۔
آج جمعرات کا دن اور عقیدت مندوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ آج بھی سیڑھیوں کے پاس نیچے کونے میں بیٹھا ملنگ ”جمعرات بھری مراد” کی سدائیں بلند کر رہا تھا ۔ مزار کے اندرونی جانب داخل ہونے کے دو دروازے تھے ۔ ایک خواتین کے لیے مختص تھا جب کہ دوسرا مردوں کے لیے ۔ دونوں دروازوں سے لوگ اندر جاتے ، فاتحہ پڑھتے ، دعا مانگتے اور نکل آتے ۔
وہیں کھڑے شاہ آغا، ہاتھ میں مور کے پنکھ اٹھائے اُ ن کے سر جھاڑتے ، بالکل ایسے جیسے ا ن پہ لگی گناہوں کی گرد جھاڑ کے ا ن کا اصل مسلمان دیکھنا چاہتے ہوں ۔
اکثر کسی کو زار وقطار روتے، استغفار کرتے یا دعا مانگتے دیکھ کر چپکے سے ان کے خالی ہاتھوں میں گلاب کا کوئی پھول تھما دیتے ۔ اور اس بابت دریافت کرنے پہ شاہ آغامُسکرا کے کہتے :
”یہ لوگ ان مزاروں پہ ان قبروں سے مانگنے نہیں آتے عبداللہ۔ وہ رب سوہنے سے مانگنے آتے ہیں بس ان مزاروں پہ آ کے اِس لیے مانگتے ہیں کہ انہیں یقین ہوتا ہے یہاںان کا رب انہیں مایوس نہیں کرے گا ۔ تمہیں پتا ہی بچے دعا کیا ہے ؟ دعا نام ہی کامل یقین کا ہے ۔ جیسے ہی اللہ کے بندے کا یقین پختہ ہوا ویسے ہی مالکِ دوجہاں نے کہہ دینا ہے ”کن فیکون۔” ”ہو جا”اور پھر وہ ہو کے رہتا ہے، لیکن اکثر لوگوں کی دعائیں یہاں آ کے بھی شرفِ قبولیت نہیں پاتیں ، جس کی وجہ اُن کا متزلزل یقین ہوتا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ ایسے لوگ یہاں سے مایوسی لے کے نکلیں ۔ تبھی میں اکثر ان کے ہاتھوں میں پھول رکھ دیتا ہوں ۔ ایسے ایک ننھی سی ا مید ان کے دلوں میں جاگ جاتی ہے کہ شاید یہ ان کے رب کا اشارہ ہے کہ ان کی مراد ضرور پوری ہوگی اور وہ خالی ہاتھ نہ جائیں گے ۔ بچے مایوسی کفر ہے، اس نفرت بھرے زمانے میں کسی کو کفر سے بچا کے ننھی سی امید کی کونپل پکڑا دینا گناہ کہاں ہے ۔ بس یہ سب رب سوہنے کی مرضی ہے ، دیکھ اور سر دھن۔”
عبداللہ انہی کی باتیں یاد کرتا ہوا انہیں ایک زار وقطار روتے بزرگ کے خالی ہاتھوں میں ننھا سا پھول رکھتا دیکھ رہا تھا ۔ کیا سچ میں سچا یقین ہی دعا کی قبولیت کا اصل راز ہے ؟ اگر ہاں تو آج میں کیوں نہ ہر اندیشہ ہر وسواس بھلا کے اس کی ایک جھلک مانگ کے دیکھوں؟
آنکھیں بند کیے کھڑے عبداللہ نے اپنے ہاتھ دعا کے لیے بلند کیے تھے۔
اللہ تو بڑا رحیم اور کریم ہے پاک ہے ، عالی شان ہے ۔ میں تو تیرے سامنے کھڑے ہونے کے قابل بھی نہیں کجا کچھ مانگوں ۔ پر یا رب تیرے ہی نیک بندے نے مجھے امید دلائی ہے کہ یقین سے مانگوں تو تو رد نہیں کرتا ۔ یا رب میں بہت ہی نیچ انسان ہوں، تجھ سے مایوس بھی ہو گیا تھا ۔ یقین سے مانگا بھی نہ تھا، مگر آج جب مانگ رہا ہوں تو شرمندہ ہوں ۔ یا رب ِ کریم مجھے اس کی ایک جھلک دکھا دے بس۔ مجھے نہیں پتا کے کیسے مجھے صرف ایک بار اس کی جھلک دکھا دے یا اللہ ۔ مجھے علم ہے کہ میری دعا بھی میری طرح نیچ ہے ، میں مانگ رہا ہوں تو کیا ، ایک سید زادی کی جھلک ۔ پر میرا یقین اٹل ہے آج میری دعا رد نہ ہو گی۔”
دعا مکمل کرتے ہوئے ا س نے اپنے ہاتھ آنسوئوں سے تر چہرے پہ پھیرے تو ا سے محسوس ہوا کہ اس کے ہاتھ میں بھی گلاب کی ایک ننھی سی کلی مہک رہی تھی ۔ وہ مُسکرایا پہلی دفعہ ا س نے محسوس کیا کہ ا ن لوگوں کو کیسا لگتا ہو گا جن کے ہاتھوں میں شاہ آغا ہمیشہ ایسی کلیاں رکھ دیتے تھے۔ کلی ہاتھ میں لیے مُسکراتا ہوا وہ شاہ آغا کو متلاشی نظروں سے ڈھونڈنے لگا ۔ ا سے تھوڑے سے فاصلے پہ شاہ باآغا کسی کے ہاتھوں میں چپکے سے پھول رکھتے نظر آئے ۔ وہ بھرپور مُسکراہٹ کے ساتھ ا ن کی طرف بڑھا۔
بابا احتیاط سے دعا کے لیے پھیلائے،کسی خاتون کے ہاتھوں میں پھول رکھ رہے تھے ۔ کالی چادر میں آدھا چہرہ ڈھکے ، کسی جذب کی کیفیت میں دعا مانگتی خاتون کو خبر نہ ہوئی اور شاہ آغا پھول رکھ کے عبداللہ کی طرف متوجہ ہوئے ۔
”اب بولو بچے کیسا لگتا ہے ؟”
”اُف بابا کیا بتائوں کیسا لگتا ہے ۔ آج مجھے ایسے لگا جیسے سچ مچ میرے ہاتھ جس دعا کے لیے بلند تھے ، وہ اللہ پاک نے سن لی اور میرے خالی ہاتھ بھر دیے۔”
عبداللہ بچوں کی طرح خوش ہوتے ہوئے شاہ آغا کے سامنے اپنی کیفیت بیان کر رہا تھا ، کہ اس کی نظر ا ن کے عقب میں کھڑی ا سی خاتون پہ گئی ۔ دعا کے لیے ا ٹھائے ان کے ہاتھ بے دم سے گر چکے تھے ۔ ا ن میں رکھا شاہ بابا کا پھول ، چادر والی لڑکی کے پیروں کے پاس پڑا تھا ۔ عبداللہ کی نظر بے ساختہ اس کے پیروں پہ گئی ۔
وہی سنگِ مرمر سے تراشیدہ پیر جو ایک دفعہ اس کے دل کی دہلیز پہ پڑے تھے اور ایسے ثبت ہوئے تھے کہ پھر کبھی اس کے دل کی زمین پہ کسی کے قدموں کے نشان نہ پڑے۔
وہ حیران اس کے پیروں پر سے نظر ا ٹھاتا، اس کے چہرے کو تکنے لگا ۔ کالی چادر سے آدھا چہرہ ڈھکے، حیران جھانکتی شہد رنگ آنکھیں بے شک عائلہ سید کی تھیں ۔
عبداللہ کا وجود زلزلوں کے زیرِ اثر تھا۔ اس کا ذہن کسی کند ذہن بچے کی سلیٹ کی طرح خالی تھا۔
عبد اللہ اور ا س چادر والی لڑکی کو یوں پتھر کا مجسمہ بنے دیکھ شاہ آغا کو بات کچھ کچھ سمجھ آ نے لگی تھی۔
عبداللہ کچھ سنبھلا اور کچھ سوچنے سمجھنے کی کیفیت میں آیا، تو اپنے رب کے آگے سجدہ ِ شکر بجا لانے کے لیے خالی جگہ ڈھونڈنے لگا ۔
پتھر کا بت بنی کھڑی عائلہ بھی اب متحرک ہو گئی تھی ۔ عبد اللہ اِدھر اُدھر متلاشی نگاہوں سے دیکھ رہاتھا اور عائلہ ا سے ۔ وہ خوف سے پلکیں بھی نہیں جھپک رہی تھی کہ کہیں عبداللہ پھر سے اس کی نظروں کے سامنے سے دور نہ ہوجائے ۔
عبداللہ پھر سے اس کی طرف متوجہ ہوا ۔ اب کے اس کے چہرے پہ سکون کے آثار تھے۔ وہ کچھ دیر خاموشی سے اس کی آنسو بہاتی شہد رنگ آنکھوں کو دیکھتا رہا ، پھر دھیرے سے جھکا اور اس کے قدموں کے پاس سے وہ ننھی گلاب کی لال کلی ا ٹھائی اور دھیرے سے اس کی طرف بڑھا دی جسے عائلہ نے خاموشی سے تھام لیا ۔
مزار کے اِ س اندرونی حصے میں ہر وقت ہجوم رہنے کی وجہ سے دھکم پیل مچی رہتی تھی ۔ عائلہ اور عبداللہ کو بھی کئی دھکے لگے تھے، مگر ا ن دونوں کے لیے تو وقت جیسے ر ک سا گیا تھا۔ عائلہ کو پیچھے ہجوم میں پھنسی ذاکرہ اور سکینہ بیگم کا بھی خیال نہ رہا تھا ۔ا س کا بس چلتا تو سانس بھی نہ لیتی ، بس صرف عبد اللہ کو دیکھتی اور وقت تھما رہتا ۔
اچانک عائلہ کو کسی نے پیچھے سے زور کا دھکا مارا تھا ۔ وہ بے ساختہ پیچھے مڑی، پر اپنے پیچھے کھڑے لوگوں کو خود سے بے نیاز پاکے واپس عبداللہ کی طرف مڑی، مگر وہاں عبد اللہ نہ تھا ۔ وہ دیوانہ وار ارد گرد عبداللہ کی تلاش میں ہجوم کو ٹٹول رہی تھی ۔ نقاب کب کا گر چکا تھا ۔ چادر سر سے سرک کے کندھوں پہ جھول رہی تھی ۔ پسینے میں شرابور عائلہ سید کے چہرے پہ بھورے بالوں کی کئی لٹیں چپکی ہوئی تھیں اور وہ ہر اساں سی صرف عبداللہ کو ڈھونڈ رہی تھی ۔
اپنے عبداللہ کو …
عبداللہ ،جس کی ایک جھلک کی بھیک ا س نے آج بھی مانگی تھی۔
عبداللہ جس کی آواز آج ا س نے دعامانگتے وقت سنی اور اپنی دعا ادھوری چھوڑ ا سے دیکھنے لگی ۔
اس نے مزار کا سارا اندرونی حصہ چھان مارا تھا، مگر عبداللہ کو نہ ملنا تھا نہ ملا ۔ وہ تھک ہار کے بری طرح سے ہانپ رہی تھی ۔ ا سے اپنی حالت کا ہوش ہی نہ رہا تھا ۔ جب محبوب ہی کھو جائے تو اپنی خبر رہتی بھی کسے ہے۔
تھکاوٹ اور پیاس سے اس کی حالت غیر ہو رہی تھی کہ پیچھے سے اماں نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ا سے مخاطب کیا ۔