جب سے وہ لوگ اس حویلی میں منتقل ہوئے تھے اس نے کبھی عائلہ کو نہ دیکھا تھا ۔ وہ شانزے کی ہم عمر تھی اور شاہ زین سے دو سال بڑی ۔ بچپن میں ساتھ پلے بڑھے تھے ، تجسس نے پھر انگڑائی لی اور دل اس کا چہرہ دیکھنے کو مچلا ۔ شاہ زین نہایت احتیاط سے دبے قدموں چلتا درختوں کی اوٹھ میں ہو گیا ۔ اب وہ عائلہ کو دیکھ سکتا تھا گو سامنے سے نہیں…
سفید لباس میں ملبوس ، درخت کے تنے پہ سر ٹکائے آنکھیں موندے وہ جانے کیا سوچے مُسکرا رہی تھی ۔ گلابی رنگ پہ اڑتے سونے جیسے بال اس کے چہرے کو یونانی حسن کی رمق بخش رہے تھے اس کی ناک کا چمکتا نگینہ اور لمبی پلکیں حسن کو کامل کر رہی تھیں ۔ دودھیا پیر گلابی پھولوں پہ ٹکے اتنے چمک رہے تھے کہ جیسے پھولوں پہ ہی رکھنے کو تخلیق کیے گئے ہوں اور ہاتھ گھٹنوں کے گرد لپٹے نور کا ہالہ سا بنا رہے تھے۔
کیا یہ وہی عام سی عائلہ تھی جس کے ساتھ اس کا سارا بچپن گزرا تھا ؟ وہ اور معید لالا مل کے اسے کتنا ستاتے تھے ۔ موقع ملنے پہ وہ بھی شاہ زین کو ایک دو جڑ کے اپنے بڑے ہونے کا رعب جماتی ۔ کچھ تو خاص ہے اس عائلہ میں کچھ نیا۔ اتنا مسحور کن حسن ، اتنا کامل منظر ۔ ا س کے دل کی دھڑکن بڑی تھی کہ ہوا چلی اور عائلہ پہ پھول برسا گئی ۔ اب کے پھر سے وہ کھلکھلائی اور یونہی آنکھیں موندے بیٹھی رہی۔ کئی پھول ا س کے گود میں گرے اور کئی بالوں میں اُلجھ چکیتھے۔
شاہ زین اس کی ہنسی کے زیر ِ اثر بت بنا سانس روکے درختوں کی اوٹھ سے ا سے دیکھ رہا تھا ۔ ا س کا دل چاہا کہ پھر سے ہوا چلے اور چیری کے پھول ا س پیاری سی لڑکی کو گدگدائیں، مگر ہوا تھی کہ نخرے دکھا نے لگی ۔ نہ ہوا چلی نہ وہ کھلکھلائی ۔
شاہ زین کو خیال آیا کیوں نہ درخت کو ہلکا سا جھٹکے اور اس پہ پھول برس جائیں۔ اس خیال کا آنا تھا کہ وہ درخت کے پاس گیا جس سے ٹیک لگائے عائلہ بیٹھی تھی ۔ درخت کی اوٹھ میں کھڑے ، اس نے کچھ شاخوں کو پکڑ کے دھیرے سے جھٹکا۔ گلابی پھول عائلہ پہ بکھرے تھے ۔ کچھ پھول پیشانی، رخسار اور ہونٹوں کو چھو کے نیچے گرے تھے۔
عائلہ کی ہنسی بے ساختہ تھی ۔ موندی آنکھوں سے کھلکھلاتی وہ بے حد دلکش لگی تھی ۔ شاہ زین کے دل نے اسے مزید مجبور کیا۔ دوبارہ شاخیں جھٹکتے ، اس نے عائلہ پہ گلابی پھولوں کی بارش کی تھی ۔
اب کے عائلہ چونکی ۔ ا س نے آنکھیں کھولیں تو ا س کی نظر درخت کی اوٹھ سے خود کو دیکھتے شاہ زین پہ پڑی ۔ بجلی کی سی تیزی سے سیدھے ہوتے ا س نے اپنا دوپٹا درست کیا اور نقاب کے انداز میں آدھا چہرہ ڈھکا تھا ۔ عجلت سے پیروں میں سلیپر اڑستے وہ جانے کو مڑی کہ شاہ زین ا سے پکار بیٹھا:
”سنیں عائلہ!”
عائلہ کے آگے بڑھتے قدم تھم گئے تھے ۔
”مجھے معاف کر دیں ، میں آپ کو…”
ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ آدھا چہرہ ڈھکے ، دو شہد رنگ قہر برساتی نگاہوں نے شاہ زین کو پتھر کا بنا دیا ۔ شرمندگی کا غلبہ اتنا شدید تھا کہ وہ نظریں جھکا گیا۔ گلابی پھولوں کو روندتی ، عائلہ کے قدموں کے سنگ ا س نے اپنے دل کو بھی رندتے محسوس کیا تھا ۔
عائلہ کے امتحانات ختم ہو گئے تھے ۔ لا لا نے اس کی واپسی کا سارا انتظام کر دیا تھا ۔ واپس جانے سے ایک رات پہلے ، وہ کمرے میں بیٹھے بیٹھے اکتا سی گئی ۔ نیند جو ویسے ہی ا س پہ کم مہربان تھی ، آج تو جیسے نہ آنے کی قسم کھا چکی تھی ۔
مجبو ر ہو کے عائلہ نے سوچاکیوں نہ صحن میں تھوڑی دیر ٹہلا جائے۔ چپل میں پائوں اڑستے دالان سے گزرتے، رنگین دریچوں سے آتی پورے چاند کی روشنی ، عجب سرور سا برپا کر رہی تھی ۔ سفید حویلی چاندنی میں نہا کر مزید حسین اور پرسرار لگ رہی تھی۔ ماربل کی روش ختم ہوئی تو اس کے پیر شبنم میں نہائی گھاس پہ پڑ ے ۔ پیروں کو سلیپر سے آزاد کرتی وہ بھیگی گھاس پر چلنے لگی۔
اسے لگتا ، چاند ا س کا پیچھا کر رہا ہے جس طرف وہ جاتی ، چاند اپنی جگہ بدلتا ، ا سے تکتا ۔ چاند سے آنکھ مچولی کھیلتے ا سے جانے کتنی دیر ہو گئی ، آخر وہ تھک کے سنگ ِ مر مر کے زینے پہ بیٹھ گئی ۔
ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ جماتے ، اس کی نظریں اب بھی چاند پر تھیں ۔
”کاش !عبداللہ بھی اس وقت اسی چاند کو دیکھ رہا ہو۔”
خیال کی شدت اتنی تھی کہ وہ یونہی چاند پہ نظریں ٹکائے، بت بنی بیٹھی رہی ۔ اس کی پلکوں کو چھوتے کئی موتی ، اس کے زردی مائل رخسار پہ بکھرے تھے ۔ سیاہ ماتمی لباس چاندنی میں مزید ملگجا سا لگ رہا تھا ۔
ہم تیری یاد منانے کے لیے
ہر طرف عالم ِ ہو ڈھونڈتے ہیں
ایک بھولے بسرے شعر نے ا س کے ہونٹوں پر دم توڑا تھا ۔ کچھ ا س کے شہر میں واپس جانے کی اداسی تھی اور کچھ ا سی شہر سے جڑے درد کے قصے تھے ۔ عائلہ کا دل بھرا گیا ۔ گھٹنوں میں چہرہ چھپائے وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی ۔
اسے وہیں سسکتے جانے کتنی دیر ہو گئی جب کسی کے دست ِ شفقت کو اپنے بالوں پہ محسوس کرتی وہ ایک جھٹکے سے سیدھی ہوئی ۔ اپنے ساتھ ، بالکل قریب بیٹھی آبگینے سید پہ نظر پڑتے ہی و ہ تیزی سے پیچھے کی طرف کھسکی۔
”نہ عائلے نہ بچے ! یوں روتے نہیں۔ بہادر بن ۔ جب عشق جیسا بہادری کا کام کر لیا ہے، تو اب درد سے کیا ڈرنا ؟ اب تو زندگی زرد ہی گزرنی ہے، تو رونا کیسا ؟”
اس کے آنسو نرمی سے پونچھتی آبگینے ا سے اپنی اپنی سی لگیں۔ وہ مبہوت سی انہیں دیکھے جا رہی تھی۔
”چاند کو دیکھ عائلے۔ حسین ہے نا ؟”
ان کے سوال پہ عائلہ نے ٹرانس کی سی کیفیت میں اثبات میں گردن ہلائی تھی۔
”تمہیں پتا ہے چاند کیوں حسین ہے؟”
عائلہ کے نفی میں سر ہلانے پہ وہ بولیں:
”غور سے دیکھو تمہیں چاند میں داغ دکھائی دے رہے ہیں ؟ اجلے ، گورے ، چاند پہ یہ داغ ہی اسے مختلف اور پراسرار حد تک حسین بناتے ہیں ۔اگر چاند پہ داغ نہ ہوتے تو چاند عام سا ہوتا ۔ بالکل ویسے جیسے ، ہمارے ارد گرد بہت سے خوش شکل ، اجلے اور خوش باش لوگ پائے جاتے ہیں ، مگر ان میں کچھ بھی پر کشش حد تک مختلف نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اُن کا وجود بے داغ ہوتا ہے ۔ عام سا اور کبھی کبھار ہم کسی واجبی انسان میں کچھ بہت پر کشش ، بہت مختلف محسوس کرتے ہیں ، تو پتا ہے تمہیں وہ کشش کیا ہے ؟”
”وہ ان کے وجود کے زخم ہیں۔ ان کی روح پہ لگے داغ ہیں جو انہیں منفرد بناتے ہیں۔ تمہیں پتا ہے ایک دانشور کا قول ہے کہ دنیا کی سب سے خوبصورت مُسکراہٹیں وہ ہیں جو ٹوٹی ہوئی ہوں یعنی جن میں درد کی آمیزش ہو اور درد ہر ایک کا مقدر تو نہیں نا میری جان ؟ درد تو اللہ کے چنے ہوئے بندوں کو نصیب ہوتا ہے ، جن کے لیے عشق کے در وا کر دیے جاتے ہیں ۔ ہر کسی کے سینے پہ زخمی دل کا تمغہ ، عشق کی شہادت نہیں دیتا ۔ یہ کچھ چنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں ۔ جیسے کہ میں … جیسے کہ تم۔”
عائلہ نے سراسیمگی سے ا ن کے چہرے کو دیکھا اور پھر ہکلاتے ہوئے پوچھ بیٹھی :
”کیا آپ نے بھی عش…شق۔”
”عشق؟”
”شدید عشق … بے تحاشا۔”
آبگینے نے اس کے ادھورے سوال کا خود ہی جواب دے دیا ۔
”تو کیا وہ کم ذات تھا ؟”
عائلہ نے ڈرتے ڈرتے پھر سے پوچھا ۔
”کم ذات؟ کم ذات پہچانتی ہو ؟ وہ جو ہوس کو عشق کا پیرہن پہنائے وہی ہوتے ہیں کم ذات…
اور وہ تو اتنا اعلیٰ ظرف تھا کہ میرے سائے کی بھی عزت کرتا تھا ۔ وہ کم ذات کیسے ہو سکتا تھا؟
”کیسے ؟”
عائلہ نے شرمندہ ہوتے ہوئے دوبارہ پوچھا :
”وہ میرا مطلب تھا کہ کیا وہ ہم ذات نہ تھا ؟”
اب کے آبگینے بولی تو لہجہ بیگانہ تھا :
ہم ذات ؟
کیا ایک ذات کا ہونے سے ہی بندہ ہم ذات بنتا ہے؟
ذات، رنگ ، نسل ،نام ، رتبہ ، عشق کیا جانے ؟
عشق کے لیے تو ہم ذات وہی ہے جو آپ کی رگ و پہ میں سرایت کر جائے جس کی روح اپنا وجود چھوڑ، آپ کے وجود میں آبسے۔
وہ ہم ذات بھی تھا اور ہم جان بھی۔
”وہی تو تھا سب کچھ ۔ وہی تو ہے ۔ صرف وہی تو ہے۔”
گھاس میں کچھ ٹٹولتی ،اب وہ خود ہی سے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں مخاطب تھیں ۔ عائلہ حیرانگی اور افسوس کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ا ن کی تکلیف کا اندازہ کر نے کی کوشش کر رہی تھی ۔
وہ انسان کس قدر درد سے گزرا ہو گا جس کے سامنے کوئی ذکر کر دینا ا سے ہوش و خرد کے جہاں سے بیگانہ کرنے لگے ؟
”اماں کاکی…اماں کاکی۔”
عائلہ نے اُنہیں زبردستی اپنی طرف متوجہ کیا تھا ۔
وہ اپنی وحشت زدہ نظروں سے عائلہ کو دیکھنے لگیں ۔
”کیا ستی بننے کا فیصلہ آپ کا اپنا تھا ؟”
عائلہ نے مزید ہمت کر کے اُنہیں کریدا ۔
جواباً آبگینے سید کی ہذیانی ہنسی نے ا سے خوف زدہ کر دیا ۔
”جب سزائے موت کے دو طریقے سامنے رکھے جائیں ۔ پہلی، پوری دنیا کے سامنے سولی پہ لٹکا ئے جانے کی سزا اور دوسری ، اکیلے بند کمرے کے پیچھے روز سولی پہ لٹکنے کی ، تم کون سا چنو گی؟ عزت بچا کے بند کمرے کی موت یا سر ِعام پھانسی ؟ میرے سامنے دو ہی راستے رکھے گئے۔ شادی کر کے کسی کی وفا شعار بیوی بننے کی اداکاری۔
یا پھر بند کمرے میں تمام عمر قید ِ تنہائی ۔
میں مر کے بھی منافقت کی زندگی نہ چنتی تبھی میں نے عمر قید کا انتخاب کیا ۔
بند کمرے میں قید ہوگئی ۔
اِسی بند کمرے میں تو میں نے ا سے پایا ہے ۔تمہیں پتا ہے وہ مجھ میں رہتا ہے میرے اندر رہتا ہے ۔ مجھ سے باتیں کرتا ہے ۔ میرے ساتھ ہنستاہے روتا ہے ، جاگتا سوتا ہے ۔ وہ مجھ میں دکھائی دیتا ہے۔ کیا تمہیں بھی دکھ رہا ہے وہ ، بتا ؟”
”بتا ناں۔”
وہ بچوں کی طرح عائلہ کے ہاتھ جھٹک جھٹک کے پوچھ رہی تھیں ۔ عائلہ کے پاس ا ن کے سوال کا کوئی جواب نہ تھا ۔ وہ خاموشی سے ان کا نحیف چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”سنو ! اس کی آواز سنو ۔ وہ میرے اندر ہے ۔ اس کی آواز آرہی ہے تمہیں ؟
وہ بول رہا ہے۔ ”می رقصم”ہاں!
می رقصم
سنو …
ٹوٹے پھوٹے لفظ ، وحشت زدہ چہرہ ، بکھرے بال ، سیاہ لباس۔ آج عائلہ کو ان سے خوف نہیں بلکہ ترس آرہا تھا ۔ کتنے خوبصورت انسان، زمانے ، معاشرے ، روایات اور ”لوگ کیا کہیں گے” کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔
کیا روایات اور اصول ، انسانی زندگی اور خوشی سے بڑھ کے ہیں ؟
اپنے خیالوں میں گم عائلہ چونکی ۔ آبگینے جانے کب ا ٹھ کے جا چکی تھیں ۔ عائلہ نے ا ن کی تلاش میں نظر دوڑائی ۔
سامنے سفید سنگ ِ مر مر کی روش پہ وہ کچھ گنگناتی ، گول دائروں کی صورت گھوم رہی تھیں ۔
ایسے کے ان کا ایک ہاتھ ہوا میں معلق تھا، جیسے ا نہوں نے کوئی رسی تھام رکھی ہو اور دوسرا ہاتھ پھیلا ہوا تھا ۔
عائلہ نے کوشش کی کے سن سکے وہ کیا گنگنا رہی تھیں۔
فارسی کے کچھ میٹھے گہرے لفظ اس کی سماعت تک پہنچے وہ حیران رہ گئی ۔
کیا بند کمرے میں آبگینے نے علم حاصل کیا تھا ؟
یا ادب پڑھا تھا ؟
کیسے شیخ عثمان مروندی کے یہ خوبصورت الفاظ اُنہیں ازبر تھے ؟ اسے یاد تھا اُنہیں ادب سے کبھی شغف نہ رہا تھا اور اب وہ اشعار گنگنا رہی تھیں ۔ کیا ادب کا عشق سے اتنا گہرا تعلق ہے کہ کسی بھی بے ادب عاشق کو با ادب کر دیتی ہے ؟
وہ گنگنا رہی تھیں اور گول دائروں میں گھوم رہی تھیں ۔
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
تو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم
می رقصم …
می رقصم …
می رقصم …
می رقصم کہتی ان کی آواز بلند اور گھومنا تیز ہوتا گیا ۔ اتنا تیز کے اب عائلہ کو لگنے لگا انہوں نے سچ میں کوئی ان دیکھی رسی تھام رکھی ہے جس کے سہارے وہ اتنا تیز گھوم رہی تھیں ۔
دوپٹا کب کا گر چکا تھا ۔لمبے روکھے بکھرے بال چہرہ ڈھانپ رہے تھے ۔ ان کے عین اوپر پورے چاند کی روشنی اور پیچھے چاندنی میں نہائی ویران سفید حویلی ۔ عائلہ کو یہ سب بہت پراسرار سا لگا۔
اس کی نظریں سفید سنگِ مرمر پہ تیزی سے حرکت کرتے ا ن کے پیروں پہ گئیں۔
خوف کی ایک شدید لہر ا س کے وجود میں سرایت کر گئی ۔ ا سے لگا جیسے آبگینے کے پیروں کے ساتھ دو اور بھی پیر محوِ رقص تھے ۔ خوف زدہ نگاہیں ا ن کے وجود پہ گئیں ۔ ادھر بھی آبگینے سید کے سیاہ پیراہن کے ساتھ کسی کے سفید پیراہن کی جھلک صاف دیکھی جا سکتی تھی ۔
ایک ہاتھ کی جگہ اب دو ہاتھ ا س ان دیکھی رسی کو تھامے ہوئے تھے۔
پھٹی پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھتی عائلہ ڈگمگاتے قدموں سے بہ مشکل حویلی کی طرف بھاگی۔ حواس باختہ سی مسہری پہ ڈھیر ہوتے ہوئے ، اس نے سر تا پا خود کو کمبل میں چھپا لیا ۔ تھر تھر کانپتے ، وہ جلد صبح ہونے کی دعائیں مانگنے لگی۔ وہ رات کافی بھاری گزری تھی۔
اگر ا سے ذرہ برابر بھی اندازہ ہوتا وہ ایسا منظر کبھی بھی دیکھے گی ، وہ مر جاتی مگر ا س حویلی میں کبھی یوں اکیلی نہ رہتی۔ اب بھی کل رات کے اس ہول ناک منظر کو یاد کرتے، ا س کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے ۔ عائلہ نے بے ساختہ جھرجھری لی تھی ۔
ان دوسالوں کی روداد ا س کی نظروں کے سامنے کسی فلم ہی کی طرح تو دوڑ گئی تھی ۔
ہاتھ میں وہ بے وزن غزل تھامے، ماضی کھنگالتے ، ا سے جانے کتنی دیر ہو گئی تھی کہ دوپہر کا چلچلاتا سورج الوداع کہتا ، غروب ہونے کو تیار کھڑا تھا۔
عائلہ نے کاغذ واپس کتاب میں رکھا اور مغرب کے لیے وضو کرنے چلی گئی ۔
ابھی مکمل وضو بھی نہ کیا تھا کہ اذان شروع ہو گئی ۔
”اشہد و انا لا الہ الااللہ و اشہد و انامحمد۔”
چہرے کے گرد انگلیاں مس کرتے ہوئے، اس کی زبان نے اتنا ہی کہا تھا کہ ”اللہ اکبر” کہتی آواز نے اس کے وجود کو پتھر کا بنا دیا۔ وہ حیران نگاہوں سے اپنے ہی خالی چہرے کو سامنے لگے وسیع آئینے میں تک رہی تھی ۔
”اشہد و انا لا الہ الااللہ۔”
یہ شہادت دیتی آواز بے شک ”اس”کی تھی ، اس کے دل نے بھی شہادت دی ۔
عائلہ سب چھوڑ چھاڑ اپنے کمرے سے منسلک ٹیرس کی طرف بھاگی ۔
فلاح کی دعوت اب اور بھی زیادہ قریب سے سنائی دینے لگی ۔
”حی علی الصلاح”
عائلہ کی روئی روئی تھکاوٹ سے چور آنکھیں اب کے شکرانے کے آنسو بہا رہی تھیں ۔
”حی علی الفلاح”
وہ وہیں ٹیرس میں سجدہ میں گر چکی تھی ۔
”اللہ اکبر ، اللہ اکبر”
”بے شک اللہ ہی سب سے بڑا ہے ، بے شک وہ ہی زبردست اور ہر شے پہ قابو پانے والا ہے۔”
عائلہ کے ہونٹوں نے وہیں سجدے میں ہی سرگوشی کی تھی ۔
”لا الہ الا اللہ…”
اذان مکملہوگئی اور ہر سو عالم ِ ہو چھا گیا ۔
عائلہ عجلت میں سجدے سے اٹھی اور دیوانہ وار ٹیرس سے نیچے دیکھنے لگی ۔
اسے پتا تھا کہ ا س کے ٹیرس سے صرف ان کے گھر کے پیچھے واقع غیر آباد سنسان پلاٹس ہی دکھنے تھے ۔ پھر بھی ا س نے کوشش کی کہ شاید ، اس کی ایک جھلک دکھ جائے۔
اس کی ؟
اس کی کہ جس نے صرف عائلہ کی سماعت تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے ان کے علاقے کی مسجد میں اذان دی تھی۔
اس کی کہ جس کی یاد کا چراغاں عائلہ کے گرد ہر لمحے رہتا ہے ۔
اس کی کہ جس کی آواز سے عشق پہلے اور خود اس سے بعد میں ہوا تھا ۔
اس کی، یعنی ”عبداللہ”کی ۔
عائلہ کے عبداللہ کی۔
”عبداللہ کا سفر۔” ”ماہا!”
جائے نماز پہ بیٹھی صغریٰ بیگم کی آواز پہ ، دبلی پتلی سی ماہا تقریباً بھاگتے ہوئے ، مختصر سے صحن کے بیچ رکھے تخت تک آئی تھی ۔ جہاں صغریٰ بیگم عشا کے بعد سے اب تک جائے نماز بچھائے بیٹھیں تھیں۔
فجر ہونے میں تھوڑی دیر باقی تھی ، مگر صغریٰ بیگم کی آنکھوں سے بہتے آنسو اور لبوں پہ سسکتی دعائوں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
”جی امی ۔”
بوکھلائی ہوئی، بیس سالہ ماہا نے امی کے چہرے کو فکر سے تکتے ہوئے پوچھا ۔
”کوئی خبر نہیں آئی اس کی ؟”
امی جو سینکڑوں بار اس سے یہی سوال پوچھ چکی تھیں ۔ ایک دفعہ پھر سے پوچھتی ، امید بھری نظروں سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھیں۔
”نہیں امی کوئی خبر نہیں آئی۔”
شرمندگی سے اپنی ماں کی آنکھوں میں امید کے بجھتے دیے دیکھ ماہا دوبارہ سے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
کمرے سے صحن تک کا فاصلہ بہ مشکل دس قدم تھا ۔ کمرے میں بچھی مسہری جس پہ بیٹھی وہ اپنے قریب سوئی ہوئی بارہ سالہ ثنا عرف چھوٹی کے چہرے پر پھیلے اطمینان کو رشک سے دیکھ رہی تھی ، امی کی آنسوئوں میں تر دعا بہ آسانی سن سکتی تھی۔
”یا اللہ کرم کر دے ۔ اے مولا رحم کر دے ۔ وہ میرا واحد سہارا ہے یا اللہ اسے مجھ سے نہ چھین ۔ اس گھر کا سائباں اب وہ ہے ۔ سکندر کو کھو دیا ، یا اللہ مجھ سے میرا بیٹا نہ چھیننا ۔ اس کی کوئی تو خبر لا دے مولا۔ میں بہت لاچار ہوں ۔ دو یتیم بیٹیوں کا ساتھ ہے مولا ، اس سیلاب جیسے شہر میں ا سے کہاں ڈھونڈتی پھروں خدایا ۔ اس کی حفاظت کر۔ اسے دشمن کے شر سے محفوظ رکھ خدایا ۔ میں نے آج تک تیری کسی آزمائش پہ ا ف تک نہیں کی مشکل سے مشکل وقت ثابت قدمی سے گزارا ۔ دس سال کی بیوگی کاٹی ، ہر مشکل جھیلی صرف اپنے بڑھاپہ کے اس واحد سہارے کے آسرے مجھ سے میرا شہزادہ نہ چھیننا مولا ۔ اس کی خبر لا دے۔”
فجر کی اذان ہوئے کچھ ہی دیر گزری تھی ۔ اپنی دعا میں مگن ، پریشان حال صغریٰ کو اذان کا دھیان ہی کہاں رہا تھا ۔
اچانک ا س بو سیدہ ٹیلی فون کی گونج دار آواز پہ کمرے سے ننگے پیر نکل کے بھاگتی ماہا اور سجدے میں دعا مانگتی صغریٰ بیگم نے ایک ساتھ کہا تھا ”یا اللہ رحم۔”
ہیلو کہتی ماہا ، ہانپتے ہوئے مقابل کی بات سننے کی کوشش کر رہی تھی کہ اچانک چیخ نما آواز میں بولی :
”ایکسیڈنٹ ؟”
اس کے پاس کھڑی ، پریشان حال ماں سہمی ۔ ”یا اللہ خیر۔” ماہا کے تاثرات پڑھنے کی کوشش میں ان کے ہونٹوں سے نکلا تھا ۔
”اچھا کب تک گھر آسکیں گے وہ ؟ کیا ہم ان سے ایک دفعہ بات کر سکتے ہیں ؟”
ماہا کے استفسار پر، ماں نے ریسیور کان سے لگا کے مقابل کا جواب سننا چاہا مگر نا چار ۔ ماہا اگلے ہی پل ”وہ جیسے ہی جاگیں، ان سے کہیے گا کہ امی بہت پریشان ہیں ایک دفعہ گھر بات کر لیں۔” کہتی فون رکھ چکی تھی۔
خدشوں میں ڈوبی اس کی امی اس کی طرف لپکی۔
”کون تھا ، اس کی ہی کوئی خبر تھی نا کیسا ہے وہ ؟ اور ایکسیڈنٹ ؟”
”جی امی اسپتال سے فون تھا ۔ بھائی کا معمولی ساایکسیڈنٹ ہوا ہے ۔ کچھ ہلکے پھلکے زخم آئے ہیں ۔ ابھی دوا کے زیر ِ اثر سو رہے ہیں ، جیسے ہی ا ٹھیں گے انہوں نے کہا وہ ہم سے ان کی بات کرائیں گے ۔ ا ن کا فون بند ہو گیا تھا ورنہ وہ ہمیں پہلے ہی بتا دیتے فون کر کے۔”
انہیں مطمئن کرنے کی کوشش میں ماہا زبردستی مُسکرائی بھی تھی ۔ ورنہ اس کے دل کا حال بھی امی سے جدا نہ تھا ۔
”یا اللہ تیرا شکر ہے ، یا مولا تیرا کرم ہے ۔ میرے بیٹے کی خبر آگئی ۔ بے شک تو سننے والا ہے بے شک تو نے مجھ گناہگار کی سن لی ہے ۔ میں تیرا کیسے شکر ادا کروں میرے مولا۔”نم آنکھوں سے۔
پھر ماہا کو دیکھتے ہوئے بولیں:
”چلو جلدی ورنہ فجر قضا ہو جائے گی اور شکرانے کے نفل بھی تو ادا کرنے ہیں۔”
اگلے ہی پل دونوں ماں بیٹی ، باہر تخت پہ نماز فجر ادا کر رہی تھیں اور جو ماں ساری رات اس کی خیریت کی دعا کرتے نہ تھکی تھی ۔ دوپہر ہونے تک شکرانے کے نفل ادا کرنے کا ارادہ کر چکی تھی ۔
ایسی ہی ہوتی ہیں اکلوتے بیٹوں کی مائیں جس طرح بیٹیاں ، باپ کی چہیتی اور آنکھوں کا تارا ہوتی ہیں بالکل ویسے بیٹے مائوں کے لاڈلے اور کل کائنات ہوتے ہیں اور پھر جن مائوں کے بیٹے اکلوتے اور ان کے گھر کا واحد سائباں ہوتے ہیں ، ان کی تو جان ہوتی ہے بیٹوں میں ۔
عبداللہ بھی صغریٰ بیگم کی جان اوردونوں چھوٹی بہنوں کی کل کائنات تھا۔
٭…٭…٭
فجرکی اذان ہونے والی تھی ۔ سمندر کے نزدیک اور شہر کی رونقوں سے تھوڑا دور واقع، ا س چھوٹی سی جھونپڑی میں ، شاہ آغا فجر کے لیے اُٹھے تھے ۔ پیلا بلب جلاتے ہی وہ ننھی سی جھونپڑی ، زرد روشنی میں نہا گئی۔ ایک چارپائی ، ایک صندوق، زمین پر بچھی بوسیدہ سی چٹائی اور پانی کا ایک مٹکا۔ اتنے تھوڑے سے سامان کے باوجود ا س جھونپڑی کا مکین بہت امیر تھا۔
خدا کے قرب کی امارت جو ہر قسم کی امیری ، نام و رتبے اور شہرت سے بڑھ کر ہے۔ اُنہیں وہ حاصل تھی ۔بھلا جسے اللہ مل جائے ا سے اور کسی چیز کی چاہ رہتی ہ ہے ؟
شاہ آغا نے مسجد جانے کی تیاری کی ۔ قریب ہی واقع عالی شان سی مسجد تک پہنچنے میں روز تقریباً پندرہ منٹ تو لگ ہی جاتے تھے ، تبھی وہ فجر سے پہلے ہی مسجد کی طرف قدم بڑھا دیا کرتے تھے ۔اذان رستے میں ہو جایا کرتی اور شاہ آغا جب تک پہنچتے جماعت تیار ہو تی ۔
اپنی ننھی سی جھونپڑی کا ٹوٹا پھوٹا لکڑی کا دروازہ ، جبراً بند کرتے ، زنجیر چڑھاتے ، وہ مسجد کی طرف چل دیے۔ ان کی چھوٹی سی کٹیا سے کچھ ہی دور شہر کا ایلیٹ علاقہ شروع ہو جاتا ۔ جہاں سے سمندر کی طرف انتہائی تیز روشنیوں والے قمقمے نسب تھے جن کی بدولت دور دور تک سمندر اور ساحلِ سمندر دیکھا جا سکتا تھا ۔
شاہ آغا نے بھی یونہی چلتے چلتے ، اچٹتی سی نظر سمندر پہ ڈالی ہی تھی کہ اُنہیں سمندر کے قریب کسی انسانی جسم کا ہیولا سا ، پڑا دکھا ئی دیا ۔
”یا اللہ خیر۔” کہتے ، وہ تیزی سے سمندر کی جانب بڑھ گئے ۔ ضعیف قدم کسی کی مدد کے خیال سے تیز تر ہو گئے ۔
اس علاقے میں رہتے ہوئے اُنہیں کوئی پینتیس سال ہوچکے تھے ۔ اس ساحل اور شاہ آغا کی آنکھوں نے بہت سے ہولناک منظر دیکھے تھے ۔ جواں سال خودکشیاں ، اغوا کے بعد قتل کر کے ساحل سمندر پہ لاش پھینکے جانے والے حادثات ، لاوارث گلی سڑی لاشیں، جنہیں سمندر دور دراز علاقوں سے بہا لے آتا تھا اور پھر جن کی کوئی شناخت نہ ہو پاتی تھی۔ غرض جتنی لکیر یں ان کی آنکھوں کے گرد تھیں ، اتنے ہی فسانے اور راز ان کی آنکھوں میں پوشیدہ تھے۔
کسی ان ہونی کا خوف ان کے دل کی دھڑکن بڑھائے جا رہا تھا۔ نزدیک پہنچنے پہ انہیں اندازہ ہوا کہ وہ کوئی ابنِ آدم تھا ۔ تقریباً ہانپتے ہوئے وہ اس کے قریب پہنچے۔
وہ کوئی نوجوان تھا جس کی ہلکی آسمانی شرٹ پہ جا بجا خون کے دھبے تھے ۔
سمندر کی لہریں اس کے پیروں تک آتیں اور پھر سے لوٹ جاتیں ۔اوندھا پڑا ہونے کی وجہ سے ، شاہ آغا کے لیے اندازہ لگا نا مشکل تھا کہ مقابل میں زندگی باقی بھی تھی کہ نہیں ۔
کپکپاتے ہاتھوں سے بہ مشکل انہوں نے اس کا چہرہ ایک طرف کیا تھا ۔
وہ ایک اچھا خاصا خوش شکل نوجوان تھا۔ شاہ آغا نے دل ہی دل میں اپنے خدشات غلط ہونے کی دعا کی تھی ۔ اپنی انگلیاں اس کی ٹھنڈی ناک پہ رکھتے ہوئے ، انہوں نے محسوس کیا کہ ابھی اس کی سانسیں جاری تھیں ۔ انہوں نے نبض دیکھی ۔ وہ بھی سست روی سے چل رہی تھی۔
شاہ آغا نے اِدھر اُدھر مدد کے غرض سے کسی ذی روح کو تلاشا کہ ا س چھے فٹ سے نکلتے ہوئے، اچھی قامت والے نوجوان کو اٹھا کے روڈ تک لے جاسکیں کیوں کہ یہ اکیلے ا ن کے بس کی بات نہ تھی۔
سامنے ہی انہیں، قریب واقعہ کیفے اور ریستوران کے گارڈز، ٹولی کی شکل میں مسجد کی طرف جاتے دکھائی دیے ۔ شاہ آغا نے اپنے وجود میں موجود ساری طاقت جمع کرتے ہوئے اُنہیں مدد کے لیے پکارا ۔
فجرکاوقت ہونے کے باعث شور شرابا نہ تھا تبھی ان پانچ گارڈز کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں شاہ آغا کو زیادہ دقت نہ ہوئی ۔ وہ تیزی سے ا ن ہی کی جانب آرہے تھے ۔
شاہ آغا نے اس کی شناخت کے غرض سے ا س کے جیبوں کو ٹٹولا ، تو ان کے ہاتھ میں موبائل آگیا جو سمندر کے پانی میں بھیگنے سے بندہو چکا تھا۔
انہوں نے دوسری جیب میں ہاتھ ڈالا، تو ا س کا بٹوہ ہاتھ آیا۔ انہوں نے عجلت میں شناختی کارڈ نکالا ۔
یہی خوش شکل ، مُسکراتا چہرہ ، کارڈ پہ جگمگا رہا تھا ۔
نام…عبداللہ سکندر۔
وہ اتنا ہی دیکھ پائے تھے کہ گارڈز مدد کو آپہنچے ۔ ان کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے ، انہوں نے اس کا بٹوہ اور فون اپنی جیب میں رکھ لیا۔
تیز روشنی نے اس کی ادھ کھلی آنکھوں کو چندھیا دیا تھا ۔
درد کی ٹیسیں تھیں کہ اس کے جسم کو کاٹ رہی تھیں ۔
خالی خالی آنکھوں سے چھت کو گھورتا ، وہ کافی دیر یونہی لیٹا رہا ۔
آخر کہاں ہوں میں ؟
اوریہاں کیسے آیا ؟
اس کے ذہن میں سوالات ابھرتے ہی ، ا س نے اپنے ارد گرد نظر دوڑائی ۔
وہ یقینا کسی اسپتال کے وارڈ میں تھا۔ اس کے بستر کے گرد پردہ آویزاں تھا ۔
بستر کے قریب ہی ایک شفقت سے بھرپور ، سفید با ریش ، گلابی ر نگت والے بزرگ ، تسبیح کے دانوں پہ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہے تھے ۔
وہ اس کے چہرے پہ نظر پڑتے ہی مُسکرائے تھے ۔
عبداللہ اُنہیں اجنبی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔
وہ ان بزرگ سے پوچھنا چاہتا تھا کہ میں ادھر کیسے پہنچا ۔
ان کو بتانا چاہتا تھا کہ ا سے تکلیف ہے ۔ ا سے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی کسی تیز دھار آلے سے اس کے بدن کے ٹکڑے کر رہا ہو۔
بابا نے اپنی تسبیح مکمل کرتے ہوئے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے، اس کے بالوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کے چہرے پہ پھونکا تھا۔
پھر مُسکراتے ہوئے اس سے مخا طب ہوئے :
”اب کیسے ہو بیٹے ؟ کیسا محسوس کر رہے ہو ؟”
عبداللہ نے جواب دینے کی کوشش کی، لیکن پیاسے خشک ہونٹ ہلنے سے قاصر تھے ۔ اس نے اپنی تمام تر ہمت مجتمع کرتے ہوئے کہا :
”پانی۔” شاہ آغا نے قریب ہی رکھا پانی کا گلاس اٹھا کہ ا سے سہارا دیتے ہوئے اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔
چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیتا عبداللہ پانی پی چکا تو بہ مشکل کہہ پایا :
”مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے بابا۔”
شاہ آغا ایک دم شرمندہ سے ہوئے تھے ۔
”مجھے معاف کرنا بچے ! مجھے ڈاکٹر صاحب نے بتایا بھی تھا کہ تمہیں ہوش آئے تو اُنہیں مطلع کردوں ۔ کیوں کہ تمہیں درد کی کوئی دوا نہیں دی گئی تا کہ یہی درد تمہیں ہوش میں لا سکے۔ بس ابھی بلاتا ہوں اُنہیں۔”
دھیرے سے اس کے چہرے کو چھوتے ہوئے وہ پردہ ہٹا کہ چلے گئے۔
عبداللہ پھر سے چھت کو گھورنے لگا ۔ اس کے ساتھ ایسا کیا ہوا تھا کہ وہ یہاں اس طرح سے پڑا ہے؟
تجسس نے چٹکی کاٹی تو وہ اپنا جائزہ لینے لگا ۔
دایاں بازو پلاستر کی موٹی تہ کے اندر چھپا ہوا تھا ۔ بائیں بازو کی مرہم پٹی کی گئی تھی اور ایک ڈرپ ا س سے منسلک تھا ۔
سر پٹی کی کئی تہوں کے باوجود درد سے پھٹا جا رہا تھا ۔
دونوں ٹا نگیں جگہ جگہ سے پٹیوں میں جکڑی سن سی محسوس ہوتیں تھیں ۔
ان سب کے علاوہ ، اس کا جوڑ جوڑ د کھ رہا تھا۔
دو کرخت و بے رحم چہرے اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئے ۔ ا سے سب یاد آگیا تھا ۔
عائلہ سید کی دو الوداع کہتی ، مایوس آنکھیں ۔
اپنا درد سے بلبلانا ۔
ان مکروہ چہروں سے رحم کی التجا کرنا ۔
اور پھر ان کا بے رحمی سے اسے زدوکوب کرنا اور سمندر کنارے پھینک جانا۔
وہ بڑی مشکل سے ا ٹھ کے بیٹھا تھا ۔
آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا یا تھا ، مگر ا سے اپنی پروا کہاں تھی ۔
وہ تو کچھ بھی کر کے کسی طرح بھی عائلہ تک پہنچنا چاہتا تھا ۔ اس کی خیریت معلوم کر نا چاہتا تھا ۔
گھومتے سر کو ایک ہاتھ سے دباتا، وہ درد کی شدت سے آنکھیں میچ گیا ۔
کچھ چکر آنا کم ہوئے تو ا س نے اپنے ہاتھ کو جھٹک کے ڈرپ کی سوئی نکالی۔ خون کی پتلی سی لکیر تیزی سے اس کے ہاتھ سے بہنے لگی ۔ اپنی ہمت مجتمع کرتے ہوئے ، ا س نے اپنے پیروں کو ہلایا ۔
دردنے سسکی کی مانند ا س کے ہونٹوں کو چھوا۔
مگرایک بار پھر عائلہ کے ریت پہ گھسٹتے وجود کی تلخ یاد ، اس کے ٹوٹتے ارادے مضبوط کر گئی۔
پہلا پیر زمین پہ رکھتے ا سے لگا جیسے اس کے پیروں تلے زمین نہیں ۔ ڈانواں ڈول سا ، ا س نے دوسرا پائوں بھی زمین پہ رکھا۔ کچھ دیر وہیں بیٹھے ، خود ہی اپنی ہمت بندھانے کے بعد ، ا س نے اپنے قدموں پہ کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ اپنے واحد تندرست ہاتھ سے بستر کا سہارا لیتے، وہ کھڑا ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ تھر تھر کانپتے پیرا سے قدم ا ٹھانے سے روک رہے تھے اور فکرِ جاناں تھا کہ چلنے پہ مجبور کر رہا تھا ۔
اپنا پورا زور لگاتے ہوئے اس نے کانپتے وجود کے ساتھ پہلا قدم اٹھایا ہی تھا کہ ڈاکٹر سمیت شاہ آغا واپس آچکے تھے اور اب شدید حیرت کے عالم میں ا سے اپنے سامنے کھڑا دیکھ رہے تھے ۔
ڈاکٹر تیزی سے عبداللہ کی جانب بڑھا:
”یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟”
عبداللہ نے پلاسٹر شدہ ہاتھ سے اپنے نزدیک آتے ڈاکٹر کو پیچھے دھکیلا ۔
ڈاکٹر جو اس اچانک افتاد کے لیے تیار نہ تھا ، لڑکھڑایا ۔ پھر جب تک سنبھلا ، عبداللہ بستر کا سہارا چھوڑ تیزی سے قدم بڑھانے کی کوشش میں، بری طرح زمین بوس ہو چکا تھا ۔ شاہ آغا، ڈاکٹر اور نرس اس کی جانب لپکے۔
عبداللہ جانا چاہتا تھا اور وہ کوشش بھی کر رہا تھا۔
مگر ڈاکٹر اور شاہ آغا مسلسل ا سے قابو میں کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ ا ن کے ہاتھ جھٹکتا عبداللہ لگاتار جانے کی ضد کر رہا تھا ۔
”وہ اسے مار دیں گے ۔”
”آپ لوگ سمجھتے کیوں نہیں ؟”
”جانے دیں مجھے ، میں نے اس کی بے گناہی کی گواہی دینی ہے ۔”
”میری عائلہ پتا نہیں کیسی ہو گی۔”
درد ، وحشت ، فکر ۔ عبداللہ سکندر کے لہجے میں چیخ چیخ کر بولتے یہ تینوں عنصر ، عشق کی نشاندہی کر رہے تھے ۔ وہ کیا خوب کہتے ہیں ، عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا ۔
شاہ آغا کی سمجھ میں بھی ساری بات آنے لگی تھی ۔ وحشت سے چیختے ، ا س شاندار نوجوان کو گہری نظروں سے تکتے ، وہ پیچھے ہٹ گئے ۔
عبداللہ جو پہلے ہی قابو میں نہیں آ رہا تھا اب تو ا سے کنٹرول کرنا ڈاکٹر کو نا ممکن سا لگا۔
”نرس ! انجکشن تیار کرو ۔ جلدی۔”
نرس کو ہدایات دیتا ڈاکٹر بہ مشکل عبداللہ کو قابو کیے ہوئے تھا جس کی برداشت اب آخری حد کو چھو رہی تھی اور وہ زور زور سے چلانے لگا۔
اس کا سارا وجود وحشت میں ڈوبا ہوا تھا۔ اپنے درد کا احساس ا سے جیسے تھا ہی نہیں ۔ کئی زخموں کے ٹانکے ادھڑ چکے اور ا ن سے خون ر س رہا تھا اور وہ تھا کہ جانے کی ر ٹ لگائے ، بے دردی سے اپنا سر پیچھے فرش پہ پٹخ رہا تھا۔
نرس نے عجلت میں ڈاکٹر کو سرنج تھماتے ہوئے ، مضبوطی سے عبداللہ کے بازو کو پکڑا۔
انجکشن لگتے ہی اس کی مزاحمت مدھم پڑتے پڑتے ، ختم ہوئی تھی۔
شاہ آغا نے سراسیمہ نظروں سے بے ہوش عبداللہ کو دیکھا۔
اب کیا کہہ کے اس کی ماں کو تسلی دلائیں گے وہ ۔ یہ خیال انہیں پریشان کیے جا رہا تھا۔
وہ تو ماں تھیں ، اُنہیں کیسے یقین دلائے کوئی ۔
جب سے شاہ آغا نے اس کی سِم دوسرے فون میں ڈال کے اُنہیں مطلع کیا تھا اور بات کرانے کا وعدہ کیا تھا ۔ تب سے اب تک ان کی بے حساب کالز آچکیں تھیں۔
اُنہیں بارہا اس کی خیریت کی یقین دہانی کرانے کے باوجود، وہ صرف ایک دفعہ عبداللہ کی آواز سننے پہ بضد تھیں ۔
ماں کا وجود تو ا س دن ہی وہم و وسوسوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے جب اس کی کوکھ میں پنپتی اولاد پہلی دفعہ اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے ۔ پھر دنیا کچھ بھی کہے ، چاہے کچھ بھی ہو جائے ، پر اگر ماں کا دل مطمئن نہیں ا سے چین نہیں آئے گا ۔
شاہ آغا ا نہی کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ دوبارہ سے فون بجا اور اسکرین پہ جلی حروف میں لفظ ”امی”جگمگانے لگا ۔
آج صبح سے صغریٰ بیگم تخت پہ بیٹھیں، بیرونی دروازے پر نظریں جمائے ہوئے تھیں ۔
بیٹے کے آنے کی خبر نے تو جیسے ا ن کے وجود میں خوشی کی لہر دوڑا دی تھی ۔ چلچلاتی دھوپ بھی اُنہیں ، رحمت کی پھوار کے مصداق لگ رہی تھی ۔
عبداللہ ایک ہفتے اسپتال میں رہ کے آج گھر واپس آ رہا تھا ۔ اِ س دوران، ماہا اور ثنا ا س سے ملنے بھی گئیں تھیں ، مگر وہاں ر ک نہیں سکتی تھیں ۔
دو جوان بیٹیوں کے ساتھ اکیلے تو صغریٰ بیگم کو گھر پہ نیند نہیں آتی تھی کہاں اُنہیں اکیلا گھر پہ چھوڑکے اسپتال جاتیں۔
”ماہا !ماہا …”
ماں کے پکارنے پہ ، کچن میں کھانا بناتی ماہا نے وہیں سے صدا لگائی ۔
”جی امی۔”
”بریانی کو دم لگ گیا ؟ بھائی آتا ہوگا۔”
ان کے سوال پہ ماہا کی مُسکراہٹ بے ساختہ تھی ۔
”کب کا لگا دیا تھا امی ، آپ کہیں تو پلیٹ میں نکال کر دروازے پہ کھڑی ہوجائوں ؟”
بیٹی کی شرارت سمجھتے ہوئے بھی ، انہوں نے معصوم بنتے جواب دیا ۔
”نہیں رہنے دو ۔ وہ آئے تو میں اپنے ہاتھوں سے کھلائوں گی ۔”
اب کے ماہا کی کھلکھلاہٹ ا ن کی سماعت سے مخفی نہ رہ سکی ۔
وہ مطمئن سی دوبارہ دروازے کی جانب دیکھنے لگیں کہ اچانک ہوتی دستک نے اُنہیں چونکایا۔
بے ساختہ خوشی سے نہال ہوتیں ، وہ ننگے پیر بیرونی دروازے کی اور دوڑیں۔
دروازے کی اوٹ سے بیٹے کا کمزور ، زردی میں ڈوبا چہرہ دیکھ ، ان کی آنکھیں ٹمٹمائی تھیں۔
بیٹے کو گلے سے لگاتے ، اس کے پٹیوں میں جکڑے نحیف وجود کو سہارا دیتے اندر کمرے تک لے آئیں۔ ا ن کے پیچھے ہی ٹیکسی و الے کو کرایہ دیتے شاہ آغا بھی اندر آ گئے تھے ۔