کتنا خوش قسمت تھاوہ گول مٹول سادہ سا پٹھان لڑکا، عبداللہ کا چہیتا۔ ا س کا معصوم چہرہ جس پہ عبداللہ نظریں ڈالتا تھا، ا س کی آواز جسے عبداللہ سنتا تھا، ا س کے ہاتھ جو عبداللہ کے ہاتھوں کو مصافحہ کے لیے چھوتے تھے، سب کتنے قیمتی تھے۔
اسے دور کافی کائونٹر سے کپ اٹھاتا عمران خان سونے کا بنتا دکھائی دیا، وہ سونے کا ہی تو تھا۔ عبداللہ، پارس تھا جسے چھو لے سونا کر دے۔
”السلام علیکم باجی۔”
عمران خان کے سلام کرنے پہ وہ بری طرح چونکی تھی۔ عمران خان ہمیشہ کی طرح ا س کی مخصوص کافی اور ذاکرہ کی چائے ، سینڈوچز ، ِبنا آرڈر کیے ہی لے آیا تھا۔ عائلہ کو تھوڑی دیر ہی لگی تھی حواس بحال کرنے میں:
”وعلیکم السلام! کیسے ہو عمران خان، بہت شکریہ کافی کے لیے۔”
عمران خان سے کافی لے کے رکھتی ذاکرہ کے لیے یہ نرم لہجہ نیا نہ تھا۔ اس کی گودی ہر دفعہ ہی عمران خان سے اتنی ہی نرمی سے مخاطب ہوتی۔
پشتو لب ولہجے میں ا رد و بولتے عمران خان نے جوش سے جواب دیا :
”میں ٹھیک ہوں باجی ، آپ کی مہربانی۔”اور آگے بڑھ گیا۔
عائلہ، عمران خان کی پیٹھ پہ نظریں جمائے اپنے دل میں ہی عبداللہ سے مخاطب ہوئی تھی:
”تم جس سے ہنس کر ملتے ہو میں اس کو دوست بناتی ہوں،میں ایسی محبت کرتی ہوں، تم کیسی محبت کرتے ہو ؟”
محبت…
وہ ٹھٹکی۔
اور عبداللہ کو ؟
کیا وہ بھی مجھ سے؟
تلخ طنزیہ مُسکراہٹ نے ا س کے لبوں کو چھوا۔
ذاکرہ نے حیرانگی سے ا س کے بدلتے تاثرات دیکھے۔
خود کو حیرت سے تکتی ذاکرہ کو دیکھ کے وہ سنبھلی، پر محبت سنبھلنے کہاں دیتی ہے؟
ا س کی کوشش ناکام ہو چکی تھی ۔ کیفے میں داخل ہوتا عبداللہ ،ہلکی نیلی شرٹ میں سنہرے دمکتے چہرے پہ دھوپ جیسی مُسکراہٹ سجائے، سورج ہی تو لگ رہا تھا۔
عائلہ کا ہونٹوں کی طرف کافی کا کپ لے جاتا ہاتھ ہلکا سا کانپا۔ کافی ہلکی سی چھلکی تھی شاید، ذاکرہ نے ا سے کچھ کہا تھا۔ پر اسے ہوش کہاں رہا تھا ۔ ا سے اپنا دل اپنے کانوں میں دھڑکتا محسوس ہوا وہ بھی صرف تب تک جب تک عبداللہ سکندر کی آواز ا س کیفے میں نہ گونجی تھی۔
اس کی آواز ،ہیملن کے پائیڈ پائپر کی انوکھی دھن تھی اور عائلہ ہیملن کے بچوں کی طرح تھی ، جنہیں پائیڈ پائپر کی دھن نے ہیپناٹائز کر کے ہمیشہ کے لیے ا ن کے والدین سے دور کر دیا تھا ۔ عبداللہ کی آواز بھی جب گونجتی تو انسان کا خرِ د سے تعلق کہاں رہنے دیتی۔
اس چھے ماہ کے عرصے میں اتنا ضرور ہوا تھا کہ بے ادب عائلہ کو ادب سے شغف ہو گیا تھا۔ اب اکثر وہ عبداللہ کی تجویز کردہ کتابوں کے علاوہ بھی اردو ادب پڑھنے لگی تھی۔ ا سے اندازہ نہ تھا کہ اردو زبان میں بڑے بڑے ماسٹر پیس موجود تھے۔ شہاب نامہ سے لے کر راجہ گدھ ، عشق کا عین سے لے کر پیر ِ کامل ، پیار کا پہلا شہر سے لے کر سفید گلاب، مصحف سے لے کر ہم جان، خدا اور محبت سے لے کر ایک محبت اور سہی، ا س نے اردو کے کئی شاہکار پڑھے۔ ادب کے بے تاج بادشاہوں کو پڑھا ۔ ا س بے ادب لڑکی کو عبداللہ کے ادب سے عشق ہو گیا تھا اور ادب نے ا س کے بند ذہن کے کئی در وا کیے تھے جس کا سہرا عبداللہ کے سر ہی جاتا تھا۔ آج عبداللہ کس کتاب کو موضوع بنائے گا۔ عائلہ سید تجسس میں ٹکٹکی باندھے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
عبداللہ تعارفی کلمات بول چکا، تو اپنے ہاتھ میں پکڑی کتاب کھول کے ا س میں سے اپنے پسندیدہ اقتباس پڑھنے لگا۔ کیفے پہ پراسرار سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اتنی خاموشی کے کیفے کی دیوار پہ ٹنگی ا س بڑی سی کالی گھڑی کی ٹک ٹک کسی چرچ کے بڑے سے گھنٹے کی ڈنگ ڈنگ کے موافق لگ رہی تھی۔ عبداللہ بولنے لگا تو عائلہ کو اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ یہ ا س کے پسندیدہ ترین ادیب کے صدارتی انعام یافتہ ناول کے اختتام کے خوبصورت ترین جملے تھے۔
عائلہ نے یہ حسین اختتام جانے کتنی دفعہ پڑھا تھا کہ ا سے ایک ایک لفظ ازبر تھا۔ عبداللہ جو بول رہا تھا ا سے یاد تھا جو بولنے والا تھا ا سے پتا تھا۔ عائلہ کے لب عبداللہ کے لبوں کی جنبش کے ساتھ ہل رہے تھے۔ اپنے ہاتھ میں پکڑی ہاشم ندیم خان کی عبداللہ” کھولے۔
عبداللہ بولا : ”دور سمندر کے اس پار ا فق پر سورج ڈ وب رہا تھا ۔ میں نے قدم بڑھا دیے اورزہرا میرے پیچھے چل پڑی۔” میرے نقش ِ پا پراپنے نازک قدم دھرتی۔ پہلی مرتبہ عبداللہ اور زہرا کو ایک ساتھ اس ڈگر پر چلتے دیکھ کر لہریں مُسکرائیں اور ڈوبتے سورج نے کہا ”نئی مسافتیں… نئے سفر اور نیا ہم سفر مبارک ہو دوست۔ آنے والی سحر کے ساتھ اک نئے آسمان کا سلام اور اس ڈھلتی شام کی جانب سے تمہیں الوداع… الوداع عبداللہ… الوداع ۔”
وہ بول رہا تھا یا صور پھونک رہا تھا عائلہ کو اپنی سماعت پہ یقین نہیں آ رہا تھا۔ ا س نے یہ ناول اِس کے نام ”عبداللہ”کی وجہ سے ہی پڑھا تھا پر ا سے اندازہ نہ تھا کہ یہ کتاب ا س کی پسندیدہ ترین کتاب بن جائے گی۔ ا س نے یہ کتاب لگا تار کئی مرتبہ پڑھی تھی اور آج عبداللہ سکندر ا س سے اقتباس پڑھ کے عائلہ کو دیوانہ ہی تو کر گیا تھا۔
عائلہ دم سادھے ا سے دیکھ رہی تھی کہ تالیوں کے شور نے اس کے خیالوں کے تسلسل کو توڑا۔
عبداللہ داد سمیٹتا ، لوگوں کے جھرمٹ میں سورج کی طرح چمک رہا تھا۔ ہجوم کچھ کم ہوا ، تو وہ اپنی مخصوص ٹیبل پہ جا کے بیٹھ گیا۔ عمران خان جلدی جلدی ا س کی مخصوص کافی لایا۔ شکریہ کہتے ہوئے عبداللہ مُسکرایا۔
عائلہ کا دل زور سے دھڑکا، ایسی مُسکراہٹ کیا کسی اور کی ہو سکتی ہے ؟
اس کے دل نے نفی میں سر ہلایا۔
کچھ تو خاص تھا اس میں جو عائلہ کو مقناطیس کی طرح اپنی اور کھینچتا تھا ۔ عائلہ کی نظریں اب بھی عبداللہ کے گرد طواف کر رہی تھیں اور عبداللہ کی نظریں تھیں کہ ا س پر اُ ٹھتیں ہی نہ تھیں۔ عائلہ ا س کی نظر کی بھیک مانگ مانگ کے تھکنے لگی تھی۔ دل تھا کہ مسلسل بغاوت پہ مائل تھا اور دماغ ا سے ا س کا مقام، روایات اور اقدار یاد کرا کے روک رہا تھا۔
ذاکرہ کو یکسر فراموش کیے ا س کی نگاہیں اب بھی عبداللہ کے گرد کسی دھمال کرتی حسینہ کی طرح ، بال کھولے ، گول دائروں کی صورت گھوم رہی تھیں۔
ذاکرہ نے ڈرتے ڈرتے اپنی گودی کی نظروں میں دیکھا۔ ہیزل آنکھیں لال ڈوروں میں پگھلتیں نظر آئیں ۔ ذاکرہ کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس ہوئی۔ عائلہ کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ ضد اور بغاوت کی جیت ہو چکی تھی۔ دماغ ، اقدار اور روایات کی تو محبت میں ہمیشہ سے ہار ہوئی ہے، یہ پہلی دفعہ تو نہیں ۔ پر ایک سید زادی کی بغاوت ،ا ن کی آنے والی سات پشتوں تک کو ہلا دیتی ہے۔ اِس سے پہلے کہ ذاکرہ ہمت باندھتی کچھ کہنے کو ، عائلہ ایک جھٹکے سے ا ٹھی اور بنا پیچھے دیکھے ، عبداللہ کی ٹیبل پہ اس کی سامنے والی کرسی پہ جا بیٹھی۔
ذاکرہ کو اپنی سانسیں ر کتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔
عائلہ سید کی ضدی نظریں اب بھی عبداللہ پہ مرکوز تھیں، پرعبداللہ نے کتاب سے آنکھیں نہ ہٹائیں۔
عائلہ تھوڑا سا کھنکاری۔
دو کالی چمکدار ذہین آنکھیں اس پہ اٹھی تھیں ۔
اُف !اِ سی ایک نظر کی چاہ نے تو عائلہ کو باغی کر دیا تھا۔
نظریں تھیں کہ کسی جادوگر کا سحر، عائلہ سب بھول بیٹھی۔ عبداللہ سکندر کی آنکھوں میں سوال ابھرا، عائلہ نے نظریں جھکائیں ۔ گلے میں پھنسے لفظوں اور اتھل پتھل سانسوں کو قابو میں کیا پھر بہ مشکل عبداللہ سے پوچھا : ” وہ میں پوچھنا چاہ رہی تھی کہ … آپ نے اس کتاب کا ہی انتخاب کیوں کیا اور اس کتاب کی ان ہی سطروں کو کیوں چنا ؟”
عبداللہ کی شرارت بھری نظروں سے نظریں چراتے ہوئے ، اپنی بات مختصر کی اور اپنے کانپتے ہاتھوں کو اپنی گود میں رکھتی عائلہ کی ضد اور بغاوت ہوا ہو چکی تھی۔ وہ ا س لمحے کو کوس رہی تھی جب ا س نے عبداللہ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسے ذاکرہ کا خیال آیا جس کی طرف نہ دیکھتے ہوئے بھی ،اس کی کیا حالت ہوگی عائلہ کو اچھے سے اندازہ تھا ۔
یا اللہ! یہ میں نے کیا کر دیا ۔ خشک گلے کو تر کرنے کی کوشش میں وہ کئی دفعہ تھوک نگل چکی تھی۔ اپنی گود میں رکھے ہاتھوں پہ نظریں جمائے جانے ا سے کتنی دیر ہو گئی۔ پر عبداللہ کچھ نہ بولا ۔ ا س نے جھنجھلا کے نظریں ا ٹھائیں ۔
انہماک سے گھبرائی ہوئی عائلہ کو دیکھتا عبداللہ ہڑ بڑایا تھا۔ پھر خود پہ قابوپاتے ہوئے ، اگلے ہی لمحے کتاب پہ اپنے ہاتھ جماتا ، اعتماد سے عائلہ کے سوال کا جواب دیا :
”یہ کتاب اس لیے چنی کیوں کہ یہ میری پسندیدہ ترین کتاب ہے بلکہ وہ پہلی کتاب ہے جس نے مجھ جیسے بے ادب کو با ادب بنا دیا۔ میں یہ سوچتا ہوں بلکہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ ناول ”عبداللہ”کو پڑھنے والا خود کو کبھی عشق کرنے سے نہیں روک سکتا خواہ وہ عشق ِ مجازی ہو یا عشقِ حقیقی اور میں چاہتا ہوں آج کل کے اس مشینی دور میں بھی لوگ عشق کریں ۔ سچا عشق، لازوال عشق۔”
و ہ خاموش ہو ا تو اپنی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ جمائے کسی سنگ ِ مر مر کے مجسمے کے مانند ہمہ تن گوش عائلہ نے حرکت کی تھی۔ اب کہ اپنی شہادت کی انگلی میں ہیرے کی انگوٹھی کو گھماتے ہوئے وہ بولی :
”میں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ بالخصوص یہی سطریں کیوں ؟”
اس کا صاف لب و لہجہ عبداللہ کو متاثر کیے بنا نہ رہ سکا۔ چار سے پانچ مقامی زبانیں بولنے والی لڑکی کی اردو حیرت انگیز طور پر نہایت صاف تھی۔
اس سے پہلے کہ وہ اس بارے میں مزید سوچتا نظریں جھکائے بیٹھی عائلہ نے ہلکا سا کھنکار کے اُسے اپنے سوال کی طرف متوجہ کیا ۔
عبداللہ بولا :
”ان سطروں کا انتخاب میں نے دو وجوہات کی بنیاد پہ کیا ہے ۔ پہلی، کیوں کہ اس سے خوب صورت اور مکمل اختتام میں نے آج تک کسی کتاب کا نہیں پڑھا۔ مجھے ان سطروں سے محبت ہے ، مجھے عبد اللہ کی کہانی سے محبت ہے اور مجھے سمندر پہ کیے گئے اس حسین سے اقرار سے محبت ہے۔”
وہ ایک ثانیے کو ر کا۔ عائلہ سید کی جھکی لمبی پلکیں اٹھیں۔
یہی پل تھا جب دو کالی ذہین آنکھوں میں اس کی دو چمکتی حیران بھوری آنکھوں کا عکس ہمیشہ کے لیے ٹھہر گیا۔
عبداللہ سکندر نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہا:
”اور دوسری وجہ زہرا ہے اس کتاب کی زہرا ۔ عبداللہ کی زہرا ۔ عشق ہے مجھے ا س سے ۔ جب بھی اختتام پہ عبداللہ اور زہرا کی لازوال محبت کے وصل کو پڑھتا ہوں، تو لگتا ہے ایسے ہی ایک دن میری زہرا بھی سمندر کنارے ، ڈوبتے سورج کے وقت مجھ سے آ ملے گی یا…”
لہجہ مزید گہرا اور نظریں مزید اس پہ گڑ ی تھیں۔
”یا…شاید مل ہی گئی ہے۔”
عائلہ کو لگا جیسے وقت تھم گیا ، اس کی سانسیں ،اس کی دھڑکن ، اس کا دماغ ۔خیر دماغ تو کب کا تھم چکا تھا۔ محبت کی آمد اور دماغ۔
محبت کے آتے ہی سب سے پہلے عقل ہی تو ناک منہ چڑھائے جاتی نظر آتی ہے۔ عائلہ اس کے محتاط لفظوں کے پیچھے چھپے اظہار کو سمجھ رہی تھی۔
جانے کتنی دیر گزر گئی عبداللہ سکندر کی کالی آنکھیں ، عائلہ سید کی گلابی آنکھوں پہ ٹھہری ہوئی تھیں۔
بے شک وہ لفظوں کا جادوگر تھا۔ عائلہ سید اس کے لفظوں کے طلسم میں ڈوب چکی تھی۔ اس کا دل اظہار کے لیے مچلا تھا۔
دل…
ہائے دل…
عجیب دل…
عجیب کی چاہ کرنے والا دل…
اس کی صابر محبت کو باغی بنانے والا دل اب ا س کے سلے ہوئے ہونٹوں سے اظہار چاہتا تھا۔
تم سید زادی ہو ، یہ تمہیں زیب نہیں دیتا۔ دماغ جاگا تھا۔
کیاسیدزادیاں محبت میں اظہار نہیں کرتیں ؟ دل نے سر دھنا تھا۔
نہیں… سیدزادیاں تو محبت ہی نہیں کرتیں ۔ خدارا جاگ جائو عائلہ ۔ سنبھل جائو عائلہ ۔ تم سنڈریلا ہو ، یہ اظہار تمہارے بارہ بجے۔ ادھر تم اظہار کرو گی اور ا دھر بارہ بج جائیں گے اور سب ختم۔
کیاخبر ا سے تم سے محبت نہ ہو ؟ ا س کے لفظوں کے معنی عام سے ہوں ؟
پھر؟
یہ آخری بھرم بھی تمہارے پاس نہ رہا، تو؟
دماغ کی آخری دلیل پہ انا نے بھی سر ا ٹھایا تھا۔عبداللہ سکندر کی کالی آنکھوں کی تپش میں تپتی عائلہ سید نے پلکیں جھپکیں اور ایک جھٹکے سے ا ٹھ کے تیز تیز قدم ا ٹھاتی باہر کی اور بڑھ تھی۔
عبداللہ سکندر حیران وہیں بیٹھا رہ گیا۔
اس نے عائلہ کی ٹیبل کی طرف نگاہ کی تو حیران پریشان ذاکرہ کبھی اسے تو کبھی دروازے کی طرف بڑھتی عائلہ کو دیکھ رہی تھی۔
عائلہ کی کافی کا آدھا کپ ، اس کا فون ،والٹ اور ذاکرہ، اس اچانک افتاد پر حیران ٹیبل پہ ہی اس کا انتظار کر رہے تھے اور وہ کیفے سے باہر جا چکی تھی۔
دور کھڑے دیکھتے ،عمران خان نے عبداللہ کو بھی باہر جانے کا مشورہ اشاروں میں دیا ۔ عبداللہ نے پر سوچ نگاہوں سے گلاس وال کے پار نظر آتے عائلہ کے ہیولے کو دیکھا۔ ا سے ایک لمحہ لگا تھا فیصلہ کرنے میں۔ اگلے ہی پل کیفے میں موجود بہت سے لوگوں کے دلوں کی دھڑکن، عبداللہ سکندر تیزی سے ا ٹھا اور دیوانہ وار بھا گتے عائلہ سید تک پہنچا تھا۔
پارکنگ لاٹ کے سامنے، بے چینی سے چہل قدمی کرتی عائلہ کو گا ڑی کا انتظا ر تھا۔ اپنی طرف تیزی سے آتے عبداللہ کو دیکھ ا س نے ر خ موڑا ہی تھا کہ ایک جھٹکے سے ر کی اور اگلے ہی پل واپس مڑے ، حیران آنکھوں اور نیم وا لبوں سے اپنا ہا تھ عبداللہ کی مضبوط انگلیوں کے حصار میں دیکھ رہی تھی۔
گرے چادر سر سے سرک کے کاندھوں پہ جھول رہی تھی۔ برائون بال چہرے پر اڑ رہے تھے اور اس کی ناک کا ہیرا سورج کی روشنی میں دمک رہا تھا۔
جانے کون سا جذبہ تھا جو اُ س کا چہرہ گلابی ہو گیا تھا۔ حواس باختہ عائلہ نے کیفے کی طرف دیکھا۔
فق چہرہ لیے ا س کا سامان اٹھائے ذاکرہ گلاس وال سے نیچے عائلہ ہی کو دیکھ رہی تھی۔
کیفے کی سیڑھیوں پہ کھڑا عمران خان بھی ا ن ہی کو دیکھ رہا تھا۔ عائلہ کو اپنے طرف دیکھتا پا کے جانے کیوں وہ سر جھکا کے اپنا چہرہ چھپا گیا۔
عائلہ کی حیران نگاہیں پھر عبداللہ تک آئی تھیں جو آنکھوں میں محبت کے ہزاروں رنگ سجائے ، اس کے چہرے کو ہی تک رہا تھا۔
عائلہ کی سہمی نظریں اپنے ہاتھ پہ گئیں جو اب بھی عبداللہ کے سنہرے ہاتھ میں موجود ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے گندم کے خوشے پہ گلابی گلاب کا پھول کھل گیا ہو۔
عائلہ چاہتی تھی ا سے کہے ، میرا ہاتھ چھوڑو مجھے نہ چھو ، میں سید زادی ہوں ، تم نا محرم ہو ۔
عائلہ چاہتی تھی اپنی چادر سر پہ اوڑھے، ا س کے بال جو چہرے پہ بکھرے تھے انہیں چھپائے، وہاں سے دور چلی جائے، مگر عائلہ کے پاس بھی تو ویسا ہی دل تھا جیسا ہر عام لڑکی کے پاس ہوتا ہے۔ وہ بھی ہر عام لڑکی کی طرح محبت کا اظہار چاہتی تھی ، وہ بھی ہر عام لڑکی کی طرح ا س لمحے کی گہرائی میں کھو چکی تھی۔
پھر مقابل بھی تو عبداللہ تھا۔ ا س کی چھوٹی سی محبت کے جہاں کا سورج عبداللہ، جس کی ایک نظر کی بھیک وہ شب کی نمازوں میں مانگتی رہی تھی۔ وہ ا س کے سامنے تھا توکیوں نہ عائلہ کے حواس سلب ہوتے؟
عبداللہ کی نگاہیں ”می رقصم می رقصم” کا ورد کرتیں عائلہ کے گلابی چہرے پہ گھوم رہی تھیں ۔
وہ ا س کا ہاتھ ، ہاتھ میں تھامے ، گھٹنوں کے بل ا س کے قدموں میں جھکا اور وہیں گھٹنے ٹیکے بیٹھ گیا ۔
”میں عبداللہ سکندر اپنے تمام تر ہوش و حواس میں ، آج اس سمندر اور ڈوبتے سورج کو حاضر وناظر مانتے ہوئے یہ اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنا تن من دھن ، اپنی روح ، اپنا سب کچھ، عائلہ ابراہیم سید پہ پہلی نگاہ پڑتے ہی ہار بیٹھا تھا۔”
”ان چھے ماہ میں خدا گواہ ہے کہ میرا ایک بھی پل آپ کی یاد سے غافل نہیں رہاعائلہ ۔ ا س دن، ا س پہلی نظر ہیمیں، میں نے اپنے دل کو تمہارے ان خوبصورت قدموں کے ساتھ جاتا محسوس کیا تھا۔ اگر مجھے عمران خان تمہارے خاندان اور ا س کی روایات کا نہ بتاتا، تو میں کبھی اپنی محبت کو اتنے عرصے تک پتھر کی دیواروں میں نہ چنتا۔”
عائلہ نے آنکھ اٹھا کے دور کھڑے عمران خان کو دیکھا ، وہ بھی اُسے کو دیکھ کے مُسکرایا تھا۔
عائلہ کی نظر ذاکرہ پہ نہیں گئی تھی جو ہاتھ ہلا ہلا کے اس کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی تا کہ اسے بتا سکے کہ اس کے فون پہ بار بار میر صاحب کی کال آ رہی تھی۔
عائلہ کی نظر عمران خان سے ہوتے ہوئے عبداللہ پہ آ کے رکی۔ سورج کی نارنجی شعاعیں ا س کے چہرے کو یونانی دیوتائوں جیسا غرور بخش رہی تھیں ۔ وہ مزید گویا ہوا : ”عائلہ میں تمہاری اتنی عزت کرتا ہوں کہ میر ا بس چلے تو میں کسی کو منہ اٹھائے تمہارا نام تک نہ لینے دوں، کجا تمہیں دیکھنا ؟ میں نے اپنی بھی ہر ہر نگاہ کو تمہاری طرف اُٹھنے سے اسی لیے روکا تھا، ورنہ اس پہلی نظر ہی میں میں پہچان گیا تھا کے تم ہی میری زہرا ہو۔”
عائلہ کی آنکھوں میں کچھ آنسو چمکے تھے۔ چھوٹی سی ناک لال ہوئی تھی اور ہونٹوں پہ مُسکراہٹ تھی۔ ا س نے کبھی خواب میں بھی اتنا حسین اقرار اور وہ بھی عبداللہ کی زبانی ا س کی خوبصورت آواز میں سننے کی ا مید نہ رکھی تھی۔ عائلہ کی آنکھوں سے دو آنسو بہے تھے۔
عبداللہ ایک دم سے اوپر ہوا۔ عائلہ کے مدِ مقابل کھڑے ہوتے ، ا س نے تھوڑا سا جھک کے اس کی بھوری آنکھوں میں جھانکا۔ عائلہ اچھے قد و قامت کی حامل تھی پھر بھی عبداللہ کے بہ مشکل کندھے تک آتی تھی۔ تبھی اس کی آنکھوں میں دیکھنے کے لیے عبداللہ کو تھوڑا سا سر کو خم دینا پڑا۔ اس کی آنکھوں میں سچ مچ آنسو تھے۔
اسے لگا کے عائلہ ڈر گئی اس کی بے قراریاں دیکھ کے سن کے۔
عبداللہ پہ شرمندگی کا غلبہ شدید تھا۔
شرمندگی کا احساس اتنا شدید تھا کہ وہ بِنا کچھ کہے جانے کے لیے پلٹا۔ ابھی دو قدم ہی اُٹھائے تھے ا س نے کہ پہلی دفعہ ا س نازنین کی ، ہوا کے دوش پر کسی مترنم ر باب جیسی آواز نے ہوا میں سر بکھیرے تھے۔ واپسی کے لیے قدم بڑھاتے عبداللہ کے پیروں کو زمین نے جکڑا تھا۔
سامنے سے آتی ذاکرہ جو عائلہ کے فون پر بار بار چمکتی میر صاحب کی تصویر دیکھ کے عائلہ کو اس کا فون دینے آ رہی تھی ، عائلہ کی آواز سن کے پتھر کا مجسمہ بن گئی ۔
عائلہ بھیگی آواز میں کہہ رہی تھی :
”میں عائلہ ابراہیم سید ، اپنی تمام تر خاندانی روایات ، قبائلی اقدار ، ذات پات کے ہر فرق ، بچپن سے لگی ہر پابندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ اقرار کرتی ہوں کہ ان چھے مہینوں میں میرادل صرف عبداللہ سکندر کے لیے دھڑکا ہے۔ میری ہر آتی جاتی سانس نے عبداللہ کے نام کی تسبیح کی ہے۔ میری سماعتوں نے ہر پل عبداللہ کی ہی آواز سننے کی دعا کی ہے۔ میں نے ہر فرض اور نفلی عبادات کے بعد عبداللہ سکندر کی ایک نظر کی بھیک مانگی ہے۔ اِن چھے مہینوں میں، محبت نے مجھے کب عائلہ سید سے عبداللہ سکندر بنا دیا مجھے خود بھی احساس نہیں مگر ہاں!
”مجھ سے زیادہ محبت عبداللہ سکندر سے اس روئے زمیں پہ کوئی نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی نہیں، مر کر بھی نہیں۔”
سورج سمندر میں ڈوبنے کو تیار تھا۔ ا س کی شعاعیں لال رنگ میں ڈھل چکی تھیں۔
اتنے حسین اور کامل اقرارکی امید صرف اتنے ہی حسین اور کامل چہرے سے کی جا سکتی ہے۔ عبداللہ ا س دلکش ڈھلتی شام اور عائلہ کے خوبصورت اقرار کے زیرِ اثر جانے کتنی دیر یونہی چہرہ موڑے کھڑا رہا۔
عائلہ کی نظریں ا س کی چوڑی پیِٹھ پر کسی ردِ عمل کے انتظار میں گڑھی تھیں۔
ذاکرہ اِ س پر اثر لمحے کے زیرِ اثر بت بنی کھڑی تھی۔
عمران خان اب بھی کیفے کی سیڑھیوں پہ کھڑا ، دور ہی سے سہی اس لمحے کی نزاکت کو محسوس کر سکتا تھا۔
عائلہ کی آنکھوں سے اب بھی آنسو رواں تھے۔
عبداللہ دھیرے سے پلٹا۔
دور کھڑی ذاکرہ کے ہاتھ میں عائلہ کا فون پھر سے بجا تھا۔ میر صاحب کی تصویر دیکھ کے، ذاکرہ نے فکر سے لال آنسوئوں سے تر اپنی گودی کے چہرے کو دیکھا جسے اس وقت کچھ یاد نہ تھا ، یاد رہا تھا تو صرف عبداللہ ۔
روئی روئی آنکھوں والی عائلہ کی چھوٹی سی ناک بے حد لال ہو رہی تھی ۔ عبداللہ کے تاثرات جانچتے اس کے چہرے پہ اب بھی دو آنسو بہے تھے۔
عبداللہ نے کالی آنکھوں میں محبت کاجہاں بسائے ا س کی شہد جیسی آنکھوں میں جھا نکا اور دھیرے سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے ا سے رونے سے روکا تھا۔
عائلہ روتے روتے مُسکرادی۔
عبداللہ نے اپنا ہاتھ دھیرے سے ا س کے رخسار پہ رکھا اور نہایت نرمی سے دونوں آنسو چنے تھے۔ لمبی پلکیں جھکی تھیں۔ حیا کی لالی نے رخسار دمکائے تھے۔جھکی پلکیں پھر سے اٹھی تھیں۔
اپنی پوروں پر سجے دو ننھے کوہِ نورعبداللہ نے اپنی شرٹ پہ سیدھے دل کی جگہ رکھے تھے۔
سورج کی الوداع کہتی کرنوں نے ا ن دونوں کے وجود کو چھوا تھا ۔ اس سے مکمل شام نہ عائلہ کی زندگی میں کبھی کوئی آ ئی تھی نہ کبھی کوئی آنی تھی۔
وہ سب بھلائے صرف ا س پل کو جی رہی تھی ، جب اس کی نظر عبداللہ کی پشت پر سے ، اپنی طرف بھاگتے ہوئے آتی ذاکرہ پہ گئی۔ ذاکرہ بھاگ رہی تھی اور ا سے کوئی اشارہ کر رہی تھی۔ عائلہ ناسمجھی سے ا س کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ عائلہ کے نظروں کے تعاقب میں عبداللہ بھی ، اپنی طرف تیزی سے آتی ذاکرہ کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک زناٹے دار تھپڑ کی آواز پہ حیران پلٹا۔
عائلہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے گال پہ ہاتھ رکھے، سامنے کھڑے ا س سفید کاٹن کے سوٹ میں ملبوس با رعب شخصیت کو دیکھ رہی تھی۔ عبداللہ کو کچھ سمجھ آ رہی تھی اور کچھ نہیں۔ ا س نے وحشت زدہ نظروں سے عائلہ کو دیکھا ۔ کیا وہ عائلہ ہی تھی،تھوڑی دیر پہلے والی عائلہ ؟
اسے لگا جیسے عائلہ کو موت کا فرشتہ دکھ گیا ہو ۔ جیسے اس کے جسم سے سارا خون نچڑ گیا ہو ۔ وہ سامنے کھڑے شخص کو شدید ترین خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی جب کہ مقابل کی قہر برساتی نگاہیں عائلہ کے چہرے سے ہوتے ہوئے عبداللہ کے چہرے پہ آئی تھیں۔ بھوری قہر آلود آنکھوں نے سب بھید کھول دیے تھے۔ ہوبہو عائلہ جیسی آنکھیں رکھنے والا وہ شخص یقینا عائلہ کے والد تھے۔
عبداللہ کی نظریں احساس جرم سے جھکی تھیں۔
جب کہ قہر برساتی نگاہوں کی تپش اب بھی وہ خود پہ محسوس کر سکتاتھا۔ ا س نے جھکی نظریں ا ٹھا کہ عائلہ کو دیکھنا چاہا۔
گلابی رنگت والی عائلہ کا رنگ خطر ناک حد تک سفید ہو چکا تھا۔ گال پہ تھپڑ کا گلابی جلتا ہوا نشان عبداللہ کے دل کو کاٹ گیا۔ عائلہ دیوانہ وار عبداللہ کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ ا س کی نظریں چیخ چیخ کہ عبداللہ سے الوداع کہہ رہی تھیں۔
عبداللہ دیکھ رہا تھا ، جب جب عائلہ کی سہمی ہوئی نظریں ا س کے چہرے سے ہوتے ہوئے میر صاحب کے چہرے پہ جاتیں ، اس کا پوراوجود کانپ جاتا۔ میر ابراہیم سید کے چہرے پر بے انتہا غصہ، جلال اور نفرت تھی۔ ان کی آنکھوں میں سرد سی بے حسی تھی جو عبداللہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پیدا کر رہی تھی۔ ابھی وہ میر ابراہیم سید کے جلال کو پرکھ ہی رہا تھا کہ وہ ایک جھٹکے سے مڑے اور پارکنگ لاٹ میں اپنی گاڑی کے پیچھے کھڑی گارڈز کی گاڑی میں بیٹھے گارڈز کو کسی مقامی زبان میں کچھ کہا۔ پھر زہر آلود نگاہوں سے عبداللہ کو دیکھتے ہوئے عائلہ کا بازو سختی سے پکڑ کے ا سے گھسیٹا ۔
عائلہ نے جراح کی تھی جس کی سزا کے طور پر ایک اور زناٹے دار تھپڑ نے اس کے ہونٹ کو زخمی کر دیا۔ اس کے سوکھے ہوئے ہونٹوں سے رستا خون ا س کی ٹھوڑی پہ چمکتے بھورے تِل کو بھی خون آلود کر گیا جو تھوڑی دیر پہلے اس کے مُسکراتے ہونٹوں کے ساتھ مُسکرا رہی تھی۔ عبداللہ کو اپنے وجود میں تکلیف کی شدید لہریں دوڑتی محسوس ہوئیں۔
عائلہ کی خوف زدہ آنکھیں اب بھی عبداللہ پہ گڑھی تھیں اور بازو میر ابراہیم سید کی گرفت میں تھا۔ اب کے ا س نے کوئی احتجاج نہیں کیا تھا،کسی بے جان چیز کی طرح ا ن کے ساتھ گھسٹتی جا رہی تھی۔
عبداللہ کی طرف دو بھدی جسامت اور کرخت چہروں والے گارڈ بڑھے۔ عائلہ انہیں دیکھ بے جان ہو کے بیٹھ گئی تھی۔ ا س کا بازو اب بھی میر صاحب کے ہاتھ میں تھا۔ ا نہوں نے اسے کسی جانور کی طرح گھسیٹا۔ عائلہ کی نگاہیں عبداللہ پہ تھیں جو خود کو گرفت میں لیتے گارڈز کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
روتی ہوئی ذاکرہ، گھسٹتی ہوئی عائلہ کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ عبداللہ کو قابو کرنے میں ناکام گارڈز سے ہوتے ہوئے عبداللہ کی نظر عائلہ پہ گئی۔ کاندھوں پہ جھولتی چادر کب کی زمین پہ گر چکی تھی اور عائلہ کے ساتھ ساتھ گھسٹ رہی تھی۔ یہ وہ عائلہ تھی جس کے چہرے کی ایک جھلک بھی کبھی ان گارڈز نے نہیں دیکھی تھی اور آج انہی کے سامنے عائلہ کی چادر گری تھی۔ پتھرائی ہوئی نظروں سے خود کو دیکھتی عائلہ کا مٹی میں اٹا وجود ، خون سے بھرا چہرہ ، سوجا ہوا زخمی ہونٹ ، بکھرے ہوئے لمبے بال اور گری ہوئی چادر دیکھ وہ دیوانہ ہوا تھا۔
اس نے اپنا پورا زور لگا کے خود کو گارڈز کی گرفت سے چھڑایا اور خود سے دور جاتی عائلہ کی طرف سر پٹ بھاگا اور ا س کی چادر اٹھا کے اس کے گرد لپیٹی۔ انگلی کی پوروں پہ ا س کے زخم کا خون سمیٹتے، اس نے عائلہ کے نازک پیروں کے زخم دیکھے۔ میر صاحب اُسے اتنی بے دردی سے گھسیٹ رہے تھے کہ عبداللہ کو لگا جیسے ا س کا بازو کندھے سے جدا ہو جائے گا۔ عائلہ کا چہرہ اب بھی سپاٹ تھا بالکل۔
اس سے پہلے کے عبداللہ ا س سے بات کرتا گارڈز ا س تک پہنچ چکے تھے۔ اب عبداللہ دوبارہ اُن کی گرفت میں تھا۔
شام رات کی چادر اوڑھ چکی تھی۔ عبداللہ بھی اب گارڈز کے ساتھ گھسٹ رہا تھا ۔ خود سے دور جاتی زخموں سے چور چور عائلہ کو فکر سے دیکھتے ہوئے ا س کی نظر ذاکرہ تک گئی۔ کیا کچھ نہ کہا تھا ا س نے اس ایک نظر میں ، عائلہ کا خیال رکھنے کی تنبیہ، ا س کا ہم درد بننے کی التجا، ا س کے زخموں پہ مرہم رکھنے کی استدعا، غرض اس ایک نظر میں ا س نے عائلہ کو ذاکرہ کے حوالے کیا تھا اور ذاکرہ کی عام سی روتی آنکھوں نے بھی جیسے سب سمجھتے ہوئے یقین دہانی کرائی تھی۔
خود سے دور جاتی عائلہ کو اس نے آخری نظر دیکھا تھا ۔ عائلہ گاڑی تک پہنچ چکی تھی۔ میر صاحب نے ا سے کسی کپڑے کی گٹھڑی کی طرح اندر پھینکا اور زن سے گاڑی نکال لے گئے ۔ا ن کے پیچھے گارڈز کی گاڑی جس میں باقی کے چار گارڈز موجود تھے ، تیزی سے نکلی ۔
عبداللہ کو احساس تھا کہ اب زندگی عائلہ کے لیے سنگ پاشی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھی ۔آج کے بعد ا س ماہ ِ کامل کی ایک جھلک تو یک طرف وہ ا س کی خوشبو کو بھی ترسے گا ،پوری زندگی سمندر کی طرف بے دردی سے گھسٹتے عبداللہ کی آنکھوں سے گرم سیال بہا تھا ۔ خشک ہوتے ہونٹوں سے ا س نے سرگوشی کی تھی ۔
”الوداع عائلہ …الوداع۔”
٭…٭…٭
عائلہ کھانا کھا کے ڈائننگ روم سے نکل کے اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی کہ اس بڑے سے سفید تھیم کے ہال کے سفید چمکتے سنگ ِ مرمر کے فرش اور اوپر چھت سے لٹکتے دیو قامت کرسٹل کے فانوس نے اسے دو سال پہلے گزری قیامت کی یاد دلا دی۔
ڈھیروں مٹے مٹے سے منظر اس کے ذہن کے پردے پہ نقش ہونے لگے۔
ان لمحوں کا کرب اتنا شدید تھا کہ عائلہ اب بھی اپنے سر میں ا ٹھتی ٹیسیں محسوس کر رہی تھی ۔
یہی ہال تو اس کے درد کا گواہ تھا۔
جب اسے ٹھوکریں ماری گئیں ، یہی سفید فرش تو تھا جس نے اسے سمیٹا تھا۔
جب اس کے منہ پہ طمانچے لگے خواہ وہ بابا کے ہاتھوں کے تھے یا ان کی زبان کے۔ اسی درودیوار نے تو اسے سہارا دیا تھا۔
نظروں سے بے اعتباری کے ڈھیروں تیر برساتے اماں اور لالا کے بے نیاز چہروں کو، اسی فانوس نے تو عیاں کیا تھا۔
اُف !!!!
کیوں بابا کیوں؟
کیوں کیا آپ نے ایسے۔
ایک دفعہ مجھ سے صفائی تو مانگتے۔
ایک دفعہ تومجھے سنا ہوتا۔
کیوں بابا ، کیا جاتا آپ کا اگر آپ ایک دفعہ سن لیتے کہ میں نے آپ کو دھوکا نہیں دیا تھا کہ میں آپ کی عائلہ ہوں میں سب کچھ ہو سکتی ہوں ، پر بد کردار نہیں۔
بابا! ایک دفعہ صرف ایک دفعہ ، آپ نے سنا ہوتا کہ میں اس سے محبت کرتی ضرور تھی ، پر میں کبھی بغاوت نہ کرتی ، میں مر کے بھی ا س سے بات نہ کرتی ، ا س دن بھی وہ خود آیا تھا بابا، میں مانتی ہوں میری غلطی ہے ، میں مانتی ہوں میں نے ا س نا محرم کو خود کو چھونے دیا تھا۔
پر میں بھی انسان ہی تو ہوں بابا۔ میرا بھی عام لڑکیوں جیسا دل ہے ۔ وہ لاکھ نا محرم سہی پر میرے دل کا محرم تو صرف وہ ہی ہے نا بابا۔
کیا سید زادیوں کے دل نہیں ہوتے بابا ؟
یا ان کے دل گوشت پوست کے بجائے پتھر کے ہوتے ہیں؟
بتائیں بابا۔
من ہی من بابا سے مخاطب ،اس کی نظریں وحشت زدہ سی ا س ہال میں گھوم رہی تھیں ۔
وہ دو فروری کی شام جیسے لوٹ آئی تھی۔ عائلہ کے نظروں کے سامنے اس شا م کے منظر گھوم سے گئے۔
”بابا!میں نے کوئی دھوکا نہیں کیا۔”
زخموں سے چور ، مٹی میں اٹا ،یہ سسکتا وجود ا س کا تھا جو لائونج کے بیچ و بیچ کسی مجرم کی طرح کھڑی تھی اور ا س پہ کئی بے اعتبار آنکھیں گڑی تھیں۔
اس کی نظریں اس جگہ گئیں، جہاں بابا کے ا س آخری زناٹے دار تھپڑ کے بعد وہ گر پڑی تھی۔
عائلہ کو اپنی بے بس نگاہیں یاد آئیں جو چہروں پہ اجنبیت سجائے اماں اور لالا کی طرف مدد کے لیے ا ٹھی تھیں۔ اسے یاد تھا یہی وہ لمحہ تھا جب وہ مار سہتے سہتے ڈھے گئی تھی۔
کرب اتنا تھا کہ عائلہ آنکھیں میچ گئی۔ ا س دن کا درد عائلہ کی ساری زندگی پر چھا چکا تھا وہ کیسے ا س دن کو بھلا سکتی تھی۔
اس نے دونوں ہاتھ اپنے ہونٹوں پہ رکھتے ہوئے سسکیوں کا گلاگھونٹا ۔ پر آنکھوں سے رواں آنسوا س کے اختیار میں کہاں تھے۔ وہ وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔
اپنے ہی کرب پہ روتی ٹوٹی پھوٹی عائلہ ، شاید ا س پرانی عائلہ کو بھی رو رہی تھی جو ا س شام اس جگہ بے ہوش نہیں ہوئی تھی بلکہ شاید مر گئی تھی۔
کون تھی وہ اب۔
اس نے اجنبیت سے اپنے سو نے ہاتھوں کو دیکھا۔ بد رنگ کالے ماتمی لباس کو دیکھا ، سامنے دیوار پہ لگے شاندار آئینے میں زرد چہرے اور بکھرے بکھرے ، کمزور نظر آتے اپنے عکس کو دیکھا۔
میں عائلہ تونہیں ہوں، ا س نے اپنے خد و خال کو چھوا۔
کون ہوں میں پھر ؟
اس نے سوچا۔ چمکتی بھوری آنکھیں جو مُسکراتی رہتی تھیں اب ویرانوں کا مسکن تھیں۔ رنگ اور خوشبو جیسی عائلہ کہاں تھی ، سامنے عکس تو کسی بنجارن کا تھا۔
کیا ہو اگر ”وہ” مجھے ایسے دیکھ لے ؟
کیا وہ پھر بھی مجھ سے محبت کرے گا ؟
محبت کا خیال ذہن میں آتے ہی وہ چونکی۔ خوف زدہ نگاہوں نے ارد گرد کسی ذی روح کی موجودگی کھوجی۔
کیا ہو اگر کوئی مجھے یہاں یوں سوگ مناتا دیکھ لے ؟
کیا ہو اگر بابا کو پتا چل جائے میں نے ابھی ابھی عبداللہ کو ، اس کی محبت کو یاد کیا ہے؟
خوف کی ایک لہر اس کے رگ و پہ میں سرایت کر گئی ۔
قبائلی خاندانوں کے سخت اصولوں کا اندازہ کوئی اس بات سے کیوں نہیں لگاتا کہ خدا کے خوف کی بجائے اس سید زادی کے دل میں پہلا خوف ، پہلا خیال اپنے بابا اور ان کی روایات کا آیا۔ اس نے یہ نا سوچا کے اللہ جو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے، وہ کیا سوچیں گے۔ اس کی ناراضی کا خیال آنے کے بجائے جو پہلا خیال اس کے ذہن میں آیا ، وہ بابا کا تھا۔
اپنے بچپن سے اب تک جانے کتنی محبتوں کے گلے گُھٹتے اس نے دیکھے تھے۔ گدہ نشین ہونے کی وجہ سے اس کے بابا نے کئی محبتوں کو بہت عبرت ناک سزائیں دینے کے فیصلے نہایت اطمینان سے کیے تھے۔ شاید یہی خوف تھا جو قائم تھا۔
عبداللہ اور عائلہ کی جان بخشی اتنا بڑا معجزہ تھا کہ وہ پھر لفظ ”محبت” تک کو سوچ کے بھی، اپنی یا عبداللہ کی زندگی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی ۔
بھوری سہمی نظریں ، بابا کی آرام گاہ کے در کو چھو کے لوٹیں۔
اس نے جلدی جلدی آنسو پونچھے ، دوپٹا درست کرتی تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔
کمرے کا در وا کیے وہ حیران چوکھٹ پہ کھڑی تھی۔ یہ کمرے کا دروازہ ہی کھلا تھا یا بھولی بسری عبداللہ کی یادوں کے لیے اپنے دل کے بند کواڑ کھولے تھے۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔
ان دو سالوں میں کسی نے اس کے کمرے کی کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہلایا تک نہیں تھا۔
پلنگ پہ سیاہ سلوٹ زدہ چادر، سرہانے ادھ کھلی کتاب، باغیچے کے سمت کھلنے والا دیو قامت دریچہ ، پائنتی کے پاس بچھی سیاہ جائے نماز، اس کا مڑا ہواکونہ ، جو دو سال پہلے ا س روز نماز عصر ادا کر کے وہ موڑ گئی تھی۔
سسکتی عائلہ کی آنکھوں سے آنسو، موسلا دھار بارش کی طرح برس کر جل تھل مچارہے تھے۔
اس کے چوکھٹ پہ ٹکے قدم اندر کی جانب بڑھے ۔ کمرا عبداللہ کی یادوں سے مہک رہا تھا۔
اُف خدایا کہیں میں نے واپس آکر غلطی نہ کر دی ہو ؟
اس نے بے ساختہ سوچا۔