انتساب !
ہر ذی روح کی پہلی محبت کے نام
بادلوں سے اوپر، آسمان اتنا نزدیک ہو کے بھی خاصا دور تھا۔ نیلا آسمان پوری کائنات میں خدا کی بنائی گئی ان گنت حسین نعمتوں سے بڑھ کے پسند تھا ۔ پتا نہیں کیا تھا پر اسے اپنا اور آسمان کا تعلق گہرا لگتا تھا خواہ وہ راتوں کو کالی آسمان کی چادر پہ ٹنکے ڈھیروں ننھے منے تاروں کو تکنا ہو یاصبح سویرے طلوع ہو تے سورج کو دیکھنا ۔ دن کو نکھرے ہوئے نیلے آسمان پہ سفید روئی کے گالوں کا سنہرے سورج کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا ہو یا شام کو ڈھیروں رنگ آسمان پہ بکھیرتا غروبِ آفتاب کا منظر۔
بس اسے پتا تھا، تو صرف یہ کے اسے آسمان سے عشق تھا۔
”خواتین و حضرات اپنے حفاظتی بند باندھ لیجیے ہم کچھ ہی دیر میں کراچی ایئرپورٹ لینڈ کرنے والے ہیں شکریہ۔”
وہ ایک دم چونکی۔ خیالوں کا غلبہ اور آسمان کو اتنے قریب سے دیکھنے کا احساس ہی اتنا ہوش اُڑا دینے والا تھا کہ وہ کھو سی گئی تھی۔
نسوانی آواز اب ہدایات انگریزی میں دہرا رہی تھی ۔
اپنے بابا اماں اور لالا سے کچھ ہی دیر میں ملنے کے خیال نے ا سے سکون سا دیا تھا۔ ہیزل برائون آنکھیں طمانیت سے موند کے عائلہ سید نے اپنا سر سیٹ کی بشت سے لگا لیا۔
کچھ دیر متلاشی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد اسے لالا کا چہرہ نظر آ ہی گیا ۔ آج پھر اسے ائیرپورٹ سے لینے صرف لالا ہی آئے تھے۔
اس نے ٹھنڈی آہ بھر کے اپنی چادر ٹھیک کی اور دور کھڑے لالا کی طرف بڑھ گئی ۔ وہ کالا چشمہ ہاتھ میں پکڑے جھنجھلائے ہوئے انداز میں اسے ہی ڈھونڈھ رہے تھے۔ لالا نے اسے اپنی طرف آتا دیکھ کے خیرمقدمی مُسکراہٹ کے ساتھ جوش سے اس کی طرف ہاتھ ہلایا ۔
بڑے بھائی کی محبت پہ وہ مُسکرائی۔ ان کے قریب جا کے ہلکا سا سر کو خم دیا تھا تا کہ لالا سر پہ ہاتھ رکھ سکیں۔
”السلام و علیکم لالا۔”
اس کے سر پہ نہایت نرمی سے ہاتھ رکھتے لالا نے جوش سے جواب دیا:
”وعلیکم السلام گودی !”
”گودی” فارسی ، بلوچی اور براہوی میں شہزادی کو کہا جاتا ہے۔ بلو چستان میں یہ لفظ خواتین کو عزت دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عائلہ کو ا س کے دادا گودی کہتے تھے۔ اب رفتہ رفتہ وہ سب کی گودی بن چکی تھی۔
لالا مزید بولے :”کیسی ہو ؟ سفر کیسا رہا ؟ کوئی مشکل تو نہیں ہوئی؟ کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں؟”
لالا کے اتنے سارے سوالوں کے جواب میں وہ صرف مُسکرا ہی سکی۔
”چلیں ؟”
تھکاوٹ سے چور لہجے میں عائلہ نے پوچھا، تو معید سید نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
گاڑی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے آخر عائلہ پوچھ بیٹھی :”بابا آج پھر نہیں آئے ؟”
معید کے قدم تھوڑے ٹھٹکے پر وہ بولا تو لہجہ بالکل عام سا تھا :”پگلی !پتا تو ہے تمہیں بابا کتنے مصروف ہوتے ہیں اور دیکھو تمہارا ہینڈ سم لالا خود آیا ہے۔ کیا یہ کافی نہیں؟”
عائلہ کو ان کی مُسکراہٹ مصنوعی لگی۔ آنکھوں پر دھوپ کا چشمہ نہ ہوتا، تو وہ کبھی اس سے جھوٹ نہ کہہ پاتے۔ وہ بھائی کی آنکھیں پڑھنے میں ماہر تھی پر اب احساس ہوا کہ وہ ہونٹ بھی پڑھ سکتی ہے۔
لالا کا دل رکھنے کو عائلہ بھی مُسکرا دی :
”آپ اکیلے کہاں آئے ہو پورا کانوائے ساتھ لائے ہو۔”
مصنوعی غصہ چہرے پہ سجاتے، عائلہ نے اپنی چھوٹی سی ناک چڑھائی تھی۔
معید سید کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
وہ بچپن سے اپنی بہن کی عادت سے واقف تھا۔ اسے اپنی گاڑی کے پیچھے بندو قیں اٹھائے گارڈز کی گاڑیاں زہر لگتی تھیں ۔ وہ کبھی انہیں کانوائے بلاتی تو کبھی بابا کی فوج ۔ وہ سوچے جا رہا تھا اور اپنے سامنے کھڑی 20 سالہ اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو اس کے لیے آج بھی وہی عائلہ تھی ، چھوٹی سی معصوم عائلہ جس کی ناک کھینچ کے اکثر وہ اپنی محبت کا اظہار کرتا تھا۔ کوئی کچھ بھی بولے وہ جانتا تھا اس کی عائلہ اس کی گودی کبھی اس کی یا اس کے بابا میر ابراہیم سید کی عزت پہ آنچ نہیں آنے دے سکتی ۔
”لالا۔ ”
عائلہ نے ا ن کے چہرے کے سامنے انگلیاں لہرائیں۔
”کہاں کھو گئے ؟”
اپنے ہونٹوں پہ سجی دو سال پرانی کرب کی داستان کو نہایت سلیقے سے چھپاتے ہوئے وہ مُسکرایا:
”میں سوچ رہا تھا اب جب کہ آ ہی چکی ہو، تو اپنی بھابی کو بھی ساتھ لے آتی۔”
عائلہ نے پہلے حیرت سے بھائی کو دیکھا پھر کھلکھلا کے ہنس دی اور معید سید نے دل ہی دل میں اس کی ہنسی کی سلامتی کی دعا کی تھی۔
٭…٭…٭
میر ابراہیم سید کا تعلق بلوچستان کے ایک نشیبی گائوں سے تھا ۔ یہ ان کا آبائی گائوں تھا ۔ ان کے آباء و اجداد نے چشت سے ہجرت کر کے بلوچستان کے اس چھوٹے سے گائوں میں اپنا پڑائو ڈالا تھا۔ خواجہ ولی بابا مودودی چشتی کا مزار آج بھی ان کے گائوں کے بیچ و بیچ اپنی پوری شان و شوکت سے موجود تھا۔ خواجہ بابا ، خواجہ قطب الدین مودودی چشتی کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ تاریخ گواہ ہے خواجہ مودودی چشتی کے اسلام کے فروغ کے لیے کی گئی کوششوں کی ، ان کے علم، فہم وفراست کے چرچے آج بھی تاریخ کے اوراق پہ رقم ہیں۔ وہ دو مشہور کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ”منہاج العارفین” اور ”خلاست الشریعہ” خواجہ ولیوں کے حلقے میں بلند مقام رکھتے تھے۔ وہ عاشق ِ رسولۖ اور اسلام کے سچے طالب ِ علم تھے۔ کہا جاتا ہے کہ خواجہ مودودی چشتی جب حضرت خواجہ ناصر ابو یوسف بن سمان چشتی کے مرید بنے تو ان کے مرشد نے ا ن سے کہا تھا:
”اے قطب ا لدین مودودی فقر کو اپنا لو۔”
کہا جاتا ہے کہ اپنے مرشد کا اشارہ سمجھتے ہوئے انہوں نے فقر کو ایسے اپنایا کہ خدا کی محبت سے مالا مال ہوگئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انہوںنے 20سال دنیاوی زندگی سے دور ایک بیابان میں ذکر الٰہی کرتے گزار دیے ۔ مشہور مورّخوں کی کئی تحریروں میں شواہد موجود ہیں کہ خواجہ نے ان 20 سالوں میں دو قرآن پاک دن میں اور دو قرآن پاک رات میں مکمل کیے ہیں۔ تاریخ یہ بھی لکھتی ہے کہ خواجہ کی زبان پہ کلمہ طیبہ کے ورد کے علاوہ صرف قرآن پاک کی تلاوت ہی رہی۔ کھانا پینا براہِ نام تھا۔ انہوں نے 7 سال کی عمر میں ہی قرآن پاک اپنے والد صاحب کی راہنمائی سے حفظ کر لیا تھا ۔ یہ ان کی اسلام سے محبت ہی تھی جو اللہ پاک نے انہیں وہ عروج بخشا کہ مولانا زکریا نے انہیں ”کشِ قلو ب” اور ”کشف ِ قبو ر” کہا۔ کہتے ہیں کہ خواجہ مودودی چشت سے ”بلخ ” بھی گئے تھے جو مولانا رومی کی جائے پیدائش ہے ۔ وہاں بھی انہوں نے کئی صوفی علم کے طالبوں کو اپنے علم سے مستفید کیا ۔ پھر بخارا بھی گئے جسے ا س وقت اولیائے کرام کی وجہ سے خاص اہمیت حاصل تھی۔
کہتے ہیں کہ جب خواجہ مودودی صاحب وفات پا گئے تو ان کا جسد ِ خاکی ا ڑ کے اپنی آخری آرام گاہ تک پہنچا تھا اور یہ واقعہ سناتے ہوئے خواجہ فریدالدین شکر گنج بخش چکرا کے گر پڑے تھے ۔ خواجہ کا مزارآج بھی چشت ، ہیرات افغانستان میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔
خواجہ ولی بابا ان ہی کی اولاد میں سے تھے۔ جنہیں خواب میں اشارہ ملنے کی وجہ سے ہیرات سے ہجرت کر کے بلوچستان آنا پڑا۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کی فارسی زبان اور ثقافت بھی ہجرت کرکے آگئی تھی۔
خواجہ ولی مودودی چشتی کے آنے سے پہلے کلی کرانی کا نام کلی گرانی تھا۔ ”گرانی” بلوچستان کی کئی زبانوں میں بھاری پن کے لیے استعمال ہوتا تھا ۔ بھاری پن سے مرادوہ کلی آسیب زدہ تھی ۔ جہاں خواجہ ولی بابا نے قیام کیا اور بعد میں ا ن کی اولاد نے ا ن کی دن رات عبادات نے ا س جگہ کو پاک کر لیا۔ آج تقریباً خواجہ ولی بابا مودودی چشتی کو وفات پائے چھے صدیاں گزر چکی ہیں پر آج بھی بلوچستان کے نقشے پہ کلی سادات کرانی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے اور ان کی فارسی اور ثقافت کو ان کی اولاد زندہ رکھے ہوئے ہے۔
سب سے پہلے ا ن کا مزار مٹی سے بنایا گیا تھا، جس کے اطراف میں 1970ء میں سادات ِ کرانی نے اینٹوں کی دیوار بنا کے احاطہ کر دیا تھا پھر 1973ء میں ا س وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے خود نوٹس لیتے ہوئے ایک عالی شان مزار تعمیر کروانے کا حکم دیا جس میں پھر وقتاً فوقتاً سادات خود مزید تبدیلیاں کرواتے رہے ۔
2008ء میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش ِ نظر وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی نے خواجہ بابا کے مزار کے اطراف میں پھیلے سادات کے 600 سال قدیمقبرستان کی حفاظت کے لیے مضبوط احاطہ بنوانے کا اعلان کیا۔
رئیسانی قبیلہ بھی دیگر کئی قبیلوں کی طرح خواجہ ولی بابا کے مرید ہونے پہ فخر محسوس کرتا تھا۔
خواجہ بابا کے مزار میں بہت سی تبدیلیاں ہوتی رہیں، مگر آج اگر مغربی بائی پا س سے گزرتے ہوئے ایک بہت ہی خوبصورت مزار دن میں سنہری گنبد کے ساتھ اور رات میں بے پناہ ننھے منے برقی قمقموں کے بیچ چمکتا دکھائی دے، تو یہ ہی خواجہ ولی بابا مودودی چشتی کا مزار ہے اور یہ ہی کلی سادات کرانی ہے۔
کلی کرانی کوئٹہ شہر کے حدود سے کچھ ہی فاصلے پہ تھا جو بعد میں شہر کے رقبے میں اضافے کے ساتھ ساتھ کوئٹہ شہر سے قریب ہوتا گیا۔اب یہ فاصلہ کم ہو کے 6کلو میٹر ہی رہ گیا تھا۔
اُن کے گائوں کی مشہوری کی دوسری اہم وجہ وہاں کے باغات ہیں۔ انگور،سیب،چیری،انار ، آلو بخارے، زنتوزہ (پلم)، خوبانی ، بادام ، شہتوت ، پستے اور اخروٹ کے خوبصورت باغات جن کا پھل کھا کھا کے ا ن کی نسلیں بڑی ہوئی تھیں ۔ شہر سے دور یہ چھوٹا سا گائوں نہایت پر سکون تھا ۔
معززین میں سادات کو کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، لیکن جہاں اتنی عزت مقام اور شہرت ہو وہاں دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمن بھی بن جاتے ہیں بلا وجہ یونہی ۔
یہی دھڑکا میر صاحب کو بھی لگا رہتا تھا۔ تب ہی وہ دونوں بچوں کی حفاظت کے لیے بہت فکرمند رہتے تھے۔ وہ اسکول جاتے، سد حفاظتی انتظامات کے باوجود میر صاحب اور ا ن کی سادہ سی بیگم سکینہ سید صاحبہ نہایت فکر مند رہتی اور آخر ایک دن وہ ہوگیا جس کا انہیں ڈر تھا۔ ان کے بچوں کی گاڑی پہ اسکول سے واپسی پر فائرنگ کی گئی۔ ارادہ اغوا کا تھا بچے محفوظ رہے، لیکن گارڈز زخمی ہوئے ۔ 14سالہ عائلہ اور 16سالہ معید گھر آئے تو میر صاحب اور ان کی بیگم کی جان میں جان آئی تھی۔
اپنے بچوں کے ستے ہوئے چہرے دیکھتے ہی میر صاحب نے دل ہی دل میں گائوں چھوڑنے کا اٹل فیصلہ کر لیا تھا اور آخر اس پہ عمل در آمد کر کے ہی دم لیا ۔ یوں اولاد کی محبت جیت گئی اور 7سال پہلے میر ابراہیم سید ، اپنی بیوی اور دونوں بچوں سمیت کراچی شفٹ ہوگئے۔
”اماں۔”
عائلہ نے سرگوشی میں کہااور ا ن سے لپٹ گئی ۔
”میری بیٹی ، میری گودی۔” کہہ کے اس کی ماں نے ماتھا چوما۔ پھر دو پل عائلہ کو دیکھا، دوبارہ سے خود سے لگا لیا ۔ ان کی اتنی محبت پہ عائلہ کے آنکھوں کے کونے بھیگ گئے۔ اس نے اپنے گال پہ رکھے ماں کے ہاتھ کو نرمی سے ہاتھوں میں لے کے ا س کی پشت کو چوما۔ یہ بلوچستان کا رواج تھا ، اپنے بڑوں کو عزت دینے کا طریقہ تھا۔
”اللہ حیاتی دے، نیک نصیب کرے۔”
کہہ کے سکینہ سید نے عائلہ کے سر پہ پیار کیا۔
”ارے!بھئی کوئی مجھے کھانا وانا بھی پوچھے گا یاماں بیٹی یہیں ساری باتیں کریں گی۔”
معصوم سی شکل بناتا معید سید، ابھی تک انہیں لان میں کھڑا پا کے بولا تھا ۔
”چلو چلو! کھانا تیار ہے بس تم دونوں منہ ہاتھ دھو لو۔”
پیار سے سکینہ صاحبہ نے اپنے اکلوتے سپو ت کو دیکھا۔ سنہرا رنگ گرمی کی حدت سے قدرے گلابی ہو رہا تھا۔ 6فٹ سے نکلتا قد ، ڈارک برائون گھنے بکھرے ہوئے بال ،شہد جیسی آنکھیں اور سفید کاٹن کا سوٹ جس کی سلوٹیں معید سید کی تھکاوٹ کی گواہی دے رہی تھیں ۔ انہوں نے نظر لگ جانے کے ڈر سے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کے اس پہ پھونکا تھا۔
جواب میں معید نے ان کے گرد اپنے بازو پھیلا کے اندر کی طرف قدم بڑھا دیے۔ان کے پیچھے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی عائلہ نے پر سوچ نگاہیں بابا کے کمرے کی کھڑکی پہ جمائی تھیں ۔
”بابا! میرے اچھے بابا ۔ کب تک یونہی ناراض رہیں گے اپنی عائلہ سے۔” دل ہی دل میں خود سے کہتی عائلہ کی آنکھوں سے کچھ آنسو ٹپک کے اس کی کالی بلوچی کڑھائی والی چادر میں جذب ہوگئے۔
”عائلہ!کدھر ہو بھئی آبھی جائو، بہت اہتمام کیا ہے اماں نے۔”
معید کی آواز پہ وہ چونکی۔ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اس نے جواب دیا۔
”آئی لالا ۔”اور تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے اندر چلی گئی ۔
آف وائٹ تھیم کے ساتھ ،میچنگ آف وائٹ دبیز پردے ، لان کی طرف کھلنے والی وسیع کھڑکی پہ نزاکت سے لہرا رہے تھے ۔ تھوڑے فاصلے پہ صوفے پہ برا جمان میر ابراہیم سید پر سوچ نگاہوں سے پردوں کو دیکھ رہے تھے جن کے کناروں سے آتی دوپہر کی نارنجی دھوپ چھن کے کمرے میں جلترنگ مچائے ہوئے تھی ۔
معید کی گاڑی کا ہارن سنتے ہی وہ تیزی سے اٹھے اور پردے ہٹا دیے ۔ ایک دم سے دھوپ پڑنے پہ ان کی آنکھیں تھوڑی دیر کے لیے میچ سی گئی تھیں۔ روشنی سے مانوس ہوتے ہی انہوں نے اپنی آنکھیں لان میں کھلتے ووڈن گیٹ پہ ٹکادیں ۔ معیدکے ساتھ ان کی پری، ان کی شہزادی بیٹی عائلہ تھی جسے آج خود وہ پورے دو سال بعد دیکھ رہے تھے ۔
”عائلہ میری گڑیا !”
عائلہ ایسی تو نا تھی، انہوں نے کھڑکی کے پار کھڑی اپنی بیٹی کو دیکھا۔
کالی چادر اوڑھے، کالے ہی سادہ سے ملگجے جوڑے میں ملبوس ، پیروں میں سادہ سی کالی چپل پہنے ، پھیکے پڑتے رنگت والی ، بکھری بکھری سی وہ لڑکی ، کہیں سے عائلہ نہیں لگ رہی تھی۔
عائلہ تو اتنی خوش پوش تھی کہ لوگ اس کے کپڑوں کو ہی دیکھ کے اس کے بہترین ذوق کا اندازہ لگا لیتے تھے ۔ اس کو ڈیزائننگ کا شوق تھا اپنے کپڑے زیادہ تر وہ خود ہی ڈیزائن کرتی تھی ۔
”بابا !میں عام لڑکیوں کی طرح ہی سوچتی ہوں ، میں پڑھنا چاہتی ہوں بابا ، مجھے شانزے ، شازمینہ یا علیزے نہیں بننا ۔ پلیز بابا سمجھیں نا۔ ”
عائلہ کی آواز اُن کے کانوں میں گونجی تھی ۔ کچھ دھندلے سے منظر بھی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔
”پربچہ !تم نے نوکری تھوڑی کرنی ہے؟ ان کی طرح میٹرک کرو گھر بیٹھو ۔”
عائلہ کو پیار سے سمجھانے کی ان کی یہ کوشش تب نا کام ہوئی، جب عائلہ بولی :
”پر بابا آپ نے وعدہ کیا تھا جب آپ ہمیں کراچی لائے تھے کہ آپ مجھے پڑھائیں گے اور لالا بھی تو پڑھ رہے ہیں ۔ میں بھی انہی کے کالج میں داخلہ لے لوں گی بس !”
اب عائلہ کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز تھیں اور یہ ا س کا واحد ہتھیار تھا جس کے سامنے میر صاحب اپنے پتھر دل اور ظالم روایات کو ٹھوکر مار دیتے اور بیٹی کی محبت جیت جاتی تھی ہر دفع۔
پر سوچ نظروں سے بیٹی کا شفاف چہرہ تکتے ہوئے، انہوں نے کہا:
”ٹھیک ہے! پڑھ لو اجازت ہے تمہیں ، پر عائلہ یاد رکھنا تمہارے بابا نے تم پہ اتنا اعتبار کر کے یہ اجازت دی ہے کہ اپنی روایات اور دل میں اُٹھتے خدشات کو نظر انداز کر ڈالا ، اب یہ تمہارا فرض ہے کے میری عزت کا خیال رکھو۔”
حیران آنکھوں کے ساتھ عائلہ نے انہیں دیکھا اور اگلے لمحے ان کا ہاتھ پکڑ کے چوما تھا۔
”بابا میں آپ کی عائلہ ہوں، میری رگوں میں آپ کا خون ہے، میرا بھروسا کریں بس! پھر دیکھیں۔”
اس کی آنکھوں سے دو آنسو بہے تو میر صاحب نے ا س کے سر پہ ہاتھ پھیرا تھا ۔
”نا بچہ روتے نہیں”
وہ بے ساختہ مُسکرائی تھی ۔ حسین تو وہ تھی ہی روتی آنکھوں کے ساتھ مُسکراتی اتنی پیاری لگی کے میر صاحب نے نظر لگ جانے کے ڈر سے نظریں چرائی تھیں ۔
”عائلہ !کہاں ہو بھئی۔”
معید کی آواز پہ ماضی کا وہ منظر میر ابراہیم سید کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔ سامنے لان میں کھڑی عائلہ ا نہی کی کھڑکی کی طرف دیکھ رہی تھی ۔کھڑکی پہ یک طرفہ کانچ ہونے کی وجہ سے عائلہ اُنہیں نہیں دیکھ سکتی تھی ، مگر وہ عائلہ کو دیکھ سکتے تھے ۔ عائلہ کی آنکھوں سے آج بھی دو آنسو گرے تھے ۔ پر آج ان کا دل موم نہ ہوا تھا ۔ عائلہ کاش دو سال پہلے تم نے وہ سب نہ کیا ہو تا ، کاش تم میری عزت کا خیال کر لیتی، کاش سوچتی تم عام لڑکی نہیں ہو تم سید زادی ہو ، تو آج یہ کرب تمہاری اور میری تقدیر نا ہو تا۔ کاش! عائلہ کاش !
پر تم نے کچھ نا سوچا اور میرا بھروسا توڑ ڈالا۔ اب تم اسی لائق ہو کہ بھگتو ، تم ایسے ہی اپنے بابا کے لیے تڑپو ۔ میں نے تمہیں اپنا اعتبار، بھروسا، پیار ، سب دیا بدلے میں تم نے کیا دیا؟
دھوکا ؟ دھوکا ؟”
نہیں میں نے کوئی دھوکا نہیں دیا۔ میں بے قصور ہوں ، میں نے کچھ نہیں کیا ۔ بابا میرا اعتبار کریں پلیز میری بات تو سن لیں۔”
جواب میں بابا نے ایک زنا ٹے دار تھپڑ عائلہ کے آنسوئوں سے تر چہرے پہ رسید کیا تھا۔
عائلہ سن رہ گئی ، پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے بابا کو دیکھتے ، وہ اب بھی بولنا چاہتی تھی ،اپنی صفائی دینا چاہتی تھی ، پر اس کے ہونٹ نہیں ہل رہے تھے ، اس نے کوشش کی اماں کو دیکھ سکے ، لالا کو دیکھے ان کی آنکھوں میں اپنے لیے اعتبار ڈھونڈ ے پر اس کی آنکھیں بھی نہیں ہل پا رہی تھیں۔ بابا کے چہرے کی سختی اور نفرت پہ گڑھ سی گئی تھیں۔ اسے اپنے دماغ میں دھماکے سے محسوس ہوئے، کانوں میں آتش فشاں پھٹنے کی آوازیں۔ وہ اپنے کانوں کو دونوں ہاتھوں سے بند کر لینا چاہتی تھی ، وہ سب کو بتانا چاہتی تھی کہ اس کا سر پھٹ رہا ہے پر اس کے لب خاموش تھے، آنکھیں خشک تھیں ،جسم بے جان تھا۔ کپڑے کی گٹھڑی کی طرح اس کا وجود اس بڑے سے لائونج کے سفید چمکتے سنگ مرمر کے فرش پہ پڑا تھا ۔ اسے پہلی دفع نفرت کا مطلب پتا چلا تھا، دھتکارے جانے کی تکلیف محسوس ہوئی تھی ۔ بے اعتباری کا وار اتنا کاری تھا کہ وہ سہ نا پا رہی تھی پر بے بس تھی سہے جا رہی تھی ۔
اچانک اسے لگا بابا پہ گڑھی اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا ، سر کا درد شدت سے بڑھا تھا ،ا س کا دل کیا وہ چیخے زور سے چیخے اپنی ساری تکلیف سارا کرب نکال باہر پھینکے۔ اس نے کوشش بھی کی پر اس کے سامنے پورا لائونج گھوم سا گیا، کانوں میں گونجتی آوازوں کی جگہ سائیں سائیں کرتی خاموشی چھا گئی ۔ اسے اپنی ناک سے گرم سیال سا گرتا محسوس ہوا ، سکوت تھا کے ہر شے پہ پھیلنے لگا جو آخری آواز اسے سنائی دی وہ ذاکرہ کی تھی جو براہوی میں کہہ رہی تھی :
”او بلا باجی !کسک گودی۔”
”بڑی باجی !گودی مر گئی۔”
عائلہ سید نے خرد کے جہاں سے بے خبر ہونے سے پہلے ذاکرہ کی بات سچ ہونے کی دعاکی تھی۔
”معید ! تمہارے بابا ؟ ”
یہ اماں کی آواز تھی جسے و ہ لاکھوں آوازوں میں آرام سے پہچان جائے۔ وہ لالا سے بابا کا کیوں پوچھ رہی تھیں ؟ بند آنکھوں مگر بے دار دماغ نے اسے سوچنے پہ مجبورکیا تھا۔
”اماں بابا نہیں آئے ۔”
یہ تھکی تھکی سی آواز اس کے پیارے لالا کی تھی۔
”وہ کہہ رہے تھے ، میں گھر پہ رہ کے دعا کروں گا۔”
”اچھا؟ ”
کیا کیا نا تھا اماں کے اس چھوٹے سے ”اچھا” میں ، خوش امیدی ،خوش گوار حیرت، خوشی اور بے یقینی۔ معیدبھی عائلہ کی طرح اپنی سادہ سی ماں کے لہجے سے ان کی سوچ تک پہنچ گیا، تو مزید بولا :
”جی !میں بھی آپ کی طرح حیران ہوا تھا ، پر پھر بابا نے کہا کہ حیران کیوں ہوتے ہو معید میں دعا کروں گا کہ عائلہ واپس … ن نہ آئے اور خدا پھر کسی کو عائلہ جیسی بیٹی نہ دے۔”
لالا کا ٹوٹا ہوا لہجہ اور بکھرے الفاظ ان کی پریشانی کی گواہی دے رہے تھے ۔
پر بابا؟ وہ تو مجھ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ، وہ ایسا کیوں کہیں گے ، وہ بھی میرے لیے ؟ عائلہ سوچ رہی تھی۔ ذہن پہ زور ڈال رہی تھی ۔ اسے کچھ بھی یاد کیوں نہیں؟
وہ شش و پنج میں مبتلا تھی کہ اس کے ہاتھ کی پشت پہ ا سے کچھ نم سا گرتا محسوس ہوا۔ وہ آنکھیں کھولنا چاہتی تھی، اپنا ہاتھ ہلانا چاہتی تھی، ا سے کسی کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں ، وہ اماں تھیں شاید ، پر وہ کیوں رو رہی تھیں؟
عائلہ حیران تھی ، وہ اُنہیں بتانا چاہتی تھی وہ ٹھیک ہے ،رونے کی ضرورت نہیں، مگر وہ لاکھ کوشش کے باوجود ایک انگلی تک نہیں ہلا پا رہی تھی ۔
اماں رو رہی تھیں ساتھ میں کچھ کہہ رہی تھیں۔ شاید کسی کو کوس رہی تھیں ، پر کسے؟
اس نے سننا چاہا ، پر وہ کوئی نام نہیں لے رہی تھیں۔ آخر کون تھا جسے اس کی اماں ، فرشتوں جیسی اماں، بددعا دے رہی تھیں؟
وہ تو دشمن کو بھی دعا دیتی تھیں ، کون تھا جو ان کے لیے دشمن سے بڑھ کے تھا؟
اپنی اُلجھن پر پہ قابو پاتے ہوئے اس نے پھر سے اماں کے بے ربط کوسنوں پہ توجہ دی ، تو اس پہ درد کا پہاڑ ٹوٹ گیا، اماں نے ”وہ”نام لے کے کوسا تھا۔
وہ نام جو اس کی ذات بن چکا تھا ، وہ نام جسے اس کا دل کرتا کوئی اور نہ لے ، اس کا نام تک وہ کسی اور کے منہ سے نہیں سننا چاہتی تھی اور اس کی ماں اسے بد دعا دے رہی تھیں۔
ایک دم اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا، اماں کو اس کا نام کیسے پتا چلا؟
وہ مر جاتی پر کبھی کسی کو اس کا نام نا بتاتی، اماں کو کس نے بتایا؟
اس کے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں سی بج رہی تھیں ، کچھ تھا جو اسے نا گہانی کی اطلا ع دے رہا تھا ۔
اچانک لالا کی آواز پہ اس کے وسوسوں کا سلسلہ ٹوٹا یا شاید اس کے خدشوں نے حقیقت کا روپ دھارا تھا ۔وہ بول رہے تھے اور عائلہ کو اپنی سانس رکتی محسوس ہو رہی تھی۔
”اماں وہ بھی بھگت رہا ہے۔”
عائلہ کو اپنا دماغ سن ہو تا محسوس ہوا۔
”ہڈیاں توڑی ہیں۔”
اس کی بند آنکھیں جلنے لگیں ۔
”خون میں لت پت۔” اس کا دل ڈوب سا گیا ۔
”بچ بھی جائے مشکل۔” عائلہ کو کمرے میں دھماکے ہوتے محسوس ہوئے۔
”ادھرہی پھینک آئے ہیں۔”
عائلہ کو شدید درد محسوس ہوا ، اپنے دل میں شاید ۔
”صبح تک کسی کو دِکھے گا بھی نہیں۔”
عائلہ کو درد شدید ہو تا محسوس ہوا ، دھماکے اور زور دار ، اب ان دھماکوں میں بہت سے مشینو ں کی ٹوں ٹوں بھی شامل ہو گئی تھی ۔
لالا شاید چیخ رہے تھے ، ڈاکٹر کو بلا رہے تھے ۔
اسے اپنا دم نکلتا محسوس ہوا اور اس کے ہونٹوں پہ اس کے دل میں سالوں سے چھپا راز آخر آپہنچا۔
اس نے سرگوشی سے کہا تھا:
”عبداللہ!”
٭…٭…٭
سمندر کنارے موجود یہ چھوٹا سا کیفے ، یوں تو روز ہی لوگوں کے ہجوم سے بھرا رہتا ، پر اتوار کے دن یہاں کی رونق ہی اور ہوتی ۔ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے جوان ، جو ٹولیوں میں ون وہیلنگ کرنے کے بعد یہاں ایک ساتھ کافی کا مزہ لینے آتے یا انہی پوش علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین، اپنی سہیلیوں کے ساتھ ، کسی مشہور برانڈ کی برائیاں اور کافی کے چسکیوں کا مزہ ایک ساتھ لیتی نظر آتیں۔ ایسے ہی کبھی کوئی بھٹکی ہوئی اولادبھی اپنے ضعیف العمر والد یا والدہ کی وہیل چیئر گھسیٹتی نظر آتی جس پہ براجمان سپاٹ چہرے والی شخصیت کو کونے میں نوکر کے حوالے کر کے خود فری وائی فائی کو استعمال کرنا اپنا فرض سمجھ کے موبائل میں گم ہو جاتے ۔ اکثر کوئی آرٹسٹ بھی دکھ جاتا جو کسی کونے میں سر جھکائے اپنی کافی پیتے یا پھر کیفے کی گلاس وال کے پار سورج اورسمندر کے ملاپ کے منظر میں گم نظر آتا ۔ غرض یہ کے یہاں کا ماحول نرالا تھا ، کوئی کچھ بھی کرے کسی کو کسی سے سر و کار نا تھا ، یہی وجہ تھی کے عائلہ سید کو بھی یہاں کا ماحول پسند آ گیا تھا ۔ اسے یہاں آتے ہفتہ ہونے والا تھا ۔ پر وہ ا س اتوار کے سحر سے نہ نکل پائی تھی ، یا یوں کہہ لیں ا س کے لفاظی کے سحر سے ، تبھی روزانہ اِ س کیفے آتی ،ا س کا انتظار کرتی اور چلی جاتی ۔ آج پورا ہفتہ ہونے کو تھا ۔ پر وہ نہ آیا ۔ عائلہ کو تو اس کا نام تک نہ پتا تھا کہ اچانک اپنی ٹیبل پہ کافی رکھتے بیرے کی شکل نے اسے چونکا دیا ، یہی تو تھا اس دن جو اس شاندار شخص سے خوش گپیاں لگا رہا تھا ۔ عائلہ کی نظر بیرے کی شرٹ پہ سجے اس کے نام کے بیج پہ گئی۔
”عمران خان سنو۔”
وہ جو کافی رکھ کے جانے کو مڑا ہی تھا کہ عائلہ کی آواز پہ چونکا۔
”عبداللہ” عائلہ نے نرمی سے اس کا نام دہرایا تھا۔
”جی باجی !عبداللہ، عبداللہ سکندر ۔ پچھلے دو سال سے ہراتوار کے دن یہاں آتے ہیں اور اسی طرح کسی بہترین کتاب کا خلاصہ دیتے ہیں۔ اکثر لوگ تو یہاں صرف ا ن کی آواز اور باتیں سننے آتے ہیں۔”
بیرا نہایت پر جوش اور عقیدت مندانہ انداز میں عائلہ سید کو عبداللہ کے بارے میں معلومات دے رہا تھا ، جنہیں وہ بڑے انہماک سے سن رہی تھی۔
”اچھا سنو!کرتے کیا ہیں تمہارے عبداللہ صاحب ؟”
عائلہ کے مزید کریدنے پہ بیرا پھر سے سادہ سے لہجے میں بولا :
”بہت پڑھے لکھے ہیں جی عبداللہ بھائی ، ایم ایس سی کیا ہے۔ بہت خود دار ہیں، اپنے بل بوتے پہ بنایا ہے خود کو ، اب بھی ایک نجی کالج میں لیکچر ار ہیں اور ساتھ میں ایم فِل کر رہے ہیں۔ بہت ذہین بندے ہیں جو بھی ایک دفعہ ان کی باتیں سن لے ، ان سے مل لے ، اگلی دفعہ ضرور آتا ہے ۔”
عائلہ نے پہلے ہی سے خم کھائی ہوئی ابرو کو تھوڑا اور تان کے عمران کے چہرے پہ جھوٹ یا خوشامد کا شائبہ ڈھونڈا ، پر ادھر صرف جوش تھا ، اس شخص کے لیے محبت تھی عقیدت تھی۔
وہ مُسکرائی اور خود کو حیرت سے تکتے اس سترہ سالہ ، سرخ و سفید رنگت والے ،معصوم ، کھرے، جذبات سجے چہرے کو دیکھا اور بولی:
”شکریہ! عمران خان ، آپ بھی دل لگا کے پڑھو ، میں دعا کروں گی ایک دن آپ بھی اپنے عبداللہ بھائی کی طرح بڑے آدمی بنو۔”
اب کے عمران خان جوش سے بولا:
آپ دیکھنا باجی ، میں بھی ایک دن ادھر کھڑے ہو کے عبداللہ بھائی کی طرح لوگوں کو ادب کی طرف مائل کروں گا۔”
اس نے اس مخصوص کونے کی طرف اشارہ کیا جہاں عبداللہ سکندر ہر اتوار کے دن کسی بہترین کتاب پر اپنا تجزیہ پیش کرتا تھا۔ اس کا مقصد نئی نسل کو ادب کی طرف راغب کرنا تھا اور وہ کسی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب بھی تھا۔
عائلہ کو اتنا اندازہ تو عمران خان کی باتوں سے ہوہی گیا تھا اور وہ اس کا عملی مظاہرہ خود بھی دیکھ چکی تھی اس دن ۔
اس دن، ہاں اس دن۔
عائلہ کو کراچی میں رہتے کئی سال ہوگئے تھے۔ بی اے کے بعد آج کل وہ فارغ تھی۔ فراغت کا وقت بھی وہ اپنے پسندیدہ مشغلے ڈیزائننگ میں ہی لگاتی تھی ۔ سارا سارا دن ذاکرہ کو ساتھ لیے ، تو کبھی اماں کے ساتھ ، کسی نا کسی شاپنگ مال میں سر کھپاتی رہتی ۔ وہ بچپن ہی سے بہت خوش لباس تھی ، یہ موروثی تھا، اس کے بابا اماں دونوں بہت خوش پوش تھے ، کچھ کچھ اُنہیں دیکھ دیکھ کے اور کچھ کچھ پیسے کی فراوانی نے عائلہ کے شوق کو اتنی ہوا دے دی تھی کے اب وہ فیشن ڈیزائننگ کی ڈگری کو ا کو اپنی زندگی کا واحد مقصد بنا چکی تھی۔ اس کی اسی ضد نے اس کے بابا کو بھی مجبورکر دیا تھا ا پنی روایات توڑنے اور اسے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دینے پہ ۔
ایک ایسا ہی عام سا دن تھا ۔ جب شاپنگ مال میں سر کھپانے کے بعد اس نے کافی کے غرض سے فوڈ کورٹ کا رخ کیا ۔ پر ادھر چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے تِل دھرنے تک کی جگہ نہ پاکے، وہ اُلٹے قدموں پارکنگ کی طرف بڑھ گئی ۔
ذاکرہ کبھی اپنا دوپٹا تو کبھی ہاتھوں میں لد ے شاپر سنبھالتی نڈھال سی اس کے پیچھے پیچھے پارکنگ کی طرف قدم بڑھا رہی تھی ۔ ذاکرہ لگ بھگ اس کی ہم عمر تھی۔ جب میر ابراہیم سید کراچی شفٹ ہو رہے تھے، اس کی ماں نے اپنے جدی پشتی کنیز ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے، اپنے جگر کے ٹوٹوں کو ان کی خدمت میں دے دیا تھا ۔ گل محمد، معید سید کا خدمت گزار قرار پایا ، جب کہ ذاکرہ اس کی۔
”سلا گودی۔” (ر کیں بی بی)
ذاکرہ کی روہانسی آواز پہ ایگزٹ کی طرف بڑھتی عائلہ مڑی۔ پیچھے ذاکرہ اس کے قدموں سے قدم ملانے کی کوشش میں سارے شاپر گرا بیٹھی تھی اورا ن سے ا مڈتے کپڑوں کے ڈھیر سمیٹتے ہوئے روہانسی آواز میں اسے پکار بیٹھی تھی ۔ ارد گرد کے لوگ ان کی طرف متوجہ تھے جن میں سے کچھ ذاکرہ کی ٹھیک ٹھاک درگت بننے کے انتظار میں تھے جو کہ عائلہ سید کے بے ساختہ کھلکھلا کے ہنسنے پہ حیران رہ گئے۔عائلہ ہنستی جاتی اور ساتھ میں ذاکرہ کو براہوی میں کہتی جاتی :
”گنوک۔” (پاگل)۔
ذاکرہ حیران دیکھ رہی تھی ، اس کی گودی کا کتنا بڑا دل ہے ۔ ایسا کسی اور کے سامان کے ساتھ کرتی تو اس کا کیا حشر ہوتا اور عائلہ تھی جو ہنس رہی تھی۔ اس نے ماتھے پہ بل تک نہ ڈالے تھے ۔ کیوں ؟
ذاکرہ کو خبر نا تھی کہ عائلہ کو اس پہ غصہ اس لیے نہیں آتاتھا کیوں کہ اس کے کانوں میں اپنے مرحوم دادا کے الفاظ آج بھی گونجتے ہیں:
”عائلے میرا بچہ! ہمیشہ یاد رکھنا ذاکرہ تمہاری غلام نہیں ، یہ تو اِن کا بڑ ا پن ہے کہ صدیوں سے خود کو سادات کی خدمت میں وقف کیا ہوا ہے جس طرح ہمارا شجرہ آقا دو جہاںۖ سے منسلک ہے، ایسے ہی ذاکرہ کا شجرہ حضرت بلال حبشی سے منسلک ہے ۔ کبھی اِ س کا یا ان کے خاندان کا دل نا د کھانا میری گودی، کیوں کہ میرے آقاۖ کے بہت پسندیدہ تھے ، حضرت بلال ۔”
اور 8سالہ عائلہ کو ذاکرہ کے گھنگریالے بال ، چپٹی ناک اور باہر کی طرف نکلے دانتوں کا راز پتا چلا تھا ۔ ا س نے اپنے دادا کی بات ہمیشہ کے لیے یاد کر لی تھی۔
اگلے ہی پل وہ ذاکرہ کے ساتھ کپڑے سمیٹ کے شاپر اٹھائے ایگزٹ کی طرف بڑھ گئی ۔
پیچھے مال میں کئی حیران آنکھیں اس کے حسن سلوک تو کئی اس کی حسین ہنسی کا تعاقب،کرتیں ایگزٹ سے باہر گئی تھیں ، جہاں گل محمد سفید پراڈو کا دروازہ کھول رہا تھا ۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی عائلہ نے گل محمد کو براہوی میں کیفے کی طرف چلنے کی ہدایات دیں۔ وہ پہلے بھی اس کیفے جا چکی تھی ۔ اس کی کافی اور ڈھلتے سورج کا سمندر کے ساتھ منظر ہی اس کی خاصیت تھے۔
کیفے پہنچ کے گل محمد نے اس کے لیے دروازہ کھولا ۔ کالی قندھاری کڑھائی والی چادر کو وقار سے اپنے گرد لپیٹتی ، میرون پرنٹڈ قمیص کے ساتھ کالی ٹرائوزر جس کے پائنچوں پہ قمیص کے پرنٹ جیسی کڑھائی، نہایت نفاست سے کی گئی تھی اور کالے سادھے ویلوٹ کے کھسے اپنے بے حد گورے پیروں میں پہنے وہ اتری تو کئی ستائشی نظریں اس پہ گڑھ سی گئیں ۔
اس نے اعتماد سے گل محمد کو گاڑی پارک کرنے کا اشارہ کیا اور خود ذاکرہ کو ساتھ لیے آگے بڑھ گئی جو اس کا برانڈڈ سادہ بلیک کلچ اٹھائے اس کے پیچھے پیچھے کیفے کی طرف چل دی ۔
عائلہ کو ہجوم کا اندازہ تھا ، مگر جیسے جیسے وہ کیفے کی انٹرنس کے نزدیک ہوتی جا رہی تھی اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اتنا ہجوم اور اتنی خاموشی؟
اسی حیرت میں گھرے وہ دروازے تک پہنچ گئی تھی۔ گارڈ نے ا س کے لیے دروازہ کھولا ۔ اس نے مُسکرا کے شکریہ کہا اور ایک بار پھر کیفے میں پھیلی خاموشی کی طرف متوجہ ہوگئی ۔ پورا کیفے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ، پر سب خاموشی سے ایک گونجتی آواز کی طرف متوجہ تھے ۔ سب کی نظروں کے تعاقب میں ا س نے نظر دوڑائی تو پلکیں جھپکنا بھول گئی۔ سفید کاٹن کی شرٹ اور گرے ڈریس پینٹ میں ملبوس ، آستینیں کہنی تک چڑھائے، گندم کے سنہرے خوشوں جیسی رنگت،چھے فٹ سے نکلتے قد والا بے حد ہینڈسم شخص تھا۔ ا س کی شخصیت میں کچھ ایسی انفرادیت تھی کہ وہ کسی سنگِ مر مر کے بت کی طرح دم سا دھے ا سے دیکھ رہی تھی ۔ ا س کے گرد کیا ہو رہا تھا کیا نہیں، ا سے کوئی سر و کار ہی نہ تھا۔ وہ کیا کہہ رہا تھا اس نے غور ہی نہ کیا ۔ بس ایک بھاری خوبصورت آواز تھی اور نرم سا لہجہ یا شاید گھنٹیاں تھیں ڈھیروں ننھی منی گھنٹیاں جو اس کے گرد ٹرانس کی سی کیفیت بنائے ہوئے تھیں۔ اس نے اتنی حسین آواز اور اتنا مکمل لب و لہجہ کبھی نہیں سنا تھا۔ اس کے دل نے شدید خواہش کی تھی کہ ایک بار بس ایک بار اچٹتی سی ہی صحیح وہ اس پہ نگاہ تو ڈالے، یہ خو اہش وہ لڑکی کر رہی تھی جس کی طرف اُٹھنے والی ہر نظر کو پابند کر دیا جاتا تھا۔
اس کے دل نے گڑگڑا کے اس کی ایک نظر مانگی تھی۔ پر ا س کی چمکتی آنکھیں اس پر ا ٹھتی ہی نہ تھیں۔ ا س کے دل نے پھر ضد کی تھی ۔ پر وہ اب شاید جانے لگا تھا ، لو گوں سے مصافحہ کرتا ، وہ مُسکرا مُسکرا کے دادسمیٹ رہا تھا۔ ا سے اپنا دل اداس ہوتا محسوس ہوا ۔ وہ جانے کے لیے دروازے کی طرف بڑھا، تو اس کا دل پھر گڑگڑایا۔
”یا اللہ ایک بار بس۔”
پر وہ نہ مڑا نہ ا س پہ نگاہ ڈالی اور چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی جیسے پورا کیفے جاگ گیا یا شاید یہ عائلہ سید کے حواس تھے جو بحال ہوئے تھے ۔ شعور کی دنیا میں آتے ہی ا س کی پہلی نظر ذاکرہ پہ پڑی جو حیران اور سوالیہ نظروں سے ا سے دیکھ رہی تھی ۔ عائلہ نے اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور خود متذبذب سی پارکنگ لاٹ کی طرف بڑھ گئی۔
یہ تھی عائلہ سید کی عبداللہ سے پہلی اور مختصر ترین ملاقات۔
اس دن سے عائلہ کی الجھن بڑھتی جا رہی تھی ، وہ تھا کہ ا س کے دماغ سے جاتا ہی نہ تھا وہ قابض تھا اس کے دل دماغ اور ہوش و حواس پہ۔
آج اگر وہ عمران خان سے اس کا نہ پوچھتی تب بھی اس نے طے کر لیا تھا کہ روز یہاں آکے اس کا انتظار کرے گی۔ ایک ہفتہ تو کیا وہ پوری زندگی اس کیفے میں اس کی ایک جھلک کے انتظار میں گزار دے۔
عائلہ گلاس وال کے پار ساحل پہ سر پٹختے سمندر کی لہروں کو دیکھ رہی تھی۔ آج وہ اکیلی آئی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ ذاکرہ یا اماں ا سے اس طرح عبداللہ کے پیچھے خوار ہوتے دیکھ کوئی غلط مطلب لیں ۔ عائلہ کوئی فیری ٹیل میں رہنے والی لڑکی نہ تھی، ا سے اچھے سے اندازہ تھا کہ محبت ا ن کے قبیلے میں مرد عورت دونوں کے لیے وہ ممنوع علاقہ تھی جس پر قدم دھرنے کی سزا موت تھی۔ پر وہ چاہتی تھی محبت کرے، وہ چاہتی تھی اس میٹھے احساس کو محسوس کرے، ا سے پتا تھا محبت کو پانا جرم تھا ، قبیلے سے بغاوت کرنا جرم تھا ، پر ا س محبت کو دل میں چھپانا تو جرم نہ تھا ۔
سمندر پہ ٹکی اس کی برائون آنکھوں میں ایک چمک ابھری تھی۔ ہاں! صرف اپنے دل میں اس کی محبت چھپا لینا کیسا جرم کیسا دھوکا؟
سید زادی ایسی محبت تو کر سکتی ہے ۔ وہ مُسکرائی اور خود کو تسلی دیتے ہوئے اپنی کافی کی طرف متوجہ ہوئی۔
”السلام و علیکم!”
عائلہ سید ٹھٹکی اس نے اِ دھر اُدھر، ا س بھاری خوبصورت آواز کے تعاقب میں حیران نظریں دوڑائیں ۔ بالکل ویسے جیسے پیاسا پانی کی تلاش میں دیکھتا ہے ۔
اپنے مخصوص کونے میں کالی شرٹ کی آستینیں کہنیوں تک فولڈ کیے، اپنے خاص انداز میں ابتدائیہ کلمات کہتا وہ عبداللہ ہی تھا۔
عائلہ کو لگا جیسے سب کچھ رک سا گیا تھا۔ کیفے کی دیوار پہ ٹنگی وہ بڑی سی کالی گھڑی، وہاں موجود بولتے لوگ، دیوار پار آتی جاتی سمندر کی لہریں، اپنی کافی میں چمچ گھماتا ا س کا ہاتھ، کافی کے کپ سے اُٹھتا دھواں ، اُس کی سانسیں ، اُس کی دھڑکن اور اُس کی آنکھیں۔ اسے اپنے ارد گرد کا ماحول تحلیل ہو تا محسوس ہوا۔ا سے لگ رہا تھا ا س کے گرد کوئی نہ تھا ، کوئی آواز نہ تھی ۔تھا تو صرف عبداللہ جو ا سے بولتے ہوئے دکھائی اور سنائی دے رہا تھا۔
عائلہ اپنی پلکیں جھپکنے سے بھی ڈر رہی تھی کہ کہیں ، عبداللہ اس کی نظروں سے دور نہ ہو جائے۔ اسے سانس لینے سے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں وہ سانس لے اور عبداللہ کی آواز آنا بند ہو جائے۔
وہ آج ایک انگلش ناول کا خلاصہ دے رہا تھا جو مولانا رومی کی ذات پہ مبنی ہے۔ وہ کچھ اقتباسات پڑھ رہا تھا، اپنی ذاتی رائے پیش کر رہا تھا۔
پورے کیفے میں ہو کا عالم تھا ، کیوں کہ جب عبداللہ بولتا، تو صرف وہی بولتا اور باقی سب سنتے۔ اس کا لب و لہجہ ، آواز ،انداز ، ہر ہر بات سے خود اعتمادی ٹپک رہی تھی۔ اس کا یہ انداز کسی کو بھی کتابوں اور ادب کی طرف راغب کر سکتے تھے پھر وہ تو عائلہ تھی جو ا س کے قدموں میں اپنا دل ، اپنا قیمتی دل ،اس کی ایک نظر کے عوض رکھنے کو تیار تھی اور خود .......