پیر بخش کے چہرے پہ زلزلے کا تاثر ابھرا- "تو یہ ۔۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے بیٹے- تجھے غلط فہمی ہوئی ہے"
"ایسا ہی ہوا ہے ابا- مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی- مارنے سے پہلے بہت دیر تک وہ مجھ سے باتیں کرتا رہا تھا"
"بیٹے ۔۔۔ اندھیرے میں تو ٹھیک سے نہیں دیکھ سکا ہو گا" پیر بخش نے ڈوبتے لہجے میں کہا-
"ابا ۔۔۔ اندھیرا نہیں تھا اور میں نے کہا نا کہ اس نے پہلے مجھ سے باتیں کی تھیں "
ییر بخش کا چہرہ ایسا پیلا ہو گیا جیسے کسی نے اس کے جسم ک اسارا خون نچوڑ لیا ہو-
"جاؤ ابا، اب اس کا خون پہ جاؤ- اس نے مجھے بلا وجہ مارا ہے-' الہیٰ بخش نے کہا- ییر بخش نے جیسے سنا ہی نہیں- وہ ابرار شاہ کی طرف مڑا
"مائی باپ، ابھی پرچہ تو نہیں کاٹا ہے آپ نے ؟"
"ابھی تو نہیں کاٹا ہے- کاٹنے والا تھا کہ تم آ گئے"
"اللہ کا شکر ہے" پیر بخش نے دل کی گہرائیوں سے کہا- "شاہ جی یہ پرچہ نہیں کاٹنا- کاٹنا تو اس میں شاہ جی کا نام نہیں درج کرنا"
"یہ کیسے ہو سکتا ہے"
"حملہ آور نا معلوم دکھا دینا۔۔۔"
"لیکن حملہ آور نا معلوم نہیں ہے" الہیٰ بخش نے احتجاج کیا "میں سلیمان شاہ کو جانتا ہوں"
"تو چپ رہ" پیر بخش نے اسے ڈپٹا- پھر وہ ییر بخش کی طرف مڑا- "صاحب جی، خدا کے لئے پرچہ نہ کاٹنا" اس نے التجا کی-
"پرچہ تو کٹے گا بڑے میاں" ابرار شاہ نے کہا "یہ سنگین معاملہ ہے"
پیر بخش تیزی سے اٹھا اور اپنی پگڑی ایس ایچ او کے قدموں میں ڈال دی "صاحب جی، میری عزت کا خیال کریں۔۔۔۔"
ابرار شاہ کے چہرے پہ حیرت تھی "آپ مجرم کو بچانے کی بات کرتے ہیں جبکہ جرم آپ کے سگے بیٹے کے خلاف ہوا ہے"
"کوئی جرم نہیں ہوا صاحب جی، یہ تو گھر کی بات ہے- آقا اور غلام کا معاملہ ہے- آقا غلامکو مارے تو یہ جرم نہیں ہوتا" پیر بخش نے کہا اور گڑگڑانے لگا- "صاحب جی، میری عاقبت بچا لو صاحب جی- حضور صہ کی اولاد کے خلاف مدعی بنوں گا تو قیامت کے دن ان کے پاؤں پکر کر شفاعت کے لئے کیسے کہوں گا صاحب جی، کیا منہ لے کر جاؤں گا صاحب جی۔۔۔۔"
ابرار شاہ سناٹے میں آ گیا- پیر بخش کے لہجے میں ایسی شدت تھی کہ وہ دہل کر رہ گیا تھا- الہیٰ بخش جو خاموشی سے یہ سب کچھ سن رہا تھا، اب چپ نہ رہ سکا- "ابا ۔۔۔ میں مر بھی سکتا تھا- جا کر ڈاکٹر سے پوچھ لو"
"لیکن تو مرا تو نہیں بیٹے، اللہ نے تجھے اسی لئے بچا لیا کہ تجھ پہ اٹھنے والا ہاتھ نبی پاک صہ کی اولاد کا تھا"
"نہیں ابا۔۔۔ نبی پاک صہ کی اولاد پر کسی انسان کا خون معاف نہیں ہے"
پیر بخش دونوں ہاتھوں سے اپنے رخسار پیٹنے لگا- "کفر مت بک- اپنے قد سے بڑی بات اچھی نہیں ہوتی، اور وہ بھی اتنی بڑی بات"
"اچھا بڑے میاں اگر تمہارا بیٹا مر جاتا تو کیا کرتے" ابرار شاہ نے پوچھا
"میں تب بھی کہتا کہپرچہ نہ کاٹیں- میں خون معاف کر دیتا"
"لیکن پرچہ تو کٹے گا بڑے میاں!"
"میں نے اپنی پگڑی آپ کے قدموں میں ڈال دی ہے صاحب جی"
"مگر تمہارا بیٹا پرچہ کٹوانا چاہتا ہے اور میں بھی مجرم کو رعایت دینے کے حق میں نہیں ہوں"
"میں اس کا باپ ہوں صاحب جی" پیر بخش نے افسردگی سے کہا"اس کی بات میری بات سے بڑی نہیں"
"آس کی بات زیادہ بڑی ہے بڑے میاں" ایس ایچ او نے سرد لہجے میں کہا- یہ مدعی ہے تم نہیں- فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہے-"
پیر بخش بے بسی کے احساس سے شل ہو کر رہ گیا- "خدا کے لئے صاحب جی"
"دیکھو بڑے میاں، میں بھی سید ہوں-" ابرار شاہ نے کہا- "یہ ملازمت میرے لئے پل صراط ہے- اور میں کسی کو رعایت دینے کا قائل نہیں- پھر یہ تو قانون کا معاملہ ہے- مدعی جو چاہے رپورٹ درج کروا سکتا ہے-"
پیر بخش الہیٰ بخش کی طرف مڑا- "دیکھ بیٹے میں تیرا باپ ہوں یکن اس معاملے میں تیرے پاؤں بھی پڑ سکتا ہوں"
"ابا، بے کار ضد نہ کرو- اسے سزا ملنی ہی چاہئے" الہیٰ بخش بولا
"اب کیا بات منوانے کے لئے اپنی پگ تیرے قدموں میں ڈالنی پڑے گی" الہیٰ بخش نے دلگرفتگی سے کہا "کاش تو مر جاتا- تب تو مدعی میں ہی ہوتا نا- کاش ایسا ہی ہوا ہوتا"
الہیٰ بخش کے جسم میں واضح طور پہ تھرتھری سی دوڑ گئی- "ٹھیک ہے ابا، میں اس کے نام کا پرچہ نہیں کٹواتا"
پیر بخش اس کی طرف بڑھا- "میں تیرا شکر گزار ہوں بیٹے۔۔۔ "اس نے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرنا چاہا لیکن بیٹے نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا- "تو مجھ سے بہت خفا ہے بیٹے اس بات پر" پیر بخش نے افسردگی سے کہا- "لیکن حشر کے دن تو سرخرو ہو گا بیٹے- تب میری بات تیری سمجھ میں آئے گی"
ابرار شاہ اپنی آنکھوں کی نمی چھپانے کی کوشش کر رہا تھا- "ٹھیک ہے بڑے میاں تم جیت گئے" اس نے کہا "لیکن اس سید زادے کو ایک سبق تو میں نے دے ہی دیا ہے- عزت کا سبق جو صرف بے عزتی سے ملتا ہے- ابھی وہ ہتھکڑیاں لگائے ہوئے یہاں آئے گا اور راستے میں سب اس کا تماشا دیکھیں گے-"
یہ سن کر پیر بخش کا چہرہ فق ہو گیا- "یہ آپ کیا کیا باجی!" اس نے تڑپ کر کہا "ہم گنھگار تو کہیں کے نہیں رہے-" اس نے ملامت آمیز نظروں سے بیٹے کو دیکھا- "سچ ہے کہ اولاد سب سے بڑی آزمائش ہوتی ہے- اولاد آدمی کو جنم رسید بھی کرا دیتی ہے" یہ کہہ کر وہ تیزی سے کمرے سے چلا گیا-
اس کے جانے کے بعد ابرار شاہ نے حیرت سے کہا- "تمہارا باپ اس دنیا کا آدمی تو نہیں لگتا"
"ابا کا خیال ہے کہمیں اس کا بیٹا نہیں- کسی نے بدل دیا تھا مجھے" الہیٰ بخش نے تلخی سے کہا-
پیر بخش ہانپتا کانپتا ناڑی کے کچے راستے پر چلا جا رہا تھا- اسے کچھ ہوش نہیں تھا اسئ لگ رہا تھا کہ کوئی اس کا دل مٹھی میں لے کر بھینچ رہا ہے- اس کے ہونٹوں پر بس ایک دعا تھی- سلیمان شاہ کی رسوائی سے پہلے وہ اس تک پہنچ جائے- اس کا ہتھکڑیوں والا تماشا نہ شروع ہوا ہو-
لیکن دعائیں ایسے کہاں قبول ہوتی ہیں-
اسے دور سے پولیس والوں کے ساتھ سلیمان شاہ آتا دکھائی دیا- ایک پولیس والا آگے چل رہا تھا- دو اس کے دائیں بائیں تھے-
پیر بخش کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا- اس پر لرزہ طاری ہو گیا- اسے لگا کہ سامنے کربلا ہے اور وہ بدعہد کوفی ہے جس نے نبی صہ کے چہیتے نواسے کو پیاس کے صحرا میں دھکیل دیا ہے- اس کے دل میں بس ایک خیال تھا کہ قیامت کے دن وہ کس منہ سے حضور صہ کے حضور پیش ہو گا- آپ صہ پوچھیں گے تو کیا جواب دے گا-
وہ بے تاب ہو کر ایسا دوڑا کہ زندگی میں کبھی نہیں دوڑا تھا- وہ ان کے پاس پہنچ کر رکا اور بے تابانہ سلیمان شاہ کے ہتھکڑی لگے ہاتھ چومنے لگا- "باجی میرے سرکار، آپ کو آپ کے بزرگو کی قسم ہمیں معاف کر دینا"
سلیمان شاہ کا بے تاثر چہرہ پتھر کابنا ہوا معلوم ہو رہا تھا- اسے جیسے گرد و پیش کا ہوش ہی نہیں تھا- توہین اور بے عزتی کے احساس نے اسے شل کر کے رکھ دیا تھا-
"مجھے پتا نہیں تھا شاہ جی، ورنہ یہ سب کچھ نہ ہوتا- وہ میرا بد نصیب بیٹا کچھ نہیں جانتا- اس نے اپنی عاقبت بھی خراب کی اور میری بھی۔۔۔۔"
اچانک سلیمان شاہ جیسے کسی سحر سے آزاد ہو گیا "نہیں چاچا پیر بخش، غلطی میری تھی الہیٰ بخش کی نہیں" اس نے شرمساری سے کہا- "میں سزا کا مستحق ہوں- مجھے سزا ملنی چاہئے- میں نے ظلم کیاہے- میری آنکھوں پر پٹی پڑ گئی تھی"
"نہیں باجی، پٹی تو میرے بیٹے کی عقل پر پڑی تھی"
"او بابا جی ہٹو ایک طرف" آگے چلنے والے نوروز خان نے ڈپٹ کر کہا- "ہمیں تھانے پہنچنا ہے"-
"ہٹتا ہوں- آپ ان کی ہتھکڑیاں تو کھول دو"
"دماغ خراب ہوا ہے" نوروز خان بگڑ گیا- تھانے دار صاحب کا حکم ہے، ہتھکڑیاں تو اب وہی کھول سکتے ہیں- ہٹ جا بابا"
"کیوں گناہ کماتے ہو حوالدار- ان کے ہاتھ کھول دو- یہ بھاگنے والے نہیں- میں ضمانت دیتا ہوں ان کی-"
"لو ضمانت لینے والے کو تو دیکھو ذرا" نوروز خان نے حقارت سے کہا-
"میرا حق ہے یہ-" پیر بخش کا لہجہ بدل گیا- "جس سے ان کا جھگڑا ہوا ہے وہ میرا ہی بیٹا ہے"
نوروز خان کا منہ حیرت سے کھل گیا- - -
نوروز خان کا منہ حیرت سے کھل گیا- وہ ہتھکڑیاں کھول دیتا لیکن جانتا تھا کہ ابرار شاہ کتنا سخت اور اصول پرست آدمی ہے- چنانچہ اس نے نرم لہجے میں کہا "بابا جی، یہ میرے اختیار سے باہر ہے مجھے معافی دو"
"اچھا۔۔۔ چلو ہتھکڑیاں مجھے لگا دو" پیر بخش بولا
"او بابا، جان چھوڑ دو میری- میں مجبور ہوں، تھانے دار تو مجھے جان سے مار دے گا"
"باجی کے ہتھکڑیاں لگی رہیں گی تو میں اپنی جان دے دوں گا" یہ کہہ کر پیر بخش نے زمین سے سر ٹکرانا شروع کر دیا- تینوں کانسٹیبل بوکھلائے ہوئے اسے دیکھتے رہے- سلیمان شاہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس پر تو جیسے جنون طاری ہو گیا تھا- دیکھتے ہی دیکھتے اس کی پیشانی سے خون نکلنے لگا-
"کھول دو یار- اب جو ہو گا دیکھا جائے گا" نوروز خان نے اپنے ساتھیوں سے بے بسی سے کہا- پھر وہ پیر بخش کی طرف مڑا "چل اٹھ جا بابا"
-------------------٭----------------
راضی نامہ ہو چکا تھا- الہیٰ بخش اور اس کا باپ جا چکے تھے- راضی نامہ مکمل طور پر یکطرفہ تھا- ابرار شاہ نے کوشش کی تھی کہ الہیٰ بخش کا دوا دارو کا خرچہ سلیمان شاہ برداشت کرے اور اس کے علاوہ بھی کچھ نقد رقم دے- لیکن پیر بخش نے انکار کر دیا- الہیٰ بخش یہ کہہ کر الگ ہو گیا کہ اس نے معاملہ باپ پہ چھوڑ دیا ہے-
"چچا اب میں جاؤں" سلیمان شاہ نے ابرار شاہ سے پوچھا-
"ذرا بیٹھو مجے تم سے ایک بات کرنی ہے" ابرار شاہ نے کہا-
جب سے سلیمان شاہ تھانے آیا تھا مسلسل کھڑا تھا- ابرار شاہ نے اسے بیٹھنے نہیں دیا تھا- یہی نہیں، اس نے ابرار شاہ کو چچا کہہ کر پکارا تو اسے ڈانٹ سننا پڑی تھی- ابرار شاہ نے ساف کہہ دیا تھا کہ رشتے داری گھر میں ہوتی ہے تھانے میں نہیں- یہاں وہ ایس ایچ او ہے اور وہ ملزم ہے-
سو اب سلیمان شاہ بیٹھتے ہوئے ہچکچا رہا تھا- ابرار شاہ نے کہا " بیٹھ جاؤ سلیمان- اس وقت تم ملزم نہیں ہو، میرے چھوٹے ہو- مجھے تم کو کچھ سمجھانا ہے"
سلیمان شاہ بیٹھ گیا-
"تمہیں اندازہ ہے تم کتنی بڑی مصیبت میں پھنس گئے تھے"
"جی چچا میں جانتا ہوں"
"یہ دفعہ 307 کا کیس تھا اورمیں پرچہ کاٹ دیتا- تمہاری جگہ میرا بیٹا ہوتا تو میں اس کے ساتھ بھی رعایت نہ کرتا"
"جانتا ہوں چچا- اور مجھے آپ پر فخر ہے- میرے دل میں آپ کی عزت اور بڑھ گئی ہے"
"میں تمہیں یہ سمجھانا چاہتا ہوں بیٹے کہ یہ لوگ آل رسول صہ ہونے کے ناطے ہمارا احترام کرتے ہین تو یہ ہم پر بھی فرض ہے- ہمیں خود کو محترم بنانا چاہئے- اچھی صفات پیدا کرنی چاہئیں- اور عقیدت مندوں کی عزت مندوں کی عزت بھی کرنی چاہئیے- میں جانتا ہوں تم اچھے کردار کے لڑکے ہو- کوئی برائی نہیں تم میں- پھر بھی ۔۔۔ "
'چچا آپ یقین کریں میں ابتدا ہی سے شرمندہ ہوں- اور میں چاہتا ہوں کہ مجھے اپنے کئے کی سزا ملے"
"جانتے ہو تم سے غلطی کیوں ہوئی"
"چچا میں بے ایمانوں کے اکسائے میں آ گیا تھا"
"اور اس کا سبب یہ ہے کہ تمہیں اپنے نام و نسبت پر غرور ہے- گھمنڈ ہے اور یہ دنیا کی بدترین چیز ہے- اللہ کو سب سے زیادہ نا پسند ہے- آدمی غرور کس چیز پر کرے جبکہ سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے- اسی لئے تو سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں- اس کی دی ہوئئ عزت پہ گھمنڈ کرنا چھوڑ دو- اچھے اور مثالی انسان بنو- اس لئے کہ یہ عزت کرنے والے عقیدت مند ہم سے یہی توقع کرتے ہیں- مجھے امید ہے کہ آئندہ تم کبھی اس حیثیت میں یہاں نہیں آؤ گے"
"چچا انشاللہ ایسا ہی ہو گا"
--------------------٭ـ-----------------
یہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ جرگہ کس نے بلایا- گاؤں میں سادات کی اکثریت تھی- سارے بڑے اکٹھے ہوئے- مسلئہ وہی تھا، الہیٰ بخش کے ساتھ سلیمان شاہ کی زیادتی-
"میں مانتا ہوں کہ سلیمان نے بہت زیادتی کی ہے" سلیمان شاہ کے باپ عرفا شاہ نے کہا "سلیمان خود بھی بہت شرمندہ ہے"
سب لوگ سلیمان کی طرف متوجہ ہو گئے "یہ سچ ہے بزرگو، مجھے شروع میں ہی احساس ہو گیا تھا- میں تو معافی مانگنے والا تھا لیکن چاچا پیر بخش نے روک دیا"
"چلو یہ بڑی اچھی بات ہے کہ تمہیں غلطی کا احساس ہو گیا" گاؤں کے سب سے بڑے افسر شاہ نے کہا "اور غلطی پر معافی مانگنے میں بڑائی بھی ہے لیکن بیٹا صرف معافی سے کچھ نہیں ہوتا- تلافی بھی ضرور ہے"
"میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا دادا!" سلیمان شاہ نے کہا
"پیر بخش نے پرچہ نہیں کٹنے دیا- ورنہ کچہری کے چکر لگتے- پیسہ الگ خرچ ہوتا، اور ہو سکتا ہے تمہیں سزا بھی ہوجاتی- پھر اس نے تمہیں زبانی معافی تک نہیں مانگنے دی- راضی نامہ ہونے کا صلہ بھی نہیں لیا"
ہاں جی، شاہ صاحب ٹھیک کہتے ہیں" کسی نے تائید کی-
'اور الہیٰ بخش نے یہ سب کچھ تمہارے لئے نہیں کیا" افسر شاہ نے مزید کہا "تم جانتے ہو کہ کس حوالے سے اس نے تمہاری عزت کی ہے- ورنہ تم کیا ہو- اور یہ بھی سن لو کہ اس نے صرف تم پر احسان نہیں کیا- ہم سب پر کیا ہے اور ہمیں اس کا صلہ دینا چاہئے اسے"
"آپ حکم کریں دادا!" سلیمان شاہ نے کہا- —
آپ حکم کریں دادا" سلیمان شاہ نے کہا-
"میں چاہتا ہوں کہ تم اسے پچاس روپے دو- پچاس روپے ہم سب اسے اکٹھے کر کے دیں گے- اور جو بھی جس کی توفیق ہو گی وہ اسے دے گا- ہم سب الہیٰ بخش کی عیادت کو جائیں گے اور اسے دیں گے-"
سلیمان شاہ سوچ میں پڑ گیا- پچاس روپے چھوٹی رقم نہیں تھی- پھر بولا "آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن اس وقت میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے- مجھے پیسے دس دن بعد ملیں گے"
"میں تمہیں قرض دوں گا- دس دن بعد واپس دے دینا" افسر شاہ نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا- پھر وہ دوسروں کی طرف مڑے- "آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟"
سب متفق تھے- بات طے پا گئی-
پیر بخش کو اطلاع مل گئی کہ سادات کا جرگہ اس کے گھر آ رہا ہے- اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے- اس نے بیوی کو بتایا، بیٹوں سے پاہر چھڑکاؤ کر کے چارپائیاں باہر لگانے کو کہا- اور خود ان کے استقبال کے لئے دوڑ گیا-
جرگہ گاؤں کی حدود میں داخل ہی ہوا تھا کہ پیر بخش وہاں پہنچ گیا- اس نے سب کی دست بوسی کی اور افسر شاہ کے قدموں میں بیٹھ گیا- "سرکار۔۔۔ مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے؟" اس نے لجاجت سے پوچھا-
'تمہیں یہ خیال کیوں آیا پیر بخش؟"
"آپ لوگوں نے کیوں تکلیف کی- مجھے حکم کیا ہوتا میں خود حاضر ہو جاتا"
"لیکن آنا تو ہمیں ہی تھا پیر بخش" افسر شاہ بولے-
"مجھے کیوں گناہگار کیا باجی"
"ہم تمہارے بیٹے کی مزاج پرسی کو آئے ہیں "
"مجھے کہلوایا ہوتا- میں اسے خود آپ کے پاس لے آتا"
"عیادت گھر جا کر کی جاتی ہے پیر بخش- گھر بلوا کر نہیں کی جاتی" افسر شاہ نے نرم لہجے میں کہا "اور یہ نبی کریم صہ کی سنت ہے"
ی سن کر پیر بخش گنگ ہو کر رہ گیا- وہ بڑے احترام سے انہیں گھر لایا- وہاں دوسرے بیٹے الہیٰ بخش کو باہر لے آئے تھے- الہیٰ بخش بھی ان کی پیشوائی کو آگے بڑھا اور دست بوسی چاہی- "الہیٰ بخش تم سکون سے چارپائی پر بیٹھ جاؤ، تم بیمار ہو" افسر شاہ نے نرمی سے کہا
"الہیٰ بخش نے بے بسی سے باپ کی طرف دیکھا اور بولا "آپ کے سامنے میں یہ گستاخی کیسے کر سکتا ہوں"
'یہ ہمارا حکم ہے - ہمارا احترام کرتے ہو تو یہ بھی ماننا پڑے گا"
پیر بخش کے چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگیں، ادہر الہیٰ بخش مستفسرانہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا- "باجی سرکار اسے اس پر مجبور نہ کریں" وہ گڑگڑایا-
"یہ تو تمہارے احترام کی آزمائش ہے" افسر شاہ نے کہا اور الہیٰ بخش کا ہاتھ تھام کر اسے چارپائی کی طرف لے گئے- "چلو بیٹھو" وہ اس کے بیٹھنے کے بعد اس کے ساتھ ہی چارپائی پر بیٹھے- "اب بتاؤ طبعیت کیسی ہے"
سب نے الہیٰ بخش کی مزاج پرسی کی- پھر اپنی لائی ہوئی چیزیں اسے دیں- ان میں چار مرغیاں، ڈیڈھ درجن انڈے اور کچھ گھی مکھن تھا- پیر بخش نے بہت حجت کی- لیکن وہ چیزیں اسے لینا پڑیں- البتہ پیسوں کے معاملے میں وہ اڑ گیا- "یہ ضد نہ کریں سرکار ورنہ میں جان دے دوں گا" اس نے کہا- پیسے اس نے قبول نہیں کئے- مگر ایک اور سخت مرحلہ اس کا منتظر تھا- سلیماں شاہ نے الہیٰ بخش سے کہا "میں دل کی گہرائیوں سے تم شرمندہ ہوں اور تم سے معافی چاہتا ہوں الہیٰ بخش"
اس وقت پیر بخش کا جی چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے-
باجی لوگوں کے جانے کے بعد پیر بخش نے اس سے کہا "یہ سب تیری وجہ سے ہوا ہے بیٹے ہم بہت گناہگار ہو گئے ہیں-"
"ابا مجھے معاف کر دو ۔۔۔۔ مرنا میرے اختیار میں تو نہیں تھا-" الہیٰ بخش نے تلخ لہجے میں کہا- اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ یہاں نہیں رہے گا- کراچی چلا جائے گا-
---------------------٭-----------------
"تو یہ ہے اس زخم کی کہانی" شیخ صاحب نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا-
"جی سر، خوامخواہ آپ کا وقت ضائع ہوا-" الہیٰ بخش نے نظریں اٹھا کر دیکھا- وہ اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے-"میں وقت کبھی ضائع نہیں کرتا الہیٰ بخش!' انہوں نے سنجیدگی سے کہا "میرا وقت بہت قیمتی ہے"
"جی سر"
"اچھا، اب تم جا کر آرام کرو- کل صبح نو بجے ٹرائی کے لئے تیار رہنا- پھر پرسوں سے تمہاری ڈیوٹی سعدیہ کے ساتھ ہو گی- گڈ نائٹ"
"گڈ نائٹ" الہیٰ بخش کو عجیب سا لگا- یہ لفظ اس نے پہلی مرتبہ بولا تھا
----------------------٭-----------------
وہ الہیٰ بخش کی زندگی کا یادگار ترین دن تھا- جب وہ پہلی بار سادی کوکالج چھوڑنے گیا-
اس صبح وہ معمول کے مطابق سویرے اٹھا- فجر کی نماز ادا کر کے وہ باغیچے میں آ گیا- وہ بہت حسین صبح تھی ۔۔۔۔ یا اسے حسین لگ رہی تھی- گھاس پر ننگے پاؤں چلتے ہوئے اسے اپنے اندر روشنی اترتی ہوئی محسوس ہوئی- وہ گہری گہری سانسوں کے ساتھ پھیپھڑوں میں خوشبو سے مہکتی ہوا کو اتارتا رہا-
ساڑھے چھھ بجے وہ اٹھا اور اپنے کوارٹر میں چلا گیا- کپڑے بدل کر، تیار ہو کے وہ باہر آیا تو نئی چمکتی کار کو اور چمکانے میں مصروف ہو گیا- چمکانا کیا، در حقیقت وہ اسے پیار سے سہلا رہا تھا- قسمت کی بات ہے، اسے باقاعدہ چلانے کو یہ پہلی کار ملی تھی ۔۔۔۔ بالکل نئی چمچماتی کار!
اسے بتایا گیا تھا کہ سادی ساڑھے سات بجے آیا کرے گی- لیکن وہ پہلا دن تھا- شاید اس لئے وہ سوا سات بجے ہی آ گئی- شیخ صاحب اور بیگم صاحبہ اس کے ساتھ تھے- "تم تیار ہو؟ شیخ صاحب نے الہیٰ بخش سے پوچھا-
"جی سر جی!"
اس کے لئے یونیفارم کا بھی بندوبست کرو" بیگم صاحبہ نے اسے کڑی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا "ڈرائیور کو ڈرائیور ہی نظرآنا چاہئے"
"سادی چاہے گی تو یہ بھی ہو جاۓ گا" شیخ ساحب بولے-
"نہیں پاپا، اس کی ضرورت نہین" سادی نے کہا "میں تماشا نہین بننا چاہتی"
"آس میں تماشے کی کیا بات ہے" بیگم صاحبہ کامنہ بن گیا "اس سے تو شان کا پتا چلتا ہے"
"مجھے نہیں چاہئے ایسی شان" سادی نے جھنجلا کر کہا-
بیگم صاحبہ اسے نظر انداز کر کے الہیٰ بخش کی طرف متوجہ ہو گئیں- "گاڑی احتیاط سے چلانا- پتا نہیں، تمہین چلانی آتی بھی ہے یا نہیں"
شیخ صاحب کا چہرہ تمتما اٹھا " میں کل ٹرائی لے چکا ہوں- یہ بہت اچھی ڈرائیو کرتا ہے"
"آپ کی ڈرائیو کا مجھے تو اعتبار نہین- پینٹ کرنے والے کو ڈرائیور رکھ لیا"
الہیٰ بخش کا چہرہ تپنے لگا- اسے احساس ہو گیا کہ بغیر کسی وجہ سے بیگم صاحبہ اس سے چڑتی ہیں اور وہ وہاں زیادہ عرصہ کام نہیں کر سکے گا- اس نے دھیرے سے کہا "سر۔۔۔۔ بیگم صاحبہ مجھ سے مطمئن نہیں تو۔۔۔۔"
شیخ صاحب نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا- پھر وہ رخسانہ بیگم صاحبہ کی طرف مڑے-
"آپ کو پریشانی کیا ہے"
"کار نئی ہے، آپ بہت بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں"
"میرے لئے پرانی بیٹی، نئی کار سے زیادہ اہم ہے- میں اس معاملے میں کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا- آپ بے فکر رہیں- میں پوری طرح مطمئن ہوں"
"آپ صرف احسان اتارنے کی خاطر ۔۔۔۔ "
اس بار شیخ صاحب کا تحمل جواب دے گیا "بس رخسانہ بیگم!' انہوں نے بلند آواز میں کہا "آپ میری نرمی سے فائدہ نہ اٹھائیں- اب میں ایک لفظ بھی نہیں سنوں گا"
"جہنم میں جائیں" رخسانہ بیگم نے پاؤں پٹختے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گئیں-
شیخ صاحب نے کندھے جھٹکے اور الہیٰ بخش سے بولے "بیگم صاحبہ کی باتوں کی مائنڈ نہ کرنا- میں بھی نہیں کرتا- برداشت تو کرنا پڑتا ہے"
"میں کیا مائنڈ کروں گا سر، بے حیثیت آدمی ہوں"
"شیخ صاحب نے گھڑی میں وقت دیکھا- انہوں نے سعدیہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا "وقت ہو گیا ۔۔۔ جاؤ بیٹی خدا حافظ"
الہیٰ بخش نے پچھلا دروازہ کھولا اور سادی کے بیٹھنے کے بعد اسے بند کر دیا- پھر وہ گھوم کر اگلے دروازے کی طرف آیا-
"خدا حافظ پاپا" سادی نے کہا-
------------------٭------------------
وہ خوشبو کا پہلا سفر تھا!
الہیٰ بخش گاڑی کو باہر سڑک پہ لے آیا تھا- اس نے بیک ویو مرر میں دیکھا- وہاں سادی نہیں تھی- الہیٰ بخش نے عقب نما آئینے کو درست کر کے ایسی پوزیشن میں لانے کی کوشش بھی نہیں کی کہ اس میں سادی نظر آئے- اس کے لئے اتنا ہی بہت کافی تھا کہ وہ گاڑی میں اس کے ساتھ تھی-
سادی اس کی رہنمائی کر رہی تھی- وہ اس کی ہدایت کے مطابق گاڑی چلا رہا تھا- اس کی خوشبو اس کی روح سے باتیں کر رہی تھی- کوئی بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد سادی نے کالج کے گیٹ کے سامنے گاڑی رکوا دی-
"تم ایک مجھے لینے کے لئے آ جانا" سادی نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا-
"بی بی ایک بات بتائیں گی"
"میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ میں سعدیہ ہوں- تم مجھے سادی کہہ سکتے ہو"
"میں ۔۔۔ نہیں بی بی- یہ مجھ سے نہین ہو گا"
"تو چلو، اپنی بات بھی رکھ لو اور میری بھی- تم مجھے سادی بی بی کہہ لیا کرو"
"یہ ٹھیک ہے سادی بی بی"
"اب پوچھو کیا بات ہے"
"یہ علاقہ کونسا ہے سادی بی بی۔ اس کا نام کیا ہے"
"یہ فرئیر روڈ ہے"
"ٹھیک ہے جی- وہ میں پہلی بار اس طرف آیا ہوں"
"تم فکر نہ کرو-میں تمہیں پورا شہر دکھا دوں گی- اب مین جاؤں؟"
الہیٰ بخش نے حیرت ست اسے دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔
.عشق کا عین از علیم الحق حقی
قسط نمبر15
الہیٰ بخش نے اسے حیرت سے دیکھا- وہ اس سے اجازت مانگ رہی تھی یا اس کا مزاق اڑا رہی تھی- لیکن اس کے چہرے پہ کوئی ایسا تاثر نہین تھا- وہ جواب طلب نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی- "خدا حافظ سادی بی بی"
"میری چھٹی ایک بجے ہوتی ہے- لیکن کبھی دیر ہونے لگے تمہیں تو تیز ڈرائیو نہ کرنا- میں پانچ دس منٹ انتطار بھی کر سکتی ہوں "
"جی سادی بی بی"
"اچھا۔۔۔ خدا حافظ"
الہیٰ بخش اسے گیٹ کی طرف جاتے دیکھتا رہا- کتنی پیاری لڑکی تھی وہ ۔۔۔۔ کتنی مٹھاس تھی اس کے لہجے میں اور کتنی اپنائیت ۔۔۔ لوگ نوکروں سے ایسے بات تو نہیں کرتے- اسے ذرا بھی غرور نہین ہے- کاش ۔۔۔۔۔۔۔ یہ لڑکی ایبٹ آباد کے کسی غریب گھرانے کی ہوتی- اسے اس کی کتنی فکر تھی کہ تیز ڈرائیونگ کو منع کر رہی تھی- کون جانے، اسے ڈرائیور کی فکر ہے یا اپنی نئی کار کی-
اس کے اندر سے کسی نے کہا- اس سے آگے اس سے سوچا نہین گیا- اس نے خود کو یاد دلایا کہ سادی اس کے لئے نہیں ہے- ہے تو اس حد تک کہ وہ اس کی خوشبو سے باتیں کر سکتا ہے- اس کی قربت پر خوش ہو سکتا ہے- اس سے آگے تو اس خواب دیکھنے کا حق بھی نہین-
وہ اسی راستے سے واپس آ گیا، جس سے سادی اسے لائی تھی-
ٹھیک ایک بجے وہ کالج پہنچ گیا- سادی گاڑی می آ بیٹھی- راستے میں ان کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی-
اگلا روز ذرا مختلف تھا- سادی ساڑھے سات بجے اکیلی باہر آئی- الہیٰ بخش گاڑی صاف کر رہا تھا "گڈ مارننگ الہیٰ بخش" سادی نے کہا- الہیٰ بخش تھوڑا حیران ہوا- پھر اس نے بھی جواب میں گڈ مارننگ سادی بی بی کہا- اس دن کے بعد یہ معمول میں شامل ہو گیا-
سادی گاڑی میں بیٹھ گئی تو الہیٰ بخش ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا "چلیں سادی بی بی"
اس نے کہا اور بلا ارادہ نظریں اٹھائیں- لیکن آئینے میں سادی کا وکس دیکھ کر وہ ہڑبڑا گیا- سادی اسے ہی دیکھ رہی تھی-
یہ کیا؟ اس نے سوچا- پہلے تو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا- عقب نما شیشے کی پوزیشن تو بالکل کل والی تھی- البتہ سادی اس بار دوسرے کونے مین یٹھی تھی- الہیٰ بخش کی نظریں جھک گئیں-
"چلو الہیٰ بخش" سادی نے آہستہ سے کہا-
الہیٰ بخش نے گاڑی سٹارٹ کی اور آگے بڑھا دی-
اس روز الہیٰ بخش نے جب بھی نظریں اٹھا کر عقب نما آئینے میں دیکھا، سادی کو کھڑکی سے باہر ہی دیکھتے پایا- لیکن ہر بار اسے یہ احساس ہوا کہ اس سے پہلے سادی عقب نما ہی میں دیکھ رہی تھی اور اس کی نظریں اٹھتے دیکھ کر اس نے سر گھما لیا ہے-
پھر اچانک سادی نے پوچھا "یہ تم بیک ویو مرر میں کیا دیکھتے ہو"
الہیٰ بخش بوکھلا گیا "ج ۔۔۔۔۔جی ۔۔۔۔۔۔ کک ۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہین"
"پھر بھی کچھ تو ہو گا"
"بس اتفاق سے نظر اٹھ جاتی ہے" الہیٰ بخش نے معذرت خواہانہ لہجے می کہا "ورنہ میں تو اس شیشے کو دیکھتا ہی نہین"
"یہ تو بہت بری بات ہے- پھر تم اچھے ڈرائیور تو نہیں ہو سکتے"
"میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا، سادی بی بی"
"گاڑی میں یہ شیشہ لگا ہت تو اس کا کوئی مقصد، کوئی استعمال بھی تو ہو گا- یہ آرائش کے لئے تو نہیں نا!"
"ہاں جی، اس سے ڈرائیور پیچھے دیکھتا ہے، اس پر نظر رکھتا ہے"
"پر تم تو پیچھے کے ٹریفک پر نظر نہین رکھتے"
"یہ کیسے ممکن ہے سادی بی بی۔ پیچھے کے ٹریفک پر نظر نہ رکھو تو کسی بھی وقت کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے"
"تو جب میں نے پوچھا تھا کہ تم اس شیشے میں کیا دیکھتے ہو تو تم نے کہا تھا کہ کچھ نہیں دیکھتے" سادی نے شوخ لہجے میں کہا-
اس بار الہیٰ بخش بری طرح گڑبڑا گیا- "وہ جی سادی بی بی، میں آپ کی بات سمجھا ہی نہین تھا"
"میں تو یہ کہہ رہی تھی کہ تم اس شیشیے کو بھی دیکھتے رہا کرو- میں نہیں چاہتی کہ کوئی حادثہ ہو"
"آپ بے فکر رہیں سادی بی بی"
"اس روز سادی کو کالج چھوڑ کر کوٹھی واپس آتے ہوئے الہیٰ بخش اسی گفتگو پر سوچتا رہا- اب وہ اس شیشے میں سادی کو دیکھ سکتا تھا- اسے پیچھے کے ٹریفک پہ جو نظر رکھنی تھی-
---------------------٭--------------------
خوشبو کے اس سفر میں دن پر لگا کر اڑتے رہے!
اب وہ خاموشی میں نہیں ہوتا تھا- ان ے درمیان یکطرفہ بے تکلفی اور یکطرفہ گفتگو کا رشتہ قائم ہو گیا تھا- یکطرفہ اس لئے کہ الہیٰ بخش کے پاس کہنے کو کچھ تھا نہ پوچھنے کو- اس کی فطرت میں تجسس تو بہت تھا- لیکن اس نے اس پر قابو پانے کا طریقہ جان لیا تھا- یہ تو اسی وقت ہو گیا تھا، جب باپ اسے عشق کی تلقین کیاکرتا تھا اور وہ مزاحمت کرتا تھا- بات کچھ یوں ہے کہ عشق احترام سکھاتا اور تجسس احترام سے روکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
بات کچھ یوں ہے کہ عشق احترام سکھاتا ہے اور احترام تجسس سے روکتا ہے-
چنانچہ سادی سوال کرتی رہتی تھی اور وہ جواب دیتا تھا- سوالاتا سے اندازہ ہوتا تھا کہ سادی کو اس کے بارے میں تجسس بہت ہے- وہ اس سے اس کے شہر اس کے گاؤں کے بارے میں پوچھتی، ان کے رہن سہن، ان کے رسم و رواج کے بارے میں سوال کرتی- اس کے لئے وہ جیسے پریوں کا دیس تھا- بہت سی باتوں پر اسے یقین نہ آیا- خاص طور پر وہاں کے معاشرے میں عورت کا جو مقام اور کردار تھا وہ اسے اداس کر دیتا- دوسری طرف وہ اس علاقے کے قدرتی حسن کے متعلق سن کر بہت خوش ہوتی-
'ہائے وہ تو سچ مچ خوابوں کی سر زمین ہے-" وہ گہری سانس لے کر کہتی- "کاش ۔۔۔۔۔ میں بھی کسی ایسی جگہ رہ سکتی"
الہیٰ بخش کی سمجھ میں نہ آتا کہ یہ خوابوں کی سر زمین کا کیا مطلب ہے- وہ ایبٹ آباد میں پیدا ہوا تھا- اس نے آنکھیں ہی اس خوبصورتی میں کھولی تھیں- اس کے لئے وہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی- اسے تو کراچی زیادہ اچھا لگتا تھا- "وہاں رہنا آسان نہیں ہے سادی بی بی!" اس نے کہا-
"کیا مطلب؟"
"وہاں کی زندگی رومینٹک بہت ہے" الہیٰ بخش نے پچھلے حوالے سے کہا-
"مین اب بھی نہیں سمجھی"
"وہاں روزگار نہیں ہے- اسی لئے تو ہم لوگ یہاں فٹ پاتھ پر بیٹھنے کو اپنے گھر پر ترجیح دیتے ہیں- وہاں کی ہماری زندگی یہاں کی زندگی سے بھی زیادہ رومینٹک ہے"
سادی کو وہ حوالہ یاد آ گیا اور وہ شرمندہ ہو گئی- "تمہیں اس دن بری لگی تھی میری بات"
"نہیں سادی بی بی مجھے تو اچھا لگا تھا- مگر میں نے یہ ضرور سوچا تھا کہ آپ وہ زندگی خود گزاریں، تب بھی وہ آپ کو رومینٹک لگے گی؟"
"بہت مشکل سوال ہے- شاید کسی دن مین تمہیں اس کا جواب دے سکوں" سادی نے کہا اور پھر گفتگو کا رخ بدلا- " اتنا خوبصورت علاقہ ہے تمہارا- اس کی وجہ سے کم از کم بہت بڑی بچت ہوتی ہوگی"
"کیسی بچت سادی بی بی"
"تمہاری شادی ہو گئی تو ہنی مون پر تمہارا زیادہ خرچہ نہیں ہو گا"
"ہنی مون- یہ کیا ہوتا ہے؟"
سادی ہنی مون کے متعلق سمجھانے لگی-
"ہمارے یہاں یہ بھی نہیں ہوتا-" الہیٰ بخش نے اس کی بات سننے کے بعد سادگی سے کہا "ہمارے ہاں تو میاں بیوی ساتھ بھی نہیں بیٹھتے کبھی- خود میں نے ابا اور اماں کی کبھی ایک ساتھ بیٹھے نہیں دیکھا"
سادی بھونچکا رہ گئی "کیوں بھئی؟"
"ہمارے ہاں شرم و لھاظ بہت ہے- کنبے کا کنبہ ساتھ رہتا ہے- لحاظ رکھنا پڑتا ہے- ورنہ لوگ بے شرم کہتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا"
"یہ تو کوئی اچھی بات نہیں" سادی نے کہا " میں نے قرآن پاک میں پڑھا ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں- اس سے قریبی کوئی رشتہ ہو ہی نہیں سکتا"
اس لمحے الہیٰ بخش کو وہ بہت بے شرم لگی- اسے افسوس ہوا، اس کے ذہن میں سادی کا جو تصور تھا وہ بھی مجروح ہوا- لیکن اس نے حوالہ قرآن پاک کا دیا تھا- پھر بھی اس ے دھیرے سے کہا- "اللہ نے شرم و حیا کو بھی اہمیت دی ہے- اس کی بہت تلقین کی ہے- اور پھر تنہائی اور محفل کے الگ الگ آداب ہوتے ہیں"
"میں صرف اس بات پر اعتراض کر رہی ہوں کہ میاں بیوی کا دوسروں کے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا بے شرمی تو نہیں ہوتا- خیر، یہ تمہارے ہاں کا قاعدہ ہے تو مجھے اس سلسلے میں کچھ نہیں کہنا چاہئے" یہ کہتے کہتے سادی کے لہجے میں بے رخی آ گئی-
الہیٰ بخش خاموش ہو گیا- اس نے صرف محبت کی تھی- اگر سادی کو پانے کی آرزو کی ہوتی تو کچھ اس سمجھانے کی، کچھ خود سمجھنے کی کوشش بھی کرتا- لیکن ایک تو وہ جانتا تھا کہ وہ زمین پر کھڑا ہے- جبکہ سادی آسمان پر چمکنے والا چاند ہے، جس سے وہ باتیں کر سکتا ہے، جسے وہ دیکھ سکتا ہے لیکن اس تک پہنچ نہیں سکتا- اسے ہاتھ بڑھا کر چھو نہیں سکتا- دوسرے اسے جس عشق کی گھٹی پلائی گئی تھی، اس میں صلے اور مآل کا کوئی تصور نہیں تھا-
سادی نے اس کی خاموشی کو ناراضی پر محمول کیا- وہ بولی "ناراض ہو گئے ہو کیا؟"
"نہیں سادی بی بی، آپ سے میں کبھی ناراض نہیں ہو سکتا- آپ کچھ بھی کہہ لیں کچھ بھی کر لیں"
"بہت بڑی بات کہہ رہے ہو- کبھی ایسا ہوا تو یاد ضرور دلاؤں گی"
"ایسا کبھی نہیں ہو گا سادی بی بی" الہیٰ بخش نے بڑے اعتماد سے کہا-
"چلو ۔۔۔۔ دیکھیں گے"
ایک اور موقع پر سادی نے اس سے پوچھا "تمہاری بیوی بھی تمہارے ساتھ ایسے ہی رہے گی، جیسا تمہارا قاعدہ ہے؟"
"جی سادی بی بی- آدمی اپنے ہاں کے رواج تو نہیں توڑ سکتا"
سعدیہ کچھ دیر سوچتی رہی "اور جو تمہاری شادی کسی شہری لڑکی سے ہو گئی تو؟"
الہیٰ بخش کی نظریں بے ساختہ اٹھیں- اس نے عقب نما میں دیکھا- سادی پہلے ہی اسے دیکھ رہی تھی- ایک لمحے کو دونوں کی نظریں ملیں- پھر الہیٰ بخش سامنے دیکھنے لگا-
"تم نے جواب نہیں دیا"
"یہ کیسے ہو سکتا ہے سادی بی بی"
"ہو کیوں نہیں سکتا- کہتے ہیں جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں"
"وہ تو ٹھیک ہے پر میرے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا"
"کیوں ۔۔۔ تمہارے ساتھ کیوں نہین ہو سکتا"
"بس میرا دل بتاتا ہے کہ میرے ساتھ ایسا نہین ہو گا" الہیٰ بخش نے پوری سچائی سے کہا- اس کا دل واقعی یہی کہتا تھا-
"اور فرض کرو ایسا ہو گیا- پھر؟"
الہیٰ بخش چند لمحے سوچتا رہا- پھر بولا "تو اس لڑکی کو میرے لئے دیہاتی بننا ہو گا"
"حالنکہ تمہیں اس کی خاطر شہری بن جانا چاہئے" سادی نے کہا "سوچتی ہوں، تم شہری بن کر کیسے لگو گے"
"کیسا بھی نہیں لگوں گا- اس لئے کہ بنوں گا ہی نہیں" الہیٰ بخش نے بریک لگاتے ہوئے کہا- گاڑی کالج کے گیٹ کے سامنے رک گئی-
"اچھا الہیٰ بخش، خدا حافظ- ایک بجے"
"ٹھیک ہے سادی بی بی، خدا حافظ"
------------------٭--------------------