دن سست روی سے گزرتے رہے- الہیٰ بخش ہر روز اپنی امید کو آنے والی کل کے سپرد کر دیتا- اس کی دلیل معقول تھی- جسے اب کبھی ملنا نہیں تھا، دل کب تک اس کی محبت میں گرفتار رہ سکتا ہے- کب تک آنکھیں اس ایک جھلک کے عکس کو بچا سکیں گی- مگر معاملہ برعکس تھا- محبت کی دیوانگی ہر روز فزوں تر ہوئی جا رہی تھی- عکس آنکھوں میں گہرا ہوتا جا رہا تھا- دو مہینے اسی طرح گزر گئے تو الہیٰ بخش نے حقیقت کو تسلیم کر لیا- اس نے مان لیا کہ بات اگرچہ آگے بڑھنے والی نہیں لیکن یہ روگ عمر بھر کا معلوم ہوتا ہے- - - -
اسے احساس تھا کہ وہ خود بدل گیا ہے۔ اس کے معمولات بدل گئے ہیں۔ سب کچھ بے ترتیب ہو گیا تھا۔بھوک لگتی تو وہ کھانا کھا لیتا۔نہ لگتی تو نہ کھاتا۔نیند آتی تھی مگر پہلے کی طرح نہیں۔۔اب وہ بے سدھ ہو کر نہیں سوتا تھا۔وہ خوش مزاج بھی نہیں رہا تھا۔۔ بہت کم آمیز ہو گیا تھا وہ۔۔۔کسی سے بات کرنے کو دل ہی نہیں چاہتا تھا۔۔ گھر کے ساتھی بھی اس سے شاکی رہنے لگے تھے۔۔مزدورں کی ٹولی نے بھی اس میں تبدیلی محسوس کر لی تھی۔۔۔
اس لڑکی کی دید کو دو ماہ ہوئے تو الٰہی بخش نے شکست تسلیم کر لی۔۔ مزید ایک ماہ گذرا تو اس میں اور تبدیلی آئی۔۔تسلیم کے بعد سپردگی کا مرحلہ آیا۔۔اس نے خود کو اس محبت کے سپرد کر دیا۔جو خود اسے ناقابلِ یقین حماقت لگتی تھی۔اس کے ساتھ ہی اسکی تنک مزاجی رخصت ہو گئی۔وہ آدم بیزار نہیں رہا۔مزاج میں بلا کی نرمی اور حلیمی آ گئی۔ اسکا لہجہ نرم اور آواز شیریں ہو گئی۔۔اس کی متحمل مزاجی بھی بڑھ گئی تھی۔۔کم گو اور کم آمیز وہ اب بھی تھا مگر کوئی مخاطب ہوتا تو وہ بڑی توجہ سے بات سنتا اور بے حد رسان سے جواب دیتا۔ اسکی آنکھوں کی چمک بھی بڑھ گئی تھی۔۔اس سے آنکھ ملا کر بات کرنا بھی اب آسان نہیں رہا تھا۔۔ یہ الگ بات کہ وہ عموماً نظریں اٹھا کر بات ہی نہیں کرتا تھا۔۔
سب سے زیادہ مزدورں کی ٹولی اس کی تبدیلیوں پہ حیران تھی۔وہی اسے سب سے قریب سے دیکھ بھی رہے تھے۔نظریں جھکا کر بازار کی رونق سے لطف اندوز ہونے والا الٰہی بخش اب نظریں اٹھا کر اس رونق کو دیکھتا بلکہ ٹٹولتا تھا۔ وہ دور و نزدیک ہر چہرے کو غور سے دیکھتا ،جیسے اسے کسی خاص چہرے کی ،کسی خاص شخص کی تلاش ہو۔۔ اگر اس کی نگاہوں میں معصومیت نہ ہوتی تو وہ یہی سمجھتے کہ طارق روڈ نے اسے خراب کر دیا ہے۔۔پہلے تو وہ عورتوں کو نظر اٹھا کر دیکھتا ہی نہیں تھا۔،حالانکہ دل میں گدگدی کرتے ہوئےگذرنے والی خوشبو اور چھو کر غزرنے والی لباس کی سرسراہٹوں کے سامنے مدافعت کرنا آسان نہیں ہوتا۔۔ اب وہ عورتوں ،لڑکیوں کو خاص طور پہ دیکھتا مگراس نظروں میں معصومیت اور ایک بے نام سے تجسس کے سوا کچھ نہ ہوتا۔دیکھنے والے دیکھ رہے تھے کہ کام میں اس کی دلچسپی کم ہوئی ہے۔ کام آتا تو زایادہ مزدوری طلب کرتا اس سے اندازہ ہوتا کہ وہ کام سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔پہلے وہ اٹھ کر ادھر اُدھر گھومتا اور باتیں کرتا تھا مگر اب وہ بس اپنی جگہ پر بیٹھا خریداری کے لیئے آنے والوں کو تکتا رہتا۔۔
مزدور بہت پریشان تھے۔نثار نے تو کہہ دیا تھا کہ ساری علامات عشق کی ہیں۔۔ ضرور اپنے محلے میں اسے کسی سے عشق ہو گیا ہے۔دوسروں کے دل کو بھی یہ بات لگتی تھی مگر ایک بار الٰہی بخش کے ساتھ رہنے والا کرامت اس سے ملنے آیا تو مسئلہ اور پیچیدہ ہو گیا، نثار نے کرامت سے بھی یہی بات کہی تھی۔۔
" نہیں جی یہ تو ہو ہی نہین سکتا" کرامت نے شدت سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا " وہاں تو صرف سونے کے لیئے جاتا ہے رات دو بجے کے قریب گھر پہنچتا ہے اور فوراً ہی سونے کے لیے لیٹ جاتا ہے۔ صبح سات بجے ہی یہاں آنے کے لیئے گھر سے نکل پڑتا ہے۔۔ اس نے تو کبھی کسی پڑوسی کی صورت ہی نہیں دیکھی۔کسی پڑوسن سے عشق کیا کرے گا۔۔ "
نثار کا منہ حیرت سے کھل گیا۔۔وہ تو اسی ایک امکان پر تکیہ کیئے بیٹھا تھا ۔۔۔وہ اس طرح رد ہوا تو اس کی عقل ہی جواب دے گئی۔۔چند لمحے بعد اس نے سنبھل کر کہا۔"تو پھر؟ ہم لوگوں کا خیال ہے کہ یہیں پر کوئی چکر چلا ہے۔" کرامت نے آنکھ دباتے ہوئے کہا۔۔
"یہاں" نثار نے انکھیں پھیلاتے ہوئے کہا " یہ تو پیارے بھائی جادو نگری ہے۔۔یہاں کوئی عشق نہیں کر سکتا۔ یہ تو ریتیلا میدان ہے جہاں پھول نہیں کھل سکتے۔ پھول آتے ہیں جادو سے یہ باغ بن جاتا ہے۔ پھول چلے جاتے ہیں تو پھر میدان اور ریت۔یہاں عشق کیسے ہو سکتا ہے"
"تم لوگ کام پر کس وقت آتے ہو؟" کرامت نے پوچھا۔۔
"ساڑھے نو بجے۔ زیادہ جلدی آ گئے تو نو بجے۔لیکن یہ بخشا سات بجے گھر سے نکلتا ہے ساڑھے سات بجے یہاں آ جاتا ہو گا۔۔"
"اُس وقت یہاں الو بول رہے ہوتے ہیں۔۔" مشتاق بولا۔۔
"تو یہ بخشا یہاں اتنی دیر کیا کرتا ہے؟" کرامت نے سوال اٹھایا۔۔"میرا تو خیال ہے ایسے ہی وقت میں یہاں کوئی چکر چلا لیا ہے اس نے"
" مگر یہاں تو کوئی ہوتا ہی نہیں"اچھو نے کہا۔۔۔
"ارے یہاں فلیٹ بھی تو ہیں" کرامت نے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔۔
"لیکن پورے دن تو اسے کس فلیٹ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے تو نہیں دیکھا۔" عباس بولا۔۔
" ایسی کوئی بات ہوتی تو نظر میں ضرور آتی"
" یہ بخشو ہے بہت گہرا آدمی۔۔ راز چھپانا اسے آتا ہے" نثار نے گہرا سانس لے کر کہا۔۔"خیر میں خود دیکھ لوں گا کسی دن۔۔۔"
محفل برخاست ہو گئی۔۔کرامت پھر کسی دن آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الٰہی بخش کو اندازہ نہیں تھا کہ لوگ اس کے بارے میں پریشان ہو رہے ہیں۔ اسے پتا کیا چلتا وہ تو سرشاری کی عجیب ہی کیفیت میں تھا۔،۔ اسے دوسروں کو دیکھنے اور سمجھنے کا ہوش ہی کہاں تھا۔۔ یہ کیا کم تھا کہ اس نے ایک بہت اہم بات سمجھ لی تھی کہ اسے پہلی نظر میں عشق ہو گیا ہے۔۔
اب تو اس کے دل میں ابا کی بات کا خوف بھی نہیں تھا۔۔ یہ خیال ہی دل سے نکل گیا تھا کہ یہ محبت سزا ہے۔ وہ سوچتا اگر یہ سزا ہے تو اتنی سخت سزا بھی نہیں ہے۔اس میں تو عجیب مستی ،بے خودی ہے۔اپنا آپ اچھا لگنے لگا ہے۔۔ ہاں کبھی کبھی ایک لمحے کے لیئے ایک خلش ستاتی ہے۔۔کاش وہ اُس لڑکی کو پھر دیکھ سکے۔۔ مگر وہ فوراً ہی اس خلش کو جھٹک دیتا۔۔اس نے خود سے بہت طویل بحث کی تھی اور اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ اس لڑکی کو دوبارہ دیکھنا ، اس کے بارے میں جاننا اس کے لیئے بہتر نہیں۔۔ سادی سی حقیقت یہ تھی کہ محبت اپنی جگہ لیکن وہ لڑکی اس کے لیئے نہیں ہے۔۔وہ حیثیت اور مرتبے میں اس سے بہت اوپر ہے۔وہ مختلف ماحول کی لڑکی ہے۔ اس سے بہتر تو شائد اس کے ملازم ہوں گے۔۔
سو الٰہی بخش مطمئن تھا کہ اسے اس لڑکی کو دوبارہ دیکھنے کی کوئی خواہش نہیں۔ اسے احساس بھی نہیں تھا کہ غیر شعوری طور پر وہ اس کی جستجو کر رہا ہے۔۔ "خود کو سمجھنا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے" بعض اوقات تو آدمی کو برسوں پتا نہیں چلتا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔۔اس نے تھوڑاسا غور کر لیا ہوتا تو بات اسکی سمجھ میں بھی ا جاتی۔۔۔مگر اسے تو خیال ہی نہیں آیا کہ وہ اب نظریں جھکا کر نہیں بیٹھتا بلکہ نظروں سے چہروں کے ہجوم کو کھنگالتا رہتا ہے۔۔
اپنی کسی بھی تبدیلی کا احساس انسان کو خود نہ ہو تو دوسرے احساس دلا دیتے ہیں۔۔اس کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔
الٰہی بخش کو یہ احساس بھی نہیں تھا کہ وہ ایک گھر میں ساتھ رہنے والوں کے لیئے اور مزدوروں کی ٹولی کے لیئے کیسا پیچیدہ معمہ بن گیا ہے۔۔
کوئی دو ہفتے بعد کرامت پھر آیا۔۔ اس روز الٰہی بخش کو کام مل گیا تھا۔۔ وہ موجود نہیں تھا " کیا رہا استاد۔۔ میری بات درست نکلی نا" کرامت ے نثار سے پوچھا۔۔" نہیں ایسا نہیں ہے" نثار نے کہا۔۔" میں نے تین دن ساڑھے سات بجے صبح یہاں آ کر دیکھا ہے وہ کچھ بھی نہیں کرتا سر جھکائے بیٹھا رہتا ہے۔ میں نے اسے ایک منٹ کے لیئے بھی یہاں سے اٹھتے نہٰں دیکھا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ وقت وہ کیسے گذار لیتا ہے۔۔ مجھے تولگ رہا تھا کہ میں پاگل ہو جاؤں گا"
" تو پھر؟" کرامت نے مایوسی سے کہا۔۔" اور کیا بات ہو سکتی ہے؟"
"بات تو یہی ہے لیکن یہ چکر کہاں چلا ہے یہ سمجھ میں نہیں آتا"
"میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ گھر کی طرف تو یہ ممکن ہے ایسا سوچنا بھی نہیں"
"اور یہاں بھی یہ ممکن نہیں " نثار نے کہا " ٹھیک ہے اب میں خود اس سے بات کروں گا۔۔"
"لیکن اس سے اگلوانا آسان نہیں ہو گا استاد" کرامت بولا " ہم سب ہر طرح سے کوشش کر رہے ہیں"
" میں کچھ اگلواؤں گا نہیں" نثار نے کہا "میں صرف اسے یہ احساس دلوؤں گا کہ بہت لوگوں یہ بات معلوم ہے کہ اس کا کوئی چکر ہے۔بس پھر اسکی نظریں ہی کسی دن پورا بھید کھول دیں گی۔۔وہ زبان سے تو نہیں نظروں سے بات بتا دے گا"
"واہ استاد،ترکیب تو زور دار ہے" کرامت نے ستائشی نظروں سے اسے دیکھا۔۔
تین دن بعد نثار، الٰہی بخش کے پاس آ بیٹھا اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔۔ قدموں کی چاپ سن کر الٰہی بخش نے سر اٹھایا اور سامنے سے گذرنے والی لڑکیوں کے چہروں کو غور سے دیکھنے لگا۔۔
نثار نے کچھ دیر اسے اِس کا موقع دیا پھر چانک بولا "تُو نے جواب نہیں دیا میری بات کا"
الٰہی بخش نے چونک کر اسے دیکھا۔ "کونسی بات نثار بھائی؟"
"تُو تو میری بات سن ہی نہیں رہا تھا۔ " نثار نے خفگی سے کہا۔۔
"معاف کرنا نثار بھایئ۔۔آج کل میرے ساتھ یہی ہوتا ہے۔۔ دھیان بٹ جاتا ہے ادھر اُدھر۔"
"ایسا کیوں ہوتا ہے بخشے ؟ پہلے تو نہیں ہوتا تھا۔۔؟"
"پتا نہیں نثار بھائی۔۔ مجھے خود معلوم نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔"
"معلوم نہیں ہے یا بتانا نہیں چاہتا؟" نثارنے کہا۔۔
"ایسی کیا بات ہو سکتی ہے کہ میں چھپاؤں"
"ہوتی ہیں۔۔ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں" نثار نے مربیانہ انداز میں کہا۔۔"جس عمر تُو ہے اس میں ایسی باتیں ہوتی ہیں"
الٰہی بخش اپنے چہرے کی تمتماہٹ پر قابو نہ پا سکا۔۔وہ تمتماہٹ نثار نے بھی دیکھ لی تھی۔۔"میرے ساتھ ایسی کوئی بات نہیں نثار بھائی"
"اچھا ایک بات بتاؤ۔۔یہ تم گذرنے والوں اتنے غور سے کیوں دیکھتے ہو۔۔" نثار نے اچانک حملہ کیا۔۔۔
الٰہی بخش ہل کر رہ گیا ۔۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ لوگ اسے اتنے غور سے دیکھتے ہیں۔۔۔"یہاں بیٹھ کر کوئی اور کیا دیکھ سکتا ہے نثار بھائی۔۔"اس نے مدافعانہ لہجے میں کہا۔۔
"لیکن پہلے تو لوگوں کو ایسے نہیں دیکھتے تھے"
"مجھے تو خیال نہیں۔۔"
اور خاص طور پر عورتوں اور لڑکیوں کو۔۔" نثار نے کاٹ دار لہجے میں کہا۔۔
اس بار تو الٰہی بخش کے وجود میں بھونچال آ گیا۔۔" نن۔۔نہیں۔نن نہیں تو نثار بھائی۔۔"
"کسی کو تلاش کرتا ہے تُو؟" اس بار نثار نے مشفقانہ لہجے میں پوچھا۔۔۔
الٰہی بخش کا جی چاہا کہ وہ اعتراف کر لے۔۔وہ بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا جو اب تو وہ تنہا اٹھائے ہوئے تھا لیکن اس صورت میں اسے پوری بات بتانی پڑتی۔۔اور وہ سب کچھ اب خود اسے مضحکہ خیز لگ رہا تھا۔۔۔
وہ نثار کو بتاتا،نثار دوسروں کو بتاتا۔۔ پھر اس کا مذاق اڑاتا۔۔چنانچہ اس نے زبردستی کی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔۔" یہ تمہارا وہم ہے استاد۔۔ ایسی کوئی بات نہیں۔۔"
نثار خاموش ہو گیا۔۔زیادہ دباؤ ڈالنا مناسب نہیں تھا اس نے الٰہی بخش کے چہرے کے بدلے ہوئے تاثرات دیکھ لیئے تھے۔۔۔پہلی بار کے لیئے اتنا ہی کافی تھا۔۔۔
------------------------------------------------
الٰہی بخش اب پھر مضطرب اور بےچین تھا۔۔
اس کی خوش فہمی دور کر دی گئی تھی۔ وہ تو اپنے تئیں ایک بے ضرر محبت میں مست تھا۔ اسے اطمینان تھا کہ اسے اس چہرے کی جستجو نہیں۔۔ اس لیئے کہ وہ مل بھی گئی تو کیا ہو گا۔۔ یوں محبت کرنے میں تو کوئی نقصان نہیں تھا۔۔ نہ ہی احساسِ کمتری کا کوئی سوال تھا۔۔ لیکن اب صورتِ حال مختلف تھی۔ یہ اس کے لیئے ایک انکشاف تھا کہ وہ اپنے اڈے پر بیٹھے بیٹھے اسے تلاش کرتا رہا ہے۔۔ لیکن یہ حقیقت اس کے شعور سے اتنا نزدیک تھی کہ اسے تسلیم کرنےکے سوا کوئی چارا نہیں تھا۔۔ وہ خود سے بحث بھی نہیں کر سکا۔اسے تو یہ خیال آیا کہ وہ اس بات سے واقف تھا لیکن اسے خود سے بھی چھپاتا رہا تھا۔۔ اب اس حقیقت کے حوالے سے اسے کچھ سوالات کا سامنا کرنا تھا۔۔ سوال یہ تھا کہ وہ اس لڑکی کو کیوں تلاش کرنا چاہتا ہے؟؟خود کو بہت ٹٹولنے کے بعد بھی اسے اس سوال کا تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔۔
کیا وہ اس لڑکی سے محبت کا اظہار کرنا چاہتا ہے؟؟ اس سوال کا واضح جواب نفی میں تھا۔۔۔۔
بس یونہی وہ جاننا چاہتا تھا کہ جس کی محبت میں وہ بلاوجہ گرفتار کر دیا گیا ہے وہ ہے کون؟؟اس کے سوا کوئی بات نہیں۔۔
اس جواب سے الٰہی بخش کو مطمئن ہو جانا چاہیئے تھا لیکن اس نے لاشعور کی کرشمہ کاری ابھی ابھی دیکھی تھی اور اس کے بعد خود پر بھی اعتبار نہیں کر سکتا تھا۔۔
وہ کئی دن اس سوچ میں الجھا رہا لیکن اطمینان بخش جواب نہ مل سکا۔۔ اس کی بے اعتباری اپنی جگہ رہی۔۔ پھر دھندلی دھندلی سی ایک بات اس کی سمجھ میں آئی وہ یہ کہ جو محبت وہ کر رہا ہے وہ کئی سزا تو نہ ہوئی۔۔محبت کے کچھ دکھ بھی ہوتے ہوں گے۔۔وہ محسوس کر سکتا تھا کہ اس کے لیئے دکھوں کا سامان ہو رہا ہے۔۔ اور وہ اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔وہ اس ناگہانی سے نہیں بچ سکا تھا تو آگے بھی نہیں بچ سکے گا۔۔اس بات کی جزئیات س کی سمجھ میں نہیں آئیں اسی لیئے وہ اسے دھندلی سی بات سمجھ رہا تھا اور وہ دھندلی سی بات بھی اسکا دماغ نہیں سمجھ سکا تھا البتہ دل نے وہ بات سمجھ لی تھی۔۔۔۔
ردِ عمل کے طور پہ وہ جھنجلا گیا۔۔اسے احساس ہونے لگا کہ وہ تقدیر ہاتھوں میں کھلونا بن گیا ہے۔ اب دکھ ملنے ہیں تو دکھ ہی سہی۔۔اس نے خود کلامی کی۔۔"میں کیوں خواہ مخواہ پریشان ہوں۔۔ ٹھیک ہے میں یہیں بیٹھے بیٹھے چہروں کے ہجوم میں ڈھونڈوں گا۔۔ میرا کیا جاتا ہے۔۔کیا پریشانی ہے۔ایسے کوئی ملتا ہے بھلا۔۔ ہوووووں۔۔دیکھا جائے گا۔۔یہاں کوئی بچہ کھو جائے کسی ک تو ڈھونڈتے پھرو۔کس کس کی مدد لو تب کہیں ملتا ہے،،چلو بھئی دیکھتے رہو بیٹھ کے۔۔"
خود سے اس مکالمے کے بعد وہ بے فکر ہو گیا۔ اس بار چہروں کے ہجوم کو ٹٹولنے کا شغل غیر شعوری نہیں تھا لیکن اسے یقین تھا کہ وہ اسے نظر نہیں آئے گی،، اس نے یہ نہیں سوچا کہ اتفاقات پے در پے بھی ہوتے ہیں۔۔۔
اب وہ اس چہرے کو تلاش کرتا تھا۔۔ وہ لڑکیوں کو بہت غور سے دیکھتا تھا اس یقین کے ساتھ کہ وہ اس چہرے کو پہچان بھی نہیں سکے گا۔۔۔عجیب بات تھی اسے ہر چہرے پر اُس چہرے کا گماں ہوتا ہے۔۔ہر حسیں چہرہ اسے وہی چہرہ لگتا تھا۔۔ اسے حیرت ہوئی لیکن پھر اسکی سمجھ میں وجہ بھی آ گئی وہ دید بہت پرانی تھی اس نے اسے اہنی یاداشت کے صفحے پر،اپنے تصور کی لوح پر اتار لیا تھا۔۔پھر شائد یوں ہوا ہو گا کہ وقت گذرنے کے ساتھ اصل خدوخال مٹتے گئے ہوں گے اور تصور متبادل خد و خال فراہم کرتا رہا ہو گا۔۔اس کے تصور میں چہرہ تو اب بھی محفوظ تھا۔۔مگر شائد یہ وہ چہرہ نہیں تھا جسے اس نے دیکھا اور چاہا تھا۔۔ یہ تو کوئی تصوراتی چہرہ تھا۔۔بلکہ شائد کوئی خاکہ تھا۔۔۔۔۔خال و خد سے محروم خاکہ۔۔جس میں وہ ہر اُس چہرے کے نقوش بھر دیتا جو اسے حسین لگتا۔۔۔اسی لیئے تو ہر حسین چہرہ اس کا چہرہ لگتا تھا۔۔
الٰہی بخش یہ سوچ کر خوش ہوتا کہ اس لڑکی کے ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ وہ تو جیسے دل میں محبت ڈالنے ولے سے کوئی جنگ لڑ رہا تھا۔ اور جیتنے والا تھا۔ محبت کی حد تک تو ٹھیک تھا لیکن جسجتجو تو دیوانگی ہے۔۔ اور دیوانگی بہت نقصان دہ ہوتی ہے۔۔۔
لیکن ایک دن وہی چہرہ اسے سچ میں نظر آ گیا۔،۔،
یہ پہلی نظر کے تقریباٰ آٹھ ماہ بعد کی بات ہے- اس نے نظر اٹھائی اور اس کی سانسیں رکنے لگیں- دل کی تال میں سے تین چار دھڑکنیں ت یقنیناٰ غائب ہو گئی ہوں گی- وہ چند فٹ آگے اس کے سامنے کھڑی تھی- اس کے ساتھ اس کی ہم عمر ایک اور لڑکی بھی تھی-
اس بار معاملہ بالکل مختلف تھا- پہلے وہ کسی بھی حسین لڑکی کو دیکھتا تو سوچتا کہ یہ وہی ہے لیکن فوراٰ ہی اسے خیال آتا کہ اس کا تصور اس کے ساتھ بے ایمانی کر رہا ہے- اسے یقین ہو جاتا کہ یہ وہ نہیں ہے مگر اندر کوئی طاقت بحث کرتی کہ یہ وہی ہے- یعنی ایسے موقعوں پر اس کے اندر دو مختلف یقین ہوتے تھے- وہ ان کے درمیان ڈولتا رہتا- فیصلہ کرنا اس کے لئے ممکن نہ ہوتا لیکن وہ ڈھلمل یقیین ہونا بجائے خود ایک فیصلہ تھا- نفی کا فیصلہ!
پھر وہ یہ سوچ کر خوش ہوتا کہ وہ سامنے بھی آ گئی تو وہ اسے پہچان نہیں سکے گا- اس خیال سے دل میں جو مایوسی کی لہر اٹھتی ، اسے اس نے کبھی اہمیت نہیں دی تھی، اس وقت وہ یہ کیسے سمجھ سکتا تھا کہ کبھی کبھی شک اور عدم یقین، یقین سے زیادہ اہم ہوتا ہے- مگر اس بار اسے دیکھتے ہی اس کا دل سینے میں ناچنے لگا تھا- یہ وہی تھی- وہی آنکھیں، وہی پیشانی، وہی رخسار، وہی ہونٹ اور وہی بال! اس بار اس کے وجود میں اس دوسرے یقین کا ۔۔۔۔ یعنی شک کا شائبہ بھی نہیں تھا- وہ جان گیا تھا ۔۔۔ اسے معلوم تھا کہ یہ وہی ہے!
کیوں ۔۔۔۔ ایسا کیوں- تو کیا اس کا عکس دل پر مرتسم ہونے کے بجائے اس کے وجود کی کسی نا معلوم اور چھپی ہوئی گہرائی میں نقش ہوا تھا- خود سے بھی پوشیدہ ! اور اس پر نظر پڑتے ہی وہ اس کی آنکھوں میں ابھر آیا تھا تا کہ دل موازنہ کر کے مطمئن ہو جائے- وہ سانسیں روکے اسے دیکھتا رہا، جیسے وہ رنگوں کی بنی ہوئی کوئی گڑیا ہے جو سانسوں کی گرمی سے فضا میں تحلیل ہو جائے گی- اس کے ذہن میں نہ کوئی خوف تھا، نہ مقام و مرتبے کے فرق کا تصور-
اگلے ہی لمحے اس کے یقین کی تصدیق ہو گئی، حالانکہ تصدیق کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی-
لڑکی نے اپنی ساتھی سے کہا "میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نائلہ- شام کو کو آنا شاپنگ کے لئے- اتنی گرمی میں ٹھیک سے کوئی چیزبھی پسند نہیں کر سکو گی-"
یہ وہ آواز تھی جو دو سو سےزائد دنوں سے اس کے کانوں میں رس گھول رہی تھی- اس آواز کو بھی وہ لاکھوں میں پہچان سکتا تھا-
"ٹھیک ہے سادی!" دوسری لڑکی نے گہری سانس لے کر کہا-
سادی ۔۔۔۔ الہیٰ بخش نے سوچا ۔۔۔۔ سادی! یہ کیا نام ہوا بھلا- پھر بھی یہ نام اسے اچھا لگا- اس کی طرح مختلف اور اونچا-
اسی لمحے لڑکی نے اس کی طرف دیکھا- دونوں کی نظریں ملیں، دونوں کا تاثر بے حد مختلف تھا- ایک طرف وارفتگی اور محبت تھی تو دوسری طرف کچھ بھی نہیں تھا- جیسے لڑکی کسی درخت کو، دیوار کو، کسی بے جان چیز کو دیکھ رہی ہو-
وہ محض ایک پل کی بات تھی- لڑکی پلٹی اور اپنی سہیلی کے ساتھ چل دی لیکن وہ مختصر سا پل اپنے اندر بہت بڑا پل تھا- وہ پل الہیٰ بخش کو اداس کر گیا- اس نے ہر چیز کا، ہر بات کا تعین کر دیا تھا-اس کی حیثیت بھی اسے یاد دلا دی تھی- لیکن وہ اداسی بھی ایک خوشی میں لپٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔ جیسے اس نے اسے پالیا ہو-
وہ محویت سے اسے دوسری لڑکی کے ہمراہ جاتے ہوئے دیکھتا رہا، پھر اچانک اسے کیا ہوا، یہ اسے خود بھی پتا نہیں چلا- اس نے ادھر ادھر دیکھا- مزدوروں کی ٹولی میں کوئی بھی موجود نہیں تھا- صبح ہی وہ کسی کام پر چلے گئے تھے- جو لوگ تھے، ان میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا-
اس نے اطمینان کی سانس لی اور اٹھ کر چل دیا- اس کے قدم خود کار انداز میں اٹھ رہے تھے- دیر تک اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کر رہا ہے- اسے بس یہ احساس تھا کہ وہ چل رہا ہے-
خاصی دور جا کر بات اس کی سمجھ میں آئی اور جب سمجھ میں آئی تو اس کے پورے جسم سے پسینہ پھوٹ نکلا- وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ زندگی میں کبھی بھی وہ کسی لڑکی کا تعاقب کرے گا-
لیکن ایسا ہو رہا تھا، وہ ایسا کر رہا تھا! اور وہ اپنے فٹ پاتھ سے کافی آگے آ چکا تھا-
اس بات کا احساس ہوتے ہی وہ چور بن کے رہ گیا- اسے لگتا تھا کہ ہر شخص، ہر دکاندار اور ہر راہگیر اسے چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے- سب کو معلوم ہے کہ وہ لڑکی کا تعاقب کر رہا ہے- وہ جانتا تھا کہ اس بات پر لوگوں کے ہاتھوں مرمت شروع ہونے میں دو سیکنڈ بھی نہیں لگیں گے مگر اس کے قدم کوشش اور خوائش کے باوجود نہیں رکے- اس نے چاہا کہ پلٹے اور اپنے ٹھیے کی طرف واپس چلا جائے لیکن اسے خود پر ذرا بھی اختیار نہیں تھا- اس وقت اس کی باگ ڈور کسی اور کے ہاتھوں میں تھی- وہ اندر ہی اندر خوف سے لرزتا رہا- اس کے قدم بڑھتے رہے-
دونوں لڑکیان بائیں سمت مڑ گئیں- آگے قطار سے بنگلے تھے- تیسرے یا چوتھے بنگلے کے گیٹ پر وہ دونوں رک گئیں- الہیٰ بخش ان سے تھوڑا ہی پیچھے تھا- وہ رکتا تو یہ نا مناسب بات ہوتی- اس نے اپنی رفتار بہت کم ۔۔۔۔۔ برائے نام کر لی-
"نائلہ آو نا میرے ساتھ" نے اپنی سہیلی سے کہا-
"نہیں سادی، میں اب چلوں گی"
"شام کو آؤ گی شاپنگ کے لئ؟"
"نہیں سادی، شام کو مجھے امی کے ساتھ جانا ہے- اسی لئے تو خریداری کرنا چاہ رہی تھی-"
"تو پھر شاپنگ ہی کر لیتیں"
"چلو کوئی بات نہیں- پھر سہی، اللہ حافظ"
خدا حافظ نائلہ"ـ
سادی گیٹ کی طرف چل دی- دوسری لڑکی نائلہ آگے بڑھ گئی- اتنی دیر میں الہیٰ بخش فاصلہ برابر کر کے ان سے آگے نکل گیا تھا- گیٹ کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے خوف کے باوجود سرسری انداز میں گیٹ کی طرف دیکھا تھا- گیٹ کی سائیڈ میں نام کی تختی لگی تھی- ۔۔۔۔ شیخ مظہر علی- نام کے نیچے بگلے کا نمبر اور علاقے کا نام لکھا تھا-
اسی لمحے الہیٰ بخش کا دل اتنے زور سے ۔۔۔۔۔ اور اس انداز میں دھڑکا کہ اسے پہلے کبھی ایسا تجربہ نہیں ہوا تھا- وہ خوشی بھی ایسی تھی کہ اسے یاد نہیں تھا کہ کبھی وہ ایسے خوش ہوا ہو- لگتا تھا، کوئی بہت بڑا خزانہ مل گیا ہے اسے- کوئی ایسی انوکھی نعمت جو کبھی کسی کو نہیں ملتی- وہ جیسے گدا سے بادشاہ بن گیا تھا- سرشاری کی اس کیفیت میں وہ بہت دھیرے دھیرے آگے کی طرف چلتا رہا- اسے یہ احساس بھی نہیں تھا کہ وہ دوسری لڑکی نائلہ اس کے پیچھے آ رہی ہے یا وہ بھی کسی بنگلے میں چلی گئی ہے- حالانکہ اس کی وجہ سے وہ آگے بڑھ رہا تھا، ورنہ اس کا مقصد تو پورا ہو ہی چکا تھا-
آگے سڑک مڑ رہی تھی- اب اسے خیال آیا کہ کیا وہ دن بھر یونہی چلتا رہے گا- اس نے ڈرتے ڈرتے پلٹ کر دیکھا- پیچھے کوئی بھی نہیں تھا- سڑک سنسان تھی- دوسری لڑکی نہ جانے کب اپنے گھر میں چلی گئی تھی- اسے اس کا گھر جاننے میں کوئی دلچسپی تھی بھی نہیں- اس نے ایک بار دائیں بائیں دیکھا اور پھر پلٹ کر واپس چل دیا- شیخ مظہر علی کے بنگلے کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس کے قدم رکے، گیٹ بند تھا، وہ چند قدم گیٹ کی طرف بڑھا مگر فوراٰ ہی گھبرا کر پیچھے ہٹ آیا- اس کے بعد وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا دیا-
وہ اپنی جگی جا بیٹھا- وہاں کسی نے اس کی غیر موجودگی کو محسوس نہیں کیا تھا- پھر بھی وہ خاصی دیر چور سا بنا بیٹھا رہا- اس کے بعد اسے یقین ہو گیا کہ کسی کو کچھ پتا نہیں چلا ہے- وہ اپنی جگہ بیٹھا تصور میں کھویا رہا-
اس بار اسے تصور میں دیکھنے کا لطف ہی کچھ اور تھا- وہ جیتی جاگتی تصویر تھی کہ ہاتھ بڑھاؤ اور چھو لو- اور وہ پیارا سا ۔۔۔ خوبصورت مگر عجیب سا نام۔۔۔۔۔ سادی! اور وہ بنگلہ جہاں وہ رہتی ہے- وہ بنگلہ کتنا بڑا ہو گا، یہ وہ تصور نہیں کر سکا- کتنا ہی بڑا ہو، اس سے وہ مرعوب تو نہیں ہو سکتا تھا- اس نے ایبٹ آباد میں زمین بہت دیکھی تھی، جو ایک آدمی کی ملکیت ہوتی تھی، آدمی چلتے چلتے تھک جائے لیکن زمین ختم نہ ہو-
اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ کھانے کا وقت گزر چکا ہے- اسے بھوک ہی نہیں لگی- دھوپ کی دم توڑتی گرمی نے وقت گزرنے کااحساس دلایا تو اس نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا- شام کی چہل پہل شروع ہونے کا وقت قریب ہی آ رہا تھا- مزدوروں کی ٹولی واپس نہیں آئی تھی- یہ یقینی تھا کہاب وہ کل ہی آئیں گے- کامنمٹا کر وہ گھر ہی چلے جائیں گے-
اس نے سر جھکایا اور پھر سے سادی کے تصور میں گم ہو گیا-
شام ہوئی اور روز کی طرح بازار آوازوں سے بھر گیا- سینڈلوں کی کھٹ کھٹ، قدموں کی چاپیں اور ضد کرتے ہوئے بچوں کی آوازیں لیکن اس روز یہ سب کچھ اسے بالکل اچھا نہیں لگا بلکہ وہ جھنجھلا گیا- اس کے تصور میں خلل پڑ رہا تھا- وہ ڈسٹرب ہو رہا تھا- اسے خیال ہی نہ آیا کہ اسی رونق کہ وجہ سے ہمیشہ وہ دیر تک یہاں بیٹھا رہتا تھا- یہ رونق اسے اچھی لگتی تھی اور اب وہی رونق اسے ابتری معلوم ہو رہی تھی- وہ آوازیں جو اسے زندگی سے بھرپور لگتی تھیں، اب بے معنی شور وغل لگ رہی تھیں، جن سے سماعت مجروح ہوئی جا رہی تھی-
اس کا جی چاہا کہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لے اور چیخ کر کہے ۔۔۔۔ بند کرو یہ شور و غل، مگر اسے احساس ہو گیا کہ وہ فٹ پاتھ پر اپنی خلوت گاہ سجائے بیٹھا ہے- یہاں تو یہی کچھ ہو گا- خلوت تو بس اپنے گھر میں بند کمرے میں ہی مل سکتی ہے-
یہ خیال آتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا- اسے اب رونق کی نہیں تنہائی کی ضرورت تھی- آدمی باہر کی دنیا میں رونق اس وقت تلاش کرتا ہے، جب اس کے اندر ویرانی ہو، رونق کا نام و نشان نہ ہو- اندر کی دنیا آباد ہو جائے تو پھر باہر رونق بری لگتی ہے- اندر کی محفلوں میں شرکت کرنے کے لئے، اندر کی دنیا کی سیر کرنے کے لئے تنہائی کی ضرورت ہوتی ہے- اس کے دل کا ویرانہ تو اب جنت بن گیا تھا- اسے رونق سے کیا!
وہ پہلا موقع تھا کہ وہ اتنی جلدی گھر چلا گیا تھا- گھر میں کوئی بھی نہیں تھا- وہ اپنی محفل سجا کر بیٹھ گیا- مگر شام ہوئی، سورج ڈوبا، رزق کی تلاش میں نکلنے والے انسانی پرندے اپنے ٹھکانے پر آئے تو اسے احساس ہوا کہ یہ بھی گھر نہیں ہے- تنہائی یہاں بھی نہیں ہے ۔۔۔ تو تنہائی ہوتی کہاں ہے؟
"بخشے تو کب آیا؟" کوئی پوچھ رہا تھا- اس لئے پوچھ رہا تھا کہ عام طور پر وہ سب سے آخر مین گھر آیا کرتا تھا-
"کیا بات ہے بخشو، جلدی آ گیا- طبعیت تو ٹھیک ہے؟" کسی اور نے پر تشویش لہجے میں پوچھا-
"بس کچھ ایسا ہی ہے- سر میں درد ہے-" الہیٰ بخش نے کہا-
اس پر دوا کے سلسلے مین مشورے ملنے لگے- الہیٰ بخش خاموشی چاہتا تھا لیکن اس کی سمجھ میں آ گیا کہ یہ ممکن نہیں- سمجھوتا اسے ہی کرنا پڑے گا- اسے اپنے لئے وقت تبھی ملے گا، جب وہ لوگ سو جائیں گے- اس سے پہلے وہ جتنا جھنجھلائے گا، جتنا چڑچڑاپن کرے گا، بات اتنی ہی خراب ہو گی- اس کا رویہ خلاف معمول ہو گا تو ساتھیوں کے ذہنوں میں سوالات کلبلائیں گے- وہ تجسس کریں گے اور یہ اچھا نہیں ہو گا-
"یارو میں کھانا کھا کر آتا ہوں، پھر تاش کھیلیں گے-" اس نے کہا اور گھر سے نکل آیا- کھانا کھا کر وہ واپس آیا اور تاش کھیلنے بیٹھا گیا- اس نے پتے اٹھائے- اینٹ کی بیگم پر سادی کا چہرہ تھا- "ذرا رک جاؤ سادی بیگم" اس نے خاموشی کی زبان میں اس سے کہا- "یہ سو جائیں تو ہم تم خوب باتیں کریں گے"-
اس رات اسے بھری محفل میں تنہا ہونے کا ہنر بھی آ گیا- تصور میں سادی تھی اور وہ تاش کھیل رہا تھا- کبھی کبھی غلط پتا چلنے پر اسے ٹوکا بھی گیا مگر سر درد کا بہانہ آڑے آ گیا- اس نے سوچا، چند دنوں میں اسی طرح کھیلنے کی مشق بھی ہو جائے گی-
اور جب سب سو گئے تو سادی کے ساتھ جاگتا رہا- وہ اس کے سامنے بیٹھی تھی اور وہ اسے تکے جا رہا تھا-
"اے تمہیں بولنا نہیں آتا کیا- منہ میں زبان نہیں ہے؟" وہ بولی-
"منہ میں زبان بھی ہے اور بولنا بھی آتا ہے-" اس نے جواب دیا "لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ تم سے کیا بات کروں؟"
"جیسے دوسروں سے بات کرتے ہو، ویسے ہی مجھ سے بھی کرو-"
"تم دوسروں سے بہت مختلف ہو- تمہارا مقام، تمہارا مرتبہ اور ہے-"
وہ سر جھکا کر بیٹھ گئی اور وہ اسے تکتا رہا- نجانے کب، کتنی دیر بعد اسے نیند آئی- آنکھ کھلی، گھر دھوپ سے بھرا ہوا تھا- وہ پہلا موقع تھا کہ وہ سورج نکلنے سے پہلے نہیں جاگا تھا- اسے کوئی اتنی پرواہ بھی نہیں تھی- کام پر تو وہ دیر سے ہی جاتا تھا- ہاں فٹ پاتھ کی تنہائی سے وہ ضرور محروم ہو گیا تھا، پھر اچانک اسے خلش ستانے لگی- اس کی فجر کی نماز ہو گئی تھی- اس کی تو کوئی تلافی نہیں تھی اورسر میں عجیب سا بھاری پن تھا-
وہ دن ایک مختلف انداز میں شروع ہو رہا تھا- نئے معمولات بن رہے تھے جنہیں عرصے تک چلنا تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نثار نے کن اکھیوں سے الہیٰ بخش کو دیکھا، جو سر جھکائے کسی گہری سوچ میں گم تھا- نثار اس میں آنے والی نئی تبدیلیوں کو دیکھ رہا تھا اور حیران تھا- یہ معما اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا- اس نے الہیٰ بخش کو پہلے دن سے دیکھا تھا- اس میں تبدیلیاں ایسے آرہی تھیں جیسے وہ بہت تیزی کے ساتھ مختلف ادوار سے گزر رہا ہو-
نثار نے زندگی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر گزاری تھی- سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر گزرنے والی زندگی ایک بہت بڑی تعلیم ہوتی ہے- ایم اے کی ڈگری بھی آدمی کو اتنا عقلمند اور مردم شناس نہیں بناتی، جتنا سڑکیں بنا دیتی ہیں- فٹ پاتھ پر بیٹھ کر آدمی نہت کچھ دیکھتا ہے اور دیکھتے دیکھتے سمجھنے لگتا ہے- خوشی ہو یا غم اس کے ہر روپ سے وہ واقف ہو جاتا ہے- کچھ تو خود پر گزرتی ہے اور کچھ مشاہدہ سکھا دیتا ہے-
نثار بھی بہت سمجھدار آدمی تھا- وہ حساس بھی تھا، اس لئے فٹ پاتھ پر بیٹھنے والے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں بھی اس کا مشاہدہ بہت بہتر تھا- اس نے الہیٰ بخش کو پہلے دن دیکھا تو اس کا تاثر تھا کہ وہ بہت برخودار قسم کا آدمی ہے- اسے وہ ایک ایسا شخص لگا جو بے وقعتی کے احساس تلے دبا جا رہا ہو- اس ے سوچا، شاید گھر میں اسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہو گی- ماں باپ دوسرے بیٹے بیٹیوں کے مقابلے میں اسے بے وقعت سمجھتے ہوں گے- بہن بھائی دیگر بہن بھائیوں کو اس پر فوقیت دیتے ہوں گے- اسی لئے اس کے اندر احساس کمتری کی حد کو پہنچا ہوا انکسار ہے- پھر الہیٰ بخش خوددار بھی تھا لیکن دوسروں کی عزت کرنا بھی جانتا تھا- یہ بات تو نثار سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ الہیٰ بخش کو صرف عشق کرنا سکھایا گیا تھا ۔۔۔۔ بلکہ سکھانے کی کوشش کی گئی تھی- وہ عشق کرنا تو نہیں سیکھ سکا تھا کہ یہ سیکھنے والی چیز ہی نہیں یہ تو ہو جاتی ہے اور ہو جائے تو آدمی کو سارے آداب خود بخود ہی آ جاتے ہیں- ہاں، اس کوشش کے نتیجے میں الہیٰ بخش کو عزت کرنا ضرور آگیا تھا اور وہ ہر شخص کی عزت کرتا تھا، بغیر تفریق کے-
جس دن استاد قاسم کو رخصت کیا جا رہا تھا، الہیٰ بخش پورے دن پوری رات ان لوگوں کے ساتھ رہا تھا- اس روز نثار نے اسے بہت غور سے اور بہت قریب سے دیکھا تھا- استاد قاسم نے مزدوری میں الہیٰ بخش کا حصہ لگایا تھا- نثار جانتا تھا کہ اس پر کسی بھی ساتھی کو کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن الہیٰ بخش کو وہ پیش کش بری ۔۔۔۔ بہت بری لگی تھی- اس کے نزدیک اس اس کا حق نہیں تھا، اس لئے کہ اس نے سامان نہیں ڈھویا تھا- وہ رقم لینا اس کی خودداری کی توہین تھی- وہ تو فٹ پاتھ کا ساتھی ہونے ناطے ان کے ساتھ چلا آیا تھا، اس لئے بھی کہ قاسم کا وہ بہت احترام کرتا تھا بھپ بھی نہ چاہتے ہوئے وہ رقم قبول کر لی- یہ صرف عزت کی بات تھی- نثار نے خود کو الہیٰ بخش کی جگی رکھ کر سوچھا تھا تو بات اس کی سمجھ میں آئی تھی- الہیٰ بخش کے نزدیک وہ رقم لینا اس کی اپنی بے عزتی تھی تو استاد قاسم کے اصرار کے باوجود رقم کو قبول نہ کرنا، نہ صرف قاسم کی بلکہ پوری ٹولی کی بے عزتی تھی- اس لئے اس نے اپنی بے عزتی گوارا کر کے وہ رقم لے لی تھی لیکن موقع ملتے ہی اس نے اپنی عزت بحال کر لی تھی- وہ رقم اس نے اپنے پاس سے اضافعہ کر کے لوٹا دی تھی- نثار ہی کو تو دی تھی اور کتنا اصرار کیا تھا اس کے لئے اور اس طرح کہ کسی اور کو پتا بھی نہیں چلا تھا- یہ الگ بات کہ نثار نے سب کو بتا دیا تھا- یوں ٹولی کے مزدور الہیٰ بخش کی اور عزت کرنے لگے تھے-
لیکن نثار کو ایک خلش رہی تھی- کون جانے، الہیٰ بخش نے اپنی جیب میں کچھ بھی نہ چھوڑا ہو- سب کچھ استاد قاسم کے لئے دے دیا ہو- الہیٰ بخش جیسے آدمی سے یہ بعید بھی نہیں تھا- نثار کو ایک اور منظر بھی یاد تھا- جب وہ لوگ ٹھیلا لے کر استاد قاسم کے گھر پہنچے تو قاسم کی بچیاں بھی ٹھیلا دیکھنے لے لئے بے تاب ہو کر پردے کے پاس آگئی تھیں- اس وقت الہیٰ بخش کے سوا ہر مزدور کی نظریں پردے کی طرف اٹھی تھیں، چاہے ایسا ایک پل کے لئے ہوا ہو، نثار کو وہ بات بری نہیں لگی تھی- سب کا ردعمل فطری تھا مگر اس میں میلا پن نہیں تھا لیکن الہیٰ بخش نظریں جھکا کر بیٹھا رہا تھا-
اور الہیٰ بخش تو طارق روڈ کے فٹ پاتھ پر سرسراتے رنگین آنچلوں، لچکتے جسموں اور ہلکورے لیتی خوشبوؤں کے درمیان بھی نظریں جھکا کر بیٹھا رہتا تھا-
پھر اس میں تبدیلی آئی!
ایک اور تبدیلی آئی تھی اب کوئی کام ملتا تو وہ پہلے سے زیادہ عاجزی اور انکساری سے بات کرتا ملاً کوئی آیا اور کہا کہ گھر میں رنگ و روغن کرانا ہے۔۔درمیان میں تو وہ جرح کرنے لگا تھا۔۔مزدوری ریٹ سے زیادہ مانگتا۔۔کوشش کرتا کہ گاہک اسے چھوڑ جائے،کوئی اور کاریگر دیکھ لے۔۔اب وہ کہتا" کر دیں گے صاحب جی"
"کیا لو گے؟"
"وہی دیہاڑی صاحب جی 25 روپے روز"
"نہیں بھائی دیہاڑی کے چکر میں تم لوگ کام لمبا کر دیتے ہو۔میں بہت بھگت چکا ہوں"
" تو پھر صاحب جی؟"
"تم چل کے گھر دیکھ لو پھر ٹیھیکے کی بات کر لیں گے"
اس کی کوئی ضرورت نہیں صاحب جی۔آپ میرے ساتھ نا انصافی تھوڑی کرو گے،،جو جی چاہے دے دینا۔۔"
یہ تقریباً پندرہ دن پہلے کی بات تھی اور نثار جانتا تھا کہ اس کے بعد سے اب تک الٰہی بخش کو کوئی کام نہیں ملا ہے۔۔دیہاڑی والے مزدوروں کے ساتھ یہ نرم گرم چلتا رہتا ہے۔۔لیکن توازن قائم رہتا ہے۔۔کام کے دو تین اچھے دن بیکاری کے چار چھے دنوں کی تلافی کر دیتے ہیں۔۔ مگر نثار جانتا تھا کہ۔۔ الٰہی بخش کی بیکاری لمبے عرصے سے چل رہی ہے۔۔ آخری کام بھی اسے دو ہفتے پہلے ملا تھا۔۔
ایک خیال نے نثار کو چونکا دیا۔وہ اٹھا اور الٰہی بخش کے پاس چلا گیا۔اس کے برابر میں آلتی پالتی مار کر بیٹھتے ہوئے اس نے اسے پکارا۔۔لیکن الٰہی بخش اپنے آپ میں گُم رہا۔۔نثار نے اسے پھر پکارا،،وہ اسے جھنجھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔اتنی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے کسی شخص کو چونکانا کبھی نہیں چاہیئے۔۔بالآخر چوتھی پانچویں آقاز پر الٰہی بخش کی محویت ٹوٹی۔۔اس نے سر اٹھایا۔۔اسکی نظریں نثار سے ملیں۔
اسکی آنکھوں میں دیکھا تو نثار سچ مچ دھل کر رہ گیا۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
زندگی کے اس نئے اور مختلف دور میں الٰہی بخش بہت خوش تھا۔۔فاقہ مستی کا تجربہ اسے پہلی بار ہوا تھا۔۔ ایک تصور تھا جو اسے ہر لمحہ سرشار رکھتا تھا۔۔اسے کوئی پریشانی،کوئی دکھ نہیں تھا۔۔اس کے پاس خوشی تھی،۔وہ ہر حال میں خوش تھا۔۔۔
وہ خود بدل گیا تھا۔ زندگی بدل گئی تھی۔۔دن رات بدل گئے تھے۔۔معمولات بدل گئے تھے۔۔تنہائی تنہائی نہیں تھی اورمحفل ،محفل نہیں تھی۔۔ اسے کچھ بھی برا نہیں لگتا تھا۔۔کوئی اس سے بات کرتا تو اسے اچھا لگتا۔۔اکتاہٹ اس کے مزاج سے خارج ہو گئی تھی۔۔وہ رات میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ تاش کھیلتا۔۔خوب چہکتا۔،ہنستا بولتا۔رات کو سب سو جاتے تو وہ دیر تک جاگتا،،البتہ دیر تک سونے کی برائی پر اس نے چند ہی دن میں قابو پا لیا تھا۔۔۔ نیند پوری ہو ہی نہیں سکتی تھی مگر اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔۔اتوار کو چھٹی ہوتی اور وہ جی بھر کے سوتا۔۔
اسے حیرت ہوتی تھی،پہلے اس کی دوکمزوریاں تھیں۔ وہ نیند کا بہت پکا اور بھوک کا بہت کچا تھا۔۔ مگر اب یہ کمزوریاں دور ہو چکی تھی۔۔اسے عشق کی طاقت کو تسلیم کرنا پڑا۔۔اس نے سمجھ لیا کہ عشق انسان کی ہر کمزوری دور کر کے اسے عجیب طاقت بخشتا ہے۔۔عشق فاقہ مستی سکھاتا ہے۔۔ہر حال میں خوش رہنا سکھاتا ہے۔۔اور وہ بہت خوش تھا۔۔
ہر روز نیند پوری کیئے بغیر وہ معمول کے مطابق اٹھتا اور فجر کی نماز ادا کرتا۔۔اس کے بعد عام دنوں میں وہ کام پر چلا جاتا اور اتوار کا دن ہوتا تو وہ کام پر چلا جاتا۔۔ صبح سویرے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر وہ سوئے ہوئے گرد و پیش سے ہمیشہ کی طرح محظوظ ہوتا۔۔پھر چہل پہل شروع ہوتی اور وہ کام ملنے کا انتظار کرتا رہتا۔۔
ایک نیا معمول اس کی زندگی میں شامل ہوا تھا۔۔ہمیشہ کی طرح وہ اب بھی سوا بارہ بجے کھانے کے لییئے اٹھتا،ڈیڑھ بجے وہ واپس آتا۔۔۔اسے یاد نہیں ہوتا تھا کہ اس وقفے میں اس نے اس بنگلے کے کتنے چکر لگائے ہیں جس میں سادی رہتی ہے۔۔کتنی بار وہ جاتے ہوئے اور آتے ہوئے وہ اس بنگلے کے سامنے سے گذرا تھا۔۔دو ایک بار اس نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے۔۔اتنا کافی تھا کہ اس کی طرف جاتے ہوئے اس کے قدموں کی کیفیت رقص کی سی ہوتی ہے۔۔اس کی آنکھوں میں سادی کا چہرہ ہوتا ہے اور اس کا دل ایسے دھڑکتا ہے جیسے کوئی نغمہ سنا رہا ہو۔۔اتنی خوبصورت کیفیت کا سبب معلوم کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔۔اس تمام عرصے میں اس نے سادی کو ایک بار بھی نہیں دیکھا۔۔وہ نہیں جانتا تھا کہ بنگلے کے سامنے سے گذرتے ہوئے اگر اسے سادی نظر آگئی تو کیا ہوگا۔۔وہ کیا کرے گا۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ اب اسے سادی کو دیکھنے کی آرزو بھی نہیں تھی۔۔کم از کم وہ تو یہی سمجھتا تھا۔۔جس کی تصویر ہر وقت نگاہوں میں بسی رہتی ہو اسکی جسجتو کیا معانی۔یہی وجہ ہے کہ وہ اب پھر سر جھکا کر بیٹھتا تھا۔۔اسکی آنکھیں اب رنگین رنگوں کو نہیں ٹٹولتی تھیں۔۔ بلکہ اب اسے سادی کی مانوس آواز اپنے قریب کہیں سے سنائی دے جاتی تو بھی وہ نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتا۔۔شائد وہ سیر چشم ہو گیا تھا۔۔
ایک اور نیا معمول بھی بنا تھا۔۔کام نہ ملنے کی صورت میں۔اب وہ شام سے پہلے ہی گھر چلا جاتا تھا۔۔۔طارق روڈ کی رونقوں میں اب اس کا دل نہیں لگتا تھا۔۔گھر کی تنہائی اس سے بدرجہا بہتر تھی۔۔اسے مطالعے کا شوق ہو گیا تھا۔۔عام طور پر وہ ڈائجسٹ پڑھتا تھا۔۔ کبھی کوئی اچھا ناول مل جاتا تو وہ بھی پڑھتا۔۔ اسے محسوس ہوتا کہ اس کی دنیا وسیع ہوتی جا رہی ہے۔۔اس کا ذہن بھی دنیا کی طرح ہوتا جا رہا تھا۔۔ جو موجود تھا لیکن دریافت کیئے جانے کا منتظر تھا۔۔
اس وقت بھی وہ سادی کے تصور میں کھویا ہوا تھا اسے پکارے جانے کا موہوم سا احساس ہوا۔۔مگر یوں جیسے فریبِ سماعت ہو۔۔ پکار بڑھتی گئی۔۔آواز کا حجم بھی بڑھتا گیا۔ تو اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔۔اسے حیرت ہوئی ،،نثار اس کے پہلو میں بیٹھ اسے آوازیں دے رہا تھا۔۔
"کیا بات ہے نثار بھائی اس نے سادگی سے کہا؟"
نثار کچھ دیر جواب میں کچھ نہ کہہ سکا۔۔ وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔۔ الٰہی بخش نے اچانک جو نظریں اٹاھئیں تو اس کی آنکھوں میں اسے نقاہت نظر آئی۔۔اس کے بدتریں خدشات کی تصدیق ہو گئی۔۔اسے افسوس ہوا کہ اس نے پہلے یہ خیال کیوں نہیں کیا۔۔۔اسے احساسِ جرم ستانے لگا آنکھوں میں اسے نے وہ نقاہت تو اس نے بہت دیکھی تھی۔۔۔۔۔ اپنے گھر میں بھی اور اپنی آنکھوں میں بھی۔۔ خاصی کوشش کر کے نثار نے خود کو سنبھالا۔۔سوال یہ تھا کہ بات کیسے کی جائے۔۔الٰہی بخش کی خودداری سے وہ خوب واقف تھا۔۔ معاملہ بہت نازک تھا۔۔
"تجھ سے بات کرنے کو دل چاہ رہا تھا بخشے" نثار نے کہا۔۔ اس نے یہ نہیں پوچھا کہ وہ کن سوچوں میں گم رہتا ہے "پر لگتا ہے میں مخل ہو رہا ہوں"
" ارے نہیں نثار ایسی کوئی بات نہیں"
اس دوران نثار بہت تیزی سے کوئی ترکیب سوچنے کی کوشش کر رہاا تھا۔۔اس نے مزید مہلت حاصل کرنے کے لیئے ایک اور سوال اٹھایا "آج کل تو بہت جلدی گھر چلا جاتا ہے"
"ہاں نثار بھائی"
"گھر میں کیا دل لگتا ہو گا۔۔"
"پڑھنے میں دل لگنے لگا ہے نثار بھائی۔۔یہ دیکھو۔" الٰہی بخش نے اپنے تھیلے میں سے ڈائجسٹ نکال کر دکھایا۔۔"اچھی بات ہے" نثار نے سر ہلا کر کہا۔۔پھر بولا"یار بخشو آج میں کھانا تیرے ساتھ کھاؤں گا" یہ کہتے ہوئے وہ اسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔۔
الٰہی بخش کا چہرہ فق ہو گیا۔۔ تاہم اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔۔"ابھی تو بڑا وقت پڑا ہے نثار بھائی۔۔"
الٰہی بخش کے چہرے کے تاثر نے نثار کے اندازے کی پکی تصدیق کر دی تھی۔۔مگر پوری بات کرنے کے لیئے بت آگے بڑھانا ضروری تھا۔۔" ایک بات کہنی ہے تجھ سے" اس نے کہا" تو سوچے گا کہ میں بہت بے شرم آدمی ہوں۔۔لیکن یار بخشو آدمی جسے اپنا سمجھتا ہے اس سے تو بات کر سکتا ہے اس میں تو شرم کی بات نہیں۔میں تجھے چھوٹے بھائی کی طرح سمجھتا ہوں۔۔ تجھ پر تو حق ہے میرا۔۔نظریں جھکا کر ہی سہی تجھ سے تو سوال ڈال سکتا ہوں میں۔۔"نثار کے لہجے میں عاجزی اور بے بسی محسوس کر کے الٰہی بخش موم ہو گیا۔۔" تم مجھ سے ہر بات کر سکتے ہو نثار بھائی" اس نے کہا۔۔
"میرے تمہارے درمیان تعلق ہی ایسا ہے۔۔ میں بھی تمہیں بڑا بھائی سمجھتا ہوں۔۔ہم ایک دوسرے کے سامنے کبھی شرمندہ نہٰں ہو سکتے۔۔"
"بات یہ ہے بخشے کہ مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔۔ تیرے سوا میں کسی سے سوال نہیں کر سکتا اور میرا خیال ہے کہ ضرورت کے وقت تجھے بھی میرے سوا کوئی نظر نہٰں آنا چاہیئے"
الٰہی بخش کو چکر تو پہلے ہی سے آ رہے تھے۔۔ یہ سن کر ایسا لگا ہ جیسے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اسے تو فاقہ مستی میں احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ کتنے سخت وقت سے گذر رہا ہے۔۔سترہ دن سے اسے کام نہیں ملا تھا۔۔ اور اس سے پہلے وہ خود کام سے بچت رہتا تھا۔۔اس کے نتیجے میں جو پس انداز کیا تھا وہ بھی بیٹھے بیٹھے کھا لیا تھا۔۔سترہ دن پہلے جو پیسے ملے تھے وہ اس نے گھر کے پاس جو ہوٹل تھا وہاں دے دیئے تھے۔ اس ہوٹل میں وہ ناشتہ کرتا تھا اور اب تو باقاعدگی سے رات کا کھانا بھی کھاتا تھا۔۔ ہوٹل والے کو پیسے دینے کے بعد اس کے پاس بس اتنے پیسے بچے تھے کہ دوپہر کے کھانے اور کرئے کا خرچہ تین دن چل سک تھا۔ اسے امید تھی کہ اس دوران اسے کام مل جائے گا۔۔اور معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔۔ لیکن اس کے بعد سے اب تک کام نہیں ملا تھا۔۔
الٰہی بخش کو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ کتنے دن سے وہ پیدل آ اور جا رہا تھا۔ اس کے بعد سے اب اس کے منہ میں کھیل بھی اڑ کر نہیں گئی تھی۔۔ وجہ یہ تھی کہ پرسوں رات کھانے میں ادھار لکھوانے گیا تو ہوٹل کےمالک نے پوچھ لیا کہ کیا اسے کام اب تک نہیں ملا ہے۔۔ حالنکہ کہ ہوٹل والے کا لہجہ خراب نہیں تھا۔۔۔اور انداز دوستانہ اور ہمدردانہ تھا، پھر بھی الٰہی بخش کو سُبکی کا احساس ہونے لگا۔ناشتہ تو وہ ویسے بھی نہیں کرتا تھا ۔اگلے روز وہ رات کا کھانا کھانے بھی نہیں گیا۔۔اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ ادھار چکائے بغیر وہاں نہیں جائے گا۔۔
اور اب نثار کہہ رہا تھا کہ اسے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔وہ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ آج وہ کھانا اس کے ساتھ ہی کھائے گا۔اس کے ساتھ ۔۔۔! س بات کو تو کوئی امکان ہی نہیں کہ آج وہ کھانا کھائے گا،،گیارہ بج چکے تھے وار کام ابھی تک نہیں ملا تھا۔۔اور نثار نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ کسی اور سے مدد نہیں مانگ سکتا۔۔وہ اسے چھوٹے بھائی کی طرح سجھتا ہے۔۔
یہ خیال کر کے الہیٰ بخش کے حلق می جیسے نمکین پانی کا کوئی چشمہ پھوٹا- پل بھر میں اس پانی کو اسکی آنکھوں کی طرف لپکنا اور جاری ہو جانا تھا- اس نے بہت تیزی سے اس کے آگے ضبط کا بندھن باندھا- پھر بھی آنکھیں نم تو ہو ہی گئی تھیں- یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ وہ چھلکیں نہیں-
"تو خاموش کیوں ہو گیا بخشے؟" نثار نے اسے چونکا دیا-
"کچھ نہیں نثار بھائی-" الہیٰ بخش نے کہا "اللہ مالک ہے- کچھ نہ کچھ ہو جائے گا- انشاللہ ہم کھانا ساتھ ہی کھائیں گے-" اس لمحے اس کی زبان کو چھوئے بغیر دل سے دعا نکلی کہ کام مل جائے-
"مجھے تو صاف جواب دے نا" نثار نے اصرار کیا-
"جواب نہ مانگو استاد تو اچھا ہے" الہیٰ بخش نے آہ بھر کے کہا- اس احساس نے اس کا حفاظتی حصار توڑ دیا کہ نثار کو مدد کی ضرورت ہے اور اس کی مدد نہیں کر سکتا- "میری جیب تو نہ جانے کتنے دن سے خالی ہے- مگر فکر نہ کرو، اللہ مالک ہے"
"تو اتنے دن سے کام کیسے چلا رہا ہے تو؟"
کبھی کچھ نہ بتانے والے الہیٰ بخش نے صرف شرمندگی میں ڈوبے ہونے کی وجہ سے نثار کو اپنا پورا حال سنا دیا-
نثار کی شرمندگی کی کوئی حد نہیں تھی ۔۔۔۔۔ وہ دل ہی دل میں خود کو برا بھلا کہتا رہا- ایک فٹ پاتھ پر ساتھ بیٹھ کر بھی وہ اس سے اتنا بے خبر تھا- جبکہ اسے معلوم تھا کہ اتنے دن سے اسے کام نہیں ملا ہے- " تو نے تو غیریت کی حد کر دی بخشے" س نے خفگی سے کہا " مجھے کیوں نہیں بتایا؟"
'میرا خیال ہے کہ فٹ پاتھ پر سبھی کا ایک جیسا حال ہوتا ہے" الہیٰ بخش نے سادگی سے کہا-
"پھر بھی لوگ ایک دوسرے کے کام آتے رہتے ہیں-" نثار شرندہ بھی تھا اور خفا بھی ۔۔۔۔ الہیٰ بخش سے بھی اور اپنے آپ سے بھی- "تجھے مجھ کو بتانا تو چاہئے تھا"
"لیکن نثار بھائی یہ تو ۔۔۔"
'تو نہیں سمجھتا، پڑوسی بھوکا رہے تو پڑوسی سے اللہ جواب طلب کرتا ہے- وعدہ کر، آئندہ ایسی بات چھپائے گا نہیں- کوئی ایک آدمی تو ہر ایک کے لئے ایسا ہوتا ہے جس سے دل کی بات کی جا سکتی ہے- ےو مجھے اپنا بڑا بھائی سمجھا کر"
الہیٰ بخش حیرت سے سوچتا رہا کہ یہ نثار اتنا شرمندہ کیوں ہو رہا ہے- شرمندہ تو اسے ہونا چاہئے تھا-