میری اس حرکت نے تمہیں جانے پر مجبور کر دیا- تم جا رہے تھے تو میں تمہیں کھڑکی سے دیکھ رہی تھی- میری آنکھیں برس رہی تھیں لیکن دل میں اذیت میں لپٹی ایک خوشی تھی کہ میں تمہارے کام آئی- میں نے محبت کا حق ادا کر دیا-----
صبح پاپا اور امی کو پتا چلا کہ تم چلے گئے ہو- پاپا نے کہا ---- کیوں- میں نے تو اس سے معافی مانگی تھی اور اس نے کہا ہی نہیں تھا کہ وہ جا رہا ہے- وہ ایسے بغیر بتائے جانے والا تو نہیں- پاپا کی بات ٹھیک تھی- وجہ میں جانتی تھی لیکن بتا نہیں سکتی تھی- میں نے امی سے کہا پورا گھر چیک کر لیں، کہیں وہ کچھ چرا کر تو نہیں لے گیا- امی نے کچھ نہیں- وہ شرمندہ ہو کر رہ گئیں-
پاپا کو تم سے کتنی انسیت تھی اس کا تم اندازہ نہیں کر سکتے- میرے لئے کبھی کوئی ڈرائیور نہیں رکھا گیا- بلکہ پاپا نے میری وہ کار ہی فروخت کر دی- تماہرے اس کوارٹر میں کبھی کوئی نہیں رہا-
میں اگلے ہی روز تمہارے کوارٹر میں گئی- مجھے امید تھی کہ نفرت کہ وجہ سے تم میری دی ہوئی چیزیں چھوڑ گئے ہو گے- لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا ------ سوائے ایک پرانی قمیض کے- مجھے مایوسی ہوئی لیکن میں نے سوچا، میں نے حرکتیں ہی ایسی کی ہیں کہ تھوڑے دنوں میں تم مجھے بھلا کر نئی زندگی شروع کر دو گے- تمہاری پرانی قمیض میں اپنے ساتھ لے آئی کہ اس میں تمہاری خوشبو بسی تھی- وہ قمیض آج بھی میرے پاس موجود ہے- وقت گزرتا گیا- تعلیم مکمل کر کے میں نے پاپا کے کاروبار میں دلچسپی لی- سب کچھ سنبھالنے لگی- پھر یکے بعد دیگرے پاپا اور مجھے چھوڑ گئے- اظہر شادی کر کے علیحدہ ہو گیا- میں اکیلی رہ گئی، لیکن میں بہت خوش تھی-
میں اکثر تمہارے کوارٹر میں چلی جاتی- کبھی کبھی گھنٹوں وہاں بیٹھی رہتی- ملازمہ ہر روز کوارٹر کی صفائی کرتی تھی- شام کو وہاں روشنی کر دی جاتی- وہاں میں نے کبھی اندھیرا نہیں رہنے دیا- اس کوارٹر کو میں نے کبھی غیر آباد نہیں رہنے دیا-
میں خوش تھی کہ تم شہری بدکردار اور آوارہ سادی کو بھول گئے ہو گے- مگر پھر میری غلط فہمی دور ہو گئی- ایک رات میری آنکھ کھلی اور مجھے احساس ہوا کہ تم مجھے یاد کر رہے ہو- میں تمہارے سامنے بیٹھی ہوں- اس کے بعد ہر رات پچھلے پہر یہی ہونے لگا- میری آنکھ کھلتی اور میں تمہارے کوارٹر میں چلی جاتی- تم سے باتیں کرتے کرتے وہیں سو جاتی-
اب سے کوئی تین ساڑھے تین سال پہلے مجھے صاف لگا کہ یہ ناتا ٹوٹ گیا ہے- پھر مجھے کبھی تمہاری یاد نہیں آئی- مجھے کبھی کسی نے نہیں جگایا- وہ بڑی محرومی تھی لیکن نجانے کیوں مجھے یہ اطمینان تھا کہ تم مجھ سے خفا نہیں ہو- تب میں مطالعے کی طرف راغب ہو گئی- یوں ایک دن بڑا مسئلہ حل ہو گیا- تمہیں یاد ہے، پہلی بارش کے وہ شعر ہماری سمجھ میں نہیں آئے تھے------
میں وہ اسم عظیم ہوں جس کو
جن و ملک نے سجدہ کیا تھا
میں وہ صبر صمیم ہوں جس نے
بار امانت سر پہ لیا تھا
سوچتے سوچتے یہ تو میری سمجھ میں آ گیا کہ انسان کی پیشانی میں اسم اللہ کا نور رکھا گیا ہے- سجدہ اسی کو کرایا گیا تھا- دوسرا شعر عجیب طرح سے سمجھ میں آیا-
میں جن حالات سے گزری تھی، ان میں آدمی جبر اور قدر کے فلسلفے میں الجھ ہی جاتا ہے- میں سوچتی کیا میں چاہتی تو تم سے شادی کر سکتی تھی- کیا یہ میرے اختیار میں تھا- تمہاری محبت تو مجھے زبردستی سونپی گئی تھی- میں نے بالااردہ تو تم سے محبت نہیں کی تھی- میں سوچتی کیا میں مجبور نہیں ہوں- یا مجھے اختیار ہے- اگر میں محض مجبور ہوں تو پھر سزا کیسی اور جزا کیوں- اس سلسلے میں، میں مطالعہ کرتی رہی- ایک دن مولانا ابو الا سے مودودی کی کتاب جبر و قدر پڑھ رہی تھی کہ ٹھٹک گئی- لکھا تھا ----- انسان کی عظمت اس میں بھی ہے کہ اس نے اللہ کی ایک عظیم امانت کا بوجھ اٹھایا ----
شاہ فرید پڑھتے پڑھتے رک گئے- ان کے کانوں میں الہیٰ بخش کی آواز گونجی ---- االہ جی نے پکارا ---- ہے کوئی جو میری ایک امانت کا بوجھ اٹھائے- یہ سن کر سمندر کی سانسیں ٹوٹنے لگیں- پہاڑ ہیبت سے لرزنے لگی- پوری کائنات پر لرزہ طاری ہو گیا------
شاہ صاحب حیرت سے خط پڑھتے گئے- لفظوں کا فرق تھا- خط میں بھی وہی کچھ لکھا تھا جو الہی بخش نے کہا تھا- وہ دوبارہ خط پڑھتے چلے گئے-
یوں میں سمجھ میں ناصر کاظمی کا وہ شعر آگیا- یقین ہے کہ تم بھی سمجھ چکے ہو گے- پھر بھی یہ سب لکھ دیا ہے کہ تم سے تعلق کی وجہ سے ضروری تھا- یہی ایک چیز تو تم سے شئیر کر سکتی ہوں---
اب میں اپنی غرج بھی بیان کر دوں جس نے یہ خط لکھوایا ہے- میرے نزدیک تم بہت بڑے انسان تھے---- بڑے مقام والے پھر بھی میں نے ہمیشہ تمہارے لئے دعا کرتی رہی کہ اللہ تمہیں بڑا مرتبہ عطا فرمائے----- آخرت میں بڑا مقام- مجھے اللہ کی ذات سے یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا اور ایسا ہوا تو تم جنت میں جاؤ گے- جنت میں تم اپنی مرضی کا ساتھی بھی مانگ سکتے ہو- میری التجا ہے کہ اس موقع پر تم رب کریم سے مجھے طلب کر لینا----- اپنی سادی کو-
یقین کرو، اس خوائش کی وجہ سے ہی میں نے شادی نہیں کی کہ کہیں اور پابند ہو جاؤں گی- دنیا میں اونچ نیچ ہے- تفریق ہے، اس لئے ہم نہیں مل سکے- تو وہاں تو مل سکتے ہیں جہاں یہ جھگڑے نہیں ہوں گے، نہ کوئی شہری ہو گا نہ کوئی دیہاتی- میں نے شادی نہیں کی- سو اب تم اللہ کے حضور مجھے طلب کر سکتے ہو-
میں شہری عورت ہوں- وفا کا دعوی ہے نہ حیا کا- لیکن اللہ کی پاکی کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ مجھے کبھی کسی مرد نے چھوا تک نہیں- اس لمس کےس وا میرے جسم پر کوئی داغ نہیں جو اس آخری رات تم سے لپٹنے کا نتیجہہے- اللہ نیتوں کا حال جانتا ہے- وہ بھی میں نے خوائش کے تحت نہیں کیا تھا- صرف تمہیں بھگانا مقصود تھا اور اس پر بھی اللہ سے توبہ کرتی رہی ہوں اور یقین ہے کہ میری توبہ قبول کر لی گئی ہے- میں بے داغ ہوں الہیٰ بخش!
اب میں اس دنیا میں نہیں، مجھے امید ہے کہ تم میری آخری خوائش وقت آنے پر ضرور پوری کرو گے- میں تو اب بس تمہارا انتظار کروں گی- میری ہر غلطی کو معاف کر دینا-
فی امان اللہ
فقط
تمہاری اور صرف تمہاری سادی!
---------------------٭--------------------
شاہ صاحب شل ہو رہے تھے- ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے- ان کی سمجھ میں سب کچھ آگیا تھا---- وہ بھی جو انہوں نے نہیں دیکھا تھا اور جو وہ نہیں جانتے تھے- دیر تک وہ ساکت بیٹھے رہے- آنکھوں سے آنسو بہتے رہے-
پھر انہوں نے لرزتے ہاتھوں سے وہ خط مدثر کی طرف بڑھا دیا "یہ بھی پڑھ لو بالکو، تمہارا باپ تمہیں اپنی زندگی دکھانا چاہتا تھا- اللہ نے اس کی یہ خوائش بھی پوری کر دی"
تینوں لڑکے خط پڑھنے لگے-
بانڈہ بٹنگ کے جلاہے عاشق الہیٰ بخش کی کہانی اختتا م کو پہنچ گئی تھی-
----------------------٭-----------------------
لیکن نہیں- الہیٰ بخش کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی!
لیکن نہیں- الہیٰ بخش کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی!
الہیٰ بخش کی وفات کو دو ماہ ہوئے ہوں گے کہ حاجی نیاز محمد، شاہ فرید سے ملنے ان کے گھر آئے- انہوں نے اس بار حج کی سعادت حاصل کی تھی- انہوں نے شاہ فرید کو کھجور اور آب زم زم کا تحفہ پیش کیا اور ایک تسبیح بھی دی-
دونوں باتیں کرتے رہے پھر حاجی نیاز محمد نے کہا "سنا ہے الہیٰ بخش فوت ہو گیا"
"ہاں بھئی موت تو سب کے لئے ہے- اللہ جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے- بہت نیک آدمی تھا" شاہ صاحب بولے-
"اس کے ہاں دعا کرنے چلیں گے"
"ضرور کیوں نہیں"
"دراصل اس کی ایک امانت ہے میرے پاس" حاجی صاحب نے وضاحت کی-"حج سے واپسی پر مجھے کراچی میں رکنا پڑ گیا تھا- یہاں آنے میں دیر ہو گئی"
دونوں بانڈہ بٹنگ کے لئے نکل کھڑے ہوئے-
شام کا وقت تھا- الہیٰ بخش کے تینوں بیٹے گھر میں موجود تھے- دعا ہوئی، پھر حاجی نیاز محمد نے وہ تھیلا کھولا جو ان کے ہاتھ میں تھا- "میرے پاس الہیٰ بخش کی کچھ امانتیں ہیں" انہوں نے کہا "ایک تو الہیٰ بخش کی اپنی ہے اور باقی آپ گھر والوں کے لئے"
لڑکے حیرت سے انہیں دیکھ رہے تھے-
حاجی صاحب نے زم زم کی پانچ شیشیاں، کجھوریں، تین ٹوپیاں، پانچ تسبیحیں اور ایک جاہ نماز دی- "یہ زم زم کی ایک شیشی ایک تسبیح آپ پانچوں کے لئے ہے، میرا مطلب ہے تم تینوں کے اور تمہاری والدہ اور ہمشیرہ کےلئے- ٹوپی ایک ایک تم تینوں کے لئے ہے اور جاہ نماز تمہاری ماں کے لئے ہے- الہیٰ بخش نے یہی کہا تھا مجھ سے"
مدثر نے تمام چیزیں لے لیں- "جزاک اللہ فی الدین حاجی صاحب!"
حاجی صاحب نے پھر تھیلے میں ہاتھ ڈالا اور اس بار ایک بڑا رومال اور دعاؤن کی ایک چھوٹی سی کتاب نکالی- "اور یہ ہیں الہیٰ بخش کی امانتیں"
"یہ ابا نے کب دیں آپ کو؟"
"حج کےبعد' حاجی نیاز محمد نے کہا- "روضہ رسول ﷺ کے سامنے اس سے ملاقات ہوئی- میں نے اس سے خیریت پوچھی- وہ کہنے لگا ---- طبعیت ٹھیک نہیں ہے نیاز محمد- میں نے اس سے پوچھا ----- یہ تمہارے ہاتھ میں کہا ہے الہیٰ بخش ، اس نے دکھایا، دعاؤں کی یہ کتاب اس رومال میں لُپٹی ہوئی تھی- میں نے کہا، یہ مجھے دے دو، اس نے یہ دونوں چیزیں مجھے دے دیں- پھر بولا ----- نیاز محمد میرا ایک کام کرو گے- اس نے مجھ سے یہ تمام چیزیں گھر لانے کی فرمائش کی- تم لوگوں کے نام لے کر کہا کہ کس کے لئے کیا کیا لے جانا ہے- میں نے کہایہ سب تو تم خود بھی لے جا سکتے ہو الہیٰ بخش تو وہ اداسی سے کہنے لگا- نہیں میں بہت بیمار ہوں- خود ہی پہنچ جاؤں تو بڑی بات ہے- تم بس میرا یہ کام کر دو- میں نے وعدہ کر لیا اور اللہ کی عنایت سے پورا بھی کر دیا- اب یہ الہیٰ بخش کی امانتیں بھی لے لو بیٹے-------"
شاہ فرید کی اپنی کیفیت عجیب تھی ---- وہ الہیٰ بخش کے بیٹوں کی طرف کیا دھیان دیتے-
حاجی نیاز محمد کا ہاتھ بڑھا ہوا تھا- لیکن کتاب اور رومال لینے کے لئے کوئی ہاتھ نہیں بڑھا- الہیٰ بخش کے تینوں بیٹوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے-
"یہ لے لو نا بیٹے!" حاجی صاحب نے کہا-
"چاچا، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے-" مدثر نے رندھی ہوئی آواز میں کہا "ابا حج پر جا ہی نہیں سکے تھے"
حاجی نیاز محمد ہکا بکا رہ گئے----------
حاجی نیاز محمد ہکا بکا رہ گئے "کیسی باتیں کر رہے ہو، میں خود ملا ہوں اس سے"
"کوئی اور ہو گا چاچا، شکل ملتی ہو گی" مزمل بولا
"ہاں چاچا، حج کے پیسے تو ابا نے پہلے ہی خرچ کر دئیے تھے- نہ خرچ کئے ہوتے تب بھی ابا کی حالت ایسی نہیں تھی کہ حج کر سکتے-" مبشر نے تائید کی-
"اور بقر عید کی اگلی صبح ابا کا انتقال ہو گیا تھا" مدثر نے کہا-
"اور عید کے دن ابا جی باجی سے ملنے گئے تھے-" مزمل نے شاہ فرید کی طرف اشارہ کیا-
حاجی نیاز محمد نے تائید طلب نظروں سے شاہ فرید کو دیکھا- انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا- "یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں نیاز محمد"
"کچھ بھی ہو، مجھے یقین ہے وہ الہیٰ بخش ہی تھا" نیاز محمد نے کہا "تم یہ رومال دیکھو- یہ الہیٰ بخش کا نہیں ہے کیا؟"
مدثر نے رومال لے کر اسے کھولا- وہ الہیٰ بخش کا پسندیدہ رومال تھا- رنگین رومال، جس پر روضہ مبارک کی شبیہہ بنی تھی- الہیٰ بخش اس رومال کو سر پر لپیٹے رہتا تھا- گزشتہ کئی روز سے یہ رومال نظر نہیں آ رہا تھا- لیکن مدث کو یاد تھا کہ الہیٰ بخش نے عید کی نماز یہی رومال سر پر باندھ کر ادا کی تھی-
"بھائی ذرا دکھاؤ تو" مزمل نے ہاتھ بڑھایا "یہ تو ابا کا ہی رومال معلوم ہوتا ہے"
"مجھ پر شک کرتے ہو- کیا میں جھوٹ بولوں گا" حاجی نیاز محمد بگڑ گیا-
"غصہ نہ کرو نیاز محمد" شاہ فرید نے ان کا کندھا تھپکا- "لڑکوں کا قصور نہیں- بات ہی ایسی ہے"
اب مبشر رومال کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا- پھر اس نے کہا- "یہ دیکھو- یہ ابا ہی کا رومال ہے"
ان سب نے دیکھا- رومال کے کنارے پر ننھے ننھے حروف میں الہیٰ بخش کا نام لکھا تھا- رومال ایک بار لانڈری میں دیا گیا تھا- وہاں سے آیا تو یہ نام لکھا ہوا تھا- اب وہ سب گنگ تھے- ان کے سامنے ایک ایسی حقیقت تھی جو ان کی عقل سے ماورا تھی-
دیر تک خاموشی رہی- حاجی نیاز محمد کے تصور میں وہ منظر چل رہا تھا، جب انہوں نے الہیٰ بخش کو روضہ مبارک کے سامنے دیکھا تھا-
'یہ کیسے ممکن ہے" مزمل بڑبڑایا-
"یہ سب کیا ہے باجی؟" مدثر شاہ فرید کی طرف مڑا-
"یہ اللہ کی باتیں ہیں بالکو، وہ جانے" شاہ فرید نے کہا- "ہر بات سمجھنے کے لئے نہیں ہوتی- بعض باتیں ماننی پڑتی ہیں، پھر خود سمجھ میں آ جاتی ہیں"
"وہ تو ٹھیک ہے لیکن۔۔۔۔۔۔"
"میں تم لوگوں سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں" شاہ فرید نے کہا " اور تم سے بھی نیاز محمد ----" وہ نیاز محمد کی طرف مڑے "میں چاہتا ہوں کہ یہ بات بس ہم لوگوں کے درمیان رہے- اس کا کبھی کسی سے تذکرہ نہ کرنا"
"کیوں باجی؟"
"دو نقصان ہیں اس کے- کچھ لوگ تو اسے جھوٹ سمجھیں گے- مذاق اڑائیں گے اور کیوں کہ یہ سچ ہے اس لئے وہ نقصان میں رہیں گے----- دوسرے جو لوگ اسے سچ مان لیں گے، وہ الہیٰ بخش کی قبر پوجنا شروع کر دیں گے-"
"سچ کہتے ہیں آپ" حاجی نیاز محمد بولے-
"آور تم جانتے ہو کہ یہ تمہارے ابا کو پسند نہیں تھا" شاہ صاحب نے لڑکوں سے کہا "ورنہ وہ پہاڑی پر دفن ہونے کی مخالفت نہ کرتا"
"آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں باجی" مدثر نے کہا-
"بس اس کو بھول جاؤ- اب ہم چلتے ہیں"
لڑکوں نے انہیں احترام سے رخصت کیا اور ان کے جاتے ہی گھر میں اس رومال کو تلاش کرتے رہے لیکن وہ رومال انہیں کیسے ملتا! وہ رومال حاجی نیاز محمد انہیں دے کر گئے تھے اور جو بیٹھک میں میز پر رکھا تھا، ، وہ رومال انہیں گھر میں کیسے ملتا!
وہ تینوں گھر سے نکلے اور باپ کی قبر کی طرف چل دئیے-
ڈیرے دی ونڈی گاؤں کے محلے سادات آبادی میں واقع فرید حسین شاہ کے مکان کے اوپری حصے میں آج بھی الہیٰ بخش کا کیا ہوا وہی رنگ چمک رہا ہے ----- الہیٰ بخش کا رنگ!
ختم شد