اگلے روز شاہ فرید نے وعدہ جلدی سے نبھانے کا فیصلہ کر لیا- وجہ یہ تھی کہ وہ لنگر کا کھانا نہیں کھا سکتے تھے- روایات کی پاس داری بھی تو ان کی طبعیت میں تھی اور وہ الہیٰ بخش کو انکار بھی نہیں کر سکتے تھے-
وہ پہنچے تو الہیٰ بخش کو اپنے ہاتھوں سے مرغ ذبح کرتے پایا- وہ انہیں دیکھ کر ہڑبڑا گیا"اتنی جلدی آ گئے سرکار؟" اس نے جلدی جلدی خون میں لتھڑے ہوئے دونوں ہاتھ دھوئے اور ہاتھوں کو کپڑے سے صاف کر کے ان کے ہاتھ چومے-
شاہ صاحب نے محسوس کیا کہ وہ انہیں ہمیشہ سے بھی زیادہ تعظیم دے رہا ہے- انہیں احساس نہیں تھا کہ اس کے مرید انہیں حیرت سے دیکھ رہے ہیں "ہاں الہیٰ بخش میں نے وعدہ پورا کر دیا ہے لیکن میں زیادہ دیر رکوں گا نہیں"
"آئیں تو ----- میں آپ کو جلدی نہیں جانے دوں گا" الہیٰ بخش انہیں اس گھنے درخت کے نیچے لے گیا جہاں اس کی گدی تھی "آپ یہاں تشریف رکھیں سرکار"
"نہیں یہاں نہیں بیٹھوں گا میں ۔۔۔ یہ تمہارا مقام ہے" شاہ صاحب نے کہا-
"میرا مقام تو آپ کے قدموں میں ہے باجی، آپ کو قسم ہے دنیا کے بادشاہ کی بیٹھ جائیں"
"یہ مناسب نہیں الہیٰ بخش"
لیکن الہیٰ بخش کی ضد کے سامنے انہیں ہتھیار ڈالنے پڑے- وہ بیٹھے تو الہیٰ بخش نے ان کے پاؤں دبانے شروع کر دئیے- اپنے مرشد کو جو شاۃ صاحب کے پاؤں دباتے دیکھا تو الہیٰ بخش کے کچھ مرید بھی اس سعادت میں شامل ہونے لگے- مگر الہیٰ بخش نے انہیں ڈپٹ دیا- "یہاں صرف میں باجی کے پاؤں دبا سکتا ہوں، کوئی اور نہیں"
تھوڑی دیر بعد الہیٰ بخش نے ان سے اجازت چاہی "سرکار، مجھے کھانا پکانا ہے"
شاہ صاحب کو حیرت ہوئی- الہیٰ بخش کے مرید پہلے ہی کھانا پکانے میں مصروف تھے- بہرحال انہوں نے کچھ نہیں کہا- بعد میں الہیٰ بخش پھر ان کے قدموں میں آبیٹھا "باجی میرے سرکار، آپ کے لئے دسترخوان بچھا دوں؟"
"الہیٰ بخش مجھے بھوک نہیں ہے" شاہ صاحب نے کہا-
الہیٰ بخش ان کے پاؤں دبانے لگا- پندرہ منٹ بعد اس کا ایک مرید اس کے پاس آیا "لنگر تیار ہے بابا"
"ٹھیک ہے تم جاؤ- میں آؤاز دے لوں گا"
دس منٹ گزر گئے تو شاہ صاحب نے الہیٰ بخش سے کہا " لنگر کیوں نہیں شروع کراتے الہیٰ بخش"
"سرکار، آپ بسم اللہ کریں گے تو اس کے بعد ہی لنگر شروع کروں گا"
"الہیٰ بخش، میں تو یہ کھانا نہیں کھا سکتا"
الہیٰ بخش اپنے دونوں ہرخسار پیٹنے لگا "یہ آپ نے کیسے سوچا سرکار کہ میں اتنا گستاخ ہو سکتا ہوں" اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا "میں نے علیحدہ سے اور خود اپنے ہاتھوں سے آپ کے لئے کھانا پکایا ہے- وہ مرغ میں آپ ہی کے لئے ذبح کر رہا تھا سرکار"
شاہ فرید کو اس پر بہت پیار آیا- وہ پہلے ہی جانتے تھے اور اب پوری طرح سمجھ گئے کہ الہیٰ بخش کس طرح کا آدمی ہے- اپنے مریدوں کے سامنے کوئی کسی اور کو اپنی گدی پر بٹھا کر اس کے پاؤں دبا سکتا ہے! کسی کے لئے کھانے کا ایسا اہتمام کر سکتا ہے!
رخصت ہوتے وقت شاہ فرید نے الہیٰ بخش سے پوچھا "تم نے ایسا کیوں کیا الہیٰ بخش؟"
بات وضاحت طلب تھی لیکن الہیٰ بخش سمجھ گیا کہ کیاکہہ رہے ہیں "آپ کی ذات سے دو فائدے ااٹھا رہا ہوں باجی، ایک تو عاقبت سنوار رہا ہوں- دوسرے آپ جانتے ہیں کہ مرید ہاتھ چومیں تو مجھ جیسے کمزور ااور چھوٹے آدمی کا نفس تو دنبہ بن جاتاہے- میں نفس کے اس موٹے دنبے کو پنپنے نہیں دینا چاہتا- باجی ---- ایک شعر سناؤں"
"سناؤ الہیٰ بخش"
"سادہ سا شعر ہے باجی، شاعر کہتا ہے؛
اسیر اب تک ہوں میں اپنی انا کا
مجھے تو اپنے رستے میں بچھا لے"
شاہ فرید کے ہونٹوں پر ستائشی مسکراہٹ ابھری-
"باجی اب جس گیارہویں کو آپ نہیں آئیں گے، یہاں لنگر نہیں ہو گا"
"ایسی شرط نہ لگاؤ الہیٰ بخش"
الہیٰ بخش رخسار پیٹنے لگا "شرط نہیں میرے سرکار، یہ دل کی آواز ہے"
-----------------------٭-------------------
شاہ فرید کے مکان کا رنگ و روغن کا کام مکمل ہو گیا لیکن جو تعلق قائم ہو گیا تھا، وہ الہیٰ بخش کی زندگی میں نہیں ٹوٹا- ہر اسلامی ماہ کی دس تاریخ کو الہیٰ بخش شاہ صاحب کے پاس آتا- سلام اور دست بوسی کرتا، پھر کہتا "باجی ۔۔۔۔۔"
"مجھے یاد ہے الہیٰ بخش کل گیارہ تاریخ ہے" شاہ صاحب اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کہہ دیتے "میں یہ تاریخ کبھی نہیں بھولوں گا- تم ہر ماہ کیوں تکلیف کرتے ہو"
"تکلیف نہیں باجی، یہ تو میرا فرض ہے"
شاہ صاحب جاتے اور شریک ہو تے- سب کچھ اسی طرح ہوتا جیسے پہلی بار ہوا تھا- اب شاہ صاحب کے بیٹے بھی ضد کر کے ان کے ساتھ آ جاتے تھے- انہیں الہیٰ بخش سے بڑی انسیت تھی- وہ وہاں جا کر بہت خوش ہوتے تھے-
انہی معمولات میں تین سال گزر گئے- ان تین برسوں میں الہیٰ بخش کی صحت اور خراب ہو گئی- اس کے سوا کچھ بھی نہیں بدلا-
الہیٰ بخش کے دل میں حج بیت اللہ اور روضہ رسولﷺ پر حاضری کی خوائش شدید سے شدید تر ہوتی گئی تھی- لیکن اس نے اس سلسلے میں کبھی بیٹوں سے فرمائش بھی نہیں کی تھی- پھر اللہ نے بیٹوں ہی کے دل میں ڈال دی- اسی سال انہوں نے مل کر اسے تیس ہزار روپے دئیے کہ وہ حج کر آئے-
اس سال الہیٰ بخش بہت خوش تھا- اس کی آرزو پوری ہونے والی تھی- وہ دن گن رہا تھا۔۔۔۔۔
ایک دن وہ پہاڑی پر اپنے پسندیدہ درخت کے نیچے کسی سوچ میں کھویا ہوا تھا کہ ایک شخص اس کے پاس چلا آیا "بابا ----- پانی والے با با ---" اس نے کئی بار پکارا
الہیٰ بخش نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا- اسے ایک نظر میں اندازہ ہو گیا کہ آنے والا بڑا ضرورت مند ہے- اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، جنہیں وہ پینے کی کوشش کر رہا تھا- اس کا جسم رہ رہ کر لرز رہا تھا- ہونٹ بھی کپکپا رہے تھے0
الہیی بخش اسے غور سے دیکھتا رہا- آنے والا جوان تھا- اس کی عمر تیس سے زیادہ نہیں تھی-
'کیا بات ہے بالکے"
"میرے لئے دعا کرو بابا"
"مسئلہ کیا ہے؟"
"بابا---- میرا بیٹا ہے چار سال کا- ہمیں جان سے بھی پیارا ہے- وہ کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہے- مجھے تو بیماری کا نام بھی معلوم نہیں---- ڈاکٹر کہتا ہے آپریشن پر پچیس ہزار کا خرچہ ہو گا تو وہ انشاللہ ٹھیک ہو جائے گا، ورنہ ---- و" وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا-
"تو پھر"
جوان آدمی روتے روتے رکا- "میرے لئے دعا کرو بابا، میں تو مشکل سے سو روپے روز کماتا ہوں- گھر کا خرچ بھی پورا نہیں پڑتا- زمیں یا ایسی کوئی چیز بھی میرے پاس نہیں جسے بیچ کر پچیس ہزار کر لوں- میں کیا کروں بابا- اللہ جی سے دعا کرو- وہ مجھے پچیس ہزار دے دے- میرے بیٹے کو بچا لے"
الہیٰ بخش کو اس پر بے ساختہ پیار آیا- اس نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا- اس نے چار سال کے بچے کا تصور کیا، جو دھیرے دھیرے موت کی سرحد کی طرف بڑھ رہا تھا- اللہ کا حکم ہواور پچیس ہزار مل جائیں تو وہ بچہ جوان ہو گا، اس کی شادی ہو گی، اس کے بچے ہوں گے ۔۔۔۔۔
"بابا میرے لئے یہ اکلوتا بیٹا ہی سب کچھ ہے- یہ پیدا ہوا تھا تو ڈاکٹر نے کہہ دیا تھا کہ اب ہمارے ہاں اولاد نہیں ہو گی کبھی- بابا میری نسل اسی سے چلنی ہے" جوان آدمی پھر رونے لگا-
یا اللہ---- اس بچے کو درازیء عمر عطا فرما- الہیٰ بخش کے دل سے آواز اٹھی- اسی لمحے اس کے ذہن میں آندھیاں چلنے لگیں- پچیس ہزار روپے، آپریشن، بچے کی زندگی، یہ لفظ اسی کے ذہن میں گردش کر رہے تھے- پھر ایک اور لفظ تھرکنے لگا ------ حج ------ حج-------حج-----!
فیصلہ بہت مشکل تھا- ایک طرف آگے جانے والی زندگی تھی اور دوسری طرف موت کی طرف بڑھتی ہوئی زندگی کی سب سے بڑی اور آخری آرزو- ایک اپنے لئے تھی اور دوسری کسی اور کے لئے- اسے اپنے باپ کے الفاظ یاد آئے- اللہ سے عشق کے لئے اس کے بندوں سے عشق ---- اور عشق میں حساب کتاب تو نہیں ہوتا اور حساب کتاب میں بھی ننھا پودا گرنے والے دیمک زدہ بوڑھے درخت سے بھاری ہوتا ہے-
مشکل سے سہی الہیٰ بخش فیصلے پر پہنچ گیا- اس نے سرد آہ بھرت ہوئے جوان آدمی سے کہا " مت رو بالکے، اللہ بہتر کرے گا- لیکن پہلے تجھے میری ایک بات ماننی ہو گی"
جوان آدمی اسے پر امید نظروں سے دیکھ رہا تھا-
"تو یہاں درخت کے نیچے لیٹ کر سونے کی کوشش کر- سو گیا تو انشااللہ تیرا مسئلہ حل ہو جائے گا- یہ نہ پوچھنا کہ کیسے حل ہو گا"
جوان آدمی لیٹ گیا- پریشانی میں نیند رات کو بھی نہیں آتی- لیکن اس سے الہیٰ بخش نے بات ہی ایسی کہی تھی کہ وہ پانچ منٹ کے اندر اندر سو گیا- الہیٰ بخش اٹھا اور اپنے گھر کی طرف چل دیا- واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں وہ تیس ہزار روپے تھے جو اس نے حج کے لئے رکھے تھے-
اس نے جوان آدمی کو جگایا نہیں- وہ سو کر اٹھا تو الہیٰ بخش نے کہا "بالکے انشااللہ تیرا مسئلہ حل ہو گا- میری ہدایت پر عمل کر- کھڑا ہو اور بسم اللہ پڑھ کر سامنے کی طرف چل – ہر درخت کی جڑ دیکھتا رہ- انشااللہ سات درخت پورے ہونے سے پہلے تیرا مسئلہ حل ہو جائے گا"
جوان آدمی اٹھ کھڑا ہوا-
"لیکن یاد رکھ، اس واقعے کا کبھی کسی سے ذکر نہ کرنا اور نہ کسی کو بتانا کہ مجھ سے ملاتھا-"
جوان آدمی بسم اللہ پڑھ کر آگے چل دیا- اسے یقین نہیں تھا کہ اسے کچھ ملے گا- مگر وہ قطار کے ہر درخت کی جڑ کو غور سے دیکھتا رہا- بلکہ وہ جھک کر ٹٹولتا بھی تھا- پانچویں درخت پر پہنچ کر ٹٹولنے کی ضرورت نہیں رہی- کپڑے کی وہ پوٹلی دور ہی سے نظر آ رہی تھی- اس نے بسم اللہ پڑھ کر بے تابانہ پوٹلی اٹھائی اور اسے کھول کر دیکھا- اس میں نوٹ ہی نوٹ تھے-
تیس ہزار روپے!
"جا بالکے، بیٹے کا علاج کرا- اللہ اسے زندگی سے- اب اس کے صحت مند ہونے تک یہاں نہ آنا" الہیٰ بخش نے پکار کر کہا-
جوان آدمی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا- وہ تیز قدموں سے پہاڑی اترنے لگا-
------------------------------٭------------------------
وقت سست رفتاری سے گزرتا رہا- الہیٰ بخش کی صحت خراب تر ہوتی گئی- لیکن معمولات جاری رہے- شاہ فرید سے اس کی عقیدت میں اضافہ ہوتا گیا- حج کے دن قریب آ رہے تھے-
ایک دب مبشر نے کہا "ابا تم نے حج کا کیا کیا ؟"
الہیٰ بخش سر جھکائے بیٹھا رہا-
"ابا کیا بات ہے خیر تو ہے"
"بیٹے تو سمجھ لے کہ میرا حج ہو گیا- اللہ قبول کرنے والا ہے" الہیٰ بخش نے دبے دبے لہجے ہوئے میں کہا-
"میں سمجھا نہیں ابا"
"پیسے خرچ ہو گئے بیٹے"
"کوئی بات نہیں ابا" مبشر بلا توقف کہا "اگلے سال سہی ابا، پیسوں کی فکر نہ کرو"
الہیٰ بخش کا دل شکر سے معمور ہو گیا- اللہ نے کیسی سعادت مند اولاد دی ہے اسے- اس کا خیال تھا کہ بیٹا اس پر برسے گا- تیس ہزار روپے کوئی چھوٹی رقم تو نہیں ہوتی- بیٹا پوچھے گا کہ کیا کیا اس رقم کا، "دیکھ بیٹے اللہ نے زندگی دی تو اگلے سال سہی کون جانے" اس نے آ ہ بھر کے کہا-
'اللہ تمہیں ہمارے سر پر سلامت رکھے ابا، دل چھوٹا نہ کرو" مبشر نے اسے تسلی دی-
"ایک بات بتا بیٹے" الہیٰ بخش نے کہا "تو ناراض تو نہیں مجھ سے"
"کیسی باتیں کرتے ہو ابا؟"
"تو نے پوچھا ہی نہیں کہ میں نے وہ رقم کہاں خرچ کر دی"
"ابا پہلی بات یہ ہے کہ تمہارے پیسے تھے- تمہارا اختیار تھا، جہاں چاہتے خرچ کرتے- دوسری بات یہ کہ مجھے معلوم ہے کوئی بڑی، بہت بڑی ضرورت ہو گی، ورنہ تم حج کے پیسے خرچ کرنے والے تو نہیں ہو- ابا مجھے تم سے ویسے ہی کچھ پوچھنے کا حق نہیں ہے"
"اللہ تجھے خوش رکھے بیٹے، میرے سارے بیٹے اللہ کی مہربانی سے اتنے اچھے ہیں- اللہ اجر دینے والا ہے"
الہیٰ بخش نے کسی کو نہیں بتایا کہ اس نے پیسے کہاں خرچ کئے ہیں-------
ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہونے سے چند روز پہلے ہی سے الہیٰ بخش کی طبعیت بگڑنے لگی- وہ اس حد تک بیمار ہوا کہ بستر سے لگ گیا- اسے خیال آیا کہ اس حال میں تو وہ حج کر بھی نہیں سکتا تھا- اس نے اندر ایک طمانیت پھیل گئی- جو ہوا تھا، اسی میں بہتری تھی- اللہ بہترین رہنمائی فرماتا ہے-
حاجرہ دن رات اس کی دیکھ بھال میں لگی رہی- بیٹے بھی خدمت کر رہے تھے- لیکن الہیٰ بخش جانتا تھا کہ اس کی حالت مسلسل بگڑ رہی ہے- اس نے کسی کو یہ بات نہیں بتائی- بقر عید سے دو دن پہلے یہ حال ہو گیا کہ وہ بغیر سہارے کے چل نہیں سکتا تھا-
عید کے دن الہیٰ بخش بہت مضطرب تھا- اصرار کر کے وہ نماز پڑھنے گیا- اس نے بیٹھ کر نماز ادا کی- گھر پہنچا تو وہ بے حد نڈھال تھا- کچھ دیر وہ لیٹا رہا پھر اچانک وہ اٹھ بیٹھا- اسے خیال ہی ایسا آیا تھا-
وہ اٹھ ہی رہا تھا کہ مزمل نے اسے تھام لیا- "کیا کام ہے ابا، مجھ سے کہو"
"کام ایسا ہے بیٹے کہ خود ہی کرنا ہے" الہیٰ بخش کہتے کہتے ہانپ گیا- "مجھے شاہ صاحب سے ملنے جانا ہے بیٹے ---- ڈیرے دی ونڈ"
"وہ تو بہت دور ہے ابا، میں انہیں بلا لاتا ہوں"
الہیٰ بخش کا ہاتھ اٹھا لیکن اس نے خود کو روک لیا "نہیں بیٹے، میں گستاخی نہیں کر سکتا- تو نے ایسا سوچا کیسے"
"ابا تمہاری حالت ایسی ہے"
"میں جا سکتا ہوں اور جاؤں گا- تو مجھے لے چل بیٹے" الہیٰ بخش گڑ گڑانے لگا-
مزمل نے سوالیہ نظروں سے ماں کو دیکھا- عمر بھر اطاعت کرنے والی حاجرہ نے اثبات میں سر ہلایا- وہ انکار کیسے کر سکتی تھی-
"ٹھیک ہے ابا میں گاڑی لے آتا ہوں"
"بیٹے مجھے پیدل جانا ہے"
بادل ناخواستہ مزمل اسے سہارا دے کر باہر لے آیا- الہیٰ بخش کو ہر چند قدم کے بعد رکنا پڑتا تھا- ہر بار وہ رکتا تو بیٹے کے چہرے کو غور سے دیکھتا لیکن سعادت مند بیٹے کے پیشانی پر کوئی شکن اور چہرے پر تکدار کا کوئی سایہ نظر نہیں آیا-
دھوپ چڑھ رہی تھی- انہوں نے آدھے سے کچھ زیادہ فاصلہ طے کیا ہو گا کہ سامنے سے فرید شاہ آتے نظر آئے- وہ الہیٰ بخش اور مزمل سے عید ملے-
"آپ کہاں جا رہے ہیں باجی سرکار؟" الہیٰ بخش نے ہاپبتے ہوئے کہا-
"تمہاری ہی طرف جا رہا تھا الہیٰ بخش- پتا چلا تھا تم بیمار ہو"
الہیٰ بخش کا جسم لرزنے لگا- "مجھے گناہگار کر رہے تھے باجی" اس کے لہجے میں شکایت تھی-
"کیسی باتیں کرتے ہو- اس حال میں تم میرے پاس آ کر تم مجھے گناہگار کر رہے تھے- کیا میں تم سے ملنے نہیں آ سکتا"
"میری زندگی میں تو یہ ممکن نہیں سرکار"
"اب کیا ارادہ ہے"
"آپ کے ساتھ آپ کے گھر چلوں گا باجی"
شاہ فرید نےمحبت سے اس کا ہاتھ تھام لیا "بہت ضد کرتے ہو- چلو، میں تمہیں لے کر چلوں گا"
الہیٰ بخش اچانک تن کر سیدھا ہو گیا اور جیسے جسم میں نئی روح دوڑ گئی ہو "آپ میرا ہاتھ تھام کر مجھے سہارا دے رہے ہیں باجی"
"ہاں یہ میرا حق بھی ہے اور میرا فرض بھی"
الہیٰ بخش مزمل کی طرف مڑا "بیٹے تو گھر چلا جا- اب مجھے تیرے سہارے کی ضرورت نہیں" اس کے لہجے میں توانائی تھی "دو گھنٹے بعد تو مجھے لینے آ جانا"
"اس کی ضرورت نہیں" شاہ فرید نے کہا "میں الہیٰ بخش کو خود لے آؤں گا"
مزمل نہ چاہتے ہوئے بھی واپس چلا گیا- شاہ فرید، الہیٰ بخش کو سہارا دے کر اپنے گھر تک لائے- انہوں نے پلنگ پر بٹھایا اور تواضع کی لیکن ان کے اصرار کے ابوجود الہیٰ بخش لیٹنے کے لئے تیار نہیں ہوا-
"باجی کل گیارہ تاریخ ہے"
"مجھے یاد ہے الہیٰ بخش-ہمیشہ یاد رہتا ہے" شاہ فرید نے ہمیشہ کی طرح کہا-
"پھر بھی باجی، میرا تو فرض ہے کہ دعوت دینے آؤں"
"ایک بات بتاؤں الہیٰ بخش" شاہ صاحب نے کہا "مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے"
الہیٰ بخش نے گہری سانس لی- "زندگی کام آ گئی سرکار، موت آسان ہو گئی" اس نے کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا- دیر تک روتا رہا- ہچکیاں بندھ گئیں "میں اس قابل نہیں تھا باجی سرکار، بس اللہ کیدین ہے- اس کا کرم ہے- اب مجھے زندگی سے کچھ نہیں چاہیئے"
سجاد حسین نے اسے پانی لا کر دیا- پانی پی کر اس کی طبعیت ذرا سنبھلی- وہ دیر تک شاہ صاحب کی اتیں سنتا رہا- خود وہ بہت کم بولا اور اس نے ایک سیکنڈ کے لئے بھی پیٹھ نہیں لگائی- شام ہوئی تو شاہ صاحب نے کہا "الہیٰ بخش اب کہو تو میں تمہیں گھر لے چلوں"
الہیٰ بخش اٹھ گیا- رخصت ہوتے وقت اس نے شاہ صاحب کے بیٹوں کے ہاتھ بڑی بے تابی سے چومے- باہر نکلتے ہوئے اس نے دیوار کو بڑی محبت سے چھوا- اس کے ہونٹ یوں ہلے جیسے دیوار سے کچھ کہہ رہا ہو- دیوار پر رنگ اس کا تھا-
باہر نکلا تو وہ جھکا اور اس نے دروازے کی چوکھٹ کو چھوا- اس کے ہونٹ پھر ہلے ----- راستے میں اس نے شاۃ صاحب سے کہا "ایک بات میں بھی کہوں باجی"
"کہو الہیٰ بخش"
"اب شاید میں یہاں کبھی نہ آؤں- اصل میں، میں آپ کو آخری سلام کرنے آیا تھا-"
"اللہ تمہیں بہت عمر دے الہیٰ بخش، ایسی باتیں نہیں سوچتے"
الہیٰ بخش نے کچھ نہیں کہا- اپنے گھر پہنچ کر اس نے کہا "باجی میرے گھر میں نہیں آئیں گے؟"
"کیوں نہیں"
الہیٰ بخش کی آواز توانا ہو گئی- وہ چیخ چیخ کر بیٹوں اور حاجرہ کو ہدایات دیتا رہا کہ وہ شاہ صاحب کی تواضع کریں- شاہ صاحب نے بھی اس روز تعرض نہیں کیا- ان کے جانے کے بعد الہیٰ بخش اچانک نڈھال ہو گیا- رات ہوتے ہوتے اس کی طبعیت بہت بگڑ گئی- بیٹے ڈاکٹر کو بلانے پر مصر تھے لیکن اس نے انہیں روک دیا- "کل تک میں ٹھیک نہ ہوا تو ڈاکٹر کو بلالینا" اس نے کہا "اب تم لوگ میرے پاس بیٹھو"
حاجرہ اس کے پاؤں دبانے لگی- مبشر سر سہلا رہا تھا اور مدثر مزمل اس کے ہاتھ سہلا رہے تھے-
"دیکھو کوئی قیامت تک نہیں جیتا- کوئی ساری عمر اپنوں کے ساتھ نہیں رہتا" اس نے کہا- "میری باتیں غور سے سنو ---- اور یاد رکھنا"
حاجرہ چپکے چپکے رونے لگی-
"دیکھو لوگ مجھے پہاڑی پر دفن کرنا چاہیں گے، ایسا نہ ہونے دینا- مجھے گاؤں کے قبرستان میں دفن کرنا" وہ بیوی اور بیٹوں کی کیفیت سے بے نیاز کہتا رہا- "میرا پیغام سب کو دے دینا کہ میری قبر پر صرف فاتحہ پڑھیں- اسے مزار نہ بنائیں- شرک نہ کریں، میں کسی قابل نہیں تھا، صرف دل آزاری سے بچنے کے لئے جھوٹا پیر بن گیا تھا- اور میرے بیٹو، یہلنگر کا سلسلہ بھی بند کر دینا- اور تم ---- تمہیں جو میں ہمیشہ سمجھاتا رہا ہوں وہی کرنا، لوگوں کی عزت، لوگوں سے محبت، سادات کا احترام، اور ہاں میرے ہر معاملے میں باجی سے مورہ کرنا—تم سب بھی میری کوہتاہیاں معاف کر دینا اور دوسروں سے بھی کہنا کہ میں نے سب سے معافی مانگی ہے- مجھے معاف کر دیں- میری مغفرت کے لئے دعا کرتے رہنا اور دوسروں سے بھی کرانا-"
وہ کہتے کہتے چپ ہو گیا- دیر تک چپ رہا- مبشر نے دیکھا وہ سو گیا- اس نے اشارے سے دوسروں کو بتایا- تینوں بھائی دبے قدموں وہاں سے ہٹ آئے- صرف حاجرہ اس کے پاؤں دباتی رہی- پاؤں دباتے دباتے وہ خود بھی سو گئی-
صبح وہ جاگی تو الہیٰ بخش اس وقت بھی سو رہا تھا- اس نے اٹھ کر اس کا چہرہ دیکھا- وہ بہت پر سکون اور صحت مند لگ رہا تھا- اس کے ہونٹوں پر بڑی خوبصورت مسکراہٹ تھی، جیسے کوئی بہت حسین خواب دیکھ رہا ہو-
حاجرہ کو احساس ہوا کہ وہ بے حس و حرکت ہے- اس نے اس کی پیشانی کو چھو کر دیکھا- وہ برف سے ٹھنڈی ہو رہی تھی- پنچھی پنجرہ توڑ کر اڑ چکا تھا-
وہ ذی الحجہ کی گیارہ تاریخ تھی لیکن اس روز لنگ نہیں ہوا- مرید آئے تو اسی لئے تھے لیکن اس روز انہیں بس مرشد کو کندھا دینا تھا- جنازے میں ایک ایسا جوان شخص بھی تھا جو رو رہا تھا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ---- "بابا ----- پانی والے بابابا ----- میرا بچہ ٹھیک ہو گیا ہے بابا!"
بانڈہ بٹنگ کے جلاہے الہیٰ بخش کی کہانی ختم ہو چکی تھی ------ الہیٰ بخش کی کہانی، جس کا خمیر ہی عشق سے اٹھا تھا!
----------------------٭-------------------
لیکن الہیٰ بخش کی کہانی اب بھی ختم نہیں ہوئی تھی!
چوتھے دن تینوں بیٹوں نے ماں کے سامنے وہ بکس کھولا جسے الہیٰ بخش بہت عزیز رکھتا تھا- کسی کوچھونے نہیں دیتا تھا- بکس کھلنے کے بعد وہ سب حیران کھڑے تھے- بکس میں زیادہ چیزیں نہیں تھیں- سب سے اوپر ایک پھول دار کاغذ اور ایک چھوٹا سا کارڈ تھا- کارڈ پر بہت خوبصورت تحریر میں لکھا تھا ----
"الہیٰ بخش کے لئے سالگرہ کی دلی مبارکباد اور نیک خوائشات اور خلوص و محبت کے ساتھ-
سادی "
پھول دار کاغذ کے نیچے پیکٹ تھا- مزمل نے پیکٹ کو کھولا تو گتے کی پیکنگ نمودار ہوئی- پیکنگ میں ہلکے نیلے رنگ کی خوبصورت شیشی نکلی، جس میں زرد سیال بھرا ہوا تھا- یقیناٰ وہ کوئی خوشبو تھی ----- باہر کی خوشبو-
مزمل نے بلا ارادہ اسپرے کیا- خوشبو کی پھوار نکلی اور خوشبو ہر طرف پھیلنے لگی- وہ بہت پیاری خوشبو تھی-
دونوں بھائیوں نے چونک کر دیکھا تو مزمل کھسیا گیا- مگر خوشبو پر اس کا اختیار نہیں تھا- وہ تو اب پھیل رہی تھی-
"یہ کیا ہے؟" حاجرہ نے مدثر سے پوچھا-
"خوشبو ہے اماں، ابا کے کسی دوست نے کبھی انہیں تحفہ دیا تھا"
تینوں بھائیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں طے کیا کہ وہ ماں کو حقیقت کبھی نہیں بتائیں گے- تینوں اپنی اپنی جگہ سادی کے بارے میں سوچ رہے تھے- کیسا عجیب نام ہے ------ سادی! اس سادی سے ابا کا کیا تعلق ہو گا- یہ کب کی بات ہے------ کہاں کی بات ہے؟
خوشبو کے نیچے ایک پینٹ اور شرٹ تھی- جوتے تھے جس میں جرابیں تھیں- کپڑے نالکل نئے لگ رہا تھت- الہیٰ بخش نے ہمیشہ اس بکس کا بہت خیال رکھا تھا-باقاعدگی سے فنائل کی گولیاں ڈالا کرتا تھا-
سب حیرت سے ان چیزوں کو دیکھتے رہے- یہ طے تھا کہ کپڑے ایک بار بھی نہیں دھلے تھے- بیٹے سوچ رہے تھے ---- ابا نے یہ کپڑے پہنے ہوں گے- جانے کیا عمر ہو گی اس وقت ان کی ---- کیسے لگ رہے ہوں گے انہیں پہن کر- وہ تصور میں باپ کو یہ کپڑے پہنے دیکھنے لگے-
حاجرہ بھی یہی سب دیکھ اور سوچ رہی تھی-
وہ سب وقت کے طلسم کے اسیر تھے- وقت ہی اس طلسم کو توڑ سکتا تھا اور وقت نے ہی توڑا-
دروازے پر دستک نے ان سب کو چونکا دیا- مدثر نے کہا " میں دیکھتا ہوں"
اس نے جا کر دروازہ کھولا- سامنے ایک موٹر سائیکل کھڑی تھی- موٹر سائیکل سوار وردی پہنے ہوئے تھا- اس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا "الہیٰ بخش صاحب یہیں رہتے ہیں؟" اس نے پوچھا-
"جی ---- کیا بات ہے؟"
"یہ پیکٹ ہے ان کے نام"
"کہاں سے آیا ہے؟"
"کراچی سے، آپ الہیٰ بخش صاحب کو بلا دیں "
"وہ تو نہیں آ سکتے" مدثر نے اداسی سے کہا-
"تو ان سے رسید پر دستخط کرا دٰیں"
"تین دن پہلے ابا کا انتقال ہو چکاہے"
کورئیر کو شاک لگا- وہ وہیں دعا کے لئے بیٹھ گیا- پھر اس نے کہا "مجھے بہت افسوس ہے جناب، آپ اس رسید پر دستخط کر دیں"
مدثر نے دستخط کئے اور پیکٹ لے کر گھر میں آ گیا-
گھر میں اس پر بحث شروع ہوئی کہ پیکٹ کھولا جائے یا نہیں- پیکٹ پر بھیجنے والے کا نام پتا موجود تھا- وہ آفتاب نامی کسی ایڈوکیٹ نے بھیجا تھا- ان میں سے کوئی بھی اسے نہیں جانتا تھا- آخر مزمل نے کہا "ابا نے کہا تھا میرے معاملے میں باجی سے مشورہ کرنا- ہمیں یہ پیکٹ لے کر باجی کے ہاں چلنا چاہیئے"
اس پر دوسرے دونوں بھائی بھی متفق ہو گئے- حاجرہ کو تو کسی معاملے سے دلچسپی نہیں تھی- وہ بس گم صم بیٹھی تھی-
تینوں بھائی پیکٹ لے کر شاہ فرید کے گھر پہنچے- شاہ صاحب نے انہیں عزت سے بٹھایا "کیا بات ہے بالکو؟"
"باجی، ابا کے نام یہ پیکٹ آیا ہے- ہمیں اسے کھولنا چاہیئے یا نہیں- ہم یہ آپ کے پاس لے آئے ہیں" مدثر نے کہا اور پیکٹ شاہ صاحب کی طرف بڑھا دیا-
شاہ صاحب نے پیکٹ لے لیا- ان کے کانوں میں الہیٰ بخش کی کہی ایک بات گونج گئی- اس نے کہا تھا ------ میں اپنے بچوں کو اپنے بارے میں سب کچھ بتانا چاہتا ہوں- کچھ چھپانا نہیں چاہتا ان سے لیکن مجھے بتانا نہیں آتا- کیسے بتاؤں -----
شاہ صاحب نے سوچا، ممکن ہے یہ پیکٹ ہی بچوں کو باپ کے بارے میں کچھ بتانے والا ہو "تم لوگ اسے کھول لو" انہوں نے کہا-
"باجی آپ ہی کھول کر دیکھ لیں- پھر فیصلہ بھی آپ ہی کریں گے کہ اس کا کیا کیا جائے- ابا نے ہمیں یہی ہدایت کی تھی-" مبشر نے کہا-
شاہ فرید نے بڑی احتیاط سے لفافہ چاک کیا- اندر سے ایک خط اور ایک ایک لفافہ نکلا- انہوں نے خط پڑھا-
"الہیٰ صاحب!
آپ کو حیرت ہو گی کیونکہ آپ مجھ سے واقف نہیں- میں بھی آپ سے واقف نہیں ہوں- میں اپنا تعارف کرا دوں- میرا نام آفتاب حسین ہے اور میں وکیل ہوں- گزشتہ بیس سال سے میں اپنی موکلہ محترمہ سعدیہ بیگم کے مالی اور کاروباری امور کا نگراں ہوں- کوئی چھ ماہ پہلے بیگم صاحبہ نے مجھے طلب کر کے ایک خط اور آپ کا پتہ دیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ ان کی موت کے بعد میں یہ خط آپ کو پوسٹ کر دوں-
آپ کو یہ جان کر دکھ ہو گا کہ ابھی چند روز پہلے دس ذی الحجہ کو شام چھ بجے محترمہ سعدیہ بیگم کا انتقال ہو گیا- ان کی ہدایت کے مطابق آپ کی یہ امانت کورئیر سروس کے ذریعے آپ کو ارسال کر رہا ہوں-
کار لائقہ سے یاد فرمائیے گا-
وسلام-
خلوص کیش
آفتاب حسین- ایڈوکیٹ
شاہ فرید خط پڑھنے کے بعد چند لمحے سوچ میں ڈوبے رہے- پھر انہوں نے خط مدثر کی طرف بڑھا دیا- تینوں بھائیوں نے مل کر وہ خط پڑھا اور شاہ صاحب کو سوالیہ نظروں سے دیکھا-
"میرا خیال ہے یہ ذاتی نوعیت کا خط ہے- تمہیں یہ خط پڑھ لینا چاہیئے" شاہ صاحب نے کہا-
تینوں لڑکوں نے نفی میں سر ہلایا-
"الہیٰ بخش تمہارے سامنے اپنی پوری زندگی کھول کر رکھنا چاہتا تھا- یہ بات اس نے خود مجھ سے کہی تھی- لیکن وہ بے بسی محسوس کرتا تھا، کچھ نہ بتا سکا- شاید یہ تمہارے لئے موقع ہے کہ تم اپنے باپ کے بارے میں جان سکو- اسے سمجھ سکو- یہ خط کھول لو- تمہیں یہ حق حاصل ہے-" شاہ صاحب نے کہا-
تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تینوں متفق تھے- مدثر نے کہا " باجی، اپنے معاملات کے لئے اابا نے آپ کو نامزد کیا تھا- آپ یہ خط کھول لیں اور پڑھیں- پھر مناسب سمجھیں تو ہمیں بھی پڑھنے کی اجازت دے دیں-'
شاہ فرید چند لمحے ہچکچائے پھر انہوں نے دوسرا لفافہ چاک کیا اور خط نکال لیا- ان کے ہاتھوں میں لرزش تھی اور دل کانپ رہا تھا- وہ مرنے والے کی ذاتی زندگی میں داحل ہونے والے تھے- کون جانے، اس میں کیسے کیسے راز ہوں-
چھلکتی آنکھوں سے انہوں نے خط پڑھنا شروع کیا-------
چھلکتی آنکھوں سے انہوں نے خط پڑھنا شروع کیا-
---------------------*-----------------------
عزیز دوست!
اسلام وعلیکم
مجھے بھول گئے ہو- عرصہ بھی تو اتنا بیت گیا- تیسری دہائی گزری جا رہی ہے- درمیان میں کئی بار تمہیں خط لکھنے کو جی چاہا لیکن سوچا کہ وہ مقصد ہی فوت ہو جائے گا جس کے لئے اتنی اذیت سہی ہے، حالانکہ جانتی تھی کہ وہ مقصد کبھی پورا نہیں ہوا-
یہ خط تمہیں ملے گا تو میں اس دنیا میں نہیں ہوں گی- شرم آتی تھی اس لئے یہ شرط رکھی کہ یہ خط میرے مرنے کے بعد تمہیں پوسٹ کیا جائے- میری ایک بہت بڑی غرض تم سے وابستہ ہے- وہ غرض نہ ہوتی تو میں شاید اب بھی تمہیں خط نہ لکھتی- اس غرض کے لئے ہی یہ ضروری تھا کہ تمہیں سب کچھ بتاؤں کہ تا کہ تم میری غرض پوری کر سکو-
اس خط میں کچھ اعترافات ہیں اور کچھ انکشافات- اس یقین کے ساتھ پڑھنا کہ ایک ایک لفظ سچ ہے، کوئی مرنے والا جھوٹ نہیں بولتا نا- میں بھی سب کچھ سچ لکھ رہی ہوں- بے حجاب ہو کر لکھ رہی ہوں- برا لگے تو مجبور سمجھ کر معاف کر دینا لیکن میری غرض پوری کر دینا-
میں اس دوپہر کو کبھی نہیں بھولی جب طارق روڈ کت فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ایک رنگ ساز کو میں نے پہلی بار دیکھا تھا- آج اعتراف کر رہی ہوں کہ مجھے پہلی نظر میں ہی تم سے محبت ہو گئی تھی-میں اس وقت بہت کم عمر تھی- مجھے نہیں معلوم تھا کہ مقام اور مرتبے کا فرق کتنا بڑا فرق ہوتا ہے- پھر بھی میں نے اس محبت کی نفی کی، اس کا مزاق اڑایا- میں اس طرف نہیں گئی- میں نہیں چاہتی تھی کہ بات آگے بڑھے- اس کے باوجود مجھ سے نہیں رہا گیا- میں ایک بار اور گئی اور تمہیں دیکھا- یوں کہ تمہیں پتا بھی نہیں چلا ہو گا-
پھر قسمت تمہیں میرے گھر محسن بنا کر لے آئی- تم نے میرے چھوٹے بھائی کی جان بچائی تھی- اللہ جنت نصیب فرمائے، میرے پاپا بہت اچھے انسان تھے- محسنوں کی عزت کرتے تھے- انہوں نے تمہیں پرکھا اور پھر میرا ہی ڈرائیور بنا دیا- اب میں کیا کرتی- فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کر دیا تھا کہ مجھے تم سے محبت کرنی ہے-
میں پہلی ہی نظر سے جانتی تھی کہ تم بھی پہلی ہی نظر سے مجھ سے محبت کرنے لگے ہو- تم مجھے کالج لے جانے اور لانے لگے تو میری آنکھیں خواب دیکھنے لگیں- میں اپنی عمر سے بڑی اور سمجھدار ہوتی گئی- میں نے سوچا تمہیں ڈرائیوری چھوڑ کر دفتری کام کی طرف راغب کروں گی- پاپا اس سلسلے میں بخوشی کام آتے- تم مزید تعلیم حاصل کرتے اور شاید کسی دن تمہارے پاس وہ سب کچھ ہوتا جو پاپا کے پاس تھا- میں نے اللہ کی نوازاشات دیکھی ہیں- میرے پاپا بھی غربت ہی سے یہاں تک پہنچے تھے- تو یہ سب کچھ سوچا تھا میں نے!
لیکن اس سلسلےمیں تم سے ہونے والی گفتگو نے میری آنکھیں کھول دیں- مجھے پتا چل گیا کہ حقیقت پسندی کیاہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں- تم جو تھے وہی رہنا چاہتے تھے- اب میں سوچتی ہوں کہ یہ درست ہے- آدمی کو وہی رہنا چاہیئے جو وہ ہے- تم میری خاطر سمجھوتے تو نہیں کر سکتے تھے- تمہیں مجھ سے محبت تھی تو اس لئے کہ تم اس محبت پر مجبور تھے- پھر میری سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ تم نے مجھے پانے کا کبھی سوچا بھی نہیں- تم مجھے پانا ہی نہیں چاہتے- تمہاری محبت بے غرض اور بہت بلند ہے-
یاد ہے تم نے مجھ سے کہا تھا، نیچے سے اوپرجانا مشکل ہے- ہاں اوپر سے نیچے آنا آسان ہے- اور یہ بھی کہ کیا اوپر ہے اور کیا نیچے، یہ تو اپنا اپنا نقطہ نظر ہے- میں تمہاری خاطر سمجھوتے کر سکتی تھی- نیچے آ سکتی تھی- میں بانڈہ بٹنگ میں دال چاول چنتے چارہ بناتے، اپلے تھاپتے زندگی گزار سکتی تھی لیکن عزت جاتی رہتی- میں بغاوت کرتی تو والدیں کی بھی جاتی اور میں تمہارے گھر میں بھی عزت کی مستحق نہ ہوتی-
میں اعتراف کر رہی ہوں کہ محبت تو مجھے ہو گئی تھی-لیکن محبت کیسے کی جانی چاہیئے، یہ میں نے تم سے سیکھا – مگر میرے اور تمہارے انداز میں ایک بڑا فرق تھا- تم محبت کئے جاتے تھے لیکن تمہیں میرے جذبات اور محسوسات سے کوئی غرض نہیں تھی- محبت مجھ پر کیسے اثر انداز ہو گی، یہ تم نے کبھی نہیں سوچا جبکہ مجھے تمہاری فکر تھی- میں نے یہ محسوس کیا کہ شہر اور شہر کے لوگوں، بالخصوص خواتین کے بارے میں تمہارے نظریات اور طرح کے ہیں- تمہارے میں وہاں حیا اور آبرو کی کوئی اہمیت نہیں- یہ غلط تھا اور غلط ہے، میں تمہیں سمجھا سکتی تھی لیکن نہیں، مجھے تو تمہارے نظریات کی اس خامی سے فائدہ اٹھانا تھا-
چنانچہ میں نے تمہارے لئے شاہد کا ہوا تخلیق کر ڈالا- میری سوچ یہ تھی کہ یا تو تم رقابت میں مبتلا ہو کر میرے تجویز کردہ سمجھوتے کو قبول کر لو گے یا پھر مجھے برا سمجھ کت میری محبت چھوڑ دو گے اور نفرت کرنے لگو گے- اب سوچتی ہوں کہ میرا سوچنے کا انداز بچگانہ تھا- دونوں میں سے ایک بات بھی نہ ہوئی- ہاں شاید شہر اور شہریوں کے بارے میں تمہارا نظریہ اور پختہ ہو گیا-
میں اس کے بعد پیچھے نہیں ہٹ سکتی تھی اور نہیں ہٹی- یونیورسٹی میں ہر روز تمہارے لئے اپنی آوارگی کے ثبوت فراہم کرتی رہی- لیکن تمہارا کچھ نہیں بگڑا، البتہ عشق کا مفہوم مجھ پر واضح ہوتا چلا گیا-
میں نے کئی بار سوچا کہ پاپا سے بات کروں- میں جانتی تھی کہ پاپا دشواری سے سہی، میری بات سمجھ اور مان لیں گے، اس لئے کہ ان کے لئے میری خوشی اہم تھی- لیکن مسئلہ امی کا تھا- امی ابتدا ہی سے چڑتی تھیں اور ان کا چڑنا بے سبب نہیں تھا- بیٹی کو ماں سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا- ماں، بیٹی کی ہر نظر ہر لہجہ اور ہر خوائش پہچانتی ہے- ہمارے درمیان کبھی اس موضوع پر اشارتاٰ بھی بات نہیں ہوئی- لیکن مجھے یقین ہے کہ امی نے مجھے پہلی ہی نظر میں پہچان لیا تھا ----- اسی دن جب میں نے طارق روڈ پر پہلی بار تمہیں دیکھا تھا، امی میرے ساتھ تھیں- شاید امی نے جبھی سمجھ لیا تھا اور پھر تم ہمارے گھر آ گئے اور میرا تمہارا ساتھ رہنے لگا- امی کھل کر کچھ کہہ نہیں سکتی تھیں- تو وہ تم سے نفرت کے سوا اور کیا کرتیں-
تم نہیں جانتے الہیٰ بخش میں نے کتنی کرب ناک راتیں نیند سے محروم گزاری ہیں- آدمی اچھا ہو اور خود کو بدترین ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہو تو وہ کیسے کرب سے دوچار ہو سکتا ہے- پھر اس کا نتیجہ بھی کچھ نہیں نکلا رہا تھا- میری صحت تباہ ہونے لگی-
پھر وہ واقعہ پیش آ گیا جب امی نے تم پر چوری کا الزام لگایا- اس روز میرے غم و غصے کی کوئی حد نہیں تھی- لیکن میں چھوٹی تھی- امی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی- میں جانتی تھی کہ تم کتنے سچے اور خود دار آدمی ہو- مجھے یقین تھا کہ تم ملازمت چھوڑ دو گے- لیکن پھر مجھے اندازہ ہوا کہ تمہارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے- میں نے سمجھ لیا کہ تم یونہی مجھ سے بے لوث محبت کرتے ، میری خدمت کرتے پوری زندگی گزار سکتے ، یعنی ضائع کر سکتے ہو- اور اتنا اچھا آدمی ایسے انجام کا مستحق نہیں ہوتا- پھر مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ امی اب روز کسی نہ کسی بہانے تمہیں ذلیل کریں گی اور تم میری محبت کی خاطر اسے سہہ لو گے- سہتے سہتے عزت نفس سے محروم ہو جاؤ گے- تمہاری خوبصورت روح کچلی جائے گی، یہ مجھے گوارا نہیں تھا- میں تمہیں ویسا ہی خوبصورت پھلتا پھولتا اور کامیاب انسان دیکھنا چاہتی تھی- میں نے فیصلہ کیا کہ اب تمہارے جانے کا وقت آ گیا ہے- وہ بہت تکلیف دہ فیصلہ تھا اور وہ نتیجہ حاصل کرنے کا جو طریقہ میں نے اپنایا، وہ اور زیادہ اذیت ناک تھا- اس روز میں نے خود کو تمہارے آگے بالکل گرا لیا- خود کو ذلیل کر لیا میں نے- مگر مجھے طمانیت یہ تھی کہ اب تم مجھ سے محبت ترک کر دو گے- گھر جاؤ گے، شادی کرو گے اور اچھی زندگی گزارو گے- اپنی اولاد کی تربیت اچھی طرح کرو گے-
میری اس حرکت نے تمہیں جانے پر مجبور کر دیا- تم جا رہے تھے تو میں تمہیں کھڑکی سے دیکھ رہی تھی- میری آنکھیں برس رہی تھیں لیکن دل میں اذیت میں لپٹی ایک خوشی تھی کہ میں تمہارے کام آئی- میں نے محبت کا حق ادا کر دیا-----