ماضی۔۔
وہ کافی دیر سے عرش کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی جس کی باتیں ہی ختم نہیں ہو رہی تھیں۔۔
"رابی تم سن رہی ہو میں کیا بتا رہی ہوں "۔۔
اسکا دھیان کہیں اور محسوس کر کے عرش نے اسے ہلایا۔۔
"ہاں ۔۔ ہاں میں سن رہی ہوں نا کیا کہ رہی تھی"۔۔
اس نے بےدھیانی سے جواب دیا نظریں سائیڈ ٹیبل پر رکھی اس خوبصورت سے باکس پر ٹکی تھیں۔۔
"کیا آپ وہ رنگ پہن سکتی ہیں"۔۔
اسکے کانوں سے وہ آواز ٹکرائی تھی۔۔ اسکے ہونٹ بے ساختہ مسکرا اٹھے۔۔
"رابی۔۔
عرش غصے سے چیخی۔۔
"تم کل سے کچھ کھوئی کھوئی سی نہیں ہو۔۔ دھیان کہاں ہے تمہارا ہاں "۔۔
عرش نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔۔
"عرش تم یوں ہی پتہ نہیں کیا کیا کہ رہی ہو"۔۔
اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔۔ مسکراہٹ ہونٹوں سے جدا نہیں ہو رہی تھی۔۔
"اوہ تو یہ بات بے بات مسکرایا کیوں جا رہا ہے "۔۔
عرش نے اسکا رخ اپنے جانب کرتے ہوئے شرارت سے کہا۔۔
"میں میں کہاں مسکرا رہی ہوں عرش "۔۔
وہ منمنائی۔ ۔
"باجی آپ دونوں کو نیچے بڑی باجی بلا رہی ہیں"۔۔
ملازمہ کے اطلاع دینے پر وہ دونوں وہ ڈوپٹہ چہرے کے گرد ٹھیک سے لپیٹتی عرش کے ساتھ کمرے سے نکلی۔۔
ڈرائنگ روم سے باتوں کی آواز آ رہی تھی۔۔ وہ حیران سی آگے بڑھی۔۔
"جلابیب"۔۔
فاطمہ بیگم کے سامنے جلابیب کو بیٹھا دیکھ اسکے قدم ٹھہرے۔ دوسری جانب عنصر اور اشر بھی سنجیدہ سے فاطمہ بیگم کی بات سن رہے تھے۔۔ کمرے کا ماحول غیر معمولی حد تک سنجیدہ تھا۔۔ اسنے حیران نظروں سے عرش کو دیکھا تو اسنے نظروں میں ہی اسے تسلی دی۔ عرش کے بہت اسرار پر بھی وہ اندر نہیں گئی۔۔
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی لان میں اپنے مخصوص جگہ پر بیٹھ گئی۔۔ ذہن اندر ہی کہیں الجھا ہوا تھا۔۔
"جلابیب اس وقت کیوں آئیں ہیں؟ اور ماما کیا کہ رہی تھیں اس طرح"۔۔
وہ خود سے الجھتی انگلیاں مروڑ رہی تھی۔۔
خود پر نظروں کی تپش محسوس کر کے اس نے ادھر ادھر دیکھا۔۔ وہ سامنے ہی کھڑا اسکی جانب ہی دیکھ رہا تھا۔۔
وہ اسے کچھ کہے بغیر اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا تھا۔۔
آج وہ اس کے بیٹھنے پر اٹھی نہیں تھی شاید وہ چاہتی تھی کے وہ اسکی الجھن دور کرے۔۔
"میں آنٹی سے ہماری شادی کے متعلق بات کرنے آیا تھا رابیل۔۔ مجھے باہر جانا ہے میں چاہ رہا تھا جانے سے پہلے ہی سادے سے تقریب میں ہمارا نکاح ہو جائے۔۔ آپ کے بغیر نہیں جانا چاہتا تھا"۔۔
کافی دیر تک جب اس نے کچھ نہیں کہا تو جلابیب نے خود ہی خاموشی توڑی۔۔ وہ جانتا تھا وہ خود کچھ نہیں کہیگی۔۔ وہ تو اسکے سوالوں کے جواب ہی لگے باندھے دیتی تھی۔۔
"مگر آنٹی ابھی آپ کی شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔ وہ کہ رہی ہیں کے تین سال میں آپ کی پڑھائی بھی کمپلیٹ ہو جائیگی تو اسکے بعد ہی نکاح اور رخصتی دونوں کرینگی"۔۔
وہ اپنے مخصوص پرسکون لہجے میں کہتا اسے دیکھ رہا تھا۔۔ جو سامنے بیٹھی اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھی۔۔
"تو آ آپ چلے جائینگے؟"
جلابیب نے اسکے لہجے میں انجانا سا خوف محسوس کیا۔۔ اسکے لہجے میں لرزش تھی۔۔
"آپ میرے جانے سے خوفزدہ ہیں یا مجھے کھونے سے پیاری لڑکی"۔۔
"دونوں سے"۔۔
اسنے بامشکل آنسوں روکتے ہوئے کہا۔۔ ضبط کی کوشش میں اسکے ہونٹ کانپ رہے تھے۔۔
"آپ خود کے پاس بھی میری امانت ہیں رابیل ۔۔ یہ بات یاد رکھینگی نا "۔۔
اس نے آس بھری نظروں سے اسے دیکھا۔۔
"ہمیشہ۔۔ جب تک رابیل کی سانسیں ہیں وہ آپ کی امانت ہے "۔۔
اب کی بار اس نے آنسوں کو بہنے سے روکا نہیں تھا۔۔
"تو بس میرا انتظار کر لیں تین سال تو ہیں یوں گزر جائینگے"۔۔
وہ خود ضبط کرتا اسے دلاسہ دے رہا تھا۔۔
رابیل حدید کا کانپتا لہجہ گواہی دے رہا تھا کے آگ دونوں طرف برابر لگی ہے"۔۔
"مم میری پڑھائی مکمّل ہونے تک آپ یہاں بھی تو رک سکتے ہیں نا "۔۔
"مجھے تو جانا ہی تھا رابیل یہ بات میں نے اشر کو بہت پہلے سے بتائی ہوئی تھی۔۔ مگر آپ کو دیکھنے کے بعد آپ کے بغیر نہیں جانا تھا۔۔ مگر جو اللہ کو منظور"۔۔
اسنے سرد آہ بھری۔۔
"دو دن بعد کی فلائٹ ہے "۔۔
اسکے کہنے پر رابیل نے محض سر ہلانے پر اکتیفاء کیا۔۔
"کبھی کبھی انتظار بہت طویل ہو جاتا ہے جلابیب اور بہت تکلیف دہ بھی۔۔ کوشش کیجیے گا مجھے انتظار سا جلد ہی آزاد کر دیں"۔
وہ کہتے ہوئے روکی نہیں تھی۔۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اندر کی جانب بڑھی تھی۔۔ جلابیب کی نظروں نے اسکے اوجھل ہو جانے تک پیچھا کیا۔۔
اسکے جانے کے بعد وہ خود بھی گہری سانس لیتا اندر کی جانب بڑھا۔۔
"اپنی امانت آپ کے حوالے کر کے جا رہا ہوں آنٹی خیال کیجیے گا "۔۔
انکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اس نے التجائ نظروں سے انھیں دیکھا تھا۔۔
"وہ تمہاری ہی امانت ہے جلابیب میرے پاس۔۔ میں اتنی جلدی اسے خود سے اتنے دور بھیجنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہی ہوں۔۔ اسکی ابھی عمر بھی نہیں جلابیب پڑھائی بھی مکمّل نہیں ہوئی ہے۔۔ اسکی پڑھائی مکمّل ہو جائے جب تک تم بھی پاکستان واپس آجاؤ گے ۔
تمہاری امانت تمہارے حوالے کر دونگی میں"۔۔
انہوں نے اسے نم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔
"خود سے اتنے دور چھوڑنے پر ہی تو میرا دل بھی نہیں مان رہا نا آنٹی"۔۔
وہ زخمی سا مسکرایا۔۔
"مجھے اشر نے نہیں بتایا تھا بیٹا کے تم اتنی جلدی شادی کرنا چاہ رہی ہو۔۔ وہ اکیس کی ہے ابھی۔۔ عرش کی رخصتی بھی میں کبھی عنصر کے ساتھ نہیں کرتی اگر اسکا نکاح نہیں ہوا ہوتا تو "۔۔
انہوں نے اپنے انداز میں اسے سمجھانے کی کوشش کی۔۔
"جی آنٹی میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں۔۔ چلیں تین سال ہی تو ہیں گزر جائینگے ۔۔ دو دن بعد کی فلائٹ ہے میری "۔۔
وہ اداسی سے مسکرایا۔۔
____
"ماما ہمیں شادی تو کرنی ہے نا رابی کی تو ابھی کیوں نہیں "۔۔
اسکے جانے کے بعد اشر نے اداسی سے کہا تھا۔۔
"رابی کی کوئی عمر نہیں نکلی جا رہی ہے اشر۔۔ رشتہ کر دیا ہے پڑھائی مکمّل ہو جانے پر شادی بھی کر دینگے۔۔ میں نے عرش کی رخصتی اتنی جلدی کر دی۔۔ رابی کو میں اتنی جلدی خود سے دور نہیں کرنا چاہتی"۔۔
انہوں نے نم آنکھوں سے عرش کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔۔
کمرے میں داخل ہوتی رابیل کے قدم تھمے تھے۔۔ وہ بناء کچھ کہے ہی باہر نکل آئ۔۔
وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔۔ بلا ارادہ ہی اسکی نظر گلاس ونڈو سے نیچے باہر جاتے جلابیب پر پڑھی تھی۔۔ اس نے اپنی سسکیاں روکی۔۔ وہ گاڑی میں بیٹھتا گاڑی زن سے اڑاتا نکل گیا تھا۔۔
________
اور پھر وہ چلا گیا تھا اسے آس کی ڈور تھما کر۔۔
________
تین سال بعد۔۔۔
وہ ابھی فجر کی نماز سے فارغ ہوئی تھی۔۔ پردے ہٹا کر ٹھنڈی ہوا اپنے اندر اتارتی وہ کھل کر مسکرائ ۔۔ یہ صبح واقعی اتنی خوبصورت تھی یا اسے لگ رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی۔۔ مسکرا کر ایک نظر اپنی مہندی سے سجی ہتھیلوں پر ڈالی۔۔
آج تین سال بعد وہ اسکے روبرو ہونے جا رہی تھی۔۔ اسکی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ رہی تھیں۔۔ ایک عجب سے خوشی تھی جو اسکے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔۔
"رابی اٹھ گئی ہو"۔۔
عرش کہتی ہوئی اپنا بیڈول سراپا سمبھالتی اندر آئ تھی۔۔
"یہ تم نے پھر سے صبح صبح پورے گھر میں پھرنا شروع کر دیا عرش۔۔ کتنی بار کہا ہے کم از کم اس حالت میں تو اپنا خیال کرو۔۔ اب بھی اچھلتی پھر رہی ہو۔۔ مجھے رنگ دے دیتی میں آ جاتی تمہارے کمرے میں"۔۔
اسے اس وقت یوں دیکھ کر وہ خفا ہوئی تھی۔۔ رابیل نے آگے بڑھ کر اسے شانوں سے تھامتے بیڈ پر بیٹھایا۔۔جو اب مسکراتے ہوئے اسے دیکھتی اپنی سانسیں بحال کر رہی تھی۔۔
"بھئ اب تمہاری شادی ہی ایسے موقعے پر ہو رہی ہے۔۔ میں اپنی رابی کی شادی پوری طرح انجوئے کرنا چاہتی ہوں۔۔ اور تمہارے ہوتے ہوئے مجھے کچھ ہو سکتا ہے کیا"۔۔
اس نے مسکرا کر رابیل کی جانب دیکھا جو اب بھی خفا خفا سی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔
"تم کرو نا انجوئے لیکن احتیاط کے ساتھ عرش"۔۔
اسنے اسکا معصوم سا چہرہ ہاتھوں میں لیکر کہا تھا۔۔ وہ اب بھی ویسی ہی تھی اگلے لمحے کی پروا کئے بغیر ہر لمحہ مکمّل جینے والی عرش جیسے وقت اسے چھوئے بغیر ہی گزر گیا ہو۔۔
رابیل نے محبت سے اسے دیکھا۔۔
"تم اپنے بےبی کا نام کیا رکھو گی عرش"۔۔
رابیل نے شرارت سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
"میں نہیں رکھونگی نام۔۔ میں نے عنصر سے پہلے ہی کہ دیا ہے بےبی گرل ہوئی تو اسکا نام عنصر رکھینگے اور اگر بےبی بوائے ہوا تو اسکا نام تم رکھوگی"۔۔
اسنے آنکھیں میچ کر مسکراتے ہوئے کہا۔۔
"یہ کیا بات ہوئی "۔۔
وہ اسکی عجب منطق پر جی بھر کر حیران ہوئی۔۔
"ہاہاہا وہ کبھی فرصت میں بتاؤنگی ابھی دلہن صاحبہ آپ مجھ سے اپنی فیوچر پلاننگ شئیر کیجیے "۔۔
اس نے شرارت سے کہا تھا۔۔
"بہت تنگ نہیں کر رہی ہو تم مجھے کل سے"۔۔
رابیل نے مصنوئ خفگی سے اسے گھورا تھا۔۔
"تم نے کم تنگ کیا تھا مجھے میری شادی پر "۔۔
جواباً عرش نے بھی آنکھیں دکھائی۔۔
"ہاہاہا ہاں یاد ہے مجھے تم نے ولیمہ کے دن ہی عنصر بھائی کا داخلہ ممنوع کر دیا تھا "۔۔
رابیل نے ہنستے ہوئے کہا۔۔ جواباً عرش نے پاس پڑا تکیہ اٹھا کر اسے ماڑا تھا۔۔
اگلے چند لمحوں میں رابیل ولاء انکی کھنکتی ہنسی سے گونج رہا تھا۔۔ ایک دوسرے پر تکیے برساتی وہ دونوں پرانی باتیں یاد کرتیں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھیں۔۔ کمرہ کسی میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا۔۔
_________
"آپ اتنی پیاری پہلے بھی تھیں یا اب ہو گئیں ہیں مسز"۔۔
وہ جو کانوں میں بالیاں ڈال رہی تھی اپنے بلکل پیچھے عنصر کی آواز سن کر مسکرا اٹھی۔۔ مہرون ساڑھی میں بالوں کو لوز کرل کئے ایک سائیڈ پر ڈالے بالیوں کے ساتھ الجھتی وہ سیدھا اسکے دل میں اتر رہی تھی۔۔
"آپ پلیز جلدی تیار ہو جائیں میں ذرا رابی کو دیکھ لوں"۔۔
اسکی نظروں سے کنفیوز ہو کر اس نے جھنجھلا کر بالیاں ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی۔۔ اپنی ساڑھی سمبھالتی دروازے کی جانب بڑھی تھی۔۔
"یہاں بیٹھیں عرش"۔۔
اگلے ہی لمحے اس نے اسکا ہاتھ تھام کر بیڈ پر بیٹھایا تھا۔۔
"عنصر لیٹ ہو جائینگے ہم رابی کو بھی دیکھنا ہے آپ کیوں مجھے اس طرح بیٹھا رہے ہیں خود بھی تیار نہیں ہو رہے"۔۔
وہ رونے والی ہو گئی تھی۔۔
"آرام سے مسز خیال رکھیں اپنا صبح سے ادھر ادھر دوڑتی پھر رہی ہیں "۔۔
باری باری اسکے دونوں کانوں میں بالیاں ڈالتے اس نے دھیمی آواز میں کہا تھا۔۔
"افف سب کو میری ہی فکر ہے ادھر رابی نے اچھی خاصی سنا دی ادھر آپ بھی ۔۔ جب اتنے سارے خیال رکھنے والے ہیں میرے پاس تو مجھے کیا ضرورت ہے خود اپنا خیال رکھنے کی۔۔
وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی۔۔
"اور فکر نہیں کریں اتنی جلدی جان نہیں چھوڑونگی میں آپ کی"۔۔
وہ شرارت سے کہتی اسکا سہارا لیکر اٹھی تھی۔۔
"عرش آپ ۔۔ یہ آپ کیا سوچ رہی ہیں ۔۔ کیوں کہی آپ نے یہ بات "۔۔
وہ غصے سے پاگل ہونے والا ہو گیا تھا۔۔
"لفظوں سے روح کیسے نکلتی ہے یہ عنصر یزدانی کو آج اچھی طرح سمجھ آیا تھا"۔۔
اسے شانوں سے سختی سے تھام کر اسنے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔۔ وہ اسکی آنکھوں میں نمی باآسانی دیکھ سکتی تھی۔۔
"عنصر ریلیکس میں میں اب نہیں کہونگی"۔۔
اسے غصے میں دیکھ کر اس نے سہم کر کہا۔۔
"عرش میری طرف دیکھیں ایسی بات مذاق میں بھی نہیں کہینگی آپ کبھی ۔۔ سمجھ رہی ہیں میری بات "۔۔
اسنے نرمی سے اسکا چہرہ تھاما آج کے دن وہ اسے ڈرانا نہیں چاہتا تھا۔۔
"ہممم کبھی نہیں کہونگی اب جاؤں میں رابی کے پاس "۔۔
اسکے کہنے پر اس نے نفی میں گردن ہلائ۔۔
"پر کیوں "۔۔
عرش نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
"کیوں کے پہلے آپ میرے ساتھ ایک پکچر لینگی اسکے بعد میں خود آپ کو رابی کے کمرے تک چھوڑ آؤنگا "۔۔
اسنے جیب سے موبائل نکالتے ہوئے کہا۔۔
"عنصر رابی کا کمرہ یہیں دو کمروں کے بعد ہے "۔۔
اس نے ہنستے ہوئے گویا اسے یاد دلایا۔۔
ایک کی بجائے بہت سی تصویریں اسکے ساتھ لیکر وہ اسے رابیل کے کمرے تک چھوڑ آیا تھا۔۔
__________
"رابی تم سچ میں پاگل ہو"۔۔۔
رابیل کو دلہن کے کپڑوں میں بناء میک اپ کے دیکھ کر وہ چیخ ہی تو پڑی تھی۔۔
"نہیں عرش مجھے ایسے کیوں کہ رہی ہو "۔۔
رابیل نے حیران نظروں سے پہلے اسے پھر خود کو دیکھا۔۔
"ادھر بیٹھو تم۔۔نکاح ہے آج تمہارا آج تو تھوڑا میک اپ کر لو ورنہ جلابیب بھائی ڈر کر بھگ جائینگے۔۔
اسے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے چیئر پر بیٹھاتی وہ برسی تھی۔۔
"ادھے گھنٹے میں سب آ رہی ہیں اور یہاں دلہن صاحبہ ہیں منہ دھو کر بیٹھی ہیں۔۔ ناول میں نہیں پڑھا کیا تم نے کتنا تیار ہوتی ہے دلہن پھر بھی رائیٹرز اسے سادہ سا حسن کہ رہی ہوتی ہیں۔۔ اور ایک میری بہن ہے حد ہی کر دی تم نے"۔۔
تیزی سے اسے تیار کرتی وہ ساتھ ہی ساتھ غصے میں بڑبڑا رہی تھی۔۔
اسکے غصے کے باوجود بھی رابیل ہنس پڑی۔۔
"دانت نہیں نکالو رابی "۔۔
اسے ہنستے دیکھ کر اسے اور تپ چڑھی۔۔ اسکے ہاتھوں میں چوڑیاں ڈالتی ایک بار پھر بھڑک اٹھی۔۔
"میری پیاری سی عرش اتنا تو تیار کر دیا تم نے "۔۔
اس نے پیار سے اسکی پیشانی چومی۔۔
جواباً سارا غصہ بھول کر اس نے اسے گلے لگایا ۔۔
"بہت حسین لگ رہی ہو رابی"۔۔
اسنے پیار سے رابیل کی جانب دیکھا تھا۔۔ جو ریڈ اور گولڈن کے امتیزاج کا لہنگا پہنے ساتھ میں جیولری اور ہلکے میک اپ میں واقعی کوئی اپسرہ لگ رہی تھی۔۔ اسکے چہرے پر ایک الگ سی چمک تھی۔۔
"تم بھی تو اتنی پیاری لگ رہی ہو "۔۔
رابیل نے پھر سے اسے گلے لگایا۔۔
"اب تم یہ ڈوپٹہ ٹھیک کرو میں ماما کے پاس نیچے جا رہی ہوں "۔۔
رابیل نے مسکرا کر اسکی پشت دیکھی۔۔ آج وہ بلکل اسکی بڑی بہن جیسا ریئکٹ کر رہی تھی۔۔
"جلدی کرو بیٹا آ گئے وہ لوگ "۔۔
فاطمہ بیگم کہتے ہوئے اندر داخل ہوئیں۔۔
"ماشاءالله۔۔ اللہ نظرے بد سے بچائے کتنی پیاری لگ رہی ہیں میری دونوں بچیاں "۔۔
انہوں نے دیکھتے ہی بلائیں لیں باری باری دونوں کی پیشانی چومی۔۔
"آج میری یہ چڑیا بھی چلی جائیگی" ۔۔
رابیل کو ساتھ لگاتے انہوں نے نم آنکھوں سے کہا تھا۔۔ وہ جو کب سے ضبط کر رہی تھی انکے سینے سے لگی بری طرح روئی۔۔
"ششش روتے تھوڑی ہیں اتنے خوبصورت دن "۔۔
انہوں نے پیار سے آنسوں صاف کئے۔۔
"چلیں نیچے "۔۔
انہوں نے مسکراتے ہوئے رابیل کی جانب دیکھا۔۔
"ہاہاہا چلیں ماما جلابیب سوکھ جایگا انتظار کر کے"۔۔
عرش نے شرارت سے کہا وہ روتے ہوئے ہنس پڑی تھی۔۔
وہ ایک ہاتھ سے رابیل کا ہاتھ تھامے دوسرے ہاتھ سے اپنی ساڑھی سمبھالتی رابیل کے کان میں سرگوشی کرتی مسکراتی ہوئی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہی تھی۔۔ اسے محسوس ہوا اسکا پاؤں ساڑھی میں پھنس رہا تھا اگلے ہی لمحے اسکا ہاتھ رابیل کے ہاتھ سے جدا ہوا اور وہ سیڑھیوں سے گرتی چلی گئی۔۔
رابیل نے بے یقینی سے اپنا خالی ہاتھ دیکھا اور پھر سیڑھوں کے اختتام پر پڑی عرش کو دیکھ کر وہ چیخ ہی تو پڑی تھی۔۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتی نیچے آئ تھی۔۔
"عرش۔۔۔
اسکا سر اپنی گود میں رکھ کر اسکے گال تھپتپائ تھی۔۔
فاطمہ بیگم نے اپنا دل تھاما۔۔ رابیل کی چیخ سن کر ڈرائنگ روم میں جلابیب کے ساتھ بیٹھے عنصر اور اشر کمرے سے نکلے تھے۔۔
آگے کا منظر دیکھ کر اسکے پاؤں کے نیچے سے زمین نکلی تھی۔۔ خون میں لت پت پڑی وہ اسکی عرش تھی۔۔
"عرش عرش کیا ہوا عرش آنکھیں کھولے "۔۔
اسنے بے یقینی سے بے سود پڑھی عرش کو دیکھا۔۔
"اشر انہیں ہسپتال لے کر چلیں میں گاڑی نکال رہا ہوں"۔۔
جلابیب نے اشر سے کہا جو آنکھیں کھولے بےیقینی سے عرش کا سر گود میں رکھے بلکتی رابیل کو دیکھ رہا تھا۔۔ اسکی دونوں بہنیں اس حالت میں اسکے سامنے تھیں۔۔
"عنصر عرش عرش کو اٹھا ہسپتال چل جلدی"۔۔
وہ دھاڑا تھا۔۔
___
وہ بہت تیز گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔۔ وہ اسکے برابر میں بیٹھی مسلسل اپنی بہن کی زندگی کی دعائیں کر رہی تھی۔۔
"جلابیب پلیز اور تیز چلا ۔۔
اسنے نم آواز میں کہا۔۔
"عرش میری جان آنکھیں کھولے پلیز مجھے دیکھیں "۔۔
وہ اسکا سر گود میں لئے کہ رہا تھا۔۔
"عنصر ہم پہنچ ۔۔
جلابیب کی بات مکمّل ہونے سے پہلے ہی وہ گاڑی کا دروازہ کھولتے اسے گود میں اٹھائے اندر کی جانب بڑھا تھا۔۔
اشر پہلے ہی پہنچ چکا تھا اسے فوراً آئ سی یو میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔۔
اتنی جلدی جان نہیں چھوڑونگی آپ کی"۔۔
"عنصر ہمارا بےبی نا بوائے ہوگا"۔۔
"مجھے نہیں پڑھنا "۔۔
اسکی آوازیں اسکے کانوں میں گونج رہی تھی ۔۔ اسکے ساتھ گزارے ہوئے وہ چار سال ایک ایک لمحہ نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا۔۔
"عنصر بھیا۔۔
رابیل کے پکارنے پر اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔۔
"ٹھیک ہو گئیں نا میری عرش رابیل"۔۔
اس نے آس بھری نظروں سے اسے دیکھا۔۔ جو گود میں پنک کمبل میں لپٹی چھوٹی سی پری جیسی بچی لئے کھڑی تھی۔۔ جسے کچھ لمحے پہلے ہی نرس اسکے حوالے کر کے گئی تھی۔۔
"یہ یہ آپ کی بیٹی عنصر بھیا۔۔ ہماری عرش کی بیٹی"۔۔
اس نے سسکتے ہوئے کہا ۔۔
"اسے سب سے پہلے گود میں وہی لینگی رابیل انہوں نے کہا تھا سب سے ہمارے بچے کو وہ خود گود میں لینگی"۔۔
اسنے ضبط سے کہا تھا۔۔ آنسوں آنکھوں سے باہر آنے کو بیتاب ہو رہے تھے۔۔
__________
رات دھیرے دھیرے گزر رہی تھی۔۔ وہ سب اس وقت ہسپتال کے کاریڈور میں موجود تھے وہ دلہن کے لباس میں ملبوس چادر کو نماز کے سٹائل میں لپیٹی دیوار سے سر ٹیکاے کھڑی تھی نظریں گود میں موجود اس معصوم وجود پر ٹکی تھیں ۔اسکے ساتھ ہی بینچ پر فاطمہ بیگم بیٹھیں زیر لب کچھ پڑھ رہیں تھیں ۔ اُس کی نظریں آئ ۔سی ۔او کے شیشے سے سر ٹیکاے کھڑے عنصر یزدانی پر پڑی تھیں اس وقت وہ شخص اسے بہت ہارا ہوا لگ رہا تھا کچھ کھو جانے کا خوف اسکے چہرے پر با آسانی پر سکتی تھی ۔۔۔
"میں رابیل ولاء کی جان ہوں رابیل اسکے کانوں میں اسکی کھنکتی ہوئی آواز گونجی تھی اس گھر کے ہر فرد کی جان بستی ہے مجھمے "۔۔
رابیل نے ایک نظر وہاں موجود سب لوگوں پہ ڈالی اور ایک گہری سانس لی تھی آنسوں تواتر سے اسکا چہرہ بھگو رہے تھے۔۔
" ہاں تم سچ کہتی تھی عرش رابیل ولاء بھلے ہی میرے نام سے ہے مگر اس گھر کے مکینوں کی جان عرش حدید میں بستی ہے۔۔۔ تم تم ہم سب کی جان ہو عرش کوئی ایسے کسی کی جان نکالتا ہے کیا"۔۔۔
سنناٹے میں اسکی سسکی گونجی تھی ۔
آئ۔سی ۔او کا دروازہ کھلا تھا باہر نکلنے والا اشر یزدانی تھا عنصر تیر کی سی تیزی سے اسکی طرف بڑھا تھا۔۔
"اشر عرش کیسی ہے"؟ وہ ٹھیک ہے نا میں مل لوں اس سے؟"
اشر آنکھوں میں نمی لئے اپنے بھائی کو دیکھ رہا تھا جیسے اسے اسپے گزری قیامت سے آگاہ کرنے کے لئے الفاظ ڈھونڈھ رہا ہو ۔ "
"عنصر میری بات غور سے سنو وہ اسے شانوں سے تھامے کہ رہا تھا ۔عرش از نو مور ہماری عرش اب اب نہیں ہے عنصر وہ چلی گئی "۔۔
یہ الفاظ نہیں تھے غم کا پہاڑ تھا جو ان لوگوں پر ٹوٹا تھا۔۔
"عنصر سن رہے ہو تم ہماری عرش اب ہمارے ساتھ نہیں ہے"
وہ اسے جھجورتے ہوے کہ رہا تھا۔
یکدم ہی عنصر جیسے ہوش میں آیا تھا ۔ آئ۔سی۔او کی طرف بھاگا تھا اسٹرچر پر پڑے بےجان وجود کو بےیقینی سے دیکھا تھا۔۔
"عرش عرش میری جان دیکھیں اشر کیا کہ رہا ہے کہتا ہے آپ اب نہیں اٹھینگی وہ اسکے مہندی لگے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوے کہ رہا تھا"۔۔
"عرش آنکھیں کھولیں دیکھیں ہماری فرشتے ہماری چھوٹی سی پری آئ ہے آپ نے کہا تھا نا سب سے پہلے آپ گود میں لینگی اٹھیں نا اسے گود میں لیں دیکھیں رابیل نے آپ سے پہلے لے لیا اسے عرش پلیز نا ستائیں نا ہنی"۔۔
وہ اسکی بند آنکھوں کو چومتے ہوے کہ رہا تھا۔۔
اسنے ساکت کھڑی رابیل کی طرف دیکھا۔
"عرش دیکھیں رابیل اسکا نکاح ہے نا آج اٹھیں نا دیکھیں رابیل تم تم کہو نا انہیں اٹھنے مجھسے زیادہ تمہاری بات سنتی ہیں نا یہ"۔۔
وہ دیوانہ وار اسے پکار رہا تھا مگر وہ آج اسکی پکار سن ہی رہی نہیں تھی ۔
رابیل نے پتهرآئ نظروں سے عرش کا بےجان وجود دیکھا تھا اسے یقین نہیں آرہا تھا کے ابھی سے کچھ گھنٹوں پہلے تک اس سے مستیاں کرتی اسکی عرش اسکی واحد دوست اسکی بہن اب اسکے ساتھ نہیں تھیں اسنے بےیقینی سے گود میں سکون سے سوئ فرشتے کو دیکھا تھا اور پھر ایک نظر عنصر یزدانی پر ڈالی تھی جو اب اسکی گود سے فرشتے کو لیتا اسے سینے سے لگاے پھوٹ پھوٹ کے رو رہا تھا ۔۔
"عرش ایسا نہیں کر سکتی وہ بڑبڑائ تھی ۔ عرش تم تم تو میرے ساتھ اس دنیا میں آئ تھی نا عرش ہم تو ساری چیزیں ساتھ کرتیں ہیں نا تم تم اکیلی کیسے جا سکتی ہو"۔۔
وہ عرش کے ہاتھ پکڑے ہلکی آواز میں کہ رہی تھی۔۔
"بولو نا عرش اکیلے جا رہی ہو مم مجھے کس کے سہارے چھوڑ کے جا رہی ہو عرش"۔۔
اگلے ہی لمحے اسکی چیخیں عرش ہلا رہی تھیں۔۔
"وہ صبح بہت خوبصورت تھی مگر اس خوبصورت صبح کا اختتام بہت بھیانک تھا"۔۔