ماضی۔۔
"عرش۔۔ عرش اٹھیں ہم پہنچ گئے ہیں "۔۔
عنصر نے اسے آہستہ سے ہلایا ۔۔ وہ پورے راستے سوتی رہی تھی۔۔ اور ابھی بھی سو رہی تھی۔۔
"عرش اٹھیں ورنہ میں آپ کو گاڑی میں ہی چھوڑ دونگا"۔۔
اسنے آخری کوشش کی۔۔
"آپ سے اللہ پوچھے عنصر سونے بھی نہیں دیتے ہیں "۔۔
اسکی دھمکی کارگر ثابت ہوئی وہ کہتے ہوئے اٹھی۔۔
"سارے گدھے گھوڑے بیچ کر سونے کے لئے آپ کو میری ہی گاڑی ملی تھی۔۔ چلے اٹھیں پہنچ گئے ہیں ہم"۔۔
عنصر نے اسے گاڑی سے نکالتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔۔
"کہا تھا رابی کو نہیں بھیجے مجھے انکے ساتھ اب تو مجھے اور زیادہ ڈانٹیں گے مجھے "۔۔
وہ بڑبڑاتے ہوئے اسکے پیچھے چل رہی تھی۔۔ گہری نیند سے اٹھائے جانے پر اسکا موڈ اچھا خاصا خراب ہو گیا تھا۔۔
آ آپ پلیز تھوڑا ہلکا چلینگے میں میں پیچھے رہ جا رہی ہوں"۔۔
تھوڑی دیر بعد عنصر نے اسکی پھنسی پھنسی آواز سنی تھی۔۔ وہ تھک کر کھڑی ہو گئی تھی۔۔
عنصر نے پیچھے مڑ کر دیکھا اسے احساس ہوا وہ واقعی کافی تیز چل رہا تھا۔۔
اسنے آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ سے اسکا ہینڈ بیگ لیا۔۔ دوسرے ہاتھ سے نرمی سے اسکا ہاتھ پکڑے فلیٹ کی جانب بڑھا۔۔
"ویلکم مسز عنصر یزدانی ۔۔ یہ ہمارا۔۔"
اسکی بات مکمّل ہونے سے پہلے ہی اسکے سائیڈ سے نکل کر اندر آ گئی تھی ۔۔ عنصر نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
یہ دو کمرے کچن اور ٹی۔وی لاؤنچ پر مشتمل چھوٹا سا مگر بہت خوبصورت اپارٹمنٹ تھا۔۔وہ آنکھیں پھیلائے منہ کھولے پورا گھر دیکھ رہی تھی۔۔ کچھ دیر پہلی والی نیند کا اسکے چہرے پر شائبہ تک نہیں تھا۔۔
عنصر نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔۔
"یہ میرا گھر ہے"۔۔
وہ سوفے پر مزے سے دونوں پیر اٹھا کر بیٹھتے ہوئے کہ رہی تھی۔۔
"بلکل یہ ہمارا گھر ہے آپ کو پسند آیا؟"
عنصر نے 'ہمارے' پر زور دیتے ہوئے کہا تھا۔۔
"ہاں یہ یہ تو بہت پیارا ہے بلکل جیسے اس ڈرامے میں تھا پر اس میں نا اسٹئیرز(stairs) بھی تھے یہاں پر۔۔
اسنے پورے گھر کا جائزہ لیتے ہوئے کچن اور روم کے درمیان کے جگہ پر اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔۔
عنصر کو اسکے دلچسپی کی وجہ اب سمجھ میں آئی تھی۔۔ وہ اس لئے خوش تھی کیونکے اسکا گھر بھی ڈراموں کے گھر جیسا تھا۔۔
وہ نفی میں سر ہلاتا کمرے کی جانب بڑھا تھا۔۔
"کیا آپ کو چائے بنانی آتی ہے "۔۔
وہ بھی اسکے پیچھے کمرے میں آئی تھی۔۔
"Dont tell me Arsh کے آپ مجھے اس وقت چائے بنانے کہنے والی ہیں "۔۔
عنصر کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ اسے کس طرح ہینڈل کرے جو بھی ہو وہ لیکر تو آ گیا تھا اسے اور اب برداشت بھی کرنا ہی تھا ۔
"رابی اس وقت چائے بناتی تھی میرے لئے اور ماما کے لئے اسے خود چائے نہیں پسند "۔۔
اسنے دکھی لہجے میں کہا تھا۔۔ ابھی رابی ہوتی تو چائے بنا کر کپ اسکے ہاتھ میں رکھ چکی ہوتی۔۔
عنصر نے باغور اسے دیکھا جو بھی ہو وہ اسے اس طرح دکھی نہیں کر سکتا تھا۔۔ وہ سب جانتے ہوئے اسے اپنی زمیداری پر یہاں لیا تھا تو پوری تو کرنی تھی۔۔
"چلیں آجائیں چائے بناتے ہے پر کل آپ بنائینگی ٹھیک ہے پھر نیکسٹ ڈے میری ٹرن آئےگی "۔۔
اسنے اگلے دنوں کا پلان اسے بتایا تھا جو عرش کو بلکل پسند نہیں آیا۔۔
"پر مجھے نہیں آتی ہے چائے بنانا "۔۔
اسنے کچن کاؤنٹر پر بیٹھتے ہوئے فکر مندی سے کہا تھا کل کی ٹینشن اسے ابھی سے ہی ہو گئی تھی۔۔
"ابھی میں بنا رہا ہوں نا آپ سیکھ لیں کل چائے تو آپ ہی بنائینگی۔۔
اور کھانا بھی ایک دن آپ بنائینگی ایک دن میں ۔۔ مجھے باہر کا کھانا بلکل نہیں پسند اور نا میں میڈ کے ہاتھ کا کھانا کھاتا ہوں"۔۔
اسنے چائے کپ میں انڈیلتے ہوئے آرام سے اس پر دوسرا بم بھی گرایا تھا"۔۔
"کھا۔۔ کھانا پر وہ تو مجھے نہیں آتا میں نہیں کبھی نہیں بنایا "
وہ فوراً کاؤنٹر سے اتری
"تو اب سیکھ لیں کیونکہ اب تو ایک دن کھانا آپ بنائینگی ایک دن میں"۔۔
عنصر نے اسکے ہاتھ میں کپ پکڑواتے سنجیدہ لہجے میں کہا تھا۔۔
"سا سارا کھانا "۔۔
اسنے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا۔۔
"تو کیا آپ قسطوں میں کھانا کھاتی ہیں مسز "۔۔
"مجھے تو صرف کباب بنانے آتا ہے باقی تو رابی بناتی تھی "۔۔
عرش نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔۔
"چلیں ابھی تو یہ دونوں کپ واش کر کے رکھیں "۔۔
عنصر نے اپنا کپ بھی اسکے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا ۔۔
"تو کل میں چائے بناؤنگی تو کیا کپ آپ واش کرینگے "
وہ بھی عرش تھی اس سے کام لینا اتنا آسان نہیں تھا۔۔
"رات ہو رہی ہے اب سو جائیں عرش ''
عنصر نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔۔ اسے سیدھا کرنا اتنا بھی آسان نہیں تھا جتنا وہ سمجھ رہا تھا۔۔
_____________
صبح اسکی آنکھ کھلی تو عرش کمرے میں نہیں تھی۔۔
کچن سے کھٹ پٹ کی آواز آنے پر وہ کچن کی جانب بڑھا۔۔
لیکن اگلے ہی لمحے کچن کی حالت دیکھ کر اسے زور ڈر جھٹکا لگا تھا۔۔ پورے کاؤنٹر پر مختلف چیزیں رکھے وہ خود بھی کاؤنٹر کے ہی اوپر بیٹھ کر باول میں شاید انڈا پھینٹ رہی تھی۔۔
کچن کے ساتھ وہ خود بھی کچھ عجیب ہی ہو رہی تھی کپڑوں پے مختلف مسالوں کا کوئی ڈیزائن سا بن گیا تھا۔۔ آستین لمبی ہونے کی وجے سے وہ بھی کافی حد تک خراب ہو رہی تھی۔۔
وہ بےیقینی سے اپنے صاف ستھرے کچن کو دیکھتا آگے بڑھا تھا جو اس وقت میدانِ جنگ کا نظارہ پیش کر رہا تھا۔۔
"عرش یہ یہ سب آپ کیا کر رہی ہیں مطلب کیا بنانے کی کوشش کی ہے یہ ؟"
اسنے صدمے سے چور لہجے میں عرش سے پوچھا جو اب بھی لیپ ٹاپ پر کسی ریسیپی کی ویڈیو سرچ کر رہی تھی۔۔
"آج میری باری ہے کھانا بنانے کی آپ فریش ہو کر آئیں بننے والا ہے "
وہ مصروف انداز میں اسے جواب دیتی اب پیاز کاٹ رہی تھی۔۔
"عرش ناشتہ اس طرح کون بناتا ہے "
وہ اب بھی صدمے سے باہر نہیں آیا تھا۔۔
"کام کرنے سے چیزیں پھیل ہی جاتی ہیں میں یہ سب ٹھیک کر لونگی یہ بنانے کے بعد "۔۔
اسنے اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔
"پہلے تو آپ نیچے اتریں "
اسنے اسکا ہاتھ پکڑ کر نیچے اتارا تھا۔۔
"اور اب اگلے دس منٹ میں مجھے یہ سب صاف چاہئیے عرش بلکل پہلے جیسا ۔۔ ناشتہ بنانے کا رسک فلحال آپ نا لیں "۔۔
اسنے اسکے ہاتھ سے انڈے والا باول لیتے ہوئے کہا تھا۔۔
"پر میں کیسے ؟"
وہ منمنائ تھی۔۔
عنصر نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا۔۔
"جائیں اپنی حالت درست کریں آپ "۔۔
وہ اس سے کہتا اب بہت تیزی سے کچن سمیٹ رہا تھا۔۔
________
تھوڑی دیر میں جب وہ فریش ہو کر آئ تو وہ کچن کی حالت کافی حد تک ٹھیک کر چکا تھا سارے برتن سینک میں ڈال کر وہ ٹیبل پر آیا۔۔
"یہ آملیٹ آپ نے بنایا ہے "۔۔
وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے ٹیبل پر رکھی چیزیں دیکھ رہی تھی۔۔
آملیٹ ۔۔ بریڈ جیم ۔۔ جوس ساری چیزیں سلیقے سے ٹیبل پر سجی تھیں۔۔ عرش کے لئے واقعی یقین کرنا مشکل تھا کے وہ کھروس انسان (بقول عرش کے ) اتنی صفائی سے گھر کے کام کرتا تھا۔۔
"جب آپ کو سارے کام اتنے اچھے سے کرنے آتے ہیں تو وہاں آپ بےچاری رابی کی ہیلپ کیوں نہیں کار رہی تھے"۔۔
وہ مزے سے ناشتہ کرتی اس سے کہ رہی تھی۔۔
عنصر کا دل کیا اسکا سر پھاڑ دے صبح صبح اتنی محنت کا غصہ ابھی پوری طرح ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔۔
"آپ چاہتی ہیں میں اپنے گھر جا کر بھی برتن واش کرتا پھروں "۔۔
اسنے سرد لہجے میں کہا تھا۔۔
"خیر جلدی سے ناشتہ ختم کر کے ریڈی ہو جائیں ہمیں یونیورسٹی جانا ہے "۔۔
وہ ٹیشو سے ہاتھ صاف کرتا کھڑا ہوا تھا ساتھ ہی اسکے آگے جوس کا گلاس رکھا۔۔
"آپ یونی جاتے ہیں "
اسنے دلچسپی سے پوچھا تھا۔۔
"میں نہیں آپ جائینگی کل سے یونی "۔
جوس پیتی عرش کو اچھو لگا تھا۔۔ وہ طرح کھانستی عنصر کو دیکھ رہی تھی۔۔
"میں کیوں جاؤنگی یونی میں مجھے نہیں پڑھنا آگے میری تو شادی ہو گئی ہے "۔
تھوڑا حواس بحال ہونے پر اسنے کہا تھا۔۔
"یہ کہاں لکھا ہے کے جنکی شادی ہو جاتی ہے وہ پڑھتے نہیں ہیں "۔۔
عنصر نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے اسے دیکھا تھا جو رونے کے لئے تیار بیٹھی تھی۔۔
"میں نہیں پڑھنا چاہتی "۔۔
اسنے بھرآئ ہوئی آواز میں کہا تھا۔۔
"عرش میں آفس چلا جاؤنگا آپ پورے دن گھر پر کیا کرینگی۔۔ رابیل بھی تو اپنی اسٹڈیز کمپلیٹ کر رہی ہے ہیں نا۔۔ میں آپ کو ڈراپ کر دیا کرونگا یونی۔۔
اسنے نرمی سے سمجھاتے اسکے آنسوں صاف کئے تھے۔۔
"پر مجھے پک کون کریگا وہاں سے اور میں کسی کو جانتی بھی نہیں ہوں "
اسنے اپنے باقی مسائل بتائے۔۔
"پک میں کر لونگا آپ کو ۔۔ اور جب آپ جائنگی تو جان بھی لینگی سب کو۔۔ اور کچھ "
اسکے نفی میں سر ہلانے پر اسنے سکون کی سانس لی۔۔
وہ کمرے میں بیٹھی نوٹس بنا رہی تھی عرش کو گئے ہفتہ ہو گیا تھا۔۔ اسکی بھی اسٹڈیز سٹارٹ ہو گئیں تھیں۔۔ زندگی معمول پر آ گئی تھی پر عرش کے جانے سے گھر میں بہت خاموشی ہو گئی تھی۔۔
موبائل کی بپ پر وہ سوچوں کو جھٹکتی موبائل کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔۔ کسی انجان نمبر سے میسج تھا۔۔ اسنے دھڑکتے دل سے پڑھنا شروع کیا وہ جیسے جیسے پڑھتے جا رہی تھی اسکے چہرہ سرخ ہوتا جا رہا تھا..
بہت نزدیک ہو مجھ سے،
ذرا سا فاصلہ کر لو ،
میرے دل کو دھڑکنے دو،
مجھے پلکیں جھپکنے دو،
زباں سے کچھ تو کہنے دو،
سماعت میں ہے سناٹا،
لہو کی آنچ مدھم ہے،
تخیل جیسے برہم ہے،
سنو!! بس اب ٹھہر جاؤ،
مجھے خود سے بھی ملنے دو،
مجھے اپنا تو رہنے دو۔۔!!!
اسکے کچھ رپلائے کرنے سے پہلے ہی کال آنے لگی تھی۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے ۔۔ اسنے فوراً کال کٹ کی۔۔
"اٹس می رابیل جلابیب "۔۔
تھوڑی ہی دیر میں پھر میسج آیا تھا۔۔
"جلابیب"۔۔
وہ حیران ہوئی تھی۔۔
"آپ پلیز مجھے اس طرح ٹیکسٹ نہیں کریں جلابیب ۔۔ مجھے نہیں پسند "۔۔
اسنے فوراً لکھ بھیجا تھا۔۔
وہ کافی دیر موبائل ہاتھ میں لئے یونہی بیٹھی رہی دوبارہ کوئی میسج یا کال نہیں آئ تھی۔۔
"انھیں شاید برا لگا ہو "۔۔
اسنے تیسری مرتبہ وہ غزل پڑھتے ہوئے سوچا تھا۔۔
"جو بھی ہو یہ اس طرح ٹھیک نہیں ہے۔۔
"میں جلابیب کو راضی کرنے کے لئے اللہ کو ناراض نہیں کر سکتی "۔۔
اگلے ہی لمحے وہ مطمئن تھی۔۔ اسے کسی قسم کا گلٹ نہیں تھا۔۔
وہ بیڈ پر لیٹا کمرے میں گھپ اندھیرا کئے مسلسل چھت کو دیکھ رہا تھا۔۔
"مم مگر میرے پاس عرش نہیں ہے جلابیب "۔۔
اسکے کانوں میں رابیل کی سسکی آواز گونجی تھی۔۔ آنکھوں کے سامنے اسکا لرزتا وجود آیا تھا۔۔
"اگر آپ جان لیں کے آپ کے آنسوں مجھے کس اذیت سے دو چار کرتے ہیں تو کبھی یوں نہیں روئینگی رابیل "۔۔
اسنے تصور میں ہی رابیل کو مخاطب کیا تھا۔۔
کسی نے اسکے کمرے کا دروازہ کھولا تھا۔۔ اچانک دروازہ کھلنے پر روشنی اندر آئ۔۔ وہ جو کب سے اندھیرا کئے بیٹھا تھا اچانک روشنی پڑھنے پر آنکھوں پر ہاتھ رکھا تھا۔۔
"میں تھوڑی دیر میں آ رہا تھا نیچے خالہ بی "۔۔
وہ بولتے ہوئے اٹھ بیٹھا ۔۔
"آپ ۔۔
سامنے جو شخص کھڑا تھا اس وقت اپنے کمرے میں وہ نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔۔
"آپ میرے کمرے میں کیوں آئے ہیں مجھ سے کوئی ضرورت تو پڑھ نہیں سکتی آپ کو "۔۔
اپنے سامنے زوار صاحب کو دیکھ کر وہ جی بھر کر بدمزہ ہوا۔۔
"ضروری ہے میں کسی ضرورت کے وقت ہی تمہارے پاس آؤں جلابیب۔۔ اپنے بیٹے کے پاس آنے کے لئے مجھے کسی وجہ کی ضرورت ہے "۔۔
انہوں نے افسوس سے کہا تھا۔۔
"میرے خیال میں تو ہاں ہے۔۔ جس انسان کے لئے اپنے چھ سالہ روتے ہوئے بچے سے زیادہ ضروری فورن میٹینگز تھیں وہ آج بناء کسی ضرورت کے میرے پاس کیسے آ گیا۔۔ جس انسان کے لئے اسکی کمپنیز انکے شیئرز سے زیادہ کسی چیز کی اہمیت ہی نہیں تھی وہ آج بغیر کسی وجہ کے مجھ جیسے عام سے آرٹسٹ کے پاس بیٹا ہے۔۔ حیرانی کی بات ہے نا"۔۔
وہ تلخی سے ہنسا۔۔ اسکے آنکھوں میں واضح کرب تھا۔۔
"میں وہ وقت واپس نہیں لا سکتا جلابیب اور اسکے لئے میں بہت شرمندہ ہوں۔۔ مگر یہ وقت ہم ساتھ گزر سکتے ہیں بیٹا جو اب تم گنوا رہے ہو "۔۔
زوار صاحب اسکی پیشانی چومتے ایک نظر اس پر ڈالتے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔
"بہو کی تصویر بھی مجھے نہیں دکھاؤگے "۔۔
دروازے پر پہنچ کر انکی نظریں دیوار پر لگی پینٹنگ پر پڑی تھی۔۔
انہوں نے باغور پینٹنگ کو دیکھتے ہوئے اس سے سوال کیا ۔۔
"میرے پاس انکی تصویر نہیں ہے "۔۔
اسنے جھکے سر سے جواب دیا تھا۔۔
"بہت پیاری ہے "۔۔
انہوں نے مسکرا کر کہتے ایک نظر دیوار پر لگی پینٹنگ پر ڈالی تھی۔۔ پھر ایک پیار بھری نظر اس پر ڈالتے کمرے سے باہر نکل گئے تھے۔۔
"ہاں پیاری تو ہیں میری رابیل "۔۔
پیچھے جلابیب انکی بات سے محفوظ ہوا تھا۔۔ نظریں دیوار پر لگی پینٹنگ پر تھیں۔۔ جس میں اسکی مسکراتی ہوئی تصویر بنی تھی۔۔