یہ دسمبر کی ایک ٹھٹھرتی ہوئی رات تھی۔ دھند کی وجہ سے رات زیادہ گہری لگ رہی تھی ۔ وہ سب اس وقت ہسپتال کے کاریڈور میں موجود تھے وہ دلہن کے لباس میں ملبوس چادر کو نماز کے سٹائل میں لپیٹی دیوار سے سر ٹیکاے کھڑی تھی نظریں گود میں موجود اس معصوم وجود پر ٹکی تھیں ۔اسکے ساتھ ہی بینچ پر فاطمہ بیگم بیٹھیں زیر لب کچھ پڑھ رہیں تھیں ۔ اُس کی نظریں آئ ۔سی ۔او کے شیشے سے سر ٹیکاے کھڑے عنصر یزدانی پر پڑی تھیں اس وقت وہ شخص اسے بہت ہارا ہوا لگ رہا تھا کچھ کھو جانے کا خوف اسکے چہرے پر با آسانی پر سکتی تھی سامنے جاوید یزدانی سر جھکاے کھڑے تھے ۔۔میں رابیل ولاء کی جان ہوں رابیل اسکے کانوں میں اسکی کھنکتی ہوئی آواز گونجی تھی اس گھر کے ہر فرد کی جان بستی ہے مجھمے ۔۔رابیل نے ایک نظر وہاں موجود سب لوگوں پہ ڈالی اور ایک گہری سانس لی تھی آنسوں تواتر سے اسکا چہرہ بھگو رہے تھے ہاں تم سچ کہتی تھی عرش رابیل ولاء بھلے ہی میرے نام سے ہے مگر اس گھر کے مکینوں کی جان عرش حدید میں بستی ہے۔۔۔ تم تم ہم سب کی جان ہو عرش کوئی ایسے کسی کی جان نکالتا ہے کیا سنناٹے میں اسکی سسکی گونجی تھی ۔
آئ۔سی ۔او کا دروازہ کھلا تھا باہر نکلنے والا اشر یزدانی تھا عنصر تیر کی سی تیزی سے اسکی طرف بڑھا تھا اشر عرش کیسی ہے؟ وہ ٹھیک ہے نا میں مل لوں اس سے؟ اشر آنکھوں میں نمی لئے اپنے بھائی کو دیکھ رہا تھا جیسے اسے اسپے گزری قیامت سے اگاہ کرنے کے لئے الفاظ ڈھونڈھ رہا ہو ۔ عنصر میری بات غور سے سنو وہ اسے شانوں سے تھامے کہ رہا تھا ۔عرش از نو مور ہماری عرش اب اب نہیں ہے عنصر وہ چلی گئی ۔
یہ الفاظ نہیں تھے غم کا پہاڑ تھا جو ان لوگوں پر ٹوٹا تھا عنصر سن رہے ہو تم ہماری عرش اب ہمارے ساتھ نہیں ہے وہ اسے جھجورتے ہوے کہ رہا تھا۔ یکدم ہی عنصر جیسے ہوش میں آیا تھا ۔ آئ۔سی۔او کی طرف بھاگا تھا اسٹرچر پر پڑے بےجان وجود کو بےیقینی سے دیکھا تھا عرش عرش میری جان دیکھیں اشر کیا کہ رہا ہے کہتا ہے آپ اب نہیں اٹھینگی وہ اسکے مہندی لگے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوے کہ رہا تھا ۔ عرش آنکھیں کھولیں دیکھیں ہماری فرشتے ہماری چھوٹی سی پری آئ ہے آپ نے کہا تھا نا سب سے پہلے آپ گود مے لینگی اٹھیں نآ اسے گود میں لیں دیکھیں رابیل نے آپ سے پہلے لے لیا اسے عرش پلیز نا ستائں نا ہنی وہ اسکی بند آنکھوں کو چومتے ہوے کہ رہا تھا ۔ اسنے ساکت کھڑی رابیل کی طرف دیکھا تھا عرش دیکھیں رابیل اسکا نکاح ہے نا آج اٹھیں نا دیکھیں رابیل تم تم کہو نا انہیں اٹھنے مجھسے زیادہ تمہاری بات سنتی ہیں نا یہ وہ دیوانہ وار اسے پکار رہا تھا مگر وہ آج اسکی پکار سن ہی رہی نہیں تھی ۔
رابیل نے پتهرآئ نظروں سے عرش کا بےجان وجود دیکھا تھا اسے یقین نہیں آرہا تھا کے ابھی سے کچھ گھنٹوں پہلے تک اس سے مستیاں کرتی اسکی عرش اسکی واحد دوست اسکی بہن اب اسکے ساتھ نہیں تھیں اسنے بےیقینی سے گود میں سکون سے سوئ فرشتے کو دیکھا تھا اور پھر ایک نظر عنصر یزدانی پر ڈالی تھی جو اب اسکی گود سے فرشتے کو لیتا اسے سینے سے لگاے پھوٹ پھوٹ کے رو رہا تھا ۔۔
عرش ایسا نہیں کر سکتی وہ بڑبڑائ تھی ۔ عرش تم تم تو میرے ساتھ اس دنیا میں آئ تھی نا عرش ہم تو ساری چیزیں ساتھ کرتیں ہیں نا تم تم اکیلی کیسے جا سکتی ہو وہ عرش کے ہاتھ پکڑے ہلکی آواز میں کہ رہی تھی بولو نا عرش اکیلے جا رہی ہو مم مجھے کس کے سہارے چھوڑ کے جا رہی ہو عرش اگلے ہی لمحے اسکی چیخیں عرش ہلا رہیں تھیں وہ رات اندھیری تھی اور انکی زندگیاں بھی اندھیری کر گئی تھی ۔۔
وہ پچھلے دو گھنٹوں سے عرش کی قبر پہ بیٹھا اسکی قبر پی ہاتھ پھیر رہا تھا۔ اسکے لئے یقین کرنا مشکل تھا کے اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارنے کے بعد بھی وہ زندہ ہے ۔ گھر چل عنصر گھر پر بھی سب کو سمبھالنا ہے نا اشر نے اسکے کندھے کو تھپتپاتے ہوے اسے دلاسہ دینے کی کوشش کی تھی عنصر میری طرف دیکھ نقصان تو میرا بھی ہوا ہے نا میں نے بھی تو بہن کھوئی ہے یار بس اشر ہی جانتا تھا کے وہ یہ سب کس حوصلے سے کر رہا تھا کل سے سب کو دلاسہ دیتے اب اسکے اپنے حوصلے پست ہو رہے تھے۔ عرش کو یہاں اکیلے چھوڑ کے چلا جاؤں ؟ اسنے نظریں نہیں اٹھائیں تھیں تو جانتا ہے نا انھیں اندھیرے سے ڈر لگتا ہے وہ بہت دھیمی آواز میں کہ رہا تھا اشر بامشکل ہی سن پا رہا تھا دیکھ اشر خود اندھیرے سے اتنا ڈرتیں تھیں اور میری زندگی ہی اندھیروں کے نذر کر گیں ہیں اسوقت اشر کو وہ کوئی بچہ لگا تھا جو اپنا کھلونا چھن جانے پہ روتا ہے اسے واپس پانے کی خواھش کرتا ہے۔ مگر جو وہ کھو چکا تھا وہ کھلونا نہیں تھا وہ انسان تھی اسکی عرش تھی جو واپس نہیں آ سکتی تھی۔۔۔ اشر بہت مشکل سے اسے اٹھانے میں کامیاب ہو چکا تھا چل گھر چلیں فرشتے کو بھی تو دیکھنا ہے نا تجھے۔ فرشتے ہاں عرش کی نشانی ایک بر پھر اسکی آنکھوں سے آنسوں روا ہو چکے تھے اشر نے تعصف سے اسے دیکھا تھا۔۔
رابی میرا بچہ اٹھو یہاں سے میری جان فاطمہ بیگم کے پکارنے پر اسنے خالی نظروں سے انھیں دیکھا وہ بھی اب کل والے دلہن کے لباس میں ہی فرشتے کو گود مے لئے وہیں بیٹھی ہوئی تھی جہاں کچھ دیر پہلے عرش کو رکھا گیا۔ رابی اٹھو بیٹا لاؤ فرشتے کو مجھے دو اور یہ کپڑے چینج کرو جاؤ فریش ہو کے نیچے آؤ انہوں نے اس سے نظریں چراتے ہوے رندھی آواز میں کہا تھا غم تو سب کا ایک ہی تھا بس کوئی جلدی سمبھل جاتا اور کسی زندگی درکار تھی۔ جی ماما وہ آنسوں پتی فرشتے کو انکی گود میں دے کر اپنے اور عرش کے مشترکہ کمرے کی طرف بڑھی تھی ۔
کمرے میں ہر چیز ویسے ہی پڑی تھی جیسا کل وہ چھوڑ کے گئی تھی مگر پھر بھی کتنا خالی لگ رہا تھا۔ عرش!! وہ بےاختیار سسک اٹھی تھی کیوں چلی گئی تم مم میں اتنی بہادر نہیں ہوں جانتی ہو نا۔۔ وہ دیوار میں لگی تصویرے دیکھ رہی تھی بچپن سے اب تک ان دونوں کی بہت سی تصویریں تھیں ایک جیسی ایک طرح کے کپڑوں میں ایک ہی جیسے میک اپ میں۔۔ ماما جانی رابی کی شادی بھی میرے ساتھ ہی کروایں میں اکیلی نہیں جاؤنگی ۔۔ہم دونوں سب کچھ ساتھ ساتھ کرینگے اسکے کانوں سے اسکی آواز ٹکرائ تھی ۔۔ اسکی نظریں ڈریسنگ ٹیبل پہ پڑی تھیں ساری چیزیں بکھری پڑیں تھیں کل ہی تو عرش اسے تیار کر رہی تھی بیٹھو ادھر تم نکاح ہے تمہارا آج تو کچھ لگا لو ورنہ جلابیب ڈر کے بھاگ جائگا۔۔ اسنے خالی نظروں سے اپنے مہندی اور چوڑیوں سے سجی ہتھیلیوں کو دیکھا تھا اور پھر مہندی سے لکھے نام کو "جلابیب" اسی نام سے تو کل عرش اسے چھیڑ رہی تھی وہ بری طرح سسکتی بیٹھتی چلی گئی تھی اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مار کر چوڑیاں توڑھ رہی تھی کتنے ہی کانچ اسکی کلائی میں چبھ رہے تھے پر اسے ہوش کہاں تھا۔۔ عرش!!! پلیز آجاؤ عرش دیکھ دیکھو نا میں رو رہی ہوں تم تم میرے ساتھ نہیں ہو عرش !!
کافی دیر رونے کے بعد وہ شاور لینے کے بعد کپڑے چینج کر کے نیچے آئ تو تقریباً لوگ جا چکے تھے لاؤنچ میں صرف گھر کے لوگوں کے ساتھ جلابیب بیٹھا تھا عنصر فرشتے کو گود میں لئے بیٹھا تھا۔ السلام عليكم! جلابیب نے باغور اسے دیکھا تھا سفید سوٹ میں ڈوپٹے کو نماز کے سٹائل میں چہرے کے گرد لپیٹے وہ بہت اداس لگ رہی تھی ۔ اس لڑکی نے اسکی زندگی بدل دی تھی اسنے پوری شدتوں سے چاہا تھا رابیل حدید کو اسکی نظریں اب بھی رابیل کے چہرے پہ ٹکی تھیں دل نے بےاختیار اسکی سوجی آنکھوں کو چھونے کی خواھش کی تھی کل وہ اسکے نام ہونے جا رہی تھی مگر قسمت میں آگے کیا ہونا تھا یہ تو وو خود بھی نہیں جانتا تھا ۔ تھوڑی کوشش کے بعد وہ اپنی نظریں رابیل پر سے ہٹانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ رابیل سے ایک بار بھی نظریں اٹھا کے اسے نہیں دیکھا تھا تھوڑے توقف کے بعد وہ کھڑا ہوا تھا اچھا عنصر میں چلتا ہوں خیال رکھ یار اپنا اپنے لئے نہیں تو فرشتے کا سوچ وہ عنصر سے ملتا الوداعی نظر رابیل پر ڈالتا چلا گیا تھا رابیل نے ایک گہری سانس لی تھی نظریں آپ بھی ہتھیلی پی لکھے نام پر تھی وہ نہیں جانتی تھی کے یہ نام اب اسکی قسمت میں تھا بھی یا نہیں ۔۔۔
عرش کے انتقال کو تین دن ہو گئے تھے وہ اس وقت اپنے کمرے میں بیڈ سے سر ٹیکائے بیٹھا تھا اسکا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔ آپ چلی گئیں عرش، یادیں چھوڑ گئیں ہیں، قدم قدم پر آپ کی یادیں ہیں، آپ کی ہنسی، آپ کی شرارتیں یہ یہ مجھے سانس نہیں لینے دیتی عرش ۔آنسوں تواتر سے اسکا چہرہ بھگو رہے تھیں ذہن بار بار ماضی میں بھٹک رہا تھا کتنے حسین پل بیتائے تھے اسنے عرش کی سنگت میں ۔۔ آہ عرش اتنی جلدی ساتھ چھوڑ دیا آپ نے وہ ایک بار پھر سسکا تھا۔۔ آنکھوں کے سامنے کچھ روز پہلے کا منظر لہرایا تھا۔۔
۔
آپ ایک بات جانتے ہیں عنصر وہ دلچسپی سے اسے کوئی بات بتانے کی منتظر تھی جی نہیں مسز آپ بتائنگی تو جان جاؤنگا اسنے اسکی گود میں سر رکھتے ہوئے مسکراتے ہوے اس سے کہا تھا۔ میں نے کہیں پڑھا تھا، "میاں بیوی نا گھڑی کی دو سوئیوں کی طرح ہوتے ہیں، جب شادی ہوتی ہے دونوں بلکل ساتھ ہوتے ہیں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں جیسے گھڑی میں بارہ بچ گئیں ہوں۔۔ وہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتی دھیمی آواز میں کہ رہی تھی ۔۔ اسکی بات پہ عنصر کا فلک شگاف قہقہا کمرے میں گونجا تھا یہ بلکل ٹھیک کہی مسسز بارہ بچ جاتیں ہیں وہ ایک بار پھر ہنس رہا تھا مگر اگلے ہی لمحے عرش کو رونے کے لئے تیار دیکھ کے اسکی ہنسی کو بریک لگا تھا۔۔ ارے ارے یہ کیا میں تو مذاق کر رہا تھا مسسز یہ آنسوں نہیں نکلنا چاہیے اسنے جیسے وارننگ دی تھی عرش کو اور جواباً عرش نے فوراً آنسوں صاف کر لئے تھے۔ چلیں آگے بتائیں بارہ بجنے کے بعد کیا ہوتا ہے وہ مسکراہٹ دباتے ہوے اس سے پوچھ رہا تھا۔ وہ جیسے اسی بات کی منتظر تھی دوبارہ شروع ہو گئی تھی۔۔۔ "پھر انکی لائف میں بےبی آ جاتے ہیں اور زمیداریاں بڑھ جاتی ہیں تو دونوں میں دوریاں بڑھ جاتی ہیں جیسے گھڑی میں چھ بجتے ہیں" اب عنصر اسکی بات پوری توجہ سے سن رہا تھا۔
"ہممم پھر؟" اسنے اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا۔۔
پھر بچے بڑے ہوتے ہیں اپنی لائف میں بزی ہونے لگتے ہیں تو وہ بوڑھا بوڑھی پھر سے آہستہ آہستہ قریب آنے لگتے ہیں"۔۔ اور پھر سے گھڑی میں بارہ بج جاتیں ہیں عنصر نے اسکی بات کاٹی تھی۔۔
جواباً وہ کھلکھلا کے ہنسی تھی "ہاں اور میں آپ کے ساتھ اپنی گھڑی میں پھر سے بارہ بجنے تک اسی طرح رہنا چاہتی ہوں"۔۔
"جو حکم سرکار، ہماری گھڑی میں کبھی چھ نہیں بجینگے " اسنے اپنے سر خم کرتے ایک ادا سے کہا تھا ایک پھر عرش کی کھلکھلاتی ہوئی ہنسی کمرے میں گونجی تھی۔۔
"عرش دیکھیں نا میری زندگی کی گھڑی بھی چھ بجے پہ آ کر رک گئی ہے عرش آپ اتنی دور چلی گئی ہیں مجھ سے"۔۔۔ وہ گھڑی کی طرف دیکھتا ہوا پھر سسک رہا تھا اسکی زندگی تو واقعی ٹھہر گئی تھی گھڑی کی سوئی چھ سے آگے نہیں چل رہی تھی ۔۔
ماضی ۔۔
ماما میری ماما سچ میں اتنی خوبصورت تھیں کیا؟ وہ انا بیگم کی تصویر پر نم آنکھوں سے ہاتھ پھیرتے ہوے کہ رہی تھی ۔۔
"ہاں بہت حسین تھیں تمہاری ماما بلکل تمہارے اور رابی کی طرح"۔ فاطمہ بیگم نے اسے پیار کرتے ہوے جواب دیا تھا۔
مگر ایک بات تو بتاؤ میں تمہاری ماں نہیں ہوں کیا؟ انہوں نے مصنوعی خفگی سے اسکے کان پکڑتے ہوے کہا تھا۔۔
آپ ماما تو دنیا کی بیسٹ ماما ہیں میری پیاری ماما" پیچھے سے رابیل لاڈ سے انسے لپٹی تو انہوں نے عرش کے کان چھوڑ کر محبت سے دونوں کو ساتھ لگایا "میری جان چھ دن کی تھی تم دونوں جب جاوید نے میری گود میں دیا تھا۔ دونوں معصوم پریاں جیسی تھی" وہ نم آنکھیں لئے دونوں کو پیار کر رہی تھیں۔۔
"لو کر دیا نا میری ماما کو ایموشنل ہزار دفع کہا اپنی زبان کی چارجنگ ذرا کم رکھا کرو۔"رابیل نے خفگی سے عرش سے کہا تھا۔
"بس ماما عنصر بھائیا آجاۓ نا فورا"ً اسے رخصت کریں آپ پھر میں بابا اور آپ مزے کرینگے"۔ رابیل نے سیب کاٹ کر پیالہ فاطمہ بیگم کے ہاتھوں میں پکڑاتے ہوے مزے سے کہا تھا۔
"کیوں اشر بھائیا کو کیا مریخ پر بھیج دوگی تم؟ اور ماما میں کہیں نہیں جاؤنگی میں بتا رہی ہوں" اسنے رابیل کے ہاتھ سے سیب چھینتے ہوئے غصے میں کہا تھا ساتھ ہی دوسرے ہاتھ آنسوں کو صاف کیا تھا جو عنصر کے آنے کا سنتے ہی بہنے کو تیار ہوتے تھے ۔
کیوں تنگ کر رہی ہو بھئ رابی میری بچی کو چلو جاؤ شاباش پلاؤ چڑھاؤ بننے دوپہر کے لئے اور عرش تم بھی اٹھو میری جان کباب بنا لو تم ۔ وہ دونوں کو کام پے لگاتی خود بھی اٹھ کھڑی ہوئیں تھیں ۔
"کیوں ماما شر بھائیا نے پھر سے کسی مہمان کو بلا لیا ہے کیا؟"کباب بنانے کا سن کے عرش کا موڈ خراب ہوا تھا ۔
"اس طرح نہیں کہتے میرا بچہ مہمان تو خدا کی رحمت ہوتے ہیں میری جان" انہوں نے اسے پیار سے تنبیہ کی تھی۔ "اچھا بتا تو دیں ماما کون سی رحمت آرہی ہے پلاؤ کھانے بغیر کباب کے کام نہیں چل سکتا" وہ بھی عرش تھی صدا کی کام چور۔۔
رابیل نے نفی میں گردن ہلائ تھی اسکا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔
"جلابیب آرہا ہے بیٹا " فاطمہ بیگم نے عرش کو اٹھاتے ہوے مسکراتے ہوے کہا تھا چلو اب جلدی جاؤ کباب تیار کرو اشر اسکے ساتھ آتا ہی ہوگا۔
جلابیب کچن میں جاتی رابیل ایک لمحے کے لئے رکی تھی پھر اگلے ہی سر جھٹک کے کام میں لگ گئی تھی۔۔