دوسرے دن شام کو میں سر ربانی کا پتہ لینے ان کے بنگلے پہ گیا مگر سچ تو یہ تھا کہ میرا ہانی کو دیکھنے کو بہت دل چاہ رہا تھا
سر ربانی بہت بہتر تھے اور کافی دیر تک مجھ سے باتیں کرتے رہے میں نے ہانی کا پوچھا تو بولے اپنے کمرے میں ہو گی
میں ان سے اجازت لے کے گھر واپس مڑنے لگا
جونہی گاڑی کا دروازہ کھول کے اندر بیٹھا تو سامنے کا منظر دیکھ کے دل دھک سے رہ گیا ہانی سرخ لہنگا پہنے دلہن بنی آرام سے سیٹ پہ بیٹھی تھی
ہانی اب یہ کیا ڈرامہ ہے
تم یوں اس حالت میں اگر کسی نے دیکھ لیا تو ؟
میں نے جھنجھلا کر کہا
تو دیکھ لے میں کیا کروں دلہن ہوں تمھاری تم نے شادی کی ہے میرے ساتھ
چلو مجھے اپنے ساتھ لے کر میں تمھارے ساتھ جانا چاہتی ہوں بس
اس نے دو ٹوک کہا
اففف میرے خدا ہانی تم پاگل ہو گئی ہو کیا ؟
بچوں جیسی حرکتیں ہیں تمھاری
چلو شاباش اپنے کمرے میں ،،،
میں کوئی مناسب موقع دیکھ کر سر سے بات کروں گا اور لے جاؤں گا تمھیں یہاں سے ۔۔۔۔۔
اب مجھے اس کی حرکتوں پہ واقعی غصہ آنے لگا تھا
تو ٹھیک ہے میں ایسے کرتی ہوں صبح کی فلائٹ پکڑتی ہوں اور واپس چلی جاتی ہوں
تمھارے پاس پھر بہت وقت ہو گا دس سال بیس سال بلکہ پوری عمر ہو گی تم آرام سکون سے سب کو یہاں پہ راضی کرنا جب سب مان جائیں تو مجھے پھر بتا دینا میں واپس آ جاؤں گی
ٹھیک ہےنہ ؟
کوئی جلدی نہیں ہے آرام سے سکون سے سب کو مناؤ میں جا رہی ہوں اس نے غصے سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی
میری تو جیسے جان ہی نکل گئی
ہانی رکو رکو میں اسے آوازیں دینے لگا
مگر وہ کہاں سننے والی تھی
اب صرف ایک کام ہو سکتا تھا اسے روکنے کے لیے اور میں نے بجلی کی سی تیزی سے اس کے پیچھے لپکا اس زبردستی گود میں اٹھا کے گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی چلا دی
جانا کہاں تھا مجھے خود معلوم نہیں تھا وہ بھی خاموشی سے میرے پہلو میں بیٹھی رہی
پہلے سوچا ہوٹل چلتا ہوں مگر اگر وہاں کسی نے دیکھ لیا تو
نہیں نہیں کچھ اور سوچتا ہوں کسی دوست کے گھر مگر میں کونسا ہانی کو بھگا کے لایا تھا جو یوں دوستوں کے گھر چھپتا پھروں
آخر دل بڑا کر کے ایک فیصلہ کیا اور گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑ دیا گیٹ سے دھڑکتے دل کے ساتھ اندر داخل ہوا چوکیدار نے سلام کیا اور حیرانگی سے دلہن بنی ہانی کی طرف دیکھنے لگا
گھر پہنچ کر میں نے ہانی کو اپنے کمرے میں بٹھایا اور اماں کو بلانے چلا آیا
اماں بھی اس اچانک صورت حال سے گھبرا گئی پھر خاموش ہو کے ہانی کے سر پہ پیار دیا اور اپنے کمرے میں چلی گئی
میں نے ہانی کی طرف دیکھا وہ بڑے آرام سے بیڈ پہ بیٹھی تھی اس کے چہرے پہ رتی بھر بھی پریشانی کے آثار نہیں تھے میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کے قریب پہنچا پتہ نہیں کیوں مجھے اس کی حرکتوں پہ غصہ آ رہا تھا
ہانی کیا ضرورت تھی یہ سارا ڈرامہ کرنے کی میں خود سر سے مناسب موقع دیکھ کے اپنی شادی کی بات کر لیتا اب انھیں اس طرح پتہ چلے گا تو کتنا برا لگے گا اور پتہ نہیں وہ کیا سوچیں گے میرے بارے میں
میں نے ہانی کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا
تم واقعی اتنے بیوقوف ہو یا مجھے لگتے ہو
یعنی ایک سجی سجائی دلہن تمھارے سامنے بیٹھی ہے اور بجائے اس کے کہ تم میرے بارے میں سوچو ابھی بھی لوگوں کے بارے میں سوچ رہے ہو یعنی تمھیں مجھ سے زیادہ لوگوں کی فکر ہے
ہانی آستین چڑھاتی ہوئی بولی
ویسے کہہ تو وہ بھی ٹھیک رہی تھی میں نے ابھی تک اسے انگلی سے چھونے کی بھی کوشش نہیں کی تھی
مگر مجھے پتہ نہیں کیوں اب اچھا نہیں لگ رہا تھا ثمران یہ دوپٹہ ذرا اتارنا میرے سر سے اس نے سر سے بھاری دوپٹے کو کھینچتے ہوئے کہا
جو کہ پنیں لگا لگا کے اس کے بالوں سے جڑا ہوا تھا میں نے اس کے قریب ہو کے دوپٹے کی پنیں اتار کے اسے اس کے سر سے اتارا
ناراض ہو وہ میرا ہاتھ پکڑ کے بولی
نہیں یار مگر یہ سب کیوں کرتی ہو تم یوں سب کو پریشان کر کے رکھ دینا مجھے بتا ہی دیتی کہ مجھے تمھارے پاس آنا ہے میں اماں کو ہی بتا دیتا اب وہ دیکھو کتنی پریشان ہو گئی ہیں
اچھا سوری آج کے بعد کوئی الٹی سیدھی حرکتیں نہیں کروں گی بلکہ تمھیں بتا کے پھر سب الٹی سیدھی حرکتیں کیا کروں گی اب خوش چلو اب مجھے گھر چھوڑ آؤ وہ مسکراتے ہوئے بولی
گھر اب تو جو ہو گا صبح دیکھا جائے گا اب تو تم کہیں نہیں جانے والی میں نے ہانی کی نازک کمر کے گرد اپنی گرفت میں لیتے ہوئے کہا برسوں سے ترستی پیاسی زمین پہ محبت کی پہلی بارش برسنے والی تھی اور میں محبت کی ان گھٹاؤں کو برسنے سے پہلے ہی واپس کیسے جانے دوں
صبح وہ میرے بیدار ہونے سے پہلے واپس گھر چلی گئی
مجھے بے حد غصہ آ رہا تھا کہ یہ کیا ڈرامہ ہے جب دل چاہا چلی آئی جب دل چاہا واپس چلی گئی
میں نے غصے سے تین چار دن رابطہ نہ کیا پانچویں دن سر ربانی کی کال آئی کہ ہانی واپس امریکہ جا رہی ہے اور تم گھر آ کر اس سے مل لو اور ائیر پورٹ بھی چھوڑ آؤ
میری جان نکل گئی سارے کام چھوڑ کے وہاں پہنچا تو وہ واقعی سامان باندھے تیار بیٹھی تھی میرا دل چاہا ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پہ ماروں جس نے محبت کو ڈرامہ بنا رکھا ہے
یہ کیا ڈرامہ ہے ہانی اب کہاں جا رہی ہو
مجھے شدید غصہ آ رہا تھا
واپس
وہ بڑے اطمینان سے بولی
کیوں وجہ ؟
کیونکہ آپ کو تو ہماری نہ ہی پروا ہ ہے نہ فکر
اس لیے سوچا ایسی جگہ رہنے کا کیا فائدہ جہاں کسی کو ہماری ضرورت ہی نہ ہو
اب یہ کیا پاگل پن ہے ہانی ہم نے شادی کی ہے تم میری بیوی ہو
ایک منٹ ہم نے نہیں میں نے شادی کی ہے وہ بھی زبردستی ورنہ شاید وہ بھی نہ ہوتی
ہانی بڑے آرام سے بولی
چلو ٹھیک ہے مگر اب سب کچھ ویسے ہی تو کیا ہے جیسا تم نے کہا پھر اب کیوں جا رہی ہو
مسٹر ثمران اسے آپ شادی کہہ رہے ہیں شادی نہیں بلکہ ایک سمجھوتہ ہے اس دن سے ایک بار بھی تم نے مجھ سے کہا کہ تمھیں مجھ سے محبت ہے یا تم مجھ سے پیار کرتے ہو اور اگر میں تمھیں نہ ملی یا اگر میں تمھیں چھوڑ کے چلی گئی تو تم میرے بغیر مر جاؤ گے اور زندہ نہیں رہو گے بتاؤ مجھے
ایک لفظ بھی کہا تم نے
میری ہنسی چھوٹ گئی
ہانی تم بالکل نہیں بدلی اتنا عرصہ گوروں کے وطن رہنے کے باوجود تمھاری وہی حرکتیں ہیں
میں نے ہنستے ہوئے اسے کہا
اڑا لو میرا مذاق جب میں چلی جاؤں گی تو پھر دیکھنا کیسے یاد آؤں گی تمھیں وہ آنکھ میں آنسو لاتے ہوئے بولی
آ ئی لو یو
آئی لو یو سو مچ ہانی تم میری محبت نہیں میری زندگی ہو میرا چین میرا سکون میری سوچ میرا خیال سب کچھ ہو
اور اگر اب تم مجھ سے دور گئی تو سچ میں مر جاؤں گا
میں نے اس کے گلابی ہونٹوں کو چھوتے ہوئے کہا
سچی وہ خوشی سے اچھل پڑی
آئی لو یو ٹو پتا ہے میں نے پوری زندگی اس لمحے کا انتظار کیا ہے جب تم یہ لفظ مجھ سے کہو گے
تمھارے ہونٹوں سے اقرار محبت سننے کے لیے کتنی دعائیں کی میں نے
کتنا روتی رہی تمھارے لیے
ہر لمحہ تڑپی ہوں میں پھر کہیں جا کے تم مجھے ملے ہو وہ میرے گلے سے لگ کے روئے جا رہی تھی
چلو آؤ میرے ساتھ وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے مجھے بازو سے پکڑ کر سر ربانی کے کمرے میں لے گئی مگر سر کمرے میں کوئی نہیں تھا شاید وہ نیچے ہیں
ہم دونوں سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے تو ہال کی لائٹس یک دم روشن ہو گئیں
اور ہمارے اوپر گلاب کے پھولوں کی پتیاں برسنے لگیں افف اتنے سارے لوگ جمع تھے نیچے
سر ربانی ملکہ بی بی اور اماں
سر ربانی نے آگے بڑھ کے مجھے گلے سے لگایا
شادی مبارک ہو مائی سن
یعنی آپ کو پتہ تھا اس بارے میں میں نے حیران ہوتے ہوئے کہا
جی یہ اس طرح تم سے شادی کا مشورہ بھی بابا جانی کا ہی تھا ہانی نے سر ربانی کے گلے ملتے ہوئے کہا
مگر کیوں کیا سر آپ نے میرے ساتھ ایسے ؟
میں نے احتجاج کیا
کیونکہ باپ کو اپنے بچوں کے بارے میں پتہ ہوتا ہے تم تمام عمر ہانی کا احترام کرتے رہ جاتے اور یہ
ساری عمر تمھارے اقرار محبت کا انتظار کرتی رہ جاتی نہ تم نے اقرار کرنا تھا نہ ہانی نے تم سے شادی کرنا تھی
اس مسئلے کا اس سے بہتر حل اور میرے پاس نہیں تھا
سر ربانی نے خوشی سے ہم دونوں کو گلے لگاتے ہوئے کہا
ہانی چلو تیار ہو جاؤ دلہن ایسے لباس میں اچھی لگتی ہیں پھر رخصتی بھی کرنی ہے دلہے والے زیادہ دیر انتظار نہیں کریں گے
ملکہ بی بی ہانی کو بازو سے پکڑ کر لے گئی
تھینکس سر میں نے تہہ دل سے سر ربانی کا شکریہ ادا کیا
سر نہیں بابا جانی اب تو تم یہ کہہ سکتے ہو
سر ربانی نے میرا ماتھا چومتے ہوئے کہا
جی تھینکس بابا جانی
ثمران بیٹا پتہ نہیں مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ مجھے پروفیسر سبحان کی دعائیں لگی ہیں ہم نے کوشش کر کے اس کی بیٹی اسے ملا دی اور بدلے میں قدرت نے میری بیٹی مجھے لوٹا دی ورنہ شاید میں ساری عمر ہانی کی شکل دیکھنے کے لیے ترس جاتا
جی بابا جانی سچ کہہ رہے ہیں آپ دلوں سے نکلی ہوئی دعائیں اکثر بچھڑے ہوئے دلوں کو معجزانہ طور پر ملا دیتی ہے
ختم شد