سر ربانی کی کال کے بعد میرے لیے گھر پہ رکنا ناممکن ہو گیا
میں نے گاڑی نکالی اور ان کے بنگلے پہ پہنچ گیا
سر ربانی اپنے کمرے میں ایزی چئیر پہ برا جمان تھے
مجھے دیکھتے ہی میرے آنے کی و جہ جان گئے اور بغیر مجھ سے کوئی سوال جواب کیے اپنا سیل میری طرف بڑھا دیا
میں نے سیل کی چمکتی سکرین پہ نظر ڈالی
ہانی نے سر کو واٹس ایپ پہ میسیج کیا تھا
بابا جانی
اسلام علیکم
سب سے پہلے میں آپ سے اپنے رویے کی معافی مانگتی ہوں مجھے پتہ ہے کہ بحیثیت بیٹی مجھے یہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن ۔
بابا جانی یقین کریں میں جن حالات سے گزر رہی تھی مجھے کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ میں کیا کروں
مجھے اس وقت جو ٹھیک لگا میں نے کر لیا
میں پہلے دو تین ماہ دادی کے پاس رہی پھر دادی نے مجھے یہاں امریکہ میں چھوٹی پھپھو کے پاس بھیج دیا
بابا جانی دادی اور پھپھو آپ کو سب بتانا چاہتی تھیں لیکن میں نے سب کومنع کر دیا
اور ساتھ میں دھمکی بھی دی کہ اگر کسی نے بھی میرے بارے میں آپ سے بات کی تو میں یہاں سے بھی چلی جاؤں گی
بابا جانی یہاں امریکہ میں آ کے میں نے میڈیکل میں داخلہ لیا اور اب آپ کی بیٹی الحمدللہ ڈاکٹر بن چکی ہے
بابا جانی میں یہیں پر ایک بہت اچھی پاکستانی فیملی ہے ان کے بیٹے سے شادی کر رہی ہوں
مگر پھپھو کی ضد ہے کہ پہلے اپنے بابا جانی سے بات کروں آ پ سے اجازت لوں
بابا جانی مجھ میں آپ سے بات کرنے کا تو حوصلہ پیدا نہیں ہوا ________
لیکن میں یہ سب لکھ کے بھیج رہی ہوں ساتھ میں اس لڑکے کی تصاویر بھی ہیں مجھے اپنی رائے کے بارے میں ضرور آگاہ کر دینا
اور ہو سکے تو پچھلی تمام غلطیوں کے لیے مجھے معاف کر دیں
مما جانی کو میرا بہت سارا سلام اور پیار کہیے گا
فقط آپ کی بیٹی
ہانی
میں نے میسیج پڑھنے کے بعد موبائل سر کے نزدیک ٹیبل پہ رکھا اور بے جان قدموں سے آہستہ آہستہ چل کر کمرے کی طرف چل دیا
کمرے کا لاک کھول کر میں جوتے اتارے بغیر ہی بیڈ پہ ڈھیر ہو گیا
دل پہ بے حد بوجھ تھا ذہن میں یوں لگ رہا تھا جیسے طوفان آ گیا ہو
یہ قسمت بار بار مجھ سے کیسا مذاق کر رہی تھی مجھے اتنی امید دلا کے یک دم پھر امید کا دامن میرے ہاتھ سے چھین لیا تھا
میں ایک بار پھر آسمان سے زمین پر آ گرا تھا وہ بھی منہ کے بل ہانی نے سارے میسیج میں ایک بار بھی کہیں میرا نام تو دور ذکر تک نہیں کیا تھا
اور میں یہاں دن رات پاگلوں کی طرح اسے تلاش کرتا پھر رہا تھا
اور وہ وہاں کسی اور کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کرنے والی تھی
لاکھ چاہنے کے باوجود پہلی بار آنکھ سے آنسوؤں زبردستی بہنے لگے تھے_____
کاش میرے بس میں ہوتا تو میں اتنی زور سے چیختا کہ میرے بلانے کی آواز ہانی تک جا سکتی
اور اسے پتا چلتا کہ کوئی اس سے کتنی محبت کرتا ہے ____________
مگر اس نے تو ایک بار مجھ سے بات تو دور میسیج کرنا بھی گوارا نہ کیا اور خود ہی اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کر لیا
________________
پتہ نہیں رات کا وہ کونسا پہر تھا جب اس گھر کے خاندانی نوکر غلام علی عرف گاما نے میرا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹانا شروع کیا
میرے باہر نکلنے پہ پتہ چلا کہ سر ربانی کی طبیعت بہت خراب ہے اور
وہ اپنے کمرے میں بے ہوش ہو چکے ہیں
میں تیزی سے بھاگتا ہوا ان کے کمرے کی طرف گیا
ہم دونوں نے مل کے سر کو گاڑی میں سوار کیا اور پتہ نہیں میں کتنی سپیڈ سے گاڑی دوڑاتا نہیں بلکہ اڑا کر ہاسپٹل پہنچ گیا
صبح کی روشنی ہلکی ہلکی پھیلنے لگی تھی میں اور گاما دونوں نماز پڑھ کے واپس ایمر جنسی میں سر ربانی کے پاس آ گئے تھے مگر ان کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا ان کا بلڈ پریشر بہت شوٹ کر گیا تھا
کسی بڑے حادثے سے تو اللہ نے محفوظ رکھا تھا مگر ان کی حالت بہت سریس تھی
گاما مجھ سے اجازت لے کے گھر چلا گیا تاکہ بی بی ملکہ کو سب کچھ بتا سکے اور کچھ ضروری سامان بھی لانا تھا
میں سر ربانی کے قریب آ کے کھڑا ہو گیا اچانک ان کے ہونٹ آہستہ سے ہلے اور میں نے ان کی بے جان سی آواز سنی ہانی ________
وہ اس حالت میں بھی ہانی کو یاد کر رہے تھے
میں خاموشی سے باہر آ گیا ڈاکٹر سر ربانی کو ہوش میں لانے کی سر توڑ کوششیں کر رہے تھے شام تک سر ربانی کی حالت میں کچھ بہتری نظر آئی تھی
اور ملکہ بی بی بھی گامے کے ساتھ ہاسپٹل آ گئی تھیں
سر ربانی نے آنکھیں تو کھول دی تھیں لیکن ابھی کچھ بول نہیں رہے تھے
ڈاکٹرز نے سر کو کمرے میں شفٹ کر دیا تھا
ملکہ بی بی نے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا اور میرا ماتھا چومتے ہوئے کہا کہ بیٹا میں آ گئی ہوں تم اب گھر جا کے تھوڑی دیر آرام کر لو
میرا دل نہیں چاہا سر کو یوں ہاسپٹل میں چھوڑ کے گھر چلا جاؤں میں نے ملکہ بی بی کو دوبارہ گامے کے ساتھ گھر بھیج دیا اور خود سر کے نزدیک کرسی کھینچ کے بیٹھ گیا سر کبھی تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں کھول لیتے کبھی پھر غنودگی میں چلے جاتے
پتا نہیں مجھے کیوں لگ رہا تھا جیسے سر کچھ کہنا چاہ رہے ہیں پر کہہ نہیں پا رہے
میں نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور پھر اس کے بعد وہ پرسکون ہو کے سو گئے مجھے بھی نیند آ گئی رات کے دو بجے ہوں گے جب ہاسپٹل کے دروازے پہ دستک ہوئی میں نے اٹھ کے دروازہ کھولا تو سامنے گامے کے ساتھ ہانی کھڑی تھی
بالکل ویسی ہی جیسی یہاں سے گئی تھی وہی غصہ وہی چہرے کا سٹائل
ویسے ہی ماتھے پہ بل پڑے ہوئے تھے
جیسے ابھی ابھی کسی سے تازہ تازہ لڑ کے آ رہی ہو
بس ڈریسنگ تھوڑی ویسٹرن ہو گئی تھی
مجھ سے کچھ کہے سنے بغیر تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی
اور سر کے قریب کھڑی ہو کے خاموشی سے ٹپ ٹپ آنسو بہانے لگ پڑی
میں نے گامے کو اشارہ کیا کہ وہ واپس چلا جائے کیونکہ گھر میں ملکہ بی بی اکیلی تھیں وہ سر جھکا کے واپس مڑ گیا
میں واپس اپنی کرسی پر آ کے بیٹھ گیا
مگر ہانی آدھے گھنٹے سے بھی زیادہ ہو گیا اپنی جگہ پہ جمی کھڑی سر کی طرف دیکھے جا رہی تھی
بیٹھ جاؤ ہانی سر صبح سے پہلے شاید نہ جاگیں
بالآخر میں نے خاموشی توڑی
وہ وہاں پہ رکھی دوسری کرسی میرے قریب کھینچ کے بیٹھ گئی
اور پھر ساری رات میں کن اکھیوں سے بار بار ہانی کی طرف دیکھ کر اپنی جلتی آنکھوں کی پیاس بجھانے کی کوشش کرتا رہا جیسے کوئی روزے دار سمندر کے کنارے کھڑے ہو کے لہروں کے دیدار سے ہی تسکین حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہو
پوری رات ہانی نے مجھ سے ایک بار بھی کلام نہ کیا بس خاموشی سے اپنی جگہ پہ بیٹھی رہی
صبح کی نماز کے بعد میں یونہی بے سبب ہی دن چڑھے تک مسجد میں بیٹھا رہا
اور پھر جب واپس کمرے میں پہنچا تو سر ربانی ہانی سے باتیں کر رہے تھے میں خاموشی سے پیچھے کھڑا ہو گیا باپ بیٹی کے درمیان دخل دینا اچھا نہ لگا
سر ربانی نے مجھے کرسی پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا
اور ہانی نے میرے بیٹھتے ہی اپنی بات جہاں سے چھوٹی تھی وہیں سے دوبارہ شروع کی
اپنے کالج کی باتیں دوستوں کی دادی کی پھپھو کی ہانی سر ربانی سے دل کی ہر بات کہے جا رہی تھی
اور میرے دماغ میں بس ایک ہی بات بار بار گھوم رہی تھی ان سب سالوں میں ہانی کی زندگی میں میں شاید کہیں نہیں تھا اس نے میری طرف ایک بار دیکھنا بھی گوارا نہ کیا __________
کافی وقت ہو چکا تھا میں نے سر ربانی سے اجازت لی اور گھر آ گیا دل بے حد بوجھل تھا بدن تھکاوٹ سے چور
جیسے لمبے راستوں کے مسافر جب تمام عمر سفر کرنے پہ اپنے منزل پہ پہنچتے ہیں تو انھیں پتہ چلتا ہے کہ یہاں تو کوئی ان کا ہے ہی نہیں وہ ساری عمر غلط پتے پہ سفر کرتے رہے تو پھر سوائے تھکن کے انسان کے حصے میں کچھ نہیں آتا _________
شام کو بھی میں نے سر کو کال کر کے خیریت پوچھ کی د ل وہاں جانے کو نہیں چاہ رہا تھا ایک عجیب سی اداسی بے بسی بیزاری سی طاری تھی
گھر پہنچا تو اماں نے میری پسند کے شامی کباب اور ابلے ہوئے چاول بنائے ہوئے تھے کھانے کے بعد اماں سے سر ربانی کی باتیں کرتا رہا جب انھیں ہانی کے بارے میں بتایا تو وہ ضد کرنے لگیں کہ مجھے ابھی ہانی سے ملوا کے لاؤ مجبورا انھیں ساتھ لے کے ہاسپٹل پہنچا ہانی کا تو پتہ نہیں لیکن سر ربانی مجھے دیکھتے ہی کھل اٹھے ہانی سے ملنے کے بعد اماں سر ربانی کی خیریت پوچھنے لگ گئی
کہاں تھے صبح سے میں صبح سے تمھارا ویٹ کر رہی ہوں
ہانی نے شکوہ کرتے ہوئے کہا
میرا ویٹ کیوں ؟کوئی کام تھا تو کال کر لیتی
مجھے اس کے بے تکلفانہ مخاطب کرنے پہ کافی حیرت ہوئی جیسے وہ رات سے منہ سوجھا کے بیٹھی ہوئی تھی مجھ میں تو ایک بار بھی ہمت نہیں ہوئی کہ اس سے کوئی بات کروں
جیسے مجھے اپنا نمبر ایڈریس سب کچھ دے کر گئے تھے کہ بوقت ضرورت استعمال کر لوں
وہ تنک کر بولی
ایک رتی برابر مزاج نہیں بدلا تھا محترمہ کا
تو سر سے لے لیتی ویسے ایسا بھی کیا ایمر جنسی کام تھا میں نے حیرت سے پوچھا
اس نے گھور کے میری طرف دیکھا اور میرا بازو پکڑ کے بولی چلو میرے ساتھ
اور میں بنا کچھ کہے اس کے ساتھ چل دیا
اس نے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولا اور پہلے مجھے اس کے اندر دھکا دیا اور پھر خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی
دوپٹہ تو پہلے بھی کم ہی لیتی تھی اب تو اس جھنجھٹ سے ہی خود کو آزاد کر لیا تھا جینز کے ساتھ پنک شرٹ پہنے وہ مشرق میں کوئی مغربی ریاست کی شہزادی لگ رہی تھی
بائے دا وے ہم جا کہاں رہے ہیں میں نے حیران ہو کے سوال پوچھا
ہانی نے اپنے براؤن بالوں کو چہرے سے ہٹا کے ایک طرف کیا اور میری طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھ کر کہا جہنم میں
اچھا تو جہنم میں سیدھا جائیں گے یا راستے میں کہیں سٹے بھی کریں گے
لو کر لیا سٹے چلو اترو اب گاڑی سے نیچے ہانی نے سڑک کے ایک طرف گاڑی روکتے ہوئے کہا
ہانی کیا بات ہے اتنی دور کیوں لائی ہو مجھے کیا کام ہے وہیں بتا دیتی میں نے تنگ آ کر کہا
نہیں یہ بات بڑوں کے سامنے کرنے والی نہیں تھی وہ برا منا لیتے
ہانی نے میری طرف دیکھے بغیر کہا
کونسی بات ؟
مجھے اب اس کے سسپنس سے کوفت ہونے لگی تھی
تمھاری شادی ہو چکی ہے انسپکٹر ثمران رندھاوا
ہانی نے میری طرف رخ کر کے پوچھا
نہیں مجھے اس کے سوال پہ کافی حیرت ہو رہی تھی
تو کیا آپ مجھ سے شادی کرنا پسند فرمائیں گے ؟
ہانی نے بڑے سکون سے کہا
میرے بدن میں جیسے کرنٹ دوڑنے لگا
شادی تم سے یوں مگر ایسی بھی کیا ایمر جنسی ہے ہم گھر جا کے بڑوں کے سامنے بات کر لیتے ہیں
مجھے فوری طور پر اس سے اچھا جواب اور کوئی یاد نہ آیا
مجھے صرف ہاں یا ناں میں جواب دیں بس
ہانی نے تحکمانہ لہجے میں کہا
ہاں
میں نے اس ڈر سے فوراً ہاں کہہ دیا کہ کہیں یہ اپنا ارادہ بدل ہی نہ لے
تو ٹھیک ہے کل صبح دس بجے ہماری شادی ہے
تم نو بجے کورٹ پہنچ جانا میں وہیں پہنچ جاؤں گی دس بجے ہمارا نکاح ہو جائے گا اور ہاں گواہ بھی ساتھ لے آنا
مگر ہانی سر ربانی ابھی ہاسپٹل میں ہیں ان کو پتہ چلے گا تو وہ کیا کہیں گے؟
اس طرح کورٹ میں جا کے شادی ؟
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا
وہ اب بالکل ٹھیک ہیں اور صبح گھر آ جائیں گے
اور آخری بات کل میرے ساتھ شادی کرنی ہے تو کورٹ آ جانا کیونکہ پرسوں میری فلائٹ ہے اور میں واپس امریکہ چلی جاؤں گی
ہانی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا
میں خاموش ہو گیا
رات بھر میں سوچتا رہا
یہ لڑکی خود بھی مرے گی اور مجھے بھی مروائے گی جب سر ربانی کو اس بارے میں پتہ چلے گا تو وہ کیا سوچیں گے میرا تو سوچ سوچ کے دو کلو خون خشک ہو چکا تھا
ہر رات کی صبح ہوتی ہے اور اس رات کی صبح بھی ہو گئی میں عجیب کشمکش میں مبتلا تھا سر ربانی کو کال کی وہ ہاسپٹل سے ڈسچارج ہو کے گھر چلے گئے تھے
اٹھ بجنے والے تھے میں نے اپنا بہترین سوٹ پہنا اپنے بھروسے کے تین بندوں کو ساتھ لیا اور کورٹ پہنچ گیا ٹھیک ساڑھے نو ہانی بھی آ گئی
مگر ایک بڑا سا عبایا لپٹے چہرے پہ نقاب ڈال رکھا تھا
اففف میرے خدا اب یہ کیا ڈرامہ کرے گی یہاں مجھے سچ میں ہانی کے ارادوں سے خوف آنے لگا تھا
مگر اس نے خاموشی سے نکاح نامے پہ سائن کیے اور نکاح کے بعد نکاح نامے کی کاپی لے کر گھر چلی گئی
اور میں خاموشی سے واپس آفس آ گیا
جو بھی تھا دل آج بہت خوش تھا بے حد خوش ہانی آخر کار میری ہو چکی تھی اور یہ خواب نہیں حقیقت تھی ۔مگر افسوس صرف اس بات کا تھا کہ میرے پیارے میری اس خوشی میں شریک نہیں ہو سکے
آج پتہ نہیں کیوں میرا بات پہ بات مسکرانے کو دل چاہ رہا تھا