صبح تھانے پہنچ کر میں نے سب سے پہلا کام یہی کیا کہ اعجاز خٹک کی مکمل چھان بین کے لیے ایک بندے کی ڈیوٹی لگائی
اور خود پروفیسر سبحان سے ملنے کے لیے چل پڑا تھوڑا سا دفتری کام باقی تھا وہ مکمل کرنا تھا دوسرا سر ربانی کی بھی ہدایت تھی کہ میں ابھی چند دن ان کے گھر کا چکر لگاتا رہوں تاکہ اگر کوئی ان کا دشمن اردگرد موجود بھی ہے تو اسے پتہ چل جائے کہ پولیس سپنا کی حفاظت کر رہی ہے
پتہ نہیں مجھے یہ لگ رہا تھا یا ایسا ہی تھا کہ جب سے ہانی سر ربانی کی زندگی سے دور گئی تھی سر ربانی جب بھی کسی کی بیٹی کا معاملہ ہوتا اس میں ضرورت سے زیادہ ایموشنل ہو جاتے تھے __________
پروفیسر سبحان اور سپنا بالکل ٹھیک تھے بلکہ پروفیسر سبحان کی بہن اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر پروفیسر کے گھر رہنے آ گئے تھے سپنا بھی بالکل ٹھیک تھی اور باتوں ہی باتوں میں پروفیسر سبحان نے مجھے بتایا تھا کہ میری بہن کا بیٹا سپنا سے شادی کرنا چاہتا ہے اور وہ اسی سلسلے میں آئے ہیں اور پروفیسر کو امید تھی کہ جنید بہت اچھا اور نیک لڑکا ہے اور سپنا بھی جلد ہی اس شادی کے لیے مان جائے گی _________
میرے وہاں بیٹھے بیٹھے جنید بھی آ گیا میں نے اس سے سلام دعا کی لوگوں کو جانچنے کا جتنا تجربہ مجھے تھا اس لحاظ سے تو مجھے جنید کافی معقول انسان لگا تھا ___________
گھر آ کر میں نے ساری بات سر ربانی کو بتائی وہ بھی مطمئن ہو گئے
دوسرے دن اعجاز خٹک کے بارے میں رپورٹ میری ٹیبل پہ پہنچ چکی تھی
میں نے جلدی سے فائل کھول کے دیکھی
اعجاز کی شادی آج سے چار سال پہلے اس کے خاندان میں ہی ہو چکی تھی اس کے علاؤہ اس نے کوئی خفیہ نکاح بھی نہیں کیا تھا اس کے گھر والوں رشتے دار دوستو ں میں سے ایسی کوئی معلومات نہیں ملی تھی جس سے پتہ چل سکے کہ ہانی کا اعجاز سے کوئی تعلق تھا_______
رپورٹ پڑھ کے میں شدید پریشان ہو گیا
اب اس سلسلے میں سر ربانی سے بات کرنی بہت ضروری تھی کیونکہ ہانی کے بارے میں وہ مجھ سے زیادہ جانتے تھےشام کو میں نے گاڑی نکالی اور سر کے بنگلے میں ان سے ملنے آ گیا
ملکہ بی بی کے پاس کچھ دیر بیٹھنے کے بعد میں ہانی کے کمرے میں آ گیا
پورے کمرے میں ہانی کی خوشبو بسی ہوئی تھی سر ربانی نے ہانی کے کمرے کی چابی مجھے دے دی تھی تاکہ میں جب یہاں رہنے آؤں تو اسے استعمال کر سکوں
اور میں نے ہانی کی کوئی چیز نہیں چھیڑی تھی جو شے جہاں وہ رکھ کے گئی تھی وہیں پڑی تھی
سر ربانی مجھ سے ملنے کمرے میں ہی آ گئے
پہلے تو وہ بھی میری بات پہ یقین نہیں کر رہے تھے جب میں نے انھیں اعجاز خٹک کی فائل دکھائی تو وہ خود حیرت زدہ رہ گئے
ثمران بیٹا یہ اعجاز کہیں جھوٹ تو نہیں بول رہا ایسا کیسے ہو سکتا ہے
سر ربانی نے پریشانی میں کہا
سر اگر وہ جھوٹ بھی بول رہا ہو تو ہمارے پاس کیا ثبوت ہے جس سے ہم یہ ثابت کر سکیں کہ ہانی اس کے پاس ہے اور وہ چھپا رہا ہے
سر ربانی خاموش ہو گئے
ثمران مجھے لگ رہا ہے کہ ہمیں ہانی کے بارے میں پتہ کروانا چاہیے تھا
مگر اب آٹھ سال بعد ہم کس سے اس کے بارے میں پوچھیں
سر ربانی بے حد پریشان ہو گئے تھے اور ان کی آنکھوں میں ہانی کا نام سنتے ہی جو شدید نفرت کی لہر مجھے نظر آتی تھی آج وہ بھی ختم ہو چکی تھی
اور اس نفرت کی جگہ ایک باپ کی اپنی بیٹی کے لیے فکر نظر آ رہی تھی
سر مجھے لگ رہا ہے کہ ہمیں ہانی کے کیس کی دوبارہ تفتیش کرنی چاہیے آپ صبح تھانے میں ہانی کی گمشدگی کی رپورٹ لکھوائیں اس کے بعد پھر اگلا مرحلہ دیکھتے ہیں
میں نے سر ربانی کو مشورہ دیا
مگر بیٹا اس سلسلے میں ہمیں صرف ایک بندے اعجاز کے بارے میں پتہ ہے جس کی تفتیش تم نے کروا لی ہے اور تو ہمیں کچھ پتہ نہیں
چلیں سر دیکھتے ہیں مگر جو بھی ہو ہانی کا پتہ چلانا بہت ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ وہ کسی مشکل میں پھنسی ہو اور ہم کچھ اور سمجھ رہے ہوں
سر ربانی نے اثبات میں سر ہلایا
رات ساری میں ہانی کے کمرے میں بیٹھا اسے یاد کرتا رہا
جب سے مجھے اس حقیقت کا علم ہوا کہ ہانی کا اعجاز سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا تو میری اندر کی بے چینی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا
مگر اب یہ معمہ ہانی کے ملنے پہ ہی حل ہو سکتا تھا کہ وہ پھر گھر سے کس کے ساتھ اور کیوں گئی
اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ گئی نہ ہو اسے اغوا کیا گیا ہو
اغوا مگر کیوں؟
میں نے یونہی لاعلمی میں اٹھ کر ہانی کی چیزیں چیک کرنی شروع کی مگر وہاں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو مجھے ہانی کے بارے میں کچھ بتا سکے
ہانی کے دوستوں کو بھی میں جانتا تھا سوائے ایک دو لڑکیوں کے اور جن دنوں ہانی غائب ہوئی تو وہ کالج میں زیادہ تر اعجاز کی اس کزن سمیرا کے ساتھ کافی وقت گزارتی تھی
مجھے اس سمیرا نام کی لڑکی سے ضرور ملنا چاہیے شاید کچھ پتہ چل سکے میں نے اپنے آپ کو ایک چھوٹی سی امید کی کرن تھماتے ہوئے کہا
____________
دوسرے دن میں نے اعجاز کو کال کی اور اس سے سمیرا کا ایڈریس معلوم کرنے لگا پہلے تو وہ حیلے بہانے کرتا رہا جب اسے معلوم
ہو گیا کہ میں ٹلنے والا نہیں ہوں تو التجا ئیہ لہجے میں بولا
انسپکٹر رندھاوا سمیرا میری صرف کزن ہی نہیں بلکہ بہنوں کی طرح عزیز ہے اس کے سسرال والے تھوڑے شکی مزاج اور وہمی سے ہیں اس لیے میں نہیں چاہتا کہ آپ وہاں جائیں اس سے بہتر ہے کہ آپ سمیرا سے فون پہ بات کر لیں میں اسے سب کچھ بتا دیتا ہوں
میں خاموش ہو گیا تھوڑی دیر بعد اعجاز نے مجھے سمیرا کا سیل نمبر بھیج دیا
میں نے رات کو اسے کال کی اور ساری بات بتائی
وہ تھوڑی دیر خاموش رہی پھر بولی
انسپکٹر رندھاوا آپ مجھ سے کل میرے مما پاپا کے گھر شام پانچ بجے مل لیں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ شاید میں فون پہ آپ کو وہ سب نہ سمجھا سکوں جو میں آپ سے کہنا چاہتی ہوں
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں مجھے ہانی سے زیادہ کچھ بھی پیارا نہ تھا دوسرے دن میں بار بار گھڑی کی طرف دیکھتا وقت گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
میرا دل کہہ رہا تھا کہ سمیرا ضرور ہانی کے بارے میں سب کچھ جانتی ہے
وہ مجھے ضرور اس کا پتہ بتا سکتی ہے
آخر خدا خدا کرکے چار بجے اور میں سمیرا کے بتائے ہوئے ایڈریس پر پہنچ گیا
ملازم نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا
مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور سمیرا مجھ سے ملنے آ گئی
یہ کیا انسپکٹر رندھاوا آپ نے صرف چائے پی ساتھ کچھ بھی نہیں لیا سمیرا نے کھانے کی ٹرالی کی طرف دیکھتے ہوئے شکوہ کیا
نہیں بس کافی ہے
مس سمیرا میرا خیال ہے کہ ہمیں اس موضوع پہ بات کر لینی چاہیے جس لیے میں آپ سے ملنے آیا ہوں
میں نے سمیرا کا بیباک سا رویہ نظر انداز کرتے ہوئے کہا
ادھر دیکھو میری طرف
اچانک سمیرا صوفے سے اتر کر میرے سامنے کھڑی ہو گئی میں بھی اس کی اس حرکت پہ سٹپٹا کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا
میری آنکھوں میں جھانک کے دیکھو کہ میں شادی کے بعد کتنی خوش ہوں
اس نے بلا کسی خوف میری طرف دیکھتے ہوئے کہا
کیا مطلب ہے آپ کا
مگر تمھیں ان باتوں سے کیا دلچسپی ہو گی کیونکہ تو ہمیشہ سے اس ہانی کا مجنوں جو بنا رہا
تجھے کسی کے جذبات کی کیا پرواہ
سمیرا کا رنگ غصے سے متغیر ہو چکا تھا
تمھیں پتہ ہے میں نے ہمیشہ تم سے محبت کی تمھیں چاہا لیکن جب بھی میں نے تمھارے قریب آنے کی کوشش کی وہ ہانی کمینی چھلانگ لگا کر ہمارے درمیان آ جاتی اور تم مجھے نظر انداز کر کے اس کا ہاتھ پکڑتے اور اس کے ساتھ چلے جاتے
سمیرا کے انکشافات میرے لیے کسی دھماکے سے کم نہ تھے
تو تم نے ہانی کے ساتھ کچھ غلط تو نہیں کیا اپنے رقابت کے جزبے سے مجبور ہو کر
میں نے اپنے اندر کے شک کو زبان دی
ہانی وہ بے اختیار اونچا اونچا ہنسنے لگی
جیسے اس پہ جنون کا دورہ پڑ گیا ہو
نہیں میں نے اس کے ساتھ کچھ نہیں کیا اس نے خود ہی اپنے ساتھ کیا جو کیا کیونکہ وہ ایک پاگل اور بیوقوف لڑکی تھی
کیا کیا ہانی نے میرا دل خوف اور دہشت سے زور زور سے دھڑکنے لگا
وہ مجھ سے کہتی تھی کہ اسے ثمران سے محبت ہے اور وہ بنا کسی کو کچھ بتائے تم سے کسی طرح شادی کرنا چاہتی ہے
مگر اسے یہ لگتا تھا کہ تم اس سے محبت نہیں کرتے اس لیے وہ مجھ سے ایسے طریقے پوچھتی رہتی جس سے تم انسپکٹر رندھاوا ہانی کے سامنے گھٹنوں کے بل جھک کے اپنی محبت کا اظہار کر سکو
اور میں اس بیوقوف کو بس مشورے ہی دیتی تھی
عمل وہ خود کرتی تھی پاگل لڑکی اسے پتہ ہی نہ تھا کہ میں تو اسے ثمران رندھاوا کی زندگی سے بہت دور بیجھنے کی پلاننگ کر رہی ہوں اتنی دور کہ پھر اس چڑیل کا سایہ بھی تم پہ نہ پڑ سکے
اور اس کے بعد میں نہایت آسانی سے تمھیں اپنا بنا لیتی وہ آہستہ آہستہ رک رک کر بول رہی تھی
سمیرا جلدی بتاؤ تم نے ہانی کے ساتھ کیا کیا میرا دل ڈوب رہا تھا
نہیں انسپکٹر آپ پھر غلط کہہ رہے ہیں میں نے اس کے ساتھ کچھ نہیں کیا
میں نے اسے تم سے دور رہنے اور اعجاز سے جھوٹی محبت کا ڈرامہ رچانے کو کہا اور وہ مان گئی
پر پھر اس کے باپ کو اس بات کا پتہ چل گیا اور اس سے پہلے کہ ہمارا راز کھلتا میں نے اس سے کہا کہ اپنے بابا کو بتا دو کہ اعجاز ان کے دشمن کا بیٹا ہے اس طرح دو تین دن گھر میں ٹینشن ہو گی اور پھر ساری بات آئی گئی ہو جائے گی
لیکن اس کے باپ نے تو ایک الگ ہی کام کر دیا وہ اپنا سارا خاندان اکھٹا کر کے ہانی کا تم سے نکاح کروانا چاہتا تھا
مجھے بجلی کی طرح جھٹکا لگا
مجھ سے نکاح ہاں اس پاگل نے خود بڑی خوشی سے مجھے یہ خبر سنائی کہ بابا جان میرا نکاح ثمران سے کروا رہے ہیں تاکہ میں آئندہ اس قسم کی حرکتیں نہ کروں جو اعجاز سے محبت کا ڈرامہ کر کے کی تھی
اور میرا شکریہ ادا کر رہی تھی بیوقوف
میں نے تو یہ سب اسے تمھارے دل سے دور کرنے کے لیے کیا تھا مگر یہ سب تو الٹ ہو گیا اب مجھے جلدی کچھ نہ کچھ کرنا تھا ورنہ سب ختم ہو جاتا
تو پھر کیا کیا تم نے
میں نے ایک لڑکی کو پیسے دے کر ایک ڈرامے کے لیے تیار کیا اور وہ لڑکی پیسوں کے لالچ میں
ہانی کے پاس گئی اور خود کو تمھاری محبت ظاہر کیا جو کہ ہانی کو پتہ نہیں تھا
اور پوری اداکاری کر کے اسے اچھی طرح یقین دلایا کہ ثمران بھی اس سے بہت محبت کرتا ہے اور بہت جلد وہ اس سے شادی کرنے والا ہے
اور وہ بیوقوف اس کی باتوں میں آ گئی اور اپنے بابا کے سامنے جھوٹ بول کر کہ وہ صرف اعجاز سے محبت کرتی ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہے کابہانہ بنا کے تم سے شادی سے انکار کر دیا
ربانی سر نے بات دبا لی اور اس ڈر سے کہ کہیں ہانی واقعی اعجاز سے شادی نہ کر لے اپنے بھتیجے کو امریکہ سے بلا لیا اس سے ہانی کی شادی کے لیے
اور ہانی بری طرح پھنس گئی پھر اس نے مجھ سے مشورہ مانگا تو میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اعجاز کا نام لکھ کے گھر سے بھاگ جائے
اور وہ واقعی بھاگ گئی
سمیرا نے نہایت سفاکی سے بات ختم کر کے کہا
میرا دل چاہا کہ ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پہ رسید کروں جو کچھ اس نے کیا کم سے کم اسے احساس تو ہو کہ اس نے غلط کیا ہے
مگر انسپکٹر رندھاوا ہانی تو چلی گئی پتہ نہیں زندہ بھی ہے یا مر گئی تم کیوں اس کی فکر میں اتنے دبلے ہوئے جا رہے ہو
میں ہوں نہ تمھارے پاس صرف ایک اشارہ کر دو اپنا سب کچھ چھوڑ کر تمھارے قدموں میں عمر گزارنے آ جائیں گے
سمیرا نے میرے قریب آ کر میرے گلے میں بانہیں ڈال کر سر شاری سے جھومتے ہوئے کہا
پیچھے کرو اپنا ہاتھ میں نے اسے جھٹک کر اپنے سے پرے ہٹایا
مجھ تم جیسی گھٹیا ذلیل اور کمینی عورت کا ساتھ تو کیا شکل دیکھنی بھی گوارا نہیں
میں غصے میں شدید کانپ رہا تھا میرا دل چاہ رہا تھا اس کا گلا دبا دوں
ایز یو وش مائی ڈئیر مگر جب غصہ اترے تو میری آفر پہ ٹھنڈے دل اور دماغ سے غور کرنا
میں اس کی بات سنی ان سنی کر کے تیزی سے باہر نکل آیا
افف میرے خدا یہ ہانی کیا کیا تو نے
کہاں چلی گئی تم اور پھر ساری زندگی ایک بار بھی مجھ سے ملنے کی کوشش نہ کی
میں نے بہت دنوں بعد گاڑی میں سی ڈی پلیئر کو آن کیا اور اپنی پسندیدہ شاعری سننے لگا جو ایک بار ہانی نے مجھے سینڈ کی تھی
وہ سراب سا تھا
یا شراب سا تھا
وہ میرے لیے
تو خواب سا تھا
جو بھی تھا
پر یہ تو طے ہے کہ
کہ تمام عمر
میری آنکھ سے
اسے جی بھر کے دیکھنے
کی حسرت نہ گئی
اس کے دیدار کا
خمار نہ گیا
اس کی بے رخی نہ گئی
میرے دل سے اس کا
پیار نہ گیا
پتا نہیں کتنی بار ریورس کر کر کے میں اس شاعری کو سنتا گیا
گھر پہنچ کر بھی میرا دل اور دماغ کنٹرول میں نہ تھا اس لیے یہی بہتر سمجھا کہ سو جاؤں
ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ سر ربانی کی کال آ گئی
ثمران بیٹا ہانی کا پتہ چل گیا ہے وہ امریکہ میں اپنی پھپھو کے پاس ہے
سر ربانی نے انکشاف کیا