شاید نہیں یقینا ہانی کو کسی سے محبت ہو گئی تھی
مگر کس سے! پتہ نہیں؟
کیونکہ میرے اس کے درمیان ہمیشہ سے مالک اور نوکر کا جو تعلق تھا اس نے مجھے کبھی بھی
ہانی سے نزدیک نہ ہو نے دیا
بے تکلفی تو دور کی بات میں نے تو کبھی نظریں اٹھا کر ہانی کی طرف دیکھ کر بات نہیں کی تھی
دل کی بات کرنی تو بہت دور کی بات تھی
مگر گھر میں کچھ دنوں سے یہ چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ ہانی کسی سے محبت کرنے لگی ہے
اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے
ثمران کو کچھ پتہ نہ چل سکا کہ آخر وہ کون خوش نصیب ہے
جس پہ نظر کرم ہانی نے ڈال دی ہے
اور پھر ایک دن یہ راز بھی مجھ پہ افشا ہو گیا
اعجاز خٹک فورتھ ائیر کا سٹوڈنٹ
سنا تھا شہر کے کسی رئیس کا بیٹا ہے خیر مجھے اس سے کیا لینا دینا تھا یا شاید تھا کیونکہ جب سے میں نے ہانی کو اس کے ساتھ دیکھا تھا
دل بہت بے چین ہو گیا تھا
ایک بے کلی تھی جو مجھ پہ طاری تھی
یا شاید جزبہ رقابت کی آگ میں جھلس رہا تھا
مجھ سے ہانی کا یوں اس کے پہلو میں بیٹھ کے ہنس ہنس کے باتیں کرنا برداشت نہیں ہو رہا تھا
دل چاہ رہا تھا ہانی کو بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ لے آؤں اور سب کے سامنے چیخ چیخ کر کہوں کہ تم صرف میری ہو صرف میری
مگر پھر ایک خیال آتا کہ اگر اس نے مجھ سے یہ کہہ دیا کہ اوقات ہے تمھاری یہ حق جتانے کی تو
میرا رہا سہا بھرم بھی ٹوٹ جائے گا
میں اپنی ہی نظروں میں ہمیشہ کے لیے گر جاؤں گا
اس لیے میں نے خاموشی سے ہانی سے جتنی ہو سکتی تھیں دوریاں بڑھا لیں تاکہ نہ وہ مجھے دکھے نہ میرے ذہن میں ایسے خیالات پیدا ہوں
اور پھر ایک دن ثمران نے ربانی رندھاوا کے غصے میں چنگھاڑنے کی آواز سنی
ملکہ (ربانی کی بیوی)اس سے کہہ دو کہ آئیندہ اس کم ذات ذلیل اور کمینے لڑکے سے کوئی تعلق رکھا
تومجھ سے برا کوئی نہ ہو گا
اس سے شادی تو دور اس کے بارے میں سوچنا بھی اس کے لیے گناہ ہے کیونکہ وہ میرے دشمن دلاور خٹک کا بیٹا اعجاز ہے
مگر بیٹی بھی اپنے باپ پہ گئی تھی اکھڑ ضدی خود سر
صاف کہہ دیا کہ اگر آپ لوگوں نے میری اس سے شادی نہ کروائی تو میں خود اپنی مرضی سے اس سے شادی کر لوں گی
ایک ماہ گزر گیا تھا گھر میں اسی ٹینشن کو پھیلے
ربانی صاحب نے بیٹی کے گھر سے نکلنے پہ پابندی لگا دی تھی
اس سے موبائل لیپ ٹاپ یہاں تک کہ دوستوں سے ملنا جلنا سب بند تھا
مگر جوان لڑکی کو یوں گھر میں کب تک قید کر سکتے تھے
آخر میاں بیوی نے باہمی مشورے سے ہانی کی شادی
اس کے پھپھو کے بیٹے جو کہ امریکہ میں زیر تعلیم تھا اس سے کروانے کا فیصلہ کیا
اور آٹھ دن کے اندر اندر شادی کی تیاریاں مکمل ہو گئیں
پتا نہیں ہانی اس سے شادی کے لیے راضی تھی یا نہیں لیکن ایک بات طے تھی کہ
ہانی نے شادی کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امریکہ چلے جانا تھا
ثمران خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا
ویسے بھی اس کی گھر میں حیثیت ہی کیا تھی جو وہ کسی سے کچھ پوچھتا یا کوئی مشورہ دیتا
اسے یاد تھے وہ دن جب وہ صبح بھٹے کے سرکاری سکول جاتا اور شام کو پارک کے سامنے بیٹھ کر کبھی مونگ پھلی کبھی نمکو کبھی آلو چنے بیچتا
کیونکہ ان دونوں شدید سردی کے باعث اس کی والدہ بیمار تھی اور بھٹے پہ کام کرنے نہیں جا سکتی تھی
مگر پیٹ تو کھانے کے لیے مانگتا تھا اس لیے ثمران شام کو یہ چیزیں بیچتا اور جو بچتا اس سے کچھ کھانے کی چیزیں اور ڈاکٹر سے ماں کی دوائی لے جاتا
وہ بھی ایک شام تھی جب ایک بڑے سے آوارہ لڑکے نے ثمران سے زبردستی گھر آتے ہوئے پیسے چھین لیے ثمران سڑک پہ ہی چیخ وپکار کرنے لگا
اس کی کل پونجی لٹ گئی تبھی ڈی آئی جی ربانی کی گاڑی گشت کے لیے وہاں سے گزر رہی تھی
وہ چھوٹے سے بچے کو یوں چیختا چلاتا دیکھ کے گاڑی سے نیچے اتر آیا اور اسے گاڑی میں ساتھ بٹھا کر تسلی دی سارا واقعہ پوچھا
اسے کچھ کھانے کی چیزیں اور ایک ڈاکٹر کو ساتھ لے کر اس کے گھر گیا جس نے اس کی ماں کا اچھی طرح چیک اپ کیا اور سر ربانی پھر اس ڈاکٹر کے ساتھ چلے گئے کچھ دیر بعد
بہت ساری دوائیں اور کچھ پیسے اس کی ماں کو دے کر گئے
ماں چند ہی دن بعد وہ دوائیں کھانے سے ٹھیک ہو گئی
اور سر ربانی کو ڈھیروں دعائیں دیتی
جب پانچویں کا بورڈ کا رزلٹ آیا اور میں نے پورے شہر کے سکولوں میں ٹاپ کیا تو ماسٹر نے ماں سے کہا بی بی تیرا بچہ بڑا قابل ہے
تو اسے کسی اچھے ادارے میں داخل کروا دے یہ بہت بڑا افسر بنے گا
اور ماسٹر کی بات میری سیدھی سادی ماں کے دل میں بیٹھ گئی
ایک دن میری انگلی پکڑی اور میرا بستہ اور چند کپڑے لے کے سر ربانی کے گھر چھوڑ آئی کہ صاحب یہ یہاں رہ کے کام بھی کرے گا آپ بس اس کا داخلہ کسی اچھے سکول میں کروا دیں
سر ربانی اور ملکہ بیگم بہت اچھے تھے
انہوں نے ہمیشہ مجھے اپنی اولاد کی طرح رکھا اسی لیے سر ربانی نے میرا ایڈمیشن بھی ہانی کے ساتھ کروا دیا
ہانی بہت ہی گم صم کم گو لڑکی تھی
امیروں والا ایک چونچلا اس میں نہیں تھا
لنچ ٹائم میرے ساتھ بیٹھ کر لنچ کرتی
اپنی بکس کاپیز ہر چیز مجھ سے شئیر کر لیتی
یہاں تک کہ سکول میں بھی اس نے کبھی کسی کو میرے بارے میں سچ نہ بتایا بلکہ یہی کہا کہ ہمارے رشتے داروں کا بیٹا ہے بابا فوت ہو چکے ہیں اس لیے میرے بابا جانی اسے اپنے گھر لے آئے ہیں اور اب یہ ہمارے ساتھ ہی رہے گا
کچھ ہانی کا سرد مزاج چپ چپ رہنا
کچھ میری زندگی کی تلخ سچائیاں جو مجھے ہانی کے اتنا قریب ہو نے کے باوجود اس سے میلوں دور رکھتی
اور ہمارے بیچ کی یہ دوریاں اب تھوڑی دیر میں ہی
ہمیشہ کی لمبی مسافتیں بننے والی تھیں
کیونکہ ہانی تھوڑی دیر کے بعد ہم سب کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے جانے والی تھی
میرا دل شدید بے چین تھا دل شدت سے چاہ رہا تھا کہ ایک نظر ہانی کو دیکھوں کہ وہ دلہن بن کے کیسی لگتی ہے
پر پھر خود ہی خود کو سمجھا لیا کہ ہانی کا یہ روپ نہ ہی دیکھو تو اچھا ہے برداشت نہیں ہو گا تم سے
ہانی کا بچھڑنا
مولوی صاحب آ چکے تھے نکاح شروع ہو چکا تھا جب اوپر سے کوئی تیزی سے بھاگتا ہوا نیچے آیا اور ربانی سر کے کان میں کچھ کہا جسے سن کے سر ربانی کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا ان میں جتنی طاقت تھی وہ اسے استعمال کر کے سیڑھیاں چڑھنے لگے میں بھی ان کے پیچھے بھاگا ہانی کے کمرے میں داخل ہوتے ہی سامنے کے منظر نے میرے ہوش اڑا دئیے بی بی ملکہ زمین پہ بے ہوش پڑی تھیں ان کے ہاتھ میں ایک کاغز تھا
جسے سر ربانی پکڑ کر پڑھنے لگے
بابا جان مما جی مجھے معاف کر دینا میں اعجاز کے ساتھ شادی کرنے کے لیے یہ گھر چھوڑ کے جا رہی ہوں
میں نے آ پ کو منانے کی بہت کوشش کی مگر میں اس میں کامیاب نہ ہو سکی میں اعجاز کے بغیر کسی اور کے ساتھ شادی کر کے زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی
فقط ہانی
۔۔۔ہانی جا چکی تھی پورے خاندان کے سامنے اپنے ماں باپ کو رسوا کر کے ان کا تماشہ بنا کے
کہاں گئی اس کے ساتھ کیا ہوا ربانی سر کو پھر اس سے کوئی غرض نہ رہی
پورے گھر میں صرف ایک میں تھا جو کبھی کبھار اس کا نام لے لیتا ورنہ کوئی گھر میں اس کا ذکر نہ کرتا
سر ربانی نے اپنی آدھی جائداد میرے نام منتقل کروا دی اور یوں میں نے جب تک سی ایس ایس کا امتحان کلیر کیا ایک بہت بڑی جائداد کا مالک بن چکا تھا
مگر وہ جو اس کی اصل وارث تھی وہ کہاں تھی کاش ہانی تم آج یہاں ہوتی ہمارے ساتھ
ہمارا خاندان خوشیوں کا گہوارہ ہوتا
لوگ تو اب یہ بھی باتیں کرتے تھے کہ ربانی کے دشمنوں نے ہانی کو مار دیا اگر زندہ ہوتی تو کبھی نہ کبھی پلٹ کے آتی ہی
پر میرا دل نہیں مانتا تھا وہ زندہ تھی
اے خدا میری ہانی جہاں بھی رہے بہت خوش رہے اسے اپنے حفظ و امان میں رکھنا آمین
ہمیشہ کی طرح میرے دل سے اس کے لیے دعا نکلی اور میں اس پتھر سے اٹھ کر گھر چل پڑا