آج اقبال کا نعرئہ مستانہ نظر پڑا ، جسے پڑھ کر دل تڑپ گیا، نوجوان نسل کے لیے یہ دو اشعار نشانِ راہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ اقبالؒ فرماتے ہیں :
نہیں مقام کی خوگر طبیعتِ آزاد
ہوائے سیر مثالِ نسیم پیدا کر
ہزار چشمہ تیرے سنگِ راہ سے پُھوٹے
خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر
اقبال ان اشعار میں کہہ رہے ہیں کہ اے فَرزندِ مسلم تو فطرتاً آزاد ہے ، حرکت تیری سرشت میں داخل ہے، اور تیری دنیا بڑی وسیع ہے، تجھے زیب نہیں دیتا کہ تو ایک جگہ بیٹھ کر جو کچھ ہو رہا ہے اس کو بس دیکھتا رہے۔ تجھے چاہیے کہ ’’رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا‘‘یعنی مثالِ نسیم سحرگاہی اپنے چمن کی خوشبو، فضائوں میں پھیلا دے اور دنیا کو پیغام زندگی دے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تجھے وہ قدرت اور توانائی بخشی ہے کہ تو اگر صحرا میں نکل جائے تو تیرے قدموں کے نیچے سے زندگی کے چشمے پھوٹتے چلے جائیں، اور لق و دق صحرا ایک نخلستان بن جائے ۔
یوں تو اقبال کا کلام، عمل پیہم اور جہد مسلسل کی تلقین سے بھرا پڑا ہے۔ میں یہاں ضرب کلیم ہی کی چھوٹی سی نظم بعنوان ’’تن بہ تقدیر ‘‘ کرتا ہوں۔ یہ نظم صرف تین اشعار پر مشتمل ہے ۔ پہلا شعر ہے ۔
اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
قرآنِ پاک نے زندگی کاد رس دیا تھا، زندہ رہنے کے لیے حرکت و عمل کی تَلقِین کی تھی اور تسخیرِ کائنات ہمارا مقدر تھی، لیکن خدا ہدایت دے ہمارے پیرانِ حرم کو جنہوں نے قوم کو سلائے رکھنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ وہ اسی قرآن کی رو سے ہمیں رُہبانیت سکھا رہے ہیں۔ قرآنِ پاک نے ہماری تعمیر کے لیے صبر اور شکر جیسے عمل سے بھر پور الفاظ استعمال کئے ہیں، لیکن ہم بدقسمتی سے ان کا مطلب عمل سے دوری اور ’’ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ‘‘ رہنا سمجھتے ہیں ۔اقبال کہتے ہیں :
’’تن بہ تقدیر ‘‘ ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
وہ لوگ، جنہوں نے دنیا کو جینے کا سلیقہ دیا، جن کے دم قدم سے جہالت کی تاریکیوں میں علم و عرفان کے چراغ روشن ہوئے ، اور جنہوں نے عملی طور پر یہ ثابت کر دکھایا تھا کہ انسان کو خدائے تعالیٰ نے اپنی تقدیر خود رقم کرنے کا اہل بنایا ہے، افسوس آج اُسی قوم کے فرزند دستِ نگر ہیں اقوامِ مغرب کے اور اس دامِ فریب میںگرفتار ہیں کہ ان کی تقدیر میں اسی طرح لکھا تھا، اور اب حالت یہ ہے کہ:
تھا جو نا خُوب ، بتدریج وہی خُوب ہوا
کہ غُلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
ہم مادی طور پر غیر اقوام کے غلام ہوچکے ہیںاور ذہنی طور پر اپنے خداوندانِ مکتب کے غلام ہیں جو کہ ’’سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا‘‘ اور جب ہم خود اچھے اور بُرے کی تمیز کھو بیٹھے تو جو بنیادی طور پر برائیاں تھیں اب ان میں ہمیں کوئی برائی نظر نہیں آتی، کیونکہ غُلامی میں قوموں کے ضمیر بد ل جاتے ہیں۔
آپ کو اندازہ ہوا ہوگا کہ تین اشعار پر مشتمل یہ چھوٹی سی نظم گو کہ منفی انداز میں لکھی گئی ہے لیکن اپنے اندر زبردست مثبت اثر رکھتی ہے ۔ یہ اعجاز ہے ہمارے حکیم ُ ا لاُمّت کا جو اپنے کلام سے اُمّتِ مُسلمہ کو جگا کر چلا گیا اور اب دشمنان قوم اگر چاہیںبھی تو پھر بھی یہ ملت سو نہیں پائے گی ۔ اس قوم میں خواب ِ غفلت سے بیدار کرنے والے پیدا ہوتے رہیں گے اور ایک دن پھر ایسا آئے گا کہ تاریکیاں غائب ہو جائیں گی اور آفتاب صداقت کا نُور دنیا کو منور کر دے گا ۔ بقول اقبال :
شب گریزاں ہُوگی آخر جلوئہ خُورشد سے
یہ چمن معمُور ہو گا نغمۂ توحید سے