نکلی تو لبِ اقبال سے ہے، کیا جانیئے کس کی ہے یہ صدا
پیغامِ سکوں پہنچا بھی گئی ، دل محفل کا تڑپا بھی گئی
ارمغانِ حجاز (اردو) میں اقبال کی ایک چھوٹی سی نظم ہے جس کا عنوان ہے آوازِ غیب۔ قبل ازیں کئی مرتبہ میں ان اشعار پر سرسری نظر ڈالتا ہوا گزر گیا تھا ۔ کل رات میرے دوست محمد آصف خواجہ، مدیر شاہین کا فون آیا کہ اگلے شمارہ کے لیے وہ میرے مضمون کے منتظر ہیں۔ میں نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ آئندہ فکرِ اقبال پر شاہین کے لیے کیا لکھنا ہے۔ چنانچہ فوراً کلیات اقبال اٹھا کر کھولی تو میری نظروں کے سامنے اقبال کی نظم ’’آواز غیب‘‘ تھی ۔ تب احساس ہوا کہ اقبال پر یہ اشعار یقینا غیب سے اترے ہوں گے۔ میں نے اشعار پڑھنا شروع کیے۔ بار بار پڑھے، پڑھتا رہا ، پڑھتا رہا اور فکرِ اقبال میں ڈوبتا چلا گیا، یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی ۔ جس کیفیت سے میں کل شب دو چار ہوا، الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا ۔ رات کافی گزر چکی تھی ۔ سونا مناسب سمجھا ۔ صبح اٹھا تو پتہ چلا کہ میں نیم غنودگی میں اس نظم کا یہ شعر گنگنا رہا تھا :
اب تک ہے رواں گرچہ لہو تیری رگوں میں
نے گرمئی افکار ، نہ اندیشۂ بیباک!
کوشش کرتا ہوں کہ قارئینِ شاہین تک اقبال پر غیب سے نازل ہونے والا پیغام پہنچا سکوں ۔ ملاحظہ ہو …… آواز غیب !
آتی ہے دمِ صبح ، صدا عرشِ بریں سے
کُھویا گیا کس طرح تیرا جوہرِ ادراک
کس طرح ہوا کُند تیرا نشترِ تحقیق؟
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
اقبال کے ذریعہ غیب سے ملّت کے واسطے پیغام دیا جا رہا ہے کہ اے مسلمان! تیری بلند پروازیٔ تخیل کو کیا ہوا ۔ تو اپنے ہوش و خرد کہاں گنوا بیٹھا، تیرے علومِ قُدسیہ کیا ہوئے ۔ تیرا فلسفہ ، تیرا علمِ ہندسہ ، تیرا علمِ فلکیات جن کے ذریعہ تو ستاروں سے آگے کی خبر لاتا تھا ، یہ سب کچھ تونے کہاں اور کیوں کھو دیا ۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ:
تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار
کیا شُعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک؟
اے غافل، تجھے مالک کون و مکاں نے اپنا خلیفہ بنا کر اس دنیائے آب و گلِ میں بھیجا تھا ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تیری آگ (آتشِ شوق ) کو اس دنیا کے خس و خاشاک ٹھنڈا کر دیں۔ تیری فرمانروائی یہاں ظاہر و باطن پر تھی اور ہے ، تجھے انسانی دلوں کو بھی مسخر کرنا ہے۔ مادی قوتوں کو بھی اپنے تصّرف میں لانا ہے، اور تسخیرِ کائنات پر تجھ کو قادر کیا گیا ہے۔ پھر آخر وجہ کیا ہے کہ:
مہر و مہ و انجم نہیں محکوم ترے کیوں
کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک
آ!میں تجھے بتلادوں :
اب تک ہے رواں گرچہ ُلہو تیری رگوں میں
نے گرمئی افکار ، نہ اَندیشہ بیباک!
اقبال کہتے ہیں کہ تیری آتشِ عشق سرد پڑگئی ہے۔ تیری رگوں میں خُون تو دوڑ رہا ہے، لیکن اس کے اندر وہ گرمی نہیں جو تجھے تجسّس کی دولت دے اور حصول علم و تسخیر کائنات کے لیے بے چین رکھے۔ اے فرزندِ مسلم!علم تیری میراث تھی، جسے لٹیرے چھینے لیے جا رہے ہیں۔ دوڑ اور چھین لے ان سے اپنا سرمایہ پدری، اور لگا ٹھوکر اپنے سمندِ فکر کو کیونکہ ’’جو ہچکچا کے رہ گیا سو رہ گیا ادھر ، جس نے لگائی ایڑ وہ خندق کے پار تھا‘‘۔ البتہ ایک راز کی بات سنتا جا :
روشن تو وہ ہوتی ہے، جہاں بیں نہیں ہوتی
جس آنکھ کے پردوں میں نہیں ہے نِگَہِ پاک
بظاہر یہ بڑا سادہ اور خُوبصورت شعر ہے لیکن یہ اپنے اندر سمندر کی گہرائیاں سمیٹے ہوئے ہے۔ نگاہِ پاک سے اقبال کی مراد پاکیزگی کردار اور راست بینی ہے۔ ایک اور جگہ اقبال اس نکتہ کو اس طرح سمجھاتے ہیں:
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہٰ تو کیا حاصل
دِل و نِگاہ مُسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
اقبال ایک دوسری جگہ اپنے فارسی شعر میں وضاحت کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی کھوئی ہوئی علم و تحقیق کی دولت حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو کس سانچے میں ڈھالنا ہوگا۔ فرماتے ہیں:
چہ باید مرد را طبعِ بلندے ، مشربے نابے
دلِ گرمے، نگاہِ پاک بینے، جانِ بیتابے
انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ اور ہمّت بلند رکھے، اس کا عقیدہ خالص، (یعنی پختہ اور شرک سے پاک) اس کے دل میں حرارت (ایمان کی گرمی ) ہو، نظر اس کی پاکیزہ ہو، اور اس کی جان (ہر وقت اپنی کھوئی ہوئی دولت حاصل کرنے کے لیے ) بے چین رہے۔
نظم کے آخری شعر میں اقبال فرماتے ہیں :
باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کُشتۂ سُلطانی و مُلّائی و پیری!
ہم نے دولتِ دنیا و دین اور خزانہ علم و حکمت اس وجہ سے گنوا دیا کہ ہمار ا آئینہ ضمیر دھندلا گیا ، جس کی وجہ ہماری بدعملی اور ذہنی غلامی تھی ۔ ہم نااہل حکمرانوں کی اندھی تقلید کرتے رہے ہیں … اور خود ساختہ پیروں کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں اور سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ اپنی کم علمی کی بنا پر ہم مفاد پرست اور کوتاہ ظرف مُلّا کے دام میں گرفتار ہیں ۔