زندگی کے متعلق اقبالؒ کا کہنا ہے کہ یہ ایک ندی کی طرح ہے جو ہمیشہ رواں دواں رہتی ہے۔ اس کی ابتداء ہماری نظروں سے اوجھل او راس کی انتہاء بھی ہمیں دکھائی نہیں دیتی۔ اپنی مشہور نظم ’’خضر راہ‘‘ میں انہوں نے زندگی کے لیے کہا تھا :
تو اسے پیمانۂ اِمروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی
اقبال کی نظم ’’ساقی نامہ‘‘ بال جبریل میں ننانوے (99) اشعار پر پھیلی ہوئی ہے۔ اپنی اس طویل نظم میں اقبال زندگی کی حقیقت بیان کرنے کے سلسلہ میں ایک پہاڑی ندی کی مثال پیش کرتے ہیں، جس کے وجود سے بنجر پہاڑوں کی گھاٹیاں جنت کا نظارہ پیش کر رہی ہیں۔ فرماتے ہیں :
ہُوا خیمہ زن کاروانِ بہار
اِرم بن گیا دامنِ کُوہسار
اس ابتدائی شعر کے بعد زندگی کی حقیقتوں سے پردے اٹھنا شروع ہوتے ہیں :
گُل و نرگس و سَوسن و نسترن
شہیدِ ازل لالہ خونیں کفن
جہاں چُھپ گیا پردئہ رنگ میں
لہو کی ہے گردش رگِ سنگ میں
فضا نیلی نیلی، ہوا میں سرور
ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیوُر
ایسے حَسین اور زندگی سے بھر پور مناظر میں کاروانِ حیات رواں دواں ہے، جس کے ذریعہ قدم قدم پر ہمیں زندگی کا درس مل رہا ہے اور دیکھئے جو ئے کہستاں کس طرح ہمیں زندہ رہنے کا چلن بتا رہی ہے :
وہ جوئے کُہستاں اُچکتی ہوئی
اَٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی
اُچھلتی، پِھسلتی، سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
ان دو اشعار میں بڑے انوکھے انداز سے ہمیں زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کیا گیا ہے، مگر ساتھ ہی زندگی کا دوسرا رخ بھی دیکھئے کہ یہی گنگناتی ، لہراتی اور بل کھاتی ندی، جو سنگلاخ وادیوں میں زندگی بکھیرتی ہوئی آرہی ہے، اگر کہیں اس کے راستے میں کوئی رُکاوٹ آجائے تو اس کا انداز کیا ہوتا ہے :
رُکے جب تو سِل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
ندی کی یہ روش اور اس کا یہ انداز ہمیں زندہ رہنے کا طریقہ بتا رہے ہیں، اور یہ پہاڑی ندی ہمیں …… ’’سناتی ہے یہ زندگی کا پیام ‘‘ ’’خضرِ راہ ‘‘ میں اقبال نے یہی کہا کہ :
زندگانی کی حقیقت کُوہکن کے دل سے پُوچھ
جوئے شیر و تیشۂ و سنگِ گراں ہے زندگی
اس نظم میں آگے چل کر اقبال فرماتے ہیں کہ زمانہ بدل چکا ہے،، فاران اور طُورِ سینا کے جِگر پھٹ چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پھر کوئی موسیٰ ؑ تجلی طُور کا منتظر ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایسے عالم میں مجھے موسیٰ ؑ نظر نہیں آرہا ، دیکھتا ہوں کہ مسلمان توحید اور الہٰیات کے معاملے میں بظاہر بڑا گرم جوش ہے، مگر اس کے دل میں اب بھی بتوں کا بسیرا ہے:
مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زُنّار پوش
تمدن، تصوّف ، شریعت ، کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمّت روایات میں کھو گئی
علماء وقت کا یہ عالم ہے کہ :
لُبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیب
مگر لذّتِ شوق سے بے نصیب!
بیاں اُس کا مَنطِق سے سلجھا ہوا
لُغت کے بکھیڑوں میں اُلجھا ہوا
اور ہمارے پیروں کا کیا حال ہے ؟
وہ صوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مرد
محبت میں یکتا ، حمیّت میں فرد
عجم کے خیالات میں کُھو گیا
یہ سالِک مقامات میں کھو گیا
بجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں ، راکھ کا ڈھیر ہے
اقبال اپنی نظم میں یہاں پہنچ کر حق تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ جب بھی اپنے رب کا ذکر چھیڑتے ہیں یا رسولِ پاکؐ کا نام ان کی زبان پر آتا ہے تو پھر وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ۔ جذب و مستی کی کیفیت سے دو چار ہوتے ہی ان کے افکار کاسمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے اور تخیّلات کا وہ طوفان اُمڈ آتا ہے کہ قلم رُکنے کا نام نہیں لیتا۔ کچھ ایسی ہی کیفیت اُن پر طاری ہوگئی تھی جس وقت دل سے ایک آہ سرد نکلی ہوگی اور ان کے منہ سے نکلا ہوگا۔
شرابِ کُہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا!
( اس شعر میں قرآنی آیت کے الفاظ اَلَستُ بِربِّکُم کی طرف اشارہ ہے)
اپنے اللہ ، اپنے ساقی کو یاد کرتے ہی وہ مئے الست ، سے سرشار ہو چکے تھے ۔ چنانچہ وجد کے عالم میں ایک سو اشعار کہہ گئے ۔ شعر و فلسفہ کی دنیا میں ایسی نظیر نہیں ملتی ۔ وہ ’’شراب ِ کہن پھر پلا ساقیا‘‘ کہتے ہی بے قرار ہوگئے گویا ہاتھ اوپر اٹھا کر اپنے رب سے کہہ رہے ہوں گے کہ یا اللہ :
مجھے عشق کے پر لگا کر اُڑا
مری خاک جگنو بنا کر اُڑا
اور اے اللہ عقل کو غلامی کی گرفت سے آزاد کر دے !
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا اُستاد کر
ہری شاخِ ملّت ترے نم سے ہے
نفس اس بدن میں ترے دم سے ہے
آخری شعر میں قرآنِ کریم کی ’’سورۃ حجر کی آیت ۲۹ ‘‘کی طرف اشارہ ہے اور مراد یہ ہے کہ انسانی روح کا رشتہ، ذات باری سے ہے، اور اسی ذریعہ سے کشتِ ملّت کی آبیاری ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ شاخِ ابراہیمی ؑ ہمیشہ ہری بھری رہے گی ۔
اس مقام پر آکر اقبال مِلّت کے جوانوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ تو انہیں :
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰؓ سوزِ صدیقؓ دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر
تمنّا کو سینوں میں بیدار کر
ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق ، میری نظر بخش دے
جب اقبال جیسا دُعا کرنے والا ہمارے لیے دُعا کرے تو پھر کیوں نہ ایسی دُعا کو قبولیّت کا شرف حاصل ہو۔ لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے رب کی نظرِ کرم کے لیے اپنے آپ کو مستحق بنائیں اور صحیح راستے پر گامزن ہو جائیں، کہ صراطِ مستقیم ہی ہمیں منزل تک پہنچاسکتی ہے۔ بارگاہ ربُّ العزت میں اقبال کی دعا کا سلسلہ جاری ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ! میری قوم کی کشتی بھنور میں پھنس کر رہ گئی ہے، تو اسے ڈوبنے سے بچا لے :
مری نائو گرداب سے پار کر
یہ ثابت ہے تو اس کو سیّار کر
فرماتے ہیں کہ قوم کی کشتی گرداب سے نکالنے کے لیے میں اپنی متاعِ حیات کا نذرانہ پیش کرتا ہوں ، اپنی پونجی (متاع) کی تفصیل اس طرح بیان کرتے ہیں!
مرے دیدئہ تَر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پُوشیدہ بے تابیاں
مرے نالۂ نیم شب کا نیاز
مری خلوَت و انجمن کا گداز
اُمنگیں مری ، آرزوئیں مری
اُمیدیں مری ، جستجوئیں مری
میری راتیں جو کہ گریہ و زاری میں گزرتی ہیں، میرے پاس ایک دلِ بے تاب ہے ، جب رات ڈھلتی ہے تو میں تیرے حضور آنسوئوں کا نذرانہ پیش کرتا ہوں اور اپنی تمنائیں اور دلی آرزوئیں تجھ سے بیان کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ :
مری فطرت آئینۂ روزگار
غزالانِ افکار کا مُرغزار
مرا دل، مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات
فرماتے ہیں کہ میری فطرت آئینے کی مانند ہے ، اسی لیے میری فکر، دنیا ئے علم و حِکمت کے لیے ایک چمنستان تخیل آباد کئے ہوئے ہے اور میرا دل جہادِ زندگی کا میدان کار زار ہے، جس میں ایک طرف گمانوں کے لشکر فروکش ہیں اور دوسری طرف عزم اور یقینِ محکم کے قلعہ کی ناقابلِ تسخیر دیواریں ہیں۔ بس اے اللہ :
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
میرے قافلے میں لُٹاد ے اسے
لُٹا دے ، ٹِھکانے لگا دے اسے!
قوم کے لیے ایک بیش بہا پونجی کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد، اقبال موضوعِ حیات پر ایک بار پھر فکر انگیز روشنی ڈالتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے :
دما دم رواں ہے یمِ زندگی
ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی
اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود
کہ شُعلے میں پُوشیدہ ہے موجِ دُود
ایک بار پھر اقبال کہہ رہے ہیں کہ زندگی ایک ہمشیہ بہتے ہوئے دریا کی مانند ہے اور دنیا کی ہر شے حرکت میں ہے ۔ زندگی اصل وجود ہے ، حتّٰی کہ ہمارا جسم بھی زندگی کے ذریعہ وجود میں آیا ، آگ کے شُعلے کے اندر پوشیدہ دھوئیں کی موجودگی ہمیں آگ میں زندگی کا پتہ دیتی ہے۔
درختوں میں اور پتھر میں زندگی کا وجود، آج سائنس کی دنیا نے تسلیم کر لیا ہے ، البتہ ہمیں یہ راز، اسلام نے ڈیڑھ ہزار سال قبل بتا دیا تھا۔
اس عنوان پر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے اقبال اگلے اشعار میں زندگی کی مزید تشریح کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ہماری نظروں کو کہیں کہ یہ زندگی حرکت کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور کہیں ٹھہری ہوئی نظر آتی ہے مگر یہ موجود ہر جگہ ہے۔ اقبال کے الفاظ میں :
یہ ثابت بھی ہے اور سیّار بھی
عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی
یہاں پہنچ کر اقبال کا اندازِ کلام عارفانہ ہو جاتا ہے، اور ان کے اشعار تصوّف کا رنگ اختیار کر لیتے ہیں، مگر اہم نکتہ یہ ہے کہ وَحدَتُ الوَجُود سے انتہائی بامعنی گریز کرتے ہوئے نظریہ وحدتُ الشّہود کی بھر پور انداز میں ترجمانی کی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو :
یہ وحدت ہے، کثرت میں ہر دم اسیر
مگر ہر کہیں بے چگوُں ، بے نظیر
یہ عالم ، یہ بُت خانۂ شش جہات
اسی نے تراشا ہے یہ سُومنات
اس کے بعد کھل کر کہہ دیتے ہیں ’’کہ تو میں نہیں اور میں تو نہیں ‘‘ اور بات کو اس طرح واضح کرتے ہیں :
من و تو سے ہے انجمن آفریں
مگر عینِ محفل میں خلوَت نشیں
میں اور تو اگر جدا نہ ہوتے، تو بزم جہان کی یہ محفل برپا نہ ہوتی ۔ محفل میں شمع، پروانے کو تیری موجودگی کا پتہ دیتی ہے۔ شمع کا گداز اور پروانے کا سوز تجھی سے ہے، لیکن پھر بھی تو…’’مگر عینِ محفل میں خلوَت نشیں ‘‘
اس کے باوجود کہ وہ عینِ محفل میں خلوَت نشیں ہے:
چمک اس کی بجلی میں ، تارے میں ہے
یہ چاندی میں، سونے میں، پارے میں ہے
اسی کے بیاباں ، اس کے بَبُول
اسی کے ہیں کانٹے، اسی کے ہیں پُھول
اقبال مفسر قرآن بھی ہیں۔ حقیقت (Ultimate Reality) کو سمجھنے کے لیے جو جو نشانیاں قرآن پاک میں ہمیں بتائی گئی ہیں وہ ایک ایک کرکے اقبال نے اپنے خوبصورت اشعار کے ذریعہ ہمارے دل کی گہرائیوں تک پہنچا دی ہیں۔ اب فرماتے ہیں :
فریبِ نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرّئہ کائنات
ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود
کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود
اقبال کہتے ہیں کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ حرکت میں ہے ۔ یہ سکون اور ثبات جو ہمیں نظر آتا ہے، یہ سراسر ہمارا فریبِ نظر اور آنکھوں کا دھوکہ ہے ۔ ان دو اشعار میں اقبال نے تقریباً ایک صدی قبل وہ بات بیان کر دی جس کا انکشاف سائنس داں اور ماہرِ فلکیات اب کر رہے ہیں ۔ ذرّہ (Atom) اپنے اندر حرکت مسلسل رکھتا ہے ۔ یہ ایک صدی قبل بچہ بچہ جان چکا ہے اور ماہرِ فلکیات نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ دو نئی کہکشائیں یکے بعد دیگرے وجود میں آئی ہیں۔ اس کے علاوہ آئے دن نئے نئے سیّارے اور ستارے فضائے بسیط میں دریافت ہوتے رہتے ہیں ۔یہ تمام مُنہ بُولتے ثبوت ہیں ’’کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجود‘‘۔ نادان لوگ ہی زندگی کو بے ثبات سمجھتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی شاخ سوکھتی کبھی نہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ پھول کُملاتے بھی ہیں اور ٹُوٹ کر گرتے بھی رہتے ہیں، لیکن اسی شاخ سے نئے اور ترو تازہ پھول پھوٹتے بھی رہتے ہیں:
گُل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے
اسی شاخ سے پُھوٹتے بھی رہے
سمجھتے ہیں ناداں اُسے بے ثبات
اُبھرتا ہے مِٹ مِٹ کے نقشِ حیات
یہ سمجھنا کہ موت زندگی کو فنا کر دیتی ہے بہت بڑی نادانی ہے ۔ نقشِ حیات تو مٹ نہیں سکتا ۔ گومٹتا نظر آتا ہے، مگر یہ مٹ مٹ کر ابھرتا رہتا ہے، اس کی رفتا ر بڑی تیز ہے :
بڑی تیز جولاں ، بڑی زُود رس
ازل سے ابد تک رَمِ یک نفس
زمانہ کہ زنجیرِ ایّام ہے
دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے
اب دیکھئے کہ زمانے کو ’’دموں کے اُلٹ پھیر‘‘ کا نام دے کر اقبال کس انداز سے خودی کو انسانی زندگی کا حصہ بتاتے ہیں ، فرماتے ہیں :
یہ موجِ نفس کیا ہے ؟ تلوار ہے
خودی کیا ہے ، تلوار کی دھار ہے
موجِ نفس (دموں کا اُلٹ پھیر ) کی حقیقت جاننے کے لیے ایسا سمجھ لیجئے کہ زندگی اگر ایک تلوار ہے، توخودی اس تلوار کی دھار ہے۔ جس طرح ایک تلوار بغیر دھار کے بیکارِ محض ہے، اسی طرح خودی کے بغیر انسانی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی :
خُودی کیا ہے ، رازِ درونِ حیات
خودی کیا ہیِ بیداریٔ کائنات
دراصل خودی زندگی کا پُوشیدہ راز ہے اور اسی کی بدولت کائنات کی حقیقتیں انسان پر واضح ہوتی ہیں :
خودی جلوہ بدمست و خلوَت پسند
سمندر ہے اک بُوند پانی میں بند
بزمِ جہاں کی رونقیں اور دلفریبیاں خودی کے دم قدم سے ہیں، لیکن خودی اپنی تمام تر خو د نمائی کے باوجود خلوَت پسند ہے، وہ ہمیں نظر نہیں آتی لیکن پھر بھی ایک سمندر ہے، اور سمندر ہوتے ہوئے وہ ایک بُوند پانی میں روپوش ہے ۔ مگر پھر بھی حال یہ ہے :
اندھیرے اُجالے میں ہے تابناک
من و تُو میں پیدا، من و تُو سے پاک
ازل اِس کے پیچھے ، اَبد سامنے
نہ حد اِس کے پیچھے نہ حد سامنے
خودی کے بیان میں واضح رہے کہ خودی یا اَنائے صغیر حصہ ہے اَنائے کبیر کا، جس کا اظہار شمس و قمر میں اور روئے زمین پر ہر جگہ ، ہر ہر لمحہ ہو رہا ہے، البتہ دیکھنے کے لیے دیدئہ بینا درکار ہے۔ زمانے کے اندر خودی کے ازل کی نہ کوئی حد ہے اور نہ اس کے ابد کی کوئی حد ہے… بس یہ تو :
زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
تجسّس کی راہیں بدلتی ہوئی
دما دم نگاہیں بدلتی ہوئی
خودی، زندگی کی آغوش میں (دریائے حیات میں ) بہتی چلی جار ہی ہے۔ وہ زمانے کے نشیب و فراز دیکھتی اور اس کے ستم جھیلتی ہوئی ہر دم ہوائوں کے بدلتے ہوئے رُخ کے مطابق اپنی سمتیں بدلتی ہوئی چلی جا رہی ہے :
سُبک اس کے ہاتھوں میں سنگِ گِراں
پہاڑ اس کی ضَربُوں سے رِیگِ رَواں
یہ درست ہے کہ بڑے بڑے پتھر اس کے راستے میں آتے ہیں لیکن وہ ہلکے پتوں کی طرح اس کی موجوں میں لڑھکتے چلے جاتے ہیں، اور یہ پہاڑوں کے جگر چیرتی ہوئی اس کے پتھروں کو ریزہ ریزہ کرکے ریت کے ڈھیر بناتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ خودی کی وُسعت اور سفر کا حال یوں بیان ہوتا ہے :
سفر اس کا انجام و آغاز ہے
یہی اس کی تقویم کا راز ہے
کِرن چاند میںہے، شرر سنگ میں
یہ بے رنگ ہے، ڈوب کر رنگ میں
اقبال اس سے قبل زمانہ کو زنجیرِ ایّام کہہ چکے ہیں ۔ وہ زندگی اور خودی کا باہمی رَبط، تلوار اور اس کی دھار سے مُشابہت دے کر سمجھا بھی چکے ہیں ۔ یہاں وہ خودی کا سفر زمانے کے اندر اس طرح بتاتے ہیں کہ جو اُس کا انجام ہے وہ آغاز بھی ہے اور یہی راز ہے اس کی تقویم کا ، خُلاصہ یہ ہے کہ خودی کی انتہا نہیں اور اسے فنا نہیں۔ کہیں وہ چاند میں کرن بن کر نظر آتی ہے اور کبھی پتھر سے چنگاری بن کر نمودار ہوتی ہے۔ خودی کے ہزاروں رنگ ہیں پھر بھی یہ خود بے رنگ ہے ۔
خودی کا نشیمن کہاں ہے ؟ …
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تلِ میں ہے
فرماتے ہیں کہ خودی تیرے دل میں رہتی ہے ۔ یہ بتانے کے لیے آخر اتنی عظیم الشّان چیز ایک چھوٹے سے دل میں کس طرح سما سکتی ہے اور جیسا کہ وہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ یہ ایک قطرئہ آب میں سمندر ہے جو روپوش ہے، یہاں وہ زندہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بالکل اسی طرح ممکن ہے جیسا کہ آسمان اور اس میں کروڑوں ستارے بہ یک وقت آنکھ کے چُھوٹے سے تل میں اتر آتے ہیں ۔
آخری بند اس نظم کا حاصلِ کلام ہے، جو کہ ہمیں تعمیرِخُودی کا دَرس دیتا ہے، جس پر اگر ہم عمل پیرا ہو جائیں تو دنیا ہمارے قدموں کے نیچے ہو اور آخرت میں نہ ہمیں کوئی رنج ہو نہ خوف ۔ اس کے لیے اقبال کہتے ہیں :
خودی کے نگہباں کو ہے زہرِ ناب
وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب
ایسی روزی کہ جس سے انسان کی عزتِ نفس مجروح ہو خودی کی موت ہے اور بقولِ اقبال ’’اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ … اور یہاں وہ کہتے ہیں :
وہی ناں ہے اس کے لیے اَرجمند
رہے جس سے دنیا میں گردن بُلَند
تیری خودی کی صحت کے لیے وُہی لقمہ بہتر ہے جس سے تو دنیا میں گردن بلند کر کے چل سکے۔ خودی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بیش بہا نعمت ہے اور اس کی حفاظت تیرا ذمہ ہے، جس کے لیے تجھے چاہیے کہ ……
فرو فالِ محمود سے در گزر
خودی کو نِگہ رکھ، ایازی نہ کر
شاہانہ شان و شوکت کے آگے خودی سرنگوں نہیں ہوسکتی ۔ اقبال کہتے ہیں کہ تو محمود بھی بن سکتا ہے بشرطیکہ تونے اپنی خودی کی حفاظت کی ، تو ایاز نہ بن کہ تو کسی سے کمتر نہیں ہے۔ تیرا معبود وہی ایک ہونا چاہیے جو رَبِّ کائنات ہے، اسی کو سجدہ کرنا زیب دیتا ہے… کیونکہ:
وہی سجدہ ہے لائقِ اہتمام
کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام
اقبال نے ایک دوسری جگہ اس بات کو یوں بھی کہا ہے :
وہ ایک سجدہ جسے توگراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اگلے اشعار ملاحظہ ہوں جو اس دنیا کے پرکشش مگر فانی گوشوں کی نشاندہی کرتے ہیں :
یہ عالم ، یہ ہنگامۂ رنگ و صَوت
یہ عالم کہ ہے زیر فرمانِ مَوت
یہ عالم ، یہ بُت خانۂ چشم و گُوش
جہاں زندگی ہے فقط خُورد و نُوش
فرماتے ہیں کہ دنیا کی یہ مدہوش کن رنگینیاں اور کانوں کی لُبھاتی ہوئی نغمگیں آوازیں ، یہ سب تیری آنکھ اور کانوں کے لیے تراشیدہ بُت ہیں، جن کے سبب یہاں زندگی لذّتِ کام و دہن اور تسکینِ نفس سے آگے نہیں بڑھتی ۔ اس کے علاوہ اگر کچھ ہے تو موت ہے۔ البتہ جس نے اپنی خودی کی نگہبانی کی اس کے لیے یہ دنیا اس کی راہ میں ایک منزل ہے اور وہ بھی پہلی منزل :
خودی کی یہ ہے منزلِ اوّلیں
مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں
خودی کی یہ پہلی منزل ہے اور یہ دنیا ایک مسافر خانہ ۔ نگہبانِ خودی کی یہ منزل اس کا گھر نہیں ہوسکتی ۔ اقبال کہتے ہیں کہ تُو اس جہان کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ جہان تیرے لیے بنایا گیا ہے :
تری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے ، تو جہاں سے نہیں
تیری منزل اس سے کہیں دور، بہت آگے ہے، لہٰذا تجھ کو لازم ہے کہ:
بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر
طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر
اس جہان میں تجھے بڑی منزلوں سے گزرنا پڑے گا، لیکن تیرے آگے پہاڑ بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا … تو … ’’بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر ‘‘ پہاڑوں کو اپنی ٹھوکر سے ریزہ ریزہ کرکے تو زمان و مکان کی سرحدیں پھلانگتا چلا جا ۔ کہ :
خودی شیرِ مولا، جہاں اس کا صید
زمیں اس کی صید، آسماں اس کا صید
فرماتے ہیں کہ تیری خودی مانند شیر ہے اور شیر بھی خدا کا شیر، کہ اس عالم کی ہر شے اس کی دسترس میں ہے، حتیٰ کہ زمین ، فضائیں اور سمندر بھی اس کے لیے مسخّر کر دیئے گئے ۔
نہ صرف یہ زمین، اُس کے سمندر ، اور اُس کی فضائیں تُو تسخیر کر سکتا ہے، بلکہ ان کے علاوہ :
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ہے ضمیرِ وجود
ہر اِک منتظر تیری یلغار کا
تری شوخیٔ فکر و کردار کا
اقبال نے ایک اور جگہ یہی بات یوں کہی ہے :
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کُن فیکُون
یہاں اہم درس یہ دیا جا رہا ہے کہ ہم اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بَرُو ئے کار لا کر تحقیق (Research) کے میدانوں میں نکلیں ۔ ہمارے لیے صرف یہ دنیا ہی نہیں بلکہ اور بہت سے جہان منتظر ہیں، کہ ہم آگے آئیں اور قدرت کے پوشیدہ رازوں سے پردے اُٹھائیں۔
اقبال تکوینِ کائنات کا مقصد اظہارِ نمودِ خُودی بتاتے ہوئے گویا ہیں :
یہ ہے مقصدِ گردش روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
فرماتے ہیں کہ یہ دنیا تیرے لیے بنائی گئی ہے ، ’’جہاں تجھ سے ہے، تو جہاں سے نہیں‘‘ وہ کہتے ہیں کہ اس کی تکوین کا مقصد خودی کا تجھ پر آشکار کرنا ہے۔ تجھے اللہ پاک نے اپنا نائب بنا کر یہاں بھیجا ہے اور :
تو ہے فاتحِ عالمِ خُوب و زِشت
تجھے کیا بتائوں تری سر نَوِشت
انسان کو نیکی اور بدی پر قادر بنایا گیا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ تو دنیائے نیک و بد کا فاتح ہے، اپنا مقام پہچان ، یہ کام تیرا ہے کہ تو خود کو پہچانے اور یہ تیرے بس میں ہے ، میں اگر تیری سرنوشت بتانے کی کوشش بھی کروں تو ناممکن :
حقیقت پہ ہے جامۂ حرف تنگ
حقیقت ہے آئینہ، گفتار زنگ
علامہؒ کہتے ہیں کہ میں وہ الفاظ کہاں سے لائوں کہ تیرے اُوپر تیری اپنی حقیقت واضح کر سکوں ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ حقیقت آئینہ کی طرح روشن ہے، اتنی روشن کہ الفاظ اس کے آئینہ کو گدلا کر دیتے ہیں، میری طاقتِ گفتار، تیری خودی کی حقیقت بیان کرنے سے قاصر ہے اور میری حالت یہ ہے کہ :
فروزاں ہے سینے میں شمعِ نَفس
مگر تابِ گُفتار کہتی ہے بَس
میں چاہتا ہوں کہ بتا دوں ، میرے سینے میں ایک آگ بھڑک رہی ہے، لیکن میری طاقتِ گفتار جواب دے چکی ہے … اور …
اگر یک سرموئے برتر پرم
فروغِ تجلی بسوزد پرم
ترجمہ : اگر میں اس مقام سے ایک بال کی موٹائی برابر بھی آگے اڑنا چاہوں تو (ذاتِ مطلق کی ) تجلّی میرے بال و پر جلا کر راکھ کر دے گی ۔