اقبال کی زیر عنوان نظم کا شمار بھی ان کی انتہائی فکر انگیز اور اعلیٰ ترین نظموں میں ہوتا ہے۔ یہ ان کی شاعری کے تیسرے دور کی تصنیف ہے جو ۱۹۳۶ء میں لکھی گئی ۔ حضرت علامہ اقبال نے ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو وفات پائی اس طرح یہ نظم ملّتِ اسلامیہ کے لیے ان کا دم ِ واپسیں کا آخری پیغام تھا۔ اس نظم کے الفاظ انتہائی سادہ اور خوبصورت ہیں لیکن ان میں اعلیٰ اقدار کی حامل اِخلاقیات، معاشرت، تمدن اور سیاسیات کے اہم نکات مضمر ہیں جو کہ ہمیں دعوتِ فکر دیتے ہیں ۔
نظم کا منظر کچھ اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ ابلیس متفکر سا بیٹھا ہوا اپنے اردگرد موجود پانچ مشیروں سے اہم مسائل پر تبادلۂ خیالات کر رہا ہے۔ بحث کا آغاز کرتے ہوئے ابلیس اپنے مشیروں سے کہتا ہے کہ میں نے تو انسان کو ایسے راستوں پر ڈال دیا تھا کہ عالم بالا میں فرشتوں کی ابنِ آدم سے وابستہ امیدوں پر پانی پھر گیا تھا اور میری کوششوں سے اس دنیا کا نظام بدل گیا تھا جو کہ میری تمنائوں کے عین مطابق بڑی خوبی سے چل رہا تھا لیکن۔
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہانِ کاف و نوں
ابلیس اپنے کارنامے مشیروں کو گنواتا ہے:
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں
لہٰذا
کون کرسکتا ہے اس کی آتشِ سُوزاں کو سَرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ا،بلیس کا سوزِ دَرُوں
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اُس نخلِ کُہن کو سرنگوں!
ابلیس کہتا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ جو آگ میں نے اس دنیا میں لگائی ہے اس کو سرد کیا جاسکے۔ میں نے اپنی کوششوں سے یہاں فساد کا ایسا درخت لگا دیا ہے جس کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور اس پرانے درخت کی میں مسلسل آبیاری کرتا ہوں تاکہ یہ ہمیشہ ہرا بھرا رہے۔ابلیس کی تقریر کے بعد پہلا مشیر تائید کرتا ہے اور کہتا ہے :
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پُختہ تَر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام
پہلا مشیر کہتا ہے اس امر میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں قائم کردہ ابلیسی نظام بہت پختہ ہے جس کی وجہ سے عوام الناس سہل پسند اور ایسے بے حس ہوگئے ہیں کہ ان میں عزت و وقار سے جینے کی تمنا مفقود ہوچکی ہے ۔ ان کے دلوں میں :
آرزو اوّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
یہ ہماری سعیٔ پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و مُلّا مُلوکیّت کے بندے ہیں تمام
یہ ابلیس کے قائم کردہ نظام کی کرامت ہے کہ عام آدمی کے دل میں اول تو آرزو جنم ہی نہیں لیتی اور اگر آرزو کہیں پیدا بھی ہوتی ہے تو وہ ناپختہ ہونے کی وجہ سے جلد ہی ناپید ہو جاتی ہے۔ اس لیے اس نظام کی بدولت کیا صوفی اور کیا ملاّ سب کے سب ذہنی طور پر غلام ہیں، ہمارا یہ نظام سرمایہ داروں ، جاگیرداروں، سرداروں اور آمروں کے ذریعہ دائم و قائم ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے :
طبعِ مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوّالی سے کچھ کمتر نہیں عِلمِ کلام
موجودہ زمانے کے صوفی اور ملاّ نظام سرمایہ داری کی پیداوار ہیں، ان کی تعلیم عام آدمی کے لیے افیون کا کام کرتی ہے اور ذہن کو خوابیدہ رکھتی ہے۔ جس طرح قوّال سے سامع مست اور بے خود ہو جاتا ہے، اس طرح واعظِ، قوم میں چونکہ’’پختہ خیالی‘‘ نہیں اور برقِ طبعی نہ رہی ، لہٰذا اس کی تمام تر لفاظی اور زورِ بیان کے باوجود عام ذہن قوّالی ہی کی طرح مسکن اثر قبول کرتا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ پھر:
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کُند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام
مومن میں تو دم خم باقی نہیں رہا ۔ وہ ناامید اور مایوس ہوچکا ہے، چونکہ اب اس کے ایک پیشوا نے یہ فتویٰ بھی دے دیا ہے :
ہے جہاد اس دور میں مردِ مسلماں پر حرام!
دوسرا مشیر کہتا ہے :
خیر ہے سلطانیٔ جمہور کا غُوغا ، کہ شَر
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر!
دوسرا مشیر جواب دیتا ہے … ہوں … ہوں!
ہوں ، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اِک پردہ ہو ، کیا اس سے خطر!
حقیقت یہ ہے کہ مغرب کا جمہوری نظام ایک پردہ ہے جس کے پیچھے ملوکیّت کار فرما ہے، لہٰذا ابلیسی نظام کو کوئی خطر ہ نہیں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتا ہے :
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہو ا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبار شہر یاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجودِ میر و سلطاں پر نہیں ہے منحصر
مجلس ملّت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
اس کا کہنا ہے کہ :
نظام بادشاہی (ملوکیت) کو جمہوری لباس ہم نے پہنایا ہے اور ایسا اس وقت کیا گیا جب ہم نے دیکھا کہ انسان کا شعور بیدار ہو رہا ہے، اور کاروبار شیطانی میں خلل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ ہماری پلاننگ ہی یہ رہی ہے کہ حکومت یا کاروبار شاہی کے لیے ضرور ی نہیں کہ کوئی بادشاہ یا امیر تخت شاہی پر بیٹھ کر ہی حکومت کرے۔ کسی بھی ملک کی جمہوری پارلیمنٹ ہو یا کسی شہنشاہ کا دربار، بس یہ سمجھ لیجئے کہ بادشاہ وہ ہے جس کی نظر دوسروں کی کھیتی پر ہو مثال کے طور پر:
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن ، اندروں چنگیز سے تاریک تر
اس موقع پر پہنچ کر ابلیس کا تیسرا مشیر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپنا سلسلہ کلام یوں شروع کرتا ہے …!
رُوح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اِضطراب
ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟
ابلیس کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں دنیا کے انسانوں پر گرما گرم بحث ہو رہی ہے۔ شیطان کا تیسرا مشیر اپنا سلسلہ کلام شروع کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمیں فکر کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ۔ ہم نے ملوکیت کے چہرے پر جمہوریت کا نقاب چڑھا دیا ہے۔ البتہ قومِ یہود ہمارے مشن کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ وہ کہتا ہے ۔
کیا بتائوں کیا ہے کافر کی نگاہِ پردہ سوز
مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روزِ حساب
اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب!
ان اشعار میں انقلاب ِ روس کی طرف اشارہ ہے۔ روس میں کمیونسٹ انقلاب کا بانی لینن تھا اور کارل مارکس اس کمیونزم کی تحریک کا بانی تھا جو مشہور زمانہ کتاب Das Capitalکا مصنف تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ یہودی نژاد تھا۔ اس حقیقت کا انکشاف اس سے قبل شعر میں یہ کہہ کر کیا گیا ہے۔
ہے مگر کیا اِس یہودی کی شرارت کا جواب؟
تیسرے مشیر کے خدشات کی چوتھا مشیر تردید کرتے ہوئے گویا ہوتا ہے۔
توڑ اس کا رومتہ الکبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ
آلِ سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب
یہاں ایک دوسرا تاریخی حوالہ دیا گیا ہے۔ رومتہ الکبریٰ میں آلِ سیزر کا خواب مسولینی کی توسیع پسندی ہے۔ یہ دور ۳۳۔۱۹۳۲ء سے متعلقہ ہے۔ جسے انقلابِ روس کا ردِّ عمل بتلایا جاتا ہے۔تیسرا مشیر اس بات سے مطمئن نہیں ہوتا اور جواب دیتا ہے کہ
میں تو اس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں
جس نے افرنگی سیاست کو کیا یُوں بے حجاب
اس شعر میں تیسرا مشیر بڑے پتے کی بات کہہ گیا ہے۔ کیونکہ اہلِ فرنگ کی سیاست کے بے نقاب ہونے سے سویا ہوا انسان بیدار ہوگیا ہے۔ تیسرے اور چوتھے مشیر کی گفتگو کو پانچواں مشیر اس طرح آگے بڑھاتا ہے:
اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم اُستوار!
تونے جب چاہا کیا ہر پردگی کو آشکار
آب و گِل تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز
ابلۂ جنت تری تعلیم سے دانائے کار
تجھ سے بڑھ کر فطرتِ آدم کا وہ محرم نہیں
سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار
وہ کہتا ہے کہ اے میرے آقا (ابلیس) تیرے دم سے دنیا کا کاروبار بڑی خوبی سے چل رہا ہے دنیا کی رونقیں تیری تدبیروں کی بدولت قائم ہیں۔ تو نے جنت کے احمقوں کو اپنی حکمت عملی سے عقل کا غلام بنا دیا ہے جس کی وجہ سے ان کی نظروں سے حقیقت اوجھل ہوگئی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ فطرتِ آدم کو اگر کوئی سمجھ سکا ہے تو وہ صرف تو ہے ۔ لیکن اے میرے آقا !زمانہ بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ اور اب تو یہ عالم ہے کہ یہ مُشتِ خاک (انسان) آسمانوں میں محوِ پرواز ہے، مجھے تو مستقبل کی فکر دامن گیر ہے۔ کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ :
فتنۂ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج
کاپنتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار
میرے آقا ! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار
وہ کہتا ہے کہ کل جو فتنہ برپا ہونے والا ہے، اس کو میں دیکھ رہا ہوں۔ اس آمد آمد کی ہیبت سے اس دنیا کی ہر شے لرزہ براندام ہے۔ یہ کارخانۂ دنیا جو تیری قیادت اور سرداری میں بہ احسن و خوبی چل رہا تھا اب ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ درہم برہم ہو جائے گا۔
اس مرحلہ پر ابلیس جھرجھری لیتا ہے اور اپنے مشیروں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے:
ہے مرے دستِ تصّرف میں جہانِ رنگ و بو
کیا زمیں، کیا مہر و مہ ، کیا آسمانِ تُو بتُو
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
میں نے جب گرما دیا اقوامِ یورپ کا لہو
کیا اِمامانِ سیاست ، کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہُو
اقبال کی تمام دوسری نظموں کی طرح اس نظم کا حاصل کلام پوری آب وتاب کے ساتھ نظم کے آخری حصے میں جلوہ گر ہوتا ہے۔
ابلیس بحث سمیٹتے ہوئے موجود ابلیسی نظام پر سرسری نظر ڈالتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے زمین کے باسیوں کے ساتھ ساتھ چاند ، سورج اور آسمان کے ستاروں کو بھی اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ میرے اندر یہ قدرت ہے کہ جب بھی چاہوں اس دنیا میں خون کے دریا بہادوں۔ میں انسانوں کو پاگل کرسکتا ہوں۔ (بوسنیا، افغانستان ، صومالیہ ، ہیٹی ، فلسطین اور کشمیر کی زندہ مثالیں ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں)۔
ابلیس کہتا ہے کہ انسان کی فطرت میں دیوانگی کا عنصر موجود ہے اور اس چنگاری کو بھڑکانا میرے ہاتھ میں ہے۔ کیونکہ :
دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک
مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کر اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار آشفتہ مغز آشفتہ مو
یہاں مزد کی منطق کا تاریخی حوالہ دے کر اشتراکی نظامِ حکومت کو سمجھایا جا رہا ہے کہ یہ نظم مزدکیت کا چربہ ہے ، مزدکیت بھی دیوانگی تھی اور اشتراکیت بھی ایک بدحواسی ہے، یہ منشتر دماغوں کے انتشار کو نظم و ضبط کا جامہ پہنانے کی ایک ناکام کوشش تھی ۔ جو اَب اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ مزدک نے بھی نوشیرواں کے دورِ حکومت میں اسلام کے چند انسانیت نواز اصولوں کو مسخ کرکے اشتراکیت جیسا فتنہ برپا کیا تھا جس کا حکومتِ وقت نے سخت نوٹس لیا اور مزدک کو قتل کروا دیا۔ ابلیس کہہ چکا ہے کہ مجھے موجودہ جمہوری نظام سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی ملوکیت اور بادشاہت ہے، جس کا چہرہ روشن ہے مگر اندروں چنگیز سے تاریک تر ہے ۔ اور نہ ہی مجھے اشتراکی نظام سے کوئی خوف ہے، کہ یہ تو دیوانوں کا ٹولہ ہے جو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے ۔ لیکن :
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
شیطان کہتا ہے کہ اگر مجھے کوئی خطرہ ہے تو صرف اُمّتِ محمدیہؐ سے ہے جو بظاہر اس وقت ایک خاک کا ڈھیر دکھائی دیتی ہے لیکن اس جلی ہوئی راکھ میں مجھے ایک چنگاری نظر آرہی ہے، یہ آرزو کی چنگاری ہے جو اس کے اندر سُلگ رہی ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ یہ چنگاری بھڑک کر شُعلہ نہ بن جائے اور ایسا نہ ہو کہ میرے تعمیر کردہ نظام کی عمارت اس آگ میں جل کر بھسم ہو جائے۔وہ کہتا ہے:
خال خال اس قوم میں اب تک نظرآتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضُو
شیطان کہتا ہے کہ اُمّتِ مسلمہ میں اب بھی ایسے ظالم موجود ہیں جو راسخ العقیدہ لوگ ہیں۔ ان کے دل میں شرارِ آرزو، انہیں بے چین کئے رکھتا ہے اور وہ کچھ کر گزرنے کے لیے تڑپتے رہتے ہیں ۔یہ باعمل لوگ راتوں کو بارگاہ ِ ایزدی میں گریہ و زاری کرتے کرتے صبح کر دیتے ہیں یہی وہ فتنہ ہے جس نے مجھے بے چین کر رکھا ہے اور :
جانتا ہے جس پہ روشن باطنِ ایّام ہے
مزدکیّت فتنۂ فردا نہیں اسلام ہے
شیطان اب کُھل کر بات کہہ دیتا ہے کہ دنیا کے نشیب و فراز سے آگاہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابلیسی نظام کو خطرہ نہ مزدکیت سے ہے نہ اشتراکیت سے اور نہ مغربی جمہوری نظام سے ہے۔ اگر اس کو خطرہ ہے تو صرف اور صرف اسلام سے ہے۔
اقبال جو بات موجودہ صدی کے شروع میں کہہ گئے آج اس کی سچائی منظر عام پر آچکی ہے۔ مزدکیت اور اشتراکیت تو کب کی فنا ہو چکیںانہوں نے اسلام سے ٹکر لی اور اپنے انجام کو پہنچیں۔ رہی مغربی جمہوریت، وہ اسلام کے نام سے لرزہ براندام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ساری دنیا میں اسلام کے خلاف بھر پور مہم جاری ہے۔ شیطان کو جو خطرہ اسلام کے بنیاد ی (قرآنی) اصولوں سے تھا وہ آج دنیا کے شیطانی دماغوں کے ذریعہ اظہار میں آرہا ہے۔ جمہوریت کے علمبردار اسلام کو اپنے لیے خطرے کا باعث سمجھتے ہیں اسی لیے اسلام کے ساتھ ساتھ تخریب کاری (Terrorism) اور بنیاد پرستی (Fundamentalism) کے بیہودہ الفاظ چسپاں کئے جا رہے ہیں اب Islamic Terrorism اور Fundamentalismکا پروپیگنڈہ بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات و رسائل کے ذریعے کیا جا رہا ہے، اور ذہنوں میں یہ بات بسائی جا رہی ہے کہ بنیاد پرستی اور تخریب کاری لازم و ملزوم ہیں۔ اور یہ یہودی ہو یا ہندو اگر بنیاد پرست نہیں ہے تو وہ لامذہب ہوگا، ہر مذہب کے کچھ بنیادی اصول ہیں جس طرح ایک درخت بغیر اپنی جڑ کے قائم نہیں رہ سکتا اور کوئی عمارت بغیر بنیاد کے قائم نہیں رہ سکتی اسی طرح کوئی مذہب بغیر بنیادی اصولوں کے قائم نہیں رہ سکتا۔ وقت آن پہنچا ہے کہ ہمارے علماء ، مشائخ، رہنمایان قوم اور دنیائے اسلام کی حکومتیں وقت کی نزاکت کا احساس کریں، اور اپنے باہمی اختلافات ایک طرف کرکے اس شیطانی پراپیگنڈے کو روکنے کا بندوبست کریں جو عوام الناس کے ذہنوں کو آہستہ آہستہ زہر آلودہ (Slow Poisoning) کر رہا ہے۔ اہل مغرب پر تو یہ زہر اثر کر چکا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری قوم کے افراد اس شیطانی پروپیگنڈے کا شکار ہو جائیں ۔
ابلیس اپنی مجلس شوریٰ میں قبل ازیں اُمّتِ مُسلمہ کی کج روی پر مسرت کا اظہار کر چکا ہے اور یہ بھی بتا چکا ہے کہ دنیا میں شیطانی نظام بڑی مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اس بات کی نشاندہی بھی کرچکا ہے کہ اگر اسے کوئی خطرہ ہے تو صرف اسلام سے اور اسلام کے جاں نثاروں سے ہے کیونکہ ان لوگوں میں سے بعض کے دلوں میں ابھی عشق کی چنگاری سلگتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے ۔ ابلیس کے الفاظ میں مسلمان گو کہ ایک خاک کا ڈھیر بن چکا ہے لیکن اس خاک میں اب بھی شرارِ آرزو موجود ہے۔
جانتا ہوں میں یہ اُمَّت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندئہ مومن کا دیں
اور
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں
ابلیس کہتا ہے کہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مشرق جو اس دین کا گہوارہ تھا، وہ اب نور محمدیؐ سے محروم ہوچکا ہے۔ ان کو (اہل مشرق کو ) قرآن سے دور کا واسطہ بھی نہیں رہا۔ جہاں تک دین کا سوال ہے تو ان کا دین اور ایمان صرف پیسہ ہے۔ اب سرمایہ داری بندئہ مومن کا دین بن چکی ہے۔یہاں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے، مشرقی ممالک کے رہنمایانِ قوم اور دین کے علمبردار ایسے ہی ہیں جس طرح موسیٰ بے عصا اور بغیر ید بیضا ہو:
عصرِ حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبرؐ کہیں
ابلیس کہتا ہے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات سے مجھے خدشہ لاحق ہے، اور ڈر صرف اس بات کا ہے کہ کہیں سویا ہوا مسلمان بیدار نہ ہو جائے، اور ایسانہ ہو کہ پھر اس پر اپنے دین کا اصل راز آشکار ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ابلیس کے نظام کے لیے تباہ کن ہوگا:
الخدر ! آئینِ پیغمبرؐ سے سو بار الخدر
حافظِ ناموسِ زَن ، مرد آزما ، مرد آفریں
ابلیس کہتا ہے کہ میں ایک بار نہیں، بلکہ سو پناہ مانگتا ہوں کہ کہیں اس امت پر آئینِ محمدیؐ آشکار نہ ہو جائے۔ میں تو عورت کی عزت و عفت اور ناموس کی حفاظت کا تصور ہی مرد کے ذہن سے غائب کر چکا ہوں۔ اگر پیغمبرؐ کے بتائے ہوئے اصول سے مرد کا شعور بیدار ہو گیا او ر وہ عورت کا محافظ بن گیا تو میرے نظام کی ساری عمارت ہی زمین بوس ہو جائے گی، کیونکہ پھر ایسا مردِ جری ، جو بہادر ، مردِمومن، مرد آزما اور مرد آفریں ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو معاشرے میں جو بلند مقام دیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اقبال نے اس نظم کے اختتامیہ کے قریب آکر ایسے خوبصورت اور وجد آفریں انداز میں شرعِ پیغمبر کے اصول بیان کرنا شروع کئے ہیں کہ انسان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔
آج کے دور میں مغرب میں عورت کی عزت و ناموس کا جنازہ نکل ہی چکا ہے، مشرقی اقوام جو آئین پیغمبرؐ کی محافظ تھیں ، ان میں بھی صرف مرد ہی کے حصہ میں عزت آئی ہے اس کی عقل اور توانائی عورت کو محکُوم بنانے میں صرف ہوتی ہے۔ حالانکہ مرد کو اپنے افرادِ خانہ کے لیے تلاشِ معاش کی ذمہ داری سونپی تھی ۔ اور قوم وملّت کی حفاظت کا فریضہ اس پر عائد کیا تھا۔ قُدرت نے جفاکشی اور کسبِ معاش کو مرد کی سرشت کا حصہ بنایا تھا اور انتظامی صلاحیتیں (Administrative Talents) اس کو عطا کی تھیں اور اس کو اس دنیا میں آئینِ خداوندی اور شرعِ پیغمبرؐ نافذ کرنا تھی ، افسوس کہ وہ خود گم ہوگیا، کاش کہ آج کا مرد اپنا مقام سمجھ سکے ۔
اقبال کے قلم سے آئینِ محمدیہؐ کا لفظ نکلتے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی اور ہی عالم میں پہنچ گئے تھے اور اسی عالم میں صفحہ قرطاس پر شرعِ پیغمبرؒ کے موتی بکھیرتے چلے جارہے ہیں ، فرماتے ہیں :
موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے
نے کوئی فغفور و خاقاں ،نے فقیرِ رہ نشیں
اقبال کہتے ہیں کہ آئین پیغمبرؐ غلامی کی موت ہے خواہ وہ کسی قسم کی بھی غلامی کیوں نہ ہو اسلام نے مساوات کا ایسا درس دیا ہے کہ معاشرے میں نہ بادشاہ کے لیے کوئی مقام ہے اور نہ فقیر کے لیے کوئی جگہ ہے۔ وہاں تو نہ کوئی بندہ ہے اور نہ کوئی بندہ نواز ۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب دینِ محمدیؐ کا مکمل نفاذ ہوا، تو بندہ و صاحب ومحتاج و غنی ایک ہوئے ، حد تو یہ ہے کہ زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ تھا۔
آئین پیغمبریؐ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اقبال مزید کہتے ہیں ۔
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
بادشاہوں کی نہیں ، اللہ کی ہے یہ زمیں
اسلام سرمایہ داری کی اجازت دیتا ہے لیکن سرمایہ اندوزی کی اپنے اندر کوئی گنجائش نہیں رکھتا۔ دین جس طرح جسم کو گندگی سے پاک رکھنے کی تلقین کرتا ہے بالکل اسی طرح دولت کو سُود اور ناجائز منافع خوری کی آلُودگی سے پاک کرتا ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے ذریعے دولت کی مزید تطہیر ہوتی ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر اللہ نے کسی کو دولت دی ہے تو وہ اس کا مالک ہرگز نہیں بن جاتا، بلکہ اس کو جاننا چاہیے کہ مالک صرف اللہ ہے اور بندہ فقط دولت کا امین ہے۔ اسی طرح زمین کسی انسان کی ملکیت نہیں ہو سکتی ۔ اس کا مالک بھی صرف اللہ ہے۔ چنانچہ زمینداری اور جاگیرداری کا یہ کہہ کر قلع قمع کر دیتا ہے کہ ’’بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں۔‘‘ اقبال اپنے ایک اور خوبصورت فارسی شعر میں اس مضمون کو اس طرح بیان کرتے ہیں :
رزق خود را از زمیں بردن رو است
ایں متاعِ بندئہ و مِلکِ خداست
(یہ جائز ہے کہ انسان اپنی روزی زمین سے حاصل کرے کہ یہ اس کا سرمایہ ہے لیکن زمین کا حقیقی مالک خدا ہی ہے۔)
حضرت علامہ اقبالؒ نے اسلام کے بتائے ہوئے اقتصادیات ، اخلاقیات ، سیاسیات اور نظریہ عدل کے زرِّین اصول اس نظم میں بیان کر کے مِلّت کا درد رکھنے والے اہلِ دانش اور اہلِ قلم کے لیے فکر کی راہیں کھول دی ہیں۔
اقبال منفی پہلو بدلتے ہیں۔ حقیقت میں ان کا منفی اندازِ سخن بھی مثبت اثر رکھتا ہے بلکہ ذہن پر اس کا ردِّ عمل مثبت سمت میں کہیں زیادہ شدید ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے ابلیس کی طرف سے کہے ہوئے یہ اشعار ۔
چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خُوب
یہ غنیمت ہے کہ خُود مُومِن ہے محرومِ یقیں
ہے یہی بہتر الہٰیات میں اُلجھا رہے
یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں اُلجھا رہے
ان اشعار میں آئین پیغمبرؐ کی عالمگیر افادیت کا اظہار کیا گیا ہے۔ آئین پیغمبرؐ حقیقتاً قانون ِ فطرت ہے ۔ یہ صرف مُسلم اُمَّہ کے لیے وقف نہیں۔ یہ تو اپنے اندر دکھی انسانیت کے درد کا مداوا لیے ہوئے ہے، البتہ شیطانی قوتوں کے لیے یہ زہر ہے۔ چنانچہ طاغوتی طاقتوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مومن تذبذب میں پھنسا ہوا ہاتھ پیر مارتا رہے، اور اس کے دل میں یقین کی شمع کبھی روشن نہ ہونے پائے۔ بس اس کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ مُسلمان کے گھر میں پیدا ہو ا تھا اور وہ مُسلمان ہے ۔ اگر کسی طرح علم کی کچھ دولت اس کے حصہ میں آ بھی جائے تو وہ قیل و قال اور فلسفہ الہٰیات میں اُلجھا رہے۔ وہ قرآنِ پاک کی تاویلات اپنے ناقص اور ناپُختہ ذہن کے مطابق کرتا رہے، غرضیکہ کسی طرح بھی عملی دنیا سے اس کا سرو کار نہ ہونے پائے۔ شیطان چاہتا ہے کہ مسلمان کو کسی طرح بھی یقین کی دولت ملنے نہ پائے اور وہ عمل سے دور ہی رہے ورنہ ابلیس کا جادُو بے اثر ہو کر رہ جائے گا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ مسلمان وہ لوگ ہیں کہ انہیں اگر ایمان اور یقین کی دولت مل جائے تو دنیا میں ان کی تکبیریں تہلکہ مچا دیں:
توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسمِ ششِ جہات
اس لیے :
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات
یعنی اگر ان مسلمانوں کی تاریک راتوں میں روشنی کی کوئی کرن آگئی تو یہ لوگ اقوامِ عالم کو اپنے فکرو عمل سے بیدار کر دیں گے۔ لہٰذا اس قوم کے لیے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اس کے افراد اس قسم کی بحثوں میں الجھے رہیں :
اِبن مریم مرگیا یازندئہ جاوید ہے
ہیں صفاتِ ذات حق، حق سے جُدا یا عَینِ ذات؟
آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے
یا مجدّد جس میں ہوں فرزندِ مریم کی صفات؟
ہیں کلامُ اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
اُمّتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
اس وقت حکیم الامت علامہ اقبال کا ہاتھ قوم کی نبض پر ہے اور وہ ایک ایک کرکے ہمارے امراض گنوا رہے ہیں جن کی وجہ سے ابلیسی نظام اس دنیا میں اب تک کامیاب رہا ہے اور آئندہ بھی اگر قومِ شیاطین کو کچھ امید نظر آتی ہے تو ان ہی ابلیسی نظریات کے ذریعہ ممکن ہے جن کی وجہ سے امتِ مسلمہ فرقوں میں بٹ چکی ہے اس لیے وہ (شیطان) اپنی تقریر کے دوران مشیروں سے سوالیہ انداز میں کہتا ہے :
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں
یہ اِلٰہیات کے ترشے ہوئے لات و منات؟
اقبال کے قلم کی منفی کاٹ مسلسل اُمّت کے امراض کی نشاندہی کر رہی ہے کہ مسلمان نے اپنے دل میں طرح طرح کے بت بسا رکھے ہیں جن کی وجہ سے ذاتِ مطلق کا ادراک اس کے ذہن سے محو ہو چکا ہے۔ حقیقتاً مسلم اُمّہ کی بقا کا انحصار صرف اس امر پر ہے کہ وہ اپنی کوتاہ نگاہی دور کرے اور دین کو اس کی اصل شکل میں پہچاننے کی کوشش کرے اور یہ صرف اس وقت ممکن ہوگا جبکہ وہ توہمات اور فضول رسومات کو چھوڑ دے۔ تاکہ وہ فرقہ پرستی کی لعنت سے نجات حاصل کرسکے۔ اگر ہم ذہنی غلامی سے چھٹکارا حاصل نہ کرسکے تو اس عالمِ رنگ و بُو میں ہم کوئی مقام پیدا نہیں کرسکیں گے ۔
ابلیس اپنی خواہش کا اعادہ کرتے ہوئے اپنے مشیروں سے کہتا ہے کہ :
تم اسے بیگانہ رکھوّ عالمِ کردار سے
تابساطِ زندگی میںاس کے سب مُہرے ہوں مات
وہ کہتا ہے کہ خیر اس میں ہے کہ مسلمان اپنی خیالی دنیا میں مگن رہے، اور وہ عملی زندگی سے یکسر دور رہے تاکہ دنیا میں ہر جگہ اس کو شکست کا منہ دیکھنا پڑے۔ وہ زندگی بھر غلام رہے اور اس کو غلامی میں ہی عافیت کا احساس ہو، اس کی نظرمیں یہ دنیا بالکل بے ثبات ہو، تاکہ وہ ہمیشہ محکوم رہے اور کہیں بھی حکومت میں اس کا کوئی عمل دخل نہ ہو پائے ۔
خیر اسی میں ہے ، قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات
شیطان اپنے مشیروں سے کہتا ہے کہ مسلمان کو اس کے خوابوں کی جَنّت سے باہر نہ آنے دو تم اس کے دل میں یہ بات راسخ کر دو کہ یہ دنیا ناپائدار ہے اور وہ اس دنیا کو اور اس کے نظام کو دیگر اقوام کے لیے چھوڑے رکھے، خود و ہ گوشہ نشین ہو کر اللہ کو یاد کرتا رہے تاکہ مرتے ہی وہ سیدھا جَنّت میں چلا جائے، پس اس طرح قیامت تک مسلمان غلام ہی رہے گا۔
ہے وہی شعرو تصوُّف اس کے حق میں خُوب تر
جو چُھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات
ابلیس کہتا ہے کہ مسلمان کے لیے ایسی شاعری اور ایسا ہی تصوّف بہترین راستہ ہے جس کی وجہ سے وہ اس دنیا کو ہیچ سمجھنے لگے اور حقیقی حیاتِ دُنیوی کا شعور اس کے اندر بیدار نہ ہوسکے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمان کی شاعری گُل و بُلبُل اور لب و رخسار تک محدود رہے، اور اس کا تصوّف ایسا تصوّف ہو جس کے ذریعے وہ خلوت میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرتا رہے، اور تسبیح کے دانے گنتا رہے اور اس طرح وہ عملی دنیا سے دور سے دور تر ہوتا چلا جائے، نہ تو اس کا حیات افروز انقلابی شاعری سے کوئی لگائو ہونے پائے اور نہ ہی اس کا تصوّف اس میں وہ کردار کی عظمت پیدا کرسکے جس کے ذریعے ہمارے اسلاف نے لاکھوں بندگانِ خدا کو مشرف بہ اسلام کیا تھا۔
آخری مرحلہ پر ابلیس ایک مرتبہ پھر اپنی پہلی بات کو دہراتا ہے:
ہر نفس ڈرتا ہوں اس اُمّت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی اِحتسابِ کائنات
وہ اپنے مشیروں کو ہوشیار رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خیال رکھو، یہ اُمّت بیدار ہونے نہ پائے، کیونکہ اس کو اگر اپنے دین کا صحیح علم او رادارک ہوگیا تو پھر یہ دنیا تو کیا ساری کائنات اس کے تصُّرف میں ہوگی اور یہی بات میرے لیے انتہائی باعث تشویش ہے۔ اس کا حل بس ایک نکتہ میں پوشیدہ ہے کہ :
مست رکھّو ذکر و فکرِ صبح گاہی میں اسے
پُختہ تر کر دو مِزاجِ خانقاہی میں اسے
مندرجہ بالاشعر زیرِ عنوان نظم کا آخری شعر ہے ۔ کہنے کو یہ چند خوبصورت الفاظ کا مجموعہ ہے اور ایک بہترین شعر ہے، بظاہر یہ شعر اُمّتِ مُسلمہ کے ایک مرض کی تشخیص کر رہا ہے، حقیقتاً یہ اُمّت کے جسم میں ایک پھوڑے کی نشاندہی کرتا ہے، جس کا اگر بروقت اور فوری علاج نہ کیا گیا تو یہ ناسُور بن جائے گا اور پھر لاعلاج ہوگا۔ حکیم الاُمّت علامہ اقبال اس مرض سے نجات کی دوا بھی تجویز کرتے ہیں، جو وہی نسخۂ کیمیا ہے کہ جو رسول عربیؐ غارِ حرا سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ یہی نسخۂ کیمیا اُمّت کے تمام امراض کاشافی اور مکمل علاج ہے۔ اقبال کے الفاظ ہیں:
ایں کتابِ زندہ قرآن حکیم
حکمتِ اُو لایزال است و قدیم
(قرآن حکیم و ہ زندہ کتاب ہے جس کی حکمت قدیم بھی ہے اور اس کو کبھی زوال نہیںہوگا)۔
نسخۂ اسرارِ تکوینِ حیات
بے ثبات از قُوّتش گیرد ثبات
(اس کے اندر زندگی کے وجود میں آنے کے راز پوشیدہ ہیں، اس کے اندر اس قدر قوّت اور طاقت ہے کہ بے ثبات کو ثبات مل جاتا ہے)۔
قرآن پاک کی یہی قوّت ملّت کے جسم کے لیے وہ طاقت فراہم کرتی ہے جو ہر مرض سے نجات کے لیے زبردست قوُّتِ مُدافِعَت ( Resistance Power) جسدِ مُسلم کو فراہم کرتی ہے۔