اقبال کی نظم ’طلوعِ اسلام‘ ان کی طویل اور بے مثال نظموں میں سے ایک ہے جن کی طوالت قاری کے ذہن پر ذرّہ برابر بار نہیں محسوس ہوتی ۔ زیرِ عنوان نظم کا انداز والہانہ اور مضامین پیغمبرانہ ہیں، نظم کا ہر شعر اپنے اندر ایک مکمل مضمون سمیٹے ہوئے ہے۔ انگریز کی حکمرانی کے دور میں اللہ تعالیٰ نے ایک محکوم اور غلام قوم کو ایسا جیالا اور بیدار مغز سپوت عطا فرمایا، جس پر امت مسلمہ جتنا بھی فخر کرے کم ہے۔ اس نے سوئی ہوئی قوم کو جھنجھوڑ ڈالا اور اس کو ایک منظم قافلہ کی شکل دی، پھر خود اس قافلہ کا حدی خوان بن کر افقِ مشرق پر نمودار ہوا۔
ستارے جب ماند پڑنا شروع ہوتے ہیں تو صبح کی آمد ہوتی ہے۔ اقبال اس نظم میں صبح نو کی نوید اس طرح دیتے ہیں ۔
دلیلِ صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دورِ گراں خوابی
عروقِ مُردۂ مشرق میں خونِ زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
اقبال کہتے ہیں کہ بیداری کی صبح کا سورج طلوع ہوچکا ہے اور اقوامِ مشرق میں زندگی پھر عود کر آئی ہے ۔ یہ وہ راز ہے جس کو فلسفہ اور حکمت کے دنیاوی راز داں سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ اس فلسفے کو اقبال اس طرح سمجھاتے ہیں ۔
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی ذہنِ ہندی نُطقِ اعرابی
کہتے ہیں کہ جس طرح سیپ کو طوفان سطحِ آب پر لا کر قطرۂ نیساں سے فیض یاب ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں موتی وجود میں آتا ہے اسی طرح طوفانِ مغرب نے مشرقیوں کو نیند سے بیدار کیا ہے اور یوں بارگاہ حق سے مومن کو اپنی کھوئی ہوئی عظمت و شوکت پھر سے عطا ہونے والی ہے، اس کا کھویا ہوا سرمایۂ عرفان، بہادری، علم، حکمت، فصاحت اور بلاغت جیسے اوصاف اللہ تعالیٰ پھر مسلم قوم کو عطا کرے گا۔
اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل
نوارا تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی
تڑپ صحنِ چمن میں آشیاں میں شاخساروں میں
جدا پارے سے ہوسکتی نہیں تقدیرِ سیمابی
ارشاد ہوتا ہے کہ اے بلبل اگرچہ چمن میں اب تک غنودگی چھائی ہوئی ہے، کلیاں ابھی بھی ادھ کھلی ہیں اور گلشن حیات میں اگر ابھی تک ترے نغمے کم اثر دکھائی دیتے ہیں تو اپنی آواز میں تلخی اور نشتر جیسی چُبھن پیدا کر تاکہ اہلِ چمن کو نہ صرف بیدار کر دے بلکہ ان کو بے چین کر دے اور تڑپا کر رکھ دے۔ تو خود اپنے آشیانے میں بے کل ہو جا اور صحنِ چمن میں ہر طرف تڑپتا دکھائی دے تاکہ چمن کا بوٹا بوٹا اور ڈالی ڈالی لرزنے لگے اور ہر طرف اہل چمن تڑپتے نظر آئیں ۔ اگر پارے سے بے قراری جدا نہیں ہوسکتی تو قلبِ مومن سے بھی ناشکیبائی الگ نہیں ہوسکتی ۔ یہ کیسے ممکن ہے.....کہ
وہ چشم پاک بیں کیوں زینت ِ برگستواں دیکھے
نظر آتی ہے جس کو مردِ غازی کی جگر تابی
مردِ مومن کی نگۂ آرزو زرہ بکتر اور فوجی لباس کی زیب و زینت سے بے نیاز ہے‘ اس کی نظر اگر کہیں رکتی ہے تو غازی کے جگر سے نکلی ہوئی آتشِ شوق کی ضَو سے ٹکرا کر، جس سے وہ نگۂ پاکباز نُور کی روشنی حاصل کرتی ہے۔ اسی لیے اقبال زور دے کر کہتے ہیں ۔
ضمیرِ لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرّے ذرّے کو شہیدِ جُستجو کر دے
نظم کے دوسرے بند میں اقبال اپنے مخصوص انداز میں پوری امتِ مسلمہ کو اچھے مستقبل کی خوشخبری دیتے ہیں، وہ آنے والے دور کی تصویر اس طرح پیش کرتے ہیں ۔
سرشکِ چشم مُسلم میں ہے نیساںکا اثر پیدا
خلیل ؑ اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گُہر پیدا
کتابِ ملّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
اقبال کہتے ہیں کہ میں وہ آنسو دیکھ رہا ہوں جو چشمِ مُسلم میں ڈبڈبا رہا ہے کہ وہ گر کر ابرِنیساں کے قطرے کی طرح موتی بن جائے گا۔ ملّتِ ابراہیمی جو اس وقت بکھری ہوئی ہے ایک بار پھر اکٹھی ہو کر یکجان ہو جائے گی ۔ شاخِ ہاشمی جو خُشک ہو چکی تھی اس میں اب کونپلیں پھوٹتی دکھائی دے رہی ہیں، جو پیش خیمہ ہے اس حقیقت کا کہ یہ ٹہنی ایک مرتبہ پھر ہرے بھرے پتے اور میوئوں سے لد جائے گی ۔
مایوسی اقبال کے پاس سے ہو کر نہیں گزری ۔ خلافتِ عثمانیہ کی جو تباہی مسلم دشمن طاقتوں کی سازشوں کے سبب ہوئی اس کے زخم ابھی ہرے تھے، مگر اس مایوس کُن سانحہ کو اقبال کس طرح مُثبت انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ فرماتے ہیں :
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اس شعر میں اقبال نے ایک قانونِ قدرت جامع الفاظ میں واضح کیا ہے اور مثال دیتے ہیں کہ ہر صبح جو ہماری نظروں کے سامنے نمودار ہوتی ہے وہ لاکھوں ستاروں کے فنا ہونے کے بعد ظہور میں آتی ہے۔ اس خیال کو اقبال نے اپنی ایک اور نظم ’’ستارہ ‘‘ میں اس طرح بیان کیا ہے۔
اجل ہے لاکھوں ستاروں کی اِک ولادتِ مہر
فنا کی نیند مئے زندگی کی مستی ہے
زیرِ عنوان نظم کے سلسلے کا اگلا شعر ہے :
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
فرماتے ہیں اس جہان میں حکمرانی کرنا اتنا مشکل کام نہیں جتنا دنیا کو سمجھنا ہے ۔ دوسر ے الفاظ میں حکومت مشکل کام نہیں، حِکمت مشکل ہے، حِکمت کو دل کی نظر چاہیے اور دل میں بینائی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جگر خون خون ہو جائے ۔
اس کے بعد نظم میں اقبال کا مشہور و معروف وہ شعر آتا ہے جو موجودہ پوری صدی میں زبان زد خاص و عام رہا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
کتنا گہرا تخیل ہے جو ایک شعر میں کس قدر سادہ الفاظ میں ادا کیا گیا ہے، یہ کمال، اللہ تعالیٰ نے صرف اقبال کو ہی عطا کیا ہے۔ اسی فلسفیانہ نکتہ کو انتہائی خوبصورت انداز میں علامہ نے اپنے ایک فارسی شعر میںپیش کیا ہے، ملاحظہ ہو:
عمر ہا در کعبۂ و بت خانہ می نالد حیات
تا زبزمِ عشق یک دانائے راز آید بروں
اس شعر میںاقبال اپنے تخیل کی وضاحت کرتے ہیں کہ زندگی کو دربدر بھٹکتے اور دنیا کے عبادت کدوں میں روتے روتے صدیاں گزر جاتی ہیں تب کہیں جا کر فطرت کا ایک راز داں پیدا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتاتے ہیںکہ یہ مردِ دانا پیدا کہاں ہوتا ہے، فرماتے ہیں یہ بزمِ عشق ہے جہاں یہ پروانہ ملتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ دیوانہ ہے ‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ دانائے راز ہوتا ہے، وہ تو زندگی کو بھی زندگی سے آشنا کر جاتا ہے‘ وہ فنا کو بقا سے ہمکنار کر دیتا ہے۔
اس نظم میں اشعار کا جو سلسلہ اب شروع ہوتا ہے وہ ایک تلاطم ہے جہاں نغمے موج در موج اٹھ کر فضا کو مخمور لیے دیتے ہیں اور اہلِ دل کے جنون کو دو آتشہ کر دیتے ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے :
نوا پیرا ہو اے بُلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاھیں کا جگر پیدا
ترے سینے میں ہے پُوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے
مُسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی کہہ دے
اقبال نے اپنی شہرۂ آفاق تخلیق ’’شکوہ‘‘ میں کہا ہے ۔
ایک بُلبل ہے کہ ہے مَحوِ ترنم اب تک
اس کے سینے میںہے نغموں کا تلاطُم اب تک
جس طرح مندرجہ بالا شعر میں اقبال اپنے آپ سے مخاطب ہیں، اسی طرح زیر عنوان نظم میں ’نوا پیرا ہو اے بُلبُل‘ سے مراد خود ان کی ذات سے خطاب ہے۔ ہمارا یہ خوش الحان بُلبُل (اقبال) نغمہ سرا ہوتا ہے، مخاطب بھی وہ خود ہے کہ اے بُلبُل تو اپنے ترنم سے کبوتر کے نازک جسم میں شاہین کا جگر پیدا کر دے ۔
اقبال ایسے ہی اپنے ایک فارسی شعر میں خدا کے حضور اس کے جلال کی اس طرح قسم کھاتے ہیں کہ سننے والے کا دل کانپ اٹھتا ہے ۔ شعر ہے:
بجلالِ تو کہ در دِل دگر آرزو نَدارَم
بجز ایں دعا کہ بخشی بہ کبوتراں عقابی!
ترجمہ ....’’اے پروردگار عالم مجھے تیرے جلال کی قسم ہے کہ میرے دل میں قطعاً کوئی اور آرزو نہیںہے، سوائے ایک تمنا کے کہ اے باری تعالیٰ تو ان کبوتروں کو عقابی شان عطا کر دے۔‘‘ کچھ ایسے ہی جذبات کا عالم ہے کہ اقبال تمہید کے طور پر پہلے خود اپنے آپ سے مخاطب ہوتے ہیں کہ:
ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیثِ سوزو ساز زندگی کہہ دے
اور پھر روئے سخن پورے زور شور کے ساتھ مسلم قوم کی طرف ہوتا ہے ‘ فرماتے ہیں ۔
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے
اقبال مُسلم قوم سے مخاطب ہیں اور تلقین کر رہے ہیں کہ تیرے مسائل کا حل یقینِ مُحکم میں پوشیدہ ہے۔ تیرا عمل اسی وقت بار آور ثابت ہوگا جب تو تذبذب اور بے یقینی کے بھنور سے نکل کر اپنے اندر ایمان اور یقین کی قوت پیدا کرے، پھر تیرا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہوگا اور تیری زبان ترجمان قدرت ہو جائے گی اور جب تجھے یہ مرتبہ باری تعالیٰ نے عطا کر دیا تب تیری منزل اس نیلے آسمان اور ستاروں سے کہیں آگے ہوگی۔بقول اقبال :
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مُسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
یہ بات معراجِ مصطفی ؐ کے بعد کسی دلیل کی محتاج نہیں
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
انسان کی رسائی کائنات معلوم سے آگے کہاں تک ہے یہ تو بتانا ممکن نہیں لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ایسے مقامات بھی اس کی زد میں ہیں جہاں سے اگر ایک قدم آگے جبرئیل بھی جائیں تو ان کے پر جلنے لگتے ہیں، وہ مقام بھی ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے جسدِ خاکی کے ساتھ بقیدِ حیات ہیں اور وہ جگہ بھی ہے جہاں شُہدا قیامت تک جاگزیں رہیں گے۔ جن کے متعلق قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ انہیں مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں، وہ کھاتے ہیں اور پیتے ہیں ۔
انسان کی رسائی، ستاروں سے آگے ثابت کرنے کے بعد اقبال اس کا مقام اس دنیائے فانی میں بھی اس طرح واضح کرتے ہیں :
مکاں فانی ، مکیں آنی ، ازل تیرا ، ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تو ، جاوداں تو ہے
حِنا بندِ عروسِ لالہ ہے خونِ جگر تیرا
تری نسبت براہیمی ہے ، معمارِ جہاں تو ہے
فرماتے ہیں یہ دنیا فانی ہے اور اس کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے، لیکن تو روز ازل میں پیدا کیا گیا ہے اور تیرا غلغلہ ابد تک باقی رہے گا ۔ تو ہی روزِ میثاق کا ہیرو تھا اور روزِ جزا تجھے باری تعالیٰ کی طرف سے ایوارڈ دیا جائے گا‘ تو انعامات سے نوازا جائے گا‘ تو ہی اس جہانِ رنگ و بو کی رونق ہے، تو نے ہی یہاں زندگی کا درس دیا ہے‘ تو زندۂ جاوید ہے اور تیری ذات اس دنیا میں خدائے بزرگ و برتر کا آخری پیغام ہے، تو گُلِ لالہ کی رنگت ہے، جس کی دلکشی تیرے خونِ جگر کا عطیہ ہے کہ تو ملّتِ ابراہیمی کا چشم و چراغ ہے۔اس کے بعد اقبال کہتے ہیں:
تری فطرت امیں ہے ممکناتِ زندگانی کی
جہاں کے جوہرِ مضمر کا گویا امتحاں تو ہے
اس شعر میں ممکناتِ زندگانی کی اصطلاح اپنے اندر قُدرت کے پوشیدہ رازوں کا خزانہ سمیٹے ہوئے ہے، جس کا امین فطرتِ مُسلمہ کو بتایا گیا ہے۔ حقیقتاً اس دنیا کے بے شمار خزانے باری تعالیٰ نے ہمارے احاطۂ تسخیر میں رکھے ہیں۔ شاہ بھیک علیہ الرحمتہ کا شمار ہندوستان کے ممتاز صوفی شاعروں میں ہوتا ہے ۔ ہندی زبان میں ان کا ایک شعر اس حقیقت کا ترجمان ہے، فرماتے ہیں :
بھیکا ! بھوکا کو نہیں سب کی گٹھری لال
گرہ کھول جانت نہیں اس بن بھئے کنگال
رسول پاکؐ کی ذات میں انسانیت کی مکمل تصویر ہمارے سامنے ہے ‘ معجزۂ معراج حقیقتاً انسانیت کی معراج ہے ۔ زیرِ نظر نظم کے اگلے شعر میں اقبال اسی طرف اشارہ کرتے ہیں :
جہانِ آب و گِل سے عالمِ جاوید کی خاطر
نبوّت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے
انسان کو ایسا بے مثال خراجِ عقیدت آج تک کسی نے پیش نہیں کیا، جیسا کہ اقبال اس شعر میں کہہ گئے کہ اس مٹی اور پانی سے بنی دنیا سے شب ِ معراج حضورِ حق میں جب نبوّت کو شرف باریابی ملا تو وہ اپنے میزبان کے لیے جو خوبصورت تحفہ ساتھ لے گئی تھی ‘ وہ اے انسان تو ہی تو تھا ۔اور پھر فرماتے ہیں:
سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
یہ تیسرے بند کا آخری شعر ہے جس میں ایک مضمون کو سمیٹا گیا ہے اور ساتھ ہی ایک دوسرے عنوان کی ابتدا کی جاتی ہے ۔ اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ تو اپنے اندر اسلام کے بتائے ہوئے اوصاف حمیدہ پیدا کر اور اعلیٰ عِلم و ہنر سے اپنی ذات کو مُتّصِف کر، تاکہ تجھے دنیا کی قیادت سونپی جائے ۔ کیونکہ:
یہی مقصودِ فطرت ہے ، یہی رمزِ مسلمانی
اُخُوّت کی جہانگیری ، محبت کی فراوانی
فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو پیدا کرکے یہ راز بتا دیا ہے کہ اس کی تکوین عین مقصودِ فطرت ہے ۔ انسان اگر مسلمان بن جائے تو یہ محبتوں کا سرچشمہ ہے، ساری دنیا میں انسانی رشتوں کی استواری اور بھائی چارہ اس کے دم سے ایک زمانے میں برپا ہوا، اور یہ اب بھی ممکن ہے۔ رَبِّ ذُوالجلال نے ایسے اوصاف اس کی فطرت میں ودیعت کیے ہیں جن کو بروئے کار لا کر وہ ہر زمانے میں اپنا مقام پیدا کر سکتا ہے۔ لہٰذا اے مسلمان تجھے چاہیے:
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملّت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی ، نہ افغانی
آگے چل کر اقبال فرماتے ہیں :
گمان آباد ہستی میں یقیں مردِ مُسلماں کا
بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی
ارشاد ہوتا ہے کہ یہ دنیا گمان آباد ہے۔ یہاں لوگ تذبذب اور اندیشوں کے شکار ہیں۔ لیکن مرد ِ مومن کا یقین کامل ایک بیابان میں رات کی تاریکیوں کے لیے ایک چراغ کی مانند ہے۔ اسی نے دنیا میں اُخُوّت کی شمعیں جلائیں اور چہار دانگِ عالم میں جہالت کی تاریکیوں کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا :
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا ، زورِ حیدرؓ ، فقر بوذرؓ ، صدقِ سلمانیؓ
یہ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی شجاعت، ان کا فقر، ان کا صدق، ان کا یقین محکم، ان کا عدل، ان کی انسان دوستی ہی تھی کہ دنیا میں قیصر و کِسریٰ جیسی بڑی طاقتوں کے محلّات میں ان کے نام سے زلزلہ آجاتا تھا ۔
یہ انسانیت کے علمبردار اور حریّت کے پروانے کس شان سے چلے تھے:
ہوئے احرارِ ملّت جادہ پیما کس تجمّل سے
تماشائی شگافِ در سے ہیں صدیوں کے زِندانی
اس شعر میں اقبال بتا رہے ہیں کہ کاروانِ ملت کس شان سے رواں دواں تھا۔ یوں سمجھئے کہ ایک شخص شان ِ ملکوتی لیے اپنے پورے جاہ و حشم اور کمالِ حُسن کے ساتھ ایک قید خانے کے سامنے سے گزر رہا ہے، اور قیدی سلاخوں کے پیچھے سے حسرت اور تعجب کی تصویر بنے ہوئے اس آزادی کے متوالے کو دیکھ رہے ہیں۔ اس طرح قرون اولیٰ کے سرفروشوں کے کارنامے صفحہ تاریخِ عالم پر ثبت ہیں۔ دنیا کی آنکھ دیکھ رہی ہے لیکن ان کے ذہن تعصّب کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ زندگی کی مثبت قدروں سے محروم ہیں۔ جبکہ:
ثباتِ زندگی ایمانِ محکم سے ہے دنیا میں
اقبال فرماتے ہیں:
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پرِ رُوحُ الامیں پیدا
یہ زیر عنوان نظم کے چوتھے بند کا آخری شعر ہے‘ جس میں بتایاجارہا ہے کہ انسان کے اندر یقین اور ایمان کے اوصاف اجاگر ہوتے ہیں تو یہ پیکر خاکی پرواز میں جبرئیل ؑ کا ہمرکاب ہو جاتا ہے ۔
جیسا کہ اقبال کا انداز ہے ۔ اب اس کا خامۂ فکر اس گتھی کو سلجھانے کی طرف مائل ہوتا ہے کہ :
غلامی میں نہ کام آتی ہیںشمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا ، تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
انسان کے اندر بے پناہ قوتیں اور صلاحیتیں موجود ہیں، جن کو بروئے کار لانے کے لیے دل میں ایمان، یقین اور لگن پیدا کرے، پھر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق غیبی امداد اس کے شاملِ حال ہوگی، اور غلامی کی زنجیریں (خواہ غلامی ذہنی ہو یا مادی) خود بخود کٹتی چلی جائیں گی اور انسان مردِ مُومِن کہلانے کا مستحق ہوگا ۔ جس کی تعریف علامہ اقبال اس طرح کرتے ہیں:
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
مومن کی فراست اور اس کے بازو کی قوت کا احاطہ انسان کی عقل نہیں کر سکتی ۔ قلعہ خیبر کا دروازہ جس کو ایک فوج ظفر موج نہ ہلاسکی تھی صرف ایک ا نسان حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے گوشت اور پوست کے ہاتھوں سے اکھاڑ کر پھینک دیا تھا۔ کیا انسانی ذہن اس مومنِ کامل کی قوّتِ بازو کا اندازہ کرسکتا ہے ؟ مردِ مومن کی نظر میں وہ اثر ہوتا ہے کہ اگر ایک چور پر اس کی نظر پڑے تو وہ ولی بن جائے ۔ مُسلم قوم کی تاریخ شاہد ہے کہ ایسے ہی لوگوں نے قوموں کی تقدیریں بدل ڈالی ہیںغرضیکہ :
ولائت ، پادشاہی ، علمِ اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں ، فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں
اگر دل میں ایمان ہے اور یقین کی دولت میسرہے تو ایسا انسان ولی بھی ہوسکتا ہے، حاکم بھی بن سکتا ہے، فلاسفر، سائنسدان اور موجِد بھی ہوسکتا ہے۔ دنیا کے تمام عُلُوم، فنون، ہنر اور مابعدالطبیعیات و الہٰیات کا درجۂ کمال صرف ایک نکتہ میں پوشیدہ ہے اور وہ ہے انسان کا ایمانِ کامل جو ملّتِ ابراہیمی کا طرۂ امتیاز ہے لیکن اقبال کہتے ہیں :
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چُھپ چُھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
تمیزِ بندۂ و آقا فسادِ آدمیّت ہے
حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
مشکل یہ ہے کہ اس دنیا میں قدم قدم پر ایمان کو متزلزل کرنے والے بُت موجود ہیں۔ جو کبھی نظروں کے سامنے ہوتے ہیں اور کبھی دلوں میں گھر بنائے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اقبال بتا تے ہیں کہ اکثر فساد کے پس منظر میں یہی بُت کار فرما ہوتے ہیں ۔ چھوٹے اور بڑے کا فرق فسادِ انسانیت ہے۔ اسلام نے آقا اور غلام کے امتیاز کو سختی کے ساتھ مٹایا ہے۔ جس کی زندہ مثال روحِ نماز ہے، جہاں آقا اور غلام ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور جہاں محمود اور ایاز کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔
مندرجہ بالا اشعار کے آخری مصرع میں اہل ثروت اور حکمران طبقہ کو خبردار کیا جاتا ہے کہ کمزور پر ظلم نہ کرو اور ان کی حق تلفی نہ کرو، ورنہ یاد رکھو کہ خدا کی پکڑ بڑی سخت ہے اور یہ بھی یاد رکھو کہ :
حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے ، اگر ذرّے کا دل چیریں
انسان ہو یا فرشتہ، دنیا کی کوئی شے ہو یا کائنات کا کوئی عنصر، حقیقت سب کی ایک ہے۔ اگر انسان غور کرے تو آسمان کے سورج اور زمین کے ایک ادنیٰ ذرے میں ربط پالے گا۔ اس شعر میں اقبال صوفیا کے ایک مکتبِ فکر کی ترجمانی کر گئے ہیں۔ دنیاوی لحاظ سے اس شعر میں ایٹمی طاقت کی پیشن گوئی موجود ہے۔ یہ شعر اس وقت لکھا گیا تھا جب ذرّے کا دل چیر کر ایٹم کا دھماکہ کرنے کا تصور بھی ہم نہیں کرسکتے تھے ۔ یوں سائنس نے اس شعر کی تصدیق ۲۰ سال بعد کی ۔اس کے بعد اقبال پھر زیر عنوان مضمون کی طرف پلٹتے ہیں :
یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
فرماتے ہیں کہ زندگی طالب ہے مسلسل جدوجہد کی ، جس کے بغیر انسان کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔ پختہ یقین کے ساتھ جدوجہدِ پیہم کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔ یہی ایک کامیاب زندگی کے ہتھیار ہیں۔ البتہ محبت ان ہتھیاروں کو جِلا بخشتی ہے اور آب دیتی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ دلوں کی اگر تسخیر ہوسکتی ہے تو صرف اور صرف محبت کے ذریعہ سے۔
لکھتے لکھتے اقبال پر جب وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے تو وہ اکثر اپنے جذبات کے اظہار کے لیے فارسی زبان استعمال کرتے ہیں ۔ چنانچہ اس بند کا آخری شعر اسی رو میں فارسی زبان میں کہہ گئے ہیں … … ملاحظہ ہو:
چہ باید مرد را طبعِ بلندے ، مشربِ نابے
دلِ گرمے ، نگاہِ پاک بینے ، جانِ بیتابے
ترجمہ : ایک انسان کو (مکمل انسان بننے کے لیے ) ضرورت ہے اعلیٰ ظرف اور خالص عقیدے کی ( اس کے سینے میں سوزِ عشق سے ) تپتا ہوا دل ہو‘ اس کی نظر پاک اور روح مُضطرِب اور بے چین ہو ۔
اس شعر میں اقبال ایک سچے مسلمان بلکہ کہنا چاہیے ایک آئیڈیل انسان کے اجزائے ترکیبی بتاگئے ہیں وہ کہتے ہیں، ایک مکمل انسان کے لیے جو اوصاف انتہائی ضروری ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ بلند ہمت اور اعلیٰ خیالات کا حامل ہو، اس کا عقیدہ اتنا پختہ اور خالص ہو کہ وہ سوائے اللہ کے کسی کے آگے نہ جھکے اور اللہ کی ذات اور صفات میں کسی کی شرکت اس کے وہم و گمان میں نہ آئے ۔ اس کا دل عشق کی حرارت سے گرم ہو، ایمان ایسا پختہ ہو کہ اس کی نظر ہمیشہ پاک شے کی متلاشی ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے اندر پارے جیسی تڑپ اور بے قراری ہو تاکہ وہ عالمِ رنگ و بُو پر قَناعَت نہ کر پائے۔
اپنی مندرجہ ذیل بالا نظم کے اگلے دو بندوں میں اقبال ایسے ہی انسانوں کی مثالیں دے کر ان کی صفوں میں شامل ہونے کے طریقے بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:
عقابی شان سے جھپٹے تھے جو ، بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خونِ شفق میں ڈوب کر نکلے
ہوئے مدفونِ دریا زیرِ دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو ، بن کر گُہر، نکلے
غبار رہگذر ہیں ، کیمیا پر ناز تھا جن کو
جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو ، اکسیر گر نکلے
قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی شان بیان کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ وہ بے بال پر تھے لیکن شاہینوں کی طرح جھپٹتے تھے۔ وہ تاریکیوں کو منور کرنے والے ایسے ستاروں کی مانند تھے جو شام کے وقت سُرخ شفق میں ڈوب کر نکلتے ہیں اور آسمان کی تاریکیوں میں نُور بکھیر دیتے ہیں۔ دولت کے سمندر میں تیرنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے زیرِ آب پانی میں رہنے والی مچھلیاں اور دوسرے آبی جانور، جو کہ وہیں مر جاتے ہیں اور فنا ہو جاتے ہیں، لیکن صدف کا حال ان سے مختلف ہے۔ وہ طوفانی موجوں کے تھپیڑے اس وقت تک کھاتی ہے جب تک وہ ابرِ نیساں کے قطرے سے اپنی تڑپ کی تسکین نہیں کر لیتی اور پھر موتی اگلتی ہے، وہی موتی جس کے لیے اقبال نے کہا تھا :
کی ترک تگ و دو قطرے نے تو آبروئے گوہر بھی ملی
آوارگیِ فطرت بھی گئی اور کشمکشِ دریا بھی گئی
گویا قطرے کی تڑپ اور صدف کی تڑپ نے مل کر گہر پیدا کیا۔ اسی لیے اقبال خُدا سے یہ دعا کرتے ہیں کہ :
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضٰیؓ سوزِ صدیقؓ دے
وہ لوگ جو اپنی پیشانیاں خاک پر رکھتے تھے مگر سینوں میں عشق کی تڑپ ہوتی تھی وہ کیمیا گر تھے، کامیابیاں ان کے قدم چوما کرتی تھیں۔
ہمارا نرم رو قاصد پیامِ زندگی لایا
خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے
زمیں سے نوریانِ آسماں پرواز کہتے تھے
یہ خاکی زندہ تر پائندہ تر تابندہ تر نکلے
ہمارے پیغمبرؐ نے دنیا کو زندگی کا پیغام دیا، باوجود یکہ دنیا والوں میں دولتِ دنیا کی کمی نہ تھی لیکن وہ زندگی کی حقیقی مسرتوں سے ناآشنا تھے ۔ اقبال کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی شان یہ تھی کہ آسمان پر فرشتے بھی ان کی زندگی سے بھر پور رَوش پر عش عش کر اٹھتے تھے:
جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
اس دنیا میں اگر جینے کا سلیقہ ہے تو اہل ایمان کو جنھیں کبھی فنا نہیں اور دنیا کبھی ایسے لوگوں سے خالی نہیں رہی۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسا کہ سورج جو مکمل غروب کبھی نہیں ہوتا۔ بلکہ اگر ایک جگہ نظروں سے غائب ہوتاہے تو دوسری جگہ پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی کرنوں سے زندگی کی ضیا پاشیاں کرتا ہوا نمودار ہوتاہے۔
اقبال اس کے بعد کہتے ہیں کہ ملت کی تعمیر کے لیے افرادِ ملت کو زیورِ یقین سے آراستہ ہونا ناگزیر ہے، ارشاد ہوتا ہے!
یقین افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیر ملت ہے
ہمارا یقین ہی ملت مسلمہ کا بیش بہا سرمایہ ہے اور یہی قوت ہماری قوم کی تقدیر بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔
اقبال اس امر پر زور دیتے ہیں کہ ہم اپنی حقیقت کو پہچانیں، فرماتے ہیں۔
تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا
کہتے ہیں تو اگر اپنے آپ کو پہچان جائے تو خدا کو پہچان سکتا ہے اور پھر تیرا راستہ سیدھا اور آسان ہو جائے گا کیونکہ جب تو اپنا راز پہچان گیا تو خدا کا رازداں بن گیا اور جب خدا کا راز دان بن گیا تو پھر خدا کا ترجمان ہونے کا تجھ کو مرتبہ حاصل ہو گیا البتہ اس راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ ہے انسانی ہوس!
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا
یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندئہ ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا
غبار آلودئہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مُرغِ حرم اڑنے سے پہلے پَر فشاں ہو جا
اقبال فرماتے ہیں کہ دنیا میں بنی نوع انسان ایک اکائی تھی لیکن اس کو لالچ اور ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہوسِ زر اور ہوسِ جاہ کو چھوڑ کر، محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کریں، تاکہ ہمارا تعلق نہ کسی طبقہ سے رہے، نہ کسی نسب، نہ کسی برادری سے اور نہ کسی خاص خطۂ زمین سے رہے۔
مندرجہ بالا آخری شعر میں مُرغِ حر م سے اقبال کی مراد مردِ مومن یا ’’شاہین‘‘ ہے جس کے پَر رنگ و نسب کے غبار سے بوجھل ہوگئے ہیں اقبال کہتے ہیں کہ تو ذرا اپنے پروں سے اس رنگ و نسل کی گرد کو جھاڑ دے، تو پھر تو سبک خرام ہو جائے گا اور پہلے کی طرح بلندیوں کی طرف پرواز کرنا تجھ کو سہل ہو جائے گا۔
اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کا گر بتاتے ہوئے حکیم الامت فرماتے ہیں :
خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سرِّ زندگانی ہے
نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوِداں ہو جا
مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر
شبستانِ محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا
جیسا کہ اس بند کے ابتدائی شعر میں اقبال نے کہا ہے وہ یہاں ایک بار پھر تلقین کرتے ہیں کہ تو اپنی ذات میں گم ہو کر اپنی خودی کو پہچان کہ بس یہی زندگی کا راز ہے تو اگر سمجھے تو تیری ذات کی نہ صبح ہے نہ شام‘ موت تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی البتہ اس دنیا میں جینے کا چلن سیکھ‘ تجھ کو چاہیے کہ کار زارِ حیات میں فولاد کی طرح سخت کوش ہو اور چمنِ محبت میں قدم رکھے تو دیبا اور ریشم کی طرح ملائم اور نرم خو ہو جا۔اور :
گزر جا بن کے سیلِ تُند رَو کوہ و بیاباں سے
گُلستاں راہ میں آئے تو جُوئے نغمہ خواں ہو جا
اگر تیرے راستہ میں پہاڑ اور بیاباں آئیں تو طوفان کی طرح ان میں سے گزرتا چلا جا، اور اگر راستے میں گلستان آجائے تو لہراتی بل کھاتی ندی‘ نغمے کنگناتی نہر بن کر خراماں خراماں چل تاکہ تیرے وجود سے گلستان میں بہار آئے ۔حقیقت تو یہ ہے …!
تیرے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نوا کوئی
ابھی تک آدمی صید زبونِ شہر یاری ہے
قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے
اقبال کہتے ہیں کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی ایک انسان اپنی ہی جنس انسان کا استحصال کر رہا ہے۔ آج ترّقی یافتہ قومیں حقوقِ انسانی کا راگ الاپتے نہیں تھکتیں اور جمہوریت کی علمبرداری کا دعویٰ کرتی ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ جس طرح گذشتہ دور کے مُطلقُ العَنا ن بادشاہ عام انسانوں کا خون چوس کر اپنی مملکت کو مستحکم کرتے تھے بالکل اس طرح آج ترقی یافتہ اقوام دیگر پسماندہ قوموں کو مختلف حیلے اور بہانے سے اپنا محکوم اور خوشہ چیں بنا کر رکھنا چاہتی ہیں، یہ جمہوریت نہیں بلکہ جمہوریت کے رُوپ میں ایک وسیع تر اور منظم بادشاہت ہے ۔لیکن ان کو خبر نہیں کہ :
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صنّاعی مگر جُھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
مغرب کی چمک دمک جس سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، اس کی مثال ایسی ہے جیسے شیشے کو ہیرے کی طرح تراش کر اور پالش کرکے اس میں ہیرے جیسی چمک دمک پیدا کر دی جائے، لیکن بہرحال یہ ناپائدار اور جھوٹی خوبصورتی ہوگی ۔ اہلِ مغرب کو اپنے علم و حکمت پر ناز تھا، لیکن اب یہی ان کا علم، سائنس اور ٹیکنالوجی ان کی ہوسِ اقتدار کے ہتھیار بن چکے ہیں جن کے ذریعے کمزور اقوام کا استحصال کیا جارہا ہے اور ایک طرح سے ان کو اپنا باج گزار بنایا جا رہا ہے، مگر:
تدبّر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمّدن کی بنا سرمایہ داری ہے
اقبال کہتے ہیں کہ جس حکومت اور معاشرے کی بنیاد ہی سرمایہ دارانہ نظام پر استوار ہو، اس میں استحکام پیدا نہیں ہوسکتا خواہ اس کے قوانین کتنی ہی دیدہ ریزی اور علمی غور و فکر کے بعد بنائے جائیں ۔ اس نظم کے اختتام کے قریب اقبال کا روئے سخن پھر فردِ ملّت کی جانب ہوتا ہے جہاں بڑے سادہ الفاظ میں انتہائی خوبصورتی کے ساتھ درس دے رہیں کہ:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے، نہ ناری ہے
خروش آموزِ بُلبُل ہو ، گرہ غنچے کی وا کر دے
کہ تو اس گلستاں کے واسطے بادِ بہاری ہے
اقبال نے ایک دوسرے مقام پر یہ بات اس طرح بیان کی ہے
نوارا تلخ ترمی زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی
یعنی اگر اہلِ چمن کے اندر اپنے نغموں کا اثر کم دیکھے تو اپنی آواز میں تلخی بڑھا دے۔ بالکل اسی انداز میں اس شعر میں ’خروش آموزِ بُلبُل ‘کہہ کر تلقین کر رہے ہیں کہ گو تیر ے رب نے تجھے گلستانِ عالم کے لیے بادِ بہاری بنا کر بھیجا ہے، لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ تو مرغانِ چمن کو زمانے کی تلخ حقیقتوں سے روشناس کر دے تاکہ ان کی نوا میں وہ اثر پیدا ہو کہ گلشن کی ہر کلی کِھل جائے اور ایک مرتبہ پھر اس چمن میں بہار آجائے ۔
اس نظم کے باقی تمام اشعار فارسی زبان میں ہیں، جن میں ایک ایک شعر اپنے اندر ایک ایک مضمون سمیٹے ہوئے ہے۔ ان اشعار میں بے مثال استعارات استعمال کئے گئے ہیں جن کے ذریعہ بات دل میں اتر جاتی اور رُوح کو سرشار کر دیتی ہے۔ مضمون کی طوالت کے پیش نظر اختصار کے ساتھ صرف اشعار کا مفہوم پیش کیا جاتا ہے ۔
اقبال فرماتے ہیں کہ ایک مدت کے بعد ’’پھر اٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی۔‘‘ بہار کی آمد ہے، ملّت کی نشاۃِ ثانیہ کے آثار ہویدا ہیں، ایسا لگتا ہے کہ صحرا میں ابرِ بہاری نے خیمہ لگا لیا ہے، پہاڑوں سے آبشاروں کے نغمے پھوٹ رہے ہیں اور طائرانِ چمن سے بلبل کی صدا بلند ہوئی ہے، جس نے بدرو حنین کے شہیدوں کی یاد دلوں میں تازہ کر دی ہے۔ یہ انہی شہداء کا تصّرف ہے کہ چمنِ خلیل کی خشک شاخیں ہمارے شہیدوں کے خون سے سیراب ہو کر پھوٹنے لگی ہیں اور بالآخر بازارِ محبت میں ہمارا کھرا سکّہ ہی کام آیا ہے۔
اقبال کہتے ہیں کہ ان شہیدوں کی لحد پر اپنے اشعار کے ذریعہ عقیدت کے سرخ پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتا ہوں کہ ان کے خون ہی نے میری ملّت کے شجر کی آبیاری کی ہے۔ اقبال کے الفاظ میں :
سرِ خاکِ شہیدے برگہاے لالہ می پاشم
کہ خونش بانہالِ مِلّتِ ما سازگار آمد