ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے
مُسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی کہہ دے
(اقبال)
اسلامی معاشرے میں دو خاص تہوار عیدین، یعنی عید الفطر اور عید الاضحٰی، باہمی بھائی چارے، مظاہرئہ یکجہتی اور اپنے اللہ کے حکم پر غیر متزلزل ثابت قدمی سے عمل کرنے کی عظیم ترین مثال ہیں ۔ آج کا موضوعِ سخن عیدالاضحٰی ہے جس کو عُرفِ عام میں بقر عید کہتے ہیں ۔
ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ یہ دن اور خصوصاً قربانی کی رسم ارکان اسلام کا ایک اہم رکن ہے فرق صرف اتنا ہے کہ قربانی ہم صرف ایک جانور ذبح کرنے کی رسم کو سمجھ بیٹھے ہیں، اسے معاشرے کی رسم یا زیادہ سے زیادہ رسم ِ خلیل ؑ اللہ کہتے ہیں … بس نہ اس سے پہلے کچھ اور نہ اس کے بعد، کبھی اس امر پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بارہا اس عمل کو دُہرانے کے پیچھے کیا فلسفہ کار فرما ہے۔ ہم اذان بھی رسماً دیتے ہیں اور نماز بھی کم و بیش رسماً ہی ادا کرتے ہیں، لیکن ہم کبھی اِن اعمالِ کبیرہ کی روح تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے بقول اقبال ؒ :
’’رہ گئی رسمِ اذاں رُوحِ بلالی نہ رہی‘‘
وہ راستہ جو ہمیں ہماری ذات کے ذریعے خدا تک پہنچا سکتا تھا اسے ہم گم کر چکے ہیں اگر انسان کے دل میں علم اور عمل صالح کے ذریعے محبت ِ الٰہی کا جذبہ جنم پاجائے تو اس محبت کا ارتقاء اس کو ایسی بلندیوں پر لے جاتا ہے جہاں اس کے آئینہ ء ضمیر کو جلا میسر ہوتی ہے۔ ’’محبت فاتحِ عالم‘‘ ہے لیکن اس کا اصل مقام تک پہنچنا صرف اس وقت ممکن ہے جبکہ انسان پہلے اپنی ذات پر فتح پالے۔ (میں نے ذات Selfhoodکے لیے استعمال کیا ہے) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی رضا کے لیے اپنے لخت جگر کی قربانی پیش کرکے انسانیت کے لیے یہ ممکن کر دکھایا ہے۔ یہ غنیمت ہے کہ ہم رسمِ ابراہیمی ادا کرتے ہیں خدا کرے اس کے طفیل جذبہ ٔ ابراہیمی اور صدقِ خلیل بھی ہمیں عطا ہو جائے اور خدا ہمارے دلوں کو محبتوں اور عشق کی دولت سے نواز دے۔
صدقِ خلیل ؑ بھی ہے عشق صبر حسینؓ بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
ایک مغربی مفکر شلر (Schiller) نے کہا تھا کہ انسان اندرونی طور پر اور بیرونی طور پر بِکھر چکا ہے، اور ہر شخص کی یہ خواہش بھی ہے کہ وہ اپنی ذات کے ٹوٹے پھوٹے ٹکڑوں (Splinters) کو جوڑ کر یکجا کرے وہ کہتا ہے کہ وقت کا بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح انسانی فِطرت کے اتحاد (Unity) کو تشکیل دیں، شلر کا جواب ابراہیم ؑ کے عمل میں موجود ہے۔
ایک اور مغربی مفکر مارک سی ٹیلر Mark . C.Taylorنے اپنی کتاب Journey to Selfhood Hegel and Kierkegaard) میں جرمنی کے مشہور فلسفی Hegelاور ڈنمارک کے مشہور فلسفی Kierkegaardپر اسی عنوان سے تبصرہ کیا ہے وہ لکھتا ہے کہ ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کرکے اپنے خدا پر ایمان کے بُلَند ترین مرتبہ پر فائز ہونے کا اظہار کیا۔ اس نے اپنے اللہ کے حکم پر اپنی سماجی و ابستگی اور نسل منقطع کرنے پر آمادگی کا مظاہرہ کیا تھا، جو کہ ایک غیر معمولی عمل تھا۔ ہیگل (Hegel) نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ابراہیم ؑ کی محبت (عشق الٰہی ) اس کی اپنی طاقت کا حصار عبور کر گئی۔ مطلب یہ ہے کہ اس نے (ابراہیم ؑ) اپنی ذات کی نفی کر دی تھی۔ اس کا راستہ اپنے بیٹے کی محبت بھی نہ روک سکی اور اس نے یہ پروا بھی نہ کی کہ وہ اپنی نسل کشی کر رہا ہے، حالانکہ اس کی خواہش تھی کہ اس کے بعد بھی اس کا نام اور اس کی نسل اس دنیا میں باقی رہے۔ وہ کہتا ہے کہ ابراہیم ؑ کی اپنی آرزو اور اپنے بیٹے کی محبت کی وجہ سے اس کی ہمت جواب دے سکتی تھی مگر ایسا نہیں ہوا یہ عمل جو ابراہیم ؑ نے کر دکھایا ایک Practicalثبوت ہے کہ کس طرح اپنے آقا کے بعد ہر شے کی نفی ممکن ہے اور اسی میں تعمیر خود ی کا راز مضمر ہے ہیگل کے الفاظ ہیں ۔
(The spirit of self maintenance in strict oppositon to everything.)
بقول اقبالؒ خودی کا سِرّ نہاں لا الٰہ اِلا اللہ‘‘ کلمہ توحید میں لفظ ’’لا‘‘ ہر شے کی نفی مکمل طور پر کر جاتا ہے اور اگر ہمارے دل میں اتر جائے تو یہی توحید کا سر چشمہ ہے، جس کا درس ابراہیم ؑ خلیل اللہ نے ہمیں اپنے عمل کے ذریعے دیا، اور جس کی ’’یاد‘‘ ہم ہر سال تازہ کرتے ہیں ۔ قربانی سُنّتِ ابراہیمی ہے، یہ ایک رسم نہیں ہے۔ قربانی ہمیں اپنے رب کے علاوہ دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہونے کا درس دیتی ہے۔ اس کے ذریعے ہماری خودی کی تعمیر ہوتی ہے اور ہمیں اللہ کا قُرب نصیب ہوتا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ کا عمل ایک ایسی Exerciseتھی جس کے ذریعہ حضرت ابراہیم ؑ نے انائے کبیر (اللہ ) کے ساتھ انائے صغیر (ذات انسانی ) کی مکمل ہم آہنگی پیدا کر کے اپنی ذات کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو یکجا کیا اور انسانیت کی شیرازہ بندی کا راستہ دنیا کو دکھلایا، جس کی گواہی، آج صفا و مروا کی پہاڑیاں اور ہمیشہ ابلنے والا چشمۂ ’’زمزم‘‘ زبانِ حال سے دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنے کلام میں متعدد جگہ مِلّتِ مُسلِمَہ کو یاد دلایا ہے کہ وہ حقیقت میں ملت ابراہیمی ہے، جیسا کہ اس شعر میں :
حِنا بندِ عُروس لالہ ہے خونِ جگر تیرا
تری نسبت براہیمی ہے ، معمار جہاں تُو ہے
حضرت ابراہیم ؑ کا عمل ہمارے لیے نشانِ راہ کا درجہ رکھتا ہے۔ ملّت ابراہیمی کے پہلے فرد اور ابراہیم ؑ کے فرزند ارجمند اسمعیل ؑ کی رضائے حق میں خود سپردگی اور ثابت قدمی کی مثال تاریخ انسانی میں ان سے پہلے نہیں ملتی۔ اگر ان کا یقین مکمل اور محکم نہ ہوتا تو وہ ابراہیم ؑ کے ارادے کو بھی متزلزل کرسکتے تھے ۔ وہ اپنے والد سے کہہ سکتے تھے کہ آپ انسان ہیں اور انسانی خواب بہرحال خواب ہے، ہوسکتا ہے کہ مشیّتِ ایزدی وہ نہ ہو کہ جو آپ نے اپنے خواب سے تعبیر کی ہے ، لیکن واہ رے پسر ابراہیم ؑ! صد آفریں ہے تیرے یقین ، صبر اور استقامت پر کہ تونے اپنے باپ کے سچے نبی ہونے کی شہادت خود باپ کے ہاتھوں اپنے ہی حلقوم پر چھری چلوا کر دی اور دنیا کو قربانی کا مفہوم بتلا دیا ۔
یہ ہے ایمان اور یقین کا وہ درجہ جس کے لیے اقبال ہم سے کہتے ہیں کہ :
’’یقیں پیدا کر اے غافل کہ مَغلُوبِ گماں تو ہے ‘‘