بانگ درا میں اقبال کی نظم ’’شاعر ‘‘ صرف تین اشعار پر مشتمل ہے ۔ اتنی مختصر ہونے کے باوجود یہ نظم موجودہ دور کے شاعر کے واسطے مشعلِ راہ کا درجہ رکھتی ہے۔ پہلے شعر میں حکیم الامتؒ کہتے ہیں :
قوم گویا جسم ہے ، افراد ہیں اعضائے قوم
منزلِ صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم
اقبال نے اپنے کلام میں متعدد مقامات پر معاشرے میں فرد کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اس شعر میں بھی وہ فرماتے ہیں کہ ملّت یا قوم ایک جسم کے مانند ہے، جس کے اعضا افراد ِ قوم ہوتے ہیں ۔ انہیں افراد میں وہ لوگ ہیں جو صنعت و حرفت میں اپنا مقام رکھتے ہیں، وہ ملک اور قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اور افرادِ قوم میں وہ لوگ نمایاں حیثیت رکھتے ہیں جن کے متعلق اقبال کہتے ہیں :
محفلِ نظمِ حکومت ، چہرئہ زیبائے قوم
شاعرِ رنگیں نوا ہے دیدئہ بینائے قوم
فرماتے ہیں کہ :
’’ حکومت میں برسرِ اقتدار لوگوں کی جماعت یا پارلیمینٹ قوم کے چہرے کی زینت ہیں۔ جس طرح انسان کا چہرہ اس کی شخصیت کا عکاّس ہوتا ہے اسی طرح برسراقتدار طبقہ پوری قوم کے اطوار و عادات اور اخلاقیات کی نمائندگی کرتا ہے۔ افرادِ قوم کے اندر شاعر بھی ہوتا ہے جس کا وجود قو م کے جسم میں آنکھ کی مانند ہوتا ہے یہ آنکھ دیدئہ بینا ہوتی ہے جو کھلی رہتی ہے اور دُور بیں ہوتی ہے۔ یہ قوم کے درد لیے ہوتی ہے اور اتنی حساس ہوتی ہے کہ :
مبتلائے درد کوئی عُضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
علامہ اقبالؒ کا مقصودِ حیات ’’آدم گری ‘‘ اور علم و حکمت کی اشاعت تھا، جس کا ذریعہ انہوں نے شعر کو بنایا اور شعر بغیر سوز کے بے اثر ہوتا ہے۔ اس سوز کے لیے جس آتش کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہے آتشِ عشق، جو کہ صاحبِ کردار اور منفرد بندوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے اور وہی اس کے اہل بھی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں اور صحیح معنوں میں انسانیت کے علمبردار بھی۔ اقبال حقیقتِ شعر اور شاعر کے متعلق یُوں اظہار خیال کرتے ہیں :
شعر را مقصود اگر آدم گری است
شاعری ہم وارثِ پیغمبری است
(ترجمہ ) : اگر شعر کا اصل مقصد حیوان ناطق کو آدمی بنانا ہے تو ایسا شاعر پیغمبری کا وارث ہے)
اقبال معاشرے کے لیے شاعر کا مقام اس انداز سے بیان کرتے ہیں :
’’شاعر اندر سینۂ مِلّت چو دل
ملّتے بے شاعرے انبارِگِل‘‘
(ترجمہ) : شاعر کی حیثیت ملّت کے سینے میں دل کی طرح ہے اور جو قوم ’’ایسے ‘‘ شاعر سے محروم ہے وہ ایک مٹی کا ڈھیر ہے )
ہماری موجودہ نسل کے شُعرا کے لیے اقبال کی شاعری مشعل راہ ہے۔ ان پر بھٹکی ہوئی انسانیّت کی رہنمائی کے لیے بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جس سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے ان کو اپنا وہ کردار بروئے کار لانا پڑے گا جو بقول اقبال ان کو پیغمبری کی وراثت کا حق دار بنا دے‘ اسی وقت ان کے اندر وہ سوز پیدا ہوگا اور ان کے شعر میں وہ تپش ہوگی جو سننے والے کے دل کو تڑپا دے گی ۔ ایسے شعر کی صفت اقبال کے مُرشدِ طریقت مولانا روم نے جس انداز سے بیان کی ہے وہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کی ہے:
گُفت آں شعرے کہ آتش اندر وست
اصلِ او از گرمئی اللہ ھوست
(ترجمہ) ’’اگر کسی شعر کے اندر آگ موجود ہے تو وہ صرف ’’اللہ ھو‘‘ کی گرمی کی بدولت ہے۔‘‘)
سخن میں گرمی ’اللہ ھو‘ (عشق ذات) سے جنم لیتی ہے ۔ لہٰذا سخنور کے لیے ضروری ہے کہ وہ صاحبِ کردار ہو اور مئے عشق سے سرشار ، بقول اقبال :
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام
ایسے ادیب اور شاعر جن میں جذبہ عشق و خدمتِ ملّت کی فراوانی ہو قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، اور ایسے ہی لوگ قوم کی زبان، قوم کا ذہن ، اور ملت کے سینے میں دل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے :
اہلِ زمیں کو نُسخۂ زندگیٔ دوام ہے
خونِ جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری
گُلشنِ دہر میں اگر جوئے مئے سخن نہ ہو
پھول نہ ہو، کلی نہ ہو، سبزہ نہ ہو ، چمن نہ ہوaqbal