اقبالؒ نے جب اپنے سنِ شُعور میں قدم رکھا تو دیکھا کہ ہندوستان (برصغیر پاک و ہند) بدترین غلامی کے دور سے گزر رہا تھا ۔ اس برصغیر کی اقوام میں مسلمان دوسری بڑی اکثریت تھی لیکن ہندئووں نے انہیں ملچھ (پلید) کا درجہ دے رکھا تھا ۔ حکومت انگریز کی تھی ۔ دفاتر میں خال خال کوئی مسلمان نظر آتا تھا وہ بھی کلرک کی کرسی پر ، اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے مسلمانوں پر یکسر بند تھے اور تجارت پر مکمل طور پر ہندو کا کنٹرول تھا ۔ انگریز نے مسلمانوں کو اس حالت میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی پاداش میں پہنچایا تھا جسے انگریز نے غدر کہا ۔ جیسا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اور اس سے پہلے نواب سراج الدولہ کی پلاسی کی لڑائی اور سلطان ٹیپو شہید کی جنگوں سے پتہ چلتا ہے انگریز کے خلاف آزادی کی جنگ کا آغاز مسلمانوں نے کیا اور انہوں نے ہی قربانیاں دیں، ہندوئوں نے انگریز کے مخبر کا کردار ادا کیا اور نواب سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو شہید کے خلاف سازشیں کرکے انگریز کے اقتدار کو مستحکم کیا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ میں بحیثیت قوم ہندوئوں نے شرکت نہ کی، خود کو الگ تھلگ رکھا اور جب مسلمانوں پر انگریز کا عتاب نازل ہوا تو انگریز کے ساتھ مل کر اقتدار میں شرکت کر لی اور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ اس جنگ آزادی میں مسلمانوں نے بے انتہا قربانیاں دیں اور برطانیہ جیسی بڑی طاقت کے دانت کھٹے کر دئیے۔ لیکن اپنوں اور ہندوئوں کی سازشوں کی وجہ سے شکست کا مُنہ دیکھنا پڑا۔ مسلمانوں کے پسپائی اختیار کرنے کے بعد ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے محب وطن مسلمانوںکو چُن چُن کر سرِ عام پھانسیاں دی گئیں اور کوشش یہ کی گئی کہ مسلمان یہاں پھر کبھی سر نہ ا ٹھائے ۔ لیکن مسلمان دنیا سے مٹ جانے کے لیے پیدا نہیں ہوا۔ قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ ہندوستان کا مُسلمان جب من حیث القوم خاک کا ڈھیر ہو گیا تو اس خاکستر سے ایک ایسی چنگاری نے جنم لیا جسے دنیا نے اقبال کا نام دیا۔ اللہ نے اسے علم کے ساتھ ساتھ بے مثال نورِ بصیرت سے سرفراز کیا اور ایک ایسا دل عطا کیا جو ملّت کے درد سے پُر تھا۔
اقبال کی مردم شناس نظر نے محمد علی جناحؒ کی قائدانہ صلاحیتوں کا بروقت اندازہ کیا اور انہیں قوم کی رہنمائی کے لیے آمادہ کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اقبال اور دیگر مسلم زُعما کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو انگریزوں کی غلامی سے نکالنے کی بھر پور جِدوجُہد کی۔ انہوں نے مسلمان قوم کی علیحدہ شناخت قائم رکھنے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جو برِّصغیر میں مسلمان کی بقاکے لیے انتہائی ضروری تھا۔ مسلم قومِیّت پر اقبال کا ایسا پُختہ اور غیر متزلزل یقین تھا کہ انہوں نے بڑے بڑے مسلمان گروہوں اور اعلیٰ پایہ کے علماء کی ناراضگی کی بھی پروا نہ کی ۔
اس مقالے میں اقبال کی زندگی کے آخری ایّام کے وہ خطوط ہیں جو انہوں نے اپنی بیماری کے دوران (مئی ۱۹۳۶ء اور نومبر ۱۹۳۷ء کے درمیانی عرصہ میں ) قائد اعظم محمد علی جناح کے نام لکھے تھے ۔ ان خطوط سے اس زمانے کے سیاسی حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسلم ہندوستان کے مسائل پر علامہ اقبال کی نظر کتنی گہری تھی ۔ قائد اعظم اور ان کے درمیان کس قدر باہمی ربط اور ہم آہنگی تھی، اور صرف یہ دو دماغ مل کر انگریز اور ہندو کے بڑے بڑے سیاسی دماغوں سے اس طرح ٹکر لے رہے تھے ۔
اقبال کے خطوط قائد اعظم کے نام (Letters of Iqbal to Jinnah) قائد اعظم کی حیات میں محمد شریف طُوسی نے ان کے کاغذات میں سے تلاش کرکے نکالے اور اسی وقت شائع بھی کر دئیے گئے ۔ ذیل میں دئیے گئے خطوط کا اردو ترجمہ محمد جہانگیر عالم نے کیا، جو کہ ۱۹۷۷ء میں شائع ہوا۔ اس سے قبل حیدر آباد دکن سے عبدالرحمن کا ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔
اقبال کے قائدا عظم کے نام یہ خطوط کتنی اہمیت کے حامل ہیں اس کا اندازہ قائد اعظم کے ان الفاظ سے کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے اس کتابچہ کے پیش لفظ میں تحریر کیے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں:
یہ کتابچہ ان خطوط پر مشتمل ہے جو اسلام کے قومی شاعر ، فلسفی اور عارف ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم نے میرے نام مئی ۱۹۳۶ء سے نومبر ۱۹۳۷ء کے درمیان عرصہ میں اپنی وفات سے کچھ ماہ قبل تحریر کیے۔ یہ دور جو جون ۱۹۳۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے قیام اور اکتوبر ۱۹۳۷ء میں لکھنؤ کے تاریخی اجلاس کے دوران پر محیط ہے، مسلم ہندوستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
جس دور کا قائد اعظم نے اُوپر تذکرہ کیا ہے وہ مُسلمانوں کی سخت آزمائش کا زمانہ تھا ۔ ہندوستان کے تقریباً ہر صوبہ میں مسلمانوں کی ایک یا ایک سے زیادہ الگ الگ تنظیمیں تھیں جن میں باہمی کوئی ربط نہ تھا۔ دوسری طرف کانگریس، جو سب سے بڑی اور منظم جماعت تھی، مسلمانوں کے جذبۂ قومیت کو غلط راستہ پر ڈالنے کے لیے نہایت عیّارانہ طور پر مسلم رابطہ عوام، کے نعرے کے ذریعے مسلمانوں کی تنظیموں کو کانگریس سے الحاق پر آمادہ کرنے میں سرگرم تھی، پنجاب کی ایک پرانی سیاسی اور مذہبی جماعت احرار (مجلسِ احرارِ اسلام) اور ایک نوزائیدہ جماعت مجلس اتحاد ملّت جو نیلی پوش کے نام سے مشہور ہوئی اقبال کی توجہ کا مرکز رہیں۔ احرار تو بعد میں پاکستان دشمنی کی حد تک کانگریس کے ساتھ چلے گئے تھے ۔ یہ مسلمانوں کی بدنصیبی تھی کہ اس جماعت کے بانی اراکین چودھری افضل حق ، سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، مولانا حبیب الرحمن اور مولانا مظہر علی اظہر جیسی قد آور شخصیات ہندو کی عیاری کا شکار ہوگئیں ۔ مجلسِ اتحادِ ملّت البتہ زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکی اور اس کے سرگرم اور فعال ارکان جن میں مولانا ظفر علی خاں بھی شامل تھے جلد ہی قائد اعظم اور علامہ اقبال کے قابلِ اعتماد ساتھیوں میں شامل ہوگئے ۔ مولانا ظفر علی خاں تحریکِ آزادی کے نڈر، بیباک، جری سپاہی اور میدانِ صحافت کے شہسوار تھے۔ علامہ اقبال نے ان کے لیے فرمایا تھا : ’’مصطفی کمال کی تلوار نے ترکوں کو جگانے کے لیے جو کام کیا، ظفر علی خاں کے قلم نے وہی کام ہندوستان کے مسلمانوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کیا ہے۔‘‘
علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کی۔یہ اجلاس الہٰ آباد میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک علیحدہ ریاست کا تصور پہلی مرتبہ پیش کیا۔ یہ صر ف ایک تخیل یا تجویز کی حد تک بات نہیں تھی، بلکہ علامہ نے بڑے واضح طریقے سے دلائل دیتے ہوئے ثابت کیا کہ اہلِ ہند کے مسلمانوں کی بقا کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔ ایسی مسلم ریاست کے حصول کے لیے علامہ اقبال نے اس وقت مسلمانوں میں ایک ذہین ترین انسان کی ،جو چوٹی کا قانون داں تھا، کی نشاندہی کی جسے کسی قیمت پر خریدا نہیں جاسکتا تھا، وہ تھے محمد علی جناح جو اس دور میں مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کرسکتے تھے۔ ایک دن اقبال کے گھر چند احباب جمع تھے کہ قائد اعظم کی قابلیت اور دیانت کا ذکر چھڑ گیا۔ تو علامہ اقبال نے کہا ’’مسٹر جناح کو خدائے تعالیٰ نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے جو آج ہندوستان کے کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں آتی۔‘‘ ایک صاحب نے سوال کیا کہ وہ خوبی کونسی ہے۔ اس پر علامہؒ نے انگریز ی میں کہا :
"He is incorruptible and unpurchaseable"
(وہ نہ تو بدعنوان ہے اور نہ اسے خریدا جاسکتا ہے)
قانون ہند مجریہ ۱۹۳۵ء اور کیمونل ایوارڈ نے مسلمانوں کی قیادت کو بے چین کر رکھاتھا۔ مسلمانوں کے پاس اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے ایک ہی راستہ تھا کہ وہ متحد ہو کر اپنی حیثیت منوائیں ۔ اس لیے قائد اعظم نے علامہ اقبال کے مشورے سے مسلم لیگ کی تنظیم نو کا اعلان کیا اور ۲۱ مئی ۱۹۳۶ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا مرکزی پارلیمانی بورڈ تشکیل دیا جس کے ممبران کی تعداد ۵۶ تھی۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال نے اخبارات میں اشاعت کے لیے ایک مسوّدہ قائد اعظم کو روانہ کیا جس کا تذکرہ ۹ جون ۱۹۳۶ء قائد اعظم کے نام ان کے مندرجہ ذیل خط میں موجود ہے :
لاہور
۹ جون ۱۹۳۶ء
محترم جناح صاحب
میں اپنا مسّودہ ارسالِ خدمت کر رہا ہوں۔ کل کے ایسٹرن ٹائمز کا ایک تراشہ بھی ہمراہ ہے، یہ گورداسپور کے ایک قابل وکیل کا خط ہے۔
مجھے امید ہے کہ بورڈ کی طرف سے جاری شدہ بیان میں تمام سکیم کی پوری تفصیل ہوگی، اور سکیم پر اب تک کیے گئے اعتراضات کا شافی جواب بھی ہوگا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی موجودہ حیثیت کا ہندوئوں اور حکومت دونوں سے متعلق اس میں برملا اور واضح ذکر ہونا چاہیے۔ اس بیان میں یہ انتباہ بھی ہو کہ اگر ہندوستان کے مسلمانوں نے موجود سکیم کو اختیار نہ کیا تو نہ صرف یہ کہ جو کچھ گزشتہ پندرہ برسوں میں انہوں نے حاصل کیا ہے ضائع کر بیٹھیں گے بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے قومی شیرازے کو پارہ پارہ کرکے اپنے ہی نقصان کا باعث ہوں گے۔
آپ کا
محمد اقبال
’’مکرر آنکہ : میں نہایت ممنون ہوں گا اگر اخبارات کو روانہ کرنے سے قبل آپ یہ بیان مجھے بھی ارسال کر دیں ۔
’’دوسری بات جس کا ذکر اس بیان میں ہونا چاہیے یہ ہے :
(۱) مرکزی اسمبلی کے لیے بالواسطہ طریق انتخاب نے یہ قطعی طور پر ضروری کر دیا ہے کہ جو اراکین صوبائی اسمبلیوں کے لیے منتخب کیے جائیں وہ ایک کل ہند مُسلم پالیسی اور پروگرام کے پابند ہوں تاکہ وہ مرکزی اسمبلی میں ایسے مسلمان نمائندے منتخب کریں جو اس بات کا عہد کریں کہ مرکزی اسمبلی میں مسلم ہندوستان کے ان مخصوص مرکزی مسائل کی تائید و حمایت کریں گے جو ہندوستان کی دوسری بڑی قوم کی حیثیت سے مسلمانوں سے متعلق ہوں ۔ جو لوگ اس وقت صوبائی پالیسی اور پروگرام کے حامی ہیں، وہی لوگ مرکزی اسمبلی کے لیے بالواسطہ طریق انتخاب کو دستور میں شامل کروانے کے ذمہ دار ہیں۔ بِلاشُبہ ایک غیر ملکی حکومت کا مفاد اسی میں ہے۔ اب جبکہ قوم اس مصیبت (بالواسطہ انتخاب) سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور اس نے انتخاب کے لیے ایک کل ہند سکیم (یعنی مسلم لیگ کی سکیم) تیار کر لی ہے جس کی پابندی تمام صوبائی امیدوار کریں گے، تو وہی لوگ پھر غیر ملکی حکومت کے اشارے پر مصروف عمل ہیں کہ قوم کو اپنی شیرازہ بندی کی کوششوں میں ناکام کریں ۔‘‘
۲۔ ’’اسلامی اوقاف کا قانون جیسا کہ شہید گنج سے ظاہر ہوا، اور اسلامی ثقافت ، زبان، مساجد اور قانونِ شریعت سے متعلق مسائل پر بھی بیان میں توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
(نوٹ : علامہ کے خط میں’’سکیم ‘‘ کا لفظ کئی بار آیا ہے اس سے مراد آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی بورڈ کا منشور ہے جو مسلمانوں کی آئندہ سرگرمیوں کا مرکز رہا )
سر سکندر حیات، پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے، پنجاب کی سیاست میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے اور جس پارٹی سے منسلک تھے وہ یونینسٹ پارٹی تھی جس کے ممبران ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔ اس پارٹی میں پنجاب کے بااثر مسلمان بھی شامل تھے۔ ۱۹۳۶ء میں سر فضل حسین کی وفات کے بعد سر سکندر حیات پارٹی کے لیڈر منتخب ہوئے، پارٹی کے سیکرٹری میاں احمد یار خاں دولتانہ تھے جو پنجاب کی ایک اہم شخصیت تھے ۔علامہ اقبال نے بڑی دانشمندی سے یونینسٹ پارٹی کے چیدہ چیدہ مسلمان ممبران کو وقت کی نزاکت کا احساس دلایا اور یہ حقیقت اُن کے دلنشیں کرا دی کہ ان کی بقا اہلِ ہند کے مسلمانوں کی اجتماعی بقا سے وابستہ ہے۔ اقبال نے بڑی کاوش اور تگ و دو کے بعد جب اپنے ہم نوا ذہن یونینسٹ پارٹی سے یکجا کر لیے تو قائد اعظم کو مندرجہ ذیل لکھا :
’’لاہور
۲۵ جون ۱۹۳۶ء
محترم جناح صاحب
’’سر سکندر حیات دو ایک روز ہوئے لاہور سے روانہ ہوچکے ہیں میرے خیال میں وہ بمبئی میں آپ سے مل کر بعض اہم امور پر گفتگو کریں گے۔ کل شام دولتانہ مجھ سے ملنے کے لیے آئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ یونینسٹ پارٹی کے مسلمان اراکین مندرجہ ذیل اعلان کرنے کے لیے تیار ہیں۔
’’کہ ان تمام امور میں جو مُسلمانوں سے بحیثیت ایک کُل ہند اقلیت سے متعلق ہیں وہ مسلم لیگ کے فیصلے کے پابند ہوں گے اور صوبائی اسمبلی میں کسی غیر مسلم جماعت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کریں گے ۔
بشرطیکہ (صوبائی ) مسلم لیگ بھی حسب ذیل اعلان کرے کہ : ۔
وہ اراکین اسمبلی جو مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر صوبائی اسمبلی میں آئیں گے وہ صرف اس جماعت یا فریق کے ساتھ تعاون کریں گے جس میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی ۔
ازراہ کرم اپنی اولین فرصت میں مُطلع فرمائیے کہ اس تجویز کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ سر سکندر حیات سے جو گفتگو ہو اس کے نتیجہ سے بھی مطلع فرمائیے ۔ اگر آپ انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ان کا ہمارے ساتھ شامل ہو جانا کچھ بعید نہیں ۔
امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔
آپ کا مخلص
محمد اقبال
علامہ اقبال کی کوششوں سے سر سکندر حیات اور مسٹر جناح کے درمیان بات چیت کے بعد باہمی اشتراک کی بنیاد رکھ دی گئی اور ایک معاہدہ’جناح سکندر پیکٹ‘ کے نام سے تشکیل پایا۔
قانونِ ہند ۱۹۳۵ء کے نتیجہ میں ہندوستان میں جو الیکشن ۳۷۔۱۹۳۶ء میں کرائے گئے ان میں کانگریس کو بڑے پیمانہ پر کامیابی ہوئی جس نے کانگریس کے قائد ین کو اس حد تک پاگل کر دیا کہ انہوں نے مسلمانوں کے جداگانہ سیاسی وجود کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو جو تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم ہوئے انہوں نے ۱۹ مارچ ۱۹۳۷ء کو آل انڈیا نیشنل کنوینشن دہلی میں منعقد کی اور صاف طور سے اس امر کا اعلان کیا کہ کانگریس ہی ہندوستان کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت ہے جو ہندوستان میں بسنے والی تمام قوموں کی نمائندگی کا حق رکھتی ہے ۔ علامہ اقبال نے اس صورتِ حال کا بروقت اور سختی سے نوٹس لیا اور دوسرے ہی دن مندرجہ ذیل خط قائدِ اعظم کے لیے سپرد ڈاک کر دیا :
’’لاہور
۲۰ مارچ ۱۹۳۷ء
محترم جناح صاحب
میرا خیال ہے کہ آپ نے پنڈت جواہر لال نہرو کا وہ خطبہ جو انہوں نے آل انڈیا نیشنلکنوینشن میں دیا ہے، پڑھا ہوگا اور اس کے بین السطور جو پالیسی کارفرما ہے اس کو آپ نے بخوبی محسوس کر لیا ہوگا۔ جہاں تک اس کا تعلق ہندوستان کے مسلمانوں سے ہے، میں سمجھتا ہوں آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ نئے دستور نے ہندوستان کے مسلمانوں کو کم از کم اس بات کا ایک نادر موقعہ دیا ہے کہ وہ ہندوستان اور مسلم ایشیا کی آئندہ سیاسی ترقی کے پیش نظر اپنی قومی تنظیم کرسکیں۔ اگرچہ ہم ملک کی دیگر ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں، تاہم ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایشیا میں اسلام کی اخلاقی اور سیاسی طاقت کے مستقبل کا انحصار بہت حد تک ہندوستان کے مسلمانوں کی مکمل تنظیم پر ہے۔ اس لیے میری تجویز ہے کہ آل انڈیا نیشنل کنوینشن کو ایک مُوثرٔ جواب دیا جائے ۔ آپ جلد از جلد دہلی میں ایک آل انڈیا ِمسلم کنوینشن منعقد کریں، جس میں شرکت کے لیے نئی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے علاوہ دوسرے مقتدر مسلم رہنمائوں کو بھی مدعو کریں۔ اس کنوینشن میں پوری قوت اور قطعی وضاحت کے ساتھ بیان کردیں کہ سیاسی مطمح نظر کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند ملک میں جداگانہ سیاسی وجود رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اندرون اور بیرون ہند کی دنیا کو بتا دیا جائے کہ ملک میں صرف اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیں ہے۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے اپنے اندر زیادہ اہم نتائج رکھتا ہے اور کسی صورت سے بھی یہ اقتصادی مسئلہ سے کم اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ اگر آپ ایسی کنوینشن منعقد کر سکیں تو پھر ایسے مسلم اراکین اسمبلی کی حیثیتوں کا امتحان ہو جائے گا جنہوں نے مسلمانانِ ہند کی اُمنگوں اور مَقاصد کے خِلاف جماعتیں قائم کر رکھی ہیں، مزید برآں اس سے ہندوئوں پر یہ عیاں ہو جائے گا کہ کوئی سیاسی حربہ خواہ کیسا ہی عیارانہ کیوں نہ ہو پھر بھی مسلمانانِ ہند اپنے ثقافتی وجود کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کرسکتے۔ میں چند روز تک دہلی آرہا ہوں ۔ اس مسئلہ پر آپ سے گفتگو ہوگی۔ میرا قیام افغانی سفارت خانہ میں ہوگا۔ اگر آپ کو فرصت ہو تو وہیں ہماری مُلاقات ہونی چاہیے ۔ ازراہِ کرم اس خط کے جواب میں چند سطور جلد از جلد تحریر فرمائیے ۔‘‘
آپ کا مخلص
اقبال بار ایٹ لاء
’’مکرر آنکہ : معاف فرمائیے میں نے یہ خط آشوبِ چَشم کی وجہ سے ایک دوست سے لکھوایا ہے۔‘‘
مندرجہ بالا خط میں علامہ اقبال نے قائد اعظم کو پنڈت جواہر لال نہرو کے نیشنل کنوینشن سے پیدا شُدہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک آل انڈیا مسلم کنوینشن کے انعقاد پر زور دیا، جس کے ذریعے ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی ساری دنیا کو بتایا جائے کہ مسلمانانِ ہند اس ملک میں جداگانہ سیاسی وجود رکھتے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ قائد اعظم دنیا کو باور کرائیں کہ اس ملک میں اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیں ہے بلکہ اسلامی نقطۂ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے زیادہ اہم ہے اور یہ مسئلہ کسی صورت بھی اقتصادی مسئلہ سے کم اہمیت کا حامل نہیں ۔ اس سلسلہ میں ۲۲ اپریل ۱۹۳۷ء کو علامہ نے قائد اعظم کو ایک خط لکھا اس میں آل انڈیا مسلم کنوینشن کے جلد از جلد انعقاد کی سفارش کی گئی ۔ خط کا متن درج ذیل ہے :
’’لاہور
۲۲ اپریل ۱۹۳۷ء
’’محترم جناح صاحب
دو ہفتے ہوئے میں نے آپ کو خط لکھا تھا، معلوم نہیں وہ آپ کو ملایا نہیں۔ میں نے وہ خط آپ کو دہلی کے پتہ پر لکھا تھا اور پھر جب میں دہلی گیا تو معلوم ہوا کہ آپ وہاں سے پہلے ہی رُخصت ہوچکے ہیں۔ میں نے اس خط میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہمیں فوراً ایک آل انڈیا مسلم کنوینشن(کسی بھی مقام پر) مثلاً دہلی میں منعقد کرکے حکومت اور ہندوئوں کو ایک بار پھر مسلمانانِ ہند کی پالیسی سے آگاہ کر دینا چاہیے ۔
چونکہ صورتِ حال نازک ہوتی جارہی ہے اور پنجاب کے مسلمانوں کا رحجان بعض ایسے وجوہ کی بنا پر جن کی تفصیل بتانا ( اس وقت ) غیر ضروری ہے، کانگرس کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس معاملہ پر فوری غور فرما کر فیصلہ کریں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس اگست تک ملتوی ہوچکا ہے، لیکن حالات کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر مسلم پالیسی کا اعلان مکرر ہو ۔ اگرکنوینشن کے انعقاد سے پہلے مقتدر مسلمان لیڈروں کا ایک دورہ بھی ہو جائے توکنوینشن یقینا بہت کامیاب رہے گا۔ براہِ نوازش اس خط کا جواب اپنی اولین فرصت میں عنایت فرمائیے۔‘‘
آپ کا مخلص
محمد اقبال
بارایٹ لاء
مندرجہ بالا دو خطوط سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ علامہ اقبال مسلمانوں کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے کتنے بے چین تھے۔ نہرو اپنی سکیم رابطہ عوام کے ذریعہ مسلمانوں کو دھوکا دے کر ان کے لیے ایک الگ مملکت بنانے سے باز رکھنے کی سازش میں سب کچھ کر گزرنا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ مسجد شہید گنج کے سانحہ سے متاثر ہونے والے لوگوں کے زخم خوردہ دلوں کو بھی مرہم کی ضرورت تھی اور اُمّتِ مسلمہ کے یے سب سے بڑا مسئلہ فلسطین ، علاّمہ کو پریشان کئے ہوئے تھا۔ ان مسائل پر نہ صرف ان کی گہری نظر تھی بلکہ وہ عملاً سب کچھ کر رہے تھے، جس کی اس وقت مسلمانوں کو ضرورت تھی ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی روٹی کا مسئلہ ان کے لیے اتنا اہم تھا کہ وہ بار بار مسٹر جناح کو اس طرف متوجہ کر رہے تھے ۔ اس سلسلہ میں انہوں نے مسلم لیگ کے پروگرام اور دستور میں مسٹر جناح کو کچھ تبدیلیوں کا مسودہ دیا جس سے قائداعظم نے پورا پورا اتفاق کیا۔
علاّمہ اقبال نے قائد اعظم کو ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کو ایک بڑا تفصیلی خط لکھا جس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو علاّمہ کے ذہن کا صحیح سمت رحجان صاف نظر آتا ہے ۔ خاص طور سے قائدِ اعظم کے لیے اس خط نے ان کی منزل کا تعّین کر دیا ۔ مکمل خط ملاحظہ ہو :
’’لاہور
۲۸مئی ۱۹۳۷ء
محترم جناح صاحب
آپ کے نوازش نامہ کا شکریہ جو مجھے اس اثنا میں ملا۔ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ مسلم لیگ کے دستور اور پروگرام میں جن تبدیلیوں کے متعلق میں نے تحریر کیا تھا وہ آپ کے پیش نظر رہیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانانِ ہند کی نازک صورت حال کا آپ کو پورا پورا احساس ہے ۔ مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بالائی طبقوں کی ایک جماعت بنی رہے گی یا مسلم جمہور کی جنہوں نے اب تک بعض معقول وجوہ کی بنا پر اس (مسلم لیگ) میں کوئی دلچسپی نہیں لی ۔ میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ کوئی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی ضامن نہ ہو، ہمارے عوام کے لیے باعث کشش نہیں ہوسکتی ۔
’’نئے دستور کے تحت اعلیٰ ملازمتیں تو بالائی طبقوں کے بچوں کے لیے مختص ہیں، اور ادنیٰ ملازمتیں وزراء کے اعزا اور احباب کی نذر ہو جاتی ہیں، دیگر امور میں بھی ہمارے سیاسی اداروں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی طرف کبھی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک ہو تا جارہا ہے۔ مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گذشتہ دو سو سال سے وہ برابر تنزل کی طرف جارہے ہیں ۔ عام خیال یہ ہے کہ اس غربت کی وجہ ہندو کی ساہو کاری (سود خوری) اور سرمایہ داری ہے۔ یہ احساس کہ اس میں غیرملکی حکومت بھی برابر کی شریک ہے ابھی پوری طرح نہیں ابھرا، لیکن آخر کو ایسا ہو کر رہے گا۔ جواہر لال نہرو کی بے دین اشتراکیت مسلمانوں میں کوئی تاثر پیدا نہ کر سکے گی ۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے۔ مسلم لیگ کا سارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے۔ اگر مسلم لیگ نے ( اس ضمن میں) کوئی وعدہ نہ کیا تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ میں اس کا حل موجود ہے اور موجود نظریات کی روشنی میں (اس میں) مزید ترقی کا امکان ہے۔ اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم حقِّ معاش محفوظ ہو جاتا ہے۔ لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقاء ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی میرا ایمان ہے کہ مسلمانوں کی غربت (روٹی کا مسئلہ ) اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔ اگر ہندوستان میں یہ ممکن نہیں ہے تو پھر دوسرا متبادل (راستہ) صرف خانہ جنگی ہے جو فی الحقیقت ہندو مسلم فسادات کی شکل میں کچھ عرصہ سے جاری ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ملک کے بعض حصوں مثلاً شمال مغربی ہندوستان میں فلسطین ( کی داستان) دہرائی جائے گی ۔ جواہر لال نہرو کی اشتراکیّت کا ہندوئوں کی ہیئت سیاسیہ کے ساتھ پیوند بھی خود ہندوئوں کے آپس میں خون خرابہ کا باعث ہوگا۔ اشتراکی جمہوریت اور برہمنیت کے درمیان وجہ نزاع برہمنیت اور بدھ مت کے درمیان وجہ نزاع سے مختلف نہیں ہے۔ آیا اشتراکیّت کا حشر ہندوستان میں بدھ مت کا سا ہوگا یا نہیں ؟ میں اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتا لیکن میرے ذہن میں یہ بات صاف ہے کہ اگر ہندو دھر م اشتراکی جمہوریّت اختیار کر لیتا ہے تو خود ہندو دھرم ختم ہو جاتا ہے۔ اسلام کے لیے اشتراکی جمہوریّت کو مناسب تبدیلیوں اور اسلام کے اصول شریعت کے ساتھ اختیار کر لینا کوئی انقلاب نہیں، بلکہ اسلام کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع ہوگا۔ موجودہ مسائل کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوئوں سے کہیں زیادہ آسان ہے، لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے، مسلم ہندوستان کے ان مسائل کا حل آسان طور پر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یا ایک سے زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آپہنچا؟ شاید جواہر لال کی بے دین اشتراکیت کا آپ کے پاس یہ ایک بہترین جواب ہے ۔
’بہرحال میں نے اپنے خیالات پیش کر دیے ہیں اس امید پر کہ آپ اپنے خُطبہ مُسلِم لیگ کے آئندہ اجلاس کے مباحث میں ان پر سنجیدگی سے توجہ دیں گے۔ مسلم ہندوستان کو امید ہے کہ اس نازک دور میں آپ کی فراست موجودہ مشکلات کا کوئی حل تجویز کرسکے گی۔
آپ کا مخلص
محمد اقبال
’’مکرر آنکہ: اس خط کے موضوع پر میرا ارادہ تھا کہ آپ کے نام اخبارات میں ایک کھلا خط شائع کرائوں مگر غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ موجودہ وقت ایسے اقدام کے لیے موزوں نہیں۔‘‘
علاّمہ اقبال کی زندگی کے آخری ایّام میں ہندوستان کے سیاسی افق پر ایک طوفان برپا تھا۔ علاّمہ بسترِ علالت پر اپنی صحت اور اپنی جان کی پروانہ کرتے ہوئے مسلسل مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ ہندوستان میں خانہ جنگی کی کیفیت تھی، اور ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ سیاست کو مذہب کا رنگ دے کر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی تھی ۔علاّمہ نے قائد اعظم کو اپنے خط میں لکھا کہ ان حالات کے اسباب نہ مذہبی ہیں اور نہ اقتصادی بلکہ خاص سیاسی ہیں ۔ چنانچہ علامہ نے ان کا حل بھی سیاست ہی میں پایا اور قائد اعظم کو اس سلسلے میں اپنی تجاویز یکے بعد دیگرے دو خطوط کے ذریعے پیش کیں۔ یہ خطوط مورخہ ۲۱ جون ۱۹۳۷ء اور ۶ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو لکھے گئے ۔ ان کا مکمل متن حسب ذیل ہے :
’’لاہور
۲۱ جون ۱۹۳۷ء
محترم جناح صاحب
(صیغہء راز)
کل آپ کا نوازش نامہ ملا۔ بہت بہت شکریہ!میں جانتا ہوں کہ آپ بہت مصروف آدمی ہیں، مگر مجھے توقع ہے کہ میرے بار بار خط لکھنے کو آپ بار خاطر نہ خیال کریں گے۔ اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے، اس میں صرف آپ ہی کی ذاتِ گرامی سے قوم محفوظ رہنمائی کی توقع کا حق رکھتی ہے ۔ میں عرض کرتا ہوں کہ ہم فی الحقیقت خانہ جنگی کی حالت ہی میں ہیں اگرفوج اور پولیس نہ ہو تو یہ (خانہ جنگی ) دیکھتے ہی دیکھتے پھیل جائے۔ گذشتہ چند ماہ سے ہندو مسلم فسادات کا ایک سلسلہ قائم ہو چکا ہے۔ صرف شمال مغربی ہندوستان میں گزشتہ تین ماہ میں کم از کم تین (فرقہ وارانہ ) فسادات ہو چکے ہیں اور کم از کم چار وارداتیں ہندوئوں اور سکھوں کی طرف سے توہینِ رسالت کی ہوچکی ہیں۔ ان چاروں مواقع پر رسولؐ کی اہانت کرنے والوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ سندھ میں قرآنِ مجید کو نذر آتش کرنے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ میں نے تمام صورتِ حال کا اچھی طرح سے جائز ہ لیا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ ان حالات کے اسباب نہ مذہبی ہیں اور نہ اقتصادی، بلکہ خاص سیاسی ہیں۔ یعنی مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی ہندوئوں اور سکھوں کامقصد مسلمانوں پر خُوف و ہراس طاری کرنا ہے۔ نیا دستور کچھ اس قسم کا ہے کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی مسلمانوں کو غیر مسلموں کے رحم و کرم چھوڑ دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم وزارتیں کوئی مناسب کارروائی نہیں کر سکتیں بلکہ انہیں خُود مسلمانوں سے ناانصافی برتنا پڑتی ہے تاکہ وہ لوگ جن پر وزارت کا انحصار ہے خوش رہ سکیں، اور ظاہر کیا جاسکے کہ وزارت قطعی طور پر غیر جانبدار ہے۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ ہمارے پاس اس دستور کو دور کرنے کے لیے خاص وجوہ موجود ہیں۔ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیا دستور ہندوئوں کی خوشنودی کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ہندو اکثریتی صوبوں میں ہندوئوں کو قطعی اکثریت حاصل ہے اور وہ مسلمانوں کو بالکل نظر انداز کر سکتے ہیں۔ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو کاملاً ہندوئوں پر انحصار کرنے کے لیے مجبور کر دیا گیا ہے۔ میرے ذہن میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں کہ یہ دستور ہندوستانی مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔
علاوہ ازیں یہ اقتصادی مسئلہ کا بھی حل نہیں ہے جو مسلمانوں کے لیے بہت زیادہ جانکاہ بن چکا ہے ۔
’’کیمونل ایوارڈ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی وجود کو صرف تسلیم کرتا ہے، لیکن کسی قوم کے سیاسی وجود کا ایسا اعتراف جو اس کی اقتصادی پسماندگی کا کوئی حل تجویز نہ کرتا ہو اور نہ کرسکے اس کے لیے بے سود ہے، کانگرس کے صدر نے تو غیر مبہم الفاظ میں مسلمانوں کے جداگانہ سیاسی وجود سے ہی انکار کر دیا ہے۔ ہندوئوں کی دوسری سیاسی جماعت یعنی مہاسبھا نے جسے میں ہندو عوام کی حقیقی نمائندہ سمجھتا ہوں بار ہا اعلان کیا ہے کہ ہندوستان میں ایک متحدہ ہندو مسلم قوم کا وجود ناممکن ہے۔ ان حالات کے پیش نظر، بد یہی حل یہ ہے کہ ہندوستان میں قیام امن کے لیے ملک کی از سرِ نو تقسیم کی جائے ۔ جس کی بنیاد نسلی مذہبی اور لِسانی اشتراک پر ہو۔ بہت سے برطانوی مُدَبّرین بھی ایسا ہی محسوس کر تے ہیں۔ اس دستور کے جلو میں جو ہندو مسلم فسادات چلے آرہے ہیں وہ ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ ملک کی حقیقی صورت حال کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ انگلستان سے روانگی سے قبل لارڈلوتھیان نے مجھے کہا کہ میری سکیم میں ہندوستان کے مصائب کا واحد ممکن حل ہے۔ لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے ۲۵ سال درکار ہیں۔ پنجاب کے کچھ مسلمان شمال مغربی ہندوستان میںمسلم کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کر رہے ہیں اور یہ تجویز تیزی سے مقبولیت اختیار کر رہی ہے۔ مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ ہماری قوم ابھی اتنی زیادہ منظم نہیں ہوئی اور نہ ہی ان میں اتنا نظم و ضبط ہے، اور شاید ایسی کانفرنس کے انعقاد کا ابھی موزوں وقت بھی نہیں۔ لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے خطبہ میں کم از کم اس طریق عمل کی طرف اشارہ ضرور کر دینا چاہیے جو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر اختیار کرنا پڑے گا۔
میرے خیال میں تو نئے دستور میںہندوستان بھر کو ایک ہی وفاق میں مربوط رکھنے کی تجویز بالکل بے کار ہے۔ مسلم صوبوں کے ایک جداگانہ وفاق کا قیام اس طریق پر جس کا میں نے اُوپر ذکر کیا ہے صرف واحد راستہ ہے۔ جس سے ہندوستان میں امن و امان قائم ہو گا اور مسلمانوں کو غیر مَسلِموں کے تسلط سے بچایا جا سکے گا کیوں نہ شمال اور مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ اقوام تصور کیا جائے جنہیں ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی دوسری اقوام کی طرح حق خود اختیاری حاصل ہو۔
ذاتی طور پر میرا خیا ل ہے کہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو فی الحال مُسلم اقلیّت کے صوبوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ مسلم اکثریّت اور مسلم اقلیّت کے صوبوں کا بہترین مفاد اسی طریق کو اختیار کر نے میں ہے ۔ اس لیے مسلم لیگ کا آئندہ اجلاس کسی مسلم اقلیت کے صوبہ کی بجائے پنجاب میں منعقد کرنا بہتر ہوگا۔ لاہور میں اگست کا مہینہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے آپ لاہور میں وسط اکتوبر میں جب موسم خوش گوار ہو جاتا ہے، مسلم لیگ کے اجلاس کے انعقاد کے بارے میں غور فرمائیں۔ پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ سے دلچسپی بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور لاہور میں مسلم لیگ کے آئندہ اجلاس کا انعقاد پنجاب کے مسلمانوں میں ایک نئی سیاسی بیداری کا باعث ہوگا۔
آپ کا مخلص
محمد اقبال، بار ایٹ لاء
لاہور
۶ ا؍کتوبر ۱۹۳۷ء
محترم جناح صاحب
مسلم لیگ کے لکھنؤ اجلاس میں پنجاب سے خاصی تعداد کی شرکت کی توقع ہے۔ یونینسٹ مسلمان بھی سر سکندر حیات کی قیادت میں شرکت کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔ آج کل ہم ایک پُر آشوب دور سے گزر رہے ہیں اور ہندوستانی مسلمان امید کرتے ہیں کہ آپ اپنے خطبے میں جُملہ امور میں جن کا تعلق قوم کے مستقبل سے ہے ان کی کامل اور واضح ترین راہنمائی فرمائیں گے۔ میری تجویز ہے کہ مسلم لیگ ایک مناسب قرار داد کی صورت میں کیمونل ایوارڈ سے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان یا مکرر وضاحت کردے۔ پنجاب، نیز یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سندھ میں بھی بعض فریب خوردہ مسلمان اس فیصلہ کو اس طرح تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں کہ یہ ہندوئوں کے حق میں زیادہ مفید ہو جائے۔ ایسے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہندوئوں کو خوش کرکے وہ اپنا اقتدار بحال رکھ سکیں گے۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ برطانوی حکومت ہندوئوں کو خوش کرنا چاہتی ہے جو کیمونل ایوارڈ گڑ بڑ کرانے کو خوش آمدید کہیں گے ۔ لہٰذا وہ (برطانوی حکومت) کوشش کر رہی ہے کہ اپنے مسلم ایجنٹوں کے ذریعے اس میں گڑ بڑ کرائے۔
مسلم لیگ کونسل کی خالی نشتوں کے لیے میں ۲۸ افراد کی فہرست تیار کروں گا، مسٹر غلام رسول آپ کو وہ فہرست دکھادیں ۔ مجھے امید ہے کہ یہ انتخاب پورے غوروخوض سے کیا جائے گا۔ ہمارے آدمی ۱۳ تاریخ کو لاہور سے روانہ ہوں گے۔
مسئلہ فلسطین نے مسلمانوں کو مضطرب کر رکھا ہے ۔ مُسلم لیگ کے مقاصد کے لیے عوام سے رابطہ پیدا کرنے کا ہمارے لیے یہ نادر موقع ہے ۔ مجھے امید ہے کہ مسلم لیگ اس مسئلہ پر ایک زور دار قرار داد ہی منظور نہیں کرے گی بلکہ لیڈروں کی ایک غیر رسمی کانفرنس میں کوئی ایسا لائحہ عمل بھی تیار کیا جائے گا جس میں مسلمان عوام بڑی تعداد میں شامل ہوسکیں ۔ اس سے ( ایک طرف تو ) مسلم لیگ کو مقبولیت حاصل ہوگی ۔ اور (دوسری طرف) شاید فلسطین کے عربوں کو فائدہ پہنچ جائے ۔ ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کے لیے جس کا اثر ہندوستان اور اسلام دونوں پر پڑتا ہو جیل جانے کے لیے تیار ہوں۔ مشرق کے عین دروازہ پر ایک مغربی چھائونی کا قیام (اسلام اور ہندوستان ) دونوں کے لیے پُر خطر ہے ۔
بہترین تمنّائوں کے ساتھ
آپ کا مخلص
محمد اقبال
بار ایٹ لاء
’’مکرر آنکہ : مسلم لیگ یہ قرار داد پاس کرے کہ کوئی صوبہ دوسری اقوام کے ساتھ کیمونل ایوارڈ سے متعلق کوئی سمجھوتہ کرنے کا مجاز نہ ہوگا۔ یہ ایک کُل ہند مسئلہ ہے اور صرف مُسلم لیگ ہی کو اس کا فیصلہ کرنا چاہیے ۔ ممکن ہے آپ ایک قدم آگے بڑھ کر کہیں کہ موجودہ فضا کسی فرقہ وارانہ سمجھوتہ کے لیے مناسب نہیں۔‘‘
پنجاب کی یونینسٹ پارٹی جس کے سربراہ سر سکندر حیات تھے، اور جیسا پہلے عرض کیا جا چکا ہے اس پارٹی کے ممبران میں ہندو بھی شامل تھے ۔ اس پارٹی کے چند اہم مسلمان ممبران سے علامہ کا مسلسل رابطہ تھا، اور وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ جناح سکندر معاہدہ کے باوجود لوگ اس بارے میں اختلافی بیانات دے رہے تھے کہ سر سکندر حیات نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ اپنی پارٹی کے مسلم اراکین کو ہدایت کریں گے کہ وہ مسلم لیگ کے ممبر بن جائیں اور مسلم لیگ کے قواعد و ضوابط کی پابندی کریں۔ اس اعلان کا فائدہ یہ ہوا کہ پنجاب کے وزیر اعظم ان کے ساتھیوں کی شمولیت سے مسلم لیگ واحد مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر ابھر آئی تھی۔ لیکن یونینسٹ پارٹی کے ممبران کی طرف سے کچھ غیر ذمہ دارانہ بیانات پر علاّمہ اقبال کو کچھ خدشات لاحق ہوئے جن کا اظہار انہوں نے اپنے خطوط میں قائد اعظم سے کیا اور ان سے چند نکات پر وضاحت طلب کی ۔ قارئین کے واسطے علاّمہ کے دو خطوط کا مکمل متن پیش ہے :
’’لاہور
یکم نومبر ۱۹۳۷ء
محترم جناح صاحب
سر سکندر حیات خاں اپنی پارٹی کے چند اراکین کے ہمرا ہ کل مجھے ملے۔ ہمارے درمیان دیر تک مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی کے باہمی اختلافات پر گفتگو ہوتی رہی ۔ دونوں فریقوں کی طرف سے اخبارات کو بیانات جاری کر دئیے گئے ہیں۔ ہر ایک فریق جناح سکندر معاہدہ کے بارے میں اپنی اپنی تاویل کرتا ہے۔ اس سے بہت زیادہ غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے آپ کو لکھا تھا کہ میں یہ سارے بیانات چند روز میں آپ کو ارسال کر وں گا۔ سرِدست میری درخواست ہے کہ آپ مجھے اس سمجھوتہ کی ایک نقل جس پر سر سکندر کے دستخط ہیں اور جو میرے علم کے مطابق آپ کے پاس ہے جلد بھجوا دیجئے ۔ آپ سے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ آیا آپ صوبائی پارلیمانی بورڈ کو یونینسٹ پارٹی کے اختیار میں دینے پر رضا مند ہوگئے تھے۔ سر سکندکا مجھ سے یہ کہنا ہے کہ آپ اس پر راضی ہوگئے ہیں لہٰذا ان کا مطالبہ ہے کہ یونینسٹ پارٹی کی بورڈ میں اکثریت ہونی چاہیے۔ جہاں تک میرا خیال ہے ، جناح سکندر معاہدہ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
براہ کرام !اس خط کا جواب جلد از جلدعنایت فرمائیے ۔ ہمارے آدمی ملک کا دورہ کر رہے ہیں اور مختلف مقامات پر مسلم لیگ ( کی شاخیں) قائم کر رہے ہیں گزشتہ رات لاہور میں ہم نے ایک خاصہ کامیاب جلسہ کیا ہے۔ اب یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
آپ کا مخلص
محمد اقبال
ْْبار ایٹ لاء
لاہور
۱۰ نومبر ۱۹۳۷ء
محترم جناح صاحب
سر سکندر اور ان کے احباب سے متعدد گفتگوئوں کے بعد اب میری قطعی رائے ہے کہ سر سکندر اس سے کم کسی چیز کے خواہش مند نہیں کہ مسلم لیگ اور صوبائی پارلیمانی بورڈ پر اُن کا مکمل قبضہ ہو۔ آپ کے ساتھ ان کے معاہدہ میں یہ مذکور ہے کہ پارلیمانی بورڈ کی نئے سرے سے تشکیل کی جائے گی اور اس میں یونینسٹ پارٹی کو اکثریت حاصل ہو گی ۔ سر سکندر کہتے ہیں کہ آپ نے بورڈ میں اُن کی اکثریت تسلیم کر لی ہے ۔ میں نے پچھلے دنوں آپ سے خط لکھ کر دریافت کیا تھا کہ کیا واقعی آپ نے پارلیمانی بورڈ میں یونینسٹ اکثریت منظور کر لی ہے؟ ابھی تک آپ نے مجھے اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی ۔ ذاتی طور پر مجھے انہیں وہ کچھ دینے میں کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا جس کے وہ خواہش مند ہیں، لیکن جب وہ مسلم لیگ کے عہدیداروں میں مکمل رد و بدل کا مطالبہ کرتے ہیں تو منشائے معاہدہ سے تجاوز کرجاتے ہیں، بالخصوص سیکرٹری ( کی علیحدگی کا مطالبہ) حالانکہ انہوں نے مسلم لیگ کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ کی مالیات پر بھی ان ہی کے آدمیوں کا اختیار ہو ۔ میرے خیال میں تو وہ اس طرح مسلم لیگ پر قبضہ کرکے اسے ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ صوبے کی رائے پوری جان پہچان رکھتے ہوئے، میں مسلم لیگ کو سر سکندر اور اس کے احباب کے حوالے کر دینے کی ذمہ داری نہیں لے سکتا ۔ معاہدے کے باعث پنجاب مسلم لیگ کے وقار کو سخت نقصان پہنچا ہے اور یونینسٹوں کے ہتھکنڈے اسے اور بھی نقصان پہنچائیں گے ۔ انہوں نے ابھی تک مسلم لیگ کے منشور پر دستخط نہیں کیے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ کرنا بھی نہیں چاہتے ۔ لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس، وہ فروری کی بجائے اپریل میں چاہتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ وہ صوبہ میں اپنی زمین دارہ لیگ کے قیام و استحکام کے لیے مہلت چاہتے ہیں ۔ شاید آپ کو معلوم ہوگا کہ لکھنئو سے واپسی پر سر سکندر نے ایک زمیندارہ لیگ قائم کی ہے جس کی شاخیں اب صوبہ بھر میں قائم کی جارہی ہیں۔ اندریں حالات براہ کرم مجھے مطلع فرمائیے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اگر ہوسکے تو بذریعہ تار اپنی رائے سے مطلع فرمائیے وگرنہ فوری ایک مفصل خط تحریر فرمائے۔
آپ کا مخلص
محمد اقبال
ْْبار ایٹ لاء
ان خطوط کے بعد علامہ اقبال کی صحت دن بدن بگڑتی چلی گئی افسوس وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے یا شاید ان کے سپر د اللہ نے بس یہی کام کیا تھا کہ وہ دنیا کے نقشے پر ایک بڑی اسلامی مَملِکت پاکستان کے وجود کا تصور پیش کریں اور اپنے افکار کے ذریعے ایک صحیح مسلم معاشرے کی تعمیر کا خاکہ ہمیں دے جائیں۔
اقبال کے متذکرہ خطوط سے نظریہ پاکستان بڑے واضح طور پر ہمارے سامنے آجاتا ہے ۔ پاکستان کی آئیڈیالوجی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تعمیر کے سلسلہ میں بھی علامہ نے ہمارے لیے صحیح راستہ کا تعین کر دیا ہے، وہ تعمیر پاکستان کے لیے دو پہلو پر وقتاً فوقتاً اظہار خیال کرتے رہتے تھے۔ ان میں ایک معاشی پہلو اور دوسرا ثقافتی پہلو ہے۔ وہ کہتے ہیں :
جہاں بانی سے ہے دُشوار تر کارِ جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشمِ دل میںہوتی ہے نظر پیدا
اقبال فرماتے تھے کہ مسلمان کی روٹی کا مسئلہ اپنی جگہ مُسَلِّم، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم ثقافتی پہلو ہے۔ وہ کہتے تھے کہ مسلمان کسی طرح بھی نہرو کی اشتراکی دہریّت کی طرف نہیں آسکتا۔ اس کی روٹی کے مسئلے کا حل قیام پاکستان میں مضمر ہے جہاں برصغیر کے مسلمان ایک علاقہ میں اپنی مرکزیت قائم کر سکیں گے اور اپنے ثقافتی اور معاشی استحکام کے ذریعہ اپنے اندر وہ اہلیت پیدا کریں گے جس سے عصر جدید میں اسلام کے سیاسی، معاشی ، عمرانی ، اور اخلاقی نظام کا احیا ہو سکے گا، اور مسلمان پوری دنیا کے لیے پاکستان کو ایک ماڈل بنا سکیں ۔ اپنی اس تحریک کو اقبال نے دو خطوط پر چلایا ، سیاسی خطوط پر مسلم لیگ کو مستحکم کیا اور اس کے پلیٹ فارم سے ایک نئی مملکت کا نقشہ پیش کیا ۔ اس تحریک کے لیے قائد اعظم جیسی قیادت کو بروئے کار لا کر اسے تقویت پہنچائی، دوسری طرف ایک ایسا ادارہ Institutionقائم کرنے کی کوشش کی جو اسلام میں عصرِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگِ اجتہاد کے ذریعے نئی تاویلات کرے، تاکہ مجوزہ اسلامی ریاست کے لیے پورا نظام حیات متشکل ہو کر سامنے آجائے ۔ ایسے ادارے کے لیے علاّمہ نے مختلف علماء کو دعوت دی جن میںمولانا انور شاہ کشمیری اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی شامل تھے ۔ یہ تو اتفاق تھا کہ علاّمہ وفات پاگئے اور انہیں پاکستان دیکھنا نصیب نہ ہوا اور ان کی اجتہادی کوششوں کے نتیجے میں وجود میں آنے والی فقہ بھی مرّتب نہ ہوسکی، جس کا انہوں نے زندگی میں کئی بار اظہار بھی کیا تھا کہ وہ اسلامی فقہہ پر ایک کتاب لکھنا چاہتے ہیں ۔ جس میں اسلامی نظامِ حیات کے خدّوخال واضح کرسکیں ۔ اقبال زندہ ہوتے تو وہ علماء کے ذریعے اپنی اجتہادی کوششوں سے مُجوّزَہ اسلامی نظام حیات تیار کرتے، اور قائد اعظم کی قیادت میں بننے والی اسلامی ریاست پاکستان کو آج کے عصری تقاضوں کے مطابق ماڈرن اسلامی ریاست بنا کر پیش کرتے۔ پھر قائد اعظم بھی فوت ہوگئے اور ہماری سیاست انتشار کا شکار ہوگئی جس سے ابھی تک ہم نکل نہیں پائے ۔
بہرحال ہمارے پاس قائد اعظم کی امانت پاکستان ہے اور مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ کا بتایا ہوا اجہتاد کا راستہ ، جس پر چل کر ہم اب بھی اپنی کھوئی منزل کا سراغ پاسکتے ہیں ۔ راستہ خار دار اور کٹھن سہی لیکن ناممکن نہیں ہے ۔ ہمیں اپنی بقا کے لیے اپنی Idiologyکی حفاظت کرنا ہوگی، جو قومیں اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت نہیں کر پاتیں وہ دنیا سے معدوم ہو جاتی ہیں ۔ پاکستان متوسط اور عام آدمی نے بنایا تھا اور اب تک اس کے خون جگر سے اس چمن کی آبیاری ہوتی رہی ہے۔ ہمارے دشمنوں کی یہ کوشش ہے کہ اس طبقہ کے خون کا آخری قطرئہ بھی پاکستان اور اسلام کا نام لے کر نچوڑ لیا جائے اور یوں اس ملک کا نام و نشان دنیا سے مٹ جائے۔ لیکن انہیں معلوم نہیں کہ ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔‘‘ پاکستان کے جس طبقہ نے یہ ملک بنایا تھا وہی متوسط اور غریب خاندانوں کا اہلِ علم طبقہ اس کی نظریاتی اقدار کی حفاظت بھی کرے گا۔ بقول اقبال جو کی روٹی کھانے والے کو اللہ بازوئے حیدر بھی عطا کرتا ہے۔
اپنی قوم کے غریب مگر غیور اور بہادر لوگوں کے لیے اقبال اپنے آقا(ﷺ) کے حضور دعا کرتے ہیں :
کرم اے شہِؐ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظرِ کرم
وہ گدا کہ تونے عطا کیا ہے، جنہیں دماغِ سکندری