اقبال کی مشہور کتاب ضرب کلیم کی ایک نظم بہ عنوان لا اِلٰہَ الاّ اللّٰہ جس قدر اہم ہے اس کا اندازہ سطحی طور پر نظم کو دیکھ کر نہیں لگایا جاسکتا ۔ اگر کسی اچھے گلوکار سے اس کو سُنا جائے تو وقتی طور پر سُرور و کیف سے انسان ہمکنار ہوسکتا ہے، لیکن یہ کیفیت عارضی ہوگی ۔ یہ مختصر سی نظم اپنے اندر بحرِ بیکراں سمیٹے ہوئے ہے جس میں طُوفان بھی چُھپے ہوئے ہیں اور آغوشِ صدف میںمَحوِ خواب ،گُہر بھی موجود ہیں ، جہان سکونِ قلبی کی نعمتیں ہیں ۔
اس نظم کے اشعار اور انداز کا مختصر مفہوم پیش کرتا ہوں
خودی کا سّرِ نہاں لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ
خودی ہے تیغ ، فَساں لا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ
اقبال کے ہاں خودی انسانی رُوح کا جزو لاینفک ہے ۔ قرآنِ پاک میں انسانی روح کو امرِ ربی کہا گیا ہے۔ اسی لیے اقبال یہاں خودی کو لَا اِلٰہ اِلاّ اللّٰہ بتاتے ہیں ۔ خودی کی اس سے مختصر اور اس سے زیادہ جامع تعریف کہیں اور نہیں ملتی ۔
دوسرے مصرعہ میں بتایا جا رہا ہے کہ اگر خُودی کو تیغ کہا جائے تب بھی بات لَا اِلٰہ اِلاّ اللّٰہ تک پہنچتی ہے، کیونکہ تیغ یا تلوار کو بہرحالِ فَساں (سان یا پتھر جس پر تلوار کی دھار تیز کی جاتی ہے ) کی ضرورت ہے۔ دوسرے الفاظ میں تلوارفَساں کے بغیر بیکار ہو جاتی ہے۔
اگلے شعر میں اقبال فرماتے ہیں
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ
اقبال کہتے ہیں کہ دورِ حاضر میں ہر طرف بُت پرستی ہے، کوئی پتھر کے بُت پُوج رہا ہے، کسی کے ذہن میں دولت کے بُت بستے ہیں ، کوئی دل میں غیر اللہ کو بسائے ہوئے ہے، کوئی جُھوٹے پیروں، وَلِیُّوں اور شُعبدہ بازوں کو اپنا نجات دہندہ بنائے ہوئے ہے اور کوئی قبروں کا پُجاری ہے۔ غرضیکہ سارا جہاں اس وقت ایک بُت خانہ بنا ہوا ہے جس کے لیے ایک ابراہیم ؑ جیسے انسان کی ضرورت ہے جس نے اپنے باپ آذر کے تراشے ہوئے بتوں کی بھی پروا نہ کی اور عبادت گاہ کو انسان کے تراشیدہ بتوں سے پاک کر دیا ۔
آج بھی ہو جو براہیم ؑ کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
اب ملّت کو مخاطب کرکے بتا جا رہا ہے
کیا ہے تُو نے متاعِ غرور کا سودا
فریبِ سود و زیاں ، لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ
یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتۂ و پیوند
بُتانِ وہم گماں، لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ
فرماتے ہیں کہ تونے اپنی غیرت اور عزت نفس کو بیچ ڈالا ہے اور یہ نہ سوچا کہ دنیا کا فائدہ اور نقصان سراسر فریب ہے، اگر حقیقی دولت درکار تھی تو وہ لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ میں پوشیدہ تھی، تو نے اپنی خودی کا سودا کرکے دنیا کی دولت خرید لی، اور یہ نہ جانا کہ تو نے ایک بیش بہا چیز بیچ کر اپنے آپ کو کنگال کر ڈالا۔ اقبال کہتے ہیں دنیا کی دولت ہو یا تمہارے دوست اور اقربا، اگر یہ تمہیں اللہ سے بیگانہ کر دیں تو یہی بُتانِ وہم و گُمان ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ، اللہ کے سوا ہر شے کا وجود فانی ہے جس کی حقیقت کچھ نہیں ، یہ سب ہمارے ذہن کے تراشے ہوئے بت ہیں اور ہم اللہ کو چھوڑ کر ان بتوں کی پرستش میں لگے ہوئے اپنی عمرِ عزیز کو ضائع کر رہے ہیں۔ اس نظم کا اگلا شعر بھی پہلے شعر کی طرح اپنے اندر معانی کا سمندر لیے ہوئے ہے :
خِرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زُنّاری
نہ ہے زماں، نہ مکاں! لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ
زمان و مکان ( Time and Space) کی حقیقت کو پانے کے لیے الہٰیات کے مغربی فلسفی اپنی تمام تر ذہنی و عقلی صلاحیتوں کو بَرُوئے کار لا کر بھی بالآخر اس حیرت کدہ میں گم ہوگئے ہیں، بس یوں سمجھئے کہ جو حیثیت مندر کے پجاری کے لیے جنیو (زُنّار) کی ہے بعینہ وہی لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ کے راز سے ناآشنا ،دنیا کے عقلی لحاظ سے نارسا ذہنوں کی ہے۔ اگر عقل اپنے ساتھ عشق کو لے کر نہ چلے تو نورِ عرفان عقل کے پردے میں پنہاں ہو جاتا ہے، اور ہُوش میں آنا حجاب رُوئے جاناں، ہو جاتا ہے۔
یہ نَغمہ فصلِ گُل و لا لہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ
نغمہ لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ وہ مدہوش کن نغمہ ہے کہ جب یہ دل سے نکل کر کسی کی چشم بصیرت میں سرایت کرتا ہے، تو پھر اس مادی دنیا میں بہار ہو، یا خزاں کا موسم ہو، اس کے لیے بہار ہی بہار ہے، جہاں ہر طرف پھول کھلے ہوئے ہیں، طیور نغمہ سراہیںاور شجر و حجر نوا پیرا ہیں … ’’ لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ …… لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ ‘‘
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حُکمِ اذاں، لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ
ہُوا کرے ، اگر لوگ اپنی آستینوں میں بُت چھپائے ہوئے ہیں یا ان کے ذہنوں میں خود تراشیدہ بتوں کا بسیرا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں اذان کہوں اور کلمہ حق بلند کروں ۔ چنانچہ جو لوگ آستینوں میں بُت چھپائے ہوئے ہیں وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہاتھ اُٹھا کر اللہ اکبر کہنے پر مجبور ہوں گے، نتیجتاً ان کی بغلوں میں دبے ہوئے بت گر جائیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا کہ میری بات قوم کے دل کو لگے گی اور لوگ انپے ذہنوں میں بسے ہوئے بتوں کو باہر نکال کر اپنے دل میں لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ کو بسا لیں گے ۔
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشناہو جائے گی