اقبال کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر ہر لفظ ان کے دل سے نکلتا ہے اور ملّت کے افراد کے دل میں اتر جاتا ہے۔ الفاظ کا خوبصورت انتخاب ، اشعار کی شکل میں ان کی بندش ، اس میں اقبال کے خون جگر کی آمیزش اور ان اشعار کے ساز میں پوشیدہ نغمے در حقیقت فضائوں کے تار چھیڑ دیتے ہیں اور انسان بے خود ہو کر جُھوم اٹھتا ہے ۔
اقبال کے بہت ہی خوبصورت تین اشعار قارئین کی تسکینِ ذوق کے لیے پیش کرتا ہوں ۔
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کُوہ و دَمن
مُجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مُرغِ چمن
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اُودے اُودے ، نیلے نیلے ، پیلے پیلے ، پیرہن
حُسنِ بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن
یہ اشعار لکھتے وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر پھر گیا ۔ جبکہ تین ماہ قبل میں پاکستان میں وادی سوات کے دلفریب مقام ’’کالام ‘‘ میں قدرت کی رنگینیوں میں محو، اقبال کی دنیا میں پہنچ گیا اور بے ساختہ گنگنانے لگا :
حُسنِ بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے
ہُوں اگر شہروں سے بَن پیارے تو شہر اچھے کہ بَن
اقبال کے اشعار کی اثر آفرینی وہاں محسوس کی ، معلوم ہوتا تھا کہ اس سر سبز وادی کی فضائیں، دریائے سوات کے پانی کی نغمگیں لہریں ، برف پوش اور خُوبصورت پہاڑوں کی چُوٹیاں اور ہرے بھرے لہلہاتے درخت، سب میرے ساتھ گا رہے ہیں، اور یہ سب مل کر مجھ کو’’ حقیقت ‘‘ کے بہت قریب لے گئے۔ آج بھی، جب وہ منظر یاد آتا ہے تو ایک ہلکا سا جُھونکا، خُوش گوار ٹَھنڈک لیے قلب و جگر کو سیراب کر جاتا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ غزل شاعری کی وہ صِنف ہے جس کے اندر ضروری نہیں کہ ایک شعر کا عنوان دوسرے شعر سے مطابقت رکھے بلکہ غزل کی خوبی یہ ہے کہ اس کے ہر شعر کا تخیل اپنے اندر ایک مکمل مضمون سموئے ہوئے ہو ۔ زیرِ عُنوان نظم کے ابتدائی اشعار میں اقبال ہمیں وادیٔ حُسن لایزال کی جھلک دکھا گئے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ کہیں ہم اس حُسن کی وادی میں گم ہو کر نہ رہ جائیں اور ہم یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ بس یہی حاصل زندگی ہے ۔ چنانچہ وہ ہمیں زندگی کے اہم ترین راز کی طرف متوجہ کرتے ہیں، کیونکہ بقول ان کے ’’سرِّ آدم ہے ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی ‘‘۔ اس مقام پر اقبال فرماتے ہیں:
اپنے مَن میں ڈُوب کر پاجا سُراغِ زِندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بَن
یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اپنے من میں ڈوب کر ہمارا بھی وہی حشر ہوتا جو منصور حلاج کا ہوا تھا۔ اس لیے اقبال چاہتے ہیں کہ دنیا میں رہتے ہوئے ہم اپنی خودی کی نگہبانی کریں اور اسے ’’حقیقت‘‘ میں گم ہو کر فنا ہونے سے بچائیں ، دوسری طرف اپنی خودی کو آلائش دنیوی سے بچا کر اس کی حفاظت کریں ، کہ خودی کے اندر، یا ’’من کی دنیا ‘‘ میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی تمنّا کے لیے روحِ انسانی ہمیشہ بے تاب رہی ہے ، اس میں تمنا کی بے پایاں دولت ہے ، اس کے اندر سُوز ہے، گداز ہے اور اس میں زندگی کی حقیقی مسرتیں اور لذتیں پوشیدہ ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ من کی دنیا میں ڈوب کر ہی زندگی کا سراغ ملتا ہے اور انسان کو پتہ چلتا ہے کہ :
من کی دنیا!من کی دنیا سوز و مستی، جذب و شوق
تن کی دنیا!تن کی دنیا سود و سودا، مکرو فن
مَن کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تَن کی دولت چھائوں ہے، آتا ہے دھن ، جاتا ہے دھن