علامہ اقبال کے افکار و نظریات سے مجھے ابتدا ہی سے دلچسپی تھی، مگر یہ دلچسپی زیادہ تر شاعری کے حوالے سے تھی اور ایم اے میں اقبال کا خصوصی مطالعہ بھی زیادہ تر اسی حوالے سے کیا جاتا ہے۔ جب مجھے ایم اے کے سال آخر میں تحقیقی مقالے کے لئے ’’ اقبال کی اردو نثر‘‘ پر کام کرنے کے لئے کہا گیا تو مجھے قدرے پریشانی ہوئی کیونکہ میں اقبال کی اردو نثر سے کچھ زیادہ آگاہی نہ رکھتی تھی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ میں اقبال کی نثری تحریروں کی ’’ الف ب‘‘ سے بھی واقف نہ تھی تو بجا ہے تاہم اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ’’ اقبال کی اردو نثر‘‘ پر کام شروع کر دیا۔ جوں جوں اقبال کی نثری تحریریں نظر سے گزرتی گئیں، اس موضوع سے میری دلچسپی میں اضافہ ہوتا گیا۔
اس سے قبل، اقبال کی اردو نثر پر ایم اے کا ایک مقالہ بہ عنوان ’’ اقبال کی اردو نثر کا تنقیدی جائزہ ‘‘ (غفور احمد سلیمی) 1973ء میں لکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب کی کتاب ’’ اقبال کی اردو نثر‘‘ بھی 1977ء میں منظر عام پر آئی تھی۔ اس کے باوجود میں نے محسوس کہا کہ اس موضوع پر کام کرنے کی گنجائش موجود ہے، چنانچہ میں نے اس موضوع پر کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔۔۔ میرا زیر نظر مقالہ مکمل ہوا تو اس کے بعد کچھ مزید نثری کتابیں منظر عام پر آئیں، مثلاً ’’ کلیات مکاتیب جلد دوم اور سوم‘‘ مکاتیب سر محمد اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی اور ’’ نگارشات اقبال‘‘ چنانچہ انہیں پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے اپنے ایم اے کے مقالے میں متعدد اضافے اور ترامیم کیں۔ بایں ہمہ میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتی کہ میری یہ کتاب اپنے موضوع پر ہر لحاظ سے جامع و مانع ہے لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ میں نے اسے جامع بنانے کی مقدور بھر کوشش کی ہے تاکہ اقبال کی اردو نثر سے متعلق جملہ مباحث سامنے آ سکیں اور اقبال کی نثر کی اہمیت اجاگر ہو سکے۔
اسی اثنا میں عبدالجبار شاکر صاحب نے ’’ اقبال کی غیر مدون نثر‘‘ (1995ئ) کے زیر عنوان ایم فل کا مقالہ تحریر کیا۔۔۔۔ حواشی اور تعلیقات کی وجہ سے یہ مقالہ خاصے کی چیز ہے۔۔۔۔ علاوہ ازیں اقبال کے نثری سرمائے کا اشاریہ مرتب کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ کمی منصف خاں سحاب کے مرتب کردہ اشاریہ ’’ اقبال کی اردو نثر کا اشاریہ‘‘ سے کافی حد تک پوری ہو جاتی ہے۔
یہ کتاب میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کے نام معنون کر رہی ہوں۔ آپ نہ صرف میرے استاد مکرم ہیں بلکہ عملی زندگی کی پر خار اور پر پیچ راہوں میں صورت خضر ؑ بھی ہیں۔ ہاشمی صاحب کا شکریہ ایک اور حوالے سے بھی مجھ پر واجب الاد ہے کہ انہوں نے ’’ نگارشات اقبال‘‘ کی ترتیب و تدوین اور دیگر مراحل میں جس طرح خلوص و بے غرضی سے تعاون کیا، وہ اس مادہ پرستانہ اور افراتفری کے دور میں کہ جہاں ہر شخص وقت کی تنگی شکوہ کناں ہے، قابل ستائش اور حیرت افزا ہے۔
اپنے محترم والدین اور خصوصاًہ والدہ محترمہ کا شکریہ تو شاید میں کسی طور بھی ادا نہ کر سکوں کیونکہ ان کی دعاؤں، محبتوں اور شفقتوں کے سامنے الفاظ عاجز اور ہیچ ہیں چند دیگر احباب خاص طور پر چھوٹٰ بہن (قمر النسائ) بھی شکریہ کی حقدار ہے کیونکہ انہوں نے متن خوانی کی ذیل میں خاصی معاونت کی ہے۔
زیب النساء
15مئی 1995ء
٭٭٭