٭تعارف اور پس منظر
بانگِ دراکی یہ آخری نظم انجمن حمایت اسلام کے اڑتیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ مارچ ۱۹۲۳ء میں پڑ ھی گئی۔ اس سلسلے میں قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ آخری طویل نظم ہے جو اقبال نے انجمن کے جلسے میں خود پڑ ھ کر سنائی۔ بانگِ درا کی ترتیب کے وقت ‘ بہت سی دوسری نظموں کے برعکس ،اس نظم کو بغیر کسی ترمیم کے مجموعے میں شامل کیا گیا۔
’’خضرراہ ‘‘ کے آخری حصے میں اقبال نے مسلمانوں کے روشن اور پر امید مستقبل کی جو نوید سنائی دی’’ طلوعِ اسلام‘‘ اس کا تتمہ ہے۔
۱۹۲۳ء کی صورت حال گذشتہ سال کے مقابلے میں حوصلہ افزا اور اطمینان بخش تھی۔ ترکوں کو یونانیوں کے خلاف جوابی کارروائیوں میں خاصی کامیابی حاصل ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ ستمبر ۱۹۲۲ء میں انھوں نے عصمت پاشا کی سر کر دگی میں سمرنا پر قبضہ کر لیا۔ اس فتح پر ہندی مسلمانوں نے زبردست خوشیاں منائیں اور مساجد میں گھی کے چراغ جلائے۔ ترکوں کو مشرقی یونان اور اَدَرْنہ بھی واپس مل گئے۔ ایران بھی انقلابی تبدیلیوں کی طرف گامزن تھا۔ مصر سے برطانوی پروٹیکٹوریٹ ختم ہوا اور سعد زاغلول پاشا کی قیادت میں مصر نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ مراکش میں ہسپانوی فوج کے مقابلے میں مجاہد ریف عبدالکریم کا پلہ بھاری تھا۔ ہندستان میں تحریک ِ ترکِ موالات زوروں پر تھی‘ جس کے متاثرین میں اسی فیصد مسلمان تھے۔ بیداری کی اس لہر نے ہندی مسلمانوں کے جذبات میں زبردست ہل چل مچادی تھی۔ غرض یوں معلوم ہوتا تھا کہ تمام مسلمان ممالک سامراجیت اور غلامی کا جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکنے کے لیے انگڑائی لے کر بیدار ہو رہے ہیں۔
علامّہ اقبال اس کیفیت سے بے خبر نہ تھے۔ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ اسی کیفیت کا پر جوش اور فن کارانہ اظہار ہے۔ غلام رسول مہرؔ کے بقول یہ نظم ’’ سراسر احیاے اسلامیت کے پرمسرت جذبات سے لبریز ہے‘‘۔
فکری جائزہ
نظم میں کل نو بند ہیں ۔ نظم کے مطالب و مباحث کو مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ جہانِ نوکی نوید
۲۔ کائنات میں مقامِِ مسلم
۳۔ مسلمان کا کردار اور اس کی خصوصیات
۴۔ جنگِ عظیم کے نتائج اور اثرات پر تبصرہ
۵۔ مغرب سے مایوسی
۶۔ انسانیت کا مستقبل: مسلمان
۷۔ روشن مستقبل
٭جہانِ نو کی نوید:
آغاز ‘عالمِ اسلام کے موجودہ حالات اور نت نئی رونما ہونے والی تبدیلیوں پر تبصرے سے ہوتا ہے۔ عالمِ اسلام پر جنگِ عظیم اول ( ۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ئ) کا مثبت اثر یہ ہوا ہے کہ مسلمان طویل خواب سے بیدار ہو رہے ہیں ۔ طوفانِ مغرب نے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ستاروں کی تنک تابی صبح نو کا پیام دے رہی ہے۔ احیاے اسلام کے لیے مسلمانوں میں جو تڑپ اور لگن پیدا ہو رہی ہے‘ اسے دیکھ کر اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ وہ ایک بار پھر اقوامِ عالم کی رہنمائی کے منصب پر فائز ہوں گے اور ساری دنیا کی فکر ی‘ تہذیبی اور سیاسی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں گے۔ یہ جہانِ نو کی نوید ہے۔
یہاں علامّہ اقبال عالمِ اسلام کے عظیم ترین حادثے عرب ترک آویزش کی طرف اشارہ کررہے ہیں جس کے نتیجے میں :
الف: عربوں نے ترکوں کو بڑے پیمانے پر تہ تیغ کیا۔
ب: باہمی انتشار و افتراق سے مسلمانوں کی وحدت پارہ پارہ ہو گئی۔
ج: وہ دنیا میں رسوا اور ذلیل ہو گئے۔
مگر اب تاریخ کے سٹیج پر منظر بدل رہا ہے۔ اگرچہ امت ِ خلیل اللہ زمانے میں رسوا ہوچکی ہے لیکن اب ا س دریا سے تابدار موتی پیدا ہوں گے کیونکہ امت ’’ آہِ سحر گاہی‘‘ کی حقیقت سے آگاہ ہو چکی ہے۔’’سرشکِ چشمِ مسلم‘‘ سے مراد دینی جذبہ و جوش اور احیاے اسلام کے لیے ایک ولولہ ‘سوز و تڑپ اور لگن ہے۔
اقبال کے خیال میں اب مسلمانوں کا مستقبل بہت تابناک ہے ۔ اگرچہ خلافت ِ عثمانی کا خاتمہ ہو گیا مگر ترک ایک نئے سفر اور نئی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ باہمی اختلافات کے بھیانک نتائج سامنے آنے پر ملت ِ اسلامیہ کے دل میں اتحاد و اتفاق کی اہمیت کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ شاخِ ہاشمی سے پھوٹنے والے نئے برگ و بار اسی احساس کا سرچشمہ ہیں۔ نظم کے دوسرے بندمیں جہانِ نو کی یہ نو ید ‘ دراصل ان سوالات کا جواب ہے جو شاعر کے دل میں ’’خضر راہ‘‘ لکھتے وقت پیدا ہوئے تھے اور وہ عالم اسلام کی پریشان حالی کو دیکھ کر بے چین اور مضطرب ہو رہا تھا۔ ’’ خضر راہ‘‘ میں شاعر کہتا ہے: ؎
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل ؑ
خشت بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز
ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے ‘ ہیں آج مجبورِ نیاز
یہ ایک طرح کا سوال بھی ہے اور شاعر کی دلی تڑپ اور درد و کرب کا اظہار بھی۔ ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں اس کا جواب یوں ملتا ہے:
سرشکِ چشمِ مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل ؑ اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا
’’ خضر راہ‘‘ میں سوال :
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش
’’طلوعِ اسلام‘‘ میں جواب:
اگرعثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے؟
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
’’خضر راہ ‘‘ میں سوال:
حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
’’طلوعِ اسلام‘‘ میں جواب:
کتابِ ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
اسی طرح او ر بہت سے ایسے سوالوں کا جواب بھی ہمیں ’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں ملتا ہے جو ’’ خضر راہ‘‘ میں اٹھائے گئے تھے۔
شاعر نے مسلمانوں کو جہانِ نو کی نوید سنائی لیکن وہ جہا نِ نو کی منزل تک تبھی پہنچیں گے جب جہد و عمل کے راستے پر ان کا سفر مسلسل جاری رہے گا۔ چنانچہ ایک طرف تو اقبال دست بدعا ہیں کہ مسلمانوں کے دل میں ’’ چراغِ آرزو‘‘ روشن ہو جائے اور ملت اسلامیہ کا ایک ایک فرد حصولِ مقصد کی خاطر سر بکف میدانِ جہاد میں نکل آئے( پہلے بند کا آخری شعر) … دوسری طرف وہ اس توقع کا اظہار کرتے ہیں کہ شاید میری نحیف آواز مسلمانوں کے لیے بانگِ درا ثابت ہو۔
٭کائنا ت میں مقامِ مسلم:
شاعر مسلمانوں کو ان کے روشن مستقبل کی نوید سنا کر انھیں جہد و عمل پر اکسا رہا ہے۔ اس لیے وہ یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ کائنات میں مقامِ مسلم کیا ہے؟
اول : مسلمان خداے لم یزل کا خلیفہ اور نائب ہے اور اس ابراہیمی نسبت کی وجہ سے دنیا کی تہذیب و تعمیر اس کا فریضہ ہے۔
دوم :مسلمان کو کائنات میں ’’مقصودِ فطرت‘‘ ہونے کے سبب جاودانی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے جہد عمل کی کوئی انتہا نہیں۔
سوم :اللہ نے اسے نیابتِ الٰہی کے بلند درجے پر فائز کیا ہے تو یہ ایک آزمایش بھی ہے۔ کائنات کے مختلف النوع امکانات کو بروے کار لانا اس کے فرائض میں داخل ہے۔
چہارم: اس مقام و مرتبے کا تقاضا یہ ہے کہ اب اسے نہ صرف ایک ملت کی حیثیت سے اپنی بقا و تحفظ کی فکر کرنی ہے بلکہ ایشیا کی پاسبانی کا فریضہ بھی انجام دینا ہے۔
نظم کے تیسر ے بند میں ’’ کائنات میں مقامِ مسلم‘‘ کے یہی چار پہلو بیان کیے گئے ہیں۔ پیامِ مشرق میں یہی بات یوںبیان کی گئی ہے:
ضمیر کن فکاں غیر از تو کس نیست
نشان بے نشان غیر از تو کس نیست
قدم بے باک تر نہِ در رہِ زیست
بہ پہناے جہاں غیر از تو کس نیست
٭مسلمان کا کردار۔ اہم خصوصیات:
مسلمان اگر اپنے مرتبے و منصب کا شعوری احساس رکھتا ہے تو پھر ان عظیم ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کے لیے‘ جن کے تصو ّر سے زمین اور پہاڑ لرز گئے تھے اور انھوں نے خلافت کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا‘ مسلمان کو اپنے عمل و کردار میں وہ پختگی اور مضبوطی پیدا کرنا ہوگی ‘ جو اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے ضروری ہے۔ اقبال کے نزدیک مسلمان کو اپنے عمل و کردار کے ذریعے خود کو اس منصب کا اہل ثابت کرنا ہوگا۔ بنیادی طور پر دنیا کی امامت کے لیے صداقت‘ عدالت اور شجاعت کی تین خصوصیات ضروری ہیں۔ مگر خلوصِ عمل اور کردار کی پختگی کے لیے اقبال نے چند اور خصوصیات کو بھی لازمی قرار دیا ہے۔ سب سے پہلی اور ضروری چیز ایمان ہے:
گماں آباد ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا
_______
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
_______
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہے زنجیریں
اور:
یقیں محکم ‘ عمل پیہم‘ محبت فاتحِ عالم
یہاں ’’ یقیں ‘‘ سے مراد ایمان ہے۔ خدا ‘ رسولؐ‘ کتب ِ سماوی‘ جزا و سزا‘ اور ان مبادیات پر ایمان جو اسلام کی اساس ہیں۔ قرآن حکیم کے نزدیک دنیا میں سربلند ی کے لیے ایمان کی شرط لازمی ہے۔وَاَنْتُمْالْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(سورہ آل عمران: ۱۳۹) اورتم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ( صاحب ایمان ) ہو۔
اس ایمان و ایقان کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان میں کردار کی بعض خوبیاں پیدا ہوں ۔ علامّہ اقبال کہتے ہیں کہ’’ جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبارسے اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِکے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا‘ جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا ‘ اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکے گا اور اخو ّت‘ حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندۂ معنی نہ ہو ں گے‘‘۔ (سال نو کا پیغام: مشمولہ: حرف اقبال ،ص۲۱۹ص ۲۲۴۔ ۲۲۵)
مسلمانوں کو اپنے کردار میں زورِحیدرؓ ‘ فقرِ بوذرؓ اور صدقِ سلمانی ؓ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ دورِ حاضر کے فتنوں سے نبرد آزما ہونے اور دنیا میں ظلم و استبداد اور چنگیزیت کی بیخ کنی کے لیے ’’سیرتِ فولاد‘‘ کا ہونا ضروری ہے جو صرف انھی صفات کے ذریعے پیدا ہو سکتی ہے۔ مسلمان میں ’’ پرواز شاہین ِ قہستانی‘‘ بھی زورِحید ر کے بغیر نہیں پیدا ہو سکتی ۔ کبھی ’’سیلِ تند رو‘‘ کی ضرورت ہوتی اور کبھی ’’جوے نغمہ خواں‘‘ کی:
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
چوتھا ‘ پانچو اں اور ساتواں بند انھی نکات کی تفسیر ہے کہ اگر مسلمان ذوقِ یقیں‘ محبت فاتحِ عالم اور عمل پیہم کی صفات کو اپنا لے تو پھر ’’ ولایت‘ بادشاہی اور علم ِ اشیا کی جہانگیری‘‘ اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ پھر وہ صرف ایک ’’نگاہ ‘‘سے ایک دنیا کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ وہ پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن سکتا ہے۔ جہادِ زندگانی میں مسلمان کی حیثیت نہ صرف یہ کہ فاتح عالم کی ہوگی ‘ بلکہ یہ انگارۂ خاکی ‘ روح الامیں کی ہمسری کادعویٰ بھی کر سکے گا مگرشرط وہی ہے کہ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ… ورنہ اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌفطرت کی تعزیریں بہت سخت ہیں: ’’حذراپے چیرہ دستاں، سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔‘‘
٭جنگِ عظیم کے نتائج و اثرات پر تبصرہ :
چھٹے بند میں جنگِ عظیم ( اول ) کے واقعات کے آئینے میں اس کے نتائج اور خصوصاً عالم اسلام پر اس کے اثرات پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر آچکا ہے‘ پہلے پہل یونانیوں نے برطانیہ کی مدد سے ترکوں سے ان کے بہت سے علاقے چھین لیے مگر ۱۹۲۲ء میں پانسا پلٹا‘پہلے تو سقاریا کی جنگ میں یونانی ‘ ترکوں کے ہاتھوں پٹ گئے ۔ سمرنا کی فتح سے ان کے حوصلے بہت بڑ ھ گئے۔ یہاں ترکوں اور یونانیوں کے درمیان برپا ہونے والے انھی معرکوں کی طرف اشارہ ہے۔ ’’ ہوئے مدفونِ دریا زیردریا تیرنے والے‘‘ کا اشارہ ان یونانیوں کی طرف ہے جنھوں نے آب دوزوں کے ذریعے جنگ میں حصہ لیا۔ ڈاکٹر ریاض الحسن کا خیال ہے کہ اس مصرعے میں اقبال کا اشارہ لارڈ کچنر کی طرف ہے ۔ کچنر ‘ جنگِ عظیم اول میں برطانیہ کا وزیر جنگ تھا۔ مذاکرات کے لیے‘ ایک آب دوز کے ذریعے ‘ روس جارہا تھا کہ جرمنوں نے حملہ کر کے اس کی آب دوز غرق کر دی۔ ( قومی زبان کراچی: نومبر ۱۹۸۰ئ)
کیمیا پر ناز کرنے والے یونانی جدید ترین اسلحے اور جنگی سازو سامان سے لیس تھے۔ ترکوں کے پاس اسلحہ کم اور ناقص تھا‘ مگر ان کے عزم و ہمت ‘ جرأت و شجاعت اور ولولۂ تازہ نے انھیں مفتوح سے فاتح بنا دیا۔ اقبال نے ’’ خضر راہ‘‘ میں شریف مکہ کی غداری کا ذکر کیا تھا:
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی
یہاں دوبارہ اس کا تذکرہ ہوا ہے کہ ’’ پیرحرم‘‘ ( شریف مکہ) کی غداری کے سبب حرم رسوا ہوا۔ اس بند کے آخری شعر میں اقبال نے ایک بار پھر ایمان و ایقان کو تعمیر ملت کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے کہ ملت کی تقدیر اسی سے وابستہ ہے اور یہی اس کی اصل قو ّت ہے۔
٭مغرب سے مایوسی:
عالمِ اسلام خصوصاً ترکی کے حالات سے اقبال کی نظر دوسرے یورپی ملکوں کی طرف جاتی ہے‘ جہاں دنیا کی پہلی خوفناک جنگ لڑی گئی۔ اس کا سبب مختلف یورپی اقوام کی خودغرضیاں‘ مفاد پرستیاں اور نوآبادیاتی حسد اور ہوس تھی۔ اس جنگ نے تباہی و بربادی ‘ خون آشامی اور ہلاکت آفرینی کا فقید المثال نمونہ پیش کیا۔ اقبال کا حساس اور درد مند دل انسان کی مظلومیت پر تڑپ اٹھا۔ چنانچہ اس نے آٹھویں بند کے پہلے چار شعروں میں مختلف پہلوؤں سے مغرب پر تنقید کی ہے:
۱۔ یورپ کا نو آبادیاتی نظام شہریاری، جس کے ذریعے یورپ نے اپنے سامراجی نظام کو مستحکم کیا‘ ایک لعنت ہے۔
۲۔ یورپ کا سرمایہ دارانہ نظام دراصل سامراجیت کی بدترین شکل ہے۔
۳۔ مغرب کی جدید تہذیب کی ظاہر ی چمک دمک جھوٹے نگوں کی طرح اور سراب کی مانند ہے۔
۴۔ مغربی عقلیت نے سائنسی ترقی کی مگرنتیجہ دنیا کی عالم گیر تباہی کی شکل میں سامنے آیا اور روحانیت بھی ختم ہو گئی۔
مغرب کا نو آبادیاتی نظام ہو یا سرمایہ داری‘ مغربی تہذیب ہو یا عقلیت… بحیثیت مجموعی مغرب‘ اقبال کی تنقید کا ہدف ہے۔ وہ مغرب سے کس حد تک مایوس تھے‘ اس کا اندازہ ان کے یکم جنوری ۱۹۳۸ء کے ریڈیائی پیغام سے ہوتا ہے‘ کہتے ہیں:
’’ ملوکیت کے جبر و استبدا نے جمہوریت ‘ قومیّت‘ اشتراکیت‘ فسطائیت‘ اور نہ جانے کیا کیا نقاب اوڑ ھ رکھے ہیں۔ ان نقابوں کی آڑ میں دنیا بھر میں قدرِ حریت اور شرفِ انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہور رہی ہے کہ تاریخِ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ جن نام نہاد مدبروں کو انسانوں کی قیادت اور حکومت سپرد کی گئی ہے ‘ وہ خون ریزی ‘ سفاکی اور [استبداد] کے عفریت ثابت ہوئے۔ انھوں نے ملوکیت اور استعمار کے جوش میں لاکھوں کروڑوں مظلوم بندگانِ خدا کو ہلاک و پامال کر ڈالا۔ انھوں نے کمزور قوموں پر تسلط حاصل کرنے کے بعد ان کے اخلاق‘ ان کے مذاہب ‘ ان کی معاشرتی روایات‘ ان کے ادب اور ان کے اموال پر دستِ تطاول دراز کیا۔ پھر ان میں تفرقہ ڈال کر ان بد بختوں کو خوں ریزی اور برادر کشی میں مصروف کر دیا‘‘۔ ( حرفِ اقبال: ص۲۱۷۔۲۱۸)
٭انسانیت کا مستقبل، مسلمان:
مغرب سے مکمل مایوسی کے بعد اقبال کی نظر میں انسانیت کا مستقبل مسلمان سے وابستہ ہے۔ ان کے نزدیک مسلمان اس گلستان ( دنیا ) کا بلبل ہے۔ اس کا گیت گلستان کے لیے بادِبہاری کا حکم رکھتا ہے۔ وہ بلبل کو گیت کی لَے بلند کرنے اور پرجوش آواز میں گیت گانے کے لیے اکساتے ہیں ۔ ان کے نزدیک مسلمان کے لیے محض نام کا مسلمان ہونا کوئی قابلِ لحاظ بات نہیں ‘ آخرت میں قسمت کا فیصلہ عمل و کردار سے ہوگا۔ یعنی:مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہِ وَ مَنْ اَسَآئَ فَعَلَیْہَا(سورۃ حم السجدہ: ۴۶)جس شخص نے کوئی نیک کام کیا تو (اس کا اجر) اس کے لیے ہے اور جس نے برا کیا تو اس ( برائی ) کا وبال اسی کے اوپر ہوگا۔
٭روشن مستقبل پر اظہارِ مسرت:
ترکوں کی فتح عالم اسلام کے لیے ایک بہت بڑا سہارا(Asset) تھی ۔ یوں معلوم ہوتا تھا‘ جیسے عالمِ اسلام انگڑ ائی لے کر بیدار ہو رہا ہے۔ ترکوں کی فتح گویا مسلم نشأت ثانیہ کی طرف پہلا قدم تھا:
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے ‘ وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
دوسری طرف دنیا کی امامت کے دعوے دار‘ یورپ کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکاٖ تھا۔ یورپ کی نام نہاد تہذیب نے دنیا کو تباہی و بربادی اور بربریت و دہشت گردی کے سوا کچھ نہ دیا۔ اقبال کے سال نو کے پیغام( یکم جنوری ۱۹۳۸ئ) سے انداز ہ ہوتا ہے کہ وہ مغرب سے قطعی مایوس تھے۔ منطقی طور پر انھوںنے قرار دیا کہ اب اسلام ہی بنی نوع انسان کے مسائل حل کر سکتا ہے۔ چنانچہ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کے آخری بند میں اقبال نے اس پر بڑ ے جوش و خروش کے ساتھ خوشی اور مسرت کا اظہار کیا ہے ۔ یہاں ملت اسلامیہ کی پوری تاریخ ان کے سامنے ہے۔ ’’خواجۂ بدر و حنین‘‘ اور ’’شاخِ خلیل ‘‘ؑ کی تلمیحات سے مسلمانوں کے شان دار ماضی کی طرف بڑ ے لطیف اشارے کیے ہیں۔ وہ ان شہیدوں کو نہیں بھولے جنھوں نے ہر نازک موقع پر قوم کی سربلندی اور دین کے تحفظ کی خاطر اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ اقبال کے نزدیک جب تک ملت کی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں ‘ دنیا کی کوئی طاقت اسے نیست و نابود نہیں کر سکتی۔ یہاں اقبال نے حافظ شیرازی کا ایک فارسی شعر نقل کیا ہے:
بیا ساقی نواے مرغ زار از شاخسار آمد
بہار آمد‘ نگار آمد‘ نگار آمد‘ قرار آمد
یہ شعر ایک ایسی کیفیت کی ترجمانی کرتا ہے ‘ جب کوئی شخص‘ مسرت کے انتہائی جذبات سے لبریز دل کے ساتھ‘ دوستوںکا ہاتھ پکڑ کر خوشی کے عالم میں رقص کرنے لگتا ہے۔
فنی تجزیہ
’’ طلوعِ اسلام‘‘ ترکیب بند ہیئت میں کل نو بندوں پر مشتمل ہے۔ نظم کی بحر کا نام ہزج مثمن ہے ۔ بحر کا وزن اور ارکان یہ ہیں:مَفَاعِیْلُنْ مَفَاعِیْلُنْ مَفَاعِیْلُنْ مَفَاعِیْلُنْ
٭براہِ راست خطاب:
اقبال نے اپنی بعض دوسری طویل نظموں‘ مثلاً :’’ ذوق و شوق‘‘ یا ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کے برعکس ’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں تخاطب کا بلاواسطہ اور براہِ راست طریقہ اختیار کیا ہے۔
یہ نظم ایک ایسے دور میں لکھی گئی جب بحیثیت ِ مجموعی عالمِ اسلام کے حالات میں خوش گوار تبدیلیاں پیدا ہو رہی تھیں ۔ اس سبب سے اقبال کے جذبات میں تلاطم برپا تھا۔وہ مسلم دنیا کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے‘ مسلمانوں کو دعوتِ جہد و عمل دیتے ہیں اور روشن مستقبل کی خوش خبری سناتے ہیں۔ یہاں انھوں نے براہِ راست خطاب کا طریقہ اختیار کیا ہے۔
یہی سبب ہے کہ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں رمز و ایما کا وہ بلند معیار نہیں ملتا جو اقبالؔ کی بعض دوسری نظموں میں پایا جاتا ہے۔ جہاں فکر اور سوچ کم اور تلقین و اظہار زیادہ ہو اور وہ بھی براہِ راست‘ تو ظاہر ہے کہ بات’’ درحدیثِ دیگراں‘‘ کے بجاے بلا واسطہ اور وضاحت سے کہی جائے گی۔
٭متنوع لہجہ:
نظم کا آغاز بڑ ے نرم اور دھیمے لہجے میں ہوتا ہے۔ پہلے مصرعے میں ’’ ستاروں کی تنک تابی‘‘ کی ترکیب نرمی ‘ سبک روی‘ گداز اور گھلاوٹ کا احساس پید ا کر رہی ہے‘ دوسرے مصرعے اور پھر دوسرے شعر تک پہنچتے پہنچتے شاعر کے لب و لہجے میں گرمی ‘ جوش اور ولولہ پیدا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جوں جوں آگے بڑ ھتے جائیں ‘ لب و لہجے کی تیزی و تندی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ طوفانِ مغرب، تلاطم ہاے دریا، شکوہِ ترکمانی، نوارا تلخ تر می زن، تقدیر سیمابی کی تراکیب گواہی دے رہی ہیں کہ شاعر اپنے بیان کے اظہار میں قو ّت اور شدت سے کام لینا ضروری سمجھتا ہے ۔ یہاں تک کہ پہلے بند کے ختم ہوتے ہوتے شاعر ’’چراغِ آرزو روشن کرنے‘‘ اور شہیدِ جستجو کی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔
دوسرے بند کے آغاز میں شاعر کا لہجہ پھر قدر ے نرم ہو جاتا ہے۔ مگر بند کے اختتام پر ’’سوزو سازِ زندگی‘‘ کے ذکر سے بیان میں پھر وہی گرمی اور وہی جوش پیدا ہو جاتا ہے۔ لب و لہجے کا یہ اختلاف پوری نظم میں موجود ہے۔ اظہارِ بیان کبھی تو بہت پر جوش اور ولولہ خیز ہوتا ہے اور کبھی اس میں نرمی ‘ دھیما پن‘ اور گھلاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اقبال کبھی مسلمان کو براہِ راست ‘ جہد و عمل اور حرکت پر اکساتے ہیں اور کبھی ناصحانہ ‘ واعظانہ اور مشفقانہ لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ جب وہ دنیا کی مختلف قوموں کے حالات پر تبصرہ کرتے ہیں تو ان کا اندازبیان تجزیاتی ہوتا ہے اور انسان کی زبوں حالی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے اشعارسے سوزو گداز اور درد مندی ٹپکتی ہے۔ اندازِ بیان کی اس رنگینی اور لب و لہجے کے تنوع نے نظم کو اس کائنات کی طرح خوب صورت اور رنگین و دل کش بنا دیا ہے جس کی وسعتوں میں کہیں پہاڑ نظر آتے ہیں‘کہیں میدان اور کہیں دریا‘ کہیں بلند و بالا اور تناور درخت ہیں اور کہیں چھوٹے چھوٹے نرم و نازک پودے ‘ کہیں پھلوں سے لدے پھندے درخت جھومتے ہیں اور کہیں رنگارنگ پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو فضا کو معطر کر رہی ہے۔
مگر جیسا کہ اوپر بھی ذکر آچکا ہے‘ لب و لہجے کے تنوع کے باوجود ‘ بیان میں جوش و خروش اور مسرت و سرمستی کی کیفیت زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔ اقبال کے سامنے وہ ’’ عالمِ نو‘‘ طلوع ہورہا تھا کہ صدیوں سے’’ زندانی‘‘مسلمان ’’ شگافِ در‘‘ سے اس کے منتظر تھے۔ یہ بات بھی کچھ کم مسرت خیز نہیںتھی کہ مستقبل مسلمانوں کا ہے۔ ایک ایسے عظیم الشان موقع بر جب تاریخ ایک نازک موڑ مڑ کر ایک نئے اور نسبتاًروشن دور میں داخل ہورہی تھی‘ شاعر کے لہجے میں سرمستی کی کیفیت پیدا ہو جانا عین فطری ہے۔ نظم کا آخری بند جو شدتِ جذبات کے تحت اقبال نے فارسی میں لکھا ‘ جوش و خروش اور مسرت و سرمستی کا بھر پور اظہار ہے۔ یہ بند ایک طرح سے نظم کا کلایمکس ہے ۔ نظم کا خاتمہ بڑا دل نشین ہے۔
٭تحسین فطرت:
بانگِ درا میں اقبال ایک مفکر سے زیادہ فن کار‘ شاعر اور مصور نظر آتے ہیں۔ ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں انھوں نے حسن فطرت اور اس کے مظاہر و اجزا کے تذکرے اور تحسین کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ نظم کا آغاز ہی ’ ’صبح روشن ‘‘ ’’ستاروں کی تنک تابی‘‘ ’’افق‘‘ اور ’’ آفتاب‘‘ سے ہوتا ہے۔ آگے چلیں تو فطرت کے ان تمام خارجی مظاہر کا تذکرہ ملے گا‘ جن پر اقبال شیدا و فریفتہ ہیں‘ مثلاً :طوفان اور تلاطم ہاے دریا‘ لالہ‘ دریا اور گہر ‘ انجم ‘ نرگس‘ شاہین‘ عروسِ لالہ‘ پروازِشاہینِ قہستانی ‘ قندیلِ رہبانی‘ خورشید‘ عقابی شان‘ستارے شام کے ‘ خونِ شفق‘ طمانچے موج کے ‘ بیکراں ہو جا‘ پر فشاں‘ سیلِ تند رو‘جوے نغمہ خواں‘ صداے آبشاراں‘ فرازِ کوہ‘ خیلِ نغمہ پردازاں ‘ برگ ہاے لالہ وغیرہ۔
یہ الفاظ اور تراکیب اقبال کے ہاں مخصوص علامتوں کی نمایندگی کرتی ہیں۔ اقبال نے ایک طرف ان کے ذریعے اپنا ما فی الضمیرکمال خوبی اور بلاغت کے ساتھ ادا کر دیا اور دوسری طرف فطرت کے حسن کو خراج عقیدت بھی پیش کیا اور یوں تحسینِ فطرت کے ذوق کو تسکین بہم پہنچائی جو ابتدائی دور سے ان کی گھٹی میںپڑا تھا۔ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کا یہ پہلوکہ وہ فکر کے ساتھ ساتھ تحسین فطرت کے ذوق کی آبیاری بھی کرتے جاتے ہیں‘ اقبالؔ کی رومانوی طبع پر بھی دلالت کرتا ہے۔
٭غنائیت:
’’ طلوعِ اسلام‘‘ کی بحر رواں دواں ‘ شگفتہ اور غنائیت سے بھر پور ہے۔ نظم کو پڑ ھتے ہوئے ایک طرح کی نغمگی کا احسا س ہو تا ہے۔ ردیف و قوافی کی موزونیت ‘ غنائیت کے لطف کو دوبالا کرتی ہے۔ تکرارِ لفظی بھی غنائیت کا اہم عنصر ہے۔ چند مثالیں:
نہ تورانی رہے باقی ‘ نہ ایرانی نہ افغانی
بیا ساقی نواے مرغ زار از شاخسار آمد
بہا ر آمد‘ نگار آمد ‘ نگار آمد‘ قرار آمد
_______
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ‘ اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
٭بلاغت:
’’ طلوعِ اسلام‘‘ کا زمانۂ تصنیف بانگِ درا کا دورِ اختتام ہے۔ اس دور میں اقبال کے ہاں وہ پختگی آچکی تھی جس کی حقیقی شکل بالِ جبریل کی نظموں میں نظر آتی ہے مگر اس کی ابتدائی جھلکیاں ’’ طلوعِ اسلام ‘‘ میں بھی موجود ہیں۔ یہاں انھوں نے تاریخ اسلام اور مختلف زمانوں اور علاقوں کے مسلمانوں کی قومی خصوصیات اور شخصی خوبیوں کی طرف بڑے بلیغ اشارے کیے ہیں۔ بعض اشعار تو بلاغت و جامعیّت کا شاہ کار ہیں، مثلاً:
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی‘ ذہن ہندی‘ نطقِ اعرابی
_______
حقیقت ایک ہے ہر شے کی‘ خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں
_______
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
٭حسنِ بیان کے دیگر پہلو:
ہر بڑے شاعر کی طرح اقبالؔ کی ہر نظم میں ‘ خواہ اس کا موضوع کچھ ہو‘ جدید اور حسین پیرایۂ بیان ملتا ہے۔ حسن بیان کے چند پہلو ملاحظہ ہوں:
الف: نادر تراکیب: ’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں بہت سے ایسے الفاظ اور تراکیب ملتی ہیں جو اقبال نے اس نظم میں پہلی بار استعمال کی ہیں یا اگر انھیں پہلے برتا بھی ہے تو’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں انھیں ایک نئے انداز‘ نئی آب و تاب اور نرالے انداز سے پیش کیا ہے۔نادر تراکیب کی ایجاد میں غالبؔ کو کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔ مگر ڈاکٹر یوسف حسین خاں کا خیال ہے کہ اقبال نے اپنے کلام میں زندگی کی نسبت جس قدر ترکیبیں اور تشبیہیں استعمال کی ہیں ‘ ان کی مثال فارسی اور اردو کے کسی دوسرے شاعر کے یہاں نہیں ملتی۔ ( روحِ اقبال: ص ۱۳۹) ’’طلوعِ اسلام‘‘ کی چند نادر اور نئی تراکیب ملاحظہ ہوں:
جولاں گہِ اطلس‘ نطقِ اعرابی‘ کتابِ ملت بیضا‘ خونِ صد ہزار انجم‘ بال و پرِ روح الامیں‘ گماں آباد ہستی‘ محبت فاتح عالم‘ صید زبونِ شہر یاری‘ قبایانِ تتاری۔
ب: تشبیہات: جہاں تک تشبیہوں کا تعلق ہے ‘ ڈاکٹر یوسف حسین خاں کہتے ہیں: ’’اقبال تشبیہوں کا بادشاہ ہے اور تشبیہ حسنِ کلام کا زیور ہے۔ اقبال مضمون کی طرفگی اور حسن کو اپنی تشبیہوں سے دوبالا کر دیتا ہے‘‘۔ چند مثالیں: ؎
گماں آباد ہستی میں یقین مردِ مسلماں کا
بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی
_______
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ‘ اُدھر ڈوبے ادھر نکلے
ج: صنائع بدائع:
۱۔ صنعتِ ترافق: ( جس مصرع کوچاہیں پہلے پڑ ھیں ‘معنی میں کوئی فرق نہ آئے):
ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی، کہ دے
مسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی، کہ دے
۲۔ صنعتِ تضمین:
اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل
’’نورا تلخ ترمی زن چوں ذوقِ نغمہ کم یابی‘‘
۳۔ صنعتِ تلمیح:
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا ؟ زورِ حیدرؓ ، فقرِ بوذرؓ ، صدقِ سلمانیؓ
۴۔ صنعتِ مراعات النظیر:
غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغِ چمن اڑنے سے پہلے پرفشاں ہو جا
۵۔ صنعتِ اشتقاق: ( ایک ہی ماخذ اور ایک ہی اصل کے چند الفاظ کا استعمال):
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
د: محاکات:
ڈاکٹر یوسف حسین خاں کے بقول:’’ شاعر انہ تصویر کشی کے بے شمار اعلیٰ نمونے اقبال کے کلا م میں موجود ہیں۔ وہ لفظوں کے طلسم سے ایسی تصویر کھینچتا ہے اور تخیل کے وموقلم سے اس میں ایسی رنگ آمیزی کرتا ہے کہ حقیقت جیتی جاگتی شکل میں سامنے آجاتی ہے۔( روحِ اقبال: ص ۱۱۹)’’طلوعِ اسلام‘‘ میں محاکات کی خوب صورت مثالیں موجود ہیں۔ چندمثالیں ملاحظہ ہوں:
گزر جا بن کے سیلِ تند رو کوہ و بیاباں سے
گلستاں راہ میں آئے تو جوے نغمہ خواں ہو جا
_______
ہوئے احرارِ ملت جادہ پیما کس تجمّل سے
تماشائی شگافِ در سے ہیں صدیوں کے زندانی
’’طلوعِ اسلام‘‘ بانگِ دار کی طویل نظموں میں اس اعتبار سے منفر د ہے کہ اس میں اقبال کے افکار زیادہ پختہ اور خوب صورت انداز میں سامنے آئے ہیں ۔ فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کے بعض حصے نہایت سادہ اور عام فہم ہیں اور بعض حصے بے حد بلیغ اور گہرے مفاہیم و معانی کے حامل ہیں۔
معروف نقاد کلیم الدین احمد کے الفاظ میں:
’’ اقبال کا مخصوص رنگ[ طلوعِ اسلام کے] ہر شعر میں جلوہ گر ہے۔ خیالات کا فلسفیانہ عمق‘ ان کی صداقت بے پناہ‘ طرزِ ادا کی شان و شوکت… ہر شعر مؤثر ہے اور اس کا اثر جوش آور ہے۔ دلِ مردہ میں روحِ زندگی دوڑجاتی ہے اور ترقی کا جذبہ موجزن ہوتا ہے‘خصوصاً نوجوان قارئین تو بے چین ہوجاتے ہیں‘‘۔