نظموں کا سیاسی، تاریخی اور تہذیبی پس منظر
علامّہ اقبال نے زیر مطالعہ طویل نظمیں ۱۹۱۲ء سے ۱۹۳۶ء تک کے عرصے میں مختلف اوقات میں لکھیں۔بقول مولوی عبدالحق ،یہ نظمیں ’’ظاہری اور معنوی دونوں حیثیتوں سے ان کی شاعری کے بہترین نمونے ہیں۔ ان میں اقبال کی شاعری کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔‘‘ نظموں کی بہتر تفہیم اور مطالعے کے لیے سب سے پہلے یہ معلوم کرنا مناسب ہو گا کہ ان کا پس منظر کیا ہے اور یہ نظمیں لکھتے ہوئے شاعر کی نظر کن حالات و عوامل اور اثرات پر تھی۔
اس سلسلے میں ہمیں عالم اسلام کی مختصر تاریخ خصوصاً بیسویں صدی کے پہلے دو تین عشروں کے سیاسی ، تاریخی اور تہذیبی پس منظر پر ایک نگاہ ڈالنی ہوگی۔ اس پس منظر کا مطالعہ تین دائروں میں کیا جا سکتا ہے:
۱۔ دنیاے اسلام خصوصاً سلطنت عثمانیہ ، مشرقِ وسطیٰ ، ایران اور ہندستان کی سیاسی صورتِ حال۔
۲۔ وہ تہذیبی و ثقافتی رجحانات ، اثرات اور عوامل جو مسلم دنیا کی سیاست پر بھر پور طریقے سے اثرانداز ہوئے۔
۳۔ صہیونی تاریخ اور یہودی اثرات کا مختصر تذکرہ جس نے مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں کے ذریعے مسلم مفاد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
سیاسی صورت حال:
سب سے پہلے ہم مشرق وسطیٰ اور سلطنت عثمانیہ کی صورت حال کا تاریخی جائزہ لیں گے کیونکہ اقبال کی طویل نظموں کے پس منظر میں عالم اسلام کے اس مرکزی خطے کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔
ترکوں کی سلطنت عثمانیہ کی بنیاد ۱۳ ویں صدی عیسوی میں رکھی گئی۔ اس کا بانی عثمان اول (۱۲۸۸ئ۔۱۳۲۶ئ)تسلیم کیا جاتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ ایک مضبوط اور ابھرتی ہوئی طاقت تھی اس لیے ترکی سے ملحقہ علاقے ۱۵ویں صدی میں رفتہ رفتہ اس کے سامنے سرنگوں ہو تے چلے گئے اور مختلف یورپی علاقے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گئے۔ سلطان محمد فاتح (۱۴۵۱ئ-۱۴۸۱ئ) کے ہاتھوں ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو قسطنطنیہ فتح ہوا اور بازنطینی سلطنت ختم ہو گئی۔ اس تاریخی شہر کی فتح سلطنت عثمانیہ بلکہ پوری اسلامی تاریخ میں ایک غیر معمولی او ر یادگار واقعہ ہے۔ اس فتح سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیش گوئی پوری ہوگئی کہ :’’ خدا نے مجھے قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کی کنجیاں دے دی ہیں‘‘۔ ایران کے شاہانِ اکاسرہ کی بادشاہت تو خلفاے راشدین کے دور ہی میں ختم ہو گئی تھی، اب قیصر کی حکومت بھی ختم ہوئی۔آں حضورؐ نے قسطنطنیہ (موجودہ: استامبول یا استنبول)کی فاتح فوجوں کو مغفرت کی بشارت دی تھی۔
محمد فاتح ہی کے عہد میں بوسنیامفتوح ہو کر سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ بن گیا (۱۴۶۳ئ)محمد فاتح ۱۴۸۱ء کے آغاز میں کسی اور بڑی مہم کے لیے فوجیں جمع کر رہا تھا مگر یکایک اسی برس ۳ مئی کو اس کا انتقال ہو گیا۔ معروف یورپی مؤرخ لین پول لکھتا ہے کہ اس طرح محمد فاتح کی موت سے، یورپ تباہی سے بچ گیا۔ (بحوالہبوسنیا: جغرافیہ، تاریخ ، داستانِ جہاد: ص ۸۰)
سلطان سلیم اول کے آٹھ سالہ مختصر دورِ حکومت ( ۱۵۱۲ئ- ۱۵۲۰ئ) میں عثمانی فتوحات کا دائر ہ او ر وسیع ہو گیا اور مصر ، شام ، ایران اور حجاز بھی ترکوں کے زیرنگیں آگئے۔ سلیمانِ اعظم یا سلیمانِ عالی شان(Sulaiman The Magnificient)کے دور (۱۵۲۰ئ- ۱۵۶۹ئ) میں مشرق و مغرب کے بہت سے علاقے( عراق، یمن ، عدن ، تیونس، الجزائر، ہنگری اور یوگو سلاویہ وغیرہ) فتح ہوئے اور ترکوں کی بحری قو ّت انتہائی عروج پر پہنچ گئی۔ سلیمان کے امیر البحر خیر الدین باربروسا نے بحیرۂ روم کے کئی جزیرے یورپی حکومتوں سے چھین لیے اور ان کے متحدہ بحری بیڑے کو پریویسیا کی جنگ ( ۱۵۳۸ئ)میں شکست دی۔ اس نے فرانس کے شہر طولون پر بھی قبضہ کر لیا۔
سلیمان کی وفات پر سلطنت عثمانیہ کی حدیں ایک طرف دریاے ڈینیوب سے خلیج فارس تک اور دوسری طرف وسطِ ایشیا کے یوکرینی علاقے سے طرابلس اور الجزائر تک پھیل چکی تھیں۔ اس کے علاوہ بحیرۂ روم ، بحرِ ابیض ، بحرِ احمر اور بحرِہند (کے کچھ حصوں) میں واقع تجارتی شاہراہوں پر بھی اس کا مکمل کنٹرول تھا۔
۱۶۸۳ء میں وی آنا کی تسخیر میں ناکامی‘ عثمانی زوال کا نقطۂ آغاز تھا۔ عثمانیوں نے پہلی بار ویانا کامحاصرہ ۱۵۲۹ء میںسلیمان اعظم کی سرکردگی میں کیا تھا مگر موسم کی شدت کے سبب سلیمان کو محاصرہ ختم کرکے واپس آنا پڑا۔ ۱۶۸۳ء میں دوسری بار وی آناکا محاصرہ کرکے انھیں ایک طرح سے یورپ کا دروازہ کھولنے کا موقع مل رہا تھا۔ مگر اب ان میں کوئی سلیمانِ اعظم نہ تھا بلکہ ان کی بدقسمتی کہ عثمان کا صدر اعظم قرہ مصطفی جیسا حریص، لالچی اور بدنیت شخص تھا۔ وہ حملہ کرکے بآسانی ویاناکوفتح کرسکتاتھا کیونکہ محصورین کی نصف آبادی فرار ہو چکی تھی لیکن و ہ منتظر رہا کہ اہلِ ویانا ہتھیار ڈال دیں تاکہ شہر کی تمام دولت پر وہ تنہا قبضہ کرلے۔ حملے کی صورت میں فوج کو مالِ غنیمت سے حصہ دینا لازم تھا۔ اس اثنا میں شاہ ِپولینڈ کمک لے کر ترکی لشکر کے عقب میں پہنچ گیا۔ ترکوں کو شکستِ فاش ہوئی اور ایک طرح سے ان کی کمر ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد وہ یورپ کی مسیحی قو ّت کے مقابلے میں پسپا ہی ہوتے چلے گئے۔ (بوسنیا: جغرافیہ، تاریخ ، داستان جہاد، ص ۱۱۶)
۱۶۹۹ء میں معاہدۂ کارلوٹز کی رو سے ہنگری ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس کے بعد ان کی حکومت بتدریج کمزور او ر سلطنت محدود ہو تی چلی گئی۔ حتیّٰ کہ انیسویں صدی کے وسط تک ترکی کو The sick man of Europe ’’یورپ کا مردبیمار‘‘ کہا جانے لگا۔ زارِروس نکولاس اول نے ایک بار برطانوی نمایندے سے بات چیت کے دوران میں تجویز پیش کی کہ ’’ مردِ بیمار کی وفات سے پہلے ہی ہمیں اس کی جائیداد مناسب طریقے سے آپس میں تقسیم کر لینی چاہیے ‘‘۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یورپی طاقتوں کی نظروں میں سلطنتِ عثمانیہ کی کیا وقعت رہ گئی تھی۔ اس سلطنت میں شامل بعض علاقائی حکومتیں رفتہ رفتہ خود مختار ہوتی گئیں ، مگر ان کی آزادنہ حیثیت ایسی نہ تھی کہ وہ اپنی آزادی برقرار رکھ سکتیں‘ نتیجہ یہ کہ وہ مغرب کے استعماری عزائم کا نشانہ بن گئیں۔ چنانچہ برطانیہ نے ۱۸۱۵ء میں مالٹا پر اور ۱۸۷۸ء میں قبرص پر اپنا تسلط جمایا۔ ۱۸۸۳ء سے مصر پر بھی عملاً اسی کی حکمرانی تھی۔ سوڈان لارڈ کچنر کی کمان میں ۱۸۹۸ء میں فتح ہوا۔ فرانس نے الجزائر،تیونس اور مراکش پر قبضہ کر لیا۔ نو آبادیات کے معاملے میں اٹلی دوسری یورپی طاقتوں سے پیچھے تھا ۔ افریقہ کی ساحلی حکومتوں میںاب صرف طرابلس باقی رہ گیا تھا، اٹلی کو یہی غنیمت معلوم ہوا۔ ۲۹ ستمبر ۱۹۱۱ء کو اس نے طرابلس پر حملہ کر دیا اور ساتھ ہی جزائر دوازدگانہ (Dodecaness) اور روڈز(Rhodes)پر بھی قبضہ کر لیا۔ غازی انور پاشا بھیس بدل کر طرابلس پہنچے ۔ مقامی عربوں اور قبائلیوں کو فوجی تربیت دے کر منظم کیا۔ انھوں نے اطالویوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ زیادہ تر اسلحہ انھی سے چھینا اور انھیں ساحلِ طرابلس سے آگے نہ بڑھنے دیا۔ اسی اثنا میں جنگِ بلقان کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ اس لیے صلح نامہ لوزان (۱۸ اکتوبر ۱۹۱۲ئ)کی رو سے ترکوں کو مجبوراً طرابلس سے دستبردار ہونا پڑا۔
سلطنتِ عثمانیہ داخلی طور پر بھی شدید خلفشار کا شکار تھی۔ ۱۹۰۸ء میں نوجوان ترکوں کی بغاوت کے نتیجے میں سلطان عبدالحمید ثانی دستوری اصلاحات کرنے پر مجبور ہو گیا۔ ۱۹۰۹ء میں اسے معزول کر دیا گیا۔ اب اقتدار نوجوان ترکوں کے ہاتھ میں چلا گیامگر وہ آپس میں بھی متحد نہ تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ ہاے بلقان میں ترکوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی اور سلطنت کے بہت سے حصے ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ ترکی اس غیر متوقع شکست سے استعماریوں پر اس کی کمزوری واضح ہوگئی اور ترکوں کا رہا سہا وقار بھی ختم ہو گیا۔ ۱۹۱۴ء میں جنگِ عظیم کا آغاز ہو ا تو یورپ میں صرف مشرقی یونان ترکی کے قبضے میں تھا۔ سلطنت عثمانیہ غیر جانب دار رہنا چاہتی تھی مگر حالات کے دباؤ سے مجبور ہو کر اسے جنگ میں شریک ہونا پڑا۔ نوجوان ترکوں کا ایک گروہ ، جس کی قیادت غازی انورپاشا کے ہاتھ میں تھی، جرمنی سے اتحاد کا زبردست حامی تھا۔ وجہ یہ تھی کہ جرمنی روس کا مخالف تھا اور روس سلطنت عثمانیہ کا قدیم دشمن تھا ۔ بہر حال جب ترکوں نے جرمنی کی حمایت کا فیصلہ کر لیا تو اتحادیوں( برطانیہ، روس، فرانس) نے اکتوبر ۱۹۱۴ء میں ترکی کے خلاف باقاعدہ اعلانِ جنگ کر دیا۔
نوجوان ترکوں نے سلطان عبدالحمید ثانی کی مخالفت کے باوجود شاہ حسین کو ۱۹۰۸ء میں مکہ کا شریف (گورنر) مقرر کیا تھا۔ انگریزوں نے کرنل لارنس المعروف بہ ’’ لارنس آف عریبیا‘‘ کو ممالکِ عربیہ بھیجا۔ اس کا مشن یہ تھا کہ عربوں اور ترکوں کے درمیان افتراق پیدا کیا جائے۔ لارنس نے کمال حسن و خوبی سے اپنا مشن پوراکیا۔ ایک طرف تو انگریزوں نے عربوں کے اندر قوم پرستی کے جذبات بھڑکائے، دوسری طرف شاہ حسین کو حجاز کی بادشاہت کا سہانا خواب دکھایا۔ ان کی یہ کوششیں رنگ لائیں اور شاہ حسین نے ۱۰ جون ۱۹۱۶ء کو ترکوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ عین اسی زمانے میں ( ۱۶ مئی ۱۹۱۶ء کو) اتحادیوں کے درمیان ایک خفیہ معاہدے ( موسوم بہ :The Sykes Picot Agreement)کی روسے طے پایا کہ جنگ کے خاتمے پر ممالکِ عربیہ کو آپس میں تقسیم کر لیا جائے۔ حسین کو اس معاہدے کا پتا چل گیا۔ ترکوں نے بھی اسے انگریزوں کے فریب کارانہ عزائم کی طرف متوجّہ کیا۔ اور غیرتِ ملی کا واسطہ دے کر اسے علاحدگی سے روکنے کی کوشش کی مگر اقتدار کی ہوس نے شاہ حسین کو اندھا کر دیا تھا۔ اس نے اکتوبر ۱۹۱۶ء میں اپنے شاہِ حجاز ہونے کا اعلان کر دیا۔ انگریزوں نے اس کی مستقل بادشاہت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا ۔ حسین کے بیٹے فیصل نے کرنل لارنس کی مدد سے شام سے بھی ترکوں کو نکال دیا۔ اگلے سال شام اور فلسطین کے اہم مقامات پر انگریزی قبضہ مکمل ہو گیا۔
سب سے بڑا حادثہ یہ ہوا کہ بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ ۱۰ دسمبر ۱۹۱۷ء کو جنر ل ارل ایلن بی فاتحانہ بیت المقدس میں داخل ہوا اور اس نے فخریہ اعلان کیا کہ ’’ آج کروسیڈ(صلیبی جنگوں)کا خاتمہ ہوا‘‘۔ صلاح الدین ایوبی کی فتح یروشلم (۱۱۸۷ئ) کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ بیت المقدس دوبارہ عیسائیوں کے قبضے میں چلاگیا تھا۔ اس اندوہناک حادثے پر ہندستان کے مسلمانوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ اکتوبر ۱۹۱۸ء کے آخر تک حجاز، شام ، لبنان ، عراق اور عرب کے تمام علاقے ترکوں کے ہاتھ سے نکل کر اتحادیوں ، خصوصاً انگریزوں کے قبضے میں آگئے۔ انجمن اتحاد و ترقی کے اہم لیڈر (انور پاشا، جمال پاشااور طلعت پاشا وغیرہ)بددل ہو کر ترکی سے باہر چلے گئے۔ ملک میں اور زیادہ مایوسی ، بددلی اور انتشار پھیل گیا۔ تاہم سمرنا میں یونانیوں کی بے دریغ قتل و غارت اور لوٹ مارکے ردّ ِ عمل میں‘ ترکوں میں ایک بار پھر جوش و خروش پیدا ہوا ، وہ پلٹ کر دیوانہ وار لڑے اور سمرنا سے یونانیوں کو نکال باہر کیا۔ درۂ دانیال پر بھی ان کا قبضہ بحال ہو گیا۔ اقتدارِ حکومت مصطفی کمال اور عصمت انونو کے ہاتھ میں آگیا۔ ان لوگوں ، خاص طور پر کمال اتاترک کا مزاج لادینی تھا۔ اس لیے انھوں نے پہلے تو خلافت کو غیر مؤثر کر دیا اور پھر ۱۹۲۴ء میں چھے سو سالہ قدیم عثمانی خلافت اچانک ختم کرکے ترکی کو ’’جمہوریہ ‘‘قرار دیا۔
جنگِ عظیم کے خاتمے (۱۹۱۸ئ)پر انگریزوں کے وعدے کے مطابق ممالک عربیہ پر شاہ حسین کا حق تھا مگر ایک وسیع اور متحدہ عرب ریاست کاوجود مغربیوں کے استعمارانہ عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ بن سکتا تھا ‘ اس لیے انگریز اپنے وعدوں سے منحرف ہو گئے اور ممالک عربیہ کی بندر بانٹ اس طرح کی گئی:
۱۔ لبنان اور شام کو فرانس کی تحویل میں دے دیا گیا۔
۲۔ برطانیہ کی زیر نگرانی شاہ حسین کے ایک بیٹے فیصل کو اگست ۱۹۲۱ء میں عراق کا بادشاہ مقرر کیا گیا۔ فیصل کو پہلے شام کا بادشاہ بنایا گیا تھا مگر فرانسیسیوں نے اسے وہاں سے نکال دیاتھا۔
۳۔ دریاے اردن کے مشرقی کنارے پر ایک چھوٹی سی ریاست شرق اردن کے نام پر قائم کرکے حسن کے دوسرے بیٹے امیر عبداللہ کو اس کا بادشاہ مقرر کیا گیا( اپریل ۱۹۲۱ئ)۔
۴۔ حجاز میں شاہ حسین کی بادشاہت تسلیم کرلی گئی۔ (قسمت کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ کچھ عرصے کے بعد شاہ حسین حجاز سے جلا وطن کر دیا گیا ۔ اس کا بیٹا علی تخت پر بیٹھا۔ مگر ابن سعود نے اس سے حکومت چھین لی اور علی کو بھی حجاز سے نکلنا پڑا۔آرم سٹرانگ اپنی کتاب Lord of Arabiaمیں لکھتا ہے کہ حسین کے بیٹوں نے شاہ سعود کے مقابلے میں انگریزوں سے مدد کی درخواست کی تھی مگر وہ شاہ حسین سے اکتا چکے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۲۵ء تک حجاز کے پورے علاقے پر ابن سعودکا قبضہ ہو گیا۔ )
۵۔ فلسطین پر براہِ راست برطانوی تسلط قائم ہو گیا تاکہ اسے یہودیوں کاقومی وطن بنانے میں آسانی ہو۔ ۱۹۱۷ء میں اعلانِ بالفور کے ذریعے ( تفصیل آیندہ صفحات میں) برطانیہ اس کا وعدہ کر چکا تھا‘اس صورت حال پر عربوں نے احتجاج کیا مگر بے سود۔
دنیاے اسلام کے باقی حصوں میں ایران اور ہندستان کو نسبتاً زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ ایران سے ملحقہ روس کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ وہ ایران کی طرف اپنی سرحدوں کی توسیع کرکے خلیج فارس کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرے۔ مگر برطانیہ ‘روس کی ہر ایسی کوشش میں سدّ ِر اہ بنا رہا ۔ انیسویں صدی میں روسی برطانوی کشمکش کو ایرانی علاقے کی سیاسی صورتِ حال میں ایک اہم عامل کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ روس اور برطانیہ کا دباؤ اور سازشیں جاری رہیں اور ان دو پاٹوں کے درمیان ایران پستا چلا گیا۔ ۱۹۰۷ء میں انھوں نے ایک معاہدے کے ذریعے ایران کو دو دائروں میں تقسیم کر لیا۔ اس کے تحت شمالی ایران روسی حلقۂ اثر میں آگیا اور جنوبی ایران اور خلیج فارس پر برطانوی تفو ّق تسلیم کر لیا گیا۔ اس سے ایران میں ناراضی اور اضطراب کی ایک شدیدلہر دوڑ گئی۔ ۱۹۰۸ء میں تیل کی دریافت سے ایران کی اہمیت بڑ ھ گئی۔ ایران نے عالم مایوسی میں جرمنی کی طرف دیکھا۔جرمنی نے روس سے ساز باز کرکے ایران میں اپنے اثرات کے نفوذ کی کوشش شروع کردی۔ ۱۹ اگست ۱۹۱۱ء کو سینٹ پیٹرزبرگ میں روس اور جرمنی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کی رو سے جرمنی نے ایران میں روس کے حلقۂ اثر کو تسلیم کر لیا۔ جواباً جرمنی کو اپنی بغداد ریلوے شمالی ایران تک بڑھانے کے حقوق مل گئے۔ ۱۹۱۴ء میں جنگِ عظیم کا آغاز ہوا تو ایران کا سولہ سالہ شاہ احمد نوعمری کے باعث کوئی اقدام کرنے سے قاصر تھا۔ ایرانی فوج غیر ملکی افسروں کے ماتحت تھی۔ روس اور برطانیہ کے کچھ فوجی دستے ایران میں قیام پذیر تھے۔ اس بے بسی کے عالم میں اور غیر ملکی دباؤ کی وجہ سے بھی جنگ میں کسی فریق کی حمایت اس کے لیے بے معنی بات تھی‘ چنانچہ اس نے غیر جانب دار رہنے کا اعلان کر دیا۔ مگر بڑی طاقتوں نے اپنی اپنی ضروریات اور مفادات کے مطابق سرزمین ایران کو میدانِ جنگ کے طور پر استعمال کیا۔ ۱۹۱۹ء میں برطانیہ نے ایران کو اپنا (Protectorate)بنانا چاہا مگر ایرانی پارلیمنٹ نے شدت سے اس کی مخالفت کی ۔ ایران کا ردّعمل اس قدر شدید تھا کہ برطانوی فوجوں کو ۱۹۲۱ء میں ایران سے مکمل طور پر نکل جانا پڑا۔ اگلے سال ایران نے روس سے دوستی کا ایک معاہدہ کیا۔ یوں ایران نے سات سال کے بعد ( جنگِ عظیم کے آغاز سے ۱۹۲۱ء تک ) قدرے اطمینان کا سانس لیا۔ سات سالہ لڑائیوں ، قبائلی بغاوتوں ، بیرونی دباو اور داخلی طوائف الملوکی کے بعد اب اسے آزادی ملی تھی۔ فروری ۱۹۲۱ء میں ایرانی فوج کے ایک افسر رضاخان نے برطانوی افسروں کی مدد سے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ وہ پہلے وزیر جنگ اور سپہ سالارِ اعلیٰ بنا‘ پھر اس نے احمد شاہ قاچار کو معزول کرکے ۱۳ دسمبر ۱۹۳۵ء کو ایران کی بادشاہت سنبھال لی۔
ادھر ہندستان میں ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگِ آزادی کے اثرات مسلمانوں کے لیے خاصے نقصان دہ بلکہ تباہ کن ثابت ہوئے۔ وہ انگریزوں کے انتقام کا خصوصی نشانہ بنے۔ انھیں ہر میدان میں ہندوؤں کے مقابلے میں نظر انداز کیاگیا اور وہ ایک عرصے تک ایک مؤثراقلیت بھی نہ بن سکے۔ دیوبند، ندوہ اور علی گڑ ھ کی کوششوں کے نتیجے میں بیسویں صدی کے آغاز میں مسلم بیداری کے کچھ آثار نظر آنے لگے۔ ۱۹۰۶ء میں ڈھاکا میں مسلم لیگ قائم ہوئی‘ مگر یہ ایک بے جان سی تنظیم تھی۔ بحیثیتِ مجموعی مسلمان ملک کے سیاسی دھارے اور جدوجہد میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ ۱۹۰۶ء میں جداگانہ انتخاب کا نفاذ مسلمانوں کے لیے مفید ثابت ہوا مگر بہت سے دوسرے عوامل ان کے خلاف تھے۔ اسی زمانے میں مسلمان علی گڑھ میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کے کوشاں تھے مگر حکومت لیت و لعل سے کام لے رہی تھی۔ ۱۹۱۳ء میں جلیانوالہ باغ کے سانحے سے ملک میں عمو می اضطراب پھیل گیا۔ کان پور میں مسجد کے جزوی انہدام کا واقعہ اور احتجاج کرنے والوں کی شہادت نے جلتی پر تیل کا کام کیا‘ اس کی تفصیل یوں ہے کہ کان پور میں مچھلی بازار کے موڑ پر ایک مسجد واقع تھی۔ جولائی ۱۹۱۳ء میں حکام نے موڑسیدھا کرنے کے بہانے مسجد کا ایک حصہ گرادیامگر سڑک کے درمیان واقع ایک مندر کو گرانے سے صرف نظر کیا۔ انگریزوں کے اس امتیازی سلوک پر مسلمانوں میں اشتعال پھیل گیا ، احتجاج ہوا، گرفتاریاں ہوئیں۔ کئی مسلمان فائرنگ سے شہید ہو گئے۔ بعد میں جا کر قضیہ طے ہوا ۔ مولانا شبلی نعمانی نے اس سانحے سے متاثر ہو کر دو درد انگیز نظمیں لکھیں۔ ایک: علماے زندانی اور دوسری: ہم کشتگان معرکۂ کان پور ہیں۔شہدا میں بچے بھی شامل تھے۔ شبلی نے بچوں کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا :
عجب کیا ہے جو نو خیزوں نے سب سے پہلے جانیںدیں
کہ یہ بچے ہیں ان کو جلد سوجانے کی عادت ہے
اس کے علاوہ طرابلس پر اٹلی کا حملہ اور جنگ ہاے بلقان کا آغاز بھی ایسے واقعات تھے جنھوں نے مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔مولانا ابوالکلام آزادکے الہلال اور مولانا ظفر علی خان کے زمیندارنے ان واقعات پر نہایت درد انگیز مضامین اور جذباتی نظمیں شائع کیں جس ملک بھر میں ترکوں کی حمایت میں ایک زبردست تحریک شروع ہو گئی۔ ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی قیادت میں ایک طبی وفد ترکی بھیجا گیا۔ لاکھوں روپے کا چندہ بھی جمع کرکے روانہ کیا گیا۔ ہندی مجاہدین لڑائی میں حصہ لینے کے لیے بلقان جانا چاہتے تھے مگر انگریزوں نے اس کی اجازت نہ دی۔ جن علما نے ترکوں کی امدادی مہم میں بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لیا ، ان میں شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ پیش پیش تھے۔ آپ نے ہندستان سے ایک خطیر رقم جمع کرکے ترکی بھجوائی۔ جب آپ حجاز پہنچے تو شاہ حسین نے آپ سے ترکوں کی تکفیر کے فتوے پر دستخط لینا چاہے اور آپ کے انکار پر کئی ساتھیوں سمیت آپ کو انگریزوں کے حوالے کردیاجنھوں نے آپ کو مالٹا میں نظر بند کر دیا۔
اگرچہ ہندستان کبھی عثمانیہ خلافت کے ماتحت نہیں رہا ، تاہم خلافت سے مسلمانوں کو ایک جذباتی تعلق ضرور تھا۔ چنانچہ خلافت اور مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے آل انڈیا مجلس ِ خلافت قائم ہوئی۔ مسلمان خطیبوں نے اپنی جذباتی تقریروں سے مسلمانوں کے دلوں میں ایک آگ لگادی۔ خانہ نشین عورتوں نے اپنے زیورات تک امدادی فنڈ میں دے دیے۔ علی برادران اس مہم میں پیش پیش تھے۔ ان کی والدہ ’’ بی اماں‘‘ بھی تحریک خلافت کی مؤید تھیں :
بولیں اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو
سے پورا ملک گونج رہا تھا۔ محمد علی جوہر کی قیادت میں ایک وفد برطانیہ گیا مگر ناکام واپس آیا۔
اسی اثنا میں ہجرت کی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہندستان کو ’’ دارالحرب‘‘ قرار دیا گیا۔ چنانچہ ہزاروں مسلمان اپنی جایدادیں ہندوؤں کے ہاتھ اونے پونے بیچ کر افغانستان کی طرف جانے لگے۔ افغانوں نے شروع میں تومہاجرین کو خوش آمدید کہا مگر ان کے وسائل محدود تھے اس لیے جلد ہی مسلمانوں کے خستہ حال و پریشاں روزگار قافلے واپس آنے لگے۔ مسلمانوں کو اپنے غیر دانش مندانہ اور جذباتی اقدام کی وجہ سے سخت نقصان ہوا۔
اب عدم تعاون اور ترک موالات کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ ولایتی مال کا بایکاٹ شروع ہوا اور سول نافرمانی کی تحریک چل پڑی۔ محمد علی جوہر اور دوسرے لیڈر جیل میں تھے اس لیے تحریک کی قیادت گاندھی نے سنبھال لی۔ وہ عدم تشدّد کے قائل تھے۔ جب بعض جگہ تشدّد کے واقعات پیش آئے تو انھوں نے اچانک تحریک ختم کرنے کا اعلان کر دیا ( ۱۹۲۲ئ)۔ ادھر ترکوں نے خلافت کا خاتمہ کر لیا تھا ( ۱۹۲۴ئ)۔ یہ صورت حال مسلمانوں کے لیے شدید ذہنی صدمے کا باعث ہوئی۔ ان کی حالت اس گم کردہ راہ مسافر کی سی تھی جسے اپنی منزل کا پتا نہ ہو۔ یہ سب کچھ نتیجہ تھا مسلم راہ نماؤں کے جذباتی اور غیر دانش مندانہ فیصلوں کا ۔
خلافت ، ہجرت اور ترک موالات کی تحریکوں میں بنیادی خرابی یہ تھی کہ یہ تحریکیں بلاسوچے سمجھے‘ محض وقتی جوش و جذبے کی بنیاد پر شروع کی گئی تھیں۔ نہ منظم منصوبہ بندی کی گئی اور نہ اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ مستقبل کی امکانی صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کی کیا شکل ہوگی۔ ۱۹۲۸ء کی آل پارٹیز کانفرنس کے نتیجے میں نہرو رپورٹ مسلمانوں کے لیے مایوس کن ثابت ہوئی۔ اسی طرح ۱۹۳۰ء اور ۱۹۳۱ء کی گول میز کانفرنسیں بھی بے سود ثابت ہوئیں۔
٭تہذیبی اور ثقافتی رجحانات و عوامل:
یورپ کی استعماری طاقتوں ، خصوصاً برطانیہ نے نہایت دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے بہت پہلے سے‘ علمی ، تہذیبی اور ثقافتی سطح پر بھی مسلمانو ں کی جڑیں کھوکھلی کرنا شروع کردی تھیں۔ انیسویں صدی میں انھوں نے قاہرہ، بیروت ، دمشق ، استامبول اور کئی دوسرے مقامات پر ایسے تعلیمی اور تحقیقی ادارے قائم کیے جنھیں مسلمانوں کے اندر مغربی تہذیب اور نظریات کے نفوذ کا ذریعہ بنایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے عرب قومیّت اور تورانی قومیّت کی عصبیت کو ہو ا دی ۔ چنانچہ عربوں کی قوم پرستی اور ترکوں کی قومی تحریک کا (جسے نوجوان ترکوںYoung Turks کی تحریک کا نام دیا جاتا ہے ) آغاز کرنے والے بیشتر لوگ یہودی اور عیسائی تھے۔
عرب قوم پرستی کی تحریک پانچ عیسائی نوجوانو ں نے شروع کی تھی جو بیروت کے پروٹسٹنٹ کالج کے تعلیم یافتہ تھے۔ انھوں نے بطورِ خاص مسلمانوں کو بھی اپنی تحریک میں شامل کیا تاکہ ان کے ذریعے مسلمانوں کے اندر نفوذ کرنے میں کامیابی ہو۔ ان مقامی عیسائیوں کو بیرونی مشنریوں کا تعاون حاصل تھا۔ اس تحریک کے نتیجے میں عرب قوم پرستی کے زہریلے اثرات نے اپنا رنگ دکھایا اور عربوں کے اندر ترکوں کے خلاف نفرت و بغاوت کے جذبات پیدا ہونے لگے۔
دوسری طرف تورانی قوم پرستی کے فروغ کے لیے ترکی میں ’’ انجمن اتحاد و ترقی‘‘ (Committee of Union and Progress)قائم کی گئی ، جس میں مسلمانوں کے ساتھ یہودی اور عیسائی بھی شامل تھے۔ بظاہر اس کا مقصد سلطنت کو انتشار سے بچانا اور اسے مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا تھا مگر اس تحریک نے عثمانی خلافت کے اسلامی تشخص کو بہت نقصان پہنچایا کیونکہ انجمن کی بنیاد لادینیت پر تھی اور اس کے افکار کا سرچشمہ یورپ تھا۔ معروف یورپی مصنّف لنگزاسکی (Lenczowski)اعتراف کرتا ہے:The Young Turks drew its inspiration from the West.اس سے ترک قوم پرستی کو لادینی بنیادوں پر فروغ حاصل ہوا۔ ۱۹۰۸ء میں انجمن برسر اقتدار آئی۔ اگلے برس سلطان عبدالحمید ثانی کو معزول کر کے سلطان کے اختیارات محدود کر دیے گئے۔ مزید برآں نوجوان ترکوں نے سلطان کی مخالفت کے باوجود حسین کو شریف مکّہ مقرر کیا جس نے بعد میں ترکوں سے غداری کرکے انگریزوں کے سامراجی عزائم کا ساتھ دیا۔’’ نوجوان ترک‘‘ اپنے بلند بانگ اور انقلابی دعووں میں پورے نہ اترسکے۔ البتہ اس کا ایک منفی نتیجہ یہ ہوا کہ ترکی کے داخلی انتشار سے بیرونی دشمنوں نے فائدہ اٹھایا ۔ کئی اہم علاقے ترکی کے ہاتھ سے نکل گئے اور بعض حصوں پر اس کی گرفت کمزور پڑ گئی۔دولتِ عثمانیہکے مصنّف محمد عزیر لکھتے ہیں :’’انجمن کے ممبروں میں ترکوں کے علاوہ عیسائیوں اور یہودیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ ‘‘
چنانچہ انجمن پر عیسائی اوریہودی پوری طرح حاوی تھے۔ ان کے اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ نوجوان ترکوں نے ۱۹۱۳ء میں جو وزارت بنائی‘ اس میں تین یہودی نژاد وزیر بھی شامل تھے۔ ۱۹۰۲ء میں سلطان عبدالحمید (م: ۱۰ فروری ۱۹۱۸ئ) نے سلطنتِ عثمانیہ (میں شامل فلسطین) کے اندر یہودی آباد کاری کی پرکشش درخواست کو ٹھکراتے ہوئے کہا تھا:’’ ڈاکٹر ہرتسل کو بتا دو کہ وہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی تمام کوششیں ختم کر دے۔ جب تک عثمانی سلطنت کا ایک غیور فرد بھی زندہ ہے‘ اسے فلسطین نہیں مل سکتا۔‘‘ ۱۹۱۴ء میں ان تین وزیروں نے ایک قانون پاس کر وادیاکہ یہودیوں کو فلسطین میں جایداد بنانے کی اجازت مل گئی۔ ۱۹۲۴ء میں چھے سو سالہ قدیم عثمانی سلطنت کے باضابطہ خاتمے کا اعلان ہوا۔ نئے ’’جمہوریہ ترکی‘‘ کی بنیاد ترکی قومیّت اور لادینیت ( سیکولر ازم) پر رکھی گئی۔ خلافت کے خاتمے کے ایک ماہ بعد شرعی عدالتوں کو ختم کردیا گیا اور پھر بتدریج ایسے اقدامات کیے گئے جن کا مقصد ترکی کا رشتہ ایشیائی، عربی اور اسلامی روایات سے ختم کرنا تھا۔ مثلاً عربی میں اذان کی ممانعت، عربی کے بجاے لاطینی رسم الخط کا اجرا، جمعہ کے بجاے اتوار کی تعطیل، ہجری کے بجاے عیسوی سنہ کا رواج،مردوں کے لیے ترکی ٹوپی پہننے اور عورتوں کے لیے پردہ کرنے پر قانونی پابندی۔ اسی پر بس نہیں‘ ترکی زبان سے عربی الفاظ خارج کرنے کی مہم چلائی گئی۔ نئے انقرہ کی تعمیرات میں ایک مسجد بھی نہیں بنائی گئی۔ اس طرح کے تمام اقدامات کا مقصد مذہب اور مشرقی روایات سے رشتہ منقطع کرکے‘ ترکی کو ایک جدید لادینی اور مغرب زدہ (Westernised)قوم میں تبدیل کرنا تھا۔ باباے اردو مولوی عبدالحق اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’عجیب بات یہ ہے کہ اس عہد کے مسلمانوں میںاصلاح کے جتنے مد ّعی پیدا ہوئے‘ انھوں نے یہی کیا۔ مصطفی کمال پاشا اتاترک نے تو انتہا کردی۔ مغرب کی تقلید میں رہنا سہنا، کھانا پینا، لباس ، ناچ رنگ، شراب خوری اور دوسری خرافات کو اپنا شعار بنا لیا۔ یہاں تک کہ مدارس سے مذہبی تعلیم خارج کر دی اور اپنی زبان کا قدیم رسم الخط بھی بدل کر رومن کر دیا۔ ترکی اخبار نویسوں کا وفد دلی آیا تھا‘ وہ باربار بڑے فخر سے اپنے آپ کو یورپین نیشن کہتا تھا۔ دلی کے مسلمانوں کی خواہش تھی کہ جمعہ کے روز جامع مسجد میں تشریف لائیں‘ لیکن انھوں نے یہ درخواست قبول نہ فرمائی۔ خاص کوشش سے ان کے پروگرام میں مسلم یونی ورسٹی علی گڑ ھ کا معائنہ بھی رکھا گیا مگر وہاں تشریف نہیں لے گئے اور ہندو یونی ورسٹی بنارس کو ( جو ان کے پروگرام میں نہیں تھی) اپنے قدوم سے مشرف فرمایا۔ امان اللہ خان [شاہِ افغانستان] کو اصلاح کی سوجھی تو اس نے بھی اصلاح لباس ہی سے شروع کی۔ لوگوں کو اور خاص کر مولویوں کو جبراً کوٹ، پتلون اور ہیٹ پہننے کا حکم دیا۔ حکم کی خلاف ورزی پر سزادی جاتی تھی‘‘۔ ( چند ہم عصر: ص ۲۷۶)
ترکی میں تو انجمن اتحاد و ترقی نے یہ ’’ خدمت‘‘ انجام دی ، ادھر عربوں کی بغاوت میں بھی قوم پرستی ہی کی تحریک کام کررہی تھی۔ عرب دانش ورمیر شکیب ارسلان کے نزدیک عربوں کی بغاوت کا سب سے اہم سبب تورانی سیاست تھی، جس پر انجمن اتحاد و ترقی انقلاب کے بعد چلنا چاہتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی پالیسی کے باعث عربوں اور ترکوں کے درمیان منافرت کی خلیج وسیع ہوتی گئی ۔عرب قوم پرستی کے مہلک نتائج یوں ظاہر ہوئے کہ:
۱۔ عرب دنیا کے غیر عرب‘ مسلمانوں سے کٹ کر الگ ہو گئے۔
۲۔ استعماری طاقتوں نے جنگِ عظیم کے بعد ممالک عربیہ کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ کر ان کی متحدہ قو ّت کو کمزور کر دیا۔
۳۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے عرب نیشنلزم کی تحریک کو ایک منظم منصوبے کے تحت اور سائنٹی فک بنیادوں پر استوار کیا۔ استعماری طاقتوں نے لبنان میں عیسائیوں کو ایک مصنوعی اکثریت فراہم کر دی اور برطانیہ یہودیوں کو اپنی نگرانی میں فلسطین میں جمع کر کے ان کی آباد کاری کرانے لگا۔
بیروت عربوں پر ثقافتی یلغار کا مرکز قرار پایا۔ ۱۸۶۶ء میں وہاںامریکی یونی ورسٹی قائم کی گئی تھی اور جیسا کہ بعد کی تاریخ سے ثابت ہو تا ہے ، عربوں کے اندر لا دینیت، سوشلزم اور اباحیت کی تحریکوں کوبیروت ہی سے فکری غذا فراہم ہوتی رہی ہے۔ یہ سب کچھ عرب قوم پرستی کی وجہ سے ہوا مگر افسوس کہ عرب اس عبرت ناک صورتِ حال سے کوئی سبق سیکھنے کے بجاے آج بھی انتشار و افتراق کا شکار ہیں۔ یہودیوں سے ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد بھی، وہ اسلامی اور دینی بنیادوں پر متحد ہونے کے بجاے شامیوں،کویتیوں، عراقیوں، مصریوں ، اردنیوں اور لبنانیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
ایران میں پہلوی خاندان کے بانی رضاشاہ پہلوی نے اصلاح و ترقی کے نام پر مذہبی شعائر کے خلاف ایک مہم شروع کی تھی۔ بعض مصنّفین اسے ’’ ایرانی اتاترک‘‘ کا نام دیتے ہیں کیونکہ رضا شاہ بھی لادینیت کا علمبردار تھا۔مولوی عبدالحق نے اس کی جابرانہ پالیسیوں کا ذکر ایک جگہ بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’رضاشاہ پہلوی شاہِ ایران [اتاترک] سے بھی دو قدم آگے بڑ ھ گئے۔ انھوں نے لباس کے بارے میں اسی قسم کی سختیاں کیں[جس طرح اتاترک نے کی تھیں] اور پردے کی مخالفت ہی نہیں کی بلکہ بے پردگی کو جبراً رائج کیا۔ مشہدکے علما نے اس سے اختلاف کیا تو وہاں کے مینا ر پر مشین گنیں چڑھا دی گئیں اور صرف چند گھنٹوں کی مہلت دی کہ اگر اتنے عرصے میں حکم کی تعمیل نہ کی تو شہر کو اڑا دیا جائے گا‘ مجبور ہو کر سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔ اس کے بعد گورنر نے ایک بڑا جلسہ برپا کیا اور تمام حکام اور شرفا کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں سمیت حاضر ہوں۔ ایک صاحب تنہا آئے کیونکہ ان کی بیوی نے بھرے جلسے میں بے پردہ جانا گوارا نہ کیا۔ انھیں حکم دیا گیا کہ جاؤ بیوی کو ساتھ لے کر آؤ۔ وہ گئے اور اس نیک بخت کو ساتھ لے کر آئے۔ اس کی یہ سزاتجویز کی گئی کہ وہ تمام حاضرینِ جلسہ سے فرداً فرداً ہاتھ ملائے‘‘۔ (چند ہم عصر: ص ۲۷۶۔ ۲۷۷)
مشرق وسطیٰ سے دور‘ ہندستان میں ذہنی و تہذیبی رجحانات کے پس منظر میں کچھ اور عوامل کام کررہے تھے۔ ہندستانی مسلمان، مغلوں کے زوال اور انگریزوں کے تسلط کی وجہ سے ذہنی لحاظ سے بہت پس ماندہ تھے۔
بھارت کے معروف دانش ور اور سابق وائس چانسلر علی گڑ ھ مسلم یونی ورسٹی ، سیدحامد نے ۱۹۴۱ء میں علی گڑ ھ سے ایم اے انگریزی کیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جس وقت میں علی گڑھ میں داخل ہوا، یہ تصو ّرذہنوں پر چھایا ہوا تھا کہ انگریز ہمارے آقا ہیں اور ہم ان کی رعایا ہیں… اگر کوئی طالب علم انگریز وں کے خلاف رجحانات رکھتا تو اسے اچھوت سمجھا جاتا اور لوگ اس کا کمرا بچا کے گزرتے تھے۔ ( ملاقاتیں: ص ۱۷)
انگریزوں نے سیاسی غلبے کے ساتھ ہندستانیوں خصوصاً مسلمانوں کو ذہنی ، تہذیبی ، تعلیمی اور مذہبی لحاظ سے بھی غلام بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا، چنانچہ ایک طرف مسیحی مشنریوں کی آمد اور دوسری طرف مغربی علوم و عقلیات کی چکا چوند نے مسلمانوں کو ذہنی طور پر ڈگمگا دیا۔ سہارے کے لیے مختلف تعلیمی اور ثقافتی ادارے قائم کیے گئے، مثلاً: دارالعلوم دیوبند،ندوہ اور علی گڑھ، مگر یہ سب دور جدید کے چیلنج کا کما حقہ‘جواب نہیں دے سکے۔ سر سید تحریک سے جدید علم الکلام کی بنیاد ضرورپڑی ،مگر یہ اسلام بہت معذرت خواہانہ (Apologetic) قسم کا تھا۔ سرسیّد تحریک، قابل ِ قدر تعلیمی خدمات کے باوجود‘ یورپی استیلا اور سائنسی و عقلی فکر کے سامنے معذرت خواہانہ اسلام پیش کرتی تھی جو عصر جدید کے مسائل کا سامنا کرکے ان کا حل تلاش کرنے کے بجاے ان سے آنکھیں چراتا تھا۔
سر سیّد نے اسلام کے بعض مبادیات کے بارے میں عذرپیش کیے اور اسلامی مابعد الطبیعیّات کی جو تاویلات کیں ، اس کے اثرات مرزا غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز کی شکل میں سامنے آئے۔ علی گڑ ھ تحریک نے مسلمانوں کو لکھنا پڑ ھتا تو سکھا دیا مگر اس تعلیم کے ذریعے ان میں اسلام کی انقلابی روح پیدا نہ ہو سکی۔ بلکہ متعلّمین علی گڑ ھ میں الحادی رجحانات کی ایسی ہوا چلی کہ یونی ورسٹی میں مذہب مخالف اور انٹی گاڈ(Anti God) انجمنیں بننے لگیں۔خود سرسیّد آخر عمر میں اپنی تحریک کے نتائج سے مایوسی کا اظہار کرنے لگے تھے۔
ہندو، مسلمانوں کو اس بے جان حالت میں بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ آریہ سماج جیسی تحریکیں اس حد تک چلی گئیں کہ ہندستان میں رہنے کا حق صرف ہندوؤں کو ہے۔ آریہ سماجیوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصّب کی ایسی فتنہ انگیز فضا پیدا کر دی کہ ہند، مسلم تہذیب وتمدن کے تمام نقوش محو کر دینے کے درپے ہوگئے۔ ۱۹۰۶ء میں انتہا پسند ہندوؤں نے فرقہ پرست جماعت ’’ ہندو مہا سبھا ‘‘ قائم کی۔ غرض مسلمان ایک طرف ہندوؤں کے تعصّب اور دشمنی کا شکار تھے ، دوسری طرف انگریز بھی انھیں کوئی حیثیت نہیں دیتے تھے۔ وہ خود کوئی جرأت مندانہ اقدام کرنے سے قاصر تھے کیونکہ غلامی نے ان کے اندر موجود بچی کھچی اسلامی انقلابی روح ختم کر دی تھی:
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
مسلمانانِ ہند کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ ایک ایسی دانش مند، مستقل مزاج اور مخلص قیادت سے محروم تھے جو توازنِ فکر و عقل کے ساتھ حالات کا گہرا مطالعہ کرتی اور پھر اپنی بصیرت کی بنا پر ان کے لیے کوئی سود مند راہِ عمل تجویز کرتی۔ کچھ عرصے کے بعد جو بری بھلی قیادت سامنے آئی وہ قوم پرستی کے سراب کا شکار ہو کر رہ گئی۔
٭صہیونی اثرات و عوامل:
صہیونی تحریک اور اس کی سر گرمیوں کو بھی مسلم دنیا ،خصوصاً مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال میں ایک اہم عامل کی حیثیت حاصل رہی ہے۔
یہودیوں نے بین الاقوامی سطح پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے The Protocols of the Learned Elders of Zionکی صورت میں ایک بھیانک سازش تیار کی جس کی روشنی میں ۱۸۹۷ء کی بین الاقوامی صہیونی کا نفرنس میں طے پایا کہ فلسطین میں یہودی ریاست قائم کی جائے۔ فلسطین اس وقت تک سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔ ۱۹۰۲ء میں تیوڈورہرتسل Theodor Herzlکی قیادت میں یہودیوں کا ایک وفد سلطان عبدالحمید ثانی سے ملا اور پیش کش کی اگر سلطان یہودیوں کو فلسطین میں آباد کاری کی اجازت دے تو اس کے عوض وہ ترکی کے تمام بیرونی قرضے ادا کر دیں گے۔ اگر چہ بیرونی قرضے سلطان کے لیے ایک بڑا پریشان کن مالی مسئلہ تھا مگر سلطان کے نزدیک مالی مشکلات کے مقابلے میں غیرتِ ملی کا سوال زیادہ اہم تھا۔ اس لیے اس نے یہودیوں کی پیش کش کوحقارت کے ساتھ ٹھکر ادیا، اور جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے، سلطان نے یہودی لیڈر ہرتسل کو ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب تک عثمانیہ سلطنت کا ایک فرد بھی زندہ ہے ، تمھیں فلسطین نہیں مل سکتا۔ اس پر یہودی بہت برافروختہ ہوئے ۔ بلکہ ایک یہودی لیڈر حاخام فرح آفندی تو جاتے جاتے سلطان کو یہ دھمکی بھی دے گیا کہ ہم تم سے نمٹ لیں گے۔ چنانچہ انتقاماً وہ سلطان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوگئے۔نوجوان ترکوں کی انجمن اتحاد و ترقی بھی سلطان کو معزول کرنا چاہتی تھی۔ اب انجمن کو بااثر یہودیوں کی تائید و حمایت بھی حاصل ہو گئی۔
کمال اتاترک کا ایک یورپی سوانح نگار لکھتا ہے: ’’ انجمن اتحاد و ترقی نے فری میسن کے طریقِ کار اور ان کے دفاتر کا خوب خوب استعمال کیا‘‘۔
بہرحال سلطنت عثمانیہ اور سلطان کے خلاف یہودیوں کی انتقامی سازشیں جاری رہیں۔ ان کی پہلی کامیابی وہ تھی جب انجمن اتحاد و ترقی کی وزارت کے ذریعے ۱۹۱۴ء میں ایک ایسا قانون پاس کرایا گیا ،جس کے ذریعے انھیں فلسطین میں زمینیں اور جایدادیں خریدنے کی اجازت مل گئی۔ انھوں نے فلسطین کی زرخیز زمینیں خریدنا شروع کر دیں۔ اس کے باوجود وہ سمجھتے تھے کہ بڑی طاقتوں کا سہارا لیے بغیر وہ اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ پہلے تو انھوں نے جرمنی سے معاہدہ کرنے کی کوشش کی ‘پھر انھیں محسوس ہوا کہ برطانیہ اس معاملے میں زیادہ مفید ثابت ہوگا۔ ۱۹۱۶ء میں ’’ عالمی صہیونی تنظیم‘‘ نے ایک میمورنڈم کے ذریعے برطانیہ سے درخواست کی کہ وہ اپنے سیاسی و عسکری مفادات کے پیشِ نظر صہیونیت کی پشت پناہی کرے۔برطانیہ نے اس درخواست کو اعلانِ بالفور( دسمبر ۱۹۱۷ئ) کی شکل میں پذیرائی بخشی۔ جس میں کہا گیا تھا :’’ ہز میجسٹی کی حکومت فلسطین میں یہود کے لیے ان کے قومی وطن کے قیام کے حق میں ہے اور برطانیہ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری پو ری کوشش کر ے گا‘‘۔ اس اعلان کو جنگِ عظیم اول کے تمام اتحادیوں کی توثیق حاصل تھی۔ اعلان بالفور نے ساری دنیا میں منتشر یہودیوں کی مشترک سیاسی تحریک ’’صہیونیت‘‘ کے لیے ایک ایسا سنگِ بنیاد فراہم کر دیا جس کے ذ ریعے وہ فلسطین میں بتدریج قوّت و اقتدار حاصل کرتے چلے گئے۔ اس کے عوض دنیا بھر کے یہودیوں نے برطانیہ کو اپنی پوری تائید خصوصاً مالی اعانت فراہم کری، بلکہ امریکہ کو بھی اتحادیوں کی حمایت میں جنگ میں کھینچ لانے کی خدمت یہودیوں نے انجام دی۔
جنگِ عظیم کے خاتمے پر فلسطین کو برطانیہ نے اپنی نگرانی میں لے لیا تھا، جس مجلس اقوام (League of Nations)کے بارے میں اقبال نے کہا تھا:
بہرِ تقسیمِ قبور، انجمنے ساختہ اند
اس نے برطانیہ کو ۲۴ جولائی ۱۹۲۳ء کو وہاں حکومت قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ برطانوی اقتداردراصل ایک یہودی حکومت کے مترادف تھا۔ مختلف شعبوں اور کلیدی اسامیوں پر ایسے یہودی انگریز متعیّن کیے گئے جنھوں نے عربوں کو دبایا اور یہودیوں کو ہر شعبۂ زندگی میں آگے لانے کی بھرپورکوشش کی۔ عربی کی جگہ عبرانی سرکاری زبان بنادی گئی۔ ایک جیوش ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ غرض ایسے اقدامات کیے گئے جن سے فلسطین میں یہودی حکومت کے قیام کے لیے فضا اور حالات سازگار ہوتے گئے۔ دوسر ی طرف یہودی اکابر کی کوشش رہی کہ دنیا کے مختلف خطوں میں بکھرے ہوئے یہودی فلسطین میں آبادکاری کریں جس کے نتیجے میں ۱۹۳۳ء تک وہ ۵۴۵ مربع میل پر قابض ہو چکے تھے حالانکہ ۱۹۱۴ء میں ان کے پاس صرف ۱۷۷ مربع میل رقبہ تھا۔
۲۸ اپریل ۱۹۴۷ء کو مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں پیش ہوا۔ اقوام متحدہ میں روسی مندوب گرومیکو نے یہودیوں کے حق میں اور عربو ں کے خلاف زبردست تقریر کی۔ سات ماہ کے بحث مباحثے کے بعد فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی قرارداد منظور کر لی گئی۔
اس قرارداد کی روشنی میں یہودیوں کے لیے فلسطین میں اپنی ریاست قائم کرنا آسان ہو گیا۔ چنانچہ ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو انھوں نے ’’ اسرائیل‘‘ کے قیام کا اعلان کر دیا۔ ۳ مارچ ۱۹۴۹ء کو اسے برطانیہ، امریکہ اور روس کی تائید سے اقوام متحدہ کا ممبر بنا لیا گیا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نام نہاد اسرائیل کو سب سے پہلے جس ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا، وہ سوشلسٹ روس تھا جسے فلسطینیوں کا سب سے بڑا حمایتی سمجھا جاتا تھا۔ یہودی مفادات کی حمایت و پیش رفت اور نام نہاد اسرائیل کی ترقی و استحکام میں امریکہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ بلکہ اب تو یہ بات واضح ہو چکی ہے اسرائیل کا وجود امریکی پشت پناہی کا مرہونِ منت ہے ۔ امریکہ ہر سال اسے ایک خطیر امدادی رقم فراہم کرتا ہے۔ نیز وہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ اور عربوں کی مخالفت میں اقوام متحدہ میں بیسیوں بار ویٹو کا ’’ حق‘‘ استعمال کر چکا ہے۔
حاشیہ
۱۔ یہ اقدامات چونکہ آمریت کے سائے میں جابرانہ طریقے سے کیے گئے اور اس انتہا پسندی میں عوام کی مرضی کو دخل نہ تھا‘ اس لیے کمالی دورکے خاتمے پر اس کا ردّ ِ عمل سامنے آیا۔ ۱۹۵۰ء کے بعد سے ترکی میں اسلامی و دینی رجحانات بڑی شدت سے زور پکڑتے گئے۔ ایک امریکی کے بقول:’’ اسلام کے اثرات کا یہ عالم ہے کہ لادین ترکی میں ہر سطح کے سیاسی راہ نما دیہاتی ووٹ حاصل کرنے کے لیے مجبور ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو اسلام سے ہم آہنگ اور اس کا وفادار ثابت کر دکھائیں‘‘۔
عدنان میندریس کے دور میں عربی میں اذان دینے کی اجازت مل گئی ۔ نئی مساجد کی تعمیر شروع ہوئی۔ حج بیت اللہ کے لیے زیادہ سہولتیں دی جانے لگیں۔ استامبول یونی ورسٹی میں شعبۂ اسلامیات قائم ہوا۔ پرائمری سکولوں میں اسلامی تعلیم لازم قرار پائی اور یوں پچاس کے عشرے میں مذہب ایک قو ّت بن کر ابھرنے لگا۔ اس پر سیکولر حلقوں خصوصاً فوج کی تشویش بڑ ھنے لگی۔ بدقسمتی سے عدنان میندریس کی آمرانہ پالیسیوں کی وجہ سے بعض طبقے ان کی حکومت کے خلاف ہوگئے۔ چنانچہ ۱۹۶۰ء میں جنرل جمال گرسل نے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی اور میندریس اور اس کے دو وزیروں کو پھانسی دے دی گئی۔
۱۹۶۱ء میں مذہبی رجحانات کی حامل جسٹس پارٹی قائم ہوئی۔ اس پر پابندی لگی توکچھ عرصے بعد ملی سلامت پارٹی وجود میں آئی۔ پھر رفاہ پارٹی، اور اس کے بعد سعادت پارٹی… یہ سب اسلامیت کی علمبردار جماعتیں تھیں‘ اس لیے یکے بعد دیگرے فوج کے عتاب کا نشانہ بنتی اورپابندیوں کا شکار ہوتی رہیں۔ نجم الدین اربکان کو وزیراعظم کے طور پرایک سال بھی کام کرنے نہیں دیا گیا۔
سیکولر عناصر کی انتہا پسندی اس درجے کو پہنچ گئی کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں یونی ورسٹی طالبات کے لیے سکارف ( حجاب) اوڑھنا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ ایک خاتون رکن اسمبلی کو سکارف اوڑھنے پر اصرار کی پاداش میں نہ صرف اسمبلی کی رکنیت سے محرو م کر دیا گیا بلکہ اس کی شہریت بھی ختم کردی گئی۔ ملک میں ایسی نامعقول پابندیوں کا ردّعمل اتنا شدید ہوا کہ ۲۰۰۳ء کے انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو( جو سعادت پارٹی ہی کا ایک حصہ یا اس کا ایک فارورڈ بلاک تھا ) زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور اب وہی برسرِ اقتدار ہے۔