(طبع دوم)
اقبال کی طویل نظمیں ہاشمی صاحب کی ایک اہم تصنیف ہے جوپہلی بار ۱۹۷۴ء میں طبع ہوئی تھی۔ اب یہ ترمیم و اضافے کے بعددوبارہ شائع ہورہی ہے۔ علامّہ اقبال کو طویل نظمیں لکھنے میں خصوصی مہارت حاصل تھی۔ بانگِ درا‘ بالِ جبریل‘ اور ارمغانِ حجاز کی طویل نظمیں اپنی گوناگوں فکری اور فنی خصوصیات کی بنا پر اقبالیات کے قارئین کے لیے باعثِ کشش ثابت ہو ئی ہیں ، بلکہ ماہرین بھی اکثر‘ اقبال کی کسی طویل نظم ہی کو ان کی بہترین نظم قرار دیتے ہیں۔ ان میں اس بات پر تو اختلاف راے ہو سکتا ہے کہ بہترین نظم ’خضرراہ‘ ہے یا’شمع اور شاعر‘، ’ذوق و شوق‘ ہے یا’ مسجد قرطبہ‘، ’ساقی نامہ‘ ہے یا ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘… مگر پسندبالعموم کسی طویل نظم تک محدود ہو تی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر طویل نظم میں اقبال نے اپنے افکار کے بہترین عناصر یکجا کر دیے ہیں اور فن کی ان بلندیوں تک رسائی حاصل کی ہے جہاں شاعری پیغمبری کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔
اقبال کے طالب علم کے لیے ان نظموں کا مطالعہ ناگزیر ہے مگر یہ نظمیں مختلف قسم کی دِقّتوں کی وجہ سے طلبہ پر پوری طرح آشکار نہیں ہو پاتیں ۔ ان نظموں میں جہاں افکار کی نزاکتیں اِشکال کا باعث بنتی ہیں، وہیں بعض ایسے اشارے مبہم رہ جاتے ہیں جو آج سے نصف صدی پہلے کے قاری کے لیے واضح تھے مگر آج وہ ماضی کی دھند میں چھپ گئے ہیں۔ اندریں حالات ایک ایسی کتاب کی شدید ضرورت تھی جس میں ہر نظم کا تاریخی پس منظر ، اس میں بیان کردہ واقعات کی تفصیلات اور فنی باریکیاں شرح و بسط سے قلم بند کی گئی ہوں۔ ہاشمی صاحب ان دِقّتوں سے بخوبی عہدہ برآ ہوئے ہیں۔انھوں نے ہر نظم کا پس منظر اور فنی تجزیہ بڑی وضاحت اور جامعیّت سے تحریر کیا ہے۔ اس طرح ایک ایسی کتاب وجود میں آئی ہے جو اقبالیات کے طلبہ کے لیے ایک نعمت غیر مترقّبہ ہے۔ ہاشمی صاحب نے اقبالیات کے جملہ پہلوؤں کادِقّتِ نظر سے مطالعہ کر رکھا ہے، اس لیے ان کی نظر ان نظموں کے تمام پہلوؤں پر پڑی ہے اور کوئی گوشہ تشنہ نہیں رہا۔
ہاشمی صاحب خوش قسمتی سے ایک باذوق اور محنتی محقق ہونے کے علاوہ ایک راست فکر نقادبھی ہیں، اس لیے انھوں نے ان نظموں کو صحیح تناظر میں پیش کیا ہے اور فکرِ اقبال کا سلسلہ ترکستان کی بجاے کعبے سے ملایا ہے:
خاکِ یثرب از دو عالم خوش تر است
اے خنک شہرے کہ آں جا دلبر است
انھوں نے اقبال کے خیالات کو غلط سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کی،اس لیے ان شاء اللہ تعالیٰ طلبہ اس سے صحیح راہ نمائی حاصل کریں گے اور فکری انتشار کا شکار نہیں ہوںگے۔
نظرثانی شدہ یہ اشاعت ، جس میں پہلی اشاعت پر قابلِ قدر اضافے کیے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بعض تسامحات کی تصحیح بھی کی گئی ہے، موجودہ شکل میں اقبالیات کے تما م سنجیدہ طلبہ کے لیے ایک اہم اور ناگزیر تصنیف کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔
شعبۂ اردو خواجہ محمد زکریا
پنجاب یونی ورسٹی ‘اورینٹل کالج‘ لاہور یکم جنوری ۱۹۸۰ء