(بانگ درا)
فطرت کی شاعری
ہمالہ
’’جدید نظمیں کا عنوان اس باب پر اس لیے لگایا گیاہے کہ غزل‘قطعہ اور رباعی وغیرہ بھی نظم ہی کی اصناف بمقابلہ اصناف نثر ہیں اور اگر برائے گفتگو غزل کو الگ بھی کر دیا جائے تو قطعہ و رباعی کو لازماً نظم ہی قرار دینا ہو گا۔ یہی بات مثنوی‘ قصیدے اور مرثیے کے لیے ہو گی۔ ہمارے اس باب میں ایک مثنوی بھی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اقبا ل کی نظمیں مسمط کی اقسام ‘ مثلث‘ مخمس‘ مسدس‘ ترکیب بند ہیں اور یہ سب نظم کی قدیم ہئتیں ہیں۔ لیکن اردو تنقید کے عام محاورات کا لحاظ کرتے ہوئے قارئین کی سہولت کے لیے میں نے موضوعاتی نظموں کے لیے جدید نظمیں کا عنوان اختیار کیا ہے۔
اس قسم کی پہلی نظم مسدس کے ترکیب بند میں ہے۔ آٹھ بندوں اور چوبیس شعروںکی اس بالکل ابتدائی نظم کے اڑتالیس مصرعے شاعری منظری نگاری اور تاریخ کے احساسات تصاویر اور اشارات سے مملو ہیں۔ پہلا بند موضو ع کا جامع تعارف اور شاعر کے انداز نظر کا اظہار بھی کراتا اور کرتا ہے:
اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستان
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ میں کچھپیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں
ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے
تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے
پہلے مصرعے میں فصیل کشور ہندوستاں کی ترکیب جغرافیہ و تاریخ کو ایک پیکر شعر میں ڈھالتی ہے ۔ جبکہ دوسرے مصرعے میں ایک ایسی شاعرانہ تصویر دی گئی ہے جو دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ کو اس سے بھی اونچے آسمان کے لبوں سے ایک بوسہ قبول کرتی ہوئی دکھاتی ہے۔ ہمالہ کی بلندی اور ا س کے ساتھ ہندوستان کے لیے اس کی پاسبانی کی اس سے بہتر شاعرانہ تصویر متصور نہیں۔ اس تصویر کا ایک ایک لفظ چنا اور جڑا ہوا ہے۔ صرف ایک لفظ جھک کر کی بلاغت پر غور کیا جاے تو ہمالہ و آسمان کے تناظر میں اس کے حسن اور معنی آفرینی کا مطالعہ کیا جائے۔ تیسرے مصرعے میں یہ بیان دے کر ایک قدیم ترین مظہر فطرت ہونے کے باوجود ہمالہ کی سطح پر فرسودگی کا کوئی نشان نہیںہے شاعر اسے گردش شام و سحر کے درمیان جوان قرار دیتا ہے چوتھے مصرعے کا پہلا مستقل لفظ جواں ہے اور آخری درمیاں جبکہ دونوں کے بیچ گردش شام و سحر کی محاورے کی حد تک سلیس شاعرانہ ترکیب ہے۔ دوسرے شعر کا سارا حسن الفاظ کے انتخاب اور نشست میں مضمر ہے جبکہ پہلے شعر میں تصویروں کی جمال آفرینی تھی۔ اسی طرح دو شعروں اور چار مصرعوں میں ہمالہ کا محل وقوع اس کی تاریخ اور اس کی رفعت و قدامت کی ولولہ انگیز شاعرانہ تربیر کے بعد مسدس کے پہلے بند کے آخر میں ٹیپ کا یہ شعر سامنے آتاہے: ایک جلوہ تھا…
پہلے مصرعے میں یہ کہہ کر کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو وادی سینا میں کوہ طورپر جمال الٰہی کا ایک جلوہنظر آیا تھا۔ دوسرے مصرعے میں شاعر وادی ہندمیں واقع کوہ ہماہ کو چشم بینا کے لیی سراپا جلوہ ہی جلوہ بتاتا ہے۔ اس طرح جغرافیہ و تاریخ اور عشق و قدامت کے ساتھ معرفت و بصیرت کا اضافہ بھی ہو جاتا ہے اور ہمالہ کی تصویر اجمالاً ہر جہت سے مکمل ہو جاتی ہے اس فن کاراانہ تصویر کشی سے پتھر کا مہیب پہاڑ دل کی لطیف ترین دھڑکنوں کا مرکز اور پیکر بن جاتا ہے۔ ایک مظہر فطرت کسی قسم کی خارجی آرائش سے بے نیاز صرف نگاہ شاعر ررنگین نوا کے جادو سے ایک عروس فن کی شکل میں جمیل میں رونما ہے۔
پہلے بند کے حسن و تاثیر کی اس فضا میں دوسرے بند سے اجمال کی تفصیل شروع ہوتی ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ ظاہر ی نگاہ میں جو چیز صرف ایک وسیع و رفیع کوہستان ہے وہ درحقیقت برصغیر ہندوستان کی وہ جغرافیائی اور قدرتی دیوار ہے جو تاریخی و عملی طور پر صدیوں سے اس عظیم خطہ ارض کی پاسبانی کر رہی ہے اور اس کی بلندی کا یہ عالم ہے کہ اگر اس کو فطرت کی شاعری کے ایک دیوان سے جو کلام الٰہی اوراس کی آیات کا ترجمان ہے مشابہ قرار دے دیا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ اس کا مطلع اول فلک ہے ۔ جہاں سے گویا ہمالہ کی قدری شاعری شروع ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک بصیرت افروز کلام کی طرح اس کوہستاں کے مناظر انسان کی نگاہوں کو خلوت دل اور اس کے ذکر و فکر کی طرف مائل کرتے ہیں۔ اس عالم میںنظر آتا ہے کہ پورا پہاڑ برف پوش ہے۔ اس لیے کہ اکثر اس کی چوٹیوں پر برف گرتی رہتی ہے اور ا س کی براق سفیدی اس شان سے چمکتی ہے کہ اس کے آگے آفتاب کی تابانی بھی ماند پڑتی نظر آتی ہے۔ یہ کیفیت قلہ کوہ پر آفتاب کی شعاعوں سے پیداہونے والی تاب کاری کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ ہمالہ کی چوٹیوں پر جب برس اس طرح دمکنے لگتی ہے تو محسوس ہوتاہے کہ گویا وہ سورج کی کرن پر ہنس رہی ہو اور اپنی تابانی کے مقابلے میں اس کی تابانی کامذاق اڑا رہی ہو۔ ہمالہ سے پھوٹنے والے اس نور مرکب کو جو برف اور شعاع آفتاب کا مجموعہ ہے دستار فضیلت سمجھا جاتا ہے۔ جو کلاہ مہر عالم تاب پر فائق و حاوی ہے۔ اس لیے کہ آفتاب کی کلاہ صرف اس کی شعاع ہے جبکہ ہمالہ کی دستار کے یچ میں پتھر‘ برف اور اس کی شعاع کا انعکا س تین عناصر شامل ہیں۔
پہلے بند میںفصیل ’’پیشانی‘‘ ’’بوسہ‘‘ ’’دیرینہ روزی‘‘ ’’جوانی‘‘ ’’گردش شام و سحر‘‘ ’’جلوہ‘‘ ’’کلیم‘‘ ’’طورسینا‘‘ ’’سراپا تجلی‘ ‘ اور ’’چشم بینا‘‘ کی تصویروں کو ’’امتحان ‘‘ ’’دیدہ ظاہر‘‘ ’’کوہساتان پاسبان‘‘ ’’دیوار‘‘ مطلع‘‘ ’’دیوان‘‘ ’’خلوت گاہ و دل‘‘ ’’برف ‘‘ دستار فضیلت‘‘ ’’خندہ زن کلاہ‘‘ اور مہر عالم تاب‘ کی دوسرے بند میں واقع ہونے والی تصویروں کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو خاص کر سراپا تجلی کے سیاق و سباق میں دیواں اور دستار کے پیکروں پر غور کیا جائے تو ہمالہ پر نظر آنے والے مناظر فطرت قلب پر نازل ہونے والے مظاہر معرفت کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ بلکہ ان میں صنم ہو جاتے ہیں۔ دیواں اوردستار کے استعارے یقینا پیچیدہ ہیں۔ مگر ان میں تو نہ کوئی تصنع ہے نہ تعقید اور نہ آہنگ کلا م ۔ ان سے کوئی تعویق پیدا ہوتی ہے ۔ بلکہ ان کی ترکیب و ترتیب ارتقائے خیال اور روانی بیان میں تسلسل اور توازن قائم رکھتی ہے۔
تیسرے بند میں قدامت ‘ رفعت‘ وسعت اور لطافت و صباحت کاملا جلا بیان ہے۔ یعنی ماسبق کے تصورات کا زیادہ ثروت مند بناتے ہوئے ان میں بعض نئے تصورات کا اضافہ نئی تصویروں کے ساتھ کیا گیا ہے۔
تیری عمر رفتہ کی اک آن ہے عہد کہن
وادیوں میں تیری کالی گھٹائیں خیمہ زن
چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرم سخن
تو زمین پر پہنائے فلک تیرا وطن
چشمہ دامن ترا ائینہ سیال ہے
دامن موج ہوا جس کے لیے رومال ہے
یہ قدامت کی انتہا ہے کہ پورا عہد کہن ہمالہ کی عمر رفتہ کی اک آن ہے اور رفعت کی حد یہ ہے کہ پہاڑ کی چوٹیاں زمین کی تہوںمیں اپنی جڑیں استوار کر کے آسمان کے ایک بلند ترین ستارے ثریا کے ساتھ سرگرم سخن نظر آتی ہیں وسعت کا عالم یہ ہے کہ زمین کے سب سے بڑے رقبے پر محیط ہو کر پہنائے فلک میں سلسلہ کوہ کی چوٹیاں پھیلی وئی ہیں پہاڑ کی بلندیاں اتنی ہیں کہ ہر وقت اس کی وسعتوں میں کالی گھٹائیں خیمہ زن رہتی ہیں۔ اور اس سلسلہ کوہ کو ابروباد اپنا مستقل مسکن بنائے ہوئے ہیں چنانچہ دامن کوہ میں جو بے شمار چشمے رواں ہیں ان کی شفات سطح پر ہر وقت ہوائیں اس طرح چلتی رہتی ہیں گویا اس کو صاف و شفاف رکھنے کے لیے موج ہوا کا دامن رومال کی مانند جنبش کرتا رہتا ہے چشمہ دامن ’’دامن موج‘ ’’آئینہ سیال‘‘ ’’اور رومال‘‘ کے پیکر معنوی اور صوتی طور پر بالکل ہم آہنگ ہو کر معنی آفرینی اور نغمہ ریز ہیں۔ اس تصویر و ترنم کی گنگناہٹ دماغ میں گونجتی ہے:
چشمہ دامن ترا آئینہ سیال ہے
دامن موج ہوا جس کے لیے رومال ہے
حروف ل‘ م‘ ن‘ سے مرتب ہونے والے اس شعر کے الفاظ و تراکیب کی نغمگی استعاروں کے حسن معنیٰ کو دوبالا کر رہی ہے۔
چوتھا بند ابروباد و برق کی آنکھ مچولی کے لیے مخصوص ہے‘ ہوا ایک سرکس اسپ تیز رفتار کی طرح چل رہی ہے۔ اور اس بادتند میں چوٹیوں پر کالی گھٹائوں کے اندر بجلیاں اس طرح چمک رہی ہیں کہ گویا رہوار ہوا کی تیزی رفتاری کو صحیح رخ پر بڑھانے کے لیے بجلی کے کوڑے چل رہے ہوں۔ ابروبار و برق کی یہ آنکھ مچولی ہمالہ کی عناصر قدرت کی ایک بازی گاہ بنائے ہوئے ہے۔ اور اس بازی گاہ میں مہیب و سیاہ لکہ ہائے ابرفیل بے زنجیر کی مانند دوڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
ابر کے ہاتھوں میں رہوار ہوا کے واسطے
تازیانہ دے دیا برق سر کہسار نے
اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تو بھی جسے
دست قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لیے
ہائے کیا فرط طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر
فیل بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر
ابر کو پہلی تصویر میں رہوار ہوا پر سوار کر کے اس ے ہاتھوں میں برق سر کہسار کا تازیانہ دیا گیا ہے اور تینوں عناصر کو میدان فطرت میں کھیلتے دکھایا گیا ہے۔ لیکن دوسری تصویر میں ہوا اتنی تند و تیز ہو جاتی یہ کہ اب خود اب ایک فیل بے زنجیر کی صورت اڑنے لگتا ہے یہ نتیجہ ہے جمال فطرت کے جلوے سے پیدا ہونے والے فرط طرب کا۔ گویامئے فطرت کے نشے نے ابر کو بدمست کر دیا ہے اور قابو سے باہر فیل بے زنجیر ہو گیا ہو یقینا یہاں ایک ہی منظر میں دوتصویروں کا تصادم ہوتا ہے مگر ایک تصویر میں سے دوسری تصویر نکل کر پھر اسی میں مدغم ہو جاتی ہے اور یہ ہم آہنگ تبدیلی رفتار ہو کی تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے جس سے بادل کی بدلتی ہوئی فطری شکلوں کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ لہٰذا تصویروں کا تصادم فی الواقع کوہسار ہمالہ پیہم نمودار ہونے والی متنوع تصاویر فطرت کی حقیقت پسندانہ آئینہ سامانی کے لیے ہے۔ بدلتے ہوئے مناظر کو بڑے فن کارانہ انداز سے ایک دوسرے میں مدغم کر کے منقش کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی تضاد و تکلف نہیں تنوع کی بے ساختگی ایک بے ساختہ رنگا رنگی ہے متنوع مناظر فطرت کی ٹھوس لیکن شاعرانہ عکاسی ہے۔
ہمالہ بازی گاہ عناصرمیں فطرت کا ایک ہنگامہ خیز رخ چوتھے بند میں دکھانے کے بعد پانچویں بند میں شاعر اس کا پرسکون رخ دکھاتا ہے جس میں نسیم صبح کی سبک خرامی ہے غنچوں کی نمود ہے زبان برگ کی گویا خامشی ہے اور سکوت گل کا افسانہ ہے:
جنبش موج نسیم صبح گہوارہ بنی
جھومتی ہے نشہ ہستی میں ہر گل کی کلی
یوں زبان برگ سے گویا ہے اس کی خامشی
دست گل چیں کی جھٹک میں نے نہیں دیکھی کبھی
کہہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ مرا
کنج خلوت خانہ قدرت ہے کاشانہ مرا
دامن کوہ کے پھولوں کلیوں اور پتوں کا یہ ایک اچھوتا حسن ہے جس کی سکوں بخشی ایک خلوت خانہ قدرت سجاتی ہے جس طرح دوسرے بند میں پہاڑ کی چوٹی کا حسن‘ خلوت گاہ دل آراستہ کرتا تھا۔ گرچہ کوہستاں کے سارے بند میں پہاڑ کی چوٹی کا حسن ‘ مگر ان کا جمال خلوت کے تفکر کی طرف مائل کرنے والا ہے مظاہر کو دیکھ کر دل حقائق کے ادراک کے لیے بے قرار ہوتا ہے۔ اس لیے کہ حسین مناظر کے پیچھے ایک اس حسن ظاہر سے بھی بڑی حقیقت جمال باطن کی پوشیدہ ہے۔ اسی لیے بصارت تیز ہو کر بصیرت بنتی ہے اور بصیرت گہرائی میں اتر کر معرفت بن جاتی ہے مشاہدے سے مطالعہ اور مطالعے سے ادراک پیداہوتا ہے۔
کوہسار ہمالہ پر مناظر قدرت کا رنگ دیکھ لینے کے بعد چھٹے بند سے ان مظاہر قدرت کا آہنگ سنائی دیتا ہے جو اس کہسار کے ساتھ وابستہ ہیں:
آتی ہے ندیٰ فراز کوہ سے گاتی ہوئی
کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی
آئینہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی
سنگ راہ سے گاہ بچتی گاہ ٹکراتی ہوئی
چھیڑتی جا اس عراق دل نشیں کے ساز کو
اے مسافر! دل سمجھتا ہے تری آواز کو
ہمالہ جیسے بلند و بالا پہاڑ کی اونچائیوں سے اتر کر جس ندی کے دھارے ڈھلوانوں میں بہتے ہوں اس کی موسیقی کا تصور ہی سامعہ نواز ہے‘ پھر اس جوئے کوہ کا پانی یقینا آئینے کی طرح صاف و شفاف ہو گا‘ لہٰذ کیا روانی اور کیا صفائی دونوں میں ہمالیہ کی ندیاں کوثر و تسنیم کے لیے بھی قابل رشک ہو سکتی ہیں۔ وہ بلاشبہ جنت نگاہ اور فردوس گوش شامل ہیں۔ ان کے شفاف پانی میں شاہد قدرت اپنے رخ زیبا کا حسین عکس دیکھ دیکھ کر سنورتا ہے۔ یہ اٹھلاتی ہوئی بلند ترین ندیاں انتہائی تیزی کے ساتھ رواں دواں ہیں کبھی پتھروں سے ٹکراتی ہوئی اور کبھی ان سے بچ کر نکلتی ہوئی۔ شاعر ہمالہ کی اس موج آب کے دل نشیں نغمے کو سنتا ہے اور راہ حیات کے اس تیزرو مسافر کی تیز گامی کو سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ وہ بھی راہ حیات میں اپنی منزل کی طرف کچھ اسی طرح تیز گام ہے ۔ اس بند میں سب سے نمایاں چوتھا مصرع ہے جس میں الفاظ کا انتخاب اور ان کی نشست اس نغمہ موسیقی کو محسوس کرانے کے لیے بہت موزوں ہے جو ہمالہ کے جوئیباروں سے پھوٹتا ہے ۔ پہلے مصرعے میں حروف و صوت اور لفظ ومعنی کی ترکیب اور ترتیب جس ترنم فطرت کی ابتدا کرتی ہے چوتھا مصرع اس کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ اور ترنم کی اس لکیر کے درمیان فطری طور سے سطح آب پر قریب کے مظاہر قدرت کا عکس بھی پرتو فگن ہو کر ترنم کی ثروت میں اثر کے لحاظ سے اضافہ کرتا ہے۔ آخری شعر میں شاعر اس نغمے کے آہنگ کو عراق دلنشیں سے تشبیہہ دے کر خود بھی منظر کی موسیقی میں شامل ہو جاتا ہے۔
ساتویں بند میں بھی نغمہ کوہسار جاری رہتا ہے اور جوئبار کے بعد آبشار کا ترنم ایک حسین ترین پس منظر میں ابھرتا ہے‘ شام ہو رہی ہے لیلیٰ شب کی دراز زلفیں کھل چکی ہیں‘ ہر طرف سکوت ہے ‘ درخت تک تفکر میں گم نظر آتے ہیں فطرت کی یہ خاموشی تکلم سے بھی زیادہ معلوم ہوتی ہے ۔ رنگ شفق کوہسار پر لرزاں ہے‘ اور گویا عروس فطرت کے رخسار پر غازہ مل کر اس کے شعلہ حسن کو فروزاں کر رہا ہے۔ اس عالم میں آبشاروں کی صدا دامن دل کی کھینچتی ہے۔ اور انسان ایک دوسری دنیا میں کھو جاتا ہے لیلیٰ شب زلف رسارنگ شفق اور دامن دل کی ترکیبیںاور شبیہیں جو کیفیت پیدا کرتی ہیں اس میں مل کر آبشاروں کی صدا ایک نہایت خیال انگیز نغمہ رنگیں کی فضا قائم کرتی ہے فطرت کے رخسار پر صنعت کے جس غازے کا ذکر کیا گیا ہے وہ اول تو شفق جیسے مظہر فطرت ہی کا گلگلونہ ہے دوسر ے یہ نگاہ شاعر رنگیں نوا کا وہ غازہ فن ہے جس کے فیض سے عروس ہمالہ کے حسین رخسار جمیل تر نظر آنے لگتے ہیں۔ کوہسار پر رنگ شفق کے سرخ عکس کی یہ بہترین شاعرانہ تعبر و تمثیل ہے۔
دنیا کے سب سے اونچے اور پرانے کوہسار کی اس شاعر انہ حقیقیت پسندانہ تصویر کشی کے بعد آخری بند میں شاعر ہمالہ کو مخاطب کر کے اس سے فرمائش کرتا ہے کہ وہ اسے اس صدیوں پہلے گزرے ہوئے قدیم ترین وقت کی داستان سنائے جب اس کی دادی آبائے انسان کا مرکز بنی ار پہلی بار انسان کے قدیم اس قدیم زمین پر پڑے تاکہ اس سیدھی سادھی بالکل فطری زندگی کا کچھ ماجرا معلوم ہو جس پر تمدن کے پر تکلف رنگ کا داغ نہ پڑا تھا اور زندگی کا معصوم چہرہ غازہ صنعت کاری سے بالکل تروتازہ تھا اپنی اس شاعرانہ تمنا کو پورا کرنے کے لیے شاعر عالم تصور میں ساعت وقت کی سوئیوں کو صدیوں پیچھے کی طرف لے جانا چاہتا ہے تاکہ ماضی کے فردوس گم گشتہ کا نظارہ کرے:
اے ہمالہ داستاں اس وقت کی کوئی سنا
مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا
کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا
داغ جس پر غازہ رنگ تکلف کا نہ تھا
ہاں دکھا وے اے تصور! پھر وہ صبح و شام تو
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
کوہ ہمالہ جیسے قدیم ترین مظہر قدرت کے دامن میں کھڑے ہو کر قدرت کے عجائب اور فطرت کے اسرار کا مشاہدہ و مطالعہ کرتے ہوئے۔ یہ تمنا بالکل فطری ہے۔ کسی بھی دور جدید کا ترقی یافتہ انسان جب اس طویل و عریض اور حسین و جمیل کوہسار کو دیکھے گا اور اس کے مناظر مظاہر پر غور کرتے گا تو اس کے دل و دماغ میں تاریخ انسانی کے بعید ترین ماضی کے متعلق ایک شدید تجسس فطری طور پر اور بے ساختہ پیدا ہو گا اور یقینا اس کی نگاہ تصور ماقبل تمدن کی معصوم سادگی اور اس کی اس عظمت و شوکت کا نظارہ کرنے لگے گی جو ہمالہ کی مہیب چٹانوں اور ان کے پھیلے ہوئے سلسلوں اور ان کی ابھری ہوئی چوٹیوں سے ہویدا ہے ’’آبائے انساں‘‘ کی ترکیب ہی قاری کے تخیل کے سامنے سے وقت کے پردے ہٹا کر اسے آغاز تاریخ کے لمحات میں پہنچا دیتی ہے۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ نظم کا ارتقائے خیال مسلسل ہے اور مختلف بندوں کے درمیان ایک ترتیب ہے ساتھ ہی ہر بند کے مصرعے اور اشعار ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں ہئیت کی اس تنظیم کے علاوہ استعارات و علامات اور کنایات و اشارات کا پورا نظام ہے منتخب الفاظ و تراکیب کی نشست معنی آفرینی بھی ہے اور نغمہ آفریں بھی‘ ان فنی کمالات سے کوہ ہمالہ کی ایک دل آویز اور فکر انگیز شاعرانہ حقیقت پسندانہ تصویر رونما ہوتی ہے۔
ہمالہ کی تصویروں میں کوئی تصنع نہیں نہ اس کے آہنگ میں کوئی تکلف ہے۔ کوئی بات نہ تو دور انکار ہے نامانوس نہ فضول بلکہ سامنے کی حقیقت اور فطرت کے متنوع پہلو میں جنہیں فن کارانہ طور پر ایک نظم میں مناسب طور پر پرو دیا گیا ہے صرف یک چیز بعض کانوں کو کھٹک سکتی ہے وہ ہے توالی اضافات کی کثرت لیکن یہ چیز کم و بیش اقبال کے پورے کلام میں ہے اور ان کی بہترین نظموں میں بھی پائی جاتی ہے اقبال کے علاوہ بھی اہم اردو شعراء کے بہترین اشعار میں یہ بات موجود ہے کہ غالب تو غالب‘ حسرت کے کلا م میں بھی یہ عنصر ہے۔ جہاں بھی ہے یہ کوئی اجنبی یا ثقیل و کریہہ چیز نہیں اردو زبان و ادب کے اسالیب و محاورات میں فارسی الفاظ کی تراکیب خون کی طرح جاری و ساری ہیں۔ اور ان کی ثروت و زینت کے ضامن ہیں۔ اس سلسلے میں لسانی و ادبی نکتہ نظر صرف طریق استعمال اور محل استعمال کا ہے ۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہمالہ کی توالی اضافات والی ترکیب اپنی جگہ بہت ہی چست موزوں اور حسین سب اور راواں ہیں۔ ان میں بڑی شیرینی ‘ معنی آفرینی اور نغمہ آفرینی ہے۔ رنگینی زرینی اور خیال انگیزی ہے ان غور کیجیے ان ترکیبوں پر:
فصیل کشور ہندوستاں ‘ کلیم طور سینا‘ امتحاں دیدہ ظاہر‘ سوائے خلوت گاہ دل ‘کلاہ مہر تاب عالم تاب ‘ برق سر کوہسار‘ جنبش موج نسیم صبح‘ کنج خلوت خانہ قدرت‘ مسکن آبائے انساں‘ غازہ رنگ تکلف۔
اگر ان خوب صورت ارو درخشاں تراکیب کو زیورات جیسا سامان آرائش قرار دیا جائے تب بھی فن کے نقطہ نظر سے کوئی مضائقہ نہیں۔ شاعری بجائے خود تزئین حیات ہے اور اس کے جملہ وسائل اظہار عناصر جمال ہیں‘ شعر میں سادگی نہ شرم لازم ہے نہ کوئی بڑا وصف پھر یہ ساری تراکیب اپنے اس سیاق و سباق میں نگینے کی طرح جڑی ہوئی ہیں جس میں مفرد الفاظ اور نرالی اضافات سے خالی تراکیب کی کثرت ہے۔ ہمالہ کا جسم فطری و پیدائشی طور پر بہت صحت مند اور خوبصورت ہے‘ اس کے تمام اعضا قدری طور پر سڈول ہیں اور سجل ہیں۔ اس کی رگوں میں خون حیات گرم جولاں ہے اس متناسب اور حسین جسم پر اگر زیورات بھی ہیں تو یقینا وہ بہار حسن اور اس کی دل کشی میں اضافہ کر رہے ہیں سنگلاخ ہمالہ کودست فن کار نے ایک عروس کی طرح آراستہ و پیراستہ کر دیا۔ اس سے سلسلہ کوہ کی صلابت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے‘ صرف اس کی نفاست میں زبردست اضافہ ہو گیا ہے‘ پہاڑ کا جمال جمیل تر ہو گیا ہے۔
تین اور بالکل ابتدائی نظموں کا مطالعہ فنی اعتبار سے مفید ہو گا بانگ درا کی دوسری نظم گل نگیں اور تیسری نظم عہد طفلی میں بھی ہمالہ کی طرح مسدس ہیں۔ ان میں پہلی بار چار بندوں پر مشتمل ہے اور دوسری دو بندوں پر‘ دونوں میں ترکیب بند ہے۔ دانوں میں فارسی تراکیب اور ان میں توالی اضافات کثرت سے ہیں۔ اس مشابہت کے باوجود اگر پہلی نظم کسی کو نہایت پر تصنع اور پر تکلف معلوم ہوتی ہے جب کہ دوسری سادہ و فطری نظر آتی ہے تو اس کی کوئی وجہ اس کے سوا سمجھ میں نہیں آتی کہ ایسا سمجھنے والے شاید دونوں نظموں کے موضوعات اور حجم میں فرق سے متاثر ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ بالکل شخصی و موضوعی قسم کا تاثراتی انداز نظر ہے۔ اس قسم کے مطالعے میں معروضیت اور اصولی و فنی انداز تنقید نہیں ہے۔ غور کیجیے دونوں نظموں کی توالی اضافات والی ترکیب پر۔
گل رنگیں
شناسائے خراش عقیدہ مشکل‘ شریک شورش محفل‘ نگاہ چشم صورت ہیں‘ برگ ریاض طور زخمی شمشیر جستجو چراغ خانہ حکمت رشک جام جم‘ توسن ادراک انسان۔
عہد طفلی
وسعت آغوش مادر‘ نشان طفل جاں‘ شور زنجیر در
بلاشبہ پہلی نظم میں توالی اضافات سے دوسری سے دوگناہ بلکہ تین گنا ہے۔ لیکن اول تو پہلی کے بند میں بھی دوسرے سے دوگنا ہیں دوسرے موضوع کے لحاظ سے تصویروں کا استعمال ہے۔ عہد طفلی میں شاعر نے صرف ایک بچے کے احساسات واحد متکلم میں اسی کی طرف سے بیان کیے گئے ہیں۔ جبکہ گل رنگیں میں ایک تو شاعر نے پھول کے وجود کی بالکل فلسفیانہ ترجمانی کی ہے ۔ دوسرے وہ خود متکلم ہے اورپھول مخاطب چنانچہ ایک مظہر فطرت کی تصویر کشی کی بجائے اس مظہر کے متعلق شاعر کے احساسات بیان کیے گیے ہیں گویا پھول پر شاعر نے اپنی کیفیات طاری کر دی ہیں یا پھول کے احساسات بیان کیے گئے ہیں گویا پھول پر شاعر نے اپنی کیفیات طاری کر دی ہیں یا پھول کو دیکھ کر شاعر کے دل میں اپنے متعلق جو احساسات ابھرے ان کا بیان اس نے پھول کے ساتھ اپنا تقابل کر کے کیا ہے۔ اس طرح گل رنگیں کا موضوع بہت پیچیدہ ہے جبکہ عہد طفلی کا موضوع نسبتاً سادہ ہے۔ یہ پیچیدگہ اور سادگی ان تصورات میں نہیں‘ جہاں تک نظم کا تعلق ہے‘ یہ فرق ان تصورات کے متعلق شاعر کے تصور میں ہے اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں موضوعات میں توالی اضافات سے قطع نظر ایک تو فارسی الفاظ و تراکیب یکساں نمایاں ہیں دوسرے انداز فکر فلسفیانہ بھی ہے ۔ دونوں کے الفاظ و تراکیب پر ایک نظر ڈالیے:
گل رنگیں
گل رنگیں‘ زیب محفل‘ فراغت ‘ بزم ہستی‘ سراپا سوز و ساز آرزو‘ بے گداز آرزو‘ آئیں‘ دست جفا جو‘ گل چیں‘ دیدہ حکمت دیدہ بلبل‘ مستور ‘ مثل بو ‘ سامان جمعیت جگر سوزی‘ سرمایہ قوت‘ آئینہ حیرت‘ تلاش متصل ‘ شمع افروز‘ خرام آموز ‘ ناتوانی۔
عہد طفلی
عہد طفلی‘ دیار نو‘ جنبش‘ حرف بے مطلب‘ درد طفلی ‘ سوئے قمر ‘ بے آواز پا‘ کوہ و صحرا‘ دروغ مصلحت آمیز‘ وقف دید‘ مائل گفتار ‘ سراپا ذوق استفسار۔
چار بندوں کی نظم میں اکیس الفاظ کی فہرس ہے اور دو بندوں کی نظم میں بارہ الفاظ ہیں گویا فارسی کے ان مفرد و مرکب الفاظ کا استعمال جن کا آسان تر بدل موجود ہے دونوں نظموں تقریباً برابر ہے۔
اب دونوں نظموں میں سے ایک ایک شعر نمونے کے طور پر لیتا ہوں:
تو شناسائے خراش عقدہ مشکل نہیں
اے گل رنگیں تیرے پہلو میں شاید دل نہیں
٭٭٭
درد طفلی میں اگر کوئی رلاتا تھا مجھے
شور زنجیر در میں لطف آتا تھا مجھے
پہلا شعر گل رنگیں کا پہلا ہی شعر ہے اور اس کے پہلے ہی مصرعے میں شناسائے خراش عقدہ مشکل‘ کی چار الفاظ پر مشتمل توالی اضافات ہے ‘ دوسرا شعر عہد طفلی کا تیسرا شعر ہے اور اس میں تین الفاظ شورش زنجیر در‘ پر مشتمل توالی اضافات ہے شور ش زنجیر در کی ترکیب ایک طفل شیر خوار کے لبوں سے ادا ہوتی ہے۔ اور اس کی توالی اضافات بھی ایک تتلاہٹ محسو سہوتی ہے۔ جبکہ صوتی اور طور پر اس سے زنجیر سے ہلنے کی صدا بھی ابھرتی ہے لہٰذا اپنے محل استعمال ہیں یہ بالکل چست ہیں لیکن شناسائے خڑاش عقدہ مشکل‘ کی ترکیب ایک عاقل و بالغ بلکہ مفکر و فلسفی یا کم از کم باشعور فن کا ر کی زباں سے نکلتی ہے۔ جبکہ وہ گل رنگیں کو خطاب کر کے اس کے ساتھ اپنے حال دل کا موازنہ کر رہا ہے وہ چاہتا ہے کہ پھول کتنا ہی رنگیں و حسین ہے اس کے پہلو میں سوچنے اور محسوس کرنے والا دل نہیں ہوتا لہٰذا وہ بہت معصوم سادہ لوح اور مطمئن ہے جبکہ شاعر اپنے پہلو میں ایک حساس دل رکھتا ہے۔ اور سارے جہاں کا درد اس کے جگر میں ہے۔ ہو زخمی شیر ذوق جستجو ہے ایک سے ایک عقدہ مشکل اس پر اپنی خراش ڈال رہا ہے۔ یہ خراش عقدہ مشکل اپنا ایک خاص لطف رکھتی ہے اور شاعر کا دل مجروح اس لطف کا شناسا ہے یہ شناسائی گرچہ اولاً اور بہ ظاہر پریشانی کا باعث ہے لیکن بالآخر اور درحقیقت یہی پریشانی سامان جمعیت بن جائے گی ا س سے دل میں ایک تلاش متصل پیدا ہوتی ہے جبکہ صوتی طور پر اس سے زنجیر ہلنے کی صدا بھی ابھرتی معلوم ہوتی ہے‘ لہٰذا پنے محل استعمال میں یہ بالکل چست ہے لیکن شناسائے خراش عقدہ مشکل‘ کی ترکیب ایک عاقل و بالغ بلکہ مفکر و فلسفی یا کم از کم باشعور فن کار کی زبان سے نکلتی ہے ۔ جبکہ وہ گل رنگیں کو خطاب کر کے اس کے ساتھ ساتھ اپنے حال دل کا موازنہ کر رہا ہے۔ وہ کہنا یہ چاہتا ہے کہ پھول کتنا ہی رنگین و حسین ہو اس کے پہلو میں سوچنے اور محسوس کرنے والا دل نہیںہوتا لہٰذا وہ بہت معصوم سادہ لوح اورمطمین ہے جبکہ شاعر اپنے پہلو میں ایک حساس دل رکھتا ہے اور سارے جہاں کا درد اس کے جگر میں ہے۔ وہ زخمی شمشیر ذوق جستجو ہے ایک سے ایک عقدہ مشکل ا س پر اپنی خراش ڈا ل رہا ہے یہ خراش عقدہ مشکل اپنا ایک خاص لطف رکھتی ہے اور شاعر کا دل مجروح اس لطف کا شناسا ہے یہ شناسائی گرچہ اولاً اور بہ بظاہر پریشانی کا باعث ہے لیکن بالآخر اور درحقیقت یہی پریشانی سامان جمعیت بن جائے گی ا س سے دل میں ایک تلاش متصل پیدا ہو تی ہے جو توسن ادراک انسان کے لیے خرام آموز ہے یہ وہ جگر سوزی ہے جو چراغ خانہ حکمت ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح ایک شورش زنجیر در کی ترکیب پوری نظم کے موضوع سوز و ساز آرزو کا اشاریہ ہے‘ اس سوز و ساز کی کیفیت ہی کو شاعر نے خراش عقدہ مشکل کی ترکیب میں ممثل کیا ہے ۔ جو صوتی و معنوی دونوں لحاظ سے بالکل موزوں ہے۔ لہٰذ ا فن کے نقطہ نظر سے توالی مضافات کے بجائے رشتہ معنی کا تعاقب کیا جانا چاہیے۔ اس لحاظ سے معلوم ہو گا کہ دونوں ترکیبیں اپنے اپنے مفاہیم موثر ترین طریقے سے ادا کرتی ہیں۔ یہی وہ بڑی سے بڑی کامیابی ہے جس کی توقع شاعری سے کی جا سکتی ہ۔
اقبال کی توالی اضافات کا موازنہ غالب کے ابتدائی کلام میں پائی جانے والی توالی اضافات سے کیا جائے تو فن کے کچھ نکات روشن ہوں گے۔
غالب کا ایک شعر ہے:
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
تماشائے بیک کف بردن صدول پسند آیا
مرغوب بن مشکل پسند اور تماشائے بہ یک کف بردن صد دل کا موازنہ شناسائے خڑاش عقدہ مشکل سے کیا جائے اور اس سلسلے میں یہ بھی یاد رکھا جائے کہ اقبال کی ایک ترکیب جس کے پہلے مصرعے میں واقع ہے اور اس کا دوسرا مصرع توالی اضافات سے خالی ہے:
اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
اقبال و غالب کے متعلقہ اشعار پر ایک نظر ڈالنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کے شعر کا مفہوم واضح ہے جبکہ غالب کے شعر کا مفہوم غور طلب اور مبہم ہے ۔ اور اس ابہام میں دونوں مصرعوں کی توالی اضافات نے اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے برخلاف اقبال کے شعر کے پہلے مصرعے میں توالی اضافات سے کوئی ابہام نہیں ہوتا۔ تو شناسائے خراش عقدہ مشکل کی ترکیب بآسانی سمجھ میں آتی ہے اور دوسرے مصرعے پر نظر ڈالتے ہی پورے شعر کا مفہوم آئینے کی طرح واضح ہو جاتا ہے تب محسوس ہوتا ہے کہ اس وضاحت میں پہلے اس مصرعے کی ترکیب معنی ایک دبازت پیدا کر رہی ہے اس طرح اقبال کی ترکیب اور بند ش الفاظ کی پیچیدگی اظہار خیال کا ایک موثر وسیلہ ہے جبکہ غالب کی ترکیب و بندش کی زولیدگی اخفائے خیال کا باعث ہے۔ دونوں شاعروں کے ابتدائی کلام میں فارسیت کے یکساں غلبے کے باوجود اسلوب بیاں کا یہ نمایاں فرق کچھ معنی رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ ابتدائے کلام سے اقبال کے ذہن اور فن میں ایک ہمواری اور استواری ہے جو غالب کے یہاں نہیں ہے ۔ ایسا جس وجہ سے بھی ہو‘ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اردو شاعری میں اقبال کا تجزیہ غالب کے بعد اگلا قدم ہے۔
بہرحال عہد طفلی میں تو ایک کامیاب مختصر نظم ہے ہی گل رنگیں کی ہئیت فن پر ایک نظر ڈالنا مفید ہو گا۔ پہلے بند میں شاعر ہمالہ کی طرح موضوع کا اجمالی تعارف موثر طریقے سے کراتا ہے:
تو شناسائے خراش عقدہ مشکل نہیں
اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
زیب محفل ہے شریک شورش محفل نہیں
یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں
اس چمن میں سراپا سوز و ساز آرزو
اور تیری زندگانی بے گداز آرزو
دوسرا شعر پہلے شعر کی تشریح وتفصیل ہے گل رنگیں درد دل سے خالی ہے۔ لہٰذا محفل کی زینت ہوتے ہوئے بھی شورش محفل میں شریک نہیںجبکہ ایسی فراغت خاطر اور بے فکری دنیائے ہست و بود میں شاعر یا انسان کو حاصل نہیں۔ لہٰذا چمن حیات میں شاعر تو سراپا سوز و ساز آرزو ہے جبکہ گل رنگیں کی زندگی اس سوز و ساز سے یکسر خالی ہے۔ شاعر حساس ہے گل بے حس اس کے باوجود حسن قدرت کا ایک مظہر ہے۔ اور شاعر کو اس سے ای الفت ہے۔ وہ بہت ہی نزاکت و احتیاط اور اسغراق سے اس کا مطالعہ کر رہا ہے اور شاعر کو اس سے ایک الفت ہے وہ بہت ہی نزاکت و احتیاط اور استغراق سے اس کا مطالعہ کر رہا ہے چنانچہ دوسرے بند میں کہتا ہے:
توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں
یہ نظر غیر از نگاہ چشم صورت میں نہیں
آہ! یہ دست جفا جو اے گل رنگیں نہیں
کس طرح تجھ کو سمجھائوں کہ میں گل چیں نہیں
کام مجھ کو دیدہ حکمت کے الجھیڑوں سے کیا
دیدہ بلبل سے میں کرتا ہوں نظارہ ترا
یہ خالص شاعرانہ انداز مطالعہ یا عاشقانہ طرز فکر ہے جس میں دیدہ حکمت کے مقابلے پر دیدہ بلبل کو ترجیح دی گئی ہے۔ گویا بلبل کی طرح شاعر بھی عاشق گل ہے‘ لہٰذو وہ گل چیں بن کر پھول توڑنا نہیں بلبل کی طرح اسے صرف دیکھنا چاہتا ہے۔ اس طرح شاعر اور گل رنگیں کے درمیان ایک خاموش گہری ہم آہنگی قائم ہو جاتی ہے۔ تیسرے بند کے چار مصرعے اس ہم آہنگی میں اضافہ اور اس کی تفصیل کرتے ہیں۔
سوز بانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے
راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے
میری صورت تو بھی اک برگ ریاض طور ہے
میں چمن سے دور ہوں تو بھی چمن سے دور ہے
٭٭٭
یہ مصرعے اقبال کی اس مفکرانہ (Reflective) شاعری کے نمونے کے مصرعے ہیں جو ان کے کلام میں جابجا فطرت اور اس کے مظاہر کثرت سے پائی جاتی ہے۔ ان مصرعوں میں جو پر معنی خطاب گل رنگیں سے ہے وہ آئندہ اسی طرح دوسرے مظاہر کے ساتھ بھی ملے گا مثلاً چاند‘ لالہ ‘ اختر صبح‘ شعاع آفتاب‘ گل رنگیں کی خاموشی بے معنی نہیں‘ اس کے سینے میں بھی کوئی راز ہے اور وہ بھی تجلی الٰہ کا ایک مظہر انسان ہی کی طرح ہے۔ دونوں باغ عدن سے ٹوٹے ہوئے یا اکھڑے ہوئے پھول ہیں اور اپنے اصلی چمن سے دور ایک اجنبی جگہ رکھا رہے ہیں ۔ لیکن ٹیپ کا شعر ایک پہلو یعنی فطرت کی جہت سے ہم آہنگی کے باوجود وسرے پہلو یعنی دنیوی حقیقت کے لحاظ سے انسان اور گل رنگیں کے درمیان امتیاز پر روشنی ڈالتا ہے:
مطمئن ہے تو پریشاں مثل بو رہتا ہوں میں
زخمی شمشیر ذوق جستجو رہتا ہوں میں
یہ وہی بات ہے جو پہلے بند میں کہی گئی تھی اس طرح دوسرے اور تیسرے بند میں گل رنگیں اور اپنے درمیاں ایک فطری ہم آہنگی تلاش کرکے شاعر تیسرے بند کے آخر میں اپنے اصل موضوع‘ سوز و ساز آرزو کی طرف لوٹ آتا ہے اورپھول کے برخلاف انسان کے اندر اس کااثبات کرتا ہے ۔ لیکن بیچ کے اشعار میں ظاہر ہونے والی ہم آہنگی انسان اور فطرت کے درمیان فاصلے کو نہ صرم کم کرتی ہے بلکہ ایک نیا رنگ دے دیتی ہے وہ یہ کہ قدرت کا جو راز اور حسن مناظر قدر ت میں پوشیدہ ہیں وہ انسان میں ظاہر ہے اس لیے کہ مناظر تو اپنی جگہ ساکن وساکت رہتے ہیں مگر انسان متفکر و متحیر رہتا ہے۔ تخیل کی اس خوبصورت اور خیال انگیز پیچیدگی کو فن نے ایک پیچیدہ لیکن مرتب ہئیت میں ظاہر کیا ہے پہلے بند میں وہ موضوع کا اجمالی اظہار کرتا ہے دوسرے موضوع سے متعلق اور اس کو زیادہ زرخیز بنانے کے لیے وہ پس منظر کی وہ تفصیلات بیان کرتا ہے جن کے سبب وہ نہ صرف یہ کہ موضوع اپنے تمام مضمرات و تضمنات کے ساتھ واضھ ہو جاتا ہے بلکہ اس کی معنویت میں بڑا اضافہ ہوتا ہے چنانچہ تیسرے بند کا آخری شعر بیچ کے دو بندوں کو پہلے بند کے ساتھ جوڑ کر تکلم کے ارتقائے خیال کو ایک قدم آگے بڑھاتا ہے اور چوتھے اور آخری بند کی تمہید بن جاتا ہے:
یہ پریشانی مری سامان جمیعت نہ ہو
یہ جگر سوزی چراغ خانہ حکمت نہ ہو
ناتوانی ہی مری سرمایہ قوت نہ ہو
رشک جام جم مرا آئینہ حیرت نہ ہو
یہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے
تو سن ادارک انسان کو خرام آموز ہے
یہ نظم کا خلاصہ و خاتمہ ہے اور جو موضوع پہلے بند سے شروع ہوتا تھا اس کی تکمیل ہے ۔ شاعر گرچہ گل رنگیں کی طرح سکون و اطمینان سے بہرہ مند نہیں بلکہ فکر مند اور پریشان ہے مگر پریشانی اور اس سے پیدا ہونے والی ناتوانی امید ہے کہ ایک جمعیت و قوت کا سامان بنے گی اورجو انسان اپنی سادگی میں صرف دیدہ بلبل پر قناعت کر رہا تھا اور دیدہ حکمت کو الجھیڑوں کا باعث سمجھ رہا تھا اب فکر و نظر کی بدولت اپنی جگر سوزی کو چراغ خانہ حکمت بنتا ہو اپائے گا اور اس کی فلسفیانہ حیرت بالآخر ایک ایسی بصیرت میں تبدیل ہو جائے گی جو رشک جام جم‘ ہو گی۔ لہٰذا خراش عقدہ مشکل کی خلش اور سوز و ساز آرزو کی تپش جس نے درد مند شاعر کو ایک مظہر قدرت اور حسن فطرت تک گویا تلاش حقیقت میں پہنچا دیا تھا ایک شمع جہاں افروز ثابت ہو گی اس لیے کہ یہ تلاش متصل ہی ہے جو
توسن ادراک انسان کو خرام آموز ہے
اس طرح ترکیب بند کی معروف و مسلم تکنیک کے بالکل مطابق گل رنگیں کا مسدس نہایت مربوط طریقے پر موضوع تخیل کا ابلاغ کرتا ہے۔ لہٰذ ا فن کے نقطہ نظر سے گل رنگیں اسی طرح ایک کامیاب تجرب ہے جس طرح پہلے ہمالہ اور اس کے بعد تیسری نظم عہد طفلی میں کیا گیا ہے ۔ جبکہ دونوں کے درمیان تیسری تخلیق گل رنگیں ہی ہے۔
ہمالہ کے بعد تیسری نظم فطرت ابر کوہسار ہے۔ اورپچھلی نظموں کی طرح مسدس کے ترکیب بند میں ہے۔ ہمالہ گل رنگیں‘ اور ابر کوہسار تو عنوان ہی سے فطرت کی نظمیں معلوم ہوتی ہیں جبکہ عہد طفلی ابھی چونکہ فطرت ہی کی سادگی معصومیت اور تازگی پر ایک شاعرانہ تخلیق ہے لہٰذا اسے نظم فطرت ہی کہنا چاہیے۔ عہد طفلی کی طرح ابر کوہسار میں بھی مظہر فطرت واحد متکلم میں براہ راست اپنی منظر نگاری خود کرتا ہے جبکہ ہمالہ اور رل رنگیں دونوں میں موضوع واحد حاضر تھا اور شاعر نے اس سے خطاب کر کے اس کی تصویر کشی اس انداز سے کی تھی کہ اس میں اپنے احساسات و خیالات کے رنگ اور لکیریں بھی ملا دی تھیں مواد و بیان کے عناصر عنصر کے لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمالہ فکریہ بیانیہ Descriptive Reflective ے گل رنگیں فکریہReflectiveہے اور عہد طفلی یا تو عہد طفل میں ہے یا ابر کوہسار میں جبکہ خالص اور بالکل معروضی منظر نگاری صرف ابر کوہسار میں ہے۔ اس لیے کہ عہد طفلی میں بہرحال معروض اور منظر کے ساتھ ایک معروضی مظہر بھی ہے جو بے شعر یا کم شعری سہی فطری قوت گویائی کسی نہ کسی درجے اور شکل میں رکھتا ہے۔ اور گرچہ وہ شاعری نہیں کر سکتا مگر ان احساسات و جذبات کا مالک ہے جو اس سے منسوب کیے گئے ہیں بلکہ عہد طفلی کا بیان صیغہ ماضی میںہونے والے کے سبب یہ صورت بھی پیدا ہو گئی ہے کہ ایک بالغ انسان ہی اپنی طفولیت کو یاد کر رہا ہے۔ اس کے برخلاف ابر کوہسار کو شاعر نے تھوڑی دیر کے لیے جو زبان حال دے دی ہے تو وہ اپنے وجود اور عمل کی ایک نہایت و حسین و جمیل ترجمانی اور نقاشی ہے روک ٹوک ایک والہانہ سرمستی کے ساتھ کر رہا ہے۔
فطرت کی اس سے بھی زیادہ حسین نظم ایک آرزو ہے جس کی ہئیت غزل کے قطعے کی ہے اس میں دامن کوہ میں بہتے ہوئے ایک چشمے کے کنارے گل بوٹے پرند‘ شفق شبنم‘ بادل‘ بجلی ‘ صبح و شام اور اس قدرتی پس منظر میں ایک شیدائے فطرت کی ایسی خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے کہ اس کو پڑھتے ہوئے آدمی بالکل اسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جس کی کاغذی تصویریں اس کی نگاہوں کے سامنے ہوتی ہے۔ فطرت کے رنگ اور آہنگ کی اس سے زیادہ حسین اور موثر عکاسی و نقاشی ممکن نہیں۔ دنیا کا کوئی فطرت نگار شاعر خواہ وہ ورڈس ورتھ ہی کیوںنہ ہو مناظر قدرت کے حسن و اثر کی فنی تخلیق میں اس سے آگے ایک انچ نہیں بڑھ سکتا اس نظم کے ایک ایک شعر ایک ایک پیکر‘ ایک ایک نغمے پر‘ روح وجد کرتی ہے۔ جنت نگاہ اور فردوش گی ش کی ترکیبوں کا استعمال اگر مناظر قدرت کی تصویروں کے سلسلے میں کسی بھی انسانی تخلیق کے لیے کیا جا سکتا ہے تو وہ ایک آرزو یقینا ہے۔ دل آویز تشبیہوں استعاروں اور تمثالوں کی فراوانی کے ساتھ ساتھ نغمات کا ایسا وفور ہے کہ الفاظ رقص و موسیقی کے پیکر اور صدائیں معلوم ہوتے ہیں اس ولولہ خیز اور زمزمہ انگیز منظر فطرت میں گویا جان پڑ گئی ہے۔ شاعر کی بحیثیت ایک شیدائے فطرت کے اس میں شمولیت اور تمام مناظر کے ساتھ مکمل ہم آہنگی ہے۔ اس شمولیت نے خاص کر قاری کی ذہنی شمولیت کا سامان پہلے ہی سے کر دیا ہے۔
فطرت کی شاعر ی پر مشتمل دوسری نظمیں بھی قابل ذکر ہیں مثلاً
ماہ نو‘ موج دریا‘ چاند (۱) جگنو‘ کنار راوی ‘ ایک شام‘ (۲) صبح کا ستارہ ‘ کلی‘ ستارہ نمود صبح‘ رات اور شاعر‘ بزم انجم۔
مظاہر فطرت کے عنوان سے بانگ درا کی دیگر نظمیں بھی لائق مطالعہ ہیں‘ ان کے علاوہ دوسرے موضوعات پر لکھی ہوئی نظموں میں بھی جا بجا فطرت کی شاعری کے بہترین نمونے بکھرے ہوئے ہیں ’’خضرر اہ‘‘ کے ابتدائی حصوں میں ’’شاعر‘‘ اور ’’صحرا نوردی‘‘ کے ذیلی عنوانات کے تحت فطرت کی حسین ترین شاعری پر تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن کچھ اور عام قسم کی نظمیں بھی ہیں جن میں اس قسم کی شاعری کی مثالیں ملتی ہیں۔ گورستان شاہی کی یہ تمہدی ملاحظہ کیجیے:
آسماں بادل کا پہنے خرقہ دیرینہ ہے
کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے
چاندنی پھیکی ہے اس نظارہ خاموش میں
صبح صادق ہو رہی ہے رات کی آغوش میں
کس قدر اشجار کی حیرت افزا ہے خامشی
بربط قدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی
باطن ہر ذرہ عالم سراپا درد ہے
اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے
٭٭٭
’’والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘ کے آخری بند میں پہلے گویا خاتمہ نظم کے آغاز کے طور پر یہ بند دیکھیے:
پردہ مشرق سے جس دم جلوہ گر ہوتی ہے صبح
داغ شب کا دامن آفاق سے دھوتی ہے صبح
لالہ افسردہ کو آتش قبا کرتی ہے یہ
بے زمان طائر کو سرمست نوا کرتی ہے یہ
سینہ بلبل کے زنداں سے سرور آزاد ہے
سینکڑوں نغموں سے باد صبحدم آباد ہے
خفتگان لالہ زار و کوہسار و رود بار
ہوتے ہیں آخر عروس زندگی سے ہمکنار
یہ اگر آئین ہستی ہے کہ ہو ہر شام صبح
مرقد انسان کی شب کا کیوں نہ ہوا انجام صبح
محولہ بالا دونوں نظموں میں فطرت نگاری کا ایک سرسری تجزیہ یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ اقبال فطرت کی شاعری کے لیے بہترین استعداد بلکہ اس کا ملکہ رکھتے ہوئے بھی فطرت نگاری کو اپنا مقصد فن بنانا نہیں چاہتے۔ اس لیے کہ ان کے سامنے ایک بلند ترین مطمح نظر ہے جس کے مقابلے میں وہ محض فطرت نگاری کو زیادہ اہم نہیں سمجھتے گرچہ ایک تو حسن فطرت سے تاثر ان کی شاعرانہ حسیات میں شامل ہے دوسرے فطت میں وہ ایک بلند تر حقیقت کا جلوہ دیکھتے ہیں تیسرے یہ کہ بحیثیت فن کار وہ ایک وسیلہ اظہار اور سامان تزئین کے طور پر مظاہر قدرت کے امکانات سے واقف ہیں۔ چنانچہ گورستان شاہی ‘ کی تمہید جس نظارہ فطرت سے انہوںنے تیار کی ہے وہ بہترین فنی تمہید ایک خاص موضوع کے مضمرات کی موزوں فضا تیار کر نے کے لیے ہے۔ غور کیجیے خرقہ دیرینہ مکدر سا جبین ماہ کا ائینہ چاندنی پھیکی نظارہ خاموش‘ دھیمی سی نوا‘ ہے خامشی‘ کی تصویروں پر گورستان کے تناظر میں اس اس سلسلے میں لفظ خامشی کی تکرار پر بھی خا ص کر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ ٹیپ کے شعر میں خود شاعر نے اپنے اوپر کی منظر نگاری سے جو نتیجہ نکالا ہے اسے درج کر دیا ہے یعنی یہ کہ بظاہر کائنات کے جلوے کتنے ہی دلکش ہوں باطن ہر ذرہ عالم سراپا درد ہے لہٰذا جس خامشی کی تصویر شاعر نے پیش کی ہے وہ درحقیقت لب ہستی پہ آہ سرد ہے ۔
وگورستان شاہی‘ کے برخلاف والدہ مرحومہ کی یاد میں کا موضو ع بھی موت ہونے کے باوجود اس نظم میں رات کے بجائے صبح کی منظر نگاری کی گئی ہے۔ اور ایک دوسرا ہی نتیجہ نکالنے کی کوشش کی گیء ہے۔ اس لیے کہ یہاں فطرت نگاری کا مقصد مختلف ہے اور اقبال کی فطرت نگاری بھی فطرت نگاری کے لیے نہیں ہوتی۔ کسی بلند تر مقصد کے لیے ہوتی ہے چنانچہ دوسری نظم میں شاعر فلسفہ پیش کرتا ہے ۔ کہ آئین ہستی یہی ہے کہ ہو ہر شام صبح لہٰذا سے یقین کہ مرقد انسان کی شب کا انجام و صبح ہی ہو گی ٹیپ کے اس مفہوم سے پہلے بند کی پوری منظر نگاری موت کے مقابلے میں عروس زندگی کی آراستگی پر مبنی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت نگاری کے سلسلے میں اقبال کا بیانیہ بھی معلوم فکریہ ہے۔ چنانچہ فطرت کی بہ ظاہر بیانیہ شاعری کے حسین ترین نمونے ایک آرزو کا بھی تجزیہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس نظم کے بیس اشعار میں اگرچہ اٹھارہ منظرنگاری پر مشتمل ہے۔ مگر چودھویں شعر سے بھی منظر نگاری کے مقصد کے اشارات ملنے لگتے ہیں۔ جب کہ آخر کے دو شعروں میں مقصد بالکل نمایاں ہو گیا ہے:
راتوں کو چلنے والے رہ جائیں گے جس دم
امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو
بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے
جب آسماں پر ہر سو بادل گھرا ہوا ہو
پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی موذن
میں اس کا ہم نوا ہوں وہ میری ہمنوا ہو
کانوں پہ ہو میرے دیر و حرم کا احساں
روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو نالہ مرا دعا ہو
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہر درد مند دل کو رونا مرا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
یعنی دامن کوہ میں ایک چھوٹا سا جھونپڑا بنانے کے باوجود دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل نہ سکا اور عزلت میں دن گزارتے ہوئے بھی ایک آرزو یہی رہی کہ امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو ۔ لہٰذا دنیا کی محفلوں سے اکتایا ہوا شاعر پچھلے پہر‘ اٹھ کر اپنی کٹیا میں خدا کے حضور نالہ و زاری کرتا ہے جب سارا عالم سوتا ہے تو کائنات کی محیط خامشی میں یہ درد کا مارا روتاہے اور تمنا کرتا ہے کہ اس کے نالوں کی صدارت کے تاروں تک پہنچے ان کے قافلے کے کوچ کے لیے بانگ درا ثابت ہو اور غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کو بیدا ر کر دے تاکہ وہ ایک نئی صبح کا نظارہ کریں اور نفس سوختہ شام و سحر کو تاز ہ کرکے خورشید حیات کے سفر کی اگلی منزل کی طرف روانہ ہونے کا سامان کریں۔
یہ ہے فطرت اور اس کی اچھی سے اچھی بڑی سے بڑی شاعری کی طرف اقبال کا رویہ وہ فطرت کے پجاری نہیں‘ اس کو یاتو اپنی کیفیات کا مظہر یا اپنے فن کا وسیلہ سمجھتے ہیں اور اسی انداز سے برتتے ہیں۔ اس رویے پر روشنی خود شاعری نے ایک پوری نظرم انسان اور بزم قدرت میں ڈالی ہے۔ اس کے دو حصے ہیں پہلے میں معموہ ہستی کو بزم قدرت قرار دے کر اس کے فطری حسن اور چند مظاہر قدرت کی خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس حصے کے آخر میں بزم قدرت کی طر ف سے دوسرے حصے میں انسان کی سیہ بختی کا فکری سوال اٹھایا گیا ہے جس کا جواب بزم قدرت کی طرف سے دوسرے حصے میں اسی تفصیل سے دیا گیا ہے جو شاعر نے بزم قدرت کے حسن و نور کی مرقع نگاری میں دکھائی تھی اس کا ماحصل یہ ہے کہ بزم قدرت انسان کو خطاب کر کے زبان حال سے کہتی ہے :
انجمن حسن کی ہے تو تری تصویر ہوں میں
عشق کا تو ہے صحیفہ ‘ تری تفسیر ہوں میں
نظم اس نتیجے پر ختم ہوتی ہے :
تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار ہے
نہ سیہ روز رہے پھر‘ نہ سیہ کار رہے
معلوم یہ ہوا کہ عالم وجود میں کائنات کا مرکز مخلوقات کے درمیان انسان اشرف المخلوقات ہے اور پوری بزم قدرت اپنے تمام حسین و جمیل مناظر کے ساتھ تنظیم حیات اور تزئین ہستی کے لیے ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اس کی خدمت پر مامور ہے۔ لہذا انسان کی حقیقت فطرت سے بڑی چیز ہے۔ اور فطرت کے ذریعے بھی اسی کے عرفان کی کوشش مقصد زندگی اور مقصود فن ہونی چاہیے۔
اقبال اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں اور ان کی پوری شاعری اسی کی ترجمانی ہے اس شاعری کا موضوع انسان ہے۔ نہ کہ فطرت اور فطرت صرف اس فن کاری کا ایک اہم وسیلہ اظہار ہے جو اس شاعری کے لیے اختیار کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مناظر فطرت کی تصویر کشی میں اس کے سارے حسن و جمال کے باوجود ایک نگاہ انسانی کا عنصر کبھی شامل ہے جسے مصور کی نگاہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اور آلہ تصویر بھی ۔ اس نگاہ ہی کا فیض ہے کہ شاعر مناظر کی عکاسی کی بجائے یا اس کے ساتھ ساتھ نقاشی بھی کرتا ہے۔ اور اس نقش آرائی میں وہ خون جگر ملا دیتا ہے جو اس کے مقصد حیات کا رنگ ہے۔ عناصر فطرت سے تعلق رکھنے والی بانگ درا کی حسب ذیل نظمیں شاعری میں انسان اور فطرت کے احساسات کے امتزاج پر مبنی ہیں۔
نوید صبح‘ شبنم اور ستارے‘ شعاع آفتاب‘ پھولوں کی شہزادی‘ آفتاب صبح‘ پھول ‘ دو ستارے‘ اختر صبح‘ چاند اور تارے ‘ سیر فلک ‘ گل پژمردہ۔
فطرت سے اقبال کا شغف اور ان کا تصور فطرت نگاری ان حسین و دل کش نظموں میں بھی ظاہر ہوا ہے جو انہوںنے بچوں کے لیے یا ان کے متعلق لکھی ہیں یا بالعموم انگریزی سے ترجمہ کی ہیں:
ترجمہ
ایک مکڑا اور مکھی‘ ایک پہاڑ اور گلہری‘ ایک گائے اور بکری‘ ہمدردی ‘ آفتاب ‘ پیام صبح۔
طبع زاد
پرندے کی فریاد‘ طفل شیر خوار‘ ایک پرندہ اور جگنو ‘ بچہ اور شمع
بعض نظموں میں اقبال نے فطرت کا استعمال تمثیل یا محض مثال کے طور پر کیا ہے جیسے ایک مکالمہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔
’’ایک مکالمہ‘‘ خالص تمثیلی مکالمہ ہے ایک ’’مرغ سرا‘ ‘ اور ایک ’’مرغ ہوا‘ کے درمیان جبکہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ‘‘ میں شجر سے ٹوٹ کر ہمیشہ کے لیے سوکھ جانے والی شاخ کی صرف مثال دی گئی ہے ۔ دونوں صورتوں میں ایک اخلاقی سبق دیا گیا ہے ۔
’’خضر راہ‘‘ میں فطرت کی شاعری کا حوالہ گزر چکا ہے بال جبریل کی تینوں عظیم ترین نظموں… مسجد قرطبہ ذوق و شوق‘ ساقی نامہ… میں فطرت کی بہترین شاعری کے نمونے ملتے ہیں اور ان کے علاوہ وجدانی لالہ صحرا‘ شاہیں‘ جیسی فطرت کے موضوعات پر لکھی ہوئی حسین ترین تخلیقات ہیں اور روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے جیسی عظیم فکری نظم میں فطرت کے ارضی حسن کو جس دل آویز طریقے سے پیش کیا گیا ہے اس کی مثال دنیائے شاعری میں ملنی مشکل ہے۔ ضرب کلیم میں بھی فطرت کی نہایت جمالیاتی اور جمال آفریں تمثیل شعاع امید جیسی شاندار نظم میں پیش کی گئی ہے اس کے علاوہ نسیم و شبنم اور صبح چمن کے لطیف و حسین مکالمات فطرت ہیں۔ اس مجموعے کی ایک چھوٹی سی نظم تو گویا فطرت پر نگاہ شاعر ہے:
بہار و قافلہ لالہ ہائے صحرائی
شباب و مستی و ذوق و سرور و رعنائی
اندھیری رات میں چشمکیں ستاوں کی
یہ بحر‘ یہ فلک‘ نیلگوں کی پہنائی
سفر عروس قمر کا عماری شب میں
طلوع مہر و سکوت‘ سپہر مینائی
نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں
کہ بیچتی نہیں فطرت جمال و زیبائی
ضر ب کلیم کے آخر میں محراب گل افغان کے افکار اور ارمغان حجاز کے تقریباً خاتمے پر ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض نہ صرف یہ کہ جمال فطرت کے دو مشہور خطوں کے متعلق ہیں بلکہ ان کا پورا ارضیہ اور اشعار میں جاری و ساری احساسات کے ساتھ ساتھ نقوش کلام فطرت کے اشارات سے مملو ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی پوری شاعری کے استعارات و علامات کا بہت بڑی حصہ مظاہر فطرت پر مشتمل ہے ۔ اور کلام کی تازگی و شادابی اور زیبائی و رعنائی کا باعث ہے اقبال نہایت وسیع اور گہری نگاہ فطرت رکھتے تھے۔ اور فطرت کے جمال و زیبائی کی ادا شناسی ان کے مزاج فن میں داخل تھی۔ اس لیے بھی ان کا ذہن مناظر قدرت میں مضمر بلند حقائق کے ادراکات سے معمور تھا۔ وہ ایک دل فطرت شناس رکھتے تھے۔ ان کے نشاط تخیل کی تہہ میں یہی فطرت شناسی اپنے وسیع ترین معنوں میں اور عمیق ترین مضمرات کے ساتھ جاگزیں تھی۔
کیا فطرت کی اتنی ثروت مند شاعری فطرت نگاری میں کوئی مقام نہیں رکھتی؟ بعض ناقد کا ایسا ہی خیال ہے اس لیے کہ ان کے حساب سے اقبال کی فطرت نگاری کا حجم زیادہ وقیع نہیںلہٰذا اس کا وزن بہت کم ہے ۔ چنانچہ تمنا کی جاتی ہے کہ کاش اقبال اپنی فطرت نگاری کی صلاحیت سے کام لیتے اور خالص فطرت کی مکمل شاعری کرتے تو اگر ابھی محض اچھے شاعر ہیں تو اس صورت میں بڑے شاعر ہو جاتے۔ یہ بڑا ہی خام خیال ہے اور بڑی ہی طفلانہ تمنا ہے جو نہ صرف اقبال کی شاعری بلکہ نفس شاعری سے بھی عدم واقفیت پر مبنی ہے۔ شاعری محض فطرت کی نہیں ہوتی ۔ اور جو شاعری فطرت نگاری کہلاتی ہے اس میں بھی فطرت کے ساتھ کچھ اور تصورات ملے ہوئے ہتے ہیں بلکہ انہی تصورات کے تحت فطرت نگاری بھی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر سب سے بڑے فطرت نگار شاعر ورڈس ورتھ کو لیجیے اس کا تصور فن یہ تھا کہ وہ صنعتی تمدن کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی کے معاملے میں تہذیب انسانی کی سادگی تازگی اور معصومیت اصلیت کو محفوظ رکھنا چاہتا تھا بلکہ ان عناصر کے تحفظ کے لیے وہ تہذیب و تمدن دونوں کے دائرے سے باہر دور وحشت تک میں جانے کے لیے تیار تھا۔ اٹھارویں صدی کے اواخر میں اور انیسویں صدی کے اوائل میں یہ ایک رومانی رد عمل تھا۔ انگلستان کیک اس صنعتی انقلاب کا جس کے نتیجے میں فطرت و معصومیت کے مظاہر تباہ ہو رہے تھے وہ انسانی زندگی پرتصنع غالب آ رہا تھا یہی وجہ ہے کہ ورڈس ورتھ کے تخیل میں فطرت صرف مناظر قدرت… کوہسار و جوئبار و اشجار و طیور وغیرہ کا نام نہیں بلکہ اس معصومیت سے بھی اس کا نام ہے جو ایک بچے حتیٰ کہ کہ ایک احمق میں پائی جاتی ہے اور غریب و سادہ دیہاتیوں میں موجود ہے چنانچہ ورڈز ورتھ کے تصور میں فطرت کی سادگی و معصومیت بلکہ الوہیت کا مثالی نمونہ ایک طفل شیر خوار اور اس کی طفولیت ہے۔
بہرحال احیائے رومانیت کے دوسرے عظیم شعرا مثلاً کولرج‘ بائرن‘ شیلی اور کیتس کی شاعری میں بھی فطرت نگاری کے عنصر نمایاں ہیں کولرج تو ابتداً ورڈس ورتھ کا شریک کار ہی تھا اور شیلی اور کیٹس کے مشہور موضوعات شاعری میں علی الترتیب باد مغرب و اسکائی لارک اور عندلیب و خزاں جیسے مناظر فطرت ہیں جبکہ ان کے علاوہ بھی متعدد عناصر قدرت کو ان شعرا نے اپناموضوع بنایا پھر فطرت کے لیے ان شعرا کی حسیات اور علامات فطرت کا ان کے ہاتھوں کثیر استعمال معلوم و معروف ہے۔۔ بائرن جیسے طنز نگار کی شاعری میں بھی فطرت نگاری کا عالم یہ ہے کہ اس کے شاہکار ڈان جوان میں ھسین ترین مناظر قدرت کی تصویر کشی بڑی نازک فطری حسیات کے ساتھ کی گئی ہے چنانچہ انگریزی تنقید ان سب شعرا کے فن میں فطرت نگاری کو اہم عنصر تسلیم ہے اور انہیں بھی کامیاب فطرت نگار قرار دیتی ہے۔
عالمی ادب کے اس معیار اور صحیح تنقیدہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اقبال کی شاعری میں بھی فطرت نگاری کو ایک اہم عنصر تسلیم کرنا پڑے گا۔ اور انہیں کامیاب فطرت نگار قرار دینا پڑے گا۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ ہے کہ اقبال اس معنے میں شاعر فطرت نہیں جس میں مثال کے طور پر ورڈس ورتھ ہے اس لیے کہ ان کی شاعری نہ تو مناظر فطرت کی عکاسی تک محدود ہے ۔ نہ وہ مناظر فطرت کے پجاری ہیں۔ اقبال فطرت کو دیکھتے ہی ہیں ایک وسیع تر مفہوم میں اور بلند تر نقطہ نظر سے ۔ انہوںنے اپنے ابتدائی دور کی نظموں میں شیکسپئر میں ایک مشہور ڈرامہ نگار شاعر کی تعریف اس طرح کی ہے:
حفظ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
بداہتہً یہاں فطرت کا مفہوم عناصر و مناظر و مظاہر نہیں حقیقت کائنات اور روح حیات ہے جسے اسی نظم کے ایک اور شعر میں حق کہا گیا ہے:
حسن آئینہ حق دل آئینہ حسن
دل انسان کو ترا حسن کلام آئینہ
یہی وجہ ہے کہ شیکسپئر کی شاعری میں بھی جا بجا مناظر قدرت کی بہترین عکاسی کے باوجود اس کو فطرت نگار یا ا س معنے میں شاعرفطرت نہیں کہا جا تا جس میں ورڈس ورتھ کو کہا جاتا ہے۔ بلکہ تسلیم شدہ امر یہ ہے کہ شیکسپئر فطرت انسانی کا نقاش ہے اپنے ڈراموں میں جس طرح اس نے کرداروں اور مکالموں کے ذریعے انسانی فطرت کے مختلف پہلوئوں ان کی گہرائیوں اور گتھیوں کی تشریح و تمثیل کی ہے اس سے نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ وہ فطرت کے اسرار و رموز سے آشنا تھا اور حقائق حیات سے واقف تھا۔ لہٰذا اسی وسیع اور عمیق آگہی کی بنیاد پر اس نے انسانی فطرت کی باریکیوں اور تہوں کا سراغ پا لیا اور اسے اپنے منظوم ڈراموں میں موثر طور پر شاعرانہ حسن کے ساتھ پیش کیا۔ اقبال نے شیکسپئیر کے فن کی اسی حقیقت پر بہترین انداز میں روشنی ڈالی ہے اور جس والہانہ طریقے پر ڈال ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسے ہی معیار فن اور اس کامثالی نمونہ تصور کرتے ہیں۔ اقبال کی شاعری کے کمالات‘ اسی تصور کی فنی شہادت دیتے ہیں۔ لہٰذ اقبال کا حسن کلام بھی آفاقی صداقت و حقیقت اور اس سے ہم آہنگ انسانیت کا آئینہ دہے وہ بھی اسرار فطرت کے جو یا ہیں صرف اس کے مظاہر کے شید نہیں۔ وہ مناظر قدرت کے اندر مضمر اصلیت کا تجسس کرتے ہیں اور انسان کو اس سے آگاہ نیز ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ مناظر میں رونما ہونے والے فطرت کے جلوے اس مقصد پر مشتمل فنی عمل کے لیے آئینے کا کام کرتے ہیں۔ یعنی جس طرح وہ مظاہر فطرت ہیں اسی طرح مظاہر فن ہیں اور جس طرح قدرت نے انہیں اپنی حقیقت کے اظہار کے لیے وسائل کے طور پر بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے اسی طرح شاعر نے بھی اس حقیقت کے متعلق اپنے تصورات کی ترسیل کے لیے ان کا بہت ہی حسن کارانہ فنی مصرف لیا ہے ۔ مصرف ومقصد دونوں کا شاعرانہ اقرار ملاحظہ کیجیے:
محفل قدرت ہے اک دریائے بے پایاں حسن
آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفان حسن
جن کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی ہے
مہر کی ضو گستری‘ شب کی سیہ پوشی میں ہے
آسماں صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ
شام کی ظلمت‘ شفق کی گل فروشی میں ہے یہ
عظمت دیرینہ کے مٹتے ہوئے آثار ہیں
طفلک نا آشنا کی کوشش گفتار میں
ساکنان صحن گلشن کی ہم آوازی میں ہے
ننھے ننھے طائروں کی آشیاں سازی میں ہے
چشمہ کہسار میں دریا کی آزادی میں حسن
شہر میں صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثل جرس
حسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بیتاب ہے
زندگی اس کی مثال ماہی بے آب ہے
(’’بچہ اور شمع‘‘…بانگ درا)
اس بے قرار ی کا نقطہ قرار یہ ہے :
ہوئی جو چشم مظاہر پرست وا آخر
تو پایا خانہ دل میں اسے مکیں میں نے
(سرگزشت آدم… بانگ درا)