اقبال کے افکار نے ایسا طلسم قائم کر دیا ہے کہ ان کے فن کی طرف بمشکل کسی کی توجہ مبذول ہوتی ہے۔حالانکہ یہ طلسم درحقیقت فن ہی پر مبنی ہے۔ اقبال کے تصورات شاعری کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔اور ان کا مطالعہ کرنے والے سب سے پہلے شاعری ہی سے لطف لیتے ہیں۔اسی لطف کے سبب وہ ان کے افکار کے طلسم میں گرفتار ہوتے ہیں۔جن کے اظہار کے لئے یہ شاعری کی گئی ہے۔ چنانچہ اگر شاعری کو ہٹا دیا جائے تو افکار میں طلسم کی جو کیفیت ہے۔ وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ واقعہ یہ ہے کہ افکار اپنی جگہ کتنے ہی اہم، دل چسپ اور مفید ہوں،ان کے اندر جادو کی سی کیفیت ان تصویروں اور آوازوں سے ہی پیدا ہوتی ہے۔جن سے اشعار مرتب ہوتے ہیں۔اشعار اقبال کے استعارات کی رعنائی اور ان کے آہنگ کی نغمگی ہی اس طلسم کی ضامن ہے۔جس کی نسبت کلام اقبال کی طرف جاتی ہے۔ اس طرح حقیقت پسندانہ تنقیدی تجزیئے سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کے افکار کا طلسم فی الواقع اشعار کا طلسم ہے۔ ظاہر ہے یہ کمال فن کا ہے نہ کہ فکر کا۔
بلا شبہ اقبال کی فکر ہی ان کے فن کی محرک بھی ہے۔ اور اس کا مواد موضوع بھی۔ لیکن اس کا اظہار نہ صرف نظم بلکہ شاعری میں ہوا ہے۔ اس بنیادی نقطے کو سامنے رکھ کر غور کیا جانا چاہیئے کہ شعریت کوئی خلا کی چیز نہیں ہے۔اور برائے شعریت نہیں ہو سکتی،ایک با معنی اور موثر شاعری چند خیالات،احساسات اور جذبات کی پیش کش کے لئے ہوتی ہے۔ یہی پیش کش اس کا مقصد ہے۔ چنانچہ خیالات،احساسات اور جذبات جس قسم اور درجے کے ہوں گے۔شاعری کا انداز ومعیار بھی اتنا ہی اور ویسا ہی ہو گا۔اگر شاعری کی اس تعریف میں تبلیغ کا عنصر مضمر نظر آئے تو یہ بھی سمجھ لینا چاہیئے کہ تبلیغ ابلاغ ہی کے بلند ترین جذبے کا نام ہے اور اس کے ساتھ ترسیل کی موثر ترین شکل کا مفہوم وابستہ ہے۔ اول تو اظہار خیال کسی بات کو مخاطب تک پہنچانے کے لئے ہوتا ہے،اگر کسی صحیح الدماغ اور سلیم الطبع آدمی کا اظہار خیال ہے۔دوسرے یہ کہ بات جتنی اچھی اور بڑی ہوگی۔اس کا اظہار بھی اتنا ہی اچھا اور بڑا ہوگا۔اگر اظہار کرنے والا اپنی بات کی خصوصیت سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے بیان پر پوری طرح قادر ہو۔
لہذا اقبال کو اگر ایک مبلغ تسلیم کر لیا جائے،اور ان کے کلام کے کسی پیام کا وسیلہ اظہار تصور کیا جائے،تو یہ بھی آسانی سے تسلیم وتصور کیا جا سکتا ہے۔ کہ مبلغ نے اپنے پیام کو زیادہ سے زیادہ پر اثر بنانے کے لئے بہتر سے بہتر وسیلہ اظہار اختیار کیا ہے۔ اور اس مقصد کے لئے حسین سے حسین تر نقوش کلام مرتب کیے ہیں،زبان وکلام اورقواعد وعروض پر پوری پوری قدرت حاصل کرکے عمدہ سے عمدہ الفاظ تراکیب اور بحور استعمال کی ہیں۔موزوں ترین استعارات و علائم سے کام لیا ہے۔مسحور کن آہنگ پیش کیا ہے۔فن کی یہ ساری سعی بلیغ ایک لفظ تبلیغ میں مضمر ہے۔ اب یہی سعی بلیغ ہے جو کلام کی بلاغت کی انتہائی کیفیت پیدا کرتی ہے۔فن کی یہ بلاغت ذہن کی اس بلوغت کا مظہر ہے،جس پر فکری تبلیغ کا اوج کمال مبنی ہوتا ہے۔
لیکن اقبال کے فکر کی بلوغت اور ان کے فن کی بلاغت الگ الگ اکائیاں نہیں ہیں۔ایک ہی اکائی کے دو پہلو ہیں۔جن کے درمیان فرق تنقید کی چشم امتیاز چاہے تو کر سکتی ہے۔
جب کہ شاعری کے لمحہ تخلیق میں دونوں ایک دوسرے کے اندر بالکل مدغم ہیں،اور اس ادغام کا نتیجہ واحد ہے،جو اجزا سے ترکیب پانے والا ایک ایسا مرکب ہے جس کے اجزا اپنی جدا گانہ حیثیت کھو چکے ہیں۔اور ایک کل کے اجزائے ترکیبی بن چکے ہیں،فکر وفن کے مکمل ادغام کی یہ سورت صرف اس خلوص کی بنا پر رو بہ عمل آئی ہے کہ جو اقبال کے معاملے میں بیک وقت فکر اور فن دونوں کی خصوصیت ہے۔اقبال کے سارے افکار وتصورات نہ صرف ان کے مشاہدات ومطالعات ہیں۔ بلکہ احساسات وجذبات بھی ہیں۔یعنی تجربات واردات بن چکے ہیں۔ واقعات محسوسات میں بدل گئے ہیں۔حقائق کوائف میں ڈھل گئے ہیں۔ شاعر کے خلوص کی شدت وحدتکائنات وحیات کے تمام مظاہر ومناظر کو تپا اور کھلا کر ایک تخلیقی وحدت کی شکل دے دیتی ہے۔یہی وحدت اقبال کا فن ہے۔ جو فکر کے تمام ضروری اجزا سے مرکب اور فن کے تمام ضروری عناصر پر مشتمل ہے۔ اس میں دل کا سوز وگداز بھی ہے۔اور دماغ کا تفکر وتعطل بھی،رومان کی جمالیات بھی ہے اور مذہب کی اخلاقیات بھی ہے۔ فلسفہ ہے تو شعر کے رنگ میں اور شعر ہے تو فلسفہ کے آہنگ میں،اقبال کی شاعری ایک پیچیدہ وبالیدہ عمل ہے۔جس کی تہیں اور جہتیں،مضمرات واثرات رنگ بہ رنگ ہیں۔ مگر سب کا مطمح نظر اور ماحصل ایک ہے۔ یہ ایک ارتکاز ہے۔ مواد وہیئت کی ان ساری اداؤں کا جو فن کے تار وپود بنتی ہیں۔
یہ مرکب ومرتکز فن ایک زبردست توازن کا کرشمہ ہے۔ دونوں کے خلوص پر مبنی فکر وفن کی جو یکسوئی کلام میں پائی جاتی ہے۔وہ کوئی اکہری اور سادہ سی کیفیت نہیں ہے۔ اس کے اندر مواد وہیئت اور موضوع واسلوب کی کشیدگی وکشاکش کی ایک داستان مضمر ہے،فن شعر کے نقطہ نظر سے اقبال کے مسائل ماقبل کے تمام شعراء سے بہت زیادہ تھے۔ایک انتہائی ترقی یافتہ صنعتی اور سائنسی تمدن کی جو پیچیدگیاں اقبال کے سامنے تھیں۔ وہ دانتے،شکیسپئیر، گیٹے،رومی، فردوسی، حافظ اور بیدل کے سامنے نہ رہی تھیں۔ اقبال کے دور میں بین الاقوامی سطح پر تہذیب ،آرٹ وسائنس کے ودکلچروں میں منقسم ہوتی نظر آرہی تھیں۔اور فنون لطیفہ بالخصوص شاعری کا مستقبل تاریک ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔دنیا ایک تہذیبی بحران سے دوچار تھی۔انقسام وانتشار کے آثار ہرسو نمایاں تھے۔انسانیت ایک دوراہے پر کھڑی تھی۔ پرانی قدریں مشتبہ ہو رہی تھیں۔ اور نئی قدروں کا سراغ نہیں مل رہا تھا۔ سب سے بڑھ کر مشرق کا ماحول جس سے اقبال وابستہ تھے،غلامی، پس ماندگی اور جہالت میں ڈوبا ہوا تھا۔اقبال اپنے زمانے کے حقائق کے متعلق نہ صرف بہت باخبر اور آگاہ تھے، بلکہ بے حس حساس اور مضطرب تھے۔ان کا ذہن اور مطالعہ مجتہدانہ تھا۔ اور وہ سماج کی تجدید کا نصب العین رکھتے تھے۔ انقلاب احوال کی یہ تمنا اقبال کے یہاں اپنے پیش روؤں اور ہم عصروں کی طرح کوئی رومانی چیز بھی نہیں تھی،بلکہ ایک ٹھوس حقیقت تھی ،جوزبردست ذہنی وعلمی جدوجہد کا تقاضا کرتی تھی۔ ایسے کڑے درد کو گیت میں ڈھالنا شمشیر وسنان بلکہ توپ وتفنگ کی سخت وکرخت آواز کو ایک نغمہ شیریں میں تبدیل کرنے سے کم دشوار نہ تھا۔چنانچہ شاعر کادل شوریدہ فطری طور پر ایک طلسم پیچ وتاب میں گرفتار تھا،ایک طرف فکر کے مطالبے تھے ،تودوسری طرف فن کے تقاضے اور دونوں بے حد سخت بے حد شدید،اقبال کے ذہن یا فن میں اگر ذرا بھی سقم یا نقص یا ضعف ہوتا تو ولیم بٹلرئیٹس کی طرح رومان وتصوف میں گم ہو جاتے ۔ یا ٹی، ایس،ایلٹ کی طرح تمدن کے جلتے ہوئے خرابے میں خود بھی جل کر راکھ ہو جاتے۔اور دوسرے درجے کی الجھی الجھی ،بجھی بجھی شاعری سے زیادہ کوئی چیز آج انسانیت کو دے نہیں پاتے۔ لیکن اقبال کا ذہن نہایت ہی استوار اور فن نہایت مستحکم تھا،چنانچہ انہوں نے جدید تہذیب وتمدن کے آتش کدے میں قدم رکھ کر اس کے سر کش شعلوں ہی کو گلزار بنا دیا۔ انہوں نے زندگی کے بڑھتے ہوئے عدم توازن کو اپنے فن کے توازن سے دور کرنے کی بلیغ کوشش کی، یہاں تک کہ مسائل حیات سے وسائل کی شاعری پیدا کیے اور تاریخ کو تلمیح بنا دیا۔
فن کا یہ توازن ایک فکری استقامت پر مبنی تھا۔ اقبال کی فکر وفنی اور ہم آہنگی کا راز یہ ہے کہ انہوں نے فکر کو کبھی اپنی فنی زندگی کا مسلہ نہیں بننے دیا۔ بلکہ شروع سے ہی ایک سلیم ومستقیم فکر کو مسلے کے حل کے طور پر قبول کر لیا۔ اور اسے اپنی تمام کوششوں کو معیار ومحور بنا دیا۔جس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ فن کی تخلیق وتزئین کے لئے یکسو ہو گئے۔اور اس تخلیقی عمل پر اپنی بہترین توجہات اور صلاحیتیں مرکوز کر سکے۔ یہ ایک انتہائی باشعور فن کار کی ذہنی کشیدگی کا موزوں ترین حل بھی تھا۔ اور حسین ترین پھل بھی، پھر اس حل سے کشیدگی ختم نہ ہوئی ،بلکہ صرف نتیجہ خیز ہو گئی۔اور اس چیز نے مواد وہیئت کے درمیان کشاکش کو برابر ایک صحیح تعمیری اور مثبت رخ پر رکھا۔ یہ حل باضابطہ ایک نظریہ کائنات اور نظام حیات کی شکل میں تھا۔ جسے شاعر نے نہ صرف اپنے ماحول اور خاندان سے ورثہ میں پایا تھا۔بلکہ اس کے تمام اجزا پر زاتی غور وفکر اور مطالعہ ومشاہدہ کرکے اسے خود حاصل کیا تھا۔اس نظریہ ونظام کا نام دین اسلام ہے۔ جس کے عقائد وافکار اور اقدار واخلاق پر اقبال کا ایمان ایک مفکر ومحقق جویائے حق کا ایمان ہے۔ جو اتنا محکم،رفیع اور وسیع وعمیق ہے کہ زندگی وفن کی تمام پہنائیاں اور باریکیاں اس کے اندر سمٹ آئی ہیں۔ اور شاعر نے اپنی فن کارانہ شخصیت میں ان سب کو پوری اور اچھی طرح سمولیا ہے۔اس لیے کہ اس کی شاعری اس کی شخصیت کا ایک ایسا بسیط اظہار ہے۔جس میں فن خود زندگی بن گیا ہے۔ اس لیے کہ زندگی ایک فن کی طرح لطیف وجمیل ہو گئی ہے۔ یہ ایمانیات وجمالیات کا وہ نقطہ اتصال ہے۔جس سے بلند تر ارتقا وعروج کا تسور نہ زندگی میں کیا جا سکتا ہے نہ فن میں۔
کلام اقبال کی اس فکری وفنی ہم آہنگی کو ادب میں روایت وانفرادیت کاارتباط واشتراک اور تعامل وتعاون بھی کہا جا سکتا ہے۔شاعر نے اپنی تعلیم وتربیت کے ذریعے جو ذہنی ثروت حاصل کی ہے۔ اس نے اس کی ذہانت کو اس قابل بنا دیا ہے کہ اپنے انفرادی عمل سے اس میں اضافہ کرے۔اور یہ اضافہ اس نے ایک ایسی زبردست ہیئت میں کیا ہے کہ جو مشرق ومغرب کی شاعرانہ روایات کے بہترین مواد کا خلاصہ ہے۔ ایسا آفاقی جوہر ظاہر ہے کہ بڑے فنی اجتہاد کا نتیجہ ہے۔اور ایک تجدیدی کار نامہ ہے۔عصر حاضر میں گیٹے اور غالب کے بعد دنیاکی شاعری کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عظمت شاعری کے سلسلے بند ہونے لگے تھے۔ اردو میں تو غالب اور اقبال کے درمیان تقریبا تیس پینتیس سال تک کوئی اہم شاعر نظر ہی نہیں آتا ہے۔انگریزی میں بھی وکٹورین عہد نے ٹینی سن اور براوننگ سے بہتر شاعر پیدا نہ کیے۔جب کہ اس سے قبل رومانی عہد میںورڈز ورتھ،کولرج،بائرن، شیلی اور کیٹس آفاقی سطح پر عظمت شاعری کا کوئی نمونہ اپنی مجموعی تخلیقات میں پیش نہیں کرتے۔ اس دور کی فارسی وعربی شاعریمتوسط درجے کے معمولی فن کاروں کا ایک سلسلہ ہے۔اس طرح صرف اردو ،فارسی ہی نہیں عالمی شاعری کے تجربات وروایات کو اپنے فن میں سمو کر اقبال نے عصر حاضر میں عظمت شاعری کا ایک ایسا کار نامہ انجام دیا ہے کہ جو دانتے،گیٹے، شکیسپیئر، رومی، حافظ،بیدل اور غالب کے اکتسابات وکمالات پر ایک دقیق اضافہ ہے۔
اقبال کے اردو فارسی کلام میں مختلف زبانوںاور زمانوں کے متعدد شعراکے فکر وفن پر ناقدانہ تبصرے ملتے ہیں،جن سے عیاں ہوتا ہے کہ اپنے فن کے پیش رو باکمالوں کے کار ناموں پر اقبال کی نظر کتنی گہری اور وسیع ہے۔ اس سے یہ بھی آشکار ہوتا ہے کہ اقبال ہی نے صحیح معنوں میں بین الاقوامی اور آفاقی شاعری بالکل شعوری طور پر پوری آگہی اور ذمہ داری کے ساتھ کی،
اس حقیقت حال کے باوجود اقبال کے بے شمار شیدائی اور معدودے چند مخالفین دونوں ہی عام طور پر اقبال کی شاعری کے متعلق ایک غیر حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔جو بنیادی طور پر یہ ہے کہ اس مرکب ومربوط شاعری کے دونوں اجزا فکر وفن کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دو لخت کر دیا جاتا ہے۔ ایک سالم وجود کی اس غیر فطری تقسیم میں لطیفہ یہ ہے کہ مخالف اور شیدائی دونوں ہی بلا استشنا دانستہ یا نا دانستہ اپنے رویے کی بنیاد فکرکے متلعق اپنے تاثر یا تعصب پر رکھتے ہیں۔ شیدائی تو فکر کو مرکز نظر بناتے ہیں،مخالف بھی فکر ہی کے خلاف اپنے گہرے تعصب کی بنا پر فن کو نشانہ ملامت بناتے ہیں۔اگرچہ وہ دعوی یا اعلان یہ کرتے ہیں کہ فکر سے ان کا کوئی مطلب نہیں، مگر جب وہ تنقید کرتے ہیں تو اپنے اس دعوے پر قائم نہیں رہتے۔اپنے اعلان کے بالکل برخلاف فن پر تنقید کرتے ہوئے فکر کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔اور اس کے متعلق اپنی نا پسندیدگی بلکہ برہمی کوشش کے باوجود چھپا نہیں سکتے۔یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال کے فنی نقائص کے بارے میں ان کے سارے مفروضے ایک سرسری تجزیے کے بعدبالکل خیالی اور ہوائی ثابت ہو جاتے ہیں۔پھر بجائے خود خالص فن کی بات کرنا ایک بے خبری اور نادانی کی دلیل ہے۔کوئی فن خالص ہوتا ہی نہیں،اس میں فکر کی نہ صرف آمیزش بلکہ نمائش ہوتی ہے۔لہذا علمی وتقیدی نقطہ نظر سے یہ دیکھنا چاہیئے کہ اقبال کی فکر جو بھی ہو اس نے فن کی شکل کس حد تک اختیار کی ہے۔اور یہ کہ فن کے ساتھ ہم آہنگ اور اس کا کامیاب اظہار ہے یا نہیں؟۔ اس طرح سوچنے سے واضع ہو جاتا ہے کہ اقبال کا عظیم فن در حقیقت ایک عظیم فکر کا آئینہ ہے۔ اور فن کے اس آئینے میں فکر کا عکس تو پورے طور پر جلوہ فگن ہے ہی،اس کے علاوہ اس کے عکس نے شیشہ فن کی دبیز تہوں سے گزرتے ہوئے کچھ رنگین وزریں نقوش بھی حاصل کر لیے ہیں۔ چنانچہ جس شکل میں یہ عکس بالاخر نمودار ہوا ہے۔ وہ اس کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقت کو بہت ہی تاباں ودرخشاں بنا دیتی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ شیدائی اور مخالف دونوں اقبال کے فن کا مطالعہ ایک جامع نقطہ نظر سے کریں۔ اور فکر کو خواہ وہ پسند کرتے ہوں یا ناپسند صرف فن کے مواد وموضوع کے طور پر لیں۔ پھر جہاں تک شاعری کا تعلق ہے۔ ساری توجہ فن پر مرکوز کریں۔اور یہ دیکھیں کہ شاعر اپنے مخصوص افکار وتصورات کے ابلاغ میں کہاں تک کامیاب ہوا ہے۔اس نے اپنی ہئیت فن کے لوازم ووسائل کا استعمال کتنی تاثیر کے ساتھ کیا ہے ۔ مختصر یہ کہ اس کا ذہن کس درجے کا فن بن سکا ہے اور اس فن کی قدروقیمت دنیائے شاعری کے اس پس منظر میں کیا ہے جس کی روایات میں اقبال کی منفرد استعداد نے اجتہاد کیا ہے۔ مطالعہ فن کا یہی انداز حقیقی بھی ہے اور مثالی بھی ۔ اس کے مضمرات فن کی تمام جہتوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ اور ا س کے تمام اوصاف کو روشنی میں لے آتے ہیں۔ سنہ 1982ء میں جب یہ سطریں لکھی جا رہی تھیں تو اقبال کی وفات کو چوالیس سال ہو چکے ہیں اور اقبالیات کے نام سی بہتیری کتابیں اور مضامین تحریر کیے گئے ہیں لیکن افسوس کہ نہ صرف اردو و فارسی بلکہ دنیا کی تمام زبانوں کے سب سے بڑے شاعری کی شاعری پر بہت ہی کم کام کیا گیا ہے اور جو کچھ کیا گیا ہے وہ ایک عظیم ترین آفاقی شاعر کے شایان شان نہیں۔ اقبال کا فن اجتہادی تھا جبکہ اس پر رقم کی گئی تنقیدیںغلامانہ مقلدانہ قسم کی ہیں جن میں مغربی معیاروں کے ساتھ ساتھ مغربی نمونوں کی برتری بھی اصول موضوعہ کے طور پر تسلیم کر لی گئی ہے ۔ چنانچہ اقبال کے جید کارناموں کا مطالعہ مستعار اور فرسودہ و بوسیدہ تصورات کے تحت بڑی مرعوبیت کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اقبال کی شاعری کی اصلیت اور عظمت کا سراغ گویا نہیں ملتا اور محض رسمی و روایتی قسم کے تبصرے بعض وقت نہایت لغو تبصرے ہمارے سامنے آتے ہیں اور تنقید کے نام پر تمسخر کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اقبال کے فن کا ایک آزاد نظر اور آفاقی معیار سے مطالعہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور تنقید کا واجب الادا فریضہ ہے۔