بال جبریل کی نظمیں اردو میں اقبال کے تمام فکری تصورات اور فنی تصاویر کا بہترین مرکب اور آب مقطر ہیں۔ اس مجموعے میں وطنیت، اسلامیت اور انسانیت کے موضوعات پر الگ الگ تخلیقات نہ ملیں گی، نہ فطرت و محبت کے مضامین پر کوئی اہم تخلیق علیحدہ پائی جائے گی۔ لیکن ان سبھی موضوعات و مضامین کے انضمام و اوغام سے روپذیر ہونے والی متعدد اہم اور عظیم نظمیں بال جبریل کو غزلوں کی طرح نظموں کا بھی بہترین اردو مجموعہ کلام ثابت کرتی ہیں۔ اس مجموعے میں اقبال کی تین بڑی نظمیں۔۔۔۔۔ مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، ساقی نامہ۔۔۔ اقبال کی شاعری کا اوج کمال اور دنیائے شاعری کی معراج ہیں۔ ان کے علاوہ متعدد چھوٹی نظمیں بھی بہت ہی اہم اور شاندار ہیں، مثلاً لالہ صحرا، شاہین، روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے، زمانہ طارق کی دعا، فرمان خدا، لینن خدا کے حضور میں، اذاں، جبریل و ابلیس۔
یہ بڑی چھوٹی نظمیں، دوسری متعدد بہت چھوٹی چھوٹی اور کچھ متوسط نظموں کے درمیان جو سب اپنی اپنی جگہ کامیاب اور دلکش ہیں، اس طرح ابھری ہوئی ہیں کہ پورا مجموعہ ایک خوبصورت اور مستحکم عمارت کی مانند استوار اور شاندار نظر آتا ہے۔ چنانچہ مجموعے کی تمام نظموں کا باہمی رشتہ ایک عمارت کے ستون و سقف اور گنبد و مینار کا معلوم ہوتا ہے، ہم اردو شاعری کے اس تاج محل کا جائزہ بالکل معمولی اور مختصر نظموں سے شروع کرتے ہیں، تاکہ جس مادے اور مسالے سے ایک عظیم فن کی یہ حسین عمارت تعمیر ہوئی ہے اس کا کچھ اندازہ قارئین کو ہو سکے۔
الارض للہ
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟
کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب
کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار؟
خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نور آفتاب؟
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب؟
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب؟
وہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں
صرف چار اشعار کی اس نظم میں فطرت، مذہب، معیشت اور سیاست کو اس طرح شیر و شکر کیا گیا ہے کہ ان عناصر کو جدا جدا کر کے دیکھنا مشکل ہے یہ ایک مرکب طلسم ہے اور شاعری کا گہرا جادو۔ تین اشعار کے چھ مصرعے چھ سوالات اس انداز سے، اس رنگ و آہنگ اور تصویر و ترنم کے ساتھ کرتے ہیں کہ ایک طرف فطرت کی بالکل ارضی، ٹھوس اور حقیقت پسندانہ تصویر نگاہوں کے سامنے کھنچ جاتی ہے اور دوسری طرف معرفت رب کا نقش دل پر بیٹھ جاتا ہے۔ اس تاثر فن کی خوبصورتی یہ ہے کہ جواب سے پہلے انداز سوال ہی دل میں جواب کا احساس پیدا کر دیتا ہے۔ مٹی کی تاریکی میں بیج کو پالنے والا، دریاؤں کی موجوں سے سحاب اٹھانے والا، پچھم سے باد سازگار کو کھینچ کر لانے والا، خاک اور نور آفتاب کا مالک، موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب بھر دینے والا اور موسموں کو خوئے انقلاب سکھانے والا۔۔۔۔ نہ تو کوئی انسان ہے نہ انسان کی سائنس اور صنعت بلکہ صرف اور صرف باری تعالیٰ ہے، لہٰذا بالکل منطقی طریقے پر آخری شعر میں زمین دار کو خبردار کیا جاتا ہے کہ یہ زمین جس پر انسان کو غذا فراہم کرنے کے لیے قدرت الٰہی کی جانب سے یہ ساری تیاریاں ہوتی ہیں کسی انسان کی آبائی جاگیر نہیں، خدا کی ملکیت ہے اور جس انسان کے قبضے میں اس کا کوئی قطعہ آ گیا ہے اسے اشارہ ٔ جواب یہ ہے کہ اس حصے کو اپنے ہاتھوں میں خدا کی امانت اور ایک نعمت سمجھ کر اس کا حق اور خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ہر مصرع فطرت کی ایک تصویر اور فن کا ایک پیکر ہے۔ نہایت لطیف، نفیس، دبیز اور حسین، زراعت اور خوراک سے متعلق ایک ایک عنصر فطرت کو لے کر شاعرانہ تصاویر میں ڈھال دیا گیا ہے۔ شاعر کے بیانات صرف فطرت کے متعلق ہیں لیکن قاری خود معرفت کے سبق لیتا ہے۔ یہ فن کی ایمائیت ہے۔ ایک تاباں و درخشاں جلوۂ فطرت نگاہوں کے سامنے رونما ہوتا ہے اور یہ جلوہ ہی سوئے خلوت گاہ دل دامن کش انسان ہو جاتا ہے۔ ذہن انسانی کی یہ حقیقت باشعور شاعر کو معلوم ہے،لہٰذا وہ صرف سوالات و تصاویر پر اکتفا کرتا ہے۔ لیکن آخری شعر حسن فطرت، جمال معرفت اور لطف شعریت کے اس طلسم کو توڑ کر بالکل ایک سیاسی و معاشی جواب سراسر خطیبانہ انداز میں پیش کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے ذہن کو ایک جھٹکا اور دھکا لگتا ہے اور قاری جمالیات کی نرم فضا سے نکل کر سیاسات کی گرم ہوا میں آ جاتا ہے، شبنم سے شعلہ پھوٹنے لگتا ہے۔ یہ ایک ڈرامائی انداز خبرداری ہے، یقینا اس سے ایک طلسم ٹوٹتا ہے۔ لیکن غور کیا جائے تو دوسرا طلسم ابھرتا بھی ہے، ایک تمثیل کی طرح منظر بدل جاتا ہے، لیکن کہانی وہی رہتی ہے، پہلے اس کا ارتقا تھا اور اب انجام در پیش ہے۔ یہ انجام فطری اور منطقی ہے، سوالوں کی نوعیت سے ہی جواب کی کیفیت عیاں تھی، یقینایہ فطرت و سیاست جیسے متضاد عناصر کا میل ہے اور دونوں کو ملانے والا ایک تیسرا، درمیانی لیکن بنیادی، لیکن عنصر مذہب اور اس کا پیام معرفت ہے۔ بات جدید ترین سیاسی معاشیات کی ہے مگر محرک و مقصود قدیم دینی تصور ہے۔ اس ترکیب خیال اور ترتیب ہیئت سے تخلیق میں ایک زور اور اثر پیدا ہوتا ہے اور موضوع مع اپنے مضمرات کے نقش دل ہو جاتا ہے۔
اس نظم میں ایک اثر اشتراکی احساس بھی دریافت کیا جا سکتا ہے، اس لیے کہ انفرادی ملکیت زمین کا انکار نظم کا بنیادی تصور ہے، لیکن یہ نکتہ بھی یاد کر لینا چاہیے کہ یہاں انفرادی ملکیت کے مقابلے پر اجتماعی ملکیت کا تصور پیش نہیں کیا گیا ہے، بلکہ صاف صاف ربانی ملکیت اور انسانی امانت کا مرکب و جامع تصور موضوع تخلیق ہے، لہٰذا مجموعے کی سب سے زیادہ سیاسی و معاشی نظم ’’فرمان خدا‘‘ کو اسی روشنی میں دیکھنا چاہیے، جب کہ اسی موضوع پر دوسری مشہور نظم ’’ لینن خدا کے حضور میں‘‘ باضابطہ اس روشنی کا اقرار عصر حاضر کے سب سے بڑے اشتراکی و معاشی سیاستداں سے کراتی ہے۔
محبت
شہید محبت نہ کافر نہ غازی
محبت کی رسمیں نہ ترکی نہ تازی
وہ کچھ اور شے ہے محبت نہیں ہے
سکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی
یہ جوہر اگر کار فرما نہیں ہے
تو ہیں علم و حکمت فقط شیشہ بازی
نہ محتاج سلطان، نہ مرعوب سلطاں
محبت ہے آزادی و بے نیازی
مرا فقر بہتر ہے اسکندری سے
یہ آدم گری ہے وہ آئینہ سازی
محبت کے موضوع پر نظم کا ارتقائے خیال مکمل اور اشعار کی ہم آہنگی کامل ہے، اس میں بعض استعاروں اور علامتوں کے باوجود جو عبارت میں گھلے ملے ہیں، کمال فن پیکر تراشی پر نہیں، نکتہ وری اور دقیقہ سنجی پر مبنی ہے، بس منتخب الفاظ میں واضح خیالات ایک ترتیب کے ساتھ مربوط و منطقی انداز میں پیش کر دئیے گئے ہیں اور حسن شاعری مترنم روانی بیان سے عیاں ہے، یہ روانی ایک معنی آفریں تقابل الفاظ پر مشتمل ہے۔ ’’ نہ کافر نہ غازی‘‘ نہ ترکی نہ تازی، غزنوی کو ایازی، نہ محتاج سلطان نہ مرعوب سلطان، آزادی و بے نیازی، یہ آدم گری وہ آئینہ سازی، لفظیات کا ایسا استادانہ استعمال اقبال کی خاص فن کاری ہے۔ ان کے تفکر میں تصورات کی ایک حسین کشیدگی اتنی شدید ہے کہ اس کا اظہار اکثر الفاظ و تصاویر کی کشاکش میں ہوتا ہے اور اس سے کلام میں ایک کشش، ایک دل کشی اور دلکشائی پیدا ہوتی ہے۔ یہ ذہانت کی شعریت ہے جس میں دنیا کا کوئی شاعر اقبال کا حریف نہیں، لیکن اس ذہانت کو شعریت کا سوز و گداز عطا کرنے والا جذبہ دل بھی اتنا ہی قوی ہے جتنا تفکر دماغ، کشیدگی کے باوجود یہ ایک ہم آہنگی ہے اور آہنگ نغمہ کا باعث، محبت کے موضوع پر اقبال کی بڑی بڑی نظمیں بھی ہیں۔ بال جبریل کی تینوں عظیم نغموں میں مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، ساقی نامہ میں یہی موضوع کار فرما ہے۔
جدائی
سورج بنتا ہے تار زر سے
دنیا کے لیے ردائے نوری
عالم ہے خموش و مست گویا
ہر شے کو نصیب ہے حضوری
دریا، کہسار، چاند، تارے
کیا جانیں فراق و نا صبوری
شایاں ہے مجھے غم جدائی
یہ خاک ہے محرم جدائی
چھوٹی بحر میں تین اشعار اور چھ مصرعے فطرت کی ایک تصویر پیش کرتے ہیں۔ جس میں محبوب ازل کے ساتھ مظاہر فطرت کے وصال اور اس سے پیدا ہونے والے سکون کا ایک طلسماتی نقشہ ابھرتا ہے، لیکن چوتھا اور آخری شعر محبوب حقیقی سے انسان کے فراق کا اظہار کرتا ہے۔ وصال کے پس منظر میں فراق کا یہ منظر فطرت و انسانیت کا فرق واضح کرتا ہے۔ اس تضاد میں باہمی رقابت کا احساس نمایاں ہے۔ مظاہر فطرت، فراق و ناصبوری، نہیں جانتے جبکہ خاک آدم، محرم جدائی ہے اور غم جدائی ہی اس کے شایان شان ہے، اس لیے کہ قدرت الٰہی کا مقصد اور تزئین کائنات کا باعث یہی ہے۔ بہرحال فطرت و انسانیت کی رقابت دونوں کے درمیان ایک گہری اور وسیع ہم آہنگی کی غماز بھی ہے، اس لیے کہ دونوں کا منبع وجود اور مرکز نظر ایک ہی محبوب کا جمال جہاں آرا ہے اور اسی کی نسبت سے کوئی عاشق شاد کام وصال ہے اور کوئی مبتلائے فراق۔ اس طرح ظاہری تضاد و اختلاف کے باوجود تمام مخلوقات کے درمیان ایک رشتہ اتحاد و اتفاق ہے۔ جدائیوں کے اندر آفاقی وحدت کا یہ اشارہ حسین بھی ہے، نتیجہ خیز بھی۔ اس کو فطرت نگاری قرار دینا مبالغہ ہو گا، اس لیے کہ موضوع فطرت کا وصال و سکون نہیں، آدمی کا فرق و اضطراب ہے اور موضوع کی شدت تاثیر میں بے پناہ اضافے کے لیے ایک متضاد تمہید مرتب کی گئی ہے۔(روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے، اور ذوق و شوق میں جدائی کے تصور پر دنیا کی بہترین شاعری کے دو کامل نمونے پائے جاتے ہیں)
فرشتوں کا گیت۔ فرمان خدا
یہ ایک تمثیلی نظم ہے اور مکالمے کی شکل میں۔ پہلے منظر میں فرشتے خداوند تعالے کے حضور میں ایک گیت گا کر عضر حاضر کے تلخ حقائق کا ایک مرقع پیش کرتے ہیں:
عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی
نقش گر ازل ترا نقش ہے ناتمام ابھی
خلق خدا کی گھات میں رند دفقیہ و میر و پیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی
تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گردا ابھی، خواجہ بلند بام ابھی
دانش و دین و علم و فن بندگی ہوس تمام
عشق گرہ کشائے کا فیض نہیں ہے عام ابھی
جوہر زندگی ہے عشق، جوہر عشق ہے خودی
آہ کہ ہے یہ تیغ تیز پردگی نیام ابھی
عقل و عشق، رند و ققیہہ و میر و پیر، امیر و فقیر، بندہ و خواجہ، دانش و دین و علم و فن سب بندگی ہوس، ہو کر رہ گئے ہیں، انسان بندگی رب کا سبق فراموش کا چکا ہے۔ لہٰذا نقش گر ازل کا سب سے حسین نقش۔۔۔۔۔۔ انسان۔۔۔۔ ابھی نامکمل، ناقص اور خام ہے۔ یہ عصر حاضر میں زوال انسانیت کی انتہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آج کی زندگی سے جو ہر عشق رخصت ہو چکا ہے، چنانچہ خودی بھی مفقود ہے، ورنہ حیات کی یہ شمشیر آب دار غیر اللہ کے خس و خاشاک کو کاٹ کر رکھ دیتی اور توحید خالص کا بول بالا ہوتا، جو انسان کا نصب العین اور منزل مقصود ہے۔
یہ گیت اپنے آہنگ کے لحاظ سے اول تا آخر ایک نغمہ ملائک ہے اور فرشتوں کے کردار کے عین مطابق ہے۔ اس مناجات کا جواب دربار خداوندی سے ایک فرمان کی شکل میں نازل ہوتا ہے:
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
کنجشک فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
حق رابسجودے، صنماں رابطوافے
بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو
میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
تہذیب نوی کارگہ شیشہ گراں ہے
آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو
خدا کی آواز میں فطرۃً ایک جلال اور تحکم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فرمان خدا پیغام اشتراکیت پر مبنی ہے اور اس میں اشتراکی سیاست کی انقلابی للکار ہے۔ اٹھو میری دنای کے غریبوں کو جگا دو، کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو، جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی، اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو، لیکن سرمایہ داری کے ساتھ ساتھ سامراج کے خلاف بھی احکام اس نظم میں ہیں اور آزادی و غلامی کی جنگ میں ضعیف و قوی کے تصادم اور ان کے انقلاب حال کا اشارہ بھی واضح طور پر موجود ہے۔۔۔۔۔۔ گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقین سے کنجشک فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو، اس کے علاوہ بندہ و خدا کے درمیان حائل ہونے والے پروہتی نظام اور اس کے مذہبی ہتھ کنڈوں کے خلاف بغاوت کا پیام بھی ہے۔۔۔۔ کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے، پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو، حق رابسجودے صنماں را بطوافے، بہتر ہے چراغ حرم و دیز بجھا دو۔ لیکن خدا نے در حقیقت انہدام حرم کا حکم نہیں دیا ہے۔ اس کا فرمان تطہیر حرم کے لیے ہے، کعبے کو ڈھانے کے لیے نہیں، اسے بتوں سے پاک کرنے کے لیے ہے۔ بیت اللہ کو فنا کرنے کے لیے نہیں، اس کی اصلی سادگی کو بحال کرنے کے لیے ہے۔۔۔۔ میں ناخوش و بے زار ہوں مر مر کی سلوں سے، میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو، اس سلسلے میں سب سے بصیرت افروز انکشاف یہ ہے کہ رب العالمین کا سارا عتاب، تہذیب نوی، پر ہے جسے وہ کارگہ شیشہ گراں قرار دیتا ہے۔ اور چونکہ یہ لادین، ضمیر فروش، انسانیت کش، خدا فراموش تہذیب مغرب کا بدترین تحفہ عصر حاضر کو ہے لہٰذا شاعر مشرق کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی دینداری، باضمیری، انسان دوستی، اور خدا پرستی کے جذبے سے کام لے کر فتنہ ساماں تہذیب نوی کو غارت کر دے:
تہذیب نوی کارگہ شیشہ گراں ہے
آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو
تہذیب نوی کارگہ شیشہ گراں ہے، کا مطلب وہی ہے جو بانگ درا کی ایک غزل کے اس مصرعے کا ہے، جو شاخ نازک پر آشایانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا۔ یا بال جبریل کی ایک غزل کے اس مصرعہ کا ہے، چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ، اور دونوں مصرعوں کے ساتھ یہ مصرعے لگے ہوئے ہیں تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی، وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس، دونوں مصرعے مل کر دونوں شعروں کے مطالب و مضمرات واضح کر دیتے ہیں، یعنی ظاہری آب و تاب کے باوجود مغرب کی ابھاری ہوئی تہذیب جدید بالکل سست بنیادی ہے، لہٰذا اول تو یہ اپنے آپ ڈھے جائے گی، دوسرے ایک معمولی سا دھکا بھی اسے گرا دے گا، جیسا کہ جنگ عظیم اول کے بعد بالکل عیاں ہو چکا ہے۔ چنانچہ آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو، کا صریح مفہوم یہ ہے کہ تہذیب نوی کی کارگہ شیشہ گراں پر مشرق سے ضرب لگائی جائے اور اگر عقل اس چمکتی دمکتی گار گاہ سے مرعوب ہے تو آگے بڑھ کر جنوں اپنی مشہور زمانہ جرأت رندانہ سے کام لے اس کی ایک ہی ٹکر اس کارگاہ کے پرزے اڑا دے گی۔
اس طرح قطعی طور پر آشکارا ہے کہ فرمان خدا، اشتراکیت کی جدلیاتی مادیت اور طبقہ وارانہ جنگ کا پیغام نہیں، عصر حاضر کے عالم انسانیت میں ایک ہمہ جہت، بنیادی اور مکمل انقلاب کا فرمان ہے، جو معاشی، سیاسی، مذہبی، معاشرتی سطحوں پر کامل تغیر کا متقاضی ہے اور تغیر و انقلاب کے لیے پتے کی بات یہ ہے کہ مرکز عمل مشرق کو قرار دیا جا رہا ہے، جبکہ اشتراکی روس ایک مغربی خطہ اور تہذیب نوی کا مرکز ہے۔ اقبال کو بلاشبہ مزدوروں، کسانوں، مجبوروں، محروموں اور مظلوموں کے ساتھ ہمدردی ہے اور وہ سرمایہ داروں، زمین داروں، جابروں، دولت مندوں اور ظالموں کے استبداد و استحصال کا خاتمہ بھی چہاتے ہیں، لیکن جس نصب العین اور طریق کار کے تحت وہ آج کی دنیا میں انقلاب کے داعی ہیں وہ اشتراکیت کا نہیں، اسلام کا ہے۔ اس لیے کہ اسلام کائنات و حیات کی فطرت و حقیقت ہے اور اشتراکیت جعل و فریب ’’ فرمان خدا (فرشتوں سے)‘‘ کا مفہوم نظم کے حصہ اول ’’ فرشتوں کا گیت‘‘ سے ہی واضح ہو جاتا ہے۔ فرشتوں کا کلام ختم ہوا تھا اس شعر پر:
جوہر زندگی ہے عشق، جوہر عشق ہے خودی
آہ کہ ہے یہ تیغ تیز پردگی نیام ابھی
اور خدا کا کلام ختم ہوتا ہے اس حکم پر:
تہذیب نومی کارگہ شیشہ گراں ہے
آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو
عشق خودی اور جنوں کی تابانی اشتراکیت کی محبت کش، بدمست خرد پرستی میں کہاں؟
بہرحال اس مکالمہ ملائکہ و خدا میں دونوں کردار اصول تمثیل کے مطابق اپنا اپنا کردار اپنی اپنی آواز میں ادا کرتے ہیں، اسی لیے گیت میں جمال ہے اور فرمان میں جلال۔ یہ ایک چھوٹا موٹا شکوہ و جواب شکوہ ہے۔ اس میں فرشتوں کا لہجہ، بخلاف شکوہ انسانی کے، مناجاتی ہے اور صداؤں کے میل تال سے محسوس ہوتا ہے کہ گیت کسی ایک فرد کی نہیں پوری جماعت کی آواز ہے، اسی لیے اس میںایک گونج ہے جبکہ دوسری طرف خدائے ذوالجلال کی آواز میں گرج ہے۔ اس طرح حروف میں اصوات کو منقش کرنا، بڑی ہی باریک بیں فن کاری کا کارنامہ ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کی چابکدستی بے خطا ہے اور انہوں نے روایتی ردیف و قافیہ سے نغمہ آفرینی کا جو کام لیا ہے اس سے مشرقی عروض شاعری کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اشعار اقبال جس جمال و کمال کے ساتھ معانی کے ارتعاشات کو لفظ و تراکیب اور ردیف و توانی کی صداؤں میں مرتسم کرتے ہیں اس سے کلام میں ایک طلسماتی فضا پیدا ہو جاتی ہے اور افسون نغمہ قاری یا سامع کے ذہن پر طاری ہو جاتا ہے لیکن یہ سحر ذہن کو مدہوش کرنے کی بجائے غیر معمولی طور پر روشن کر دیتا ہے۔ اس لیے کہ ہر نغمہ کسی نکتہ پر مبنی ہوتا ہے اور ترنم نخیل کا وسیلہ اظہار ہے۔
ترنم کے ساتھ ساتھ چند تصویریں بھی ہیں۔۔۔۔ نقش گر، کوچہ گرو، بلند بام، گرہ کشا، تیغ تیز، پردگی نیام، کنجشک، شاہیں، کارگہ شیشہ گراں یہ تصویریں معنی آفریں اور خیال انگیز ہیں، متعلقہ تصورات کی عکاسی کے لیے ان کی موزونی اپنے آپ واضح ہے۔
ہیئت نظم بہت ہی مربوط و متناسب اور چست ہے، گیت کے مصرعے پہلے مصرعے سے فرمان کے آخری مصرعے تک ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں، خاتمے کے آداب جنوں اسی عقل و عشق کے لیے ہیں جن کا ذکر ابتدا میں ہوا تھا۔