بعض ناقدین ’’ خضر راہ‘‘ کی چند جزئیات کی بہت تعریف کرتے ہیں مگر پوری نظم یا اس کے بیشتر حصوں کو سیاسی اور خطیبانہ قرار دے کر گویا رد کر دیتے ہیں۔ اول تو بجائے خود یہ طریق تنقید نہ صرف متعصبانہ بلکہ سراسر جاہلانہ ہے، اس لی کہ کسی بھی نظم کا کلی مطالعہ، اس کے تمام مضمرات کے ساتھ ہونا چاہیے اور اس کے اجزا کو بھی ایک کلی ہیئت کے تحت رکھ کر دیکھنا چاہیے، نہ کہ مثلہ کر کے محض پارچوں کا مزہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ نظم کا مطالعہ اس کے موضوع و مقصد کو سامنے رکھ کر کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ فن کار اپنے تخیل کی ترسیل میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں، ورنہ ساری تنقید بجائے شاعری کے فنی عمل کے اس کے نظریے پر مبنی ہو گی اور اس کی خوبی و خامی کے متعلق ناقد کی ذاتی پسند و نا پسند ہی معیار نقد بن جائے گی جو اصول تنقید سے بد ترین انحراف ہو گا تیسرے یہ کہ خضر راہ اقبال کی واحد نظم نہیں ہے ان کی متعدد اہم نظموں میں ایک ہے اور ایک وسیع نظام فن کا جز ہے۔ لہٰذا اس کا تنقیدی مطالعہ اس فن کاری کے سیاق و سباق میں ہونا چاہیے جس میں یہ نظم واقع ہوئی ہے تاکہ فن کار کے ذہنی و فنی ارتقا میں نظم کا مقام متعین ہو کر اس کی حقیقی قدر و قیمت معین ہو سکے۔
یہ نظم بھی ’’ شمع اور شاعر‘‘ اور’’ شکوہ و جواب شکوہ‘‘ کی طرح ایک تمثیلی مکالمہ ہے جس میں شاعر اور خواجہ خضر کے درمیان سوال و جواب ہے، جبکہ پچھلی نظموں میں علی الترتیب شاعر و شمع اور شاعر و خدا کے مابین سوال و جواب تھا۔ اس نظم میں زبردست فطرت نگاری کے پس منظر میں ’’ تصویر درد‘‘ کی وطن دوستی اور ’’ شمع اور شاعر‘‘ اور’’ شکوہ و جواب شکوہ‘‘ کی ملت دوستی کے عناصر کے علاوہ دو نئے موضوعات’’ زندگی‘‘ اور’’ سرمایہ و محنت ‘‘ پر روشنی ڈالی گئی ہے جن میں پہلا موضوع فلسفیانہ ہے، جب کہ دوسرا سیاسی، اور دونوں ہی نہ صرف شعریت سے بھرپور بلکہ نظم کے دیگر اجزا کے ساتھ فنی طور پر مربوط اور منصوبہ نظم کی مجموعی کامیابی میں مددگار ہیں۔
نظم ’’ تصویر درد‘‘ اور’’ شمع اور شاعر‘‘ کے مانند ترکیب بند ہے۔ ابتدا ’’ شاعر‘‘ کے سوالات سے ہوتی ہے جو نظم کے پہلے حصے میں واقع ہوئے ہیں۔ یہ حصہ دو بندوں میں ہے، پہلا فطرت کی منظر نگاری پر مشتمل ہے اور دوسرا شاعر کے بیان پر، گرچہ اس بیان کا اشارہ پہلے ہی بند کے آخری تین اشعار خاص کر ٹیپ میں مل جاتا ہے جبکہ سات شعروں کے اس بند میں صرف چار اشعار فطرت کے ایک منظر ’’ ساحل دریا پہ اک رات‘‘ کے لیے وقف ہیں یہ منظر نگاری بھی در حقیقت ایک پس منظر ہے، ایک خاص کردار کے ظہور کے لیے اور اس کی معروف خصوصیت کے مطابق خواجہ خضر دو باتوں کے لیے مشہور ہیں، اول یہ کہ ان کی جولاں گاہ سطح آب ہے جس پر یا جس کے گرد وہ دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ رہ کر سیر کرتے رہتے ہیں گرچہ دشت و صحرا میں بھی گشت لگاتے ہیں، دوسرے یہ کہ وہ بہت باخبر اور صاحب علم ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی نگاہوں پر بہت سی اشیاء اور بہتیرے واقعات کے وہ حقائق و مصالح روشن کر دئیے ہیں جو عا انسانوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں چنانچہ شاعر، اپنی مفکرانہ تلاش حقیقت کے سلسلے میں ’’ اک رات‘‘ ،’’ ساحل دریا پہ‘‘ ،’’ محو نظر‘‘ تھا تو ماحول کی یہ تصویر نظر آئی:
ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محو نظر
گوشہ دل میں چھپائے اک جہان اضطراب
شب سکوت افزا، ہوا آسودہ دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب
جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب
رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر
انجم کم ضو گرفتار طلسم ماہتاب
بہ نظر غور دیکھا جائے تو ان اشعار میں تین ہی منظر کشی کرتے ہیں، اس لیے کہ پہلا شعر منظر کے متعلق کم اور شاعر کے متعلق زیادہ ہے، بلکہ اس کا دوسرا مصرع تو بالکل تصویر منظر کے خلاف ہے، اس لیے کہ منظر سکوت و سکون کا ہے، جبکہ شاعر اپنے ’’ گوشہ دل میں چھپائے اک جہان اضطراب‘‘ ہے۔ اس طرح منظر اور ناظر کے درمیان تضاد ہے۔ بلا شبہہ یہ تضاد ہی دراصل منظر کے سکوت و سکون کی دل کشی میں اضافہ کرتا ہے، یہاں اقبال نے واقعہ یہ ہے کہ تمثیل نگاری کے ایک بہترین فنی طریقے کا استعمال کیا ہے جس سے تمہید نظم نہایت پر اثر ہو گئی ہے۔ اس فنی طریقے کے علاوہ یہ نکتہ بھی منصوبہ نظم پر دلالت کرتا ہے کہ شاعر نے جو سکون و سکوت منظر فطرت میں دکھایا ہے وہ دراصل اس کے انسانی ماحول کے جمود کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کو توڑنے کے لیے ہی شاعر کا دل ایک جہان اضطراب بنا ہوا ہے۔ جہاں تک منظر اور اس کی تصویر کشی کے حسن کا تعلق ہے، اس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ اس قسم کی مثالوں سے جو کلام اقبال میں جا بجا کثرت سے بکھری ہوئی ہیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کو فطرت نگاری میں ید طولیٰ حاصل ہے اور وہ اس موضوع پر کمال فن کاری کا اظہار کرتے ہیں، حالانکہ یہ ان کا خاص موضوع نہیں، بہرحال، یہ چار یا تین اشعار آٹھ یا چھ مصرعوں میں فطرت نگاری کے ان فنی تجربوں کا نقطہ عروج پیش کرتے ہیں جن کا مشاہدہ ہم فطرت سے متعلق اقبال کی نظموں یا ان کے متعدد اشعار میں قبل کر چکے ہیں ان مصرعوں میں ایک ایک لفظ اور ترکیب گویا مناظر فطرت اور ان کے جلوے سے پیدا ہونے والے احساسات کا عطر ہے اس عطر فطرت کی خوشبو کا اندازہ کرنے کے لیے ایک شعر کا تجزیہ بھی کافی ہو گا:
شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب
پہلا ہی مصرعہ منظر کی ایک مکمل تصویر صرف تین پیکروں میں کھینچ کر رکھ دیتا ہے۔ پہلے پیکر میں شب سکوت افزا ہے، دوسرے میں اس سکوت افزائی کا اثر فضا پر یہ ہے کہ ہوا آسودہ ہے اور تیسرے میں سطح پر اثر یہ ہے کہ دریا نرم سیر ہے، ہوا کے لیے الف کا استعمال تین بار ہوا ہے جس میں دو بار لگاتار ممدودہ کی شکل میں اور پانی کے لیے رکا استعمال بھی تین بار ہوا ہے فضا کے کامل سکوت اور سطح کی پر سکون روانی کے لیے ان حروف کا استعمال موزوں ترین ہے، یہ تینوں پیکر ایک لفظ، سکوت افزا کا فیض ہے۔ شاعر نے رات کو محض ساکت نہیں کہا سکوت افزا کہا ہے یعنی وہ پرسکوت ہونے کے ساتھ ساتھ سکوت انگیز بھی ہے۔ اس طرح صرف آٹھ لفظوں میں رات کے سکوت کی موثر ترین تصویر کشی کے بعد دوسرے مصرعے میں منظر کو تصویر آب سے تشبیہہ اس تمہید کے ساتھ دی جاتی ہے کہ نظر حیراں تھی نظر کی حیرانی تو مشاہدہ کا رد عمل ہے جبکہ منظر کا مشاہدہ صرف تصویر آب کی نشاندہی کرتا ہے۔ بس ایک مختصر سی فقط دو لفظوں کی بالکل سادہ ترکیب مصرع اول کی تصویر پر ایسا پر اثر حکم لگاتی ہے کہ خود تصویر کے اندر اس کی تکمیل ہونے کے باوجود ایک اضافہ سا ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ یہ تشبیہہ کا بہترین مصرف ہے، بعد کا شعر ’’ تصویر آب‘‘ کی ایک تفصیل ہے اور اس کے بعد کا شعر سکوت افزا کی تفصیل۔ ان تفصیلات سے اس مکمل تصویر میں تو فی الواقع اضافہ نہیں ہوتاجو زیر بحث شعر میں کھینچی گئی ہے۔ مگر اس تصویر کے اثرات میں ضرور توسیع ہوتی ہے۔
بہرحال، منظر فطرت کا یہ طلسم پانچویں ہی شعر میں ٹوٹ جاتا ہے اور نہایت ڈرامائی گرچہ تمہید کے مفہوم کے لحاظ سے متوقع طور پر خواجہ خضر کی شخصیت منظرپر ابھرتی اور جزو منظر بن جاتی ہے:
دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر
جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب
کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویاے اسرار ازل
چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب
خضر کی شخصیت کا خاکہ صرف دو پیکروں پر مشتمل ایک ہی شعر میں مرتب ہو جاتا ہے پہلے مصرعے میں ان کو’’ پیک جہاں پیما‘‘ کہا گیا ہے اور دوسرے میں ان کے متعلق بیان ہے کہ ’’ جس کی پیری میں مانند سحر رنگ شباب‘‘ یہ دونوں پیکر خضر کی کردار نگاری کے لیے تقریباً کافی ہیں چونکہ وہ جہاں گرد مشہور ہیں لہٰذا انہیں ’’ پیک جہاں پیما‘‘ کہا گیا اور چونکہ ان کے بارے میں غیر معمولی طول عمر کی روایت مروج ہے لہٰذا ان کی پیری میں مانند سحر رنگ شباب کا بیان دیا گیا، یعنی جس طرح صدیوں سے ایک ہی طرح بہر روز طلوع ہونے کے باوجود تازگی و شادابی کا وہ مظہر ہے جسے شباب کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے، اسی طرح خضر بھی صدیوں پر محیط طول عمر کے باوجود جوانوں کی طرح چستی و مستعدی سے پیہم جہاں گردی کرتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد کا شعر مکالمے کا آغاز ہے، جو خضر کی طرف سے ہوتا ہے۔ ایک مصرعے میں خضر کا پہلا ہی بیان ان کے کردار او رشخصیت کا ایک اور گوشہ ہماری نگاہوں کے سامنے لے آتا ہے۔ قبل کے پیکروں میں جو شاعر کے بیان پر مشتمل تھے، خضر کی ظاہری شخصیت کا خاکہ کھینچا گیا تھا، لیکن اب ان کا صرف ایک ملفوظ ان کے کردار کی باطنی حقیقت کو آشکار کر دیتا ہے:
چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب
خود خضر کی نگاہوں پر مروجہ روایات کے لحاظ سے، تقدیر عالم بے حجاب ہے اور وہ اس بصیرت کا یہ نسخہ شاعر کو بتاتے ہیں کہ چشم دل وا ہو یعنی انسان کی روح اپنی تمام گہرائیوں کے ساتھ بیدار ہو جائے تو دل کے اندر وہ روشنی پیدا ہو جاتی ہے جو مظاہر حیات اور واقعات عالم کے پیچھے مضمر حقائق کے مشاہدے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ خضر کا یہ قول جس طرح ان کے کردار کے مطابق ہے اسی طرح شاعر کی متجسس طبیعت کے تقاضے کا جواب ہے۔ چنانچہ وہ اقرار کرتا ہے:
دل میں یہ سن کر بپا ہنگامہ محشر ہوا
میں شہید جستجو تھا یوں سخن گستر ہوا
شاعر کا یہ بیان اس کی کردار نگاری بھی اس کی ہی زبان سے کرتا ہے اور نظم کے موضوع و مقصد کے اظہار کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔
لہٰذا اب کے پہلے بند میں پہلے شعر کے پہلے مصرعے کے ’’ محو نظر‘‘ کی تشریح و تمثیل ہو چکی ہے، دوسرے مصرعے کے جہان اضطراب کی تصریح و تصویر دوسرے بند میں پیش کی جا رہی ہے:
اے تری چشم جہاں بیں میں پروہ طوفان آشکار
جن کے ہنگامے ابھی دریا میں سوتے ہیں خموش
’’کشتی مسکیں‘‘ و جاں پاک و دیوار یتیم
علم موسیٰ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش
چھوڑ کر آبادیاں رہتا ہے تو صحرا نور و
زندگی تیری ہے بے روز و شب و فردا و دوش
زندگی کا راز کیا ہے؟ سلطنت کیا چیز ہے؟
اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش؟
ہو رہا ہے ایشیا کا خرقہ دیرینہ چاک
نوجواں اقوام نو دولت کے ہیں پیرایہ پوش
گرچہ اسکندر ہا محروم آب زندگی
فطرت اسکندری اب تک ہے گرم ناو نوش
بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفیٰؐ
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
آگ ہے، اولاد ابراہیم، نمرد ہے!
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟
٭٭٭
یہ سوالات شاعر اور خضر دونوں کے کرداروں کے مطابق ہیں، شاعر ’’ شہید جستجو‘‘ ہے لہٰذا وہ صحرا نوردی، زندگی اور سلطنت جیسے بنیادی سوالات کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے دو اہم ترین سیاسی سوالات۔۔۔۔سرمایہ و محبت اور زوال ایشیا۔۔۔ اس کے سامنے رکھتا ہے جو ’’ چشم جہاں بیں‘‘ کا مالک ہے، لہٰذا ان مشکل مسائل کو حل کر سکتا ہے جو شاعر کے دل کو ایک جہان اضطراب بتائے ہوئے ہیں۔ سوالات کے بیان میں چند نکات خصوصی طور پر لائق توجہ ہیں، اول تو یہ کہ اقبال شاید دنیا کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے روس اور چین سے باہر اشتراکیت کے ابھار کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سرمایہ و محنت یا سرمایہ دار و مزدور کے معاشی معاشرتی اور سیاسی مسئلے کی بین الاقوامی اہمیت کو حسین و متین شاعری کا موضوع بنایا اور اس کے مضمرات و اثرات کی طرف لطیف اشارے کیے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ اشتراکی نہ ہونے اور نہایت دین پسند ہونے کے باوجود اقبال نے سرمایہ محنت کی کش مکش میں محنت کے موقف کی پر زور تائید کی اور سرمایہ کے خلاف اس کی بغاوت کا ولولہ انگیز شاعرانہ خیر مقدم کیا اس سے ایک بار پھر واضح ہوتا ہے کہ اقبال کا انداز نظر بالکل انسانی و آفاقی تھا اور وہ سماجی انصاف کے مطلق علم بردار تھے، چنانچہ کم زوروں، مظلوموں اور محروموں کی حمایت اپنا فرض تصور کرتے ہیں دوسرے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی ملت دوستی کو ایشیا کا خرقہ دیرینہ سے وابستہ کر دیا ہے یعنی وہ اپنے ملی موقف میں ایک آفاقی نقطہ نظر سے پورے مشرق کو اس لیے شامل کرتے ہیں کہ اس کے ’’ خرقہ دیرینہ‘‘ کو بہت ہی جابرانہ و ظالمانہ طور پر ’’ چاک‘‘ کر کے اور اس کی قیمت پر مغربی ’’ اقوام نو دولت‘‘ کے ’’ نوجوان‘‘ پیرایہ پوش ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ غریب و مجبور مشرق کی قیادت کرتے ہوئے پوری ملت اسلامیہ تاریخ کے ایک انتہائی خطرناک امتحان میں پڑ گئی ہے اور ایک زبردست آگ کے شعلوں میں گھری ہوئی ہے۔ اس طرح اقبال کی نگاہ میں ’’ دنیائے اسلام‘‘ عالم مشرق کا مترادف ہے اور عصر حاضر میں قبل کے بھی تمام ادوار کی طرح، دبی اور کچلی ہوئی انسانیت کی واحد پناہ گاہ اور پشت پناہ ہے۔ یعنی بین الاقوامی سطح پر عدل و راستی کی علم بردار ہے۔
یہ مطمح نظر اور اس کے تصورات اقبال کے دل کی گہرائیوں میں پیوست اور ان کے احساسات میں جذب ہو گئے ہیں۔ چنانچہ وہ ایسے ٹھوس تصورات کو بھی زندہ و تابندہ شعری پیکروں کی حرارت بخش سکتے ہیں۔ بند کے پہلے شعر میں خضر کی ’’ چشم جہاں بیں‘‘ پر حقائق کے آشکار ہونے کو دریا کی تہ میں خموش سوئے ہوئے ہنگاموں کے طوفانوں کا آشکار ہونا کہا گیا ہے۔ یہ طرز تعبیر خضر کی نسبت سے حقیقت پسندانہ ہونے کے ساتھ ساتھ حسن استعارہ کے لحاظ سے شاعرانہ بھی ہے۔ دوسرے شعر میں ’’ کشتی مسکین‘‘ و ’’ جان پاک‘‘ و’’ دیوار یتیم‘‘ کی تلمیحات بہت ہی پر خیال ہیں، جبکہ دوسرے مصرعے کے آخر میں ’’ حیرت فروش‘‘ کی ترکیب تلمیح کو جاری رکھتے ہوئے، خیال انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ نغمہ ریز بھی ہے، بعد کے اشعار میں ’’ صحرا نورد‘‘ بے روز و شب و فردا و دوش’’ خروش‘‘ خرقہ دیرینہ اقوام نو دولت اور ’’ پیرایہ پوش‘‘ جیسے تروتازہ اور معنی آفریں الفاظ و تراکیب شعریت کی فضا قائم رکھتے ہیں، یہاں تک کہ آخر کے دو اشعار پھر تلمیحات پیش کرتے ہیں۔ ایک تو ’’ آب زندگی‘‘ اور’’ فطرت اسکندری‘‘ محاورے کی حد تک عام علامتیں ہیں دوسرے ہاشمی اور ترکمان سخت کوش کا تقابل عصر حاضر کی ایک پر درد و تاریخی داستان عبرت پر مبنی ہے، جس کے پس منظر میں ہاشمی کا ناموس دین مصطفیٰؐ، بیچنا اور ترکمان سخت کوش کا ’’ خاک و خون‘‘ میں ملتا ایک حقیقت افروز مرقع نگاری ہے۔ ٹیپ کا شعر’’ آگ‘‘ اولاد ابراہیم نمرد اور اامتحاں کے طلسم الفاظ کی ترتیب سے ایک گنجینہ معنیٰ کا دروازہ کھولتا ہے اور عصر حاضر کی تمام کرب ناکیوں کو گویا ایک زمانے کی رو کا بیک وقت فلسفیانہ و شاعرانہ پیکر عطا کر دیتا ہے، اس لیے کہ حال کا صیغہ ’’ پھر‘‘ کی توقیت کے ساتھ عصر حاضر کے امتحاں کو قرون ماضیہ کی ایک ایسی مثال کے طور پر پیش کرتا ہے جو ادوار مستقبل میں بھی رونما ہو سکتی ہے۔
نظم کا دوسرا حصہ ’’ جواب خضر‘‘ کے عنوان سے شروع ہوتا ہے اس جوابی مکالمے میں پہلا موضوع’’ صحرا نوردی‘‘ ہے، جس میں صحرا اور صحرا نوردی کی حسین ترین فطرت نگاری کی گئی ہے:
کیوں تعجب ہے مری صحرا نوردی پر تجھے؟
یہ تگا پوئے دما دم زندگی کی ہے دلیل!
اے رہین خانہ تو نے وہ سماں دیکھا نہیں
گونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگ رحیل
ریت کے ٹیلے پہ وہ آہوکا بے پروا خرام
وہ خضر بے برگ و ساماں، وہ سفر بے سنگ و میل
وہ نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح
یا نمایاں بام گردوں سے جبیں جبرئیل
وہ سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب
جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بین خلیل
اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں
اہل ایماں جس طرح جنت میں گرد سلبیل
تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش
اور آبادی میں تو زنجیری کشت و نخیل
پختہ تر ہے گردش پیہم سے جام زندگی
ہے یہی اے بخیر راز دوام زندگی
٭٭٭
اس بند میں منظر فطرت کے ساتھ ساتھ فطرت کی سادہ و آزاد زندگی کی تصویریں بھی ہیں اس کے علاوہ کچھ عشق و محبت کے پیکر ہیں اور کچھ فطرت اور محبت کے میل تال سے ابھرنے والے فلسفہ زندگی کے اشارے بھی برداشت کی کوئی تصویر نہیں، مگر فضائے دشت میں بانگ رحیل کے گونجنے کا تصور ہے اور اس تصور میں شدت پیدا ہوتی ہے، رہین خانہ کے خطاب سے جو فضائے دشت سے متضاد ہے۔ ریت کے ٹیلے پہ، آہو کے دبے پروا خرام، کے ساتھ حضر بے برگ و ساماں اور سفر بے سنگ و میل کی تصویر اس پیوستگی کے ساتھ دی گئی ہے کہ برات عاشقاں بر شاخ آہو، کا معنی خیز بیان یاد آ جاتا ہے، جس کی توثیق ٹیپ سے پہلے کے آخری شعر میں سودائے محبت سے ہوتی ہے۔ یہ دونوں، زیادہ تر سماعی اور کچھ مرئی، تصویریں پہلے شعر میں تگا پوئے دما دم کے زندگی کی دلیل ہونے کے نقوش ہیں، ان کے بعد فضائے دشت میں نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح، صحرا کی وسعتوں میں سفر کا ایک جمال افروز منظر پیش کرتا ہے۔ اسی طرح سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب، ایک منظر حسن ہے۔ پانی کے چشمے پر مقام کارواں بھی ایک روح افزا نظارہ ہے، لیکن قدرت کے ان سب ٹھوس مناظر کو چند مجرد تصورات سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ جو کلام اقبال کی ایک خصوصیت ہے۔ نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح و بام گردوں سے جبین جبرئیل کا نمایاں ہونا ہے، سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب چشم جہاں بین خلیل ؑ کے روشن تر، ہونے کی یاد دلاتا ہے اور پانی کے چشمے پر مقام کارواں اہل ایماں کے جنت میں گرد سلسبیل جمع ہونے کا نقشہ کھینچتا ہے ان تشبیہات میں حسن و جمال اور زیبائی و رعنائی کے ساتھ ساتھ بصیرت معرفت اور آخرت کے نقوش بھی ہیں، منصوبہ نظم اور موضوع تخلیق کے اعتبار سے تشبیہات کی بہ نوعیت بالکل موزوں اور خیال انگیز ہے۔ یہاں حسن صداقت کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور فطرت محبت کی ایک ادا معلوم ہوتی ہے جبکہ محبت راز حیات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بند کا آخری شعر مناظر قدرت کے پس منظر میں سودائے محبت کے لیے ’’ تازہ ویرانے‘‘ کی تلاش کا ذکر کرتاہے اور اس صحرا کو عشق کی جولاں گاہ یا تربیت گاہ بنا دیتا ہے، پھر اس جولاں گاہ اور تربیت گاہ کی دل فروزی میں اضافہ کرنے کے لیے، آبادی میں انسان کے زنجیری کشت و نخیل ہونے کا تذکرہ کرتا ہے چنانچہ ارتقائے خیال کے منطقی نتیجے کے طور پر ٹیپ کا شعر اعلان کرتا ہے کہ جام زندگی گردش پیہم سے ہی پختہ تر ہے اور یہی راز دوام زندگی ہے اس سے معلوم ہوا کہ صحرا نوردی کی فطرت نگاری مناظر قدرت کی منظر کشی کے لیے نہیں ہے، ایک خاص موضوع فکر کی تمہید کے لیے اور تصور تخلیق کا پس منظر فراہم کرنے کے لیے ہے، یعنی فطرت برائے فطرت نہیں، فطرت برائے حقیقت ہے۔ لہٰذا جواب کے پہلے بند کی ٹیپ ما قبل کے اشعار کا منطقی نتیجہ نکالنے کے ساتھ ہی دوسرے بند میں مابعد کے اشعار کا پیش خیمہ بھی بن جاتی ہے اور اس طرح صحرا نوردی کے تصور اور اس پر مشتمل بند کو فکری و فنی دونوں اعتبار سے زندگی کے تصور پر مشتمل جواب خضر کے آئندہ بند کے ساتھ بالکل مربوط کر دیتی ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی یاد کر لینا چاہئے کہ تمہید نظم کی تصویر آب کے مقابلے میں صحرا نوردی کی مرقع نگاری در حقیقت اس پیغام عمل کا اشاریہ ہے جو شاعر خضر کی زبان سے دینا چاہتا ہے۔
جواب خضر میں ’’ زندگی‘‘ کا موضوع دو بندوں میں ادا ہوا ہے پہلے میں زندگی کی حقیقت اور اصلیت بتائی گئی ہے اور دوسرے میں اس کا مصرف اور مطمع نظر دونوں بند مترنم آہنگ میں ایک نغمہ فکر پیش کرتے ہیں جبکہ تصویروں کا رنگ کم سے کم ہے اور جو کچھ ہے محاورے کی حد تک سادہ ہے مثلاً ’’ سر آدم‘‘ ’’ ضمیر کن فکاں‘‘ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں جوئے کم آب، بحر پیکراں، قلزم ہستی، حباب، شمشیر، بدخشاں، لعل گراں ان بندوں کے اشعار میں سارا افسوں ترتیب الفاظ سے ابھرنے والی زمزمہ پر دازی کا ہے:
برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی
٭٭٭
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے فکر خاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
٭٭٭
ان اشعار میں صرف آوازوں کی ترکیب سے ایک طلسماتی صدا بندی کی گئی ہے:
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ، جادواں پیہم دواں، ہر دم جواں پیکر خاکی میں جاں خاکستر سے آپ اپنا جہاں بلا شبہہ یہ محض صدا بندی نہیں ہے، اس میں معنی آفرینی بھی ہے۔ جاں کے ساتھ تسلیم جاں کا تقابل، جاودوں، جواں کا تشابہ، پیکر خاکی اور جاں کا تضاد، خاکستر اور جہاں کا توازن۔
آواز اور مفہوم دونوں کی سرود آفریں تنظیم کرتے ہیں۔
دوسرے بند کے آخری دو شعر گویا موضوع کا ماحصل ہیں:
خاک مشرق پر چمک جائے مثال آفتاب
تابدخشاں پھر وہی لعل گراں پیدا کرے
سوئے گردوں نالہ شبگیر کا بھیجے سفر
رات کے تاروں میں اپنے راز داں پیدا کرے
پہلا شعر خاک مشرق کی تمثیل بدخشاں سے کرنا ہے اور مثال آفتاب چمکنے کا مقصد لعل گراں کی تخلیق بتاتا ہے۔ دوسرے شعر میں سوئے گردوں، نالہ شبگیر کا سفیر، بھیجنے اور اس کا مقصد رات کے تاروں میں اپنے راز داں پیدا کرنے کے خیالات ہیں دونوں ہی شعروں میں تصورات بجائے خود بہت حسین ہیں اور ان کا مترنم مصرعوں میں ڈھل جانا ایک نمایاں فن کاری ہے اس حسن اور فن کاری کا اظہار جن معانی و مطالب کے لیے ہوا ہے وہ موضوع کے بنیادی تخیل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہاں ملی شاعری میں خاک مشرق پر زور اس شاعری کی پہنائیوں پر دلالت کرتا ہے۔ ان پہنائیوں کے سلسلے ضرب کلیم کی شعاع امید تک دراز ہیں، نالہ شبگیر اور رات کے تاروں میں راز داں کے پیکر ملی شاعری کی ظاہری سیاست کو عشق و محبت کی رومانیت کے رنگ میں ڈبو دیتے ہیں اور ایک خارجی مطالعے کو باطنی مشاہدہ بنا دیتے ہیں جس سے ایک پر اسرار شاعرانہ رمزیت پیدا ہو جاتی ہے۔ رمزیت کی اس فضا میں آخری بند کی ٹیپ کے شعر کی خطابت اپنی کرختگی کھو کر ایک لطیف تنبیہہ بن جاتی ہے اور اس کا پیغام حسن کلام کی ایک ادا جس کا مجموعی تاثر صرف ایک خواب سے بیدار ہونے کا ہوتا ہے۔
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
دور حاضر میں جب مشرق خاص کر ہندوستان (نظم کی تخلیقی کے وقت) ایک جابر سلطنت کا غلام تھا، عمل کی تلقین کے بعد سلطنت کا سوال فطری طور پر اٹھتا ہے۔ قبل صحرا نوردی زمین کی وسعتوں میں آزادی کے ساتھ حرکت کے موضوع پر تھی اور زندگی ایک خود دار ، باعزت اور جرأت مندانہ طرز حیات کے موضوع پر۔ چنانچہ اب اس فعال اور پر وقار زندگی کے لیے بالکل منطقی طور پر ’’ سلطنت‘‘ کے اسرار و رموز خضر کی زبان سے منکشف کیے جا رہے ہیں۔ اس موضوع پر جو کچھ کہا گیا ہے، غلام ہندوستان کی صورتحال کو مد نظر رکھ کر اور یہ منصوبہ نظم کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم کی ایک آیت ان الملوک کا حوالہ دے کر سلطنت کو ’’ اقوام غالب کی اک جادوگری‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اور اس سلسلے میں حکمراں کی فریب کاری کو ساحری سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ اقتدار محکوم کے ذہن کو اپنے حربوں سے مسخر کر لیتا ہے۔ اس پر فریب طلسم کی حقیقت پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک تلمیح سے کام لیا گیا ہے:
جادوے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز
دیکھتی ہے حلقہ گردن میں ساز دلبری
محمود و ایاز کی روایت کی تاریخی حقیقت جو بھی ہو، روایت میں اسے داستان عشق بنا دیا گیا ہے اور یہ قصہ ہے ایک غلام کے اپنے آپ کو آقا کو محبوب تصور کرنے کا۔ اقبال نے معمول کے مطابق اپنی تخلیقی جدت سے کام لے کر روایت کی ایک بالکل نئی اور انوکھی تعبیر پیش کی ہے۔ انہوں نے آقا و غلام کے رشتے پر پڑے ہوئے محبت کے پردے کا ایک گوشہ اٹھا کر اور جادوے محمود، کا اثر چشم ایاز پر دکھا کر ساز دلبری کے پیچھے چھپے ہوئے حلقہ گردن کا راز کھول دیا ہے۔ گرچہ اس طریق تعبیر سے محمود و ایاز کی روایتی داستان کی شعریت مجروح ہوتی ہے، مگر شاعری کے پیش کردہ آزادی و غلامی کے سیاسی تصور میں یکایک شعریت کی برقی رو دوڑنے لگتی ہے۔ تلمیح کی یہ تجدید نہایت فن کارانہ ہے۔ اس کے بعد شعر ایک دوسری تلمیح کے ذریعے غلامی کا حلقہ گردن توڑنے کے لیے جہاد آزادی کا بہترین استعارہ استعمال کرتا ہے:
خون اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری
طلسم سامری کی تمثال بہت ہی معنی خیز ہے اور اس کی کئی تہیں ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی آزادی کے لیے فرعون وقت کے ساتھ کامیاب مقابلہ کیا تھا۔ مگر ترکیب میں سامری کے طلسم کا ذکر ہے، جس نے اپنے جادو و عیاری سے وہ کام کرنا چاہتا تھا جو فرعون بھی اپنے جبر و ظلم سے نہ کر سکا تھا، فرعون تو بنی اسرائیل کو جسمانی طور پر غلام بنائے ہوئے تھا لیکن سامری نے انہیں دوبارہ ذہنی طور پر غلام بنا دینے کی کوشش کی، جبکہ حضرت موسی ؑ کے پیغام توحید نے بنی اسرائیل کو ذہنی طور پر ہر قسم کی غلامی سے بالکل آزاد کرا دیا تھا۔ یہ انداز تلمیح ایک تو موضوع کے مطابق ہے، دوسرے جادوے محمود کے تسلسل میں ہے۔ چنانچہ بعد کے شعر میں توحید سے روبہ عمل آنے والی مطلق حریت کا ذکر ہوتا ہے۔
سروری زیبا فقط آں ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آزری
وہ استعاراتی اشعار کے بعد ایک لمبی نظم میں یہ سادہ سا بیان شعریت کی فضا میں حائل نہیں ہوتا، جب کہ بتان آزری کی پر خیال تلمیح بھی موجود ہے۔ اس کے بعد مغرب کے اس نام نہاد جمہوری نظام پر تنقید ہوتی ہے جس کے فریب کار علم برداروں نے جمہوریت کے دعوے کے باوجود لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے۔ اس خیال کی ترسیل کے لیے مغرب کے جمہوری نظام کو اس کی جدت کا شہرہ ہونے کے باوجود، ایک ساز کہن کہا گیا ہے، پھر استعارے کو جاری رکھتے اور اس کی تشریح کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس ساز کے پردوں میں وہی نوائے قیصری ہے جو دور قدیم کے رومی سامراج میں تھی اور جس کا ہی جانشین برطانوی سامراج ہے یہاں پردوں کا استعمال بہت معنی خیز ہے، اگلے شعر میں یہ پردہ اٹھا دیا گیا ہے اور صاف صاف استبداد کے ننگے ناچ کا بیان ہے، گرچہ یہ بیان کچھ پیکروں میں ملفوف ہے:
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوکب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
لہٰذا بند کی ٹیپ میں شاعر یہ نتیجہ نکالتا ہے:
اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
’’ سراب رنگ و بو‘‘ گلستان، قفس اور آشیاں کے پیکر خطابت کو شعریت عطا کرنے کے لیے کافی ہیں۔
ٹیپ کے قبل زیر نظر بند کا آخری شعر تھا:
گرمی گفتار اعضائے مجالس الاماں
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری
یہ شعر اگلے بند اور اس میں پیش کیے جانے والے موضوع’’ سرمایہ و محنت‘‘ کا پیش خیمہ ہے۔ برطانیہ کی سامراجی جمہوریت میں سرمایہ داری کی خصوصیت اور اس کے استحصال کا سراغ لگانا اقبال کی دانشوری کا بین ثبوت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ذہنی لحاظ سے وہ ایشیا کے تمام مفکروں سے زیادہ باخبر تھے اور یورپ کے مفکروں سے زیادہ زیرک اور نکتہ داں، ورنہ جمہوریت کے نقطہ عروج پر اس کے اندر سرمایہ داری کے عیوب و دریافت کرنا کسی ہمعصر مفکر کے بس کی بات نہ تھی، لہٰذا اقبال نے وقت کے تازہ ترین رحجان، سرمایہ و محنت کی کش مکش پر نہایت بصیرت افروز اظہار خیال کیا ہے۔ اس موضوع پر پہلے بند میں ’’ شاخ آہو پر برات‘‘ ’’ ساحر الموط‘‘ برگ حشیش اور شاخ بنات جیسے چند پیکروں کے باوجود سادہ انداز میں خیالات پیش کئے گئے ہیں اور ٹیپ میں یہ بصیرت افروز پیش گوئی دبے اور کھپے ہوئے محنت پیشہ عوام کے عروج کی کی گئی ہے۔
اٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق اور مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
یہ پیش گوئی اس استبداد و استحصال کے لیے پیغام فنا ہے جو مغربی سامراج کی سرمایہ دارانہ چالیں پوری دنیا، خاص کر مشرق اور ہندوستان پر مسلط کئے ہوئے تھیں۔ اقبال نے سرمایہ کے خلاف محنت کی تائید و حمایت اس لیے بھی کی کہ مغربی استعمار اپنے جمہوری نظام کا نقاب لگا کر سرمایہ داری کا حلیف و رفیق بلکہ ایک عملی نمونہ بنا ہوا تھا اور اس کی تمام حرکتیں محض جنگ زرگری کے لیے تھیں، وہ ہر طرح مشرق کا استحصال کر کے اپنے خزانے بھر رہا تھا اور اہل مشرق کو مزدور بنا کر ان کے خون پسینے پر عیش کر رہا تھا، لہٰذا جب سرمایہ دارانہ جمہوریت کا تسلط ختم ہو گا اور دنیا میں محنت پیشہ عوام کا عروج ہو گا تو ہندوستان اور ملت اسلامیہ کے پاؤں کی بیڑیاں بھی کٹیں گی۔
اس تناظر میں زیر نظر موضوع کا دوسرا بند بڑے شاعرانہ انداز میں بندہ مزدور کو خضر کا پیام کائنات دیتا ہے:
ہمت عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول
غنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک!
نغمہ بیداری جمہور ہے سامان عیش
قصہ خواب آو را سکندر جم کب تلک
آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا
آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک!
توڑ ڈالیں فطرت انسان نے زنجیریں تمام
دوری جنت سے روتی چشم آدم کب تلک!
باغبان چارہ فرما سے یہ کہتی ہے بہار
زخم گل کے واسطے تدبیر مرہم کب تلک
کرمک ناداں طواف شمع سے آزاد ہو
اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو
نظم کا آخری مضمون ’’ دنیائے اسلام‘‘ ہے جو تین بندوں میں ادا ہوا ہے جبکہ دوسرے مضامین میں دو بند سے زیادہ نہیں۔ پہلے بند میں ملت اسلامیہ کے زوال و انتشار کی تصویر ہے دوسرے میں اس کی نظریاتی آفاقیت اور عالمی اخوت کا بیان ہے، تیسرے میں ملت کے بہتر مستقبل کا پیام امیدوار استبداد باطل کے فنا یا مغؒوب ہونے کی پیش گوئی ہے، دوسرے اور تیسرے بندوں کے علی الترتیب حسب ذیل اشعار آخری مضمون نظم کی نوعیت پر فکر انگیز روشنی ڈالتے ہیں:
ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر
٭٭٭
عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے
اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ
اب ’’ مشرق کی نجات‘‘ اور’’ عام حریت‘‘ کے تناظر میں دوسرے بند کے ان اشعار پر غور کیجئے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر
جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا
ترک خرگا ہی ہو یا اعرابی والا گہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہگذر
تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
یہ ایک بین الاقوامی برادری کے قیام کا منشور ہے۔ اس میں ایک آفاقی نظریے کی بنیاد پر ایک عالمی اخوت کا بیان ہے، جو نسل، علاقہ، رنگ، زبان، فرقہ اور طبقہ وغیرہ کی تفرقہ انگیز حدود سے بالا ہے۔ خلافت کی اصطلاح ایک ایسی انسانی اخوت کی علامت ہے جو تمام تعصبات و امتیازات کو ختم کرنے والی ہے، یہاں تک کہ ایک مخصوص عقیدے کی تعین کے باوجود اول تو اس عقیدے کی حامل ملت کے اتحاد و تنظیم کو پورے مشرق کی نجات قرار دیا گیا، دوسرے اس نجات کو بڑھا کر ’’ عام حریت‘‘ تک وسیع کر دیا گیا، جو آفاقیت کا آخری معیار ہے۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ دنیائے اسلام کی یہ پہنائیاں، صحرا نوردی، زندگی، سلطنت اور سرمایہ و محنت کے بنیادی کائناتی، عصری اور بین الاقوامی مضامین کے ساتھ ساتھ اور ان سے بالکل ہم آہنگ ہیں، نظم کے تخیل کا ارتقا اسی ہم آہنگی پر مبنی ہے۔ شاعر نے ملت اسلامیہ اور دنیائے اسلام کو ایک طرف مشرق کی تحریک آزادی اور دوسری طرف محنت کش عوام کے لیے سماجی انصاف کی عالمی تحریک کے ساتھ ملا دیا ہے اور اس انسانی اتحاد سے انہوں نے اسلام کے تحت عام حریت کا نتیجہ نکالا ہے تصور کی یہ وسعت اقبال کے ملی موضوع کو ایک آفاقی موضوع بالکل فطری طور پر بنا دیتی ہے۔ اس تصور کے پیش نظر اقبال کا تصور دین مذہبی فرقہ واریت کی بجائے ایک نظریاتی عقیدے کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اس کا مطمح نظر ایک عالمی برادری کا قیام قرار پاتا ہے مذکورہ ذیل شعر دین کا استعمال اسی مفہوم میں کرتا ہے:
پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دیں میں ہو
ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر
سیاست کو چھوڑ کر حصار دیں میں داخل ہونے کی بات فرقہ وارانہ نظر سے کہی ہی نہیں جا سکتی، اس لیے کہ فرقہ واریت میں صرف سیاست ہوتی ہے، دین نہیں ہوتا، اور یہاں دین کے لیے سیاست چھوڑنے کی تلقین کی جا رہی ہے جس کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ فرقہ پرستی کی عارضی سیاست کی بجائے کسی نظام حیات کی مستقل قدروں کے تحفظ اور فروغ کی مہم درپیش ہے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ اس مہم کی انجام دہی کے نتیجے میں ملک و دولت اپنے آپ حاصل ہو جائیں، لیکن مقصود صرف اپنے نظریہ و نظام کی مرکزیت حرم کا تحفظ ہے، ظاہر ہے کہ یہ ایک اصولی موقف ہے جو اسلام کے تصور توحید کے وقار و معیار کے عین مطابق ہے۔
خلافت کا لفظ اردو میں ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے اور ہندوستان کی تحریک آزادی کے سب سے بڑے سنگ میل کا نقش ہے۔ اقبال کے بقول ’’ خلافت کی بقا دنیا میں استوار کرنے ہی کے لیے پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر ہندوستانی مسلمان برطانوی سامراج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اس لیے کہ وہ ہندوستان کو غلام رکھنے کے ساتھ ساتھ خلافت اسلامیہ کے مرکز، ترکی کو بھی غلام بنا کر خلافت اور اس طرح ملت اسلامیہ کی عالمی مرکزیت ختم کر دینا چاہتا تھا۔ لیکن مسلمانوں کی برپا کی ہوئی تحریک خلافت اتنی آفاقی تھی کہ عالم اسلام کے ساتھ ساتھ پورا ہندوستان بھی بلا امتیاز فرقہ و ملت اس میں شامل ہو گیا اور ملی جدوجہد قومی و ملکی جدوجہد بھی بن گئی۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے ملی موضوع کی وسعتیں کتنی آفاقی و انقلابی ہیں در حقیقت یہ مضوع عصر حاضر میں انسانی معاشرے کی تشکیل جدید کا ہے۔ اس تشکیل کے اشارات دنیائے اسلام کے پہلے بند کی ٹیپ سے نمایاں ہونے کے علاوہ آخری بند کے چند اشعار سے بھی ہویدا ہیں‘‘
گفت رومی ہر بنائے کہنہ کا باداں کنند
می ندانی اول آں بنیاد را ویراں کنند
٭٭٭
اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود
مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہان پیر دیکھ
کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
بہ نظر غور دیکھا جائے تو نظم کا ارتقا جس تخیل کی بنیاد پر ہوا ہے اس کے منطقی نتیجے کے طور پر آخری مضمون ’’ دنیائے اسلام ملی تصویروں سے شروع ہوتا ہے اور آفاقی تصویروں پر ختم اس طرح ملت و آفاقیت کے عناصر دنیائے اسلام کی ترکیب ہم آمیز ہو کر کرتے ہیں۔ حسب معمول اور دیگر مضامین کی طرح آخری مضمون کی ترسیل بھی متعدد فنی نقوش کے ذریعے ہوئی ہے، لیکن نظم کے اس حصے میں راست انداز بیان کی سادگی غالب ہے، گرچہ یہ سادگی بھی اپنے طرز اظہار کی شوخی و شگفتگی کے سبب کتنی رنگین ہے۔ اس کا اندازہ پہلے بند کے ملی اشارات سے پر اشعار سے ہی کر لیا جا سکتا ہے۔‘‘
کیا سنتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستان
مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز
لے گئے تثلیت کے فرزند میراث خلیل
خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز
ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے ہیں آج مجبور نیاز
لے رہا ہے فروشان فرنگستان سے پارس
وہ مئے سرکش حرارت جس کی ہے مینا گداز
حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
ہو گیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو
مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز
گفت رومی ہر بنائے کہنہ کا باداں کنند
می ندانی اول آں بنیاد را ویراں کنند
تثلیث کے فرزند، میراث خلیل، خشت بنیاد کلیسا، خاک حجاز، کلاہ لالہ رنگ، مے فروشان فرنگستان سے پاس، مے سرکش، مینا گداز، حکمت مغرب جیسے الفاظ و تراکیب محاورات کی طرح بظاہر سادہ معلوم ہوتے ہیں لیکن مخصوص مطالب ان کے ذریعے جس تازگی و رعنائی کے ساتھ ادا ہوئے ہیں وہ ان کی خیال آفریں دلکشی کا باعث ہے۔ ایک شعر کا تجزیہ کر کے دیکھئے:
ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے ہیں آج مجبور نیاز
یہاں ان ترکوں کی ذلت کا بیان ہے جو اپنی شان و شوکت کے لیے دنیا میں مشہور ہیں، یہ بات دوسرے مصرعے میں ناز و نیاز کے تقابل سے واضح کی گئی ہے اور یہ الفاظ سیاست کے نہیں، محبت کے ہیں۔ جبکہ پہلے مصرعے میں سرخ رنگ کی ترکی ٹوپی کو، کلاہ لالہ رنگ کہا گیا ہے اور لالہ ایک پھول کا نام ہے، پھر کلاہ، عزت و وقار کی علامت ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ شاعر معمولی الفاظ و تراکیب کو بھی اپنے طرق استعمال سے دل کش اور خیال آفریں بنا دیتا ہے۔ بلا شبہ بند میں اس قسم کے شعر کے ساتھ ایسا شعر بھی ہے:
ہو گیا مانند آپ ارزاں مسلمان کا لہو
مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز
بیان کی صفائی اور بندش کی چستی کے علاوہ ایسے سادہ شعر میں بھی ایک تیکھا پن ہے جو دوسرے مصرعے کے طنزیہ تیور سے آشکار ہے۔ بہرحال شاعری لفظ و بیان ہی کا فن ہے اور علامت و استعارہ صرف تزئین عبارت کے لیے ہیں، جبکہ عبارت حسن ادا سے بھی پیدا ہوتا ہے اور یہ لہجے کا حسن ہے، جو اقبال کے اسلوب سخن کی بنیادی و عمومی خصوصیت ہے اور ان کے ہر بیان میں یہ رعنائی انداز پائی جاتی ہے طرز اظہار کی طرفگی، جدت اور جودت کلام اقبال میں استعارہ و علامت کے بغیر بھی موجود ہوتی ہیں۔ یہ دراصل اقبال کے جمالیاتی احساسات کے سبب ہے، جن کا رنگ فطری و لازمی طور پر ان کے آہنگ بیان میں برابر نمایاں رہتا ہے۔
نظم کے آخری بند کے اشارات اس کے موضوع اور اسلوب دونوں کی شعریت کو نمایاں کرتے ہیں:
عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی
اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ
تو نے دیکھا سطوت رفتار دریا کا عروج
موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ
عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے
اے مسلمان آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ
اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود
مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہان پیر دیکھ
کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس
سامنے تقدیر کے رسوائی تدبیر دیکھ
مسلم آستی سینہ را از آرزو آباد دار
ہر زماں پیش نظر لایخلف المیعاد دار
خواب خضر ہونے کے باوجود یہ صریحاً خطاب اقبال ہے۔ یہ وہی تکنیک ہے جس کے نمونے ہم ’’ تصویر درد‘‘ اور’’ شمع اور شاعر‘‘ میں دیکھ چکے ہیں کہنا چاہئے کہ شاعر خضر سے اپنے سوالوں کا جواب پا لینے کے بعد اب آخر میں اپنا بیان دے کر خضرو شاعر کے مکالمے سے نکلنے والے نتائج پیش کر رہا ہے، تاکہ تمثیل محض ایک تماشا بن کر نہ رہ جائے بلکہ جو نکات سوال و جواب میں اٹھائے گئے ہیں ان کی بنیاد پر ایک آگاہی، ایک خبرداری کے اثرات پیدا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر اپنے مکالمے کو عشق کی فریاد کہتا ہے اور قاری کو دل تھا م کر، اس فریاد کی تاثیر،د یکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ عشق کی فریاد کہہ کر پورے فکری مکالمے کو گہری شعریت کے رنگ میں ڈبو دیا گیا ہے، پھر فریاد کی تاثیر میں قاری کو بھی شریک کر کے گویا ایک نئے مکالمے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو شاعر اور قاری کے درمیان خاموش طریقے پر ہو گا اور اس میں دو بولنے والوں کی بجائے ایک بولنے اور دوسرا سننے والا ہو گا۔ اس کو اصطلاح میں خود کلامی کہتے ہیں اور اسے بھی تمثیلی قرار دیتے ہیں، کلام اقبال میں مکالمہ اور خود کلامی اکثر ایک دوسرے میں گھل مل کر جیسا کہ ہم قبل بھی دیکھ چکے ہیں، تخلیق کے تمثیلی انداز میں بڑی شدت پیدا کر دیتے ہیں۔ اسی انداز میں اقبال کی ایمائیت کا وہ لطیف اظہار ہوتا ہے جو ان کی خطابت کو ایک شاعرانہ نزاکت کے احساس سے معمور کر دیتا ہے چنانچہ دوسرے شعر میں گویا فریاد کی تاثیر کا ایک نقشہ یہ نظر آتا ہے کہ سطوت رفتار دریا کے عروج کے بعد موج مضطر زنجیر بننے لگی ہے یہ اشارہ ہے برطانوی شہنشاہیت اور مغربی استعمار کے تیز رفتار عروج کے بعد اتنے ہی تیز زوال کی طرف، جیسے دریا کی لہر جب چڑھتی ہے تو تیزی سے دوسرے کنارے کی طرف چلی جاتی ہے۔ مگر فوراً ہی اترتی ہے تو پلٹنے کے وقت گرداب در گرداب ہو کر اپنے ساحل کی طرف رخ کرتی ہے، جہاں سے اٹھتی تھی۔ انگلستان کی جغرافیائی ہیئت، جزیرہ کو دیکھتے ہوئے یہ کنایہ بہت دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ اس میں موج مضطر کا اپنی ہی تیزی میں زنجیر بن جانا حقیقت معاملہ کے لیے ایک خوبصورت اور خیال انگیز استعارہ ہے۔ اس کے بعد ’’ عام حریت‘‘ کے خواب کو اسلام سے منسوب کر کے مسلمان کو آج اس کی تعبیر دیکھنے کی تلقین سے ایمانی انداز میں یہ بتانا مقصود ہے کہ دنیا میں حریت فکر پھیلانے کا دعویٰ تو برطانوی و مغربی دانشوروں نے کیا تھا، مگر وہ ایک محدود حریت تھی، صرف اہل مغرب کے لیے اور اہل مشرق کی قیمت پر انہیں غلام بنا کر اس کے برخلاف مغربی استعمار کی شکست کے بعد جس کے آثار نمایاں ہیں، جب ملت اسلامیہ کی متوقع نشاۃ ثانیہ ہو گی تو صحیح اور پورے معنوں میں دنیائے انسانیت ایک ’’ عام حریت‘‘ سے لطف اندوز ہو گی اور یہ عمل مشرق و مغرب میں بندۂ مزدور کے دور آغاز سے شروع بھی ہو چکا ہے اس لیے کہ سرمایہ کے مقابلے میں محنت کی بڑھتی ہوئی فتح مندی عام حریت یا حریت عوام کی ایک نمایاں شکل ہے۔ لہٰذا یہ پرانی دنیا جس میں عام انسان اور ان کے ساتھ مسلمان بھی مغربی استعمار کے جبر و استبداد کے ہاتھوں دبے کچلے ہوئے تھے ختم ہونے والی ہے اور ایک نئی دنیا پیدا ہونے والی ہے جس میں اسلام کے تحت مشرق اور عام انسانیت کا احیاء ہو گا جس کی مثال ’’ سمندر‘‘ کی ہے جو جلتی ہوئی آگ کے اندر مر مر کر دوبارہ زندہ ہوتا رہتا ہے، گویا اس کی خاکستر ہی اس کے لیے سامان وجود ہو۔ یہ پیش گوئی اگر مغرب کے غلبے کے سبب قاری کی سمجھ میں آسانی سے نہ آ رہی ہو تو شاعر اسے خبردار کرتا ہے کہ وہ ذرا اپنے دل و دماغ کی آنکھیں بھی کھول کر شاعر کے آئینہ گفتار میں آنے والے دور کی دھندلی سی سہی اک تصویر تو دیکھ لے۔ اس لیے کہ قاری اور عام لوگ صرف عیار مغربی سیاست کی تدبیر سے مرعوب ہیں، جبکہ شاعر تقدیر کے اشاروں کو اپنی خدا داد بصیرت اور مومنانہ فراست سے دیکھ اور سمجھ رہا ہے۔ یوں بھی چرخ گرداں کبھی ایک حال پر نہیں رہتا اور گردش ایام ایک کے بعد دوسری قوم، ملت اور ملک کو ابھرنے کا موقع دیتی ہے، اس لیے کہ سنت الٰہی کسی ظالم و جابر کو عالم انسانیت پر برابر مسلط رہنے کی اجازت نہیں دیتی اور اس کی بد اعمالیوں کے نتیجے میں بالآخر اسے فتنوں میں ڈال کر تباہ کر دیتی ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان کو اللہ کی مشیت سے امید رکھنی چاہیے کہ حالات بدلیں گے اور مومنوں کے لیے اللہ کا وعدہ پورا ہو گا۔ مسلمان دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے ایک خیر امت بنائے گئے ہیں۔ انہیں اپنا یہ انسانی کردار تاریخ کے ہر دور میں دکھانے کی آرزو رکھنی اور فروغ انسانیت کے لیے اسلامی نصب العین کے خواب کی تعبیر و تکمیل کی کوشش گزشتہ ادوار کی طرح دور حاضر میں بھی کرنی چاہیے۔
اس طرح حال میں اظہار خیال کرتے ہوئے ایک طرف ماضی کو آواز دی گئی ’’ عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے ‘‘ اور دوسری طرف مستقبل کے اشارے کئے گئے ’’ آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ‘‘ اس طریقے سے بیک وقت کئی سطحوں پر گفتگو کرنا اقبال کی فنی ترکیب کی ایک اہم خصوصیت ہے وہ اپنے موضوع کی تمام جہتوں اور تہوں کا احاطہ کرتے ہیں، اور بڑی پیوستگی و ہم آہنگی کے ساتھ کرتے ہیں۔ خواب حریت کا جو تعلق انہوں نے اسلام کے ساتھ دکھایا ہے اس کا سرسری تجزیہ بھی یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک صدیوں کا تسلسل ہے جو گزشتہ سے آئندہ تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں موجودہ بھی شامل ہے اگر صرف شریعت محمدؐ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیائے انسانیت میں تصور توحید کی بنیاد پر عام اور مکمل حریت فکر و عمل کا جو نصب العین اسلام نے ساتویں صدی عیسوی میں پیش کیا تھا اس کی تعمیل ملت اسلامیہ کم سے کم سترہویں صدی تک مسلسل کرتی رہی۔ اس کے بعد دوسری ملتوں نے اس نصب العین کو اختیار کرنے کا دعویٰ کیا، مگر انہوں نے اس میں تحریف و تحدید کی اور بڑی ہی ناقص شکل میں اسے دنیا کے سامنے رکھا، جس کے سبب انسانیت آزاد و غلام اقوام کے درمیان تقسیم ہو گئی، پھر ہر قوم میں طبقاتی تفرقے پیدا ہو گئے۔ چنانچہ اب کہ ایک بار پھر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے آثار ہویدا ہیں۔ یقین ہے کہ اسلام کے خواب حریت کی صحیح و مکمل تعبیر نکلے گی۔ حال کے تناظر میں ماضی و مستقبل کی یہ پوری تصویر صرف ایک شعر کے اشارات سے مرتب ہو جاتی ہے۔ فن کی یہ ثروت مندی فنکار کے ذہن کی زرخیزی کا پتہ دیتی ہے۔
(خضر کا مکالمہ تمثیلی ہے، خواہ آواز شاعری کی در حقیقت ہو، مگر اس کی خضر کی طرف نسبت اس کے سادہ و پر وقار اسلوب بیان کا تعین کر دیتی ہے۔ اس لیے کہ خضر جیسا جہاں دیدہ بزرگ ایک فکری مکالمے میں رنگینی و رومانیت کی بجائے سادگی و متانت ہی اختیار کرے گا، اس فطری وقار کے باوجود بیان میں شاعرانہ طرفگی و تازگی ہے جو خضر کی اساطیری شخصیت کے عین مطابق ہے)
طلوع اسلام
’’ طلوع اسلام‘‘ اس ثروت مندی و زرخیزی کا ’’ بانگ درا کی حد تک‘‘ سب سے بڑا نشان ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’’ خضر راہ‘‘ نے اقبال کے فنی ا رتقا کو جس مرحلے پر چھوڑا ہے طلوع اسلام ٹھیک وہیں سے شروع ہوتی ہے خضر راہ کے آخری حصے دنیائے اسلام کو اسلام کی تمہید قرار دینا بالکل صحیح ہو گا۔ یوں تو خضر راہ کے مضامین و بیانات کی جھلک بال جبریل کی مسجد قرطبہ اور ساقی نامہ اور ضرب کلیم کی ’’ شاع امید‘‘ میں بھی پائی جاتی ہے لیکن طلوع اسلام گویا خضر راہ کی توسیع اور اس میں ایک اضافہ ہے۔
نو بندوں کا یہ ترکیب بند ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے ولولہ انگیز خیر مقدم سے شروع ہوتا ہے اور ابتدا ہی میں واضح کر دیا گیا ہے کہ شاعر ملت اور مشرق کو ایک دوسرے کا مترادف تصور کرتا ہے:
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک یابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی
عروق مردہ مشرق میں خون زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکہانی ’’ذہن ہندی‘‘ نطق اعرابی
اثر کچھ خواب کا غنچوں میں ہے تو اے بلبل
نوارا تلخ ترمی زن چوں ذوق نغمہ کمیابی
تڑپ صحن چمن میں، آشیاں میں، شاخساروں میں
جدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیر سیمابی
وہ چشم پاک ہیں کیوں زینت برگستواں دیکھیے
نظر آتی ہے جس کو مرد غازی کی جگر تابی
ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے
چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے
’’ عروق مردہ‘‘ مشرق میں خون زندگی دوڑا خضر راہ کے بیان ربط و ضبط ملت بیضا ہے۔ مشرف کی نجات کی صرف تکرار نہیں اس میں ایک ترقی ہے یہاں ملت اور مشرق کو مدو مستقل تصورات کی حیثیت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش سے ایک قدم آگے بڑھ کر دونوں کو ایک ہی مرکب وجود کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ طلوع اسلام کو جس کا ذکر پہلے شعر میں طلوع آفتاب اور صبح روشن کے استعارے میں کہا گیا ہے دوسرے شعر میں عروق مردہ مشرق میں خون زندگی دوڑا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں خضر راہ کے محولہ بالا شعر کا دوسرا مصرع تھا ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر وہاں طلوع اسلام کے متذکرہ شعر کا دوسرا مصرع ہے سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی یعنی اب مشرق کا معاملہ بیرونی طور پر صرف ایشیا والوں کا نہیں ہے پوری ملت اسلامیہ کا اپنا اندرونی معاملہ ہے اور یہ فیض اسلام سے پیدا ہونے والے عشق کا معاملہ ہے جسے سینا و فارابی جیسے مسلم فلسفی نہیں سمجھ سکتے، رومی و سنائی جیسے مسلم صوفی سمجھ سکتے ہیں اس لیے کہ زوال کے آثار سے عروج کا پہلو نکالنا دنیوی منطق کی دین نہیں، عینی عشق کا فیض ہے۔ مشرق و ملت کے اس اوغام کے بعد تیسرے شعر کا یہ بیان کہ مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے بالکل موزوں ہے اسی لیے چوتھا شعر مرد مومن کے گردار و شخصیت کے اجزائے ترکیبی کی تعیین میں پورے مشرق کا احاطہ کرتا ہے شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی، اس کے بعد بیداری و حرکت اور جدوجہد کا پیام سب کے لیے عام ہے۔ چنانچہ جو شاعر خضر راہ کی ابتدا میں شہید جستجو تھا اب وہی دانائے راز بن کر چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ یہ شاعر کے ذہن کا ارتقا ہے کہ اب اسے نہ تو شمع سے سبق لینے کی ضرورت ہے نہ خضر کے حلقہ درس میں بیٹھنے کی حاجت، بلکہ وہ خود معلم بن چکا ہے اور ملت و مشرق کے مرکز سے انسانیت کو ’’ علم و محبت‘‘ کا پیام دے رہا ہے۔
بند کے اشعار استعارات و علامات سے مملو ہیں ستاروں کی تنک یابی عروق مردہ سیناد فارابی، طوفان مغرب، طلاطم ہائے دریا، گوہر کی میرابی، شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی، خواب، غنچہ، بلبل، صحن چمن، آشیاں، شاخسانہ، تقدیر سیمابی، ضمیر لالہ، چراغ آرزو اور شہید جستجو کے معنی آفریں پیکر مل کر طلوع و فروغ تجسس تمنا سعی اور سرگرمی کی حیات آفریں فضا تخلیق کرتے ہیں۔ یہ ایک آفاق گیر نشاۃ ثانیہ کی نہایت حسین و پر خیال تمہید ہے۔
دوسرا بند پہلے بند کے اشارات کی تعیین و تشریح کر کے موضوع نظم۔۔۔۔ طلوع اسلام۔۔۔ کی تصریح و تفصیل کرتا ہے۔ اس کے نکات کا تجسس کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مسلمانوں کی آہ و زاری کا اثر ہونے لگا ہے اور دین ابراہیمی یا شریعت محمدیؐ کا ایک بار پھر بول بالا ہونے والا ہے۔ چنانچہ کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہو رہی ہے اور شجر ملت میں پھول پھل آ رہے ہیں۔ ایک تری شیرازی نے اعداء اسلام سے جنگ میں فتح حاصل کر کے عالم اسلام کا دل جیت لیا ہے اور ملت کی آنکھوں کا تارا بن گیا ہے۔ اس معرکے میں اگر عثمانی ترکوں پر کوہ غم بھی ٹوٹ پڑا ہے تو غم نہیں اس لیے کہ جب ہزاروں ستارے بجھ جاتے ہیں تب ہی صبح کا سورج نکلتا ہے بے سر و سامانی کے باوجود اتنے زبردست معرکے میں ترکوں کی کامیابی کا راز ان کی جہاں بینی ہے جو جہاں بانی سے زیادہ اہم ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سال ہا سال کی بے نوری پر ماتم کے بعد چمن ملت میں ایک دیدہ ور گل نرگس کھلا ہے۔ لہٰذا عندلیب ملت کو اس ولولہ انگیز طور پر نوا پیراہونا چاہیے کہ جو لوگ کبوتر کی طرح کمزور اور لقمہ تر بنے ہوئے ہیں ان کے اندر شاہین کا جگر، پیدا ہوجائے۔ چنانچہ جس شاعر نے گزشتہ بند میں چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کرنے کا عزم کیاتھا اب وہ اس پر کاربند ہوا ور اپنا فرض ادا کرے:
ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے
یہ خیالات نیساں، خلیل اللہ کا دریا، گہر، کتاب ملت بیضا، شیرازہ بندی، شاخ ہاشمی، برگ و پر، صبا، بوئے گل، خون صد ہزار انجم، سحر، نرگس، دیدہ ور، بلبل، کبوتر، شاہین کی معنی خیز تصویروں کے ذریعے ادا کئے گئے ہیں یہ اسلوب سخن تاریخ کو تلمیح و تمثیل بناتا ہے نیساں دریا، کتاب اور شاخ کے پیکروں کے علاوہ جہاد کو ایک ادائے محبوبی بنا دیا گیا ہے اتربود آں ترک شیرازی دل تبریز وکابل را طلوع اسلام کے لیے طلوع سحر کی قدرتی تمثال کا فلسفیانہ ذکر کرنے کے بعد تدبیر جیسی سیاسی اصطلاح کو اول تو جہاں بینی بمقابلہ جہاں بانی کے لطیف طرز تعبیر سے پر لطف بنایا گیا۔ پھر اس کو چشم دل میں نظر پیدا ہونے اور اس کے لئے جگر پر خوں ہونے کا مترادف قرار دے کر محبت یعنی عشق مقصد کی گہرائی اور دلکشی عطا کی گئی اور اس سلسلے میں دیدہ ور گل نرگس کی ایک داستان بھی تصنیف کر دی گئی۔ کبوتر اور شاہین کا تقابل نزاکت و صلابت کے تضاد کے لیے اپنی جگہ بہت واضح ہونے کے ساتھ ساتھ موزوں بھی ہے اور بلبل کی نوا پیرائی سے اس تضاد کی قلب ماہیت یقینا ایک دلچسپ اور پر خیال استعارہ ہے اس فضا میں راز اور سوز و ساز کے الفاظ زندگی جیسے عام لفظ کو بھی ایک خاص مفہوم عطا کر کے اس میں تجسس کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔
ٹیپ کے شعر کے حسب اشارہ تیسرا بند مسلمان سے خطاب کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور مرد مون کی اصلیت و حقیقت پر روشنی ڈالی جاتی ہے، جس میں فلسفیانہ افکار شاعرانہ انداز سے پیش کئے جاتے ہیں۔ پہلا شعر صرف ایک ولولہ خیز بیان اور تلقین ہے جس میں مومن کو خدا کا دست قدرت اور زبان قرار دے کر ایمان و یقین کی مضبوطی اور سرگرمی پیدا کرنے کے لیے ابھارا گیا ہے، تاکہ وہ عالم وجود میں اپنا مجوزہ کردار ادا کرے، دوسرے شعر سے اس کردار کی صورت گری نہایت دلکش تصویروں کے ذریعے شروع ہو جاتی ہے۔ مسلماں کی منزل چرخ نیلی فام سے اتنی آگے واقع ہوئی ہے کمر ستارے بھی اس کے کارواں کی گرد راہ ہیں مکان و مکیں سب فانی و آنی ہیں۔ مگر مرد مومن کا وجود ازل سے ابد تک محیط ہے، اس لیے کہ وہ زمانے میں خدا کا آخری پیغام جاوداں ہے۔ اس کا خون جگر کائنات کی لالہ گوں عروس کا حنا بند ہے، وہ معمار جہاں ہے اس لیے کہ دنیا کے معمار اول حضرت ابراہیم ؑ سے اس کی نسبت ہے، مومن کی فطرت ممکنات زندگانی کی امیں ہے اور جہاں کے جوہر مضمر کا معیار امتحاں وہی ہے، وہی وہ ارمغاں ہے جسے شب معراج ختم الرسولؐ اپنے ساتھ جہان آب و گل سے عالم جاوید میں لے گئے چنانچہ عصر حاضر میں ایشیا کی مجبور و مقہور اقوام کی پاسباں ملت بیضائے اسلام ہی ہے جیسا کہ اس کی تاریخ سے ثابت ہے، لہٰذا مسلماں کو ایک بار پھر صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھنا ہے، تاکہ وہ منصوبہ مشیت کی تکمیل کی خاطر دنیا کی امامت کے لیے آمادہ ہو جائے۔
جن پر شوکت اور خیال آفریں الفاظ و تراکیب کے ذریعے یہ خیالات ظاہر کئے گئے ہیں وہ بجائے خود تخیل نظم کے ارتقا کے لیے بہت موزوں ہیں۔ خدائے لم یزل کا دست قدرت زباں پرے چرخ نیلی فام سے منزل ستارے جس کی گرد راہ و کارواں خدا کا آخری پیغام جاوداں ضابند عروس لالہ خون جگر، نسبت ابراہیمی، معمار جہاں، فطرت امیں ممکنات زندگانی کی، جہاں کے جوہر مضمر کا امتحاں، جہان آب و گل سے عالم جاوید کی خاطر، نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغان جیسے تابندہ پیکر اس طرح جزو عبادت ہو گئے ہیں کہ تصویر و تصور کا فرق مٹ گیا ہے، تصور ہی تصویر بن گیا ہے یا تصویر تصور بن گئی ہے۔ یہ نقوش کلام کو محاورہ زبان بنانے کی شاعرانہ بلاغت ہے۔
چوتھا بند کردار امات کی، جس کا ذکر بند ما قبل کی ٹیپ میں کیا گیا ہے، نقش گری ہے۔۔۔ اخوت کی جہاں گیری، محبت کی فراوانی، مقصود فطرت ہونے کے ساتھ ساتھ رمز مسلمانی بھی ہے، لہٰذا مسلماں کو چاہیے کہ بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جائے اور تورانی و ایرانی و افغانی کے تفرے ختم کر دے، اس کے بازو میں پرواز شاہین قہستانی کی قوت ہے، اس لیے وہ میان شاخساراں صحبت مرغ چمن کب تک اختیار کئے رہے گا؟ واقعہ تو یہ ہے کہ گماں آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ماضی کے قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے مٹا دیا تھا وہ زور حیدرؓ، فقر بوذرؓ اور صدق سلمانیؓ ہی تھا، جبکہ آج بھی دور جدید کے قیصر و کسریٰ سے پنجہ آزمائی کے لیے ترکی کے احرار ملت اتنے تجمل سے جادہ پیما ہوئے کہ صدیوں کے زندانی ایوان مشرق کے شگاف در سے اس کاروان جہاد کے تماشائی بنے دنیا میں ثبات زندگی ایمان محکم سے ہے، اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم نے اس وقت جرمنی کو تباہ کر دیا مگر ترک اپنی جگہ مستحکم رہے، اس لیے کہ انگارہ خاکی میں جب یقیں کا عنصر پیدا ہو جاتا ہے تو اس کے اندر بال و پر روح الامیں کی طاقت آ جاتی ہے۔
فکر انگیز نکات کے ساتھ ساتھ میان شاخاراں، صحبت مرغ چمن، پرواز شاہین قہستانی، بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی، تماشائی شگاف درسے، اور بال و پر روح الامیں کی ولولہ خیز تصویریں بھی گھلی ملی ہوئی ہیں اور نکات کو نغمات بنانے میں مددگار ہیں۔
پانچواں بند اس ذوق یقیں کی تشریح ہے جس کی طرف ماقبل کے بند کی ٹیپ میں اشارہ کیا گیا تھا۔ یہ نظم کے نصف ثانی کی ابتدا ہے اور نصف اول کی انتہا، جو خیالات و احساسات اب تک پیش کئے جا رہے تھے ان کے اظہار کی رفتار اور آواز یہاں بہت تیز اور بلند ہو جاتی ہے اور سلسلہ خیال اپنی پہلی منزل پر ما قبل کے تمام تصورات کو جلو میں لے کر پورے زور و شور اور شان و شوکت کے ساتھ وارد ہوتا ہے۔۔۔۔۔ مشرق جس غلامی میں مبتلا کر دیا گیا ہے اور اس کی زنجیریں نہ تو صرف شمشیروں سے کٹ سکتی ہیں نہ صرف تدبیروں نے جب تک ان کے پیچھے ذوق یقیں کی قوت متحرک نہ ہو جو اگر میسر آ جائے تو مرد مومن کا زور بازو اتنا بڑھ جائے گا کہ صرف اس کی نگاہوں سے تقدیریں بدلتی نظر آئیں گی، اس لیے کہ اقتدار حکومت ہو یا فتوحات علم، یہ سب ایک نقطہ ایمان کی تفسیریں ہیں، لیکن ا یمان خالص کا حصول آسان نہیں، اس لیے کہ حضرت ابراہیم ؑ جیسی نگاہ بت شکن درکار ہے، ورنہ ہوس دلوں کے اندر کتنے ہی بتوں کی تصویریں بنا لیتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا بت جو دور حاضر نے بنایا ہے بندہ و آقا کی تمیز ہے اور یہ فساد آدمیت ہے اگر اس سے حذر نہ کیا گیا تو خدا کا قائم کیا ہوا قانون فطرت اس فساد کے ذمے داروں کے لیے بڑی سخت تعزیریں تجویز کرتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ کائنات میں ایک وحدت کا تصور کام کر رہا ہے، خاکی و نوری تمام مظاہر ایک ہی حقیقت کے پرتو ہیں، ذرے کو بھی چیر کر دیکھا جائے تو اس میں خورشید عالم تاب کی شعائیں جگمگاتی نظر آئیں گی۔ لہٰذا جہاد زندگی میں مردوں کی شمشیریں ہیں: یقین، محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم۔
’’ براہیمی نظر‘‘ کا پیکر عصر حاضر کی یونانی صنم گری پر ایک دلچسپ اور فکر انگیز تبصرہ ہے۔ ذرے کے دل میں لہو خورشید کا ایٹم کے متعلق جدید سائنس کی تحقئقات و ترقیات کو اسلامی تصور توحید کے ساتھ ہم آمیز کرنے کا دلکش اور حقیقت افروز استعارہ و اشارہ ہے تمیز بندہ و آقا کے خلاف فطرت کی تعزیریں کی تنبیہہ بظاہر اہل مشرق کے لیے ہے مگر بہ باطن اس کے اصل مخاطب عصر حاضر میں اہل مغرب ہیں، اس لیے کہ تاریخ میں ان کا سب سے بڑا جرم یہی تمیز و تفریق انسانیت ہے جسے انہوں نے فلسفوں اور اسلحوں کے ذریعے پوری دنیائے جدید پر مسلط کر دیا ہے، یہ ایک سے دوسرے پہلو کی طرف انتقال ذہنی کا لطیف ایمائی انداز ہے جو کلام اقبال کا امتیازی نشان ہے۔
ٹیپ کا فارسی شعر انسان کا عام نصب العین اور کردار پیش کرتا ہے جس شخص کو طبع بلند، مشرب ناب (دین خالص) دل گرم، نگاہ پاک بیں اور جان بیتاب میسر آ جائے اسے فکر و عمل کی ساری دولت مل جائے گی، وہ ایک مثالی انسان ہو گا، اسے ہی دنیا کی امامت کا حق ہو گا اور اسی کے زیر قیادت عصر حاضر میں انسانیت کی نشاۃ ثانیہ کا جہاد فتح یاب ہو گا۔ یہ بند کے تصورات کا خلاصہ اور نظم کے اب تک کے بیانات کا ماحصل ہے۔
اس کے بعد نظم کے نصف ثانی اور سلسلہ خیال کی دوسری لہر جس کی ابتدا پچھلے بند میں اس کے ماقبل کی انتہا کے ساتھ کی گئی تھی، چھٹے بند میں بالکل نمایاں ہو کر قاری کے سامنے اس خوبصورت انداز میں آتی ہے کہ دور جدید کی سائنسی ایجادات اور اس کے صنعتی آلات کو ایک طرف شاعرانہ استعارات میں ڈھال دیا گیا ہے اور دوسری طرف انسان کے ایمان و عمل اور ذہن و کردار کی طاقت کے مقابلے میں ان آلات کی کمتری اور ناکامی کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے۔ شاعری کا یہ عظیم نمونہ اپنی اصلی شکل میں لائق مطالعہ ہے:
عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے
ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو، بن کر گہر نکلے
غبار رہگذر ہیں، کیمیا پر ناز تھا جن کو
جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو اکسیر گر نکلے
ہمارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا
خبر دیتی تھی جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے
حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے
جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے
زمیں سے نوریان آسماں پرواز کہتے تھے
یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
٭٭٭
یقیں افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے
شروع سے آخر تک تصویر ہی تصویر، استعارہ ہی استعارہ، علامت ہی علامت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آہنگ کی نغمہ آفریں رنگا رنگی ’’ عقابی شان‘‘ جرمنی کا قومی نشان ہے، جرمنوں کا جھپٹنا اور بے بال و پر نکلنا جنگ میں ان کی برق رفتار پیش قدمی اور ویسی ہی تیز پسپائی کا اشارہ ہے۔ شام کے ستاروں کا خون شفق میں ڈوب کر نکلنا جنگ عظیم اول کی زبردست ہلاکت آفرینی اور خونریزی کا اشارہ ہے۔ غروب سے مغرب کا کنایہ بھی لیاجا سکتا ہے، اور ستارہ شام کے ڈوبنے سے خوں آشام مغرب کے خوں آلود زوال کا اشارہ بھی مل سکتا ہے، اس لیے کہ جرمنی کی تباہی کے ساتھ ساتھ فتح مند اتحادی بھی جنگ کے بوجھ تلے دب کر پس گئے تھے اور مجموعی طور پر پورے یورپ میں انتشار پیدا ہو گیا تھا، جس کے نتیجے میں مغربی سماج اتنا کھوکھلا ہو گیا تھا کہ دنیا کی قیادت کے لائق نہ رہ گیا تھا۔ اس کی ساری اندرونی کمزوریاں ابھر کر سامنے آ گئی تھیں اور صاف نظر آنے لگا تھا کہ پورے مشرق پر اس کا سامراجی تسلط عنقریب ختم ہو جائے گا۔ جرمن آبدوزوں کی غرقابی اور ترکوں کی بے سر و سامانی کے باوجود فتح مندی کا موازنہ اس علامتی انداز میں کیا گیا ہے کہ زیر دریا تیرنے والے تو مدفون دریا ہو گئے جبکہ موج حوادث کے طمانچے کھانے والے گہر بن کر نکلے جرمنی اور ترکی دونوں کا مقابلہ یورپ کی دوسری اقوام سے ہوا جرمنی اپنے تمام جدید ترین اسلحوں اور صنعتی سامان جنگ کے باوجود تباہ ہو گیا، لیکن ترکی قدیم فرسودہ آلات سے کام لے کر اور گویا بے سر و سامانی کے عالم میں بھی محفوظ رہ گیا۔ا سی طرح جس جرمنی کو صدی کے اوائل میں اپنی سائنس ترقی اور علم کیمیا کی مہارت پر فخر و ناز تھا وہ جنگ کے نتیجے میں غبار رہ گزر بن گیا اور ترکی جہاں کے مسلمان اپنی بے نوائی اور بے بضاعتی کے عالم میں اپنی جبینیں خاک پر رکھ کر صرف آستانہ خداوندی پر سجدہ ریز اور اپنی جرأت ایمانی کے بل پر سر گرم ستیز تھے اکسیر گر ثابت ہوا، گویا اسے کیمیا میں مہارت نہ ہونے کے باوجود کہیں سے شکست کی فتح اور کمزوری کو طاقت میں بدل ڈالنے کا نسخہ کیمیا مل گیا ہو۔ یہ بہترین علامتی طریق تعبیر ہے جس کی ایمائیت چند در چند اشارات سے مملو ہے اور اس کے ساتھ ہی ما قبل کے شعر کی طرح محاورے کی مانند واضح اور سلیس ہے۔ یہی دبازت و نفاست بعد کے شعر کے اس استعارے میں ہے کہ جس ترقی یافتہ قوم یا اقوام کو ان کے برقی تار تازہ بہ تازہ پل پل کی خبریں پہنچایا کرتے تھے وہ تو حقائق و حوادث سے گویا بے خبر ثابت ہوئیں اور اچانک حملوں کا نشانہ بن گئیں، مگر جس پس ماندہ قوم کے ذرائع خبر رسانی بالکل سست رفتار اور روائتی انداز کے تھے اس کا قاصد حیات بخش اطلاعات وقت پر دیتا رہا اور بالآخر پیام زندگی لایا۔ یہ ایمائیت پر معنی ہے اس میں جہاں ترکی و جرمنی کا موازنہ ہے وہیں جرمنی کی شکست کے بعد ترکی و اتحادی کا مقابلہ بھی ہے، اس لیے کہ جس طرح جرمنی اتحادیوں کے مقابلے میں بے خبر ثابت ہوا تھا اسی طرح اتحادی ترکی کے مقابلے میں گویا بے خبر نکلے۔ ان سب اشعار میں علامتوں کے لیے جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ جدید تصورات کی ترجمانی اور آلات کی نشاندہی سائنسی و صنعتی اصطلاحات کے ذریعے نہیں کرتے،ا ردو زبان کے محاورات اور مشرقی شاعری کے محاورے کی حد تک عام استعارات کے وسیلے سے کرتے ہیں۔ یہ پختگی ذہن، قدرت فن، جذب خیالات اور قوت بیان کا کمال ہے مغربی ترقیات کو ذہن و فن کی طاقت نے مشرقی نغمات میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ شاعری کی کیمیا ہے جس کا نسخہ اور طریق استعمال عصر حاضر کے پورے عالمی ادب میں سب سے زیادہ اقبال ہی کو معلوم ہے ورنہ خود مغرب کے شاعر اپنے سماج کی صنعتی ایجادات کو اپنے ادب کی شعری روایات میں پوری طرح جذب کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ بہرحال آگے کے دو اشعار میں ایک تو عالم مشرق کی سیاسیات کا علامتی بیان ہے جس میں ترک جوانوں کو معمر شیوخ عرب سے زیادہ مدبر بتایا گیا ہے اور اس نکتہ سیاست کوعطر شاعری میں بسانے کے لیے پیر حرم کی کم نظری کا تقابل جوانان تتاری کی صاحب نظری کے ساتھ کیا گیا ہے۔ دوسرے شعر میں نوریان آسماں پرواز کو زمیں سے ہم کلام کر کے آفاقی انداز سے آدم خاکی کو زندہ تر پائندہ تر تابندہ تر کا خراج عقیدت ادا کر دیا گیا ہے اور یہ گویا ایک بار پھر ملائکہ واجنہ کے مقابلے میں فضیلت آدم کا ازلی اعتراف ہے۔ یہ فضیلت انسان کے باشعور ایمان کی بدولت ہے، لہٰذا بعد کے شعر میں اہل ایمان کے آفاق گیر تاریخی عمل کی ایک نہایت دلآویز اور خیال انگیز تصویر طلوع و غروب کے تسلسل کے استعارے سے مرتب کی گئی ہے۔ پچھلے شعر کے دوسرے مصرعے میں فارسی الفاظ کا ترنم تھا تو زیر نظر شعر کے دوسرے مصرعے میں بھاشا کے سادہ ترین الفاظ کا نغمہ ہے ما قابل کے چند اشعار بھی ایسا ہی ہے جن کے بیشتر دوسرے مصرعے بالکل سادہ الفاظ کے جادو جگاتے ہیں، جبکہ پہلے مصرعوں میں بالعموم تراکیب کا طلسم ہے۔ اس سے اردو زبان کے پورے آہنگ پر اقبال کی بے پناہ قدرت اور ان کے دست ہنر کے فنکارانہ پیچ و خم کا اندازہ ہوتا ہے وہ مفہوم کے لحاظ سے موزوں ترین تمثال و ترنم پیدا کرتے ہیں یقینا اس فنکاری میں فارسی اسماد تراکیب کا جتنا حصہ ہے اتنا بھاشا کے الفاظ و افعال کا نہیں ہے اس کی وجہ ظاہر ہے بھاشا ایک بولی تھی جس کے اندر وہ طاقت نہیں تھی جو فارسی جیسی ترقی یافتہ زبان میں ہے اور ادبی اعتبار سے اگر اردو نے بھاشا کے اندر فارسی کی روح نہیں دوڑا دی ہوتی تو بھاشا کا اپنا کوئی لسانی مستقبل ہی نہ ہوتا۔ لسانیاتی اعتبار سے اس حقیقت کا مشاہدہ کرنے کے لیے اردو شاعری کا مقابلہ ہندوستان کی دیگر ان زبانوں کی شاعری کے ساتھ کرنا مفید ہو گا جن کے خمیر میں فارسی کے اجزاء و عناصر اس طرح داخل نہ ہو سکے جس طرح اردو کے خمیر میں ہوئے۔
ٹیپ کے شعر میں ایمان و یقین کو افراد کے ساتھ ساتھ ملت کی تعمیر و تقدیر کا سرمایہ و صورت گر بھی بتایا گیا ہے، اس لیے کہ پورے بند میں اہل ایماں کے ہی جمال و کمال کا تذکرہ تھا، لہٰذا ایمائی و علامتی بیانات کے بعد ان کا ماحصل صاف صاف آخری شعر میں پیش کر دیا گیا۔
اگلا بند ملت اسلامیہ اور اس کے تمام افراد کو اس منصب و مقام سے جو ان کے لیے پچھلے بندوں میں متعین کر دیا گیا ہے عصر حاضر میں عالمی سطح پر ایک آفاتی تحریک انسانیت چلانے کی تلقین کی جا رہی ہے پہلے شعر میں انسان اور مسلمان کو ایک دوسرے میں ضم کر کے مثالی مرد مومن کو علامتی طور پر کن فکاں کے راز تخلیق کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ تاکہ وہ اپنی حقیقت کا سراغ پا کر خودی اور خدا دونوں کا راز داں اور ترجماں ہو جائے۔ اس حق شناسی سے آج کی دنیا پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہو گا کہ اقتدار دولت، منصب وغیرہ کی ہوس نے بنی نوح انسان کو قوموں ملکوں اور طبقوں میں تقسیم کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے اور دور جدید کے سارے مغربی فلسفے اس تقسیم و تفریق کو دور کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے کہ در حقیقت یہ ہلاکت انگیز تفرقہ پردازی انہی کا فتنہ ہے، لہٰذا اب مسلمانوں ہی کا انسانی فرض ہے کہ اپنے فکر و عمل سے اتحاد انسانیت کے واحد نظرئیے، توحید کا پیام دنیا کو اس طرح دیں کہ اخوت کا بیاں اور محبت کی زباں بن جائیں ورنہ ہندی خراسانی، افغانی اور تورانی کی حد بندیاں موج انسانیت کو محدود اور آسودہ ساحل کرنے والی ہیں، چونکہ خود مسلمان بھی رنگ زمانہ سے متاثر ہو کر رنگ و نسبت کے غبار سے بوجھل ہو چکے ہیں لہٰذا آفاقیت کی پرواز لگانے سے پہلے انہیں اس غبار کو اپنے اوپر سے جھاڑ دینا چاہیے اس تزکیے کے بعد خود شناسی کی گہرائیوں میں ڈوب کر کائنات کے جاوداں اصولوں سے ہم آہنگ ہونے اور اس کے نتیجے میں جاوداں ہونے کا موقع ملے گا۔ ایک خود شناس و خود نگر ہستی ہی حق و ناحق کے درمیان امتیاز اور دونوں کے تعلق سے اپنے عمل میں توازن کا حسن پیدا کر سکتی ہے۔ زندگی کے معرکہ آرا کا راز میں اس ہستی کی سیرت فولاد کی طرح سخت اور آپس کے انسانی تعلقات میں ریشم کی طرح نرم ہو گی، وہ مسائل و مشکلات کے کوہ و بیاباں سے ایک تند سیلاب کی مانند اور اخوت و محبت کے گلستاں میں ایک مترنم نہر کی مانند گزرے گی۔
راز کن فکاں شرمندہ ساحل، غبار آلودہ رنگ و نسب بال و پر، مرغ حرم، حلقہ شام و سحر، مصاف زندگی، سیرت فولاد، شبستان محبت، حریر و پرنیاں، سیل تندرو، کوہ و بیاباں، گلستاں اور جوئے نغمہ خواں کے الفاظ و تراکیب وہ استعارات و علامات ہیں جن کے استعمال سے بڑے محکم خیالات کوسبک اور شیریں انداز میں ظاہر کیا گیا ہے جبکہ خودی کا راز داں خدا کا ترجماں، اور اخوت کا بیاں، محبت کی زباں جیسے راست سیدھے اور صاف بیانات بھی ایک سادہ موسیقی کا آہنگ رکھتے ہیں اور تخیل کا حسن آواز کے حسن میں اضافہ کرتاہے۔
ٹیپ کا شعر بھی ایسا ہی سیدھا سادا ایک بیان ہے، مگر اس کے معانی کا جمال پورے بند کی معنوی جمالیات کا نچوڑ اور ان کا نکھار ہے:
ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی
یقینا اس سادہ شعر میں بھی ساز فطرت اور نوا کا استعارہ موجود ہے لیکن وہ عبادت میں حل ہو گیا ہے۔ اقبال کی قدرت بیان اور نفاست اظہار کا یہ کرشمہ ہم پہلے بھی بار ہا دیکھ چکے ہیں۔ اس شعر کا کلیدی بیان علم و محبت کے متعلق ہے جو طلوع اسلام کے مضمرات و ارشادات کو اضح اور قطعی طور پر وہ عمومی و آفاقی شکل دیتا ہے جو شاعر کا مانی الضمیر ہے۔ مسلماں کو علم و محبت کی انتہائی علامت قرار دینا کوئی فرقہ پرستانہ مبالغہ آرائی نہیں ہے، نہ خطابت کی نعرہ بازی ہے۔ شاعر نے نظم کے سارے نکات و جہات کو سامنے رکھ کر بہت ہی سنجیدگی اور درد مندی کے ساتھ یہ کہنا چاہا ہے کہ اگر مسلمان اسلامی توحید کے پیغام اخوت اور عمل توازن کو اپنی شخصی و ملی سیرت کا جزو بنا لیں اور سچے اور پکے مسلمان بن جائیں تو وہ انسانیت کے شرف و فضل کا وہ معیار قائم کریں گے جو کائنات میں ان کے منصب، خلافت الٰہی کے شایان شان ہے۔ فطرت ایک ساز ہے جس میں بے شمار نوائیں ہیں مگر سب سے شیریں و حسیں نغمہ انسان کا ہی ہے اور مرد مومن یا مرد مسلماں ایک مثالی انسان کا دوسرا نام ہے۔ اسی حیثیت سے اس مثالی انسان کی شخصیت کے دو بنیادی عناصر ترکیبی یہ بتائے گئے کہ وہ بے انتہا علم اور بے انتہا محبت کا حامل ہے۔ یہ دو الفاظ محتاج تشریح نہیں ہیں، صرف ان کا ذکر ان کے وسیع مطالب کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کافی ہے اور شعر میں جس زور دار طریقے سے ان الفاظ کو نمایاں کیا گیا ہے اس سے ان کے معانی پر غور کرنا اور مضمرات کو سمجھنا ضروری ہو جاتا ہے۔
آٹھواں بند مثالی انسان اور مسلمان کے عصر حاضر کی وہ صورت حال پیش کرتا ہے جس میں اسے اپنا کام کرنا اور تاریخی فریضہ ادا کرنا ہے، ساتھ ہی اس فریضے کی کامیاب ادائیگی کے لیے اسے ایک موثر نصیحت کرتا ہے اور آخر میں طلوع اسلام کی نوعیت پر ایک فکر انگیز تبصرہ کرتا ہے:
ابھی تک آدمی صید زبون شہر یاری ہے
قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو
ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
خروش آموز بلبل ہو گرہ غنچے کی وا کر دے
کہ تو اس گلستاں کے واسطے باد بہاری ہے
پھر اٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی
زمیں جولاں گہ اطلس قبایان تتاری ہے
یہ نظم کا سب سے زیادہ سیاسی بند ہے اور شاعری کے لیے سب سے خطرناک بعد کے بے شمار انقلابی اور ترقی پسند کہلانے والے شعرا نے اس بند کی سیاسی شاعری سے متاثر ہو کر لمبی لمبی نظمیں اسی کے رنگ و آہنگ میں کہنے کی کوششیں کی ہیں اور بعض نے تو گویا اپنی پوری ضخیم و حجیم شاعری کو اس بند کے اشعار کے طرز فکر اور طرز کلام پر مبنی کرنے کی سعی کی ہے، لیکن اس بند کے اشعار کا ایک مختصر تنقیدی و فنی تجزیہ یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ اقبال کی سیاسی شاعری بھی شاعری ہے سچی، پکی اور پوری شاعری، جبکہ دوسرے شعراء جو اس معاملے میں ان کی تقلید کرتے ہیں وہ سیاست و شعر کے فنی توازن کو قائم رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، شاید اس لیے کہ ان میں بعض کا مطح نظر نری شاعری ہے یا فقط سیاست، لہٰذا ان کے پاس کوئی ایسا ذہنی معیار نہیں جس پر سیاست و شعر کو ان کی تمام گہرائیوں کے ساتھ باہم ترکیب دیا جا سکے۔ اقبال کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ ان کے پاس ان کے نظریہ حیات اور تصور کائنات کی شکل میں ایک ایسا جامع اور معتدل معیار تھا۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ محض سات اشعار کے اس بند کا ایک ایک مصرع، ایک ایک فقرہ اور ایک ایک لفظ پوری سیاست حاضرہ اور اس کے جدید ترین مضمرات کا نہایت ہی حقیقت افروز نقش پیش کرتا ہے۔ پھر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اقوام غالب کی ساری سیاست کی گرہیں اس طرح کھول کھول کر دکھانے کا مقصد طلوع اسلام کا پس منظر اور عصر حاضر میں اسلامی کردار کا پیش منظر بتانا ہے۔ غور کیجئے کہ روشنی علم و ہنر کے تمام دعوؤں اور ارتقا کے تمام نعروں کے باوجود ابھی تک آدمی صید زبون شہر یاری ہے اور دور ترقی کا یہ المیہ قیامت سے کم المناک نہیں کہ ’’ انسان نوع انساں کا شکاری ہے بند کا یہ پہلا ہی شعر زبردست‘‘ اسی بیاں ہونے کے ساتھ ساتھ طاقتور شاعری کا ایک نمونہ بھی ہے لب و لہجے کے وقار کے علاوہ الفاظ و تراکیب کی شوکت ہے۔ خاص کر صید زبون شہر یاری کی ترکیب توالی اضافات کے باوجود بڑی سبک اور خیال آفریں ہے۔ اس میں چھپا اور گھلا ہوا صید زبوں کا استعارہ بھی ہے اور شہر یاری کی تلمیح یا علامت بھی چنانچہ پہلے مصرعے کی اس بندش کے بعد دوسرا مصرع اسی استعارہ و تلمیح کی تفصیل و توضیح اس انداز سے کرتا ہے کہ ایک ترقی یافتہ زمانے میں بھی انسانیت کے حال زار کی تصویر نگاہوں کے سامنے پھرنے لگتی ہے اور ہم تصور کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ جس طرح عہد قدیم کے بادشاہ جانوروں کا شکار اپنی سیر گاہوں اور شکار گاہوں میں تفریحاً کھیلا کرتے تھے، اسی طرح دور جدید کے صدر اور وزیراعظم اپنی ذاتی تفریح کے لیے انسانوں کا جنہلیں انہوں نے جانوروں سے بھی بدتر سمجھ یا بنا رکھا ہے، شکار کھیل رہے ہیں اور یہی قدیم و جدید سیاسی آمروں کا فرق طبیعت گویا قیامت کی علامت ہے۔ اس شعر میں معانی کی وسعت اور گہرائی کے علاوہ انسانیت کے لیے جو بے پناہ خلوص، ہمدردی اور سوز ہے وہی اسے شعریت کا آہنگ عطا کرتا ہے، ذہن کا خلوص فن کے رسوخ کا باعث ہے۔ اس میں ایک لطیف انتقال ذہنی بھی ہے، پہلے مصرعے میں آدمی صید زبون شہر یاری ہے کے ساتھ ابھی تک سے تاثر ہوتا ہے کہ بادشاہوں کے وقت سے انسانوں کا شکار کھیلا جا رہا ہے لیکن دوسرے مصرعے میں انساں نوع انساں کا شکاری ہے کے ساتھ قیامت ہے کا فجائیہ خاص کر نوع انساں کی تشریح کے ساتھ، اول تو سارا زور دور حاضر کے اصحاب اقتدار کی مردم آزاری پر دیتا نظر آتا ہے، جس کے مقابلے میں دور قدیم کا ظلم و ستم بھی گرد ہوتا دکھائی پڑتا ہے، دوسرے ماضی میں اگر چند آدمیوں یا طبقات کو نشانہ ستم بنایا جاتا تھا تو زمانہ حال میں پوری انسانیت ہی کو تباہ کیا جا رہا ہے۔
چنانچہ بند کا دوسرا شعر تہذیب حاضر کی چمک دمک کو جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری اور محض صناعی قرار دیتا ہے، جس میں صنعتی کے ساتھ مصنوعی کا مفہوم مضمر ہے، یعنی بظاہر اور دعوؤں کی حد تک تو جدید تہذیب بڑی امن پسند، انصاف دوست اور انسانیت نواز ہے مگر در حقیقت اور عمل کے لحاظ سے قدیم تہذیبوں سے بھی کچھ زیادہ ہی جنگ باز ظالم اور انسانیت کش ہے نظر کو خیرہ کرنے والی چمک، صناعی اور جھوٹے رنگوں کی ریزہ کاری کے پیکر تہذیب حاضر کی پوری تصویر اتار کر رکھ دیتے ہیں جس میں اس کے ظاہر و باطن دونوں کے نقوش نمایاں ہو جاتے ہیں، یہ چہرہ وپس چہرہ کی بڑی گہری عکاسی ہے اور جدید تمدن و تہذیب کے پر فریب حسن کا ملمع اتار دیتی ہے، تیسرا شعر خرد مندان مغرب کے فخر و ناز کے سب سے بڑے موضوع حکمت یعنی سائنس کو ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری کے بھیانک روپ میں پیش کرتا ہے جس سے سائنس کے جدید ترین استحصال اور علم کی تذلیل کی شدید احساس ہوتا ہے۔ قبل کی بند کی ٹیپ میں مومن کو علم و محبت کا نمونہ کامل بتایا گیا تھا، جس کا اظہار خاص کر عہد وسطیٰ کے تمدن و تہذیب میں ہوا تھا، جب دنیا میں اسلام کا نظام حیات غالب تھا اور علم انسانیت کی ساری ترقی مسلم علماء و حکماء کے تحت ہو رہی تھی۔ پھر عصر حاضر کی حکمت، جب دنیا میں مغربی طرز حیات کا غلبہ ہے، کیوں ہوس کی آلہ کار بن گئی؟ یہاں غور کرنا چاہیے کہ حکمت یعنی علم کو محبت سے الگ کر دیا گیا ہے، جبکہ اسلام کے سلسلے میں علم و محبت کی ترکیب استعمال کی گئی تھی۔ اس سیاق و سباق میں اسلام کے مجموعہ علم و محبت کے مضمرات بہت زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں۔ محبت یوں تو عشق کے معنی میں بہت ہی وسیع مفہوم کی حامل گویا ایک اصطلاح ہے لیکن سامنے کی بات یہ ہے کہ محبت کا تعلق آدمی کے ضمیر اور اخلاق و کردار سے ہے، جبکہ علم صرف دماغ، تصورات اور نظرئیے کی چیز ہے۔ لہٰذا شعر کا ایک فکر انگیز اشارہ یہ ہے کہ جدید مغربی تمدن میں پرورش پانے والی حکمت محبت سے خالی ہو کر تعمیر کی بجائے تخریب کا سرچشمہ اور الہ بن گئی ہے۔ مغربی ذہن و کردار کے اس نقص کو اگلا شعر تعین کے ساتھ واضح کر دیتا ہے اور تہذیب مغرب کے فساد کی جڑ کھود نکالتا ہے۔یہ شعر بتاتا ہے کہ مغربی سماج میں ایک طرف فسوں کار سیاسی تدبر کی چالیں ہیں اور دوسری طرف تباہ کار سرمایہ داری کی گھاتیں ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغربی سیاست کا مقصود انسانی ذہن و کردار کی تعمیر و ترقی نہیں ہے، صرف معاشی استحصال اور عیاشی ہے۔ اسی لیے مغربی سماج میں سارا زور معیار رہائش پر ہے، نصب العین حیات پر نہیں اور حیات کا جونصب العین وہاں پیش کیا جاتا ہے وہ بھی معیار رہائش ہی پر مبنی اور اسی کے لیے ہے، لیکن شاعر کہتا ہے کہ فکر و نظر کی یہی خرابی مغربی تمدن کی اصلی کمزوری ہے جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہو وہ تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا، اس لیے کہ سرمایہ داری کے مقاصد حرس و ہوس اور طریقے استحصال و استبداد ہیں، جو ظاہری اور وقتی چمک دمک کے باوجود ایک سماج کو گھن کی طرح اندر سے چاٹ جاتے ہیں اور بالآخر اس کے زوال و انتشار کا باعث ہوتے ہیں، بعد کا شعر اس سلسلے میں یہ پتے کی بات بتاتا ہے کہ اصل چیز عمل ہے کردار ہے اخلاق ہے، فقط نظریات، تصورات اور فلسفے نہیں زندگی جنت یا جہنم عمل کے نتیجے میں بنتی ہے لہٰذا عمل کی نوعیت ہی انسان کی اصل فطرت کا راز آشکار کرتی ہے، آدمی کی سرشت نہ نوری ہے، نہ ناری ہے، نہ سراپا خیر نہ شر، وہ اپنے جسم خاکی کی قوتوں سے جیسا کام لے گا قدرت اس کو ویسا ہی انعام دے گی، اس کی فطرت میں خیر و شر دونوں کے مادے اور صلاحیتیں ہیں، اب یہ اس کے شعور و کردار کا امتحاں ہے کہ وہ جنت کی طرف جاتا ہے یا جہنم کی طرف یہاں جنت اور جہنم کے پیکر علامتی طور پر اپنے تمام دنیوی و اخروی معانی میں استعمال کئے گئے ہیں، اس طرح کہ ذہن بیک وقت ایک معنی سے دوسرے کی طرف منتقل ہوتا ہے اور ہوتا رہتا ہے۔
اب تک کا بیان عصر حاضر کے بنیادی مسئلے کی زبردست نقاشی ہے۔ اگلا شعر اس مسئلے کو حل کرنے کی فکر انگیز شاعرانہ دعوت مرد مومن کو دیتا ہے اس لیے کہ حیات کے اس گلستاں کے واسطے باد بہاری وہی ہے۔ چنانچہ اب اس کا کائناتی فریضہ ہے کہ باغ کے بلبل کو نغمے کا پیام دے اور غنچے کی گرہ کھول کر اسے شگفتہ کر دے تاکہ باغ حیات میں عطر بیز ہوائیں چلنے لگیں اور وہ نغموں سے معمور ہو جائے، جو باغ کی خصوصیت ہے، جبکہ عصر حاضر کے مغربی تمدن کے تدبر، سرمایہ داری، حکمت اور نمائشی تہذیب نے چمن زندگی کی بوباس ختم کر دی ہے اور ایک مرگ آسا سناٹا طاری کر دیا ہے، نہ کسی کے دل کی کلی یہاں کھلتی ہے، نہ کوئی روح سرشار ہو کر محو ترنم ہوتی ہے۔ آخری شعر یہ بشارت دیتا ہے کہ اب گلستان حیات کے نغمہ و خوشبو سے آباد ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے، اس لیے کہ تاریخ میں ایک بار پھر ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی اٹھی ہے اور اس چنگاری سے روشن ہو کر نیز اس کی روشنی پھیلاتے ہوئے اطلس قبایان تتاری روئے زمین کو اپنے علم و محبت کی جولاں گہ بنا چکے ہیں اور ایک معرکے میں انہوں نے مغربی اقوام کی متحدہ طاقت کو شکست دے دی ہے یہ گویا حق و باطل تعمیر و تخریب جنت و جہنم اور انسانیت و حیوانیت کا ایک علامتی مقابلہ تھا جس کا نتیجہ رحجان زمانہ کا پتہ دیتا ہے اور اس سے نوع انسان کے لیے ایک بہتر مستقبل کی نشاندہی ہوتی ہے جس میں حق، تعمیر، محبت اور انسانیت کا غلبہ ایک بار پھر ایشیا کے مرکز سے شروع ہو جائے گا۔ یہ نکتہ نہایت فکر انگیز ہے کہ جنگ عظیم اول کے بعد مغربی اتحادیوں کے مقابلے میں ترکی کی فتح کو محبت کی چنگاری سے تعبیر اور اس نور عشق کو ایشیا یا مشرق سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ نکتہ ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات، اور سر گزشت ملت بیضا سے اقوام زمین ایشیا کی پاسبانی کے ان نکتوں کے تسلسل میں ہے جو پچھلے بندوں میں پیش کیے جا چکے ہیں۔ ساتھ ہی اس شعر کے مفہوم میں ایک قدر زائد بھی ہے۔ ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی، اٹھنے کا پیکر مشرق کی نجات اور اقوام زمین ایشیا کی پاسبانی کے علاوہ یہ تاثر بھی دیتا ہے کہ جب آج کی محبت سے خالی دنیا میں محبت کی ایک چنگاری کہیں سے اٹھتی ہے تو اب وہ شعلہ بنے گی اور پوری دنیا کو گرم و روشن کرے گی۔ اس طرح اسلام اور مسلمانوں کے تحت ایشیا یا مشرق کو عصر حاضر کے بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی کا مرکز نور قرار دیا گیا ہے۔ یہ اس آفاقیت کے عین مطابق ہے جو طلوع اسلام کی ملی شاعری کا موضوع و مضمون ہے ایشیا کے دل میں دل کے ساتھ ساتھ مرکزی ایشیا کا مفہوم بھی مضمر ہے اطلس قبایان تتاری کا پیکر عسکریت کو شعریت کا لباس عطا کرتا ہے۔
ٹیپ کا شعر فارسی ہے جس میں دوسرا مصرع وادین کے درمیان حوالہ ہے:
بیا پیدا خریدار است جان نا توانے را
پس از مدت گزار افتادبر ما کا روانے را
یہ شعر پچھلے تمام بندوں کا خلاصہ اور آخری بند کا جو پورا کا پورا فارسی میں ہے اور اس کی ٹیپ حافظ کا مشہور شعر بیاتا گل بیفشا نیم۔۔۔۔ ہے پیش خیمہ ہے۔ مطلب یہ کہ ایک مدت کے بعد کوئی کارواں اس اندھے کنوئیں پر آیا جس میں یوسف دوراں کو اس کے برادران انسانیت نے ڈال دیا اور بند کر رکھا تھا چنانچہ اس کے باوجود کہ یوسف نحیف و نزار ہے کوئی خریدار تو اس کا پیدا ہوا۔ اس تلمیح کے اشارات پر جتنا غور کیا جائے گا معانی کی تہیں کی تہیں کھلتی چلی جائیں گی اور عصر حاضر کے انسانی سماج میں ملت اسلامیہ کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے اور ہونے والا ہے سب کا ایسا عبرت خیز اور فکر انگیز نقشہ نگاہوں کے سامنے مرتب ہو گا کہ ماضی و حال و مستقبل کو پوری تاریخ صرف ایک اشارے میں منقش ہوتی نظر آئے گی۔ اس مرقعے کا یہ نقش بھی خاص کر لائق توجہ ہے کہ ابھی کوئی قافلہ یوسف وقت کنوئیں سے نکل سکا ہے نہ کسی نے اس کی کوئی قیمت بازار حیات میں لگائی ہے، مگر یہ تصور ہی نشاط انگیز ہے کہ کسی بیاباں کے اندھے کنوئیں میں بند یوسف کے قریب خریداروں کا کوئی کارواں آیا تو اب چونکہ داستان یوسف کے اگلے مرحلے معلوم ہیں اس لیے مستقبل کی تمام آزمائشوں کے باوجود پیام امید یہ ہے کہ یوسف دوراں بالآخر تمام آزمائشوں میں کامیاب ہو کر پاک دامنی، بصیرت مندی اور حوصلہ و عزم کے ساتھ روئے زمین پر متمکن ہو گا اور عالم انسانیت کے قحط کو دور کر کے اس کی خشک فضاؤں کو سر سبز و شاداب کر دے گا۔ تاریخ کے کسی خاص لمحے کی یہ متعین نشاندہی زیر نظر تمثیلی تلمیح کی بڑی ہی نادر خوبی ہے شاعری کی تخیل میں تاریخ کا اتنا سچا عکس پکا نقش اقبال کے فن کا امتیازی کمال ہے۔
آخری بند نظم کا عروج ہونے کے ساتھ ساتھ اقبال کی شاعری کا بھی ایک نقطہ عروج ہے۔ اس میں وہی سرمستی و رعنائی ہے جو اقبال کی شاعری خاص کر فارسی شاعری کی خصوصیت ہے اور اس کا پورا اظہار زبور عجم، پیام مشرق اور جاوید نامہ میں ہوا ہے۔ ’’ شمع اور شاعر‘‘ کی ابتدا ایک پورے فارسی بند سے ہوئی تھی اور ’’ طلوع اسلام‘‘ کی انتہا ایک پورے فارسی بند پر ہو رہی ہے۔ دونوں ہی بند اقبال کی فارسی شاعری کا دل آویز نمونہ ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف نظموں بشمول ’’ طلوع اسلام‘‘ میں اقبال کے فارسی اشعار اور دوسروں کے چیدہ اشعار پر ان کی پر لطف و پر خیال تضمینیں جابہ جا بکھری ہوئی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال نے اردو شاعری میں نہ صرف یہ کہ ایک نئے انداز سے فارسی کی عظیم روایات کو جذب کیا ہے بلکہ اردو پر فارسی کے لسانیاتی و جمالیاتی اثرات کو درجہ کمال تک پہنچا دیا ہے۔ وہ غالب کی طرح اور ان سے ایک دو قدم آگے جا کر بیک وقت اردو فارسی کے عظیم ترین شاعر ہیں۔
’’ طلوع اسلام‘‘ اپنے موضوع کے لحاظ سے ایک مکمل نظم ہے۔ عصر حاضر میں ’’ دنیائے اسلام‘‘ کے اس غروب کے بعد جس کا مرقع ’’ خضر راہ‘‘ میں کھینچا گیا تھا، طلوع اسلام کے مضمون پر اقبال نے اس کے ان تمام مضمرات و نکات کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے جو مشرق و مغرب کے تصادم، قدیم و جدید کے تضاد اور دین و دنیا کے تقابل سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے جدید مغربی سماج کا نسخہ بھی اسلامی توحید کی شکل میں تجویز کر دیا اور اس نسخے کے استعمال کے لیے ایک بار پھر مشرق کے مرکز سے ملت اسلامیہ کو دعوت عمل دی ہے، اس لیے کہ مرض کا منبع مغرب ہے جبکہ مشرق اسلام کے تحت سرچشمہ شفا پہلے ہی رہ چکا ہے اور اب اسے اپنے اسی نسخہ شفا کو دوبارہ دریافت کر کے دور جدید کے لیے اسی طرح استعمال کرنا ہے جس طرح اس نے اسے دور قدیم کے لیے استعمال کیا تھا۔ اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کو ایک ترتیب کے ساتھ مختلف بندوں میں اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ ہر بند دوسرے کے ساتھ مربوطط ہے، جبکہ ہر بند کے اندر متعدد اشعار بھی آپس میں ربط خیال رکھتے ہیں۔ یہ اشعار استعارات و علائم، تشبیہات و کنایات اور تلمیحات و تصاویر سے پر ہونے کے علاوہ ایک انتہائی مترنم آہنگ سے مملو ہیں۔ یہ نقوش کلام جزو عبارت بن گئے ہیں اور اپنے سیاق و سباق میں بہت ہی معنی آفریں اور خیال انگیز ہیں۔ بلاشبہ نظم کے خیالات و افکار پر اسلام چھایا ہوا ہے، لیکن اول تو اسلام کو ایک آفاقی نظریے اور انسان دوست تصور کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، یہاں تک کہ ملت اور مشرق کو باہم مترادف کر دیا گیا ہے اور مغرب کو مشرق کے سامنے ایک فریق سے زیادہ ایک مریض کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ جب نظم کا موضوع طلوع اسلام ہے تو بداہتہً و لازماً فنی اعتبار سے مضمون تخلیق اسلام ہونا ہی چاہیے تھا، ورنہ فکر و فن دونوں ناقص رہ جاتے۔
یقینا نظم کے مختلف بندوں میں خیالات کی تکرار ہے، خاص کر بعض اشعار میں اور بعض خیالات کو ایک سے زیادہ بندوں میں پیش کیا گیا ہے، لیکن منصوبہ نظم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ارتقائے خیال کے مراحل اور اظہار مقصد کے پیچ و ختم ہیں، شاعر بعض خیالات کو زیادہ اہم سمجھتا ہے، لہٰذا ان کی توسیع و تفصیل کرتا ہے اور بعض خیالات کے مختلف پہلوؤں کو ان کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف سیاق و سباق میں مختلف انداز سے ظاہر کرتا ہے اس طرح تنوع اور پیچیدگی کی وہ صورت نمودار ہوتی ہے جو ہر بڑے موضوع اور بڑی تخلیق کا خاصہ ہے۔ جہاں تک سیاسی بیانات اور خطابت کا تعلق ہے، دونوں کو شاعری کے رنگ و آہنگ میں ڈبو دیا گیا ہے۔ نتیجۃ تو کوئی کرختگی پیدا ہوتی ہے نہ تکدر بلکہ ایک آگہی، ایک جوش اور ولولہ عمل ابھرتا ہے۔ یہ فنی حسن اور تاثیر مشرق و مغرب کی کسی سیاسی و مقصدی شاعری میں اس درجہ کمال پر نظر نہیں آتی جو اقبال کی شاعری میں ہے۔
’’ طلوع اسلام‘‘ بانگ درا کی شاعری کا وہ عروج ہے جو اقبال کی شاعری کے نقطہ عروج کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بال جبریل میں ’’ مسجد قرطبہ‘‘ اقبال کی بہترین اردو نظم ہے۔ اور موضوعاتی نظم نگاری کی حدود میں دنیائے شاعری کی بہترین تخلیق ہے۔ اس پیمانے پر جو ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کا ہے دنیا کے کسی شاعر کی کوئی تخلیق اقبال کی نظم کے مقابلے میں نہیں پیش کی جا سکتی۔ ’’ طلوع اسلام‘‘ ایسی عظیم فنی تخلیق کی پیش رو یا اس کا ثمر پیش رس ہے۔ دونوں کا موضوع ایک برتاؤ ایک اثرایک ہے فرق صرف مدارج کا ہے۔ جو نغمہ شاعری ’’ شمع اور شاعر‘‘ سے شروع ہوا اور’’ طلوع اسلام‘‘ میں تیز ہو گیا وہی ’’ مسجد قرطبہ‘‘ میں اپنے عروج و کمال پر پہنچ گیا جبکہ اس کے گرد فن کے راگوں کا ایک پورا سلسلہ ہے جو نمایاں ترین صورتوں میں ’’ تصویر درد‘‘ اور’’ خضر راہ‘‘ سے ’’ ذوق و شوق‘‘ اور’’ساقی نامہ‘‘ تک پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ نقطہ کمال و عروج کے بعد بھی ’’ شعاع امید‘‘ اور’’ ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں اسی نغمے کی گونج سنائی دیتی ہے۔ اقبال کے نظام فن میں ’’ طلوع اسلام‘‘ دیباچہ کمال ہے۔