اپنی کئی انفرادی خصوصیات کے علاوہ اقبال اپنی وسعتِ مطالعہ میں ممتاز اور منفرد تھے، اُن کا مطالعۂ شاعری بے حد غائر اور وسیع تھا، وہ اُردو، فارسی، انگریزی، عربی اور جرمن کے علاوہ کئی دوسری زبانوں کے شعر و ادب کے فکری اور فنی دقائق پر بہت گہری نظر رکھتے تھے۔ اُن کا ذہن ادبیاتِ عالم کی معنوی تمثالوں کا تصویر خانہ تھا جس کی ترتیب و آرائش میں محتاط انتخاب اور تنقیدی احتساب کو کام میں لایا گیا تھا، اس لیے کہ اقبال شاعری کے فکری مافیہ (thought content) کے بہت بڑے ناقد تھے۔ وہ شعر کو انسانی تمدن کی تعمیر و شکست، دونوں حالتوں میں بہت بڑا اور مؤثر ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اس سلسلے میں اُن کی یہ تمثیل بہت مشہور ہے کہ ’’ایک انحطاط پسند فن کار کا تخیل… اگر وہ اپنی قوم کے افراد پر افسوں طرازی کر سکتا ہو۔ اٹیلا اور چنگیز کے لشکروں سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے‘‘۔۱؎ اقبال کے نزدیک شعر کی قدرو قیمت اور افادیت کا تعین کرتے ہوئے شعر کے فنی محاسن سے کہیں زیادہ اس کے فکری اجزااور مؤثرات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے، یعنی فنی خوبیوں سے قطعِ نظر کرتے ہوئے یہ دیکھنا چاہیے کہ شعر انفرادی انسانی خودی کی تکمیل و استحکام اور اجتماعی تمدنی ہیئت کی تشکیل میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔ شعر و ادب کے معاملے میں بھی اُن کے ردوقبول کے پیمانے وہی تھے جو دوسرے فنونِ لطیفہ کے لیے تھے۔ فن (آرٹ) اُن کے نزدیک مقصود بالذات نہیں۔ کسی اور ’غایت‘ کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس لیے ادبیاتِ عالم کے فکری اور معنوی محاسن کی تحسین میں اُنھوں نے اپنے اس معیارِ انتقاد سے کبھی صرفِ نظر نہیں کیا۔ مغربی زبانوں میں انگریزی اور جرمن اور مشرقی زبانوں میں اُردو، فارسی اور عربی شعر و ادب۔ اُن کے مطالعۂ ادب کے خصوصی دوائر تھے،…لیکن فارسی زبان اور شعر و ادب سے اُن کے فکر و تخیل کا جو رشتہ تھا۔ وہ کسی اور زبان سے نہیں تھا۔ جہاں تک تخلیقی عمل کا تعلق تھا۔ اُردو کے بعد فارسی اُن کے لیے ایک بے حد قدرتی اور موزوں ترین وسیلۂ اظہار تھی۔ اور یہی وہ زبان ہے جس میں اُن کے فکر کے دقیق ترین۔ اور شاید بہترین…اجزا معرضِ بیان میں آسکے ہیں۔ اُنھیں خود بھی اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ تھا کہ اُن کا فکری عمل (thought process) فارسی شاعری کے اسالیبِ بیان کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہے۔ مثنوی اسرارِ خودی کی تمہید میں فرماتے ہیں:
گرچہ ہندی در عذوبت شکر است
طرزِ گفتارِ دری شیریں تر است
فکرِ من از جلوہ اش مسحور گشت
خامۂ من شاخِ نخلِ طور گشت
پارسی از رفعتِ اندیشہ ام
در خورد با فطرتِ اندیشہ ام
اس سلسلہ میں اُنھوں نے اپنی رفعتِ اندیشہ (sublimity of thought) کا بطورِ خاص تذکرہ کیا ہے اور شاید فارسی شاعری کی یہی رفعتِ اندیشہ ہی ہے جو ہمیشہ اُن کے دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتی رہی۔ لیکن اُن کے ردو قبول کے پیمانے ہمیشہ وہی رہے جو تھے،…فارسی شعرا میں اُنھوں نے مولانا رُوم کو اپنا پیرومرشد اور (جاوید نامہ میں) اپنا رُوحانی رہبر تسلیم کیا، اور خواجہ حافظ شیرازی کو، جنھیں اربابِ تصوف کی نظر میں ہمیشہ بلند مقام رہا ہے، رد کر دیا۔ اگرچہ حافظ کے افکار پر جو کڑی تنقید ’اسرارِ خودی‘ کے پہلے ایڈیشن میں شامل تھی، بعد کی اشاعتوں میں حذف کر دی گئی، لیکن حافظ کی شاعری کے بارے میں اقبال کے نقطۂ نظر میں کبھی تبدیلی نہیں آ ئی۔ اور اس سلسلے میں اُنھوں نے معذرت خواہانہ رویہ بھی کبھی اختیار نہیں کیا۔ وہ حافظ کے فنی کمال کے یقینا معترف ہیں۔ اپنی ۱۹۱۰ء میں وقتاً فوقتاًلکھی ہوئی ڈائری… ’افکارِ پریشاں‘، میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں، ’’اپنے نگینوں کے طرح ترشے ہوئے الفاظ میں حافظ نے نغمۂ بلبل کی شیریں اور لاشعوری روحانیت کو سمو دیا ہے‘‘۔۲؎ اسرارِ خودیکے پہلے ایڈیشن کی اشاعت (۱۹۱۵ئ) کے بعد اپنے ایک مکتوب میں حافظ کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
خواجہ حافظ کی شاعری کا میں معترف ہوں۔ میرا عقیدہ ہے کہ ویسا شاعر ایشیا میں آج تک پیدا نہیں ہوا اور غالباً پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن جس کیفیت کو وہ پڑھنے والوں کے دل پر طاری کرنا چاہتے ہیں، وہ کیفیت قوائے حیات کو کمزور و ناتواں کرنے والی ہے۔۳؎
اس سلسلے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ فنی کمال اور صناعی (craft and artistary) کے نقطۂ نظر سے اقبال نے ایسے توصیفی کلمات کسی اور شاعر کے لیے شاید ہی لکھے ہوں گے۔ اور یہ بات بھی روز بروز واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اقبال کے لیے غزل (فارسی) میں حافظ اور مثنوی میں مولانا رُوم ہی قابلِ تقلیدنمونہ (ماڈل) تھے اپنی فارسی غزل کے صوتی آہنگ اور اس کی لسانی تشکیل میں سب سے زیادہ اثر اُنھوں نے حافظ شیرازی ہی سے قبول کیا ہے،…اپنی طالب علمی کے ایام میں یورپ میں عطیہ فیضی سے اُنھوں نے کبھی یہ بھی کہا تھا کہ کبھی کبھی میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ حافظ کی رُوح مجھ میں سرایت کر گئی ہے۔ یہ وہ خیال ہے جو عظیم جرمن شاعر گوئٹے نے کئی بار اپنے ’دیوانِ شرقی‘ میں ظاہر کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اقبال نے یہ احساس اپنی طالب علمی میں گوئٹے ہی سے مستعار لیا ہو۔ اور جہاں تک خود گوئٹے کا تعلق ہے، وہ اقبال کے عمر بھر کے محبوب شاعروں میں رہا ہے۔ بہر حال اقبال کی یہ قطعی راے تھی کہ حافظ کی شاعری کے فکری عناصر اور اس کے فن کی تاثیر …دونوں مل کر انسانی خودی کے لیے سُکرو صحو (بے خودی وبے ہوشی) کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس لیے انسانی خودی کی تکمیل اور ایک مثالی معاشرے کی تشکیل میں نہ صرف یہ کہ معاون نہیں، بلکہ ضرر رساں ہیں۔ کم و بیش ایسی ہی رائے اُنھوں نے افلاطون کے بارے میں بھی ظاہر کی اور اس رائے کو کبھی واپس نہیں لیا۔ وہ افلاطون جسے قرونِ وسطیٰ کے مسلمان حکما و مفکرین’افلاطونِ الٰہی‘ کے نام سے یاد کرتے تھے، اقبال کے ہاں گو سفند قرار پایا(الحذر، ازگوسفنداں الحذر ) اُن کے نزدیک حافظ اور افلاطون کا تصورِ حیات سکونیاتی ہے،…جب کہ مولانا رُوم کا تصورِ حیات حرکی اورارتقائی ہے، اسی لیے اقبال نے فکری اعتبار سے جتنا استفادہ مولاناروم سے کیا، اتنا کسی بھی دوسرے بڑے سے بڑے شاعر سے نہیں کیا۔ لیکن اقبال اور مولانا رُوم کے فکری رشتوں کی تفصیل بیان کرنے سے بیشتر، اس سیاق و سباق میں حافظ شیرازی کے پہلو بہ پہلو سرزمینِ شیراز ہی کے ایک عظیم فرزند اور عظیم شاعر کا تذکرہ بھی ضروری ہے جس کے نام اور کلام کا سکہ سات صدیوں سے فارسی زبان و ادب کی اقلیم میں رواں دواں ہے، یعنی حضرت سعدی شیرازی، جو غزل میں حافظ کے پیشرو، اور فارسی شعر و ادب (بالخصوص فارسی غزل کی جمالیات و لسانیات) کے عظیم اور اوّلین معماروں میں سے ہیں! اقبال کے فنی اسالیب میں کئی جگہ سعدی کی جھلک نظر آتی ہے۔ اُن کے کئی اشعار کی اقبال نے تضمین بھی کی ہے، اُن کے اشعار و مصارع سے استفادہ بھی کیا ہے،…اور یہ اس لیے قابلِ فہم ہے کہ اقبال نے جس قدیم نظامِ تعلیم کی جھلک اپنے استاد علامہ میر حسن کی تدریس میں دیکھی تھی، اس نظام میں حافظ اور رُومی سے کہیں زیادہ سعدی شیرازی کو اہمیت حاصل تھی، گلستان و بوستان نے کئی صدیوں تک بر صغیر میں اسلامی تمدن کو ذہنی اور لسانی آب و رنگ عطا کیا ہے،…اور آج بھی شیخ سعدی کی حیثیت ویسی ہی مسلّمہ ہے لیکن اقبال کی رفعتِ اندیشہ کی جستجو کی تسکین گلستان و بوستان میں زیادہ نہیں ہو سکتی تھی، گلستان و بوستان…قرونِ وسطیٰ، میں ایشیائی اسلامی تمدن، اس کے کرداروں اور منظر ناموں اور وسیع انسانی بصیرتوں کا ایک قابلِ قدر اور زندۂ جاوید ذخیرہ ضرور ہے۔ لیکن وہ تصوریت یا مثالیت پسندی (idealism) جو مولانا رُوم کے کلام میں اُبھرتی ہے۔ اس دُنیا میں کم ہی چہرہ نمائی کرتی ہے، اس میں شک نہیں کہ شیخ سعدی اپنے عملی اخلاقی تصورات میں اکثر و بیشتر اُن حقائق کا بیان بھی کرتے ہیں جنھیں اخلاقِ عالیہ (higher ethics) کی اساس کہنا چاہیے، لیکن اقبال نے کوئی تبصرہ کیے بغیر، سعدی کے تصوراتِ حیات سے زیادہ استفادہ نہیں کیا،…انسانی زندگی کی نشو و بقا اور صعود و ارتقا اور عصر حاضر میں ایک متحد، متحرک اور ترقی پذیر اسلامی تمدن کی تشکیلِ نو کے نقطۂ نظر سے وہ مولانا رُوم کے مقابلے میں کسی اور شاعر یا مفکر کے فکری اور فنی مضمرات و مؤثرات کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔
اس میں شک نہیں کہ مولانا رُوم نے جس طرح زندگی کے حقائق اور متصوفانہ فکر کے دقائق کو باہم مربوط کیا ہے، اس کے پیشِ نظر اُنھیں بجا طور پر چھٹی اور ساتویں صدی ہجری کے اسلامی تمدن کے داخلی اضطراب کی آواز، اور اسی تمدن کے تخلیقی امکانات کی علامت قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن رُومی کا دائرۂ کار اس سے بھی وسیع ہے، وہ کسی ایک صدی یا چند صدیوں کے شاعر نہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اُن کی فکر کئی صدیوں کو محیط ہے،مثنویِ معنوی رُوح انسانی کا ایک لازوال نغمہ ہے، جو زندگی کے المیہ اور طربیہ سے ماورا ہو کر زندگی کو ایک ماورائی معنی عطا کرتا ہے، لیکن یہ ماورائیت (transcendentalism)ایک خلاق تمدن کی بنیاد بننے کی پوری پوری صلاحیت رکھتی ہے،…یہ نظم…مثنویِ معنوی…ایک بحرِ موّاج ہے جس کی ہر موج اسلامی تمدن کے اجتماعی لاشعور کی گہرائیوں سے اُبھر کر عصری شعور کے ساحلوں سے ٹکراتی اور انھیں فکر و صداقت کے ابدی طور پر چمکیلے اور نایاب موتیوں سے مالا مال کر دیتی ہے۔ مولانا رُوم نے اسلامی فکر کے جوہری اجزا کو اس طرح مرتب کیا ہے کہ انسانی فکر کے بے شمار گوشے منور ہو گئے ہیں،…اور لاتعداد فکری مغالطے، جنھوں نے فکرِ صحیح کے ساتھ ساتھ ایمان و یقین کے راستے مسدود کر رکھے تھے، تارہائے عنکبوت کی طرح بکھر کر لاشئے ہو گئے ہیں، فکرِ انسانی کی تنقید،…اور ایمان و یقین کی قوتوں کی دریافت،…یہ ہیں وہ دو بنیادی خصوصیات جن میں عصرِ حاضر میں اگر کوئی مولانا رُوم کا شریک ہو سکا ہے کہ تو وہ علامہ اقبال ہیں، جنھوں نے کم و بیش سات صدیوں کے فصلِ زمانی کے بعد، اسلامی تمدن کے مروّجہ فکری سانچوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اُن کے بیشتر حصوں کو فرسودہ اور مرگ آموز قرار دیا، اور مغرب کے فکری ضابطوں اور نئی تجربی منطق کی کمزوریوں پر بھر پور تنقید کرتے ہوئے اسلامی تمدن کو ایک نیا…مربوط فکری نظام دیا، جسے ہم مولانا رُوم کے افکار کی بازگشت تو نہیں کَہ سکتے، تاہم دونوں کی فکری یگانگت اور ہم آہنگی اُنھیں اسلامی شعریات کی تاریخ میں…نیز اسلامی فکر کی پیش رفت کی تاریخ میں بھی…کم و بیش ایک ہی سا امتیاز عطا کرتی ہے۔
کارلائل کو جب شاعروں میں ہیرو (بطلِ جلیل) کی تلاش ہوئی تو اس نے ایک کی بجائے دو شاعروں کا انتخاب کیا، یعنی ڈانٹے اور شیکسپئیر کا…جو اس کے نزدیک (مغربی)دُنیا میں شاعری کے ’ہیرو‘ ہیں…ان دونوں کے بارے میں کارلائل نے کہا کہ اُنھوں نے قدیم و جدید(مسیحی) دُنیا ئوں کو اپنی اپنی ملکیتوں میں تقسیم کر لیا، قدیم دُنیا ڈانٹے کی ہے اور جدید شیکسپئیر کی۔ کچھ یہی صورتِ حال کامل مشابہتوں کے ساتھ نہ سہی، ہمیں مولانا رُوم اور اقبال کی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اسلامی تمدن میں قدیم و جدید دُنیائوں کے علمبردار ہیں،…کارلائل نے ڈانٹے کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے اپنی عظیم نظم ’طربیۂ ایزدی‘ میں (عیسوی دُنیا کی) دس خاموش صدیوں کو زبان دی۔۴؎
اگریہ خیال مستعار لے لیا جائے تو اس کا انطباق مولانا رُوم اور اقبال پر بھی ہوتا ہے،…اسلامی تمدن کی سات صدیوں کو مولانا رُوم نے اور مزید سات صدیوں کو اقبال نے شاعری کی زبان دی،…یہ ایک بہت وسیع تعمیم ضرور ہے، اور اس کا مطلب اسلامی تمدن کی دوسری عظیم الشان شخصیتوں کے علمی، ادبی اور اخلاقی کارناموں کی قدرو قیمت کو گھٹانا نہیں،… تاہم ان دونوں عظیم مفکر شاعروں کا اسلامی تہذیب کے نشو و ارتقا اور اسلامی فکر کی حیاتیاتی اور نامیاتی تشکیل کے ساتھ بہت ہی پر اسرار رشتہ دکھائی دیتا ہے۔
فارسی شاعری میں مثنوی نگاری کی دو واضح طور پر الگ الگ روایتیں نشو و نما پاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، ایک روایت تو وہ ہے جس کے سرخیل فردوسی اور نظامی ہیں، اسے مثنوی میں داستان گوئی کی روایت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، اس روایت کے اتباع کرنے والوں میں حضرت امیر خسرو جیسے شعرا بھی ہیں، دوسری روایت متصوفانہ یا عارفانہ مثنوی نگاری کی ہے۔ جس کے سرخیل تو سنائی اور عطّار ہیں، لیکن اس کو بلندیوں تک پہنچانے والے رُومی ہیں، بوستان، گلشنِ راز، مثنوی بو علی قلندر، بیدل کی مثنویات…عرفان، محیطِ اعظم، طورِ معرفت اور طلسمِ حیرت بھی اسی روایت کا حصہ ہیں، مثنوی نگاری کی اس ثانی الذکر روایت نے مختصر حکایات اور داستانوں کو فلسفیانہ حقائق اور عارفانہ مسائل کے بیان کا ذریعہ بنایا، اور فلسفیانہ شاعری کے لیے زبان و بیان، اور علامات و استعارات کا ایک وسیع و بلیغ نظام مرتب کیا۔ اقبال نے اپنی فارسی مثنویات میں اسی روایت کو آگے بڑھایا ہے،…لیکن فنی ہیئت اور تکنیک کے بہت سے معاملات میں وہ مولانا رُوم ہی کی پیروی کرتے دکھائی دیتے ہیںاسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی تو بالخصوص مثنویِ معنوی ہی کے تتبع میں لکھی گئی ہیں، گو زبان و بیان کے اعتبار سے اقبال بذاتِ خود ایک نئے طرز کے بانی ہیں، اور سبکِ عراقی، سبکِ خراسانی اور سبکِ ہندی کے امتزاج سے ایک ایسی شاعرانہ زبان کو وجود میں لاتے ہیں جو قدیم و جدید کا سنگم بھی ہے اور زندگی کے نئے مسائل کو بیان کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے۔ تاہم ’اسرار و رموز‘ کی تمثیل نگاری پر واضح طور پر مولانا رُوم کے تمثیلی طرزِ بیان کا پر تو دکھائی دیتا ہے،… اقبال نے اپنی تین بڑی…اور تین مختصر مثنویاں… یعنی اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، جاوید نامہ…اور پس چہ باید کرداے اقوامِ شرق، مسافر اور بندگی نامہ،…مثنویِ معنوی ہی کی بحر…(بحرِ رمل مسدّس: فاعلاتن فاعلاتن فاعلات) میں لکھی ہیں، گلشنِ راز جدید صرف ایک استثنا ہے،… اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مثنویِ معنوی کی بحر میں اقبال کو ایک نسبتاً جدید تر شعری اُسلوب کے لیے کتنے امکانات دکھائی دیے ہوں گے۔
مولانا رُوم کے بعد اقبال نے فارسی کے جن شعرا کو کم و بیش یکساں حد تک سراہا ہے، وہ مرزا عبدالقادر بیدل، مرزا غالب اور حکیم سنائی غزنوی ہیں۔ بہت سی داخلی شہادتیں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اپنی فکری نشو و نما کے بعض اوّلین ادوار میں اقبال، بیدل سے بے حد متاثر تھے، اور غالب سے کہیں زیادہ بیدل کی فکری اور فنی عظمت کے قائل تھے، یہاں تک کہ وہ بعض صورتوں میں اپنے عہد کے نوجوانوں کو فکرِ بیدل کی طرف متوجہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں، اس لیے کہ ان کے خیال میں بیدل ایک حرکت پسند شاعر ہیں، اور اُن کی شاعری انسانوں کو خود آگہی اور خود شناسی کی طرف بھی مائل کرتی ہے، بیدل کی ایک لسانی ترکیب’خرام کا شتن‘ سے اقبال کے ذہن کو خاصی تحریک ہوئی اور اُنھوں نے اس ترکیب سے نتیجہ اخذ کیا کہ جو شاعر ’بونے‘ کے لیے بھی خرام لاتا ہے، اس کے ہاں حرکت پسندی کی اور کیا کیا صورتیں نہ ہوں گی۔ بانگِ درا کی کئی نظموں میں بیدل کے اشعار کی تضمین کی گئی ہے، لیکن فارسی کلام میں بیدل کا تذکرہ کسی ایک جگہ بھی نہیں…اس میں شک نہیں کہ بیدل ایک ایسا شاعر ہے جس کے ہاں فلسفیانہ تفکر، فن اور زندگی کے ہر پہلو پر چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے، اور استعاراتی پیرائے میں حرکت پسندی، خود آگاہی، خود نموداری اور مظہر یاتی فعلیت کی بے شمار ایسی متنوع صورتیں موجود ہیں جو اقبال کے ذہن کے لیے بے حد کشش کا باعث ہو سکتی تھیں۔ اور ہوئیں، لیکن بیدل کا اُسلوبِ شاعری، اپنی تمام تر شعری خوبیوں کے باوجود، جس طرح کی مشکل پسندی اور اغلاق کا حامل تھا، وہ اقبال کے لیے تادیر کسی مثبت فنی قدروقیمت کا قطعی اور آخری معیار نہیں ہو سکتا تھا۔ اپنی انگریزی میں لکھی ہوئی یادداشتوں (افکارِ پریشاں) میں اقبال نے بیدل کے اس شعر کی نہایت خوبصورت فنی پیرائے میں تحسین کی ہے:
نزاکت ہا ست در آغوشِ میناخانۂ حیرت
مژہ برہم مزن، تا نشکنی رنگِ تماشا را
مرزا غالب، اُردو اور فارسی شاعری میں اقبال کے عظیم پیشرو ہیں، سر عبدالقادر سمیت اُن تمام اربابِ نظر نے جنھیں اقبال کے ابتدائی کلام کو مبصرانہ انداز میں دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا، واضح طو ر پر محسوس کر لیا تھا کہ اقبال، شاعری میں غالب کے طے کیے ہوئے راستوں پر چل رہے ہیں اور ان کے اُسلوبِ شاعری کا رشتہ مجموعی طور پر رنگِ غالب ہی سے ملتا ہے۔ اگرچہ آگے چل کر اقبال کے فکر اور اسالیبِ بیان میں جو غیر معمولی وسعت پیدا ہوئی اس نے پیرویِ غالب کی ابتدائی صورتوں کو ایک نئی معنویت دے دی، تاہم اقبال پایانِ عمر تک غالب کی عظمت کے معترف رہے۔ جس غالب کو اُنھوں نے اپنے عنفوانِ شباب میں خراجِ عقیدت پیش کیا تھا(بانگِ درا کی چوتھی نظم: ’مرزا غالب‘) اس کی یاد جاوید نامہ کے رُوحانی سفر میں بھی ان کے ساتھ رہی۔ نوجوانی میں انھیں مرزا غالب اور گوئٹے کے فکرو تخیل اور آفاقیت میں مشابہت نظر آتی تھی، آنے والے سالوں میں بھی اُن کی رائے تبدیل نہیں ہوئی۔
آہ، تو اُجڑی ہوئی دلّی میں آرامیدہ ہے
گلشنِ ویمر میں تیرا ہمنوا خوابیدہ ہے
جاوید نامہ میں اُنھوں نے حلاج، غالب اور قرۃ العین طاہرہ کو ایسی ارواحِ جلیلہ قرار دیا ہے جنھوں نے بہشت میں رہنے کی بجائے گرشِ جاوداں کو ترجیح دی ہے، اقبال کے نقطۂ نظر سے یہ بہت بڑی تحسین اور غیر معمولی خراجِ عقیدت ہے، اس لیے کہ اس رویے میں، جو اُنھوں نے خیالی طور پر حلاج، غالب اور قرۃ العین طاہرہ سے منسوب کیا ہے،…حیاتِ اخروی میں بھی انفرادی انا کی آزادی کی ایک ممکنہ صورت ہے،…اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اقبال کو بیدل کی طرح غالب کی شاعری میں بھی ’خودی‘ کے تصورات اور استحکامِ انا کی آرزو نظر آتی ہے۔ جاوید نامہ میں ’فلکِ مشتری‘ کے احوال میں اقبال نے غالب کی وہ شہرۂِ آفاق غزل نقل کی ہے جس کا مطلع ہے:
بیاکہ قاعدۂ آسمان بگردانیم
قضا بگردشِ رطلِ گران بگردانیم
اس باب میں اقبال نے زندہ رود کی زبان سے غالب سے اُن کے اس شعر کی تشریح کے سلسلے میں استفسار کیا ہے:
قمری کفِ خاکستر و بُلبل قفسِ رنگ
اے نالہ، نشانِ جگرِ سوختہ کیا ہے؟
غالب نے جواب میں جو کچھ کہا،…وہ وجود کی ماہیت اور ضمیرِ وجود میں تب تابِ آرزو (سوزِ جگر) کی رنگ آفرینی اور شعلہ سامانی پر ایک خوبصورت تبصرہ ہے:
نالۂ کو خیزد از سوزِ جگر
ہر کجا تاثیرِ او دیدم دگر
قمری از تاثیر اُو، واسوختہ
بلبل از وَی رنگ ہا اندوختہ
اندرو مرگی بآغوشِ حیات
یک نفس اینجا حیات، آنجا ممات
آنچنان رنگی کہ ارژنگی ازوست
آنچناں رنگی کہ بیرنگی ازوست
تو ندانی این مقامِ رنگ و بوست
قسمتِ ہر دل بقدر ہای وہوست
یا برنگ آ، یا ز بیرنگی گذر
تا نشانے گیری از سوزِ جگر
وہ فریاد جو سوزِ جگر سے پیدا ہوتی ہے،…مجھے اس کی تاثیر ہر جگہ نئی دکھائی دی ہے۔ قمری اس کی تاثیر سے جل بجھی ہے اور بلبل نے اسی سے سامانِ رنگ فراہم کر لیا ہے،…اس میں مرگ بآغوشِ حیات ہے، یہ ایک وقت میں یہاں زندگی… اور وہاں موت ہے۔ یہ اس طرح کا رنگ ہے کہ رنگوں کی بوقلمونی…ارژنگ…اسی سے پیدا ہوتا ہے، یہ وہ رنگ ہے کہ بے رنگی کا سرچشمہ بھی یہی ہے،…تو نہیں جانتا کہ یہ رنگ و بو کا مقام ہے اور یہاں…ہر دل کی قدر و قیمت کا انحصار اس حقیقت پر ہے کہ وہ کتنی ہائے و ہو کرتا ہے…چنانچہ تو بھی یا کوئی رنگ پکڑ لے، …کسی رنگ میں پختہ ہو جا، یا اس بے رنگی کو چھوڑ دے، تا کہ تجھے اس سوزِ جگر کا پتا چلے کہ یہ کیا ہے؟
اس سلسلۂ کلام میں …اقبال نے غالب سے ختم المرسلینؐ، اور رحمۃ للعالمینؐ، کے مفاہیم پر گفتگو کی ہے، یہ مکالمہ جاوید نامہ کے اہم ترین اور پر زور ترین مکالمات میں سے ہے،… اس سوال کے جواب میں کہ عالمِ آب و گِل کے ساتھ رحمۃٌ للعالمینؐ کے تصور کا کیا تعلق ہے، اقبال نے مرز غالب سے کہلوایا ہے کہ:
ہر کجا ہنگامۂِ عالم بود
رحمۃٌ للعالمینیؐ ہم بود
(جہاں کہیں بھی عالمِ ہست و بود کا ہنگامہ ہے، وہاں رحمۃ للعالمینؐ بھی ہے) اقبال نے اس خیال کی مزید توضیح چاہی ہے،…غالب نے قدرے تامل کے ساتھ جواب دیا ہے،
خلق و تقدیر و ہدایت ابتداست
رحمۃٌ للعالمینیؐ انتہاست!
(تخلیق،…تقدیر اور ہدایت،…عالمِ خلق و امر کی ابتدا ہیں اور ان کی انتہا رحمۃ للعالمینیؐ ہے) در اصل اس مکالمے کا پس منظر ختم المرسلین کے تصور کی تشریح میں وہ بحث ہے جسے ’امتناع و امکانِ نظیر‘ کی بحث کہا جاتا ہے،…یہ بحث شاہ اسمٰعیل شہید دہلوی اور مولانا حیدر بخش کے درمیان تھی، لیکن علامہ فضل حق خیر آبادی اور مرزا غالب کو بھی اس بحث میں شامل کر لیا گیا،…مرزا غالب نے اس بحث کو اپنے ایک منظوم استدراک (مثنوی) میں سمیٹا ہے،… جاوید نامہکے اس مکالمے کے بعض اشعار غالب کی اسی مثنوی سے لیے گئے ہیں،…لیکن اس مثنوی کے کچھ شعر ایسے بھی ہیں جو ’امتناع نظیر‘ کے تصور کو زیادہ وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں،…گو اس مکالمے میں شامل نہیں ہوئے، مثلاً:
آنکہ مہر و ماہ و اختر آفرید
می تواند مہرِ دیگر آفرید
لیک اندر عالم ازروئے یقیں
خود نمی گنجد دو ختم المرسلین
وہ خالقِ کائنات جس نے سورج، چاند، ستارے پیدا کر دیے ہیں، وہ چاہے تو دوسرا سورج بھی پیدا کر سکتا ہے، لیکن ازروئے یقین…اس عالم میں دو ختم المرسلین ہو ہی نہیںسکتے۔
ان تمام باتوں کے باوجود، اقبال کے فارسی کلام کے مطالعے سے یہ بات واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ اُن کے ہاں غالب کی فارسی شاعری کے اثرات اتنے زیادہ اور اتنے واضح نہیں کہ اُنھیں (اقبال کو) آسانی کے ساتھ صرف سبکِ ہندی کا شاعر قرار دیا جا سکے۔
حکیم سنائی غزنوی اور شیخ فرید الدین عطار کو متصوفانہ شاعری میں غیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے، وہ فلسفیانہ اور عارفانہ شاعری میں مولانا رُوم کے پیش رَو ہیں،… اقبال کے ہاں عطار کا تذکرہ چند مقامات پر ضمنی صورت میں ہے،… اقبال نے عطار کے دو یاتین اشعار میں تصرف بھی کیا ہے،… اقبال کے تصورِ ابلیس اور شیخ عطار کے تصورِ شیطان میں کچھ مماثلتیں بھی دریافت کی گئی ہیں۔ لیکن عطار کے فکر سے اقبال کی وابستگی کچھ زیادہ ثابت نہیں ہوتی، یہ اور بات ہے کہ اقبال،…عطار کا ذکر رُومی اور سنائی کے ساتھ ہی کرتے ہیں،…البتہ سنائی ایک ایسے شاعر ہیں، جو رُومی کے بعد اقبال کے ممتاز ترین ادبی اور فکری ممدوحین میں دکھائی دیتے ہیں۔ اسلامی فکر کی دُنیا میں…اقبال کے نقطۂ نظر سے رُومی اور سنائی دو مرکزی شخصیتیں ہیں، اقبال کی ایک مختصر سی نظم جس کا عنوان ہی ’اقبال‘ ہے، اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے:
فردوس میں رُومی سے یہ کہتا تھا سنائی
مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ وہی آش
حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اِک مردِ قلند نے کیا رازِ خودی فاش
بالِ جبریل کی غزلیات کے ایک حصے کے آغاز میں قبال نے یہ تمہیدی نوٹ لکھا ہے:
اعلیٰ حضرت شہید امیر المؤمنین نادر شاہ غازی کے لطف و کرم سے نومبر ۱۹۳۳ء میں مصنف کو حکیم سنائی غزنوی کے مزار اقدس کی زیارت نصیب ہوئی۔ یہ چند افکارِ پریشاں، جن میں حکیم ہی کے ایک مشہور قصیدے کی پیروی کی گئی ہے، اس روزِ سعید کی یاد گار میں سپردِ قلم کیے گئے ہیں:
ما از پئے سنائی و عطار آمدیم‘‘
اس ذیل میں اقبال کی ساٹھ کے قریب وہ اُردو غزلیں ہیں، جنھوں نے اُردو غزل کے لفظی آہنگ اور اس کے جہانِ معنی کی کایا پلٹ کے رکھ دی،… مثنوی مسافر میں (اکتوبر ۱۹۳۳ئ) اقبال’’سفر بہ غزنی وزیارتِ مزار حکیم سنائی‘‘ کے عنوان سے غزنی کی تعریف میں لکھتے ہیں:
خفتہ در خاکش حکیمِ غزنوی
از نوائے اُو دلِ مردان قوی
سنائی کو اقبال نے حکیمِ غیب، قرار دیا ہے، اور سنائی اور اپنا موازنہ اس طرح کیا ہے:
من ز پیدا، اُو زپنہاں در سرور
ہر دو را، سرمایہ از ذوقِ حضور
او نقاب از چہرۂ ایمان کشود
فکرِ من تقدیرِ مؤمن وا نمود
ہر دو را از حکمتِ قرآن سبق
او ز حق گوید، من از مردانِ حق
سنائی کے ساتھ اقبال کی اس گہری جذباتی وابستگی کا اصل سبب سنائی کی عارفانہ مثنوی حدیقۃ الحقیقۃ ہے… جو فی الحقیقت فارسی کی تمام متصوفانہ اور فلسفیانہ مثنویوں کی سرخیل ہے، اسے مثنویِ معنوی پر بھی زمانی تقدم حاصل ہے،…اور اسی سے فارسی میں حکیمانہ، فلسفیانہ اور متصوفانہ مثنویوں کی اس عظیم روایت کا آغاز ہوا ہے، جس کی روشنی میں اقبال نے اپنی حکیمانہ مثنویاں مکمل کیں۔ حدیقۃ دراصل شاعری میں اسلامی ما بعد الطبیعیات کی بنیاد ہے، اسی لیے مولانا رُوم کے بعد اقبال جس شاعر کے لیے سب سے زیادہ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ حکیم سنائی غزنوی ہیں۔
سنائی کے بعد اقبال کے نظامِ ترجیحات میں غالباً محمود شبستری اور حکیم خاقانی شروانی کا مقام ہے، ثانی الذکر کو اقبال نے ’’اربابِ نظر کا قرۃ العین‘‘ اور ’’محرمِ عالمِ مکافات‘‘ کہا ہے، غالباً اس میں خاقانی کی اخلاقی اور حکیمانہ شاعری کی طرف اشارہ ہے،… لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خاقانی کے اخلاقی اور حکیمانہ افکار اقبال کے فکری مزاج سے کچھ زیادہ مناسبت نہیں رکھتے تھے…البتہ محمود شبستری اور گلشنِ راز جدید اقبال کے لیے کُچھ زیادہ خیال انگیز ہیں۔ محمود شبستری نے اپنی شہرۂ آفاق مثنوی گلشنِ راز میں ماہیتِ وجود اور علاماتِ تصوف کے بارے میں سیّدمیر حسینی ہروی کے اُٹھائے ہوئے سوالات کا جواب منظوم صورت میں دیا ہے، اور یہ مثنوی در حقیقت فلسفۂ وحدت الوجود ہی کی ایک تشریح ہے،…جس کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں شاعری کی اُن اصطلاحات کے عرفانی(روحانی اور ما بعد الطبیعیاتی) مطالب متعین کیے گئے ہیں۔ جن کا بظاہر دین یا تصوف سے کوئی تعلق نہیں، یہ وہ علامات ہیں جو آگے چل کر غزل کی شاعری کی اساس ٹھہرے،…ان میں انسانی اعضا مثلاً چشم و لب و رخسار، متعلقاتِ خرابات مثلاًرند، شراب، شاہد، پیمانہ، شمع، نیز کفر، بت، زنار جیسے الفاظ کی بھی ایسی تشریح کی گئی ہے کہ ان کے علاماتی مطالب۔ تصوف کے حقائق کی توضیح کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ غزل اور تصوف دونوں کی مجازی علامات کی تعبیرات ہیں جنھوں نے غزل اور تصوف دونوں کو کئی صدیوں تک ان علامات اور ان سے متعلقہ تلازمات کا اسیر رکھا ہے،… اسے ہم وحدت الوجود کے لیے ایک مجازی نظامِ علامات سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں،…اس کے تاثرات اور معنوی اہمیت کے پیش نظر اقبال اس مثنوی سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے تھے، اسی لیے اُنھوں نے گلشنِ راز جدید کے نام سے اس مثنوی کا ’جواب‘ لکھا۔ اورمتوازی صورت میں وحدت الوجود کے مقابلے میں ماہیت الوجود کی تشریح وحدت الشہود اور استحکامِ انائے انفرادی کے نقطۂ نظر سے کی ہے،… اقبال نے محمود شبستری کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے نقطۂ نظر سے واضح طور پر اختلاف کیا ہے،… اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گلشنِ راز (شبستری) کے مقابلے میں گلشنِ راز جدید (اقبال) میں شاعرانہ بیان کی سطح کہیں بلند اور پرکشش ہے۔
فارسی شعر و ادب میں اقبال کی ترجیحات کا مطالعہ سلبی اعتبار سے بھی کیا جا سکتا ہے، یعنی کن شعرا کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہے یا کم سے کم ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو فارسی کے تین عظیم شعرا کا نام خاصی اہمیت کا حامل ہے، فردوسی، نظامی اور عمر خیام…فارسی کے یہ مایۂ ناز شعرا صرف فارسی ہی میں نہیں عالمی ادب میں بھی اہم ہیں، بالخصوص فردوسی اور خیام پوری دُنیا میں عظیم شعرا کی شہرت رکھتے ہیں۔ اقبال نے اپنی تمام تر شاعری میں فارسی اور غالباً دُنیا کے سب بڑے رزم نگار (epic poet) فردوسی کا ذکر کم سے کم کیا ہے، پیامِ مشرق کے اُردو دیباچے میں صرف دو مقام پر فردوسی کا ذکر ہوا ہے وہ بھی ضمناً اور تبعاً۔ یعنی گوئٹے کے حوالے سے :
خواجہ حافظ کے علاوہ گوئٹے اپنے تخیّلات میں شیخ عطار، سعدی، فردوسی اور عام اسلامی لٹریچر کا بھی ممنونِ احسان ہے…۔ (دیباچہ پیامِ مشرق)
یا پھر ہائنے کی ایک نظم کا حوالہ ہے جس میں وہ بقولِ اقبال…’’اپنے آپ کو عالمِ خیال میں ایک ایرانی شاعر تصور کرتے ہوئے، جس کو جرمنی میں جلا وطن کر دیا گیا ہو، لکھتا ہے:
اے فردوسی، اے جامی، اے سعدی، تمھارا بھائی زندانِ غم میں اسیر، شیراز کے پھولوں کے لیے تڑپ رہا ہے۔ (دیباچہ: پیامِ مشرق)
بالِ جبریل میں فردوسی کے ایک شعر کی تضمین‘ اور مثنوی ’مسافر‘ میں ایک شعر کی تحلیل کے سوا فردوسی کا تذکرہ اگر کہیں ہے تو وہ بھی مثنوی ’مسافر‘ ہی کے دو اشعار ہیں، جن میں اسے نکتہ سنجِ طوس، اور دانائے طوس، کہا گیا ہے۔
نکتہ سنجِ طوس را دیدم بہ بزم
لشکرِ محمود را دیدم بہ بزم
دولتِ محمود را زیبا عروس
از حنا بندانِ اُو دانائے طوس
لیکن ایک عظیم رزم نگار، حکیم یا معلمِ اخلاق کی حیثیت سے فردوسی کا تذکرہ کہیں بھی نہیں ہے۔ ادبیاتِ عالم اور بالخصوص ادبیاتِ مشرق میں اقبال کو زندگی اور حُسن کے جن اقدار و تصورات کی تلاش تھی، غالباً فردوسی کے ہاں اُن کی جھلک کم سے کم تھی،…یہی سبب ہے کہ اقبال کے سارے کلام میں کہیں ایک بار بھی لفظ ’’شاہنامہ‘‘ کا ذکر نہیں آیا،… یہی صورت حال فارسی کے دوسرے بڑے مثنوی نگار مولانا نظامی کی بھی ہے، جو حماسہ سرائی (رزم نگاری) اور قدرتِ کلام میں کسی طرح بھی فردوسی سے کم نہیں، اُن کا ذکر بھی صرف پیامِ مشرق کے دیباچے میں ہوا ہے،…’ضربِ کلیم‘ کی ایک نظم ’’جاوید سے‘‘… میں اقبال نے نظامی کے یہ دو شعر تضمین کیے ہیں:
غافل منشین، نہ وقتِ بازی است
وقتِ ہنر است و کارسازی است
جائے کہ بزرگ بایدت بود
فرزندیِ من نداردت سود
پیامِ مشرق کے دیباچے میں اقبال نے نظامی کا یہ شعر نقل کیا ہے:
گفت کز جملۂ ولایتِ روس
بود شہری بہ نیکوئی چو عروس
ان مختصر تذکروں کے علاوہ فردوسی اور نظامی…اقبال کی ترجیحات میں کہیں اور دکھائی نہیں دیتے۔ اس سے بظاہر یہی نتیجہ برآمد کیا جا سکتا ہے کہ اقبال کو فردوسی اور نظامی کی افسانہ طرازی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور وہ ان کے کلام میں نئے اُبھرنے والے مشرق اور اسلامی تمدن کے لیے حیات آموزی اور حیات آفرینی کے زندہ عناصر نہیں دیکھتے تھے۔ حالانکہ شاہنامہ… فردوسی (یا ایرانِ قدیم) کے اخلاقی تصورات سے مملو ہے، لیکن یہ تصورات کسی فلسفۂ حیات سے مربوط نہیں،… نہ ہی ’شاہنامہ‘ کی کوئی ما بعد الطبیعیاتی اساس ہے، اقبال کی فارسی مثنویات میں کوئی مثنوی ’شاہنامہ‘ کی بحر میں نہیں، حالانکہ اس بحر کو مثنوی کے لیے اکثر موزوں سمجھا گیا ہے۔ البتہ پیامِ مشرق کی دو مختصر نظمیں…’پندِ باز با بچۂ خویش‘ اور ’طیارہ‘ اس بحر میں ضرور ہیں…رستم د ستان (شاہنامے کا ہیرو) کی قہر مانی اور سکندر اعظم (سکندر نامہ) کی کشور کشائی نے اقبال کی متخیلہ کو متاثر نہیں کیا، شاہنامے کے کرداروں کی زر دشتی مابعد الطبیعیات (نور و ظلمت کی آویزش) اقبال کے افکار سے زیادہ مناسبت نہیں رکھتی تھی۔اسی لیے مشرقی ادبیات کے اس عظیم شاہکار نے اقبال کے فکرو فن پر کوئی قابلِ ذکر اثر مرتب نہیں کیا، علاوہ ازیں شاہنامے کے کرداروں کی دیو مالائی تشکیل، انسانی تخیّل کی جس سرگرمی کانتیجہ ہے۔ اقبال کو اس سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ نظامی کی خیالی دُنیائے رزم و بزم میں بھی اقبال کے لیے زیادہ دل کشی کا سامان نہیں تھا۔
حکیم عمر خیام کا نام بھی اقبال کے ہاں صرف ایک جگہ ملتا ہے۔ جاوید نامہ کے ایک شعر میں مریخ کے انجم شناس کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ فارسی میں گفتگو کر رہا تھا:
آدمی را دید و چون گل بر شگفت
در زبانِ طوسی و خیام گفت
گویا اقبال نے خیام کو علمِ نجوم اور علم الافلاک کے تلازمات میں جانا ہے اور اس کی شاعری سے جو فی الواقعہ اقبال کی رُوح شاعری سے قطبین کے فاصلے پر ہے، چنداں اعتنا نہیں کیا۔ ایرانی شعرا کے بعد اقبال نے برصغیر کے جن فارسی گو شعرا کو اہمیت دی ہے، وہ حضرت امیر خسرو، عرفی، نظیری، صائب، ابو طالب کلیم اور ملا غنی کاشمیری ہیں تاہم امیر خسرو کا تذکرہ چند قطعات میں بر بنائے عقیدت کیا ہے:
رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی
ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمۂ خسرو
ایک دو اشعار یا مصرعوں کی تضمین کے سوا خسرو کا تذکرہ کہیں نہیں۔ البتہ عرفی کے بعض اشعار کی تحلیل یا تضمین کی گئی ہے،… اور ایک اُردو نظم میں اسے بھر پور خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے، یقینا عرفی کا فلسفیانہ اُسلوبِ شاعری، اس کی بلند آہنگی اور اس کی ’انانیت‘ اور خود نمائی، فلسفیانہ مفہوم میں اقبال کے لیے قدرو قیمت کی حامل تھی، نظیری کے تغزل اور ابو طالب کلیم کی معنی آفرینی نے بھی اُنھیں خاصا متاثر کیا…غنی کا شمیری سے اقبال کو ایک گو نہ جذباتی وابستگی ہے ، اپنی ایک فارسی نظم (غنی کشمیری: پیامِ مشرق) میں اُنھوں نے اس روایت کو منظوم کیا ہے کہ ملا غنی جب گھر میں ہوتے تھے تو گھر کا دروازہ بند رکھتے تھے، گھر سے باہر جاتے تو دروازہ کھلا چھوڑ دیتے، لوگوں نے استفسار کیا تو کہا کہ میرے گھر میں مجھ سے زیادہ قیمتی چیز اور کون سی ہے جس کی حفاظت کے لیے دروازہ بند کیا جائے۔ جاوید نامہ میں غنی کشمیری کو امیر کبیر سیّدعلی ہمدانی کے ساتھ جنت الفردوس میں دکھایا گیا ہے اور اس کی زبان سے خطۂ کشمیر کے حسن اور علم پروری کی تحسین کی گئی ہے اور اس کی نجات کی دُعا کی گئی ہے،…اقبال نے اپنی ایک مشہور اُردو نظم ’خطاب بہ نوجوانانِ اسلام‘ میں غنی کے اس شعر کو تضمین کیا ہے:
غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعان را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
ان شعرا کے علاوہ، جن کا ان سطور میں تذکرہ کیا گیا،…ایران اور بر صغیر کے بے شمار فارسی گو شعرا ہیں جن کے اشعار کی تحلیل و تضمین اقبال کے ہاں ملتی ہے، یا کسی نہ کسی صورت میں ان کا تذکرہ موجود ہے،… پھر بھی ان کے ناموں کی فہرست کو ایک نظر دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کا فارسی شعر و ادب کا مطالعہ کتنا وسیع اور عمیق تھا، اور اُنھیں قدرت نے اخذ و اکتساب کی غیر معمولی صلاحیتیں عطا کی تھیں…اگر اُنھیں کسی شاعر کا صرف ایک شعر بھی ایسا ملا ہے جو اُسلوب یا معانی و مطالب کے اعتبار سے قابلِ قدر ہے، تو اُنھوں نے اس کی تضمین کی ہے، یا اسے کسی ایسے عنوان سے نقل کیا ہے کہ شعر زندہ ہو گیا ہے۔ عزت بخاری، گیارہویں صدی ہجری کے ایک بے حد کم معروف شاعر ہیں لیکن اُن کے ایک شعر نے اقبال کے جذبے اور تخیّل کو اتنا متاثر کیا ہے کہ ارمغانِ حجاز کے ایک باب ’حضورِ رسالتؐ‘ کا ضمنی عنوان یہی شعر ہے، اس میں شک نہیں کہ شعر اپنے جذبے اور اُسلوب کے اعتبار سے واقعی بلند پایہ ہے،… لیکن یہ اقبال کی نگاہِ جوہر شناس تھی جو فارسی ادب کے دو اوین کے انبار سے اس جوہر پارے کو نکال لائی…اور جدید اسلامی دُنیا کے لیے اس کو زندہ، بلکہ زندۂِ جاوید کر دیا،… شعر ہے:
ادب گاہیست زیرِ آسمان از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جُنیدؓ و بایزیدؓ اینجا!
فارسی کے ایسے بہت سے معاصر یا ماضیِ قریب کے شعرا کا ذکر بھی ان کی تحریروں اور ان کی شاعری میں ملتا ہے،… جن میں کچھ تو شہرۂِ آفاق ہوئے اور کچھ گم نام ہی رہے، لیکن اقبال کی تحسینِ شعری کے لیے کوئی چیز بھی حجابِ نظر کا نام نہیں دیتی تھی۔ وہ اچھے شعر کی داد و تحسین میں کبھی کمی نہیں کرتے تھے،… اُن کی نظر فارسی کے تمام اہم اور غیر اہم شعرا کے کلام کے قابل قدر حصوں، اور فارسی شاعری کے تمام اسالیب پر تھی،… اُن کی فنی ترجیحات میں فکر و خیال کی رفعت کے ساتھ ساتھ بیان کی ندرت اور دلکشی بھی تھی، محوی دکنی کے اس شعر کی داد اُنھوں نے محض ندرتِ خیال کی بنا پر دی ہے:
نگاہ کردنِ دُزدیدہ ام بہ بزم بدید
میانِ چیدنِ گل باغبان گرفت مرا!
اقبال…فارسی کے عظیم شاعر تھے،… لیکن اس کے ساتھ ہی وہ فارسی شاعری کے ایک عظیم نقاد بھی تھے اور اُن کی براہِ راست یا با لواسطہ تنقید…فارسی شاعری کی تنقید میں بذاتِ خود ایک دبستان کا درجہ رکھتی ہے۔
حواشی
۱- مرقع چغتائی۔ پیش لفظ۔
2- "In words like cut jewels, Hafiz put the sweet unconscious spirituality of nightingale". Stray Reflections, p.152.
۳- مکتوب بنام مہاراجہ سرکشن پرشاد، مورخہ ۳ اپریل ۱۹۱۴ئ۔
4- "And so in this Dante, as we said , had later silent centuries, in a very strang way, found a voice" Carlyle:: On Heroes and Heroworship.