اقبال کے شہرۂِ آفاق خطبات…جو ’’مدراس مسلم ایسوسی ایشن‘‘ کی دعوت پر مرتب ہوئے اور مدراس، حیدر آباد (دکن) اور علی گڑھ میں دیے گئے، مجموعی صورت میں پہلی بار ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئے۔ اس وقت یہ چھ خطبات تھے۔ اس لیے انھیں (six lectures) کہا جاتا رہا۔ ان خطبات کا ساتواں خطبہ۔ ’’کیا مذہب کا امکان ہے‘‘۔ ان میں بعد میں شامل کیا گیا۔ یہ مقالہ لندن کی ارسٹوٹی لین سوسائٹی، کی دعوت پر لکھا گیا تھا۔ اس اضافے اور بعض ترامیم کے ساتھ خطبات کا موجودہ متن ۱۹۳۴ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ ان خطبات نے جدید اسلامی فکر کی تاریخ میں بہت جلد ایک کلاسیک کی حیثیت اختیار کر لی۔ اور عصرِ حاضر کی اسلامی فکر و دانش پر اس کے اثرات بہت گہرے اور دور رس ثابت ہوئے۔ ان خطبات نے برصغیر کے جدید تعلیم یافتہ اور تعلیماتِ اسلامی میں بصیرت حاصل کرنے کے خواہشمند لوگوں کو شروع ہی میں چونکا دیا تھا، اس لیے کہ یہ واقعی اسلام اور قرآن کے بارے میں غائر مطالعے کا ثمرہ اور عمیق بصیرت کے حامل تھے۔ یہ خطبات اس وقت شائع ہوئے جب اقبال کی شاعرانہ اور مفکر انہ حیثیت مسلَّم ہو چکی تھی، اور ان کی ہر بات کو وقعت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور گوشِ دل سے سنا جاتا تھا۔ لیکن ان خطبات پر اولیں تبصروں کا ریکارڈ محفوظ نہیں۔ البتہ سہ ماہی اسلامک کلچر حیدرآباد (دکن) کیشرہ اشاعت سے ان خطبات پر ایک تبصرہ ضرور سامنے آیا ہے۔ جو اولیں تبصرہ ہونے کی حیثیت سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے اس کی تاریخی اہمیت کے پیشِ نظر ایک نادر تبصرہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ تبصرہ حیدرآباد کوارٹرلی (انگریزی) کی ۱۹۳۱ء کی اشاعت میں شامل ہے، اس کا مطلب ہے کہ تبصرہ نگار کے پیشِ نظر خطبات کا وہ ایڈیشن ہے جو ۱۹۳۰ء میں شائع ہوا جو صرف چھ خطبات پر مشتمل تھا۔سہ ماہی اسلامک کلچر حیدرآباد (دکن) میں شائع ہونے والے تبصرے برصغیر کی علمی اور اسلامی دُنیا میں خاص اہمیت رکھتے تھے اور بالعموم حیدر آباد کے مقتدر ادیبوں اور نقادوں سے لکھوائے جاتے تھے۔ خیال رہے کہ سہ ماہی اسلامک کلچر حیدرآباد ،… بیسویں صدی کے رُبع اوّل کے اختتام پر مشہور انگریز نو مسلم اور قرآن کریم کے مشہورِ عالم انگریزی مترجم محمد مارما ڈیوک پکتھال نے حیدر آباد (دکن) سے جاری کیا تھا۔ اور وہی اس کے مدیر بھی تھے۔ اس مجلے کے قارئین کا حلقہ صرف برصغیر ہی نہیں۔ ایشیا،یورپ، افریقہ اور امریکہ تک پھیلا ہوا تھا۔ اس لیے اس میں شائع ہونے والی تحریروں کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ یہ مجلہ دراصل جدید تعلیم یافتہ مسلمان علما اور محققین کا ترجمان تھا۔ خطباتِ اقبال کا زیرِ نظر تبصرہ سہ ماہی اسلامک کلچر حیدرآباد کی ۱۹۳۱ء کی جلد میں صفحہ ۶۷۷ سے ۶۸۳ تک پھیلا ہوا ہے۔ تبصرے کے اختتام پر تبصرہ نگار نے اپنے پورے نام کی بجائے اپنے نام کے ابتدائی حروف یعنی M.P. لکھے ہیں چونکہ مجلے کی لوح پر مارما ڈیوک پکتھال کا نام مدیر کی حیثیت میں لکھا ہوا ہے، اس لے یہ قیاس کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ تبصرہ نگار خود مارماڈیوک پکتھال ہیں جنھیں جدید اسلامی دُنیا اُن کی خدمات کے پیشِ نظر احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اس تبصرے کی اہمیت کئی اعتبار سے ہے۔ ایک تو یہ کہ خطباتِ اقبال پر غالباً یہ اولیں تبصرہ ہے جس کا لکھنے والا ایک سنجیدہ علمی حلقے سے تعلق رکھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ مبصّر…جدید اسلامی دُنیا میں خود بھی ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہے، اور عصرِ حاضر میں اسلام کی علمی سر بلندی اور علومِ اسلامی کے احیا کے عمل میں فعال حیثیت سے شامل رہا ہے۔ محمدمارماڈیوک پکتھال کے بارے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اُنھوں نے بھی مدراس کی اُسی تنظیم یعنی مدراس مسلم ایسوسی ایشن کی دعوت پر مدراس میں خطبات دیے، جس کی دعوت پر علامہ اقبال نے اپنے خطبات مرتب کیے تھے۔ پکتھال کے لیکچرز تعداد میں آٹھ تھے اور Cultural side of Islam کے نام سے شائع ہوئے۔ پکتھال کے یہ خطبات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ہندو طلبا کے نصاب میں شامل تھے (تہذیبِ اسلامی، کے نام سے ان خطبات کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے) قرآنِ کریم کے مترجم اور ایک نو مسلم عالم کی حیثیت سے پکتھال کی بالغ نظری اور فکرِ اسلامی کے ساتھ ان کی گہری وابستگی کا اندازہ اُن کے اپنے خطبات کے ایک اقتباس سے کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں قرآنِ کریم اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کی مرکزیت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
ہر وہ شخص جسے قرآنِ کریم کے مطالعے کی سعادت نصیب ہوئی ہے، تسلیم کرے گا کہ قرآنِ کریم ان لوگوں کے لیے جو اس کی تعلیمات پر عامل ہوں، اس دُنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کا وعدہ کرتا ہے۔ نیز یہ کہ قرآنِ کریم کے پیشِ نظر بنی نوع انسان کی فلاح و کامرانی ہے جو قوائے انسانی کی بالیدگی اور عطیاتِ الٰہی کی آراستگی سے نصیب ہو سکتی ہے۔ اگر مسلمانوں نے کوئی ایسا طریقِ زندگی یا طرزِ عمل اختیار کر لیا ہے، جو تعلیماتِ قرآنی اور صریح احکامِ نبویؐ پر مبنی نہیں، تو وہ ایک غیر اسلامی طریق ہے، جس کا سراغ نظامِ اسلامی کے باہر ملے گا۔ مسلمانوں کو کوئی غیر شرعی نظام قبول کر کے، خواہ وہ بظاہر اُن کی ترقی کے راستے میں حارج نظر نہ آتا ہو، فلاح و کامیابی کی اُمید نہ رکھنی چاہیے۔ ہر نیا آئین جو تعلیماتِ قرآنی کے صریح منافی اور ہادیِ برحقؐ کی تعلیم و عمل کے مخالف ہوگا، مسلمانوں پر کامیابی کی راہیں مسدود کر دے گا۔ مسلمانوں کے لیے کسی غیر اسلامی آئین کا اختیار کرنا اپنے آپ کو ورطۂِ ہلاکت میں ڈالنا ہے ۔۱؎
غرض خطباتِ اقبال، کے اولیں انگریزی مبصّر …محمد مارما ڈیوک پکتھال، خود بھی علومِ اسلامی کے احیا کی تاریخ میں امتیاز کے حامل ہیں۔ اُن کا تبصرہ (انگریزی زبان میں) ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔ جن سے خود علامہ اقبال نے اپنے خطبات کے دیباچے کا آغاز کیا ہے، اور وہ الفاظ ہیں:
قرآنِ کریم ایک ایسی کتاب ہے جو ’فکر‘ کی بجاے ’عمل‘ پر زور دیتی ہے، یوں بھی بعض طبائع میں قدرتاً (خلقاً) یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ایک ایسی کائنات کو جسے ہم اپنے آپ سے بیگانہ پاتے ہیں۔ اس مخصوص باطنی واردات کو ایک قوی الاثر عمل کے طور پر تازہ کر کے، خود میں جذب کر لیں جس (باطنی واردات) پر آخر کار ایمان و یقین کا انحصار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں جدید (عہد کے) انسان نے اپنے آپ کو ’محسوس‘ کا خوگر کر کے یعنی ایسی فکر کو ترقی دے کر جو اشیا اور حوادث کی دُنیا سے متعلق رہتی ہے۔ (گویہ فکری میلان خود اسلام نے اور نہیں تو کم از کم اپنے تہذیبی نشو و ارتقا کے ابتدائی ادوار میں ضرور اُبھارا تھا) خود کو ایسی (باطنی) واردات کا اہل نہیں رہنے دیا۔ وہ (جدید انسان) ان واردات کو شک و شبہ کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ کیونکہ (علمی نقطۂ نظر سے) ان میں وہم والتباس آفرینی کے تمام امکانات موجود ہیں۔۲؎
اس اقتباس کے بعد مبصّر (پکتھال) کا اپنا تبصرہ شروع ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
یوں سر محمد اقبال چھ خطبات پر جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہیں، اپنے دیباچے کا آغاز کرتے ہیں، خود خطبات ایک کوشش ہیں اس ’عمل‘ میں چھپے ’فکر‘ کی توضیح کی جس پر قرآن نے زور دیا ہے، نیز یہ اس خصوصی مذہبی تجربے (باطنی واردات) کو اُن اصطلاحات میں بیان کرنے کی کوشش بھی ہے جو ’جدید انسان‘ کے لیے قابلِ فہم ہوں! کوئی شخص یہ استدلال پیش کر سکتا ہے کہ قرآن کی زبان (تو) غایت درجے میں واضح ہے۔ اور مصنف (یعنی اقبال کے نقطۂ نظر سے) وہ ذہن جو اس قسم کی (فلسفیانہ اصطلاحات سے مملو) توضیحات کا تقاضا کر سکتا ہے۔ گم گشتہ اور کسی حد تک کج رو (یا کج بین) ہی قرار دیا جا سکتا ہے، خوش بختی سے’جدید انسانوں‘ کی اکثریت اس نوع کی گم گشتگی (اور کجروی) سے پاک ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ ایسے ذہنوں کی (دُنیا میں) کمی نہیں جو کسی بھی ایسی صداقت کو سنجیدگی کے ساتھ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو جدید سائنسی فلسفے کی مشکل اور ادق اصطلاحات میں ملفوف نہ ہو۔ اور ایسے ذہن اکثر تکنیکی لوگوں کے ہی ہوتے ہیں اور چونکہ یہ ایک تکنیکی عہد ہے، اس لیے (ایسے ذہنوں کے حامل لوگوں کو) مہذب یا ترقی یافتہ (elite) قرار دیا جاتا ہے۔ سر محمد اقبال ایسے لوگوں تک اُن کی اپنی زبان میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے سر گرم کار ہوئے ہیں۔ اور چونکہ اُنھیں ’ادق اصطلاحات‘ کے استعمال پر مکمل قُدرت حاصلہ ہے، اس لیے یہ بات یقینی ہے کہ اُنھیں (اقبال کو) ایسے لوگوں سے احترام آمیز سماعت حاصل ہوگی۔ ہم اس بات پر حیرت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ آخر ان لوگوں پر ان خطبات کا کیا اثر ہوا جنھوں نے انھیں ’سماعت‘کیا،…! یہ خطبات تو واضح طور پر پڑھے جانے کے لیے ہیں۔ نہایت احتیاط اور غور و فکر سے پـڑھے جانے کے لیے، یہ (خطبات ) فکر سے لبریز عبارات و تراکیب سے اس طرح مملو ہیں، اور ایسے پیراگرافوں سے عبارت ہیں جن کے مطالب مکرر مطالعے سے ہی منکشف ہو سکتے ہیں۔ ان خطبات نے یقینا اُن سامعین کو مبہوت اور حیرت زدہ کر دیا ہوگا۔ جنھوں نے انھیں مدراس، حیدر آباد (دکن) اور علی گڑھ میں سنا ہوگا۔ اس حیرت زدگی اور حواس باختگی نے بے شک اس رائے کو راہ دی ہوگی جو ہم تک بھی پہنچی ہے(یعنی) سر محمد اقبال نے اسلام کی بیّن روشنی کو دُھندلا دیا ہے۔ (لیکن) یہ رائے غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ یہ حقیقت نہیں ہے، سر محمد اقبال نے اس کے برعکس، ان خطبات کے ذریعے اسلام کی وہ بہترین خدمت سر انجام دی ہے۔ جو آج کسی بھی مسلمان کے لیے ممکن ہو سکتی ہے۔ (اقبال) نے جدید افکار کے پنڈتوں،۳؎ کے رُوبرو اُن کی اپنی زبان میں…اور اس علمیّت کے ساتھ جو ان کی علمیّت سے کسی طرح کم نہیں، ثابت کر دکھایا ہے کہ اسلام فی الحقیقت اُنھیں (یعنی جدید افکار کے علمبرداروں) کا مذہب ہے،…اگرچہ وہ اس حقیقت کو جانتے نہیں۔
یہ اس تبصرے کا ابتدائی حصہ ہے جس میں غالبا ً پہلی بار کوئی محقق یا دانشور ان خطبات کی علمی قدرو قیمت کا جائزہ لے رہا ہے؛اس تبصرے کے آغاز میں بظاہر احساس ہوتا ہے کہ مبصّر بین السطور اس بات پر طنز کر رہا ہے کہ قرآن کریم نے تو ’فکر‘ کی بجائے ’عمل‘ پر زور دیا ہے، لیکن اقبال اسی ’عمل‘ میں مضمر…فکری مشتملات کو بیان کرنے کی سعی کر رہے ہیں، اسی طرح فنّی یا علمی اصطلاحات کے لیے jargon (اصطلاحات کا گورکھ دھندا) کا استعمال بھی ظاہر کرتا ہے کہ مبصر کا اندازِ بیاں کسی قدر طنزیہ ضرور ہے۔ مبصر کا دعویٰ ہے کہ اصطلاحات سے لبریز زبان کا تقاضا صرف گم گشتہ (bewildered) اور کج فکر (pervert) ذہن ہی کرتے ہیں، جو صداقت کو سادہ پیرائے میں پسند نہیں کرتے، اور یہ خوش قسمتی ہے کہ ایسے گم گشتہ اور کج فکر ذہن زیادہ نہیں ہیں۔ اور اگر ہیں بھی تو اُن کے لیے سر محمد اقبال نے یہ خطبات تحریر کیے ہیں۔ اس تبصرے کا آغاز کچھ اسی طرح سے ہوا ہے، لیکن جیسے جیسے تبصرہ آگے بڑھتا ہے، مبصر کو خطبات کی علمی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے، اور وہ اسے عصرِحاضر میں اسلام کی سب سے بڑی اور بہترین خدمت قرار دیتا ہے کہ اسلام کے حقائق و عقائد کو جدید علمی زبان میں بیان کیا جائے، ہوسکتا ہے اس طنزیہ پیرائے میں مبصر کا روئے سخن اقبال سے زیادہ مغرب کے مادہ پسند گم گشتہ،…اور’ کج بین و کج فکر‘ ذہنوں کی طرف ہو، جو سادہ حقیقت کو بھی اصطلاحات کے گورکھ دھندے میں اُلجھادیتے ہیں…بہرحال، مبصر فوری طور پر تسلیم کرنے پر آمادہ ہے، کہ خطبات کے ذریعے اقبال نے (عصرِ حاضر میں) اسلام کی بہت بڑی خدمت سر انجام دی ہے،!
صرف یہی نہیں علامہ اقبال نے کچھ اور بھی کیا ہے۔ وہ اسلامی تعلیمات کی کچھ ایسی صداقتوں کو سامنے لے آئے ہیں جنھیں خود مسلمانوں نے بھی غلط سمجھا تھا، یا پھر اُنھیں نظر انداز کر رکھا تھا۔ اس سلسلے میں ہم صرف ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں ’’خاتم النبیّینؐ کے اصل معنی (کیا ہیں؟) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آخری نبی اور رسول ہیں۔ اس لیے ان کے پیغام نے استقرائی طریقِ تفکر (inductive method of reasoning) کو جاری کر کے، انسان کو مطالعۂ فطرت اور مظاہر و حقائق (خارجی) کے تجزئیے پر آمادہ کر کے انسان کو ’’صراطِ ترقی‘‘ پر گامزن کر دیا ہے۔ اس لیے اب اس الہامی ہدایت کی ضرورت نہیں رہی جو نوع انسان کے عہدِ طفولیت میں ضروری تھی۔ تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اب اللہ تعالیٰ انسانوں کو ہدایت اور رہنمائی نہیں دیتے بلکہ (اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ) اب انسان بذاتِ خود اس حیثیت میں ہے کہ اس ہدایت کی جستجو کر سکے، اور خدائی منصوبے کا ایک جزو ہے کہ وہ خود ایسا کرے (یعنی انسان خود اپنے لیے ہدایت و رہبری کی تلاش کرے‘‘)۔
تبصرے کا بیشتر حصہ یہاں ختم ہو جاتا ہے، اس کے بعد خطبات اقبال سے طویل اقتباسات نقل کیے گئے ہیں،…اور ان اقتباسات کے ساتھ ہی تبصرہ اختتام پذیر ہو جاتا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر ان خطبات کے بارے میں اقبال کے اپنے خیالات و محرکات کا بھی کسی قدر سراغ لگایا جائے،…اس سوال کا جواب کہ خود اقبال کے نزدیک ان خطبات کے اولیں مخاطب کون ہیں، خود اقبال ہی کے الفاظ میں یہ ہے،…اپنے دیرینہ دوست میر غلام بھیک نیرنگ کو ایک مکتوب میں اقبال نے ان خطبات کے بارے میں ۵ دسمبر ۱۹۲۸ء کو لکھا:
…باقی رہا لیکچروں کے ترجمے کا کام۔ سو یہ کام نا ممکن نہیں تو مشکل اور از بس مشکل ضرور ہے۔ ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں اور اس بات کے خواہشمند ہیں کہ فلسفۂ اسلام کو فلسفۂ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے۔ میرا کام زیادہ تر تعمیری ہے، اور اس تعمیر میں مَیں نے فلسفۂ اسلام کی بہترین روایات کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔ مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اُردو خواں دُنیا کو شاید ان سے فائدہ نہ پہنچے، کیونکہ بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے والے یا سننے والے کو پہلے سے حاصل ہے، اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔۴؎
اس خط سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال کے نزدیک :
۱-ان خطبات کے مخاطب خود مسلمان ہی ہیں
۲-تاہم، ایسے مسلمان جو فلسفۂ اسلام کو فلسفۂ جدید کی زبان میں سمجھنا چاہتے ہیں
۳-ان خطبات کا ایک مقصد پرانے مذہبی افکار میں ترمیم و تنسیخ بھی ہے۔
۴- یہ اور بات ہے کہ اقبال کے نزدیک عام اُردو خواں ان خطبات (یا ان کے ترجمے؟) سے زیادہ استفادہ نہیں کر سکتا، کیونکہ ان کو لکھتے ہوئے سامع یا قاری کے بارے میں فرض کر لیا گیا ہے کہ وہ فلسفے کے بہت سے مسائل سے آگاہ ہے۔
تبصرے کے مزید اقتباسات پیش کرنے سے پیشتر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ختم نبوت کے تصور کے بارے میں اقبال کے افکار خود اقبال ہی کی زبان میں پیش کیے جائیں۔ اقبال کے یہ افکار ہمیں اُن کے پانچویں خطبے میں ملتے ہیں۔ جس کا عنوان ہے: ’اسلامی ثقافت کی رُوح‘،۵؎…اس خطبے کے آغاز میں اقبال نے شعورِ نبوت اور شعورِ ولایت کے امتیازات اختصار کے ساتھ بیان کیے ہیں… اسی مبحث میں وہ عقہدۂِ ختم نبوت کو اسلام کا ایک نہایت ہی اہم اور بُنیادی تصور قرار دیتے ہیں، لیکن اس عقیدے کی تشریح میں اُنھوں نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اسے وہ ’’عقیدۂِ ختم نبوت کی ثقافتی قدر و قیمت‘‘ کی توضیح قرار دیتے ہیں۔ اس موضوع پر اقبال کے یہ خیالات بے حد نادر اور حیرت انگیز وسعتِ نظر کے حامل ہیں، چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
’’ایک اعتبار سے نبوت کی تعریف یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ یہ شعورِ ولایت کی وہ شکل ہے، جس میں وارداتِ اتحاد (unitary experience) اپنی حدود سے تجاوز کر جاتی ہیں، اور اُن قوتوں کی پھر سے رہنمائی یا از سر نو تشکیل کے وسائل ڈھونڈتی ہیں جو حیاتِ اجتماعیہ کی صورت گر ہیں۔ گویا انبیاء کی ذات میں زندگی کا متناہی مرکز (یعنی انسانی خودی) اپنے لامتناہی اعماق میں ڈوب جاتا ہے۔ تو اس لیے کہ پھر ایک تازہ قوت اور زور سے اُبھر سکے۔ وہ ماضی کو مٹاتا اور پھر زندگی کی نئی نئی راہیں منکشف کر دیتا ہے ‘‘۔۶؎
اس نکتے کی وضاحت کے بعد اقبال وحی کو اس کے نہایت عمومی مفہوم میں بیان کرتے ہیں اور اسے فطرت کی ایک عمومی رہنمائی قرار دیتے ہیں، لیکن تسلیم کرتے ہیں کہ مراحل کے اختلاف سے یا نشو و نما کے مدارج کی رعایت سے اس کی ماہیت اور نوعیت بھی بدلتی جاتی ہے۔ اس استدلال کی اگلی کڑی یہ ہے کہ شعورِ نبوت کو ’’کفایتِ فکر‘‘ اور’’ انتخاب‘‘سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس بے حد نازک اور دقیق مسئلے کو اقبال نے جدید انسانی تمدن کی امتیازی خوبی (یعنی استقرائی یا تجربی طریق کار) کے پس منظر میں رکھ کر دیکھنے کی سعی کی ہے۔ اس خاص نکتے کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یوں نظر آئے گا جیسے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذاتِ گرامی کی حیثیت دُنیائے قدیم اور جدید کے درمیان ایک واسطے کی ہے۔ بہ اعتبار اپنے سرچشمۂ وحی کے آپؐ کا تعلق دُنیائے قدیم سے ہے، لیکن بہ اعتبار اس کی رُوح کے دُنیائے جدید سے۔ یہ آپؐ ہی کا وجود ہے کہ زندگی پر علم و حکمت کے وہ تازہ سر چشمے منکشف ہوئے جو اس کے آئندہ رُخ کے عین مطابق تھے۔ لہٰذا اسلام کا ظہور جیسا کہ آگے چل کر خاطر خواہ طریق پر ثابت کر دیا جائے گا، استقرائی عمل کا ظہور ہے۔ اسلام میں نبوت چونکہ اپنے معراجِ کمال کو پہنچ گئی تھی۔ لہٰذا اس کا خاتمہ ضروری ہو گیا…اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وارداتِ باطن کی کوئی بھی شکل ہو، ہمیں بہر حال حق پہنچتا ہے کہ عقل اور فکر سے کام لیتے ہوئے اس پر آزادی کے ساتھ تنقید کریں، اس لیے کہ اگر ہم نے ختمِ نبوت کو مان لیا تو گویا عقیدۃً یہ بھی مان لیا کہ اب کسی شخص کو اس دعویٰ کا حق نہیں پہنچتا کہ اس کے علم کا تعلق چونکہ کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے، لہٰذا ہمیں اس کی اطاعت لازم آتی ہے۔
ان طویل اقتباسات کو یہاں نقل کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ ختمِنبوت جیسے اہم عقیدے یا۔ تصور کے بارے میں اقبال کی تشریحات و توضیحات کے اہم تر اجزا ایک نظر میں سامنے آسکیں اور ان کا موازنہ اُس نہایت مختصر استدراک سے کیا جا سکے جو ہمیں محمد مارماڈیوک پکتھال کے تبصرے میں ملتا ہے۔ پکتھال کے ملخص سے محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کے نزدیک ختمِ نبوت کی غایت صرف یہ ہے کہ انسان اپنی عقل و فکر سے کام لے سکے، اور اسی لیے اسلام نے مسلمانوں میں عمل اور استقرائی طریقِ علم کو فروغ دینے کی سعی بلیغ کی ہے، اگرچہ اقبال کے استدلال کا ایک جزو یقینا یہی ہے لیکن اقبال کا استدلال صرف یہیں ختم نہیں ہو جاتا، اس لیے کہ اگر یہ استدلال یہیں ختم کر دیا جائے تو اس کا مطلب لازمی طور پر یہ ہوگا کہ اب انسان کو شعورِ نبوت سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ اپنی عقل اور تجربے سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ لیکن اقبال کے استدلال کے بعض حصے جو اُوپر کی سطور میں نقل کیے گئے، صراحتہً ثابت کرتے ہیں کہ اقبال کا مطلب صرف یہ نہیں…بلکہ اُن کے نزدیک ختمِ نبوت کے عقیدے کا لازمی نتیجہ یہ طرزِ عمل ہے کہ اب ہمارے لیے کسی بھی انسان کی رُوحانی واردات اس طرح حُجّت نہیں کہ ہم اُسے ماننے اور اس کو پیش کرنے والے کی اطاعت کرنے پر مجبور ہوں، اس لیے کہ ماننے اور اطاعت کرنے کے لیے مکمل ترین ضابطہ، بلند ترین انسانی معیار ہمارے سامنے آچکا ہے۔ اور اب اگر ہمیں باطنی ذرائع سے علم حاصل کرنا ہو تو اس کے لیے ہمیں اپنے تنقیدی شعور کو بھی مسلسل بیدار اور مصروفِ کار رکھنا ہوگا۔ اقبال نے اس ساری بحث میں کہیں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ختمِ نبوت کی توضیح و توجیہہ میں جو کچھ وہ کَہ رہے ہیں، وہ آخری اور قطعی حیثیت رکھتا ہے یا ختمِ نبوت کی تمام ترحکمت کا احاطہ کرتا ہے…شاید اقبال کا مقصود بھی یہ نہیں تھا، وہ تو اس تصور کے نفسیاتی اور تمدنی پہلوئوں سے بحث کر رہتے تھے، اور اس میں شک نہیں کہ اُنھوں نے پہلی بار اس تصور کی فلسفیانہ اور تاریخی توجیہ پیش کی جو ہر حال میں خیال انگیز اور تجزیاتی ہے۔
پکتھال کے تبصرے کا دُوسرا حصہ خطباتِ اقبال کے طویل اقتباسات پر مشتمل ہے جن میں اقبال نے اس بات کی وضاحت کی کہ قرآن نے تاریخ اور روایات کو کس طرح قبول کیا ہے۔ اور کس طرح بیان کیا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال نے ’قصۂِ آدم کا بطورِ خاص حوالہ دیا ہے…چنانچہ پکتھال اپنے تبصرے میں کہتے ہیں:
قرآنِ کریم میں انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جو قصص بیان ہوئے ہیں، اُنھیں جب ہم بائبل اور دوسری مقدس کتابوں میں بطور تاریخی حکایات کے دیکھتے ہیں تو قصص القرآن کی حکمت اور عقلیت ہمیں غیر معمولی دکھائی دیتی ہے۔ اس حقیقت کو بہت کم لوگوں نے محسوس کیا ہے: اور ہم بطورِ خاص سر محمد اقبال کے ممنون ہیں کہ اُنھوں نے ہماری سنجیدہ توجہ کو اِدھر مبذول کی ہے، مثال کے طور پر:
بہر حال ادب قدیم کا جائزہ لیجیے تو ہبوطِ آدم کے قصے کی ایک نہیں کئی شکلیں ملیں گی۔ رہا یہ امر کہ اس روایت کا ارتقا کس طرح ہوا، سو یہاں اس کی تفصیل ممکن نہیں۔ ہم ان مراحل کی حد بندی بھی نہیں کر سکتے جن سے گزر کر اس نے مختلف شکلیں اختیار کیں۔ بعینہ ہم ان مقاصد سے بھی بے خبر ہیں جو بتدریج ان گوناگوں تبدیلیوں کا سبب بنے۔ البتہ جہاں تک اس روایت کی سامی شکل کا تعلق ہے، ہم کَہ سکتے ہیں کہ اس میں غالباً شروع شروع کے انسان کی یہ خواہش کام کر رہی تھی کہ ایک ایسے ماحول میں جس سے وہ قطعا ً نامانوس تھا، جس میں موت ارزاں اور بیماریاں عام تھیں اور جہاں اس کو اپنا آپ برقرار رکھنے میں قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، اپنی زبوں حالی اور دُکھ درد کا اظہار کر سکے۔ وہ اس قابل تو تھا نہیں کہ قوائے فطرت کی تسخیر کرے، لہٰذا زندگی کے بارے میں اس نے قدرتاً ایک ایسا نظریہ اختیار کر لیا جس پر یاس اور قنوط کا غلبہ تھا۔ چنانچہ قدیم بابل کے ایک کتبے میں سانپ (لنگ) اور درخت اور عورت…مرد کو سیب (علامت بِکر) نذر کرتے ہوئے۔ سب ہی موجود ہیں۔ یہاں یہ کہنا لا حاصل ہوگا کہ اس قصے کا اشارہ کس طرف ہے۔ مسرت اور سعادت کی ایک مفروضہ حالت سے انسان کے اخراج کی طرف، مردوزن کی سب سے پہلے جنسی فعل کی پاداش میں…لیکن جونہی ہم اس روایت کا مقابلہ جو قرآنِ مجید میں بیان ہوئی ہے، ’کتابِ پیدائش‘ کی روایت سے کرتے ہیں۔ تو صاف نظر آنے لگتا ہے کہ اوّل الذکر کا انداز کس قدر مختلف ہے۔ لہٰذا قرآنِ مجید اور’عہد نامۂ عتیق‘ کی روایات کا یہی فرق اس امر کی دلیل ہے کہ قرآنِ پاک کا اس قصے سے کچھ اور ہی مقصد ہے…۔
یہ اقتباس اقبال کے تیسرے خطبے سے لیا گیا ہے۔ جس کا عنوان ہے:’’ذات الٰہیہ کا تصور اور …حقیقتِ دُعا‘‘…ظاہر ہے کہ فاضل مبصر نے اصل انگریزی متن سے ہی اقتباس پیش کیا ہے،…لیکن یہ اقتباس یہیں ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اسی تسلسل میں وہ تین نکات بھی من و عن نقل کیے گئے ہیں جو اقبال نے آدم و حوا اور ہبوطِ آدم کے بارے میں قرآنی روایت کی توضیح میں پیش کیے ہیں، علامہ پکتھال کے تبصرے پر اس استدراک کو مربوط رکھنے کے لیے ہم یہاں اقبال کے ان ’نکاتِ ثلاثہ‘ کی تلخیص پیش کرتے ہیں:
۱-قرآنِ کریم نے قصۂ آدم کو جنسی تلازمات سے الگ کرنے کے لیے سانپ اور پسلی کا ذکر نہیں کیا۔ اسی طرح قرآنِ کریم نے آدم و حوا کی بجائے صرف ’آدم‘ کا ذکر کیا ہے، اور آدم سے بھی کوئی مخصوص انسان مراد نہیں، بلکہ اس کی حیثیت ایک تصور کی ہے۔
۲-قرآنِ مجید نے قصۂ آدم کو دو الگ الگ حکایتوں میں تقسیم کیا ہے، ایک وہ جس میں صرف ’الشجرہ‘ کا ذکر آیا ہے، اور دوسری وہ جس میں ’شجرۃ الخلد‘ اور ’مُلکِ لا یبلی‘ کا۔ قرآنِ کریم کا ارشاد ہے کہ شیطان نے ’آدم اور اس کی بیوی‘ کو ورغلایا اور اُنھوں نے ممنوعہ درخت کا پھل چکھ لیا۔ عہد نامۂِ عتیق میں ہے کہ جونہی آدم سے اولیں گناہ سرزد ہوا۔ اسے باغِ عدن سے نکال دیا گیا، اور مزید سزا بھی دی گئی۔
۳-عہد نامۂ عتیق میں آدم کے جرمِ نافرمانی کی بنا پر زمین کو ملعون ٹھہرایا گیا، جب کہ قرآن کے نزدیک زمین انسان کا مستقر اور متاع ہے، جس کے لیے اسے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ قرآنِ کریم نے کہیں یہ نہیں کہا کہ آدم اُسی جنت سے نکالا گیا تھا جو نیکو کاروں کا دائمی مسکن ہے۔ قرآنِ پاک کی اس روایت میں جنت سے مراد حیاتِ انسانی کا ابتدائی دَور ہے، جس میں انسان کا اپنے ماحول سے ابھی عملاً کوئی رشتہ قائم نہیں ہوا تھا۔ اور انسان اپنی بے بسی اور حاجت مندی کے احساس سے عاری تھا۔
ان طویل اقتباسات کے بعدمبصّر ایک بار پھر خطبات کے کچھ اور مقامات سے ویسے ہی طویل اقتباسات پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ہم مجبور ہیں کہ اپنے قاری کے سامنے دو اور طویل اقتباسات پیش کریں، تا کہ ہم نے ان خطبات میں استعمال کی جانے والی ’’جدید‘‘ تراکیب و زبان اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ان خطبات کی گراں مائگی کے بارے جو جو کچھ کہا ہے، اس کو مثالوں سے ثابت کیا جا سکے۔
یہ طویل اقتباسات جن کو مبصّر نے نقل کیا ہے، خطبات کے ان مباحث سے متعلق ہیں جن میں اقبال نے کائنات اور وقت (زمان و مکاں) کی ماہیت کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے، اور ثابت کیا ہے کہ کائنات کوئی تکمیل یافتہ حقیقت نہیں بلکہ ہر لمحہ معرضِ وجود میں آرہی ہے۔ اس مبحث میں اقبال نے جدید سائنس اور بالخصوص طبیعات کے بدلے ہوئے نظریوں کی روشنی میں مادی کائنات کی غیر مادی تعبیر پیش کی ہے جس کی طرف خود جدید سائنس بھی مسلسل اشارے کر رہی ہے،…تبصرے میں نقل کیے گئے اس طویل اقتباس کا اختتام اس ٹکڑے پر ہوتا ہے:
…لیکن جیسا کہ ہم دیکھ آئے ہیں، زمان و مکاں اور مادہ بجائے خود ذاتِ الٰہیہ کی آزادانہ تخلیقی فعالیت کی وہ تعبیریں ہیں جو فکر نے اپنے رنگ میں کی ہیں، ان کا کوئی مستقل وجود نہیں کہ اپنے سہارے آپ قائم رہ سکیں۔ وہ محض عقل کے تعیّنات ہیں جن کے ذریعے ہمیں حیاتِ الٰہیہ کا ادراک ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب مشہور صوفی بزرگ حضرت بایزید بسطامی کے حلقے میں تخلیق کا مسئلہ زیر بحث تھا تو ایک مرید نے ہمارے عام نقطۂ نظر کی ترجمانی یہ کہتے ہوے بڑی خوبی سے کی کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب صرف خدا کا وجود تھا، اس کے سوا کچھ نہ تھا۔ لیکن اس کے جواب میں شیخ کی زبان سے جو الفاظ نکلے وہ اور بھی زیادہ معنی خیز تھے۔ شیخ نے فرمایا اور اب کیا ہے؟ اب بھی صرف خدا ہی کا وجود ہے۔ لہٰذا عالمِ مادیات کی یہ حیثیت نہیں کہ ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ شروع ہی سے موجود ہو، اور جس پر گویا وہ اب دور سے عمل کر رہا ہے۔ بلکہ ایک مسلسل عمل جس کو فکر نے الگ تھلگ اشیا کی کثرت میں تقسیم کر رکھا ہے۔۷؎
اس اقتباس کے ساتھ ہی زیرِ نظر تبصرہ بھی اپنے اختتام کو پہنچتا ہے،… مبصر کے اختتامی الفاظ یہ ہیں:
سر محمد اقبال کی (یہ) کتاب ایک مخصوص ذہنیت کے غیر مسلموں اور اُن مسلمانوں کے لیے لکھی گئی ہے جو ایک بدیسی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کیے باعث اس ذہنیت کا شکار ہو گئے ہیں۔ تاہم یہ کتاب اس بات کی حقدار ہے کہ وہ تمام لوگ جو اسلام یا جدید فلسفہ یا دونوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس کتاب کا مطالعہ نہایت غور و خوض کے ساتھ کریں۔
اس نسبتاً طویل تبصرے میں مبصر نے خطبات کے مباحث کو تین مقامات پر زیادہ قابلِ توجہ سمجھا ہے:
۱-عقیدۂِ ختم نبوت کے بارے میں اقبال کی فلسفیانہ اور نفسیاتی توضیحات
۲-آدم و حوا کے بارے میں قرآنی روایات کی توضیحات
۳-ماہیتِ زمان و مکان کے بارے میں اقبال کے نہایت عمیق و دقیق اور فلسفیانہ استدراکات۔
خطبات کے یہ تین مباحث جو جزوی طور پر پیش کیے گئے ہیں، خطبات کے تمام تر مباحث کی پوری طرح نمائندگی نہیں کرتے، لیکن مبصر اور تبصرے کی اپنی حدود ہوتی ہیں، پکتھال نے بہر حال اقتباسات کے لیے اہم مباحث ہی منتخب کیے ہیں۔
اگرچہ خطباتِ اقبال کے اولیں مبصر علامہ محمد مارما ڈیوک پکتھال ان خطبات کی علمی قدروقیمت اور اقبال کی خدمات کے معترف دکھائی دیتے ہیں، تاہم اس بات کو بھی بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اُنھیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ نہیں ہوا کہ اسلامی فکر کے احیا اور جدید اسلامی افکار کی پیش رفت میں ان خطبات کو کیا اہمیت حاصل ہونے والی ہے، اس تبصرے کے بین السطور سے اس بات کا اندازہ کر لینا بھی کچھ ایسا مشکل نہیں کہ پکتھال کے نزدیک اسلام کو جدید فلسفے کی زبان میں پیش کرنا مغرب کے بعض مخصوص اور محدود حلقوں کے لیے مناسب یا ضروری ہے، وگرنہ شاید اس کی چنداں ضرورت نہ تھی، اقبال نے اپنے خطبات میں جس وسعتِ مطالعہ، فکر کی گہرائی اور اسلامی مابعد الطبیعیات کے بارے میں حیرت انگیز بصیرت کا اظہار کیا ہے، اور جدید سائنسی افکار سے جو غیر معمولی واقفیت بہم پہنچائی ہے، خطبات کے مبصّر علامہ پکتھال کما حقہ، اس کی تحسین کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ اس کے باوجود یہ ایک علمی تبصرہ ضرور ہے، جس میں مبصر نے خطبات کے تین مباحث کو حوالہ بنایا ہے۔ اس تبصرے کی سب سے بڑی خوبی اس کی تاریخیت ہے۔ خطباتِ اقبال پر یہ کسی بھی زبان میں سب سے پہلا علمی تبصرہ ہے، جس میں گو کسی قدر تأمل اور احتیاط کے ساتھ۔ ان خطبات کی علمی اور فلسفیانہ قدرو قیمت کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ اور عصرِ حاضر میں اسلام کے لیے اقبال کی علمی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف بھی کیا گیا ہے۔
حواشی
۱- تہذیبِ اسلامی (محمد مارما ڈیوک پکتھال کے خطباتِ مدراس، ترجمہ از شیخ عطا اللہ، ایم۔ اے۔
۲- دیباچہ: تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ۔
۳- مبصّر نے انگریزی میں بھی یہی لفظ استعمال کیا ہے۔
۴- مکاتیبِ اقبال
۵- The Spirit of Islamic Culture
۶- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، ترجمہ از سیّدنذیر نیازی۔
۷- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ،تیسرا خطبہ’’ذاتِ الٰہیہ کا تصور اور حقیقتِ دُعا‘‘، ترجمہ از سیّدنذیر نیازی۔