[اسلامی افکار کے تناظر میں]
علامہ اقبال کے شہرۂِ آفاق خطبات جو انگریزی میں{Six Lectures On Reconstruction of Religious Thought In Islam} کے عنوان سے، اور اب اُردو میں تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ کے نام سے مشہور ہیں، عصرِ حاضر کے اسلامی افکار کی دُنیا میں ایک گراں قدر سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ اسلامی فکر کے ایک خاص پہلو کے بارے میں اقبال کے پیش رو مولانا شبلی نعمانی ’الکلام‘ اور ’علم الکلام‘ کے نام سے اسلام کی متکلمانہ تعبیر و توجیہ کی روایت اور اس کے بنیادی مسائل پر دو اہم کتابیں پیش کر چکے تھے۔ لیکن ان دونوں کتابوں کا تعلق اسلامی عقائد کی نظری سَمت سے تھا۔ اسلامی تمدن کی فلسفیانہ اساس مولانا شبلی کا موضوع نہیں تھی۔ اس سے پیشتر حجۃ اللّٰہ البالغۃ یقینا ایک ایسی تصنیف تھی جسے کئی صدیوں کے ذہنی اور فکری جمود کے بعد اسلامی فکر میں ایک انقلابی تموّج، اور ایک نئے موڑ کی حیثیت حاصل ہے، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی اس مجتہدانہ تصنیف میں اسلام کے عمرانی پہلوئوں کی فکر انگیز تشریح کی، اور اسلامی معاشرے میں کئی اعتبارات سے بعض بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ ایک نئی ترقی پسندانہ سوچ تھی جس نے مغل تہذیب کے زوال و انحطاط کی تاریک رات کی کوکھ سے جنم لیا تھا،…لیکن یہ ترقی پسند سوچ دین کی کوئی نئی تعبیر نہیں تھی، بلکہ مسلّمہ عقائد اور مستند روایات و تعبیرات کی روشنی میں ایک انحطاط پذیر مسلمان معاشرے میں ایک ایسی تبدیلی کا پیغام تھا جو مسلمانوں کو نہ صرف دین کی اخلاقی، روحانی اور معاشرتی تعلیمات کے قریب لا سکے، بلکہ انھیں تعلیمات کے فیضان سے اُن کی دُنیاوی زندگی کو بھی بہتر خطوط پر استوار کر سکے۔ حضرت شاہ ولی اللہ کا یہی وہ پیغامِ انقلاب تھا، جو تحریکِ مجاہدین، جنگِ آزادی (۱۸۵۷ئ) اور کئی دوسر دینی تحریکات اور احیائی میلانات میں ایک قوتِ محرکہ کی حیثیت سے کار فرما اور اثر انداز رہا۔ تاہم حضرت شاہ ولی اللہ کا فکری فریم ورک، مسلّمہ اور مروّجہ ما بعد الطبیعیات تھی، جسے اُنھوں نے وحدت الشہود کی بعض اصطلاحات کے علاوہ،…بہت سی ذاتی اصطلاحات کے ذریعے بیان کیا، لیکن اس بیانِ نَو کا مقصود اسلامی مابعد الطبیعیات کی تنظیم نَو نہیں، بلکہ اسلام کے معاشرتی اور عمرانی تصورات کی توضیح تھی۔ یہ اور بات ہے کہ حضرت شاہ صاحب کی تحریروں کا ایک بہت بڑا حصہ ان کے تصوف کی توضیحات پر مشتمل ہے۔ اگر عصرِ حاضر میں کوئی جدید اسلامی تصوف ہو سکتا ہے تو وہ شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی تصنیفات سے ہی برآمد ہوتا ہے۔ اُن کی خدمات اگرچہ گوناگوں ہیں، لیکن فکری سطح پر وہ اسلامی معاشرے میں نئے معاشرتی اور عمرانی انقلاب کے داعی، اور تصوف کی ایک نئی…اور نسبتاً زیادہ انسانی (human) اور عملی تعبیر کے بانی ہیں۔ اگر معروضی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو گذشتہ پانچ سو سال میں، برِ صغیر میں اسلام فکر کی نشو و ارتقا کے تین بڑے علاماتی نشان نظر آتے ہیں یہ خیال رہے کہ اس اسلامی فکر کے اجزا میں خالصتاً ما بعد الطبیعیاتی اور متصو فانہ افکار سے لے کر سیاسی عمرانی افکار (socio-political thought) کی کئی رَویں بھی شامل ہیں۔ لیکن ان سب تموجّات و تحریکات کے جذباتی مافیہ(emotional content) میں ایک بہت بڑی خواہش شامل رہی ہے، اور وہ تھی اسلامی معاشرے کے لیے حیاتِ نو اور اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کی خواہش جو حضرت مجدّدِ الفِ ثانی کے مکتوبات سے لے کر…اقبال کے مقالے’’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ تک…ہر صادقانہ علمی اور دینی خدمت میں نمایاں طور پر کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ بہر حال،…بر صغیر کی گذشتہ پانچ سو سال کی تاریخ میں تین تصنیفات کی علاماتی حیثیت اور قدر و قیمت ہے۔ یعنی حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی تصنیف حجۃ اللّٰہ البالغۃ اور علامہ اقبال کے خطبات یعنی تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ،…اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اس سارے عرصے میں اسلامی فکر کے بارے میں صرف یہی تین کام ہیں جو وقیع ہیں، اس سارے عرصے میں نہ معلوم کتنے ہزار بلکہ کتنے لاکھ صفحات اسلامی فکر اور اسلامی روایات کی تشریح و تدوین میں صرف ہوئے ہوں گے۔ انیسویں صدی میں خود سر سیّداحمد خاں بھی بذاتِ خود ایک دبستانِ فکر کی حیثیت رکھتے ہیں،…خیر آبادی مکتبِ فکر جس کی حُریّتِ فکر کو حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کی یاد ہمیشہ تازہ رکھتی ہے، اسلامی فکر کی بعض بہترین روایات کا امین رہا ہے،… یہی وہ خیر آبادی مکتب فکر ہے جس کے ایک فرزندِ گرامی کی تصنیف (رسالہ در ماہیت زماں از علامہ عبدالحق خیرآبادی) کی تلاش علامہ اقبال کو ایک طویل عرصے تک رہی،… اسی طرح اٹھارویں اور انیسویں صدی کے شمالی ہند میں کئی اور دبستان اور شخصیتیں ہیں جنھوں نے اسلامی فکر کے تحفّظ … اور اس کے بہترین اجزا کی نظم و ترکیب میں گراں قدر خدمات انجام دی ہوں گی، لیکن… ان پانچ سو
سالوں میں اسلامی فکر کے روشن ترین نقطے جن سے فکرِ تازہ کے آفتاب و ماہتاب طلوع ہوتے دکھائی دیتے ہیں…یہی تین ہیں: مکتوباتِ امامِ ربّانی، حجۃ اللّٰہ البالغۃ اور خطباتِ اقبال…ان تینوں نقاط میں ہمیں اسلامی فکر کی ربط و تنظیم اور تشکیلِ نَو کا ایک عمل واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ اور یہی وہ خصوصیت ہے جو اسلامی فکر کی تاریخ میں انھیں ایک ناقابلِ فراموش اجتماعی واردات (collective experience) کی حیثیت عطا کرتی ہے۔
’خطباتِ اقبال‘… اپنی دو پیش روعظیم تصانیف کے مقابلے میں ابھی بہت حد تک علمی اعتبار سے نادریافت شُدہ (undiscovered) ہے اس لیے کہ ابھی تک اس کے فکری مشتملات (thought contents) کی مناسب درجہ بندی نہیں ہو سکی، یعنی اس کے بنیادی فکری اجزا کو پوری طرح دریافت نہیں کیا جا سکا، ان خطبات میں عصرِ حاضر میں اسلام کی جن تمدنی ضرورتوں کا ذکر ملتا ہے، ان تمدنی ضرورتوں کو ابھی تک اُن کے پورے انسانی، تہذیبی اور اخلاقی سیاق و سباق کے ساتھ تسلیم نہیں کیا گیا، ابھی تک یہ بھی نہیں سمجھا جا سکا کہ ان خطبات کے فکری اجزا کا اقبال کی شاعری کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟ اور کیا ایسا کوئی رشتہ موجود ہے بھی یا نہیں؟ وہ علمی، منطقی اور سائنسی سولات، جن کے جوابات اقبال نے اسلامی فکر کی تاریخ میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے،…کیا مزید کسی تنقیح کے متقاضی نہیں؟ خطبات کا بھر پور علمی تجزیہ مشرق و مغرب کی بہت سی علمی اور فلسفیانہ روایات سے گہری واقفیت کا تقاضا کرتا ہے، نیز اس بات کی آگہی کا تقاضا بھی کرتا ہے آخر اقبال اسلامی فکر کو کیوں اس کی ثمریت یا نتیجہ خیزی (pragmatic value) کے نقطۂ نظر سے از سر نو متشکل کرنا چاہتے تھے۔ کیا بنیادی حوالوں کے ساتھ ایسا کرنا ممکن ہے بھی سہی یا نہیں؟ اور اگر ہے تو وہ کون سی شرائط ہیں جو اس عمل…(اسلامی فکر کی تشکیلِ نو) کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے ساتھ اس ثمریت یا نتیجہ خیزی کے معیار پر بھی پوری اُترتی ہوں، جو ان خطبات کی تسوید و تشکیل کے وقت اقبال کے پیش نظر تھی… اس میں شک نہیں کہ یہ خطبات ہماری دانش گاہوں میں فلسفے کے اعلیٰ نصابات میں شامل ہیں،…لیکن اگر ان خطبات کو اسلامی فکر کی تاریخ کے پس منظر میں رکھ کر نہ دیکھا جائے، اور عصر حاضر میں مسلمانوں کی تمدنی ضرورتوں کے ساتھ اس کے رشتے کی نوعیت کو نہ سمجھا جائے تو اس کی معنویت کا بہترین حصہ ہماری رسائی سے دور رہتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ خطبات اسلامی فکر کی تاریخ میں ایک سنگِ میل یا ایک نئے سر چشمۂ فیضان (source of inspiration) کی حیثیت رکھتے ہیں، ان خطبات نے احیائے اسلام کی جدید تحریکات کو ایک فکری جہت اور ذہنی ضخامت عطا کی ہے، ان خطبات کی خالصتاً فلسفیانہ قدر و قیمت کے باوصف، اُنھیں بجا طور پر عصر حاضر میں ایک نئے علم الکلام کا نقطۂ آغاز بھی کہا جا سکتا ہے، ان خطبات کی اشاعت مسلمانوں کے فلسفیانہ افکار کے مطالعے اور اُن کی تلاش و جستجو کے لیے ذوق و شوق کی محرک بھی بنی۔ ان خطبات نے گزرتے ہوئے حوالوں کے ذریعے ہی سہی،…مسلمان مفکروں، دانش وروں اور صوفیوں کے بعض ایسے احوال و اقوال کی جھلک دکھائی ہے، جن کے بارے میں فوری طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ ان میں اور عصر حاضر کے بلند ترین عمیق ترین فکر کے اسالیب میں بعض حیرت انگیز مشابہتیں موجود ہیں،…لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اقبال نے مغربی فکر اور اسلامی فکر میں جزوی یا کُلی مشابہتیں تلاش کی ہیں، یہ ان کا مقصود نہیں تھا۔ وہ تو ان خطبات میں، اور کئی باتوں کے علاوہ، یہ بھی دکھانا چاہتے تھے کہ کائنات کے بارے میں انسان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معلومات،…جدید طبیعیات سے اُبھرنے والے نئے تصورِ کائنات،…اور جدید نفسیاتی حقائق کی روشنی میں۔ نیز انسان کی جدید تر تمدنی ضرورتوں…اور فکری مسائل کی روشنی میں…اگر کسی ممکنہ مذہب کے خدو خال واضح ہوتے ہیں تو وہ اسلام ہی ہے، جس کے اساسی تصورات اور جس کی فکری روایات میں عصرِ حاضر کے ہر نئے چیلنج کو قبول کرنے…اور اسے رد کرنے یا اس کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
ان خطبات کو مرتب کرتے ہوئے اقبال کے پیشِ نظر فکرِ انسانی کی دو بڑی روایتیں یا دو بڑی دُنیائیں تھیں، مغربی فکر کی دُنیا، اور مشرقی فکر کی دُنیا، ان ہر دو دُنیائوں کے فکری تار و پود کا استقصا کرتے ہوئے ان کے پیش نظر ان دونوں کے قدیم و جدید مسائل بھی تھے،…وہ مسلمان صوفیا اور مفکروں کے افکار کے شارح ہی نہیں ناقد بھی ہیں،…ایک طرف تو وہ مغربی افکار کے مقابلے میں اسلامی فکر کی صحت اور صلابت کو واضح کرنا چاہتے ہیں، دوسری طرف مغربی فکر کے جدید ترین، بلند ترین اور روشن ترین نقطے بھی اُن کی نظر میں ہیں۔نیتشے، برگساں، وہائٹ ہیڈ، برٹرینڈرسل، ولیم جیمز، اوسپنسکی، یونگ اور سب سے بڑھ کر آئن اشٹائن جو جدید مغربی فکر اور سائنس کے معمارانِ اعظم ہیں، ہمہ وقت ان کے پیش نظر ہیں،…لیکن ان کی قدرومنزلت تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ وہ مغربی فکر کے داخلی تضادات اور اصلِ حقائق تک پہنچنے میں اس فکر کی نارسائی سے بھی بہت اچھی طرح واقف ہیں،…بلکہ اس سلسلے میں مغربی فکر کا کوئی اور نقاد…شاید ہی اُن کے فکر کی وسعت کو پہنچ سکے۔ اسی طرح وہ اسلامی فکر کے بہترین اجزا کی تنظیم و تشکیلِ نو اس طرح کرنا چاہتے ہیں کہ… ان فکری اجزا کے وہ معنوی مضمرات زیادہ روشن ہو سکیں، جن کا کوئی رشتہ عصرِحاضر کے فکری مسائل سے ہو، اور جو مسلمانوں کو باطنی زندگی کے احیا،… اور اجتماعی زندگی میں ’’اجتماعیت‘‘ کے اسلامی اُصول یاد دلا سکیں۔ اگر ان مقاصد کو سامنے رکھیں،…تو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ان خطبات کی تشکیل میں اقبال کی مشکلات کتنی گونا گوں ہوں گی… اور اُن کی نوعیت کیا رہی ہو گی پہلے دو خطبات میں اُن کا زور ان نکات پر ہے کہ جدید تجربی سائنس کا پیش رو اسلام ہی ہے جس نے استقرائی فکر (induction) کی حوصلہ افزائی کی۔ دُوسرا نکتہ یہ کہ جدید طبیعیات نے کائنات کی مادی تعبیر پر ضرب کاری لگا دی ہے، اب مادہ کوئی ایسی حقیقت نہیں رہا…جس کے ذریعے مادئیّن…مذہب کی صداقتوں کو فوری طور پر رد کر سکیں۔تیسرے اور چوتھے خطبے میں اسلام کی مابعد الطبیعیات کو نئے خطوط پر متشکل کرنے کی کوشش کی ہے،…اور انائے انسانی کو مرکزی حوالہ قرار دیتے ہوئے اسلامی مابعد الطبیعیات کے بعض بے احد اہم مسائل پر بحث کی ہے…پانچواں اور چھٹا خطبہ… عصرِ حاضر میں مسلمانوں کی سیاسی، معاشرتی اور تمدنی ضروریات کی روشنی میں اسلامی تہذیب کے اُصولِ حرکت اور اُصولِ اجتہاد کی تشریح کی ہے۔ اقبال نے اس بات پر قطعاً زور نہیں دیا کہ یہ خطبات…کسی بھی سطح پر کسی مربوط اسلامی فلسفے کے خدو خال اُجا گر کرتے ہیں۔ البتہ،…اس بات کی طرف ضرور اشارے ملتے ہیں کہ ان کی بدولت ایسی کسی بھی مخلصانہ سعی کی بنیادیں رکھی جاسکتی ہے جو زود یا بدیر،…کسی جدید اسلامی نظامِ افکار کی تشکیل و ترتیب پر منتج ہو۔
جدید طبیعیات کے حیرت انگیز انکشافات… اورعلم کے بدلتے ہوئے تصورات کی روشنی میں اقبال کی یہ اُمید بے جا نہیں تھی کہ اگر سائنسی ترقی کی رفتا یہی رہی تو عنقریب انسانی علوم میں ایک انقلابِ عظیم بر پا ہونے کا امکان ہے،…اقبال کو محسوس ہوتا ہے کہ انسانی علم اور انسانی فکر کا یہ متوقع انقلاب،…انسان کو مذہب (اور بالخصوص اسلام) سے دور کرنے کے بجائے، اس کے قریب لے آئے گا۔ یہی وہ توقع ہے جس کی بدولت اقبال اسلامی فکر میں ’نئے انسان‘ کے مسائل کا حل یا اس کے امکانات کی جھلک دیکھتے ہیں۔ وہ مغرب کی علمی ترقی اور تمدنی پژمردگی کے درمیان علّت و معلول کا رشتہ تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جدید مغربی تمدن اخلاقی اور رُوحانی معنوں میں جس یا س وقنوطیت اور بے ثمریت کو اپنے باطن میں چھپائے ہوئے ہے،…اقبال اس سے بخوبی واقف ہیں، اسی لیے وہ ساتویں خطبے (کیا مذہب کا امکان ہے!) میں ایک جگہ مغربی تمدن کے حوالے سے عصر حاضر کے انسان کی تصویر ان الفاظ میں کھینچتے ہیں:
’’حاصلِ کلام یہ ہے کہ عصر حاضر کی ذہنی سرگرمیوں سے جو نتائج مترتب ہوئے ان کے زیرِ اثر انسان کی رُوح مردہ ہو چکی ہے، یعنی وہ اپنے ضمیر اور باطن سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ خیالات اور تصورات کی جہت سے دیکھیے تو اس کا وجود خود اپنی ذات سے متصادم ہے، سیاسی اعتبار سے نظر ڈالیے تو افراد افراد سے (متصادم ہیں) اس میں اتنی سکت ہی نہیں کہ اپنی بے رحم انانیت اور ناقابلِ تسکین جوعِ زر پر قابو حاصل کر سکے، یہ باتیں ہیں جن کے زیر اثر زندگی کے اعلیٰ مراتب کے لیے اس کی جدو جہد بتدریج ختم ہو رہی ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ وہ درحقیقت زندگی ہی سے اکتا چکا ہے۔ اس کی نظر (صرف خارجی) حقائق پر ہے، یعنی حواس کے اس سرچشمے پر جو اس کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ لہٰذا اس کا تعلق اپنے اعماقِ وجود سے منقطع ہو چکا ہے۔۱؎
مغربی فکر اور مغربی نظامِ زیست کے زیر اثر پروان چڑھنے والے انسان کے باطن کی یہ تصویر کسی طرح بھی مبالغہ آمیز نہیں، جدید انسان اپنے ضمیر اور باطن سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے،…یہی وہ خیال ہے جسے ژونگ نے اپنی معرکہ آراتصنیف’’جدید انسان، روح کی تلاش میں‘‘۔ میں نفسِ انسانی کے بارے میں نئی سے نئی معلومات کی روشنی میں گویا علمی بُنیادوں پر ثابت کیا ہے۔ اقبال کے الفاظ میں ’بے رحم انانیت اور ناقابلِ تسکین جوعِ زر‘ نے انسان کو اس ’’اندرونیت‘‘ (inwardness) سے محروم کر دیا ہے، جسے ژونگ، سائکی (psyche) کہتا ہے، اور جو حیاتِ انسانی میں ایک ایسی باطنی گہرائی پیدا کرتی ہے، جس کا رشتہ زندگی کے بڑے اخلاقی، روحانی، اور انسانی نصب العین کے ساتھ استوار ہو سکتا ہے…لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اقبال مشرق کی ذہنی، فکری اور عملی صورت حال سے بھی پوری طرح باخبر ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ صورت حال جتنی اُن کے سامنے واضح تھی، شاید ہی کسی اور اسلامی مفکر کے سامنے رہی ہو،…اسی لیے اُنھوں نے تصوف کے بعض مروجہ تصورات اور رسوم (rituals) پرکڑی تنقید کی ہے چنانچہ جدید مغربی انسان کی صورت حال کے موازنے میں وہ مشرق کا بھی تجزیہ کرتے ہیں:
کچھ ایسی ہی کیفیت مشرق کی ہے۔ اس لیے کہ سلوک و عرفان کے جو صوفیانہ طریق از منۂ متوسطہ میں وضع کیے گئے تھے اور جن کی بدولت مشرق و مغرب میں کبھی مذہبی زندگی کا اظہار بڑی اعلیٰ اور ارفع شکل میں ہوا تھا، اب عملاً بے کار ہوچکے ہیں۔ یوں بھی اسلامی مشرق میں تو بہ نسبت دوسرے ممالک کے ان سے جو نتائج مترتب ہوئے شاید کہیں زیادہ المناک اور حسرت انگیز ہیں۔ بجائے اس کے کہ یہ طور طریق اُن قویٰ کی شیرازہ بندی کریں جن کا تعلق انسان کی اندرونی زندگی سے ہے۔ تاکہ یوں اس میں یہ صلاحیت پیدا ہو کہ تاریخ کی مسلسل حرکت میں عملاً حصہ لے سکے، اس کی تعلیم یہ ہے کہ ہمیں دُنیا ہی سے منہ موڑ لینا چاہیے۔۲؎
لیکن تصوف اور نظامِ خانقاہی پر اس تنقید کے باوجود،… وہ عصر حاضر میں مذہب کے علمی جواز کو صوفیا کی واردات (religious ecperience) ہی میں تلاش کرتے ہیں۔ اسی آخری خطبے میں وہ حضرت شیخ احمد سرہندی کے تنقیدی منہاجِ تصوف کی تحسین کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ…’’اُنھوں نے اپنے زمانے کے تصوف کا تجزیہ جس بے باکی اور تنقید و تحقیق سے کیا اس سے سلوک و عرفان کا ایک نیا طریق و ضع ہوا‘‘۔ چنانچہ شیخ احمد سرہندی کے ایک مرید کے احوال باطنی۔ اور اُن کے بارے میں حضرت شیخ کی انتقادی رائے نقل کرنے کے بعد اقبال اسلامی تصوف کی روشنی میں نفس انسانی کی علمی قدرو قیمت کا تذکرہ کرتے ہیں:
شیخ موصوف نے ان ارشادات میں جو امتیازات قائم کیے ہیں، ان کی نفسیاتی اساس کچھ بھی ہو، اس سے اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ اسلامی تصوف کے اس مصلحِ عظیم کی نگاہوں میں ہماری اندرونی واردات اور مشاہدات کی دُنیا کس قدر و سیع ہے۔ اُن کا ارشاد ہے کہ اُن بے مثال واردات و مشاہدات سے پہلے، جو وجودِ حقیقی کا مظہر ہیں، عالمِ امر …یعنی اس دُنیا سے گزر کرنا ضروی ہے جسے ہم (سائنس اور فلسفۂ کی زبان میں) رہنما توانائی کی دُنیا کہتے ہیں۔۳؎
زیادہ واضح الفاظ میں اقبال عصر حاضر میں مذہب کی علمی توجیہ صوفیانہ واردات ہی میں تلاش کرتے ہیں…لیکن اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی صوفیانہ واردات کی موجودہ صورتوں سے مطمئن نظر نہیں آتے، یا کم از کم عصرِحاضر کی تمدنی زندگی میں اُن کی نتیجہ خیزی اُن کے نزدیک زیادہ اطمینان بخش نہیں۔ لیکن وہ اس کے امکان کو کسی طرح رد نہیں کرتے، بلکہ اس واردات میں ایک کیفیاتی (qualitative) تبدیلی کے خواہاں ہیں، خود آگہی، خود شناسی اور شعورِ خویشتن۔ وارداتِ باطن کی اس مطلوبہ کیفیاتی تبدیلی کاجلی عنوان ہے،…وہ ثمریت پسندانہ نقطۂ نظر سے چاہتے ہیں کہ اس وقت فرد کی تمام نفسی واردات کا اولیں ما حاصل استحکامِ ذات اور بعد ازاں ملت کی اجتماعی زندگی کے لیے اس کی اندرونی اور بیرونی صلاحیتوں کا مفید ہونا ہے۔ اگر تصوف کی کوئی نہج اپنے آپ کو نئے علمی اکتشافات کی کسوٹی پر کسے جانے کے لیے پیش نہیں کرتی، یا فرد کو معاشرے سے منقطع کرنے پر زور دیتی ہے،…یا فرد کو تمدنی معنوں میں خلاق اور سود مند نہیں بناتی، تو اقبال کے نزدیک وہ آج کے مسلمان کے لیے کسی طرح بھی موزوں اور مفیدِ مطلب نہیں۔
۲
خطبات کی فکری اور تمدنی غایات کو خود اقبال نے بھی ایک مختصر سے دیباچے میں کمال بلاغت کے ساتھ بیان کر دیا ہے، وہ اسلام کی حقیقت پسندی، یعنی خارجی کائنات کے ساتھ ذہنِ انسانی کے تجربی (empirical) اور استقرائی (inductive) رشتے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے عہد کے اسلامی علوم کے نمائندوں، بالخصوص باطنی واردات کے علمبرداروں کے بارے میں کہتے ہیں:
صحیح قسم کے سلسلہ ہائے تصوف نے بے شک ہم مسلمانوں میں مذہبی احوال و واردات کی تشکیل اور رہنمائی میں بڑی قابلِ قدر خدمات سرانجام دی ہیں، لیکن آگے چل کر ان کی نمائندگی جن حضرات کے حصے میں آئی وہ عصر حاضر کے ذہن سے بالکل بے خبر ہیں، اور اس لیے موجودہ دُنیا کے افکار اور تجربات سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکے۔ وہ آج بھی انھیں طریقوں سے کام لے رہے ہیں، جو ان لوگوں کے وضع کیے گئے تھے جن کا تہذیبی مطمحِ نظر بعض اہم پہلوئوں کے اعتبار سے ہمارے مطمحِ نظر سے بہت مختلف رہا ہے۔
گویا اقبال کے نزدیک مذہب کی اندرونی صداقت کا انحصار واردتِ باطن پر ہے، لیکن جیسا کہ اقبال نے حضرت شیخ احمد سر ہندی کی، ایک مرید کے احوال باطنی پر تنقید کے حوالے سے ثابت کیاہے، وارداتِ باطنی کوئی قطعی الثبوت چیز نہیں بلکہ اضافی (relative) ہیں اور ان کی تنقیح و تشکیل ہر حال میں ضروری ہوتی ہے،…عصر حاضر میں اقبال جن نئے علمی اکتشافات کی توقع رکھتے ہیں، ان میں ایک ایسے علمی منہاج (method) کی دریافت کا امکان بھی اُن کے پیش نظر ہے، جس کے ذریعے وحدتِ حیات کے قرآنی تصور کی روشنی میں حیات و کائنات کا مطالعہ کیا جا سکے گا، یہ ایک ایسا منہاج ہوگا جو اقبال کے الفاظ میں: ’’عضو یاتی اعتبار سے تو زیادہ سخت یعنی شدید بدنی ریاضتوں کا متقاضی نہ ہو، لیکن نفسیاتی اعتبار سے اس ذہن کے قریب تر ہو جو گویا محسوس (concrete) کا خو گر ہو چکا ہے، تا کہ وہ اسے بآسانی قبول کرے‘‘۔ بظاہر کسی ایسے علمی طریق کار کا وجود میں آنا بعید از امکان بھی نہیں، جس کے ذریعے محسوس کے خوگر ذہن کو حیات کی وحدت کے تجربے اور مشاہدے کے قابل بنایا جا سکے۔ جدید طبیعیات اور حیاتیات از خود اسی منزل کی طرف اُفتاں و خیزاں گام زن دکھائی دیتی ہیں، لیکن یہ دونوں علوم مذہبی واردات کے تجزیے کو کسی طرح اپنے دائرۂ کار میں شامل نہیں کر سکتے،…یہ کام نفسیات کسی حد تک کر سکتی ہے، لیکن ابھی دوسرے طبیعی علوم سے اشتراک و استفادے کی قائل نہیں۔ چنانچہ اقبال اسی دیباچے میں کہتے ہیں:
جب تک کوئی ایسا منہاج متشکل نہیں ہو جاتا۔ یہ مطالبہ کیا غلط ہے کہ مذہب کی بدولت ہمیں جس قسم کا علم حاصل ہوتا ہے، اسے سائنس کی زبان میں سمجھا جائے… چنانچہ یہی مطالبہ ہے جسے ان خطبات میں جو مدراس مسلم ایسوسی ایشن، کی دعوت پر مرتب ہوئے اور مدراس، حیدر آباد، اور علی گڑھ میں دیے گئے، میں نے اسلام کی روایاتِ فکر… اور ان ترقیات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو علم انسانی کے مختلف شعبوں میں حال ہی میں رُونما ہوئی ہیں، الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیل جدید سے ایک حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اگرچہ اقبال نے یہاں صرف سائنس کا لفظ استعمال کیا ہے، لیکن خطبات کے سارے علمی سیاق و سباق کو ملحوظ رکھا جائے تو بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ ان خطبات میں اقبال نے اسلام کے مابعد الطبیعیاتی افکار، اسلامی نظامِ صلوٰۃ و عبادت، اسلام کی معاشرتی اور تمدنی ماہیت اور مسلمانوں کی مذہبی واردات کو ۱۔جدید سائنسی علوم بالخصوص طبیعیات و حیاتیات اور ۲۔جدید نفسیات کی زبان میں بیان کرنے کی ایک بھر پور اور کامیاب کوشش کی ہے۔ محدود معنوں میں اسے ہم اسلامی تصوف کی تشکیلِ نو کی کوشش بھی کَہ سکتے تھے لیکن اس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ عصر حاضر میں اسلامی تمدن کو درپیش کم و بیش تمام اجتماعی مسائل اور ان کی تنقیح اس میں شامل ہو گئی ہے۔
اب اگر ہم برِ صغیر کی اسلامی فکر کی تاریخ کے ان تین منور نقطوں کا مختصر تجزیہ کریں تو اس کی نوعیت یوں ہو گی۔
۱-حضرت مجدد الف ثانی:مکتوبات، عقیدۂ توحید کی فلسفیانہ تشریح، وحدت الوجود سے وحدت الشہود کی طرف سفر، ایک نئے نظامِ تصوف کی تشکیل۔ موضوع : فرد
دسویں اور گیارہویں صدی ہجری،
سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی،
۲-حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی:حجۃ اللّٰہ البالغۃ اور دوسری تصانیف، حکمتِ شریعت کی عقلی تشریحات، قدیم نظام تصوف میں ایک نیا منہاج قائم کرنے کی کوشش، اسلامی معاشرے کی تشکیل نو۔ موضوع : معاشرہ۔
بارہویں صدی ہجری
اٹھارہویں صدی عیسوی
۳۔ علامہ محمد اقبال: خطبات، اُردو شاعری، نئی صوفیانہ واردات کی تشکیل جس میں فرد اور اس کی انا کو مرکزی حیثیت حاصل ہو، لیکن اس کی انفرادیت بالآخر ملت کی وحدت میں گم ہو جائے، مذہبی واردات کو جدید سائنس اور فلسفے کی زبان میں بیان کرنے کی کوشش، نئے اور فعال تر اسلامی معاشرے کی تشکیل، موضوع، فرد! اور معاشرہ۔
چودھویں صدی ہجری
بیسویں صدی عیسوی
اگر ان خطبات میں اقبال کے ما بعد الطبیعیاتی افکار کا پہلو اتنا نمایاں نہ ہوتا تو اُنھیں عصر حاضر میں مسلمانوں کا سب سے بڑا عمرانی مفکر قرار دیا جا سکتا تھا، اب بھی اُن کی یہ حیثیت غیر مسلمہ نہیں، گو بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تصورِ خودی کی نفسیاتی اور مابعدالطبیعیاتی تشریحات اُن کے بیشتر افکار پر چھائی ہوئی ہیں۔ لیکن اگر اقبال کی ثمریت یا نتیجہ خیزی کو دیکھا جائے تو،…اپنے تمام فلسفیانہ مضمرات کے باوجود، تصورِ خودی بیسویں صدی کے مسلمانوں کے لیے ایک خالص عمرانی یا تمدنی تصور بھی ہے، گو اقبال نے کہیں بھی ’بقائے اصلح‘ اور جُہد للبقا‘ کے تصورات کو حوالہ نہیں بنایا، لیکن دیکھا جائے تو جُہد للبقا، ایک بلند تر اخلاقی نصب العین کی حیثیت سے اُن کے نظام افکار میں رچا ہوا ہے، اسی طرح اگر بقائے اصلح کو اقبال کی لفظیات میں بیان کیا جائاے تو ’بقائے اقویٰ، کا تصور سامنے آتا ہے۔… ’خودی،…اپنی تعمیمی صورت میں تو ایک انسانی مفہوم ہے لیکن فکر اقبال کے مخصوص سیاق و سباق میں یہ لفظ ایشیا کے مسلمانوں کے اجتماعی تشخص کا استعارہ ہے، یہی ایک تصور تھا جس نے بیسویں صدی کے نصف اوّل میں برصغیر کے مسلمانوں کے تخیّل کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ لیکن اگر اقبال کی مثنوی رموزِ بے خودی اور خطبات کے آخری تین ابواب کا غائر مطالعہ کیا جائے تو ایک نتیجہ خود بخود اُبھر کر سامنے آجاتا ہے، اور وہ یہ کہ خود یابی، خودفہمی، خود شناسی، خود آگہی…اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی اجتماعیت کی حیاتِ ثانیہ کے لیے نقطۂ آغاز کی حیثیت رکھتی ہے، چوتھا باب: خودی، جبرو قدر، حیات بعد الموت،…اور چھٹا باب: الاجتہاد فی الاسلام،…اسلامی تمدن کے تین اہم تصورات کی وضاحت کرتے ہیں۔ یعنی ۱۔آزادیِ عمل، ۲۔استقرائی تجربیت(inductive empiricism) اور ۳۔اجتہاد، چوتھے باب میں ان تین تصورات کی مابعد الطبیعیات مرتب کی گئی ہے، اور اس کے ساتھ ہی ’تقدیر‘ کے اسلامی مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس کا حاصل آزادیِ عمل کا تصور ہے، جو تمام اسلامی تعلیمات کی تَہ میں کار فرما ہے۔ استقرائی تجربیت یعنی سائنسی نقطۂ نظر جو تجربات کو جمع کر کے، اُن کی تنظیم اور تنظیم کے بعد اُن کی تعمیم کرتا ہے، اقبال کے نزدیک اسلامی تہذیب کے اولین ادوار کی عطا ہے، یہی وجہ ہے کہ ابن خلدون، اپنے نظریۂِ تاریخ کی بدولت اور ابن مسکویہ اپنے ارتقائی تصورات کی بدولت مسلمانوں کی علمی تاریخ میں بے حد اہم ہیں، اقبال نے ان کے تصورات کو اسلامی تمدن کے اُصول حرکت کی علامت کے طور پر ییش کیا ہے۔ یہ اُصول کہ حرکت ہی تہذیبوں اور اقوام کو زندہ رکھتی ہے، اقبال کے نزدیک بے حد اہم تھا،’زمان‘ کی ماہیت کو سمجھنے کی تمام تر کوششیں اس لیے بھی تھیں کہ مسلمانوں کو ایک بار پھر زندگی کے اُصولِ حرکت سے وابستہ کیا جا سکے۔ ’خطبات‘ کے پانچویں باب… ’’اسلامی ثقافت کی رُوح‘‘ میں اقبال نے علمِ تاریخ سے مسلمانوں کی وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’(تاریخ) کے علمی مطالعے کے لیے بڑے وسیع اور بڑے گہرے تجربے کے ساتھ ساتھ بڑی پختہ عقلِ عملی کی ضرورت ہے، علاوہ ازیں زندگی اور زمانے کی ماہیت کے بارے میں بعض اساسی تصورات کے نہایت صحیح ادراک کی بھی۔ لہٰذا بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو اس سلسلے میں دو بڑے تصور ہمارے سامنے آتے ہیں۔۴؎
اور یہ دو تصور ہیں ۱-وحدتِ مبدائِ حیات اور ۲-زمانے کا تصور بطور ایک مسلسل اور مستقل حرکت کے،…دیکھا جائے تو پہلے تصور کا تعلق سائنس کے مستقبل سے ہے، اور دوسرے کا مسلمانوں کے مستقبل سے۔ ابنِ خلدون کے تصورِ زمان پر محاکمہ کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں:
اسلامی تہذیب و تمدن نے اپنے اظہار کے لیے جو راستہ اختیار کیا، اس پر نظر رکھیے تو یہ کسی مسلمان ہی کا کام ہو سکتا تھا کہ تاریخ کا تصور بطور ایک مسلسل اور مجموعی حرکت کے کرتا، یعنی زماناً ایک ایسے نشو و نما کی حیثیت سے جس کا ظہور ناگزیر ہے، گویا ہمیں ابنِ خلدون کے نظریۂ تاریخ سے دلچسپی ہے تو اس کی وجہ بھی ابن خلدون کا وہ تصور ہے جو اس نے تغیر کے باب میں قائم کیا ہے۔ یہ تصور بڑا اہم ہے، کیوں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تاریخ چونکہ ایک مسلسل حرکت ہے زمانے کے اندر، لہٰذا یہ ماننا لازم آتا ہے کہ اس کی نوعیت فی الواقع تخلیقی ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ وہ حرکت نہیں جس کا راستہ پہلے سے متعین ہو، اب اگرچہ ابنِ خلدون کو مابعد الطبیعیات سے مطلق دلچسپی نہیں تھی بلکہ وہ درحقیقت اس کا مخالف تھا، بایں ہمہ اس نے زمانے کا تصور جس رنگ میں پیش کیا، اس کے پیش نظر ہم اس کا شمار برگساں کے پیش رووں میں کریں گے۔۵؎
زمانے کو مسلسل اور مستقل حرکت قرار دینے، اور …تاریخ کو زمانے میں، یا خود زمانے کی تخلیقی فعلیت قرار دینے کا واضح مفہوم یہی ہے کہ مسلمان، اس خیال کو کہ اُن کی انفرادی اور اجتماعی تقدیر ہمیشہ کے لیے مقرر کر دی گئی ہے، ذہن سے جھٹک دیں، اور اس حقیقت کا صراحت کے ساتھ ادراک کریں کہ تاریخ کی فعلیت ایک تخلیقی عمل ہے،… جس سے مراد ہے ایک ایسے مستقبل کی تخلیق یا نمود… جسے بطور’تقدیر‘ کے پہلے سے معین نہیں کر دیا گیا، غرض،… اقبال کی ہر فلسفیانہ اور محققانہ سعی کی غایت یہ ہے کہ مسلمانوں کو سعی و عمل، اور حیاتِ نو کی طلب پر آمادہ کیا جا سکے، اس اعتبار سے ان کے تمام تصورات، عصرِحاضر میں اسلام اور اسلامی تمدن کے عمرانی پہلوئوں کی طرف راجع ہیں۔ ’الاجتہاد فی الاسلام‘ میں اُنھوں نے اسلام کے تصورِ تاریخیت کی روشنی میں قانون اسلام کی نشو و ارتقا کے اُصول سے بحث کی ہے، اس کی غایت بھی یہی ہے کہ مسلمانوں میں ’اجتہاد‘ کی ’روایت‘ کو زندہ کیا جائے، تا کہ وہ نئے زمانے کے مسائل سے عہدہ بر آ ہونے کی سعی کر سکیں۔
اگر اُن تاثرات کا صرف ایک سرسری جائزہ ہی لیا جا سکے جو اقبال کے فکرو فن نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر مرتب کر دکھائے، اور اُن سیاسی اور عمرانی تبدیلیوں کو سامنے رکھا جائے جو گذشتہ نصف صدی میں عالم اسلام میں وقوع پذیر ہوئیں، نیز جدید علمی دُنیا کے انکشافات کی روشنی میں مسلمانوں کی طرف سے اسلام اور قرآن کریم کی تشریح اور تعبیر کی کوششوں کو بھی پیش نظر رکھا جائے تو بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ… اقبال کے خطبات جدید اسلامی فکریات کی تاریخ میں…ایک اہم موڑ، ایک نئے باب، اور ایک منارۂِ نُور کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کی بدولت عالمِ اسلام میں علومِ اسلامی کے احیا کی تحریکوں میں استحکام پیدا ہوا، اور اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کی منزل مسلمانوں کو واضح اور قریب تر نظر آنے لگی۔
حواشی
۱- تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، کیا مذہب کا امکان ہے؟، مترجم: سیّدنذیر نیازی۔
۲- تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، کیا مذہب کا امکان ہے؟، مترجم: سیّدنذیر نیازی۔
۳- تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، کیا مذہب کا امکان ہے؟، مترجم: سیّدنذیر نیازی۔
۴- تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی،ص۲۱۵،۲۱۶۔
۵- تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی،ص۲۱۶،۲۱۷۔