[ابنِ خلدون اور اشپنگلر کے افکار کی روشنی میں]
دورِ جدید کے مفکرین نے جو فلسفۂ وجودیت کی طرف جھکائو رکھتے ہیں،…تاریخ کو کلیتاً ناقابلِ فہم قرار دیا ہے۔ کارل لووِتھ اپنی تالیف تاریخ میں مفہوم (Meaning in Hisotry) میں لکھتے ہیں کہ ’’ تاریخ کا مسئلہ مجموعی طور پر خود اپنے ہی تناظر میں ناقابلِ جواب (ناقابلِ تشریح) ہے۔ تاریخی عمل (یا اعمال) کسی جامع یا آخری مفہوم کی کوئی شہادت نہیں دیتے، بظاہر تاریخ کا کوئی حاصل یا ثمر نہیں۔ تاریخ کے مسئلے کا نہ کوئی حل پیدا ہوا ہے نہ ہو سکے گا۔ اس لیے کہ اِنسان کا تاریخی تجربہ…ناکامیابی سے عبارت ہے‘‘۔۱؎ تاریخ کے بارے میں یہ طرزِ فکر نسبتہً جدید ہے، اور اُن ذہنی رویوں کی نشاندہی کرتا ہے جو وجودی فِکر کی تہ میں عام طور پر کارفرما نظر آتے ہیں۔ قدیم فلسفیوں اور مفکرینِ تاریخ نے تاریخ کی تعبیر میں جو کاوش کی ہے، موجودہ فلسیانہ فکر اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہے، تاریخ کے بارے میں ہیگل کا مشہور قول…تاریخ ہمیں صرف یہی سکھاتی ہے کہ ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھ سکتے،…اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تاریخ میں معانی تلاش کرنا فعلِ عبث ہے، لیکن ہیگل کے قول کی ایک تشریح یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ تاریخ ہمیشہ نئی سے نئی صورتِ احوال کو پیدا کرتی رہتی ہے اس لیے ماضی کی روشنی میں حال یا استقبال کے بارے میں کوئی حُکم نہیں لگایا جا سکتا۔ اس تشریح سے قطع نظر ہیگل تاریخ کو قابلِ فہم اور قابلِ تشریح سمجھتا ہے اور اسے ایک جدلیاتی عمل سے تعبیر کرتا ہے۔ اس عمل میں ہر چیز یا ہر مرحلہ اپنی انتہا کو پہنچ کر اپنی ضد کو جنم دے رہا ہے، وجودی مفکروں میں کارل جیسپر انسان کے تاریخی تجربات کے بارے میں کہتا ہے۔ ’’لا متناہی حقائق (بھی) ہمیں ساری حقیقت کو سمجھنے میں کوئی مدد نہیں دیتے۔ ان سے ہمیں تہذیبوں اور مخصوص ادوار کے مواد اور وقت (کی رَو) میں انسان کی حقیقی راہِ عمل کو جاننے اور سمجھنے میں کوئی بھی مدد نہیں ملتی‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ تاریخ کے بظاہر لا مختتم عمل میں لامتناہی حقائق کی ایسی درجہ بندی کرنا جو زندگی اور تہذیبوں کو کوئی قطعی مفہوم دے سکے، اتنا آسان نہیں جتنا عام طور پر خیال کر لیا جاتا ہے۔ وہ مفکرین جو کائنات کی غیر مادی تعبیر پیش کرتے ہیں، تاریخ کو ایک بے معنی عمل یا واقعات کا ایسا طومار قرار نہیں دے سکتے جن میں کوئی بھی معنوی ربط موجود نہ ہو، اقبال کے نزدیک تاریخ کا عمل ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے، جس سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے اور جو قطعاً معنویت سے عاری نہیں۔ تاریخ کے بارے میں اقبال کے افکار ایک مربوط فلسفۂ تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس مبحث میں اس ابتدائی سوال کی بھی اہمیت ہے کہ فلسفۂ تاریخ سے ہماری کیا مراد ہے۔ نسبتہً سادہ الفاظ میں’’فلسفۂ تاریخ سے مراد تاریخِ عالم کی تعبیر کا ایک ایسا نظام ہے جس میں کسی ایک اصلِ اُصول کے ذریعے تاریخی واقعات و حوادث کو اس طرح متحد کیا جائے، اور اُن میں اس طرح سے ایک جہت پیدا کی جائے کہ اس عمل سے ان واقعات و حوادث کے آخری معنوں کی طرف رہنمائی ہو سکے۔‘‘۲؎
اکثر مغربی مفکرین کا خیال ہے کہ تاریخی تفکر صرف عصرِ حاضر کے شعُور کی خصوصیت ہے، لیکن اس خیال کا سبب یا تو اسلامی مشرقی افکار سے لا علمی ہے یا اُن افکار کی قدرو قیمت کو کم کرنے کا جذبہ ہے۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ مغربی فکر کی تاریخ میں تاریخی تفکر نسبتہً جدید فکری رویہ ہے۔ یونان، جو جدید مغربی فکر کا عظیم پیشرو سمجھا جاتا ہے، (حالانکہ فی الحقیقت اسلامی تمدن جدید مغربی علمی عہد کا پیشرو ہے) تاریخ کے بارے میں کوئی واضح یا فلسفیانہ نقطۂ نظر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن قدیم یونانی مؤرخوں نے تاریخ کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس سے تاریخ کے بارے میں قدیم ترین تصورات سامنے آتے ہیں اور اس لیے بھی کہ اس کے ذریعے ہمیں زماں اور تاریخ کے بارے میں یُونانیوں کے ذہنی رویے کا علم حاصل ہوتا ہے اصل میں یونانیوں کو وقت (time) اور تاریخ (history) سے کہیں زیادہ عقلِ کُل (logos) اور کائنات (cosmos) سے دلچسپی تھی۔ وہ تاریخ کو عام طور پر نشو و نما اور انحطاط پذیری کے تصورات کے ذریعے سمجھتے تھے۔ زندگی اور کائنات کے بارے میں یونانیوں کا عمومی نقطۂ نظر یہ تھا کہ ہر چیز دائرے میں حرکت کرتی ہے۔ آہنگ، تواتر اور عدم تغیر پذیری حیات و تاریخ کے اس تصور کے بنیادی خدوخال ہیں۔ اشپنگلر، جس کے نظریات سے ہمیں قدرے تفصیل سے بحث کرنا ہے، زمانے کے بارے میں یونانیوں کے تصورات کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:’’کلا سیکل(جس سے مراد ہے یونانی) تہذیب میں تاریخ (نام کی کوئی چیز نہیں تھی) یہ تہذیب صرف و محض’حال‘ کا شدید اور گہرا احساس رکھتی تھی‘‘۔ دُنیا کی اکثر قدیم تہذیبیں کسی تغیر سے آشنا ہونے سے قبل صرف لمحۂ موجود ہی کو قابلِ توجہ سمجھتی تھیں۔ یہ رویہ اُنھیں پر سکون ضرور رکھتا تھا، لیکن اُن کی تخلیقی پیش رفت میں حارج تھا۔ ہیر و ڈوٹس کے نزدیک تاریخ گذرے ہوئے واقعات کا ریکارڈ ہے تاکہ گذری ہوئی باتوں کی یاد لوگوں کے ذہن سے وقت گذرنے پر محو نہ ہو جائے، نیز یہ کہ عظیم کارنامے فراموش گاری کا شکار نہ ہو جائیں۔ ہیروڈوٹس کا زمانی ترتیب کا تصور بھی وقت کے بارے میں تمام یونانی تصورات کی طرح دائرے کی صورت میں مکمل ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک تاریخ ایک تکراری سانچہ ہے، جس میں قانونِ تلافی کا آفاقی اُصول توازن پیدا کرتا ہے۔ ایک اور یونانی مؤرخ تھوسی ڈائی ڈس کے نزدیک تاریخ اس سیاسی جدوجہد کی کہانی ہے جو انسانی فطرت کی غیر مبدل خصوصیات پر مبنی ہے۔ چونکہ انسانی فطرت تغیر پذیر نہیں اس لیے تاریخ کے عمل میں بھی کوئی نئی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی۔ واقعات جس طرح پہلے رُونما ہو چکے ہیں۔ اسی طرح آئندہ بھی رُونما ہوں گے، مستقبل کسی طرح بھی ماضی سے مختلف نہیںہوگا۔ نیز یہ کہ تاریخ میں کلی طور پر کوئی نئی چیز وقوع پذیر نہیں ہو سکتی۔ البتہ ایک یونانی مؤرخ پولی بی اس ایسا ضرور ہے جس کے ہاں تاریخ میں مستقبلیت کا دھندلا سا تصور موجود ہے۔ پولی بی اس کے نزدیک واقعاتِ عالم رُوم کے عالمگیر غلبے کے نصب العین کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ گویا اس کے خیال میں تاریخ کے عمل میں ایک ’ارتقائی عمل‘ کی جھلک ضرور موجود ہے۔ پولی بی اس کے خیال میں تاریخ مقدر کے قانونِ تغیر پذیری کے مترادف ہے، تاریخ۔ (قسمت کے) ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف جست کرتی رہتی ہے، اس لیے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔اس لیے کہ ماضی کے واقعات کو سامنے رکھ کر مستقبل کے بارے میں آسانی سے پیش قیاسی ہو سکتی ہے۔
جدید مغربی مفکروں میں ہیگل وہ مفکر ہے جس نے تاریخ کے عمل میں انسانی ارادے کو شامل دیکھا ہے، اور تاریخ میں انسانی دُکھ درد (suffering) کے مفہوم کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ہیگل نے فلسفۂ تاریخ پر خطبات (۱۸۳۰ئ) میں تاریخ کے بارے میں اپنے خیالات اور تاثرات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب ہم سلطنتوں کے عروج و زوال افراد اور اقوام کے ظہور و غیبت اور ثروت مند ادوار کی کم حاصلی اور بے ما یہ محرکات کے حیرت انگیز ثمرات کو دیکھتے ہیں تو ہمارے ذہن میں جو خیال سب سے پہلے پیدا ہوتا ہے وہ عام تغیر کا خیال ہے۔ جب ہم بادشاہتوں کو اُداس کر دینے والے کھنڈروں کی صورت میں دیکھتے ہیں تو تغیر کا خیال ہمارے ذہنوں میں منفی معنوں میں اُبھرتا ہے، لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ قوموں کو نئی زندگی بھی اسی تغیر کے اُصول سے ملتی ہے تو تغیر ایک مثبت تصور بن جاتا ہے۔ ہیگل کو تاریخی عمل دُکھ درد سے مملو نظر آتا ہے۔ چنانچہ تاریخی عمل اورانسانی دُکھ درد کا سرچشمہ اس کے نزدیک خود انسانی جذبے اور انسانی ارادہ ہیں۔ لیکن’’جب ہم تاریخ کو مذبح خانے کی سل کے طور پر دیکھتے ہیں جس پر اقوام و ملل کی خوشیوں، اقلیموں کی دانائی اور افراد کی نیکیوں کو قربان کیا جاتا رہا ہے، تو ہمارے ذہن میں لامحالہ یہ سوال اُبھرتا ہے کہ آخر کس آخری مقصد کے لیے یہ عظیم الشان قربانیاں پیش کی گئی ہیں؟‘‘۳؎ ہیگل نے تاریخ کو ایک جدلیاتی عمل سے تعبیر کیا ہے جس میں ہر چیز سے اس کی ضِد برآمد ہو رہی ہے، اور ایک عالمگیر خیال (universal idea) اپنے آپ کو اس جدلیاتی عمل کے ذریعے مکمل کر رہا ہے۔ ہیگل کا نظریۂِ تاریخ بہت پیچیدہ اور مبسوط ہے، تاہم ہیگل ہی وہ مفکر ہے جس نے تاریخ کی تعبیر کے لیے تاریخ سے ماورا حوالہ (عالمگیر خیال) پیش کیا ہے۔ یہاں تاریخ کے بارے میں ایک اور نقطۂ نظر کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ یہ نقطۂ نظر جرمن مفکر شاعر گوئٹے کا ہے جو اقبال کے ادبی ممدوحین میں سے ہے۔ گوئٹے کے نزدیک ’’تاریخ لایعنی ترین چیز ہے۔ یہ بلند پایہ مفکر کے لیے مہملات کا تارِ عنکبوت ہے‘‘۔ وہ اپنے نامور معاصر شلر کو اپنے ایک خط (۹ مارچ ۱۸۰۲ئ) میں لکھتا ہے’’مجموعی طور پر ہم جس چیز کا مشاہدہ کر سکتے ہیں، وہ ندیوں اور دریائوں کا ایک زبردست منظر ہے، جو فطری لزوم کے تحت بلندیوں اور وادیوں سے باہم دگر اُمڈ پڑتے ہیں، یہاں تک کہ وہ کسی بڑے دریا کی طغیانی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس سیلاب میں وہ بھی غرق ہو جاتے ہیں جنھوں نے اس کی پیش بینی کی تھی،…اور وہ بھی جنھیں اس کا سان و گمان بھی نہ تھا۔ اس عظیم الشان تجربی عمل میں تمہیں سوائے فطرت، کے اور کچھ نہیں دکھائی دیتا۔ اس چیز کا تو شائبہ بھی دکھائی نہیں دیتا جس کو ہم فلسفی ’آزادی‘ کہنے کے خواہاں رہتے ہیں۔‘‘ مغرب کے جن مفکروں نے مربوط انداز میں تاریخ کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کیا ہے، ان میں ہیگل کے علاوہ برک ہارٹ، والیٹئر، وائکو، مارکس اور کامٹے کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں لیکن اقبال نے ان سب کے افکار سے کچھ زیادہ اعتنا نہیں کیا۔ ہیگل کے ’صدف‘ کو اُنھوں نے ’گہر‘ سے خالی قرار دے دیا تھا، شاید اس لیے کہ ہیگل جدلیت کے پردے میں ایک بار پھر کائنات کی ثنویت پسند انہ تعبیر پیش کرتا ہے جس کے ذہنی رشتے زرتشتیت اور مجوسیت کے ساتھ ملائے جا سکتے ہیں۔ والٹئیر کو چھوڑتے ہوئے اکثر مغربی مفکرینِ تاریخ نے تاریخ عالم میں عیسوی رمزیت تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم مغربی مفکرینِ تاریخ میں جس مفکر نے سب سے زیادہ اقبال کی توجہ کو مبذول کیا ہے۔ جرمن مصنف اشپنگلر ہے، جس کی کتاب زوالِ مغرب (Decline of the West) نے عالمگیر شہرت حاصل کی۔ تنقیدِ مغرب، مغربی تہذیب کے زوال کی پیشین گوئی، تہذیبوں کے نشو و ارتقا کا مخصوص تصور اور اسلام کے بارے میں مغالطہ آرائی…یہ سب ایسی باتیں تھیں جن کی بدولت اقبال،اشپنگلر کی طرف زیادہ متوجہ ہوئے۔
آسوالڈ اشپنگلر(۱۸۸۰۔۱۹۳۲ئ) اقبال کا ہم عصر ہی تھا،…اس کے بارے میں یہ بات بالخصوص قابلِ ذکر ہے کہ وہ جرمن فلسفیوں کی روایات کے برعکس کوئی باقاعدہ فلسفی، مفکر یا ادیب نہیں تھا۔ بلکہ ایک ہائی اسکول ٹیچر تھا، تاہم اس کا مدرس ہونا ہی اس کے افکار کی عمومی کشش کا باعث بنا اس کی کتاب زوالِ مغرب کی پہلی جلد پہلی جنگِ عظیم کے چار سالوں کے اختتام پر ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی، کتاب کی دوسری جلد ۲۳۔۱۹۲۲ء سے قبل شائع نہ ہو سکی۔ اس کا نظریۂ تاریخ تہذیبوں کے بارے میں اس کے مخصوص تصور پر مبنی ہے، اس کے خیال میں ہر تہذیب ایک عضو یاتی یا نامیاتی وحدت ہے اور ہر تہذیب کو نامیاتی وحدت (organism) کی طرح ایک ہی دورِ حیات میسر آتا ہے، ایک عضویے کی طرح کسی تہذیب یا معاشرے کی زندگی بھی بچپن، بلوغت اور کہولت سے عبارت ہوتی ہے۔ جس طرح نامیاتی وحدت اپنی موت کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتی اسی طرح تہذیبیں بھی جب زوال آشنا ہوتی ہیں تو ان کے لیے حیاتِ نو کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ اشپنگلر کے نقطۂ نظر سے تہذیبوں کے مابین کسی ارتقائی عمل کا کوئی رشتہ موجود نہیں ہوتا، ہر تہذیب اپنی جگہ پر خود مکتفی اور خودکار ہوتی ہے، تاریخ کا عمل تہذیبوں کو خطِمستقیم میں مربوط نہیں کرتا، بلکہ دائروں میں گردش کرتا ہے، ہر تہذیب ایک دائرہ ہے جس کی اپنی حرکت اور اپنی رفتار ہے، گویا اشپنگلر کے نزدیک ارتقائی عمل تہذیبی وحدتوں میں تو ہوتا ہے لیکن پوری انسانی زندگی میں نہیں ہوتا۔ وہ ایک تہذیب اور دوسری تہذیب کے درمیان تشبیہ (analogy) کا تعلق تو دیکھتا ہے لیکن ان کے مابین ارتقائی رشتے کا اقرار نہیں کرتا۔ تاریخ میں تکرار اور اعادے کا تصور اشپنگلر سے مخصوص ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ ایک ہمیشہ سے جانی بوجھی ہوئی بات ہے کہ ’’تاریخ عالم میں ’اظہاری پیمانوں‘ (expression-forms) کی تعداد محدود ہے، ادوار، عہد، واقعات و احوال اور اشخاص دائمی طور پر اپنے سانچے(type) کو دہراتے رہتے ہیں۔‘‘وہ کہتا ہے کہ بے جان چیزوں کو توریاضیاتی قوانین کے تحت سمجھا جا سکتا ہے لیکن ’زندہ صورتوں‘ (living forms) کو صرف اور صرف تشابہ یا مشابہت (analogy) کے ذریعے ہی سمجھا جا سکتا ہے، اسی لیے تاریخ اس کے نزدیک اس اعتبار سے اشکال و تحریکات کا مطالعہ ہے، گہرائی کے ساتھ، اور اُن کی آخری معنویت کا تجزیہ کرتے ہوئے۔ اس کے خیال میں ہم زندگی کو علامات کے ذریعے ہی سمجھ سکتے ہیں، یہ علامات بھی کسی مفکر کے باطن سے ہی برآمد ہو سکتی ہیں۔ اس نے اپنی کتاب کے نظرِ ثانی شدہ ایڈیشن کے دیباچے میں لکھا:
’’ایک مفکر وہ شخص ہوتا ہے جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے عہد کی،اپنی بصیرت اور فہم کے مطابق علامت سازی کرے، اس کے علاوہ اس کے پاس چارۂِ کار بھی نہیں۔ وہ اسی طرح سوچتا ہے جس طرح وہ سوچنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ صداقت بالآخر اس کے لیے دُنیا کی وہ تصویر ہے جو اس کی پیدائش کے ساتھ پیدا ہوئی ہے، یہ وہ دُنیا ہے جو اس نے ایجاد نہیں کی، بلکہ اسے اس (مفکر) نے خود اپنی ذات میں دریافت کیا ہے۔ یہ ایک بار پھر اس کی اپنی ذات ہے!یہ اس کی اپنی ہستی ہے جو الفاظ کے سانچے میں ڈھل گئی ہے۔ یہ اس کی شخصیت کا مفہوم ہے جو ایک اصلِ اُصول یا عقیدے (doctrine) کی صورت میں ڈھل گیا ہے۔ یہ اصلِ اُصول، جہاں تک اس کی اپنی ذات کا تعلق ہے۔ ناقابلِ تغیر ہے، کیونکہ صداقت اور اس کی زندگی کا ملاً ہم صورت (identical) ہیں۔ یہ علاماتیّت لازمی ہے، یہی انسانی تاریخ کا پیرایۂِ اظہار اور اس کا ظرف ہے۔ وہ تمام فاضلانہ فلسفیانہ کام جو اس سیاق سے باہر رہ کر لکھے جاتے ہیں، محض سطحی اور پیشہ وارانہ لٹریچر کا حصہ ہوتے ہیں۔‘‘
اشپنگلر کی تصنیف ثقافتوں کی رمزیت کی تشریحات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے، اشپنگلر کے مرکزی خیال سے قطعِ نظر، اس کتاب کا ہر صفحہ خیال انگیز جُملوں سے مملو ہے، اس کا ہر جُملہ خیال انگیز…اور ہر خیال۔ لامحدود معانی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس کے فیصلوں میں حیران کن قطعیت ملتی ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ مکان (space) کی منطق علت و معلول ۴؎ ہے، جب کہ زماں کی منطق مقدر۵؎ ہے جسے ہم زندگی کا نامیاتی لزوم۶؎ بھی کَہ سکتے ہیں۔ اپنے افکار و خیالات کے بارے میں اشپنگلر کا کہنا ہے کہ ’’میں نے اپنے عہد کا فلسفہ لکھا ہے‘‘۔ وہ کہتا ہے کہ ’’میں نے اس کتاب (زوالِ مغرب) میں تاریخی پیش بینی کے اُصول دریافت کرنے کی کوشش کی ہے، یعنی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کسی تہذیب کو آئندہ کیا پیش آنے والا ہے۔ بالخصوص وہ تہذیب جو آج مغربی یورپی امریکی، تہذیب کہلاتی ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ دُنیا بطور ’عالمِ فطرفت ‘ فلسفے کا واحد موضوع رہی ہے لیکن میں نے دُنیا کو بطورِ ’زندگی‘ دیکھنے کی کوشش کی ہے،… (اس کتاب میں) دُنیا کی عظیم تہذیبوں، اُن کے ثقافتی مظاہر مثلاً ادب، زبان، ڈراما، فلسفہ اور فن تعمیر کے معنی دریافت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس طرح کہ دُنیا کی دوسری تہذیبوں اور اُن کے ثقافتی مظاہر کے ساتھ اُن کے نامیاتی رشتے کو دریافت کیا جا سکے۔ اشپنگلر کے نزدیک کسی تہذیب کے تمام مظاہر، علاماتی مفہوم اور علاماتی رشتہ رکھتے ہیں۔ زوالِ مغرب میں اس نے جو سوالات اُٹھائے ہیں ایک لحاظ سے اُن کا تعلق صرف مغربی تہذیب ہی نہیں، انسانیت کے مستقبل سے بھی ہے۔ اس کے اپنے الفاظ میں:
کیا تاریخ کی کوئی منطق (دریافت کی جا سکتی) ہے؟ کیا کسی نظام کے تمام اتفاقی اور ناقابلِ شمار عناصر سے ماورا کوئی ایسی چیز بھی ہے جسے ہم تاریخی انسانیت کا ما بعد الطبیعیاتی ڈھانچہ قرار دے سکیں؟ کوئی ایسی چیز جو تہذیب کی ظاہری شکلوں…مثلاً معاشرتی، روحانی اور سیاسی مظاہر سے لازمی طور پر الگ ہو اور ان مظاہر پر انحصار نہ کرنے والی ہو،…اگر ایسا ہے (یعنی ایسی کوئی چیز موجود ہے جس سے تاریخی عمل کا غیر مادی حوالہ وجود میں آسکے) تو اس کو جاننے کے ابتدائی مفروضے کیا ہوں گے؟
زوالِ مغرب کے مقدمے میں وہ بار بار یہ سوال اُٹھاتا ہے کہ کیا تاریخ کی بنیاد عظیم عمومی حیاتیاتی سانچوں (general biologic archetypes) پر استوار ہے؟ اشپنگلر کا تمام تر فلسفۂ تاریخ اس سوال کا اثبات میں جواب دینے کی کوشش سے عبارت ہے۔ اس کی تمام سعی یہی ہے کہ وہ ثابت کر دکھائے کہ تاریخ دراصل تہذیبوں کی تاریخ ہوتی ہے، اور تہذیبیں حیاتیاتی وحدتیں ہوتی ہیں جو انسان کی طرح پچپن، جوانی اور بڑھاپے کے مدارج سے گزرنے کے بعد معنوی طور پر مر جاتی ہیں،… اور جو تہذیب ایک دفعہ اپنے تمام حیاتیاتی یا نامیاتی امکانات کو صرف کر چکے اسے نئی زندگی کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ اس خیال کو وہ تاریخ کا نامیاتی ڈھانچہ (organic structure of history) کہتا ہے۔ نقادوں نے اس نظریہ کو تاریخ کا حیاتیاتی یا نامیاتی تصور (organicism) قرار دیا ہے۔ اس پر بہت کچھ تنقید کی گئی ہے اور دو تین دہائیوں کی شہرت اور مقبولیت کے سوا مغرب نے اشپنگلر کے خیالات کو سنجیدہ توجہ کے لائق سمجھنا چھوڑ دیا ہے، بہر حال،… اشپنگلر کے مطالعے سے جو چند نکات فوری طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں:
۱- اشپنگلر تاریخِ عالم میں کسی ارتقائی عمل یا ارتقائی حرکت کو تسلیم کرنے سے بہت حد تک انکاری ہے، اس لیے کہ اس کے نزدیک تاریخ کے معنی…مقصد نہیں بلکہ مقدر (destiny) کے ہیں۔ تاریخ تہذیبوں (ثقافتوں) کے عروج و زوال سے عبارت ہے، جب ایک تہذیب کا دورِ حیات چند مقررہ اُصولوں اور سانچوں کو دہرا چکتا ہے تو اس کا اختتام قریب آجاتا ہے۔ اسی طرح وہ ایک تہذیب اور دوسری تہذیب کے درمیان مشابہت (analogy)کا رشتہ تو دیکھتا ہے لیکن اُن کے مابین کسی ارتقائی عمل کے رشتے کو تسلیم نہیں کرتا۔
۲- اگرچہ وہ کہیں کہیں دبے دبے لفظوں میں تاریخ کے لیے انسانی فیصلے اور انسانی ارادے کو بھی ضرور ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ لیکن فی الحقیقت اس کے نظریئے کے منطقی لزومات کے پیشِ نظر اس کا نظریہ فرد کی آزادی یا علامہ اقبال کی اصطلاحات میں’انفرادی خودی‘ کے تخلیقی اظہار کے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھتا۔ اس کے نظامِ تصورات میں فرد،…ایک مجبورِ عمل ذرّہ ہے جو کسی بڑے نظام، تہذیب، ثقافت یا عہد کے مزاج کی تشکیل و تکمیل کرنے پر مجبور ہے۔
۳- اشپنگلر زوالِ مغرب کے پہلے ہی جُملے میں اعلان کرتا ہے کہ وہ تاریخ میں پہلی بار، تاریخی پیش بینی کے اُصول وضع کرنے کی سعی کر رہا ہے۔ کارل لووتھ کے الفاظ میں،…’’اس نوع کی سعی کے معنوی مضمرات یہ ہیں کہ تاریخ کا سفر بذاتِ خود کسی ضرورت یا التزام کے تحت متعیّن شُدہ ہے۔ تاریخی ثقافتوں کی اہمیت دوائرِ حیات (life-cycles) کی جبری تکمیل میں ہے…یعنی…نشونما،… بالیدگی اور پژمردگی۔ چونکہ تاریخ کے عمل میں نہ تو مشیتِ ایزدی کارفرما ہے نہ انسان کا ارادہ، اس لیے تاریخ کی کوئی منزل یا کوئی نصب العین نہیں ہے۔ اس کی تمام تر عظمت و رفعت اس کی بے مقصدیت میں ہے۔
۴- اسلام کے بارے میں اشپنگلر کا کہنا ہے کہ اسلامی تہذیب کی رُوح مجوسی ہے، یعنی زرتشتیّت اور مجوسیّت کی طرح خیر اور شرکی ثنویّت کے تصور پر استوار ہے۔
اقبال کے لیے اشپنگلر کے اس دعوے میں ایک جذباتی کشش تھی کہ مغربی تہذیب اپنی بالیدگی کی انتہا کو پہنچنے کے بعد اپنے زوال کی حدوں کو چھونے لگی ہے۔ لیکن اقبال کے لیے کسی بھی ایسے نظامِ فکر یا تاریخ کی کسی بھی ایسی تعبیر کو قبول کر لینا بے حد مشکل تھا جس میں۷؎ زمانے کو یا تاریخ کے عمل کو ایک ارتقائی حرکت کے طور پر نہ دیکھا گیا ہو اور جس میں۸؎ انفرادی انا کی تخلیقی صلاحیتوں کو تاریخ کے ناقابلِ پیش گوئی عنصر کی حیثیت سے تسلیم نہ کیا گیا ہو۔ بہر حال اقبال نے اشپنگلر کا تذکرہ اپنے خطبات میں کیا ہے اور اس کے افکار کو تنقیدی نقطۂ نظر سے دیکھا ہے۔ اقبال کے ہاں سب سے پہلے اشپنگلر کا نام تشکیلِ جدید الہٰیاتِ اسلامیہ کے چوتھے خطبے میں ملتا ہے جس کا عنوان: ’خودی جبر و قدر اور حیات بعد الموت‘ ہے،…اس خطبے میں وہ تقدیر کے حوالے سے اشپنگلر کا ذکر کرتے ہیں اور اسلام کے بارے میں اس کی ایک رائے کا حوالہ دے کر اس کے حیاتیاتی تصور پر تبصرہ کرتے ہیں، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
لیکن پھر قرآن مجید نے بار بار تقدیر کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لہٰذا ہمیں تقدیرکے مسئلے پر بھی غور کر لینا چاہیے، بالخصوص اس لیے کہ زوالِ مغرب، میں اشپنگلر نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اسلام بھی خودی کی نفی کا خواہش مند ہے، حالانکہ تقدیر کے بارے میں قرآن مجید کا جو تصور ہے اس کی تشریح ہم اس سے پہلے کر آئے ہیں(یعنی دوسرے خطبے میں) پھر جیسا کہ اشپنگلر نے خود بھی لکھا ہے دُنیا سے یگانگت پیدا کرنے کے دو ہی طریق ہیں، ایک عقلی،۹؎ دوسرا جس کے لیے کوئی مناسب لفظ نہیں ملتا، اس لیے حیاتی،…عقلی طریق کے ماتحت تو ہم کائنات کا ادراک اس طرح کرتے ہیں کہ وہ علت و معلول کا ایک کڑا نظام ہے۔ ’حیاتی‘ طریق کا تقاضا البتہ یہ ہے کہ بحیثیت ایک ایسے’کل‘ کے جو زمانِ متسلسل کی تخلیق اس لیے کر رہا ہے کہ اپنے اندرونی تنوع کا اظہار کر سکے، ہم زندگی کو بطور ایک شئے ناگزیر چُپ چاپ قبول کر لیں۔ لیکن پھر کائنات کی طرف ’حیاتی‘ طریق ہی پر قدم بڑھانا وہ چیز ہے، جسے قرآن پاک نے ایمان سے تعبیر کیا ہے، لہٰذا ایمان سے مطلب یہ نہیں کہ ہم چند ایک قضیوں کو بے چون و چرا صحیح مان لیں۔ برعکس اس کے یہ تیقن اور اعتماد کی وہ کیفیت ہے جس کے لیے انسان کو بڑی نادر واردات اور تجربات سے گزرنا پڑتا ہے اور جس کی اہل صرف وہی شخصیتیں ہو سکتی ہیں جو نہایت درجہ مضبوط ہوں اور اس قسم کی تقدیر پرستی کو، جو اس صورت میں ناگزیر ہے، برداشت کرنے کی اہل (ہوں)۔۱۰؎
ایسی نادر واردات اور تجربات کی تشریح میں، جو انسان کو ایمان کی حقیقی کیفیت سے آشنا کر سکیں‘ اقبال نے حضرت علیؓ کے قول کہ ’میں قرآنِ ناطق ہوں‘ حسین بن منصور حلاج کے نعرۂِ اِنا الحق، اور بایزید بسطامی کے قول، سبحانی ما اعظم شانی، کا حوالہ دیا ہے اور کہا ہے کہ ’’اسلامی تصوّف کے اعلیٰ مراتب میں اتحاد دو تقرب سے یہ مقصود نہیں تھا کہ متنا ہی خودی لامتناہی خودی میں جذب ہو کر اپنی ہستی فنا کر دے، بلکہ یہ کہ لامتناہی۔ متناہی کے آغوشِ محبت میں آجائے‘‘۔ چنانچہ اس تصورِ ایمان سے جس نوع کی تقدیر پرستی پیدا ہوتی ہے… اس تقدیر پرستی کا تقاضا نفیِ ذات نہیں جیسا کہ اشپنگلرکا خیال ہے۔ یہ زندگی ہے، وہ بے پایاں طاقت اور قُدرت جو کسی مزاحمت کو تسلیم نہیں کرتی اور جس کی بدولت انسان اس وقت بھی، جب ہر طرف سے گولیاں برس رہی ہوں باطمینان ادائے صلوٰۃ میں مصروف رہتا ہے۔‘‘۱۱؎
یہاں یہ سوال بھی خاصا اہم ہے کہ اقبال نے اشپنگلر کے جس’حیاتی‘ طریق کار کو ’ایمان‘ کے مترادف یا مشابہ قرار دیا ہے، کیا اشپنگلر کے ہاں بھی یہ اصطلاح ’ایمان یا ایمان بالغیب‘ کے مترادف یا مشابہ ہے؟ اشپنگلر کے ہاں یہ اصطلاح زندگی کے تہذیبی مظاہر کی تشریح کے ایک کلیدی تصور کو ظاہر کرتی ہے اشپنگلر تہذیب یا ثقافت کو ایک حیاتیاتی مظہر اور ایک نامیاتی وحدت فرض کرتا ہے اور اس کی حینِ حیات کے وہی مدارج بتاتاہے جو کسی بھی نامیاتی وحدت یا حیاتیاتی مظہر کے ہو سکتے ہیں، یعنی نشونما، بالیدگی اور پژمردگی،…ہو سکتا ہے اقبال اس (حیاتی یا حیاتیاتی) طریقِ کار کو وجدانی طریقِ کار (intuitional method) کے مترادف سمجھتے ہوں، اور اس طرح اسے ’ایمان‘ کے ہم معنی قرار دیتے ہوں۔
اشپنگلر کا قدرے تفصیلی تذکرہ اقبال نے تشکیلِ جدید الہٰیاتِ اسلامیہ کے پانچوں خطبے،’ اسلامی ثقافت کی رُوح‘ میں کیا ہے۔ اس خطبے میں پہلی بار اشپنگلر کا ذکر وہ یونانیوں کے حوالے سے کرتے ہیں:
اشپنگلر کہتا ہے کہ یونانیوں کی نظر ہمیشہ تناسب پر رہی۔ لامتناہی سے اُنھیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اُن کا ذہن ہمیشہ وجودِ متناہی کی قُدرتی شکل وہیئت اور اس کے قطعی اور معین حدود میں الجھا رہا۔۱۲؎ اس کے برعکس اسلامی تہذیب و ثقافت کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے تو ہم دیکھتے ہیں کہ فکرِ محض ہو یا نفسیاتِ مذہب یعنی تصوّف کے مداجِ عالیہ، دونوں کا نصب العین یہ رہا کہ لامتناہی سے لطف اندوز ہوں، بلکہ اس پر قابو حاصل کریں۔۱۳؎
اس خطبے میں اقبال نے ثابت کیا ہے کہ کائنات کا حرکی تصور پیش کرنے میں مسلمان مفکرین جدید سائنسی فکر کے پیش رَو ہیں۔ اس لیے کہ نصیر الدین طوسی اور البیرونی نے مکانِ مطلق اور عدد کے قدری تصور کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ البیرونی دُنیا کا پہلا ریاضی دان ہے جس نے جدید ریاضی کے نظریۂ تفاعل (idea of function) کی طرف قدم بڑھایا اور ایک ساکن اور ٹھہری ہوئی کائنات کے تصور کو ناقص اور ناقابلِ قبول قرار دیا۔ ریاضی میں تفاعل کا نظریہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کائنات صرف ایک مکانی حقیقت ہی نہیں، ایک زمانی حقیقت بھی ہے۔ اشپنگلر نے جدید ریاضی کے اس نظریۂ تفاعل کو خالص مغرب کی چیز قرار دیا ہے۔ اقبال اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اشپنگلر کے نزدیک تفاعل کا ریاضیاتی تصور مغرب کی خاص چیز ہے۔ وہ کہتا ہے دُنیا کی کسی تہذیب نے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ لیکن بیرونی نے نیوٹن کے قائدۂ ادراج۱۴؎ کی تعمیم سے کہ اسے مثلثی تفاعل۱۵؎ کی بجائے ہم جس تفاعل میں چاہی بدل دیں۔ ثابت کر دیا کہ اشپنگلر کا دعویٰ باطل ہے۔۱۶؎
اس مبحث میں اقبال یونانیوں کے تصورِ عدد کو قدر (magnitude) کی بجائے نسبت (relation) میں بدل دینے میں خوارزمی اور البیرونی کا تذکرہ کرتے ہوئے اشپنگلر کے ایک ’تصورِ عدد‘ کا حوالہ دیتے ہیں:
یونانیوں کے یہاں عدد کا تصور بھی محض قدر کا تصور تھا۔ حالانکہ جب خوارزمی نے حساب سے جبر و مقابلہ کی طرف قدم بڑھایا تو یہ تصور ’قدر‘ کی بجائے نسبت میں بدل گیا۔ پھر آگے چل کر بیرونی نے واضح طور پر وہ تصور قائم کیا ہے جسے اشپنگلر ’سنینی عدد‘ ۱۷؎سے موسوم کرتا ہے اور جس سے ہمارا ذہن کون۱۸؎ کی بجائے تکوین۱۹؎ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔۲۰؎
اشپنگلر نے تہذیبوں کے مزاج کو سمجھنے میں حقائق و واقعات کا جو غیر معمولی ذخیرہ فراہم کیا ہے، اس سے اس کی وسعتِ معلومات کا پورا پورا ثبوت ملتا ہے۔ اس نے تہذیبوں کو ان کے علوم و فنون، اُن کی علامات اور اُن کی اجتماعی رمزیت کے ذریعے سمجھنے کا ایک انوکھا طریقِ کار دریافت کیا، لیکن معلوم نہیں کہ اسلام اور مسلمانوں سے اس جرمن مؤرخ کو کیا پرخاش تھی کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اس کا کوئی تبصرہ تنقیص اور غلط بیانی کے شائبے سے خالی نہیں۔ اقبال نے بالکل بجا کہا ہے کہ…’’اسلام اور اسلامی تہذیب کے بارے میں اشپنگلر نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان کی تحقیق و تنقید کے لیے ایک دفتر چاہیے۔‘‘۲۱؎ اس میں بھی شک نہیں کہ اسلامی دُنیا کے علمی حلقوں کو اقبال ہی نے اشپنگلر کے خیالات و افکار سے روشناس کیا۔ اور اس کے ’تعصبات‘ پر علمی انداز میں تبصرہ کیا۔ اقبال نے اشپنگلر کی علمیت کو یقیناً تسلیم کیا ہے۔ یونانی تہذیب کے بارے میں اس کے تجزیات کو دُنیا کے تمام قابلِ ذکر علمی حلقوں کی طرح، اقبال نے بھی تحسین کی نگاہ سے دیکھا ہے، لیکن اسلامی تہذیب کے بارے میں اس کے نتائج کو گمراہ کن اور مغالطہ آفریں قرار دیا ہے۔ اشپنگلر کا سب سے بڑا علمی دجل یہ ہے (جس کی طرف اقبال نے اشارہ کرنا ضروری نہیں سمجھا) کہ وہ تہذیبوں کے نامیتی تصور کو مطلقاً اپنا علمی انکشاف قرار دیتا ہے اور کسی ماخذ کا حوالہ دینا ضروری نہیں سمجھتا، آج تک پو ری مغربی دُنیا یہی سمجھتی آرہی ہے کہ تہذیبوں کے نامیاتی تصور کی تشکیل میں اشپنگلر علمی طور پر کسی کا زیر بارِ احسان نہیں ہے، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ تہذیبوں کو نامیاتی وحدتوں کے طور پر دیکھنے کا انداز کلیتاً اسلامی ہے جس کی اولین علمی تعبیر ابنِ خلدون نے دُنیا کے سامنے پیش کی۔ قرآن کریم میں سورۃ الاعراف میں قوموں کی ’زندگی‘ کے بارے میں ایک واضح اشارہ موجود ہے، فرمایا گیا ہے:
وَ لِکُلِّ اُمَّۃ اَجَل ج فَاِذَا جَآ ئَ اَجَلُھُم لَا یَستَاخِرُونَ سَاعَۃً وَّ لَا یَستَقدِمُونَ
(ترجمہ) ہر اُمت کے لیے ایک وقت مقرر کر دیا گیا ہے، چنانچہ جب کسی اُمت کے لیے ٹھہرایا ہوا وقت آگیا پھر تو نہ ایک پَل تاخیر ہو سکتی ہے اور نہ ایک پَل پہلے(وہ وقتِ مقرر آسکتا ہے)
اقبال نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے: ’(اس) آیت پر نظر رکھیے تو اس کی حیثیت ایک مخصوص تاریخی تعمیم کی ہے۔ جس میں گویا بڑے حکیمانہ انداز میں یہ سمجھایا گیا ہے کہ اُممِ انسانی کا مطالعہ بھی ہمیں بطورِ اجسامِ نامیہ علمی نہج پر کرنا چاہیے۔ لہٰذا اس سے بڑی غلط بیانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ قرآن پاک میں کوئی ایسا خیال موجود نہیں جو فلسفۂ تاریخ کا سرچشمہ بن سکے، حالانکہ بہ نگاہِ حقیقت دیکھا جائے تو ابنِ خلدون کا ’مقدمہ‘ سرتا سراس رُوح سے معمور ہے جو قرآن مجید کی بدولت اس میں پیدا ہوئی، وہ اقوام و امم کے عادات و فضائل پر حکم لگاتا ہے تو اس میں بھی زیادہ تر قرآن پاک ہی سے استفادہ کرتا ہے۔ ۲۲؎
مقدمہ میں ابنِ خلدون کا سب سے بڑا علمی انکشاف ہی یہی ہے کہ وہ تاریخ کے مطالعے کے لیے عمرانیاتی طریقِ کار وضع کرتا ہے اس کے نزدیک تہذیبیں اور معاشرے ساکن نہیں،… اور سب سے اہم بات یہ کہ افرادِ انسانی کی طرح قومیں اور ملتیں بھی اپنی ایک طبعی عمر رکھتی ہیں، جس سے آگے جانا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس حد تک یہ عین اسلامی اور قرآنی نظریہ ہے،…لیکن اس کی تشریح میں ابنِ خلدون نے اپنی جدتِ طبع سے کام لیا ہے اور یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ ’’جس طرح اشخاص کی قمری حساب سے ایک عمر ہے او ر وہ عموماً ایک سو بیس سال ہوتی ہے، اسی طرح ریاست و سلطنت کی بھی ایک عمر ہوتی ہے، جو تین ’’اجیال‘‘ سے متجاوز نہیں ہو جاتی، ’’جیل‘‘ تقریبا‘‘ چالیس برس کا ہونا چاہیے‘‘۲۳؎ ابنِ خلدون نے قوموں کی زندگی پر ’’ایک سو بیس سال کی عمرِ طبعی‘‘ کے نظرئیے کا اطلاق کرنے کی بہت کوشش کی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک علمی تکلف نظر آتا ہے۔ قرآنِ کریم نے یہ تو کَہ دیا ہے کہ ہر قوم کے لیے وقت کا ایک اندازہ ٹھہرا دیا گیا ہے، لیکن قرآن نے اس انداز ے کو طبعی اُصولوں ے مشروط کرنے کی بجائے ہمیشہ ’اعمالِ خیر‘ اور ’اعمالِ شر‘ کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ قوموں کا عروج و انحطاط اُن کے اعمال سے وابستہ ہے، قرآنِ کریم کا یہ تصور اس آیت میں بہت واضح طور پر موجود ہے:
ذَلِکََ بِاَنَّ اللّٰہ لَم یَکُ مُغَیِّرا نِّعمَۃً اَنعَمَھَا عَلیٰ قَوم حَتیٰ یُغَیّرُوا مَا بِاَنفُسِھِم وَ اَنَّ اللّٰہَ سَمِیع عَلِیم (الانفال:۵۳)
(ترجمہ) اور یہ اس لیے ہوا کہ اللہ کا مقرر ہ قانون ہے کہ جو نعمت وہ کسی گروہ کو عطا فرماتا ہے اسے پھر کبھی نہیں بدلتا جب تک کہ خود اسی گروہ کے افراد اپنی حالت نہ بدل لیں، اور (اس لیے بھی کہ) اللہ (سب کی) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے۔۲۴؎
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قوموں کا عروج و زوال اُن کے اعمال سے رُو پذیر ہوتا ہے۔ گویا ان کے اپنے باطن سے برآمد ہوتا ہے اس لیے کہ اعمال کا سرچشمہ افراد کا باطن ہی ہوتا ہے، کوئی خارجی قوت اقوام پر باہر سے ذلت وادبار مسلط نہیں کرتی، (علاماتی طور پر خارج سے جو کچھ پیش آتا ہے وہ بھی اقوام و افرا دکے باطن ہی کی خارجی تمثیل ہوتی ہے)،… بہر حال، یہاں ہمارا مقصد صرف یہ کہنا تھا کہ قوموں کے لیے عمرِ طبیعی کا تصور یعنی قوموں کو ایک نامیاتی وحدتوں کی صورت میں دیکھنے کا منہاج (method) اشپنگلر کا ذاتی انکشاف نہیں بلکہ ابنِ خلدون کاآزمایا ہوا طریقِ کار ہے، اور یہ ممکن نہیں کہ اشپنگلر نے ابنِ خلدون کے افکار سے استفادہ نہ کیا ہو!
اسلام کے بارے میں اشپنگلر کا سب سے بڑا مغالطہ انگیز بلکہ گمراہ کن بیان یہ ہے کہ اسلام مجوسیت کی بدلی ہوئی صورت ہے، علاوہ ازیں مغربی تہذیب میں جو ضد یونانیت (anti-hellinistic) عناصر کار فرما ہیں، اُنھیں وہ صرف مغربی تہذیب کا کارنامہ قرار دیتا ہے، حالانکہ اس معاملۂ خاص میں مغرب اسلامی علوم و فنون کا رہینِ منت ہے۔ جنھوں نے یونان کے سکونیاتی نظریۂ حیات کے مقابلے میں ایک حر کی تصورِ حیات پیش کیا ہے اور علوم و فنون میں تجربے اور مشاہدے کی اہمیت کو واضح کیا، یونانی فکر کی ساری سر بلندی منطقی فکر کی مہارت میں مضمر ہے، اسلامی تہذیب نے منطقی فکر کے مقابلے میں تجربی علوم کو اہمیت دی اور یوں زندگی، تفکر اور علوم و فنون کے لیے ایک ایسا منہاج فراہم کیا جو فی الحقیقت عصرِ حاضر کی جدید علمی دُنیا کی اساس ثابت ہوا۔ لیکن اشپنگلر اسلام اور اسلامی تمدن کو یہ اعزاز بخشنے کے لیے تیار نہیں۔ تہذیبوں کو ہر اعتبار سے خود مکتفی قرار دینے میں اشپنگلر نے جس طرح مبالغے سے کام لیا ہے اس کی غرض علامہ اقبال کے نزدیک یہی ہے کہ وہ ثابت کر سکے کہ مخالفِ یونانی طرزِ فکر میں مغرب کسی اور تہذیب کار ہینِ منت نہیں۔ اسلام پر مجوسیت کے اثرات اور مغربی تہذیب کے چند یونانی عناصر کے معاملے میں اشپنگلر کے خیالات و تعصبات پر اقبال کی تنقید کا ایک حصہ تطویل کے احتمال کے باوجود اپنی اہمیت کے پیشِ نظر یہاں نقل کیا جاتا ہے، اقبال فرماتے ہیں:
اشپنگلر کا دعوی ہے کہ کوئی بھی تہذیب ہو، اسے اپنی جگہ پر ایک جسمِ نامی تصور کرنا پڑے گا اس لیے کہ زماناً دیکھا جائے تو کسی تہذیب کا اس تہذیب سے جو اس سے متقدم ہے یا متأخر، کوئی تعلق نہیں ہوگا۔اشپنگلر کے نزدیک ہر تہذیب کا اپنا ایک نقطۂ نظر ہوتا ہے اور وہ جس شئے کو دیکھتی ہے اسی نقطۂ نظر کے ماتحت، جسے دوسری تہذیبوں کے افراد سمجھ ہی نہیں سکتے۔ یہ دعویٰ ہے جس کی حمایت میں اشپنگلر کا اضطراب اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ وہ ایک واقعے کے بعد دوسرا اور ایک تعبیر کے بعد دوسری تعبیر پیش کرتا اور اس طرح واقعات اور تعبیرات کا ایک طو مار کھڑا کر دیتا ہے تا کہ کسی نہ کسی طرح یہ ثابت ہو جائے کہ مغربی تہذیب کی مخالفِ یونانیت رُوح اس کی اپنی ذہانت و فطانت نتیجہ ہے، نہ کہ ان اثرات کا جو بہت ممکن ہے اس نے اسلامی تہذیب سے قبول کیے ہوں، کیونکہ یہ تہذیب ۲۵؎ کیا باعتبارِ روح اور کیا باعتبارِ نوعیت، اشپنگلر کے نزدیک خالصتاً مجوسی ہے… ہم ان خطبات میں بار بار کَہ چکے ہیں کہ عصرِ حاضر کی روش اگر یونانیت کے منافی ہے تو اس کی ابتداد راصل اس بغاوت سے ہوئی جو عالمِ اسلام نے فکرِ یونانی کے خلاف کی مگر اشپنگلر اس بات کو کیسے تسلیم کر سکتا ہے؟ کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ تہذیبِ جدید کی مخالفِ یونانیت رُوح سچ مچ اُن اثرات کا نتیجہ ہے جو اس نے اپنی پیش رو (یعنی اسلامی) تہذیب سے قبول کیے تو تہذیبوں کی باہمدگر آزادی اور جُدا گانہ نشو نما کے متعلق اشپنگلر کا دعویٰ یک قلم باطل ہو جائے گا۔ میری رائے میں اشپنگلر کا یہی اضطراب کہ وہ اپنے اس دعوے کو کسی نہ کسی طرح صحیح ثابت کر سکے، اس امر کا باعث ہوا کہ بحیثیت ایک ثقافتی تحریک اس نے اسلام کو بڑی غلط اور فاسد نگاہوں سے دیکھا۔۲۶؎
اسلام کے بارے میں اشپنگلر کے ان خیالات کو دیکھتے ہوئے فوری طور پر ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ مغربی تہذیب پر اسلام کے اثرات کو تسلیم کرنے کیے لیے تیار نہیں کہ اس کے نزدیک ہر تہذیب ایک خود مکتفی وحدتِ نامیہ ہے، تو اس نے اسلام پر مجوسیت کے اثرات کو کیوں کر تسلیم کر لیا۔ اس ممکنہ اعتراض کا سدِّباب اس نے یہ کیا کہ تمام علمی اور تاریخی شواہد اور صداقتوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے یہودیت، قدیم کلدانی مذہب، ابتدائی عیسائیت، زرتشیّت اور اسلام کو ’’مجوسی مذاہب‘‘ کا مجموعہ اور نتیجۃً ایک ہی ثقافتی تحریک قرار دے دیا۔ اس غیر علمی اور غیر تاریخی رویے سے اس نے کیا حاصل کرنا چاہا؟ مغربی تہذیب کی برتری؟ وہی مغربی تہذیب جس کے زوال کا وہ خود بہت بڑا منّا د تھا۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے بارے میں یہ تو درست ہے کہ تینوں مذاہب سامی الاصل ہیں اور خدا کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں لیکن تہذیبی یا ثقافتی اعتبار سے یہودیت اور عیسائیت، اسلام سے کم سے کم مشابہتیں رکھتی ہیں؛اور اگر ان مذاہب کے ’الہامی‘ ہونے کے اعتبار سے انھیں ایک بڑی تہذیبی تحریک قرار دے بھی دیا جائے پھر بھی مجوسیت اور قدیم کلدانی مذاہب کو یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے مشابہ قرار دینا بلکہ ان سب کو ایک ہی نام دے دینا۔ یعنی ’’مجوسی مجموعۂ مذاہب‘‘ یا تو بہت بڑی علمی بد دیانتی ہے یا کھلی ہوئی عقلی اور علمی گمراہی ہے۔ بالخصوص اشپنگلر نے علمِ تاریخ کے بارے میں مسلمان حکما اور خاص طور پر ابنِ خلدون کے علمی اکتشافات کا تذکرہ نہ کر کے بلکہ ان کی علمی اور تاریخی قدر و قیمت پر پردہ ڈال کر ایک ناقابلِ فہم علمی کوتاہی کا ثبوت دیا ہے۔
اقبال کو جرمن قوم کے افکار سے بہت دلچسپی تھی، اس لیے وہ اکثر جرمن مفکرین کے خیالات کو قابلِ اعتنا سمجھتے تھے، نطشے اور گوئٹے ان کے پسندیدہ جرمن مفکرین تھے، اشپنگلر اُن کا ہم عصر مفکر تھا، اس لیے اُنھوں نے اسے قابلِ توجہ ضرور سمجھا، لیکن اس کے افکار میں اقبال کی دلچسپی کی اوّلیں وجہ، جیسا کہ سطورِ بالا میں بھی اشارۃً عرض کیا گیا، اشپنگلر کا یہ دعویٰ تھا کہ مغربی تہذیب اپنے نقطۂ عروج کو چھو کر عنقریب زوال پذیر ہونے والی ہے، یہ خیال چونکہ اقبال کے ذاتی فکری نتائج سے ہم آہنگ تھا، اس لیے اقبال نے علمی سطح پر اس کی پذیرائی کی، لیکن اشپنگلر کے ہاں اس سے زیادہ اقبال کی دلچسپی کا کوئی اور سامان موجود نہیں تھا،اشپنگلر زندگی، کائنات اور تاریخ کی کوئی اخلاقی، رُوحانی یا مابعدالطبیعیاتی تعبیر پیش نہیں کرتا، البتہ اقبال نے اس کے اس خیال کو ضرور اہمیت دی کہ تہذیبوں کی بھی ایک عمرِ طبیعی ہوتی ہے، اور وہ بھی نامیاتی وحدتوں کی طرح نشو نما پاتی اور اپنے انجام کو پہنچتی ہیں۔ لیکن اقبال نے اپنے خطبات میں واضح الفاظ میں اس خیال کو اسلامی اور قرآنی تصور قرار دیا ہے اور اس کے علمی انکشاف کو ابنِ خلدون سے منسوب کیا ہے۔
اقبال غالباً پہلے اسلامی مفکر ہیں جنھوں نے قرآن کریم کے نظریۂِ علم کو سمجھنے اور پھر بیان کرنے کی سعیِ بلیغ کی، اُنھوں نے اس مسئلے کو ایسی صراحت کے ساتھ بیان کیا، جو قطعی طور پر بے مثال تھی۔ اُنھوں نے کہا کہ قرآن کریم کے نزدیک علم کے تین بڑے ذرائع ہیں۔ ا۔ انسان کا اپنا باطن (یعنی عقل وادراک، فکرو وجدان اور جذبات و محسوسات وغیرہ) ۲۔ مشاہدۂِ فطرت یا مشاہدۂِ کائنات اور ۳۔تاریخ…تاریخ کو ایک بنیادی ذریعۂ علم قرار دینا اسلام کا ایک بہت بڑا علمی کارنامہ ہے جس کی قدر و قیمت کو کما حقہ، کبھی نہیں سمجھا گیا، تاہم بیسویں صدی میں یہ اقبال کے مقدر میں تھا کہ وہ مسلمانوں اور علمی دُنیا کو تاریخ کے بارے میں اسلام کے اس انقلاب آفریں نقطۂ نظر کی طرف متوجہ کریں، اقبال نے اس سلسلے میں پوری علمی جُرأت کے ساتھ قرآن کریم کے تصورِ تاریخ کا خاکہ ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ اس معاملے میں البیرونی، ابن مسکویہ اور ابنِ خلدون سے بھی پورا پورا استفادہ کیا ہے، اقبال نے اکثر بڑے مسلمان مفکروں کی طرح ان تینوں مذکورہ بالا مفکروں کے افکار میں بھی ان اجزا کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جنھیں فکرِ جدید اور زندگی اور کائنات کے حر کی تصور کی بنیا د قرار دیا جا سکے، حرکت اور تغیّر کے تمام تصورات جو ان مفکروں کے ہاں نظر آتے ہیںاقبال کے نزدیک اسلامی فکر کے ثمرات ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ابنِ خلدون تاریخ نگاری میں ایک نئے (method) اور ایک نئے طرزِ فکر کا بانی ہے۔ اس نے تاریخ کو عمرانیات کے ساتھ مربوط کیا اور مشرق و مغرب کے بہت سے محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فلسفۂ تاریخ اور علمِ عمرانیات کی بنیادیں ابنِ خلدون ہی نے فراہم کی ہیں، اگرچہ ابنِ خلدون کے نظریۂِ تاریخ کو بہ تمام و کمال قرآنِ کریم کے تصورِ تاریخ یا اس کی تشریح کے مترادف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خود اقبال نے بھی ایسا نہیں کیا، البتہ ابنِ خلدون کے مقدمہ اور کتاب العبر کی جلد اوّل میں تاریخ و عمرانیات میں جو ربط پایا جاتا ہے، نیز ابنِ خلدون نے تاریخ کے تصور کی تشکیل میں حرکت و تغیّر کو جو اہمیت دی ہے اس کے پیشِ نظر اقبال نے اس کے خیالات کو قابلِ توجہ قرار دینے کے ساتھ ساتھ اُنھیں اسلامی فکر سے مستفاد قرار دیا ہے۔ اقبال دو تصورات کو قرآنی تعلیمات کا سنگِ بنیاد قرار دیتے ہیں، ۱۔وحدتِ مبدئِ حیات (زندگی کسی ایک ہی سر چشمے سے پیدا ہوئی ہے، ’’اور ہم نے تمہیں نفسِ واحدہ سے پیدا کیا‘‘ (القرآن ۴:۱)اور ۲۔ زمانے کو حقیقی تسلیم کرنا اور زندگی کا یہ تصوّ ر کہ وہ ایک مسلسل اور مستقل حرکت سے عبارت ہے۔ اقبال اس دوسرے قرآنی تصور (زمانہ حقیقی ہے اور زندگی دائمی حرکت کا دوسرا نام ہے) کو ابنِ خلدون کے تصورِ تاریخ کی تشکیل میں شامل پاتے ہیں اس لیے کہتے ہیں:
زمانے کا یہی تصور ہے جو ابنِ خلدون کے نظریۂِ تاریخ میں ہماری دلچسپی کا مرکز بن جاتا ہے… اسلامی تہذیب و تمدن نے اپنے اظہارکے لیے جو راستہ اختیار کیا اس پر نظر رکھیے تو یہ کسی مسلمان ہی کا کام ہو سکتا تھا کہ تاریخ کا تصور بطور ایک مسلسل اور مجموعی حرکت کے کرتا، یعنی زماناً ایک ایسے نشو و نما کی حیثیت سے جس کا ظہور ناگزیر ہے گویا ہمیں ابنِ خلدون کے نظریۂِ تاریخ سے دلچسپی ہے تو اس کی وجہ بھی ابنِ خلدون کا وہ تصور ہے جو اس نے تغیّر کے باب میں قائم کیا ہے، یہ تصور بڑا اہم ہے، کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تاریخ چونکہ ایک مسلسل حرکت ہے زمانے کے اندر، لہٰذا یہ ماننا لازم آتا ہے کہ اس کی نوعیت فی الواقع تخلیقی ہے۔ بہ الفاظ، دیگر یہ وہ راستہ نہیں جو پہلے سے متعین ہو…اس نے زمانے کا تصور جس رنگ میں کیا ہم اس کے پیشِ نظر اس کا شمار برگساں کے پیش رووں میں کریں گے۔(۷۲)
اقبال کے نزدیک ابنِ خلدون کی اہمیت ایک تو اس لیے ہے کہ وہ پہلا (مسلمان) مفکر اور مؤرخ ہے جس نے تاریخ کو ایک علم کی حیثیت سے مدوّن کرنے کی ضرورت کو محسوس کیا اور تاریخ کی پہلی علمی (نیز کسی حد تک فلسفیانہ) تعبیر پیش کی(ہر چند کہ یہ تعبیر اشارات پر ہی مشتمل ہے) اقبال کے لیے ابنِ خلدون کی اہمیت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ابنِ خلدون نے تاریخ کے عمل کو بہت حد تک قرآن کریم کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ نیز اس نے تاریخ کو عمرانی اور نفسیاتی حقائق کے ذریعے سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس کی نفسیاتی ژرف نگاہی کو انصاف پسند مغربی محققین نے بھی تسلیم کیا ہے، علامہ اقبال نے پہلے خطبے میں پروفیسر میکڈانلڈکا قول نقل کیا ہے۔ ’’ابنِ خلدون کے بعض نفسیاتی افکار بڑے دلچسپ ہیں۔ وہ اگر آج زندہ ہوتا تو مسٹرولیم جیمز کی کتاب مشاہداتِ مذہبی کی گوناگونی کو بنظرِ استحسان دیکھتا۔۲۸؎ چارلس اِساوی نے اپنی کتاب ’تاریخ کا عرب فلسفہ‘ میں ٹو ائن بی کے حوالے سے لکھا ہے کہ’’ ابنِ خلدون نے اپنی عالمگیر تاریخ کتاب العبر کے مقدمے میں پہلی بار تاریخ کے ایک ایسے فلسفے کی تشکیل کی جو اپنی نوعیت کا عظیم ترین کارنامہ ہے جو کسی بھی ذہن نے کسی بھی زمان و مکان میں تخلیق کیا ہے‘‘۔ اسی کتاب میں سارٹن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’’ابنِ خلدون ایک تاریخ دان، سیاستدان، ماہرِ عمرانیات، ماہرِ اقتصادیات اور احوالِ انسانی کا ایک باریک بیں طالب علم تھا۔ وہ انسان کے ماضی کو اس لیے جاننا چاہتا تھا کہ اس کی روشنی میں انسان کے حال اور مستقبل کو سمجھ سکے‘‘۔ علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ ’’فلیٹ بجا طور پر اس کی (ابنِ خلدون کی) تعریف میں رطب اللسان ہے۔ وہ کہتا ہے کہ افلاطون ہو یا ارسطویا اگسٹائین، ان میں کوئی بھی اس قابل نہیں کہ اس کی ہمسری کا دعویٰ کر سکے، رہے دوسرے، سو ان کا ذکر ہی کیا ہے۔ ان کا تو اس کے ساتھ نام بھی نہیں لیا جا سکتا۔‘‘۲۹؎
ابوزید عبدالرحمن الملقب بہ ولی الدین ابنِ خلدون ایک انوکھا انسان تھا۔ آٹھویں صدی ہجری۳۰؎ کے اس مؤرّخ نے غیر معمولی حالات میں زندگی بسر کی، اس کا خاندان اشبیلیہ (اُندلس) سے تعلق رکھتا تھا، اور ساتویں صدی عیسوی میں اشبیلیہ سے تونس آگیا تھا، اس کے آبائو اجداد وائل بن حجر کی اولاد سے تھے اور عرب قبیلہ کندۃ سے تعلق رکھتے تھے، ابنِ خلدون کے اجداد کو اُندلس میں عزت و توقیر نصیب ہوئی اور وہ اہم مناصب پر فائز ہوتے رہے۔ ابنِ خلدون نے کم عمری ہی میں علومِ متداولہ پر دسترس حاصل کر لی اور اکیس برس کی ٍعمر میں تونس کے بادشاہ نے اسے اپنا ’’کاتب العلّامہ‘‘ مقرر کیا۔ لیکن ابنِ خلدون کی بقیہ زندگی مختلف حکمرانوں اور امرا کے درباروں میں گزری، اس نے کئی سفر کیے، وہ مالکی فقہ کا پیرو کار اور ماہر تھا۔ اس نے جامع الازہر اور بعض دوسری اہم درسگاہوں میں درس بھی دیے۔ وہ دہ تین بار قاہرہ میں قاضی القضاۃ مقرر کیا گیا، ۸۰۳ھ میں اس نے سلطان الناصر کی جانب سے دمشق میں امیر تیمور سے بھی ملاقات کی، کہا جاتا ہے کہ امیر تیمور اس کی علمیت، اندازِ گفتگو اور شخصی وجاہت سے بہت متاثر ہوا۔ ابنِ خلدون اپنی وفات تک قاہرہ کے قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز رہا،…اس نے اپنی شہرۂِ آفاق تاریخ اور مقدمہ قلعۂ ابن سلامتہ میں گوشہ نشین ہو کر ۷۷۶ھ اور ۷۷۹ھ کے درمیان مکمل کی، کتاب کا پورا نام ہے کتاب العبر و دیوان المبتدا والخبر فی ایام العرب و العجم والبربر ومن عاصرھم من ذوی السلطان الاکبر۔ یہ کتاب ایک مقدمے اور سات جلدوں پر مشتمل ہے، علمی دُنیا میں ’’مقدمۂِ ابنِ خلدون ‘‘ کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی، محققین کی رائے میں کتاب کی مختلف جلدیں ایک سی قدرو قیمت کی حامل نہیں تاہم یہ ایک بہت اہم تصنیف ہے، یہی وہ کتاب ہے جو جدید فلسفۂ تاریخ اور عمرانیات (sociology) کی اساس ثابت ہوئی، اس کتاب میں ابنِ خلدون نے پہلی بار تاریخ کو ایک ’علم‘ قرار دیا، اور اس علم کے رشتے معاشرتی احوال کے مطالعے کے ساتھ استوار کیے، یہ کتاب ابنِ خلدون کی پچاس سالہ علمی اور عملی زندگی، نیز وسیع مطالعے اور مشاہدے کا حاصل ہے۔ بقول الفریڈبیل، اس کتاب کا مقدمہ، جس میں ’’عربی علوم اور تہذیب کے تمام شعبوں سے بحث کی گئی ہے، مصنّف کے خیالات کی گہرائی، وضاحتِ بیان اور اصابتِ رائے کے لحاظ سے یقیناً اپنے زمانے کی سب سے اہم تصنیف ہے، اور بظاہر کسی مسلمان کی کوئی بھی تصنیف اس سے سبقت نہیں لے جا سکی۔‘‘۳۱؎
مقدمہ اور تاریخ ابنِ خلدون کے دُنیا کی اکثر بڑی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں ۳۲؎… مقدمہ اور تاریخ کے علاوہ ابنِ خلدون کی تین تالیفات اور بھی ہیں۔ یعنی ۱-شرح البردۃ، ۲-الحساب، ۳-المنطق۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ابنِ خلدون نے اپنی کتاب میں تاریخ یا علمِ تاریخ کی کوئی ایسی تعریف پیش نہیں کی، جس سے اس کے نظریۂ تاریخ کا براہِ راست اندازہ کیا جا سکے، البتہ مقدمہ،…اور تاریخ میں اس نے جو علمی رویہ اختیار کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تاریخ کو بھی دوسرے علوم کی طرح حقائق اور تجربے اور مشاہدے سے مشروط کرتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابنِ خلدون کے ہاں تاریخ کا ایک جامع اور مربوط تصور ضرور موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ منطقی اعتبار سے تاریخ کی کوئی جامع اور مانع تعریف نہ وضع کر سکا ہو لیکن یہ کہنا شاید قرینِ انصاف نہیں کہ اس کے ہاں تاریخ کا کوئی مربوط تصور موجود نہیں۔ اگر حقیقت یہی ہوتی تو وہ کسی طرح بھی جدید فلسفۂ تاریخ اور تاریخ کے عمرانی منہاج کا بانی قرار دیے جانے کا مستحق نہ ہوتا۔ مقدمے کی ایک فصل میں تاریخ کی ایک واضح تعریف موجود ہے اور وہ یہ ہے’’اعلم ان فن تاریخ فن عزیز المذھب…اذ ھو یوقفنا علیٰ احوال الماضیین من الامم واخلاقھم۔ یعنی تمہیں جاننا چاہیے کہ فنِ تاریخ ایک وقیع فن ہے،…یہ ہمیں ماضی کی اقوام کے احوال اور اخلاق سے واقف کرتا ہے‘‘۔ تاریخ کو ’’فن عزیز المذہب‘‘ کہنے کا حاصل یہی ہے کہ وہ تاریخ کو ایک بے حد اہم علم سمجھتا ہے، نیز تاریخ اس کے نزدیک صرف بادشاہوں کے حالات یا اُن کے سنین و شہور (chronology) نہیں بلکہ یہ اقوامِ ماضیہ کا علم ہے جو اممِ گذشتہ کے احوال سے بحث کرتا ہے۔ بالخصوص اُن کے اخلاق(عادات و اطوار اور عمومی معاشرتی کوائف) کی روشنی میں …!یہ تعریف بہت حد تک جامع ہے۔ تاہم مقدمے میں ایک اور مقام پر تھوڑی سی تفصیل اور بھی ہے جس سے اس کے نظریۂِ تاریخ پر مزید روشنی پڑتی ہے۔ابنِ خلدون لکھتا ہے: ’’اعلم انہ لما کانت حقیقۃ التاریخ انہ خبر وعن الاجتماع الانسانی انہ ہو عمران العالم‘‘۔۳۳؎ یہاں ابنِ خلدون نے تاریخ کو’’ خبر‘‘ قرار دیا ہے جس کا تعلق اجتماعِ انسانی سے ہے اور اجتماعِ انسانی عمران العالم (ساری دُنیا کا انسانی معاشرہ) ہے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو فی الحقیقت جدید مطالعۂ تاریخ اور علم العمران کی بنیاد قرار دیے جا سکتے ہیں…اگر تجزیہ کریں تو بظاہر ان اُدھوری تعریفوں سے ایک بہت حد تک جامع تعریف بھی اخذ کی جا سکتی ہے مثلاً
۱-’’علم تاریخ ایک وقیع اور اہم علم ہے‘‘۔ ابنِ خلدون سے پیشترکسی نے تاریخ کو علم یا فن قرار نہیں دیا تھا۔ اور نہ ہی اس کی اہمیت کو اس طرح تسلیم کیا تھا۔
۲-’’یہ علم ہمیں اقوامِ ماضیہ کے احوال و اخلاق سے واقف کرتا ہے‘‘۔ ابنِ خلدون پہلا شخص ہے جس نے تاریخ کو اقوام و امم سے وابستہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ تاریخ اممِ ماضیہ کے احوال و اخلاق کے مطالعے کا نام ہے۔ محض سنین و شہور کی کھتائونی یا سلاطین کے احوال سے عبارت نہیں، یہ تاریخ کا پہلا وسیع اور علمی تصور ہے جو دُنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔
۳-تاریخ کی حقیقت یہ ہے کہ یہ’خبر‘ ہے‘‘۔ خبر ایک خالص اسلامی اصطلاح ہے، جس سے مراد ہے کسی خاص واقعے کے بارے میں جو ماضیِ قریب یا ماضیِ بعید میں پیش آیا، ممکنہ حد تک صحیح روایت جو راویوں کے ناموں اور اُن کے الفاظ کی حامل بھی ہو۔ روایت کی صحت میں مسلمانوں کی کدوکاوش دُنیا سے پوشیدہ نہیں ہے، ابنِ خلدون نے تاریخ کو خبر کَہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تاریخ میں روایت کی صداقت اور راویوں کی ثقابت کیا معنی رکھتی ہے۔
۴-’’تاریخ کا تعلق ’اجتماعِ انسانی‘ سے ہے‘‘۔ گویا کسی فردِ واحد کے احوال کو ہم تاریخ نہیں کَہ سکتے بلکہ یہ انسان کی اجتماعی صورتِ حال کا مطالعہ ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں ابنِ خلدون تاریخ کو عمرانیات کے ساتھ ملا دیتا ہے،…’’انہ خبر وھو عن الاجتماع انسانی‘‘ کَہ کر اس نے علمِ تاریخ کے سائے میں عمرانیات یا علم العمران (sociology) کی بنیاد بھی رکھ دی،…اس خیال کے لیے کہ انسان کا مطالعہ اس کے فطری ماحول اور معاشرتی احوال کے سیاق و سباق میں کیا جانا چاہیے، دُنیا فی الحقیقت ابنِ خلدون ہی کی رہینِ منّت ہے۔
۵-’’اجتماعِ انسانی دراصل’ عمران العالم ہے‘‘۔‘اگر ابنِ خلدون اجتماعِ انسانی کے بعد ’عمران العالم‘ کا اضافہ نہ کرتا تو بھی ’اجتماعِ انسانی‘ کی اصطلاح اسے جدید عمرانیات کا بانی ثابت کرنے کے لیے کافی تھی۔ لیکن اس نے ’اجتماعِ انسانی، پر ’عمران العالم‘ کا اضافہ کر کے واضح کر دیا کہ وہ تاریخ کو انسان کی اجتماعی صورتِ حال…اور پوری دُنیا کی انسانی معاشرت کا مطالعہ سمجھتا ہے۔ اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ وہ تاریخ کو کسی ایک خطے یا قوم تک محدود نہیں کرتا بلکہ تاریخ کے عمل کو تہذیبِ انسانی کی مجموعی صورتِ حال کے مطالعے کے مترادف قرار دیتا ہے، اس اشارے میں ایک اشارہ یہ بھی پنہاں ہے کہ ابنِ خلدون کے نزدیک تاریخ ایک مجموعی عمل (general process) ہے جس کا تعلق انسان کی عمومی اور مجموعی معاشرتی صورتِ حال سے ہے تاہم علم تاریخ اس کے نزدیک ایک ایسا علم ہے جو کسی خاص عہد یا ملت کے مخصوص حالات و واقعات کو موضوعِ بحث قرار دیتا ہے۔‘‘۳۴؎ اگر ان نکات پر مزید چند تصورات کا اضافہ کر دیا جائے تو ابنِ خلدون کا تصورِ تاریخ نکھر کر سامنے آجاتا ہے وہ چند تصورات یہ ہیں:
۶-تغیّر اور اُصولِ حرکت: ابنِ خلدون نے تاریخ کے عمل میں تغیر اور اُصولِ حرکت کو کارفرما دیکھا،…اُسوقت تک کی علمی ترقی اور تصورِ تاریخ کے ارتقا کو دیکھا جائے تو یہ ایک انقلاب آفریں تصور ہے کہ زندگی انفرادی ہو یا اجتماعی، معرضِ تغیّر میں ہے اور معاشرے کے ہر عمل میں اُصولِ حرکت کارفرما ہے خواہ یہ حرکت پیش رفت کی ہو یا مراجعت کی۔ اس تصور کا سرچشمہ یقیناً قرآن کریم کا یہ تصور ہے کہ اقوام کی زندگی تغیّرات سے دو چار رہتی ہے جیسا کہ واضح طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے:وَ تِلکَ الَا یَّامُ نُداوِلُھَا بَینَ النَّاسِ
اور یہ ایّامِ (عروج و زوال) ہیں، جنھیں ہم انسانوں (قوموں) میں اِدھر سے اُدھر پھراتے رہتے ہیں(کہ کبھی ایک کو جیت یا بلندی نصیب ہوتی ہے اور کبھی دوسرے کو)۔
سورۂ آلِ عمران کی یہ آیت اُن آیاتِ کریمہ میں سے ہے جو جنگِ اُحد میں مسلمانوں کی شکست کے بعد اُن کی تالیفِ قلب کے لیے نازل ہوئیں۔لیکن اُنھیں آیات میں قرآن کریم نے اپنا فلسفۂ تاریخ اور قوموں کے عروج و زوال کے اسباب و علل بھی اجمالاً بیان کر دیے ہیں اس سے پیشتر کی آیات میں قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ’تم سے پہلے بھی دُنیا میں قوموں کے لیے عروج و زوال کے قوانین کار فرما رہے ہیں۔ پس دُنیا کی سیر کرو اور دیکھو کہ احکامِ حق کو جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا ۳۵؎گویا قرآنِ کریم نے قوموں کے عروج و زوال کو عمومی طور پر ان کے اعمالِ (خیر و شر) کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ بہر حال ابنِ خلدون نے اُصولِ تغیّر کو تاریخ کے مطالعے کا اصلِ اُصول قرار دیا ہے۔
۷۔تاریخ ایک مراجعتی یا دَوری عمل ہے: ابنِ خلدون کے افکار اور فلسفۂ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں بہت حد تک حق بجانب ہیں کہ تاریخ ابنِ خلدون کے نزدیک ایک بار بار مراجعت کرنے والی حرکت یا دَوری عمل (cyclic movement)سے عبارت ہے گویا تاریخ کا عمل ہر بار ایک دائرے کو مکمل کرتا ہے اور ہر نئے دائرے کی نوعیت کم و بیش گذشتہ دائرے کی طرح ہوتی ہے۔ ابنِ خلدون کے نزدیک تاریخ کا عمل خطِ مستقیم میں نہیں، اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ پوری حیات انسانی میں ایک عمودی یا ارتقائی حرکت کو تسلیم نہیں کرتا۔ لیکن ایسا اس نے الفاظ میں نہیں کہا بلکہ اس کی بعض عبارات سے متبادر ہوتا ہے۔ یا ان تصورات سے مفہوم ہوتا ہے جو اس نے تہذیبوں کی عمرِ طبیعی کے بارے میں پیش کیے ہیں۔
۸-عبرت اندوزی اور حکمت افروزی: ابنِ خلدون نے تاریخ کو علومِ حکمیہ (philosophy) کا درجہ دینے کی سعی کی۔ اس نے کہا کہ تاریخ بھی حکمت کا ایک شعبہ ہے، نیز اس سے واقعاتِ عالم کے اسباب و علل کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان واقعات و حوادث سے عبرت اندوزی اور حکمت پذیری کا کام بھی لیا جانا چاہیے۔ ابنِ خلدون کی کتاب کا پورا نام (جیسا کہ سطور بالا میں بتایا جا چکا ہے)کتاب العبر و دیوان المبتدا والخبر فی ایام العرب و العجم والبربر ومن عاصرھم من ذوی السلطان الاکبر ہے۔ اسے بعد کے تمام مؤرخین نے ’’کتاب العبر‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ ابنِ خلدون کے تصورِ تاریخ میں لفظ ’عبر‘ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ دورِ جدید کے ایک معنی آفریں محقق۔ محسن مہدی نے اپنی تحقیق۳۶؎میں’عبر‘ اور ’ایّام‘ کے الفاظ کو کلیدی حیثیت دی ہے اور ابنِ خلدون کے تصور تاریخ کی تشریح انھیں دو الفاظ کے حوالے سے کی ہے،’عبر‘ ’عبرت‘ کی جمع ہے، اور عبرت کے معنی ہیں کسی واقعے یا شئے یا افراد و اقوام کے احوال سے ایسے نتائج اخذ کرنا جو نتائج اخذ کرنے والے کے لیے اخلاقی اصلاح کا باعث بن سکیں۔ عام الفاظ میں اسے پندو نصیحت بھی کَہ سکتے ہیں۔ ابنِ خلدون واقعات کو ’ساکن‘ حالت میں نہیں دیکھتا بلکہ کڑی سے کڑی ملا کر ایک مسلسل سلسلۂ ظہور کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔
اس مرحلۂ بحث میں مناسب ہے کہ ہم ابنِ خلدون کے تصورِ تاریخ کو خود اس کے اپنے الفاظ میں یک جا کرنے کی سعی کریں۔ ’کتاب العبر‘ کا مقدمہ۔ جو مقدمۂ ابنِ خلدون کے نام سے شہرۂ آفاق ہے، اور ’خلدونیات‘ کا سرچشمہ ہے، ایک ایسی تحریر سے شروع ہوا ہے جسے مقدمے کا پیش لفظ کہا جا سکتا ہے۔ اس پیش لفظ کا آغاز ایک خطبے سے ہوتا ہے خطبے کے بعد ابنِ خلدون نے اس طرح آغازِ کلام کیا ہے:
امّا بعد،…تاریخ کا اُن فنون میں شمار ہے جن کو تمام قومیں عام طور پر پڑھتی پڑھاتی رہتی ہیں۔ اور سفر تک کی تکالیف اس کی خاطر برداشت کرتی ہیں۔ عوام و جہلا بھی اس کی معرفت کی راہ میں پیش قدمی دکھاتے ہیں۔ اور ملوک واکابر بھی اس میں انتہائی دلبستگی اور رغبت کا اظہار کرتے ہیں۔ غرض علما و جہلا ہر دو برابر اس میں اپنے ذہنی مذاق کا سامان مہیا پاتے ہیں۔ کیونکہ اگر تاریخ ایک طرف ظاہر میں محض گذشتہ ایام اور سابق دولتوں کے حالات ہمارے سامنے لاتی ہے اور ایامِ ماضیہ کو ہمارے رُو بُرو لا کر رکھتی ہے اور طرح طرح کے اقوال و امثال سے وہ بھر پور ہے۔ اور ہماری بھری مجلسوں کا ایک دلچسپ موضوعِ گفتگو بنتی ہے۔ اور ہم کو یہ بھی بتاتی کہ بدلتے ہوئے حالاتِ زمانہ نے مخلوقاتِ عالم کو کس طرح پیہم انقلاب و ردو بدل میں رکھا۔ اور کس طرح حکومتیں سمٹیں اور بڑھیں۔ اور اُنھوں نے زمین کو آباد کیا۔ یہاں تک کہ آخر میں اُن پر بھی کوچ کا نقارہ بجا اور بربادی نے اُن کو بھی آن لیا۔ تو دوسری طرف باطن میں تاریخ اپنے اندر ایک نظریہ بھی رکھتی ہے۔ یعنی کائنات کے علل اور ان کے دقیق مبادی کو سامنے لاتی ہے۔ واقعات کے اُسلوب کا علم بخشی ہے۔ اور اُن کے گہرے اسباب کو آشکار کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ فنونِ حکمت میں وہ بھی اپنا ایک مرتبہ رکھتی ہے اور سزا وار ہے کہ علومِ حکمیہ میں اس کا شمار ہو۔ اور انھیں حالات کے پیشِ نظر معتمد مؤرخینِ اسلام نے واقعاتِ زمانہ کو بہ تمام و کمال جمع و مرتب کیا۔ اور پھر ان کو کتابی شکل میں لائے۔۳۷؎
اس پیش لفظ میں اس کے بعد ابنِ خلدون نے مؤرخین گذشتہ اور اپنے عہد کے تاریخ نگاروں کی سہل انگاری پر ایک بھر پور تبصرہ کیا ہے جس سے اندزہ ہوتا ہے کہ اس نے گذشتہ اور معاصر تاریخ نگاری (historiography) کا کس طرح بہ امعانِ نظر مطالعۂ کیا تھا اور کس طرح ہر ممکن حد تک اُن کی خامیوں سے آگاہ تھا۔ مقدمے کا آغاز اس نے تاریخ کی فضیلت کے بیان سے کیا ہے اس سے بھی اس کے تصورِ تاریخ کی تشریح ہوتی ہے۔ وہ لکھتا ہے:
واضح رہے کہ تاریخ ایک بلند مرتبہ شعبۂ علم، کثیر الفوائد خوش نتائج فن ہے۔ کیونکہ وہ ہم کو سابق اُمتوں کے اخلاقی حالات، انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں اور سلاطین کی حکومتوں اور اُن کی سیاستوں سے روشناس کرتا ہے۔ تا کہ جو شخص دینی و دنیوی معاملات میں اُن میں سے کسی کی پیروی کرنا چاہے تو اس کا دامن فائدے سے خالی نہ رہے۔ لہٰذا اس میں ضرورت ہے کہ متعدد ماخذوں کا پتہ لگایا جائے، مختلف علوم سے واقفیت حاصل کی جائے اور مؤرخ فکرِ صحیح اور گہری نظر بھی رکھتا ہو کہ اس کے ذریعے وہ حق و صداقت کی راہ پا سکے اور لغزشوں اور اغلاط سے اپنا دامن بچا سکے۔ کیونکہ اخبار میں اگر محض نقل پر نظر قاصر رکھی جائے اور اُصولِ عادت، قواعدِ سیاست، طبیعتِ تمدن اور اجتماعِ انسانی کے حالات کو پیش نظر نہ رکھا جائے۔ اور نہ غائب وغیر موجود کو حاضر و موجود پر قیاس کیا جائے تو غلطی، لغزش قدم اور سچائی کے راستے سے ہٹ جانے کے خطرے سے نجات نہیں مل سکتی۔۳۸؎
سطورِ بالا میں ابنِ خلدون کے تصور تاریخ کے بارے میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اگر اس پر مقدمے اور مقدمے کے پیش لفظ کے ان اقتباسات کی روشنی میں…چند مزید اشارات کا اضافہ کر دیا جائے تو ابنِ خلدون کا تصورِ تاریخ اپنی تمام وسعتوں اور حدود کے ساتھ اُبھر کر سامنے آجاتا ہے۔ وہ اشارات یہ ہو سکتے ہیں:
۱-تاریخ ایک بلند مرتبہ شعبۂ علم اور کثیر الفوائد، خوش نتائج فن ہے۔
۲-تاریخ واقعات کائنات میں اسباب و علل کی دریافت اور واقعات کے نہایت لطیف و دقیق مبادی کے تجزیے سے عبارت ہے۔
۳-تاریخ واقعات کے اُسلوب کا علم ہے۔ یعنی ایک خاص تاریخی صورتِ حال میں واقعات و حالات کس نہج یا اُسلوب (style or manner)سے اُبھرتے اور وقوع پذیر ہوتے ہیں، یہ علم اس کا مطالعہ کرتا ہے۔
۴-واقعات کے اسباب گہرے ہوتے ہیں۔ یعنی ہمارے علم وا دراک کی عمومی سطح سے کہیں عمیق، عملِ حیات کی تیز رَو میں گُم…اور ظاہری واقعات کے شدتِ ظہور میں لپٹے ہوئے تاریخ کا علم انھیں (لاشعور کی) گہرائی سے علم و شعور کی روشن اور واضح سطح پر لے آتا ہے۔ اس طرح واقعات کو اُن کے حقیقی اسباب کے ساتھ ملا کر مطالعہ کرنا فی الحقیقت ایک علم کا درجہ رکھتا ہے۔
۵-تاریخ نگاری صرف نقل در نقل نہیں بلکہ ایک ایسا علم ہے جو کئی دوسرے علوم سے واقفیت کا تقاضا کرتا ہے۔
۶-من گھڑت خرافات، بے بنیاد باتیں، لغو اور کمزور روایات اور خود ساختہ افسانے تاریخ نہیں۔ نہ سنی سنائی باتوں کا نام تاریخ ہے، یہ فن نا اہلوں اور محدود علم و بصیرت رکھنے والوں کا فن نہیں بلکہ وسیع النظر، وسیع المطالعہ، اُصول پسند، حقیقت نگار محققین کا علم ہے۔
اس اجمالی خاکہ کے اتمام پر ہم ایک بار پھر اقبال کے الفاظ دہراتے ہیں’’…اسلامی تہذیب و تمدن نے اپنے اظہار کے لیے جو راستہ اختیار کیا، اس پر نظر رکھیے تو یہ کسی مسلمان ہی کا کام ہو سکتا تھا کہ تاریخ کا تصور بطور ایک مسلسل اور مجموعی حرکت کے کرتا، یعنی زماناًایک ایسے نشوونما کی حیثیت سے جس کا ظہور ناگزیر ہے‘‘۔
اقبال کو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ، اُن کی ملی زندگی کے مختلف دھاروں کے مدو جزر کی روداد، سیاسیاتِ اسلامیہ اور فکرِ اسلامی کے نشو و ارتقا کی تاریخ سے،…اور قوموں کے عروج و زوال کے محرکات کی تفہیم و تحسین کے عمل سے جو گہری دلچسپی اور وابستگی تھی اس کی بدولت ناگزیر تھا کہ اُن کے ہاں تاریخ کے بارے میں ایک مخصوص رویّہ پیدا ہو جائے۔ اقبال کی نظم و نثر میں اُن کا یہ رویّہ یا اندازِ نظر ایسا مربوط و مسلسل ہے کہ ہم اسے بجا طور پر اُن کا تصورِ تاریخ یا فلسفۂ تاریخ کَہ سکتے ہیں۔ اگرچہ اُن کا فلسفۂ تاریخ زیادہ تر اُن کے استدراکات سے عبارت ہے جو اُنھوں نے کسی حد تک البیرونی اور بہت حد تک ابنِ خلدون … اور مغربی مؤرخوں میں اشپنگلر کے خیالات و تصورات کا محاکمہ کرتے ہوئے سپردِ قلم کیے ہیں۔ اسی طرح اقبال کے تصورِ تاریخ کا ایک رشتہ ان کے تصورِ زمان و مکاں سے بھی ملتا ہے جس کی توضیح اُنھوں نے اپنے خطبات میں شرح و بسط کے ساتھ کی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ اقبال کا نظریۂِ تاریخ بہت حد تک قرآن کریم کے تصورِ تاریخ ہی کی تعبیروتفسیر ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ تاریخ کے بارے میں اُن کا سب سے بڑا دعویٰ کہ یہ استقرائی عمل کا بہت بڑا ماخذ ہے، قرآنِ کریم کے اُصولِ تاریخ سے مستنبط ہے۔ اسے اصطلاحاً تاریخی استقرا (historical induction)کَہ سکتے ہیں۔ اسے منطقی استقرا(ogical induction) کی ایک عملی صورت سمجھنا چاہیے، دونوں سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی موضوع سے متعلقہ حقائق کو اس طرح مرتب کیا جائے اور اُن کی اس طرح درجہ بندی کی جائے کہ اُن سے کسی عمومی نتیجے کا استخراج کیا جا سکے۔ اس حقیقت کی طرف اُنھوں نے ایک شعر میں واضح اشارہ کیا ہے:
میں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ
میری تمام سر گزشت، کھوئے ہوئوں کی جستجُو!
یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ غیر موزوں نہیں کہ اکثر و بیشتر صورتوں میں تاریخ سے اقبال کی مراد اسلامی تاریخ ہی ہے۔ اسلامی تاریخ کے زندہ تر، قوی تر اور جلیل و جمیل تر اجزا و عناصر کی تشکیلِ نَو، اقبال کی ذہنی اور جذباتی زندگی میں سب سے بڑی قوّتِ محرکہ رہی ہے۔ اقبال کے ہاں تاریخی استقرائیت (historical induction) کی یہ ایک عملی صورت تھی۔
اقبال کا سفرِ ہسپانیہ فہمِ تاریخ میں اُن کے استقرائی طریقِ کار کا ایک عملی نمونہ تھا۔ ۱۹۳۲ء میں جب اُنھیں گول میز کانفرنس کے لیے مسلمانان ہند کا نمائندہ منتخب کیا گیا تو اُنھوں نے افریقہ، ترکی اور ہسپانیہ کی سیاحت کا ارادہ کر لیا۔ ایک خط میں لکھتے ہیں:’’میں پورے شمالی افریقہ، ترکی اور ہسپانیہ کی سیاحت کا قصد رکھتا ہوں۔ دو ایک ماہ میں قطعی نتیجے پر پہنچ جائوں گا۔‘‘۳۹؎ یہ خط ۲۱ مئی ۱۹۳۲ء کو لکھا گیا تھا۔ چند ماہ بعد ۲۱ اگست ۱۹۳۲ء کو اُنھوں نے ایک اور خط میں لکھا: ’’اگر اب کے نکلا تو اسپین کی سیر کا بھی قصد ہے۔ ان شاء اللہ عربوں کے قدیم شہر بھی دیکھوں گا اور اُن پر لکھوں گا بھی‘‘۔۴۰؎ اُنھوں نے اس ارادے کو عملی جامہ پہنایا، پیرس میں برگساں سے ملاقات کے بعد اُنھوں نے فرانسیسی محقق میسینوں (Massignon) سے ملاقات کا شوق بھی ظاہر کیا۔ جس نے عربوں کے عہد کے اسپین پر تحقیقی کام کیا ہے۔ اس ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ اقبال نے اس ملاقات میں میسی نوں سے اسلام کے بارے میں مغربی دُنیا کے بدلتے ہوئے رویے کا ذکر کیا، میسی نوں نے تسلیم کیا کہ یورپ پر مسلمانوں کے بہت احسانات ہیں، اقبال ہسپانیہ میں سب سے پہلے میڈریڈ گئے۔ میڈریڈ سے اسکوریال، جہاں مسلمانوں کی عربی تصانیف کا بہت بڑا ذخیرہ اقبال کے لیے خصوصی کشش کا سبب تھا۔ اسکوریال سے وہ طلیطلہ پہنچے، اس شہر کو اُنھوں نے عربی تمد ن کے آثار و باقیات کا خوبصورت نمونہ پایا۔ یہاں سے وہ قرطبہ پہنچے جس کی عظیم الشان اور شہرۂ آفاق مسجد نے اُن کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جو ’مسجد قرطبہ‘ جیسی عظیم الشان نظم کی تخلیق کا باعث ہوئے،…اس سفر کے دوران اقبال کا تاریخی شعور پورے عروج پر رہا،… اور استقرائی طریق کار کو آزمانے کے اُنھیں پورے مواقع میسر آئے۔ مسجد قرطبہ کے بارے میں کسی اور موقع پر اُنھوں نے کہا تھا:’’میری رائے میں آج تک اس سے زیادہ خوبصورت اور شاندار مسجد روئے زمین پر نہیں بنی۔ اس کے نقوش دیکھ کر جو لذت قرآن اور اسلام کے مفہوم کے متعلق میں نے حاصل کی وہ بیسیوں تفسیروں سے حاصل نہ کر سکا۔‘‘۴۱؎ اس مسجد قرطبہ کے بارے میں اُنھوں نے ایک بار کہا تھا:"It is a commentary on the Quran written in stones" بہرحال اسلامی تاریخ اقبال کے لیے تاریخ کا نمونہ (prototype) ہے، تاہم عمومی معنوں میں بھی اقبال نے تاریخ کی معنویت کی خاص توضیح کی ہے، بنیادی طور پر اُن کی تاریخیت ان کے تصورِ زماں پر استوار ہے۔ خود زمانے کو بھی وہ ایک ارتقائی حرکت قرار دیتے ہیں۔ تاہم تاریخ زمانے میں ایک تخلیقی حرکت ہے جو محض مرورِ زماں (passage of time) سے مختلف بلکہ اس پر اضافہ ہے، اگرچہ مرورِ زماں کائنات میں واقعہ ہونے والی ہر حرکت کی تہ میں موجود ہوتا ہے لیکن عالمِ فطرت میں وقوع پذیر ہونے والی حرکات تاریخ نہیں، تاریخ انسانی اعمال سے پیدا ہوتی ہے اور انسانی اعمال نتیجہ ہیں ارادے اور عمل کے ہم آہنگ ظہور کا۔ انسانی ارادہ اور عمل تاریخ کو ایک اخلاقی اور باطنی مفہوم عطا کرتے ہیں، یہ ارادہ و عمل ہی ہیں جو اقبال کے تصورِ تاریخ کو اُن کے تصورِ خودی سے مربوط کرتے ہیں، چونکہ تاریخ انسانی ارادے اور عمل کی بدولت فیصلہ کن لمحات میں داخل ہوتی ہے۔ اس لیے قومی الارادہ اشخاص تاریخ کے عمل میں شامل رہتے ہیں، اور بعض صورتوں میں تاریخ کی تخلیق کرتے ہیں، یہاں سے ہمیں اقبال کی رجال پرستی یا اعاظم پرستی (hero worship) کا سراغ ملتا ہے، رجال یا ابطال (heroes) جن کے ذریعے ’خودی‘ کی قوتِ تخلیق کا بھر پور اظہار ہوتا ہے تاریخ کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اُن کا جوشِ کردار تاریخ کے دھاروں کو بدل دیتا ہے:
راز ہے، راز ہے، تقدیرِ جہانِ تگ و تاز
جوشِ کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز
جوشِ کردار سے شمشیرِ سکندر کا طلوع
کوہِ الوند ہوا جس کی حرارت سے گداز
جوشِ کردار سے تیمور کا سیلِ ہمہ گیر
سیل کے سامنے کیا شَے ہے نشیب اور فراز
صفِ جنگاہ میں مردانِ خدا کی تکبیر
جوشِ کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز!
(نپولین کے مزار پر)
تاریخ کے عمل میں انسانی خودی کی اس فیصلہ کن قوتِ تخلیق و حرکت کو ایک اور جگہ اقبال نے ندرتِ فکر و عمل قرار دیا ہے۔
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے؟ ذوقِ انقلاب!
ندرتِ فکروعمل کیا شئے ہے؟ ملت کا شباب!
ندرتِ فکر و عمل سے معجزاتِ زندگی
ندرتِ فکر و عمل سے سنگِ خارہ لعلِ ناب!
(مسولینی)
اقبال کے نزدیک تاریخ کے عمل میں افراد و اقوام کی ذہنی زندگی کا تسلسل رُونما ہوتا ہے، اگرچہ تاریخ کو کوئی فوری ارادے سے تخلیق نہیں کر سکتا، اس لیے کہ تاریخ میں اسباب و علل کا سلسلہ بہر حال کارفرما رہتا ہے، لیکن تاریخ کے جبری لزوم کو اگر کوئی توڑ سکتا ہے تو وہ انسانی خودی کی بے پناہ قوتِ تخلیق ہے، اس کے باوصف اقبال تاریخ کی حیران کن قوتوں،…اور اس کی بے کراں معنویّت کو اُصولاً تسلیم کرتے ہیں، اور تاریخ کے علم کو کسی قوم کی اجتماعی خودی کی بقا اور نشو و نما کا ایک بہت بڑا ذریعہ خیال کرتے ہیں، شاعری میں اُن کا تصورِ تاریخ ان اشعار میں بیان ہوا ہے:
چیست تاریخ اے زخودبیگانۂ
داستانے، قصۂ، افسانۂ؟
این ترا از خویشتن آگہ کند
آشنائے کار و مردِ رہ کند
رُوح را سرمایۂ تاب است این
جسمِ ملّت راچواعصاب است این
شعلۂِ افسردہ در سوزش نگر
دوش در آغوشِ امروزش نگر
شمعِ او بختِ امم را کوکب است
روشن از وی امشب وہم دیشب است
بادۂِ صد سالہ در مینای اُو
مستیِ پارینہ در خمہائے اُو
ضبط کن تاریخ را پائندہ شو
از نفس ہائے رمیدہ زندہ شو
اے اپنے آپ سے غافل، (تجھے معلوم بھی ہے کہ) تاریخ کیا ہے؟ کیا محض حکایاتِ پارینہ؟ یا افسانے اور من گھڑت قصے؟(نہیں تاریخ یہ نہیں، بلکہ کچھ اور چیز ہے) یہ تجھے اپنے آپ سے آگاہ کرتی ہے، یہ تجھے کارداں (کاموں کو سمجھنے والا) اور مردِ راہ بناتی ہے۔ یہ رُوح کے لیے سرمایۂ فروغ و درخشندگی ہے۔ اگر کوئی قوم ایک جسم ہے تو تاریخ اس جسم کے لیے اعصاب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کی جلن میں بجھے ہوئے شعلے کو دیکھو، اس کے ’آج‘ میں گزرے ہوئے ’کل‘ کو دیکھو۔ اس کی شمع قوموں کے بخت کا ستارا ہے،…آج کی رات، اور گزرے ہوئے کل کی رات بھی اسی (چراغ) سے روشن ہے…اس کی صراحی میں سو سالہ شراب ہے، اور اس کی شراب میں گزرے ہوئے سالوں کی مستی ہے، تاریخ کو محفوظ کر، اور جادواں ہو جا، تاریخ کی بدولت تو جاتی ہوئی سانسوں سے زندہ ہو جا۔
اقبال نے تاریخ کو ’’بختِ اقوام کا کوکب‘‘ کَہ کر علمِ تاریخ کی اہمیت و معنویت کی طرف بے حد مؤثر اور خوبصورت انداز میں اشارہ کیا ہے۔ تاریخ خود بینی، خودگری اور خود سازی کے عمل کے لیے ایک آزمائش بھی ہے اور علم و آگہی کا ایک وسیلہ بھی، یہ حال و استقبال کو ماضی کے ساتھ مربوط کر کے قوموں میں وقت کی کلیّت کا احساس پیدا کرتی ہے۔ یہ فطرت اور زمانے کے سنگم پر صاحبِ ارادہ انسان کی تخلیقی فعلیّت اور آزاد علیّت کا اجتماعی اظہار ہے جو ہر حال میں اخلاقی معنویت سے لبریز اور ایک داخلی منطق کی آئینہ دار ہوتی ہے، یہ مرورِ زماں کے بظاہر بے کیف و کم عمل میں واقعات و حوادث کے نقش و نگار کے مسلسل اضافے کی حیثیت رکھتی ہے، تاریخ خاکِ مردہ، میں زندگی کی کروٹوں سے عبارت ہے۔ اس میں داخلی اور خارجی تضادات ٹکرائو اور کشمکش ایک صورتِ حال کو جنم دیتے ہیں جو افراد و اقوام کے کردار کی صلابت اور ان کی صلاحیتِ بقا کے لیے ایک امتحان گاہ بن جاتی ہے،…تاریخ اپنی جبریت و لزوم (historical determaination) کے باوجود انسانی خودی کو انتخاب (choice) اور آزادیِ عمل کا راستہ دکھاتی ہے، یہ تاریخ ہی ہے جو انسان کو اس کے امکانات سے روشناس کرتی ہے، تاریخ مرورِ زماں کا انسانی مفہوم بھی ہے، اور ایک ایسی خود مختار فعلیّت بھی جس کا دھارا انسان کو تقدیر و مشیّت بن کر بھی چھوتا ہے اور ارادہ و عمل کا پیغام بن کر بھی۔ قوموں کی زندگی بالخصوص تاریخ کے حوالے سے وجود میں آتی ہے اور آگے بڑھتی ہے۔
زندہ فرد از ارتباطِ جان و تن
زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کُہن
مرگِ فرد از خشکیِ رودِ حیات
مرگِ قوم از ترکِ مقصودِ حیات
قوم روشن از سوادِ سرگذشت
خود شناس آمد زیادِ سرگذشت
سرگذشتِ او گر از یادش رود
باز اندر نیستی گُم می شود
(جس طرح) فرد جسم اور روح کے باہمی ربط سے زندہ ہوتا ہے اسی طرح قوم اپنے ناموسِ کہن(عظمتِ رفتہ) کی حفاظت سے زندہ رہتی ہے۔ فرد موجِ حیات کے خشک ہو جانے کے سبب مر جاتا ہے اور قوم اپنے (اجتماعی) نصب العین کو چھوڑ دینے پر مرگ آشنا ہو جاتی ہے۔ قوم اپنی سرگذشت (تاریخ) کی تحریر سے ہی روشن رہتی ہے، یہ اپنی تاریخ کو یاد رکھنے سے ہی خود شناس بنتی ہے۔ اگر قوم کے حافظے سے اس کی تاریخ محو ہو جائے تو وہ نیستی کے (اندھیروں میں) گُم ہو جاتی ہے۔
اشپنگلر نے تاریخ میں ارتقائی حرکت کو ماننے سے بہت حد تک انکار کیا ہے۔ ابنِ خلدون نے بھی تاریخ کے ارتقائی عمل کا واضح الفاظ میں اقرار نہیں کیا، اقبال…تاریخ کو ایک مربوط، اور مسلسل ارتقائی اور تخلیقی حرکت تسلیم کرتے ہیں جو انسان کی اجتماعی زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھتی ہے، بلکہ اقوام کی باطنی زندگی اس ارتقائی اور تخلیقی حرکت کے ذریعے زمانے میں متشکل ہوتی ہے اور تاریخ اپنے آپ کو اقوام کے اجتماعی اعمال…اور اُن کے تخلیقی اعمال کی صورت میں ظاہر کرتی ہے، اس لیے تاریخ کا مفہوم اقوام کی اجتماعی زندگی کی سرگذشت اور اس کی علاماتی معنویت سے مختلف کوئی چیز نہیں ہے۔ اگرچہ یہ ’’اجتماعیت‘‘ سے وابستہ ہے لیکن غیر معمولی تخلیقی قوتیں رکھنے والے انسانوں کی بدولت اس کے عمل میں ’’جست یاز قند‘‘ بھی پائی جاتی ہے،…تاریخ کی یہ جست بعض اوقات غیرمعمولی افراد کی دخل اندازی کی رہین منت بھی نہیں ہوتی، بلکہ اپنے داخلی عمل کے بطون سے ہی کسی تخلیقی جست کو برآمد کر لیتی ہے، اخلاقی اور ما بعد الطبیعیاتی اعتبار سے اقبال کے ہاں تاریخ کے عمل میں پاداش عمل تو ہے، رجعتِ قہقہری (regressioin) یا ابدی ارتقا و رجعت (eternal recurrence) نہیں ہے۔ یہ حال کی استقبال میں پیش رفت ہے۔ زندگی کے نئے امکانات کو منکشف کرتے ہوئے،…گویا تاریخ کے کسی نقطے یا آن میں اتمام کی شان نہیں ہے، بلکہ ربط وار تقا کا ایک ایسا عمل ہے جو مسلسل تکمیل (perfection) کو وجود میں لا رہا ہے:
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں
یا بقولِ غالب:
آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئنہ دائم نقاب میں!
///
حواشی
1- Carl Lowith, Meaning in History, p.191.
2- Carl Lowith, Meaning in History, Introduction.
3- Lecture on the philosophy of History (trans) 1900, p.21.
4- Cause and effect.
5- Destiny.
6- Organic Necessity in life.
۷- یہاں اشپنگلر کا قول ختم ہو جاتا ہے۔
۸- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، پانچواں خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص ۲۰۳۔
۹- ادراج Interpolation۔
۱۰- مثلثی تفاعل۔Trignometrical function
۱۱- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، پانچواں خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص ۲۰۵
۱۲- سنینی عددChronological Number۔
۱۳- کونBeing ۔
۱۴- تکوینBcoming ۔
۱۵- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، پانچواں خطبہ، ص ۲۰۵
۱۶- اشپنگلر نے اس سیاق میں ریاضیاتی، (Mathemetical) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ مقدمہ زوالِ مغرب۔
۱۷- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، دوسرا خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص۱۶۵۔۱۶۶۔
۱۸- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، دوسرا خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص۱۶۶۔
۱۹- یہاں اشپنگلر کا قول ختم ہو جاتا ہے
۲۰- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، پانچواں خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص۲۰۳۔
۲۱- ادراج Interpolation۔
۲۲- مثلثی تفاعلTrignometrical Function۔
۲۳ تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، پانچواں خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص۲۰۵۔
۲۴- سنینی عدد chronological number۔
۲۵- کونBeing ۔
۲۶- تکوینDecoming ۔
۲۷- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، پانچواں خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص ۲۰۵۔
۲۸- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، ص ۲۲۰
۲۹- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، ’’اسلامی ثقافت کی رُوح‘‘، ص ۲۱۲، ۲۱۳۔
۳۰- مولانا محمد حنیف ندوی۔ افکارِ ابنِ خلدون(بحوالہ مقدمۂِ ابنِ خلدون) ادارہ ثقافت اسلامیہ، ص ۵۹،۶۰۔
۳۱- مولانا ابوالکلام آزاد، ترجمان القرآن، جلد ۲ ص ۶۶،
۳۲- یعنی اسلامی تہذیب
۳۳- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، پانچواں خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص ۲۱۸،۲۱۹
۳۴- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، پانچواں خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص ۲۱۶، ۲۱۷
۳۵- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، ص ۲۶
۳۶- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، ص ۲۱۶
۳۷- ابنِ خلدون ابوزید عبدالرحمن ولی الدین: ۷۳۲ھ/۱۳۳۲ء میں تیونس میں پیدا ہوا اور ۸۰۸ھ/۱۴۰۶ء میں قاہرہ میں فوت ہوا۔
۳۸- دائرہ معارفِ اسلامیہ۔ مقالہ’’ ابنِ خلدون‘‘ جلد اوّل، ص ۵۰۶۔
۳۹- دیسلان نے مقدمے کا ۱۸۶۲ء میں فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا تاریخ کے ایک حصے کا لاطینی ترجمہ اوسلو سے ۱۸۴۰ء میں شائع ہوا۔ اُردو ترجمہ مقدمہ ابنِ خلدون مع سوانح۔ لاہور ۱۹۱۰ء اُردو ترجمہ مقدمہ ابنِ خلدون از سعد حسن خاں، کراچی، اُردو ترجمہ تاریخ ابنِ خلدون از احمد حسین الٰہ آباد، ۱۹۰۱ء اُردو ترجمہ تاریخ ابنِ خلدون از ڈاکٹر عنایت اللہ، لاہور۔ ۱۹۶۰ئ۔
۴۰- مقدمہ طبع عبدالواحد واتی، مع تعلیقات، قاہرہ۔ ۱۹۵۷ئ، جلد اول، ص، ۲۶۱۔
۴۱- مقدمہ ابنِ خلدون، پیرس ایڈیشن، ج ا، ص، ۵۰ ۔
۴۲- القرآن۔ سورۂ آلِ عمران۔ آیت: ۱۳۷۔
43- Muhsin Mehdi: Ibn Khaldun's Philosophy of Histroy, London. 1957.
۴۴- مقدمہ ابنِ خلدون، اُردو ترجمہ از مولانا سعد حسن خاں یوسفی (فاضل الٰہیات) نور محمد اصح المطابع کراچی، ص ۳۳۔
۴۵- مقدمہ ابنِ خلدون، اُردو ترجمہ از مولانا سعد حسن خاں یوسفی (فاضل الٰہیات) نور محمد اصح المطابع کراچی، ص ۳۹۔
۴۶- شیخ عطاء اللہ، مرتب، اقبال نامہ، حصہ دوم، ص ۴۸۴۔
۴۷- شیخ عطاء اللہ، مرتب، اقبال نامہ، حصہ دوم، ص ۲۲۰۔
۴۸- عبدالحمید: اقبال کے چند جواہر ریزے، ۱۹۴۷ئ، ص ۴۳۔