بہ مُصطفیٰؐ بِرسان خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی، تمام بولہبی است!
(اقبال)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محامد و محاسن کی مدح و ثنا ظہورِ قُدسی کے بعد ہر صاحبِ فکرِ سلیم و طبعِ مستقیم کے لیے وجہِ نشاط و سرمایۂ افتخار رہی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپؐ کے ظہور سے پیشتر ہی آپؐ کی تعریف و توصیف کا آغاز ہو چکا تھا۔ کُتبِ سماوی اور صحائفِ انبیائے پیشیں میںآپؐ کی آمد کی مصدقہ اور مسلّمہ پیش گوئیوں میں آپؐ کے لیے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں اُن میں صریحاً آپؐ کی مدح و تحسین ہے۔ انجیل میں آپؐ کے لیے حضرت عیسیؑ کی زبان سے فارقلیط کا لفظ استعمال ہوا ہے۔جس کا ترجمہ یونانی میں بری کلیطاس (بمعنی تشفی دہندہ) کیا گیا، لیکن فی الحقیقت اس کا ترجمہ انجیلِ بارناباس کی رو سے بری کلیوطاس ہی ہے جس کے معنی محمدؐ اور احمدؐ ہیں، فارقلیط (فرء کے معنی عبرانی میں بوجھ اُٹھانے والے کے ہیں، اور رسالت سے بڑا بوجھ اور کون ساہو سکتا ہے) پار یا فارعبرانی میں ایک کثیر الاستعمال مادّہ ہے جس کی رُو سے اس کے معنی جمیل و جلیل و مفخر و مہذب و حمید و محمود و محمد ہیں۔۱؎ محققین کے نزدیک فرء قلیط کے معنی ہیں رسولِ مکہ،۲؎ اور فارقلیط کے معنی ہیں’محمدِ مکہ‘ انجیل ہی میں آپؐ کا نام ایک جگہ (عبرانی میں) حمِدَہ بھی آیا ہے جس کے معنی ہیں بہت تعریف کیا گیا۔ ۳؎
تمام علمائے بلاغت اس بات پر متفق ہیں کی لفظ محمد ، حمد سے مبالغے کا صیغہ ہے، اور حمد کے معنی ہیں کسی بہت اچھی چیز کی بہت ہی اچھی تعریف و تحسین۔ قرآنِ کریم کی رُو سے حضرت عیسیٰؑ کی زبانی آپؐ کا نام احمد بتایا گیا ہے… یَأتی مِن بَّعدِی اسمُہ احمد(۶:۶۱) احمد کے معنی ہیں بہت زیادہ حمد و ستائش کرنے والا اور محمد کے معنی ہیں جس کی یکے بعد دیگرے ستائش کی جائے، اور وہ جو مسلسل اور پیہم وجہِ حمد و ستائش ہو۔۴؎ آپؐ کی ولادتِ با سعادت پر جب حضرت عبدالمطلب نے آپ کا نام محمدؐ رکھا تو اہل مکّہ نے حیرت سے استفسار کیا کہ آپ نے اپنے خاندان کے مروجہ ناموں کو چھوڑ کر یہ نام کیوں رکھا؟ اُنھوں نے کہا:’’میں چاہتا ہوں کہ میرا بچہ دُنیا بھر کی ستائش اور تعریف کے شایاں قرار پائے‘‘۔۵؎ اگر ظہورِ قدسی کے وقت سے متعلقہ تمام روایات کو سامنے رکھا جائے تو اس میں شک نہیں رہتا کہ دُنیا میں آپ کی تشریف آوری کے ساتھ ہی آپؐ کی پیہم تعریف و توصیف شروع ہو گئی تھی۔ یہ تسمیّہ (یعنی حضرت عبدالمطلب کا محمد نام رکھنا) بذاتِ خود حضرت عبدالمطلب کی طرف سے تعریف و ستائش ہے۔ آپؐ کے چچا حضرت ابو طالب نے، جنھوں نے آپؐ کی پرورش میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا، آپؐ کی شان میں اس وقت شعر کَہ دیے تھے جب آپؐ ابھی کم سن تھے۔ حضرت ابو طالب کا ایک شعر ہے:
واَبیَضُ یستَسقَے الغَمَامُ بِوَجھِہ
ثِمال الیَتٰمیٰ، عِصمَۃ للارامل
وہ گورے مکھڑے والا جس کے روئے تاباں سے بارش کی دُعا کی جاتی ہے یتیموں کا ملجا و ماویٰ اور بیوائوں کی خبر گیری کرنے والا ہے۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۶؎
بعثت سے بہت پہلے ہی آپ کے اخلاقِ ستودہ کے باعث آپ کو الصادق اور الامین کہا جاتا تھا۔ قرآن کریم نے آپؐ کے لیے اِنَّکَ لَعَلیٰٰ خلُقٍ عظیم (اے پیغمبر، آپ بے شک اعلیٰ صفات پر پیدا کیے گئے ہیں) فرمایا، آپؐ نے اپنی بعثت کے مقاصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: بعثت لاتمم حسن الاخلاق (میں حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں) نیز فرمایا بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (میں تو اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ مکارمِ اخلاق کو درجۂ کمال تک پُہنچا دوں)۔ آپؐ کے پیروکاروں اور جاں نثاروں (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے آپؐ کی مدح و توصیف میں جو کُچھ کہا، اس سے کتبِ احادیث و تاریخ و سیر لبریز ہیں، شاعری میں اگرچہ آپؐ کی تعریف و تحسین کے معاملے میں اولیّت کا سہرا حضرت ابو طالب کے سر رہا جنھوں نے آپؐ کی کم سنی ہی میں آپؐ کی شان میں شعر کہے، لیکن صحابۂ کرامؓ میں یہ فوقیّت حضرت حسانؓ بن ثابت اور حضرت کعبؓ بن زہیر کے حصے میں آئی، حضرت حسانؓ بن ثابت فرماتے ہیں:
صَلی الإلٰہ وَمَن یَحفُّ بِعَرشِہ
والطَیِبون عَلَی المبارکِ اَحمَد
اسلام جب اقصائے عالم میں پھیلا تو حُبِ رسولؐ کے چراغ بھی چار دانگِ عالم میں روشن ہوئے، عربی، فارسی، ترکی اور اُردو جو زیادہ تر مسلمانوں کی علمی، ادبی اور تہذیبی زبانیں رہی ہیں، نعتِ رسولِ مقبول ؐ کے خزینوں سے مالا مال ہیں، فارسی میں (اور اُردومیں) سنائی، سعدی، نظای اور جامی سے لیکر غالب اور اقبال تک ہر قابلِ ذکر شاعر نے نعت کو وجہِ افتخار سمجھا ہے۔متاخرین میں اقبال ایک ایسے منفرد شاعر ہیں جنھوں نے اُردو اور فارسی دونوں زبانوں میں مدحتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نئے اُسلوب اور نئے آہنگ کے ساتھ اختیار کیا، چُنانچہ اقبال کے فکری اور فنی امتیازات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُنھوں نے نعتیہ شاعری میں غیر معمولی شیفتگی، والہانہ پن اور خلُوصِ فکر کو ظاہر کیا، اقبال کے باطن میں عشقِ رسولؐ کے سرچشمے جس طرح رواں دواں تھے اس کے پیشِ نظر اس نوع کی نعتیہ شاعری کا وجود میں آنا ایک بالکل قُدرتی بات تھی۔ شاعر اور مفکر سے بڑھ کر اُن کے لیے اگر کوئی اور چیز وجہِ افتخار و انبساط ہو سکتی تھی تو وہ عاشقِ رسولؐ، کا لقب ہے۔ عشقِ رسولؐ میں اُن کی شیفتگی کو دیکھتے ہوئے اس سے بہتر اور کوئی لفظ ذہن میں آہی نہیں سکتا۔ اقبال کی حینِ حیات میں بے شمار لوگوں نے اُنھیں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ مبارک پر اشکبار ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ مولانا عبدالمجید سالک لکھتے ہیں:
(وہ) مشرق و مغرب کے علُومِ معقول پر حاوی تھے، یورپ میں فلسفہ کے متعلق کوئی قابلِ ذکر تصنیف شائع ہوتی تو اُن کی خدمت میں فی الفور پہنچ جاتی۔ مذہب، تاریخ، عمرانیات کا کوئی مسئلہ ایسا نہ تھا جس پر اُنھوں نے انتہائی دِقتِ نظر صرف نہیں کی۔ لیکن اس کے باوجود ان کے گُدازِ قلب اور رقتِ احساس کا یہ عالم تھا کہ جہاں ذرا حضور سرورِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم کی رأفت و رحمت یا حضور کی سروریِ کائنات کا ذکر آتا، حضرت علامہ کی آنکھیں بے اختیار اشکبار ہو جاتیں اور دیر تک طبیعت نہ سنبھلتی۔ وہ حضور ؐ کی ذاتِ والا کو ساری کائنات سے افضل مانتے تھے…(وہ) تحقیقاً اس عقیدے کو تسلیم کرتے تھے، اور جب اس پر گفتگُو فرماتے تو القاد الہام، مقامِ نبوت، انسانیتِ کاملہ ، توازنِ جذبہ و ادراک اور حُریتِ انسانیت کے مسائل پر نفسیاتِ جدید کی رُو سے ایسی سیر حاصل بحث فرماتے کہ کسی مخالف کو بھی حضورؐ کے انسانِ کامل ہونے میں شبہ کی گنجائش باقی نہ رہتی۔۷؎
مرزا جلال الدین بیر سٹر اسی سلسلے میں لکھتے ہیں:
(اقبال) خواجہ حالی مرحوم کے مُسدس کے تو عاشق تھے۔ میرے پاس ریاست ٹونک کا ایک شائستہ مذاق ملازم تھا، اسے ستار بجانے میں خاص دسترس تھی اور وہ مسدس حالی ستار پر ایک خاص طرز سے سنایا کرتا۔ ڈاکٹر صاحب التزام کے ساتھ ہر دوسرے تیسرے اس سے مسدس سننے کی خواہش کرتے۔ حضور سرورِ کائناتؐ کی تعریف میں وہ بند جو ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘ سے شروع ہوتے ہیں جو مسدس حالی کے آخر میں ہیں۔ اُنھیں بطورِ خاص مرغوب تھے۔ اس کو سنتے ہی اُن کا دل بھر آتا اور وہ اکثر بے اختیار رو پڑتے۔ اسی طرح اگر کوئی عمدہ نعت سنائی جاتی تو اُن کی آنکھیں ضرور پر نم ہو جاتیں۔۸؎
اسلام اور شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اُن کی والہانہ شیفتگی کی لا تعداد مثالیں اُن کے سوانح میں بکھری نظر آئیں گی۔ اقبال کا اپنا ادعا بھی ہمیشہ یہی رہا اور امرِ واقع بھی یہی ہے کہ ان کے افکار و خیالات کا سر چشمہ قرآن کریم اور نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرتِ طیبہ تھی۔ اُن کے کلام کے ایک معتدبہ حصے سے جنابِ رسالت مآبؐ کی ذاتِ گرامی سے جس بے پایاں عقیدت کا اظہار ہوتا ہے، اسے عشقِ رسولؐ، کے علاوہ کسی اور لفظ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال کے کلام میں عشق، جنوں، جذب و فراق، سوز و سرور اور کیف و ہستی کی جو کیفیات جا بجا نظر آتی ہیں، اقبال کی ذاتی زندگی میں ان کیفیات و جذبات کا مرجع حضورِ اکرمؐ ہی کی ذاتِ والا صفات تھی۔ یہ عقیدت یا قلبی لگائو ان کے بعض اشعار میں اتنے بھر پور اور مؤثر انداز میں ظاہر ہوا ہے کہ اقبال … نظامی، جامی، سعدی، قدسی اور دُوسرے اعلیٰ درجے کے نعت گو شعرا کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے وابستگی اور لگائو اقبال کے لیے صرف ایک ذاتی رجحان یا صرف ایک اعتقادی مسئلہ نہیں تھا، بلکہ ایک طرزِ احساس اور طرزِ فکر تھا جو اُن کی پوری زندگی پر محیط تھا، اور وہ اس جذبے کوپوری اُمتِ مسلمہ کا طرزِ احساس اور طرزِ فکر بنا دینا چاہتے تھے۔
اسی لیے کہا:
بہ مُصطفیٰؐبرسان خویش راکہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی، تمام بولہبی است
بانگِ درا کے حصۂ اول میں جو کلام شامل ہے وہ ۱۹۰۵ء تک کا لکھا ہوا ہے، یعنی یہ تمام شاعری اقبال کے سفرِ یورپ سے پہلے کی ہے، اس کے حصۂ غزلیات میں ایک غزل کا مقطع ایسا ہے کہ اسے ہم اقبال کی شاعری میں اُن کے جذبۂ عشقِ رسول ؐ کے اظہار کا نقطۂ آغاز کَہ سکتے ہیں، وہ مقطع ہے:
ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبال
اُڑا کے مُجھ کو غبارِ رہِ حجاز کرے!
بانگِ درا کے حصۂ دوم میں، جو ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک کے زمانے میں لکھی گئی منظُومات پر مشتمل ہے، اگرچہ، صقلیہ، جیسی نظم بھی شامل ہے، جس میں اقبال کے ملی جذبات پہلی بار بھر پورا انداز میں ظاہر ہوئے ہیں، نعت کا کوئی شعر شامل نہیں ہے، … تاہم ستمبر ۱۹۰۵ء میں سفرِ یورپ کے آغاز میں، بحری جہاز میں لکھے ہوئے ایک نسبتاً نو دریافت خط کے ایک حصے سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ عشقِ رسولؐ کا جذبہ اقبال کی زندگی کے ہر مرحلے میں ایک شدید، گہری اور ذاتی معنویت کی حامل جذباتی وابستگی کے طور پر موجود رہا، یہ خط جو، اخبارِ وطن، لاہور کے مدیر مولوی انشاء اللہ خاں کے نام لکھا گیا، اور اُنھیں کے اخبار میں شائع بھی ہوا، اقبال کی داخلی اور ذہنی زندگی کے لطیف جذباتی محرکات میں عشقِ رسولؐ کی مرکزی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے، یہ ایک طویل خط ہے، بلکہ اسے اقبال کا طویل ترین مکتوب بھی کہا جا سکتا ہے، اس خط میں اقبالـ نے اپنے سفر کے ابتدائی حصے کے احوال تفصیل سے لکھے ہیں، (یہ خط اُن کی کامیاب جزئیات نگاری کا نمونہ بھی ہے)۔ یہ خط جو ساحلِ عدن سے ۱۲ ستمبر ۱۹۰۵ء کو لکھا گیا، ساحلِ عدن ہی کے تذکرے کے ساتھ اس طرح ختم ہوتا ہے:
اب ساحل قریب آتا جاتا ہے اور چند گھنٹوں میں ہمارا جہاز عدن جا پہنچے گا۔ ساحلِ عرب کے تصور نے جو ذوق و شوق اس وقت دل میں پیدا کر دیا ہے، اس کی داستاں کیا عرض کروں، بس یہی دل چاہتا ہے کہ زیات سے اپنی آنکھوں کو منور کروں:
اللہ رے خاکِ پاکِ مدینہ کی آبرو
خورشید بھی گیا تو ادھر سر کے بل گیا
اے عرب کی سرزمین! تجھ کو مبارک ہو! تو ایک پتھر تھی جس کو دُنیا کے معماروں نے رد کر دیا تھا، مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا افسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دُنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی۔۹؎ باغ کے مالک نے ملازموں کو مالیوں کے پاس پھل کا حصہ لینے کو بھیجا لیکن مالیوں نے ہمیشہ ملازموں کو مارپیٹ کے باغ سے باہر نکال دیا اور مالک کے حقوق کی کُچھ پروا نہ کی۔ پہ آہ! اے پاک سرزمین ! تو وہ جگہ ہے جہاں سے باغ کے مالک نے خود ظہور کیا تا کہ گُستاخ مالیوں کو باغ سے نکال کر پھُولوں کو اُن کے نامسعود پنجوں سے آزاد کرے۔ تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقشِ قدم دیکھے ہیں اور تیری کھجُوروں کے سائے نے ہزاروں ولیوں اور سلیمانوں کو تمازتِ آفتاب سے محفُوظ رکھا ہے۔ کاش میرے بد کردار جسم کی خاک تیرے ریت کے ذروں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اُڑتی پھرے اور یہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو!کاش میں تیرے صحرائوں میں لُٹ جائوں اور دُنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر تیری تیز دُھوپ میں جلتا ہوا اور پائوں کے آبلوں کی پروانہ کرتا ہوا اس پاک سرزین میں جا پہنچوں جہاں کی گلیوں میں اذانِ بلال کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی۔
از عدن مورخہ ۱۲ ستمبر راقم محمد اقبال۱۰؎
اقبال کی تمام نثری تحریروں میں یہ سب سے زیادہ انوکھی تحریر ہے، اسے اقبال کی شاعرانہ اور جذباتی نثر کا بہترین نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے، اس میں اقبال کی زندگی کا سب سے عمیق جذبہ اس طرح سے منعکس ہو گیا ہے۔ ’جس طرح عکسِ گُل ہو شبنم کی آر سی میں‘ اس عکسِ گُل نے اقبال کی شاعری میں وہ باغِ ہمیشہ بہار کھلا دیا جسے ہم اُن کی نعتیہ شاعری کَہ سکتے ہیں۔ ’اے پاک سرزمین تو وہ جگہ ہے جہاں سے باغ کے مالک نے خود ظہور کیا۔ ’کاش‘ میں تیرے بیابانوں میں لُٹ جائوں،…اذانِ بلال کو عاشقانہ آواز، کَہ کر اقبال نے اس ’صدائے حق‘ کو نہ صرف ہمارے گوشِ تخیل کے قریب کر دیا ہے، بلکہ دُنیا کی آوازوں میں اس کی نوعیت اور اس کا مابہ الامتیاز بھی بتا دیا ہے۔ غالباً اس سے کُچھ ہی عرصہ پیشتر اقبال اپنے ابتدائی دورِ شاعری کی شہر ۂ آفاق نظم، فریادِ اُمت، میں ایسے ہی جذبات کا اظہار کر چکے تھے، گو یہ نظم اقبال کے متروکاتِ شعری میں سے ہے، لیکن اس کا نعتیہ حصہ اب بھی اقبال کے شعری شہ پاروں میں رکھا جا سکتا ہے،…فریادِ اُمت، ترکیب بندکی ہیئت میں لکھی گئی ہے، اور اس کے ابتدائی چار طویل بند ’تمہید ‘ کا درجہ رکھتے ہیں، ان چار ابتدائی بندوں کو ہم ایک خاص نوع کی طویل غزلیں بھی کَہ سکتے ہیں، جن کا آہنگ بلند مگر لے حُزنیہ ہے، صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس حزنیہ لے کی تہ میں جذبات و احساسات کا ایک زبردست طوفان کر وٹیں لے رہا ہے۔ چوتھے بند کا آخری شعر (خفیف سے تصرف کے ساتھ) مشہور نعت گو شاعر قدسی کا ہے:
المدد سیدِ مکی مدنی العربی
دل و جان باد فدایت چہ عجب خوش لقبی
اس طویل نظم میں نعتیہ اشعار کی تعداد خاصی ہیـ،…اگرچہ اکثر اشعار پر روایت کا پر تَو ہے، لیکن شاعر کی طباعی اور مدحتِ رسولؐ میں آنے والے سالوں میں اُن کا منفرد اُسلوب ان شعروں میں بھی جھلک جاتا ہے:
تیری اُلفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
کبھی یثرب میں اویسِ قرنی سے چھپنا
کبھی برقِ نگہِ موسیء عمراں ہونا
قاب قوسین بھی، دعویٰ بھی عبودیت کا
کبھی چلمن کو اُٹھانا، کبھی پنہاں ہونا
لطف دیتا ہے مُجھے مِٹ کے تری اُلفت میں
ہمہ تن شوقِ ہوائے عربستاں ہونا
یہی اسلام ہے میرا، یہی ایماں میرا
تیرے نظارۂ رخسار سے حیراں ہونا
خندۂ صبحِ تمنائے براہیم استی
چہرہ پرداز بحیرت کدۂ میم استی
پیرہن عشق کا جب حسنِ ازل نے پہنا
بن کے یثرب میں وہ آپ اپنا خریدار آیا
میں نے سوگلشنِ جنت کو کیا اس پہ نثار
دشتِ یثرب میں اگر زیرِ قدم خار آیا
ماعرفنا نے چھپا رکھی ہے عظمت تیری
قاب قوسین سے کھلتی ہے حقیقت تیری
حسن تیرا مِری آنکھوں میں سمایا جب سے
تیر لگتی ہے شعاعِ مہ و انجم مُجھ کو
موت آجائے جو یثرب کے کسی کوچے میں
میں نہ اُٹھوں جو مسیحا بھی کہے قُم مُجھ کو
ہمہ حسرت ہوں، سراپا غمِ بربادی ہوں
ستمِ دہر کا مارا ہوا فریادی ہوں
اے کہ تھا نوح کو طوفاں میں سہارا تیرا
اور براہیم کو آتش میں بھروسا تیرا
اے کہ مشعل تھا ترا ظلمتِ عالم میں وجود
اور نورِ نگہِ عرش تھا سایا تیرا
اے کہ پر تَو ہے ترے ہاتھ کا مہتاب کا نُور
چاند بھی چاند بنا پاکے اشارا تیرا
گرچہ پوشیدہ رہا حسن ترا پردوں میں
ہے عیاں معنیٔ لولاک سے پایہ تیرا
ناز تھا حضرتِ مُوسیٰؑ کو یدِ بیضا پر
سو تجلی کا محل نقشِ کفِ پا تیرا
کیا کہوں اُمتِ مرحوم کی حالت کیا ہے
جس سے برباد ہوئے ہم وہ مصیبت کیا ہے
تقریباً اسی زمانے میں اقبال نے وہ نعت لکھی جس کا مطلع ہے:
نگاہ عاشق کی دیکھ لیتی ہے پردۂ میم کو اُٹھا کر
وہ بزمِ یثرب میں آکے بیٹھیں ہزار مُنہ کو چھپا چھپا کر
یہ نعت بھی بہت حد تک روایتی خیالات پر مشتمل ہے، اگر ’’مدینے کے کبوتر کی یاد‘‘ کی نسبت اقبال سے درست ہے تو یہ نظم بھی اُن کے اُسی دورِ شاعری سے تعلق رکھتی ہے لیکن یہ تمام اقبال کے شعری متروکات ہیں، جنھیں بو جوہ اُنھوں نے اپنے مرتبہ کلام میں شامل نہیں کیا۔ بانگِ درا کی اُن نظموں میں جو ۱۹۰۸ء اور ۱۹۲۴ء کے درمیان لکھی گئیں، اُن میں ’شکوہ‘ کی تخلیق پر مقدم ایک نظم ہے۔ ’ایک حاجی مدینے کے راستے میں…ـ‘ جس میں بظاہر تو اس زمانے کے سفرِ مدینہ کے خطرات و مہلکات کا تذکرہ ہے، لیکن بالواسطہ شاعر کے شوقِ زیارت کا بیان ہے، اس نظم میں لاشعُوری طور پر عرب لینڈ اسکیپ کی یاد متشکل ہوتی ہے، یہ نظم ہر عہد کے مسلمانوں کی زیارتِ مدینہ کی آرزُو کی آئینہ دار بھی ہے۔ تخلیقی سطح پر یہ نظم انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں سفرِ حجاز کے عمومی اور مکے سے مدینے کے سفر کے خاص حالات کی ایک خیالی بازیافت ہے:
قافلہ لُوٹا گیا صحرا میں، اور منزل ہے دور
اس بیاباں، یعنی بحرِ خشک کا ساحل ہے دور
ہم سفر میرے شکارِ دشنۂ رہزن ہوئے
بچ گئے جو ہو کے بیدل سوئے بیت اللہ پھرے
اس بخاری نوجواں نے کس خوشی سے جان دی
موت کے زہر اب میں پائی ہے اس نے زندگی!
خنجرِ رہزن اسے گویا ہلالِ عید تھا
’’ہائے یثرب‘‘ دل میں لب پہ نعرۂ توحید تھا
خوف کہتا ہے کہ یثرب کی طرف تنہا نہ چل
شوق کہتا ہے کہ تو مسلم ہے، بیباکانہ چل
بے زیارت سوئے بیت اللہ پھر جائوں گا کیا؟
عاشقوں کو روزِ محشر مُنہ نہ دکھلائوں گا کیا؟
خوفِ جاں رکھتا نہیں کُچھ دشت پیمائے حجاز
ہجرتِ مدفونِ یثرب میں یہی مخفی ہے راز
گو سلامت محملِ شاہی کی ہمراہی میں ہے
عشق کی لذت مگر خطروں کی جاں کا ہی میں ہے
آہ ! یہ عقلِ زیاں اندیش کیا چالاک ہے
اور تاثر آدمی کا کس قدر بے باک ہے
جس دَور میں اقبال نے شکوہ اور جوابِ شکوہ، جیس نظمیں تخلیق کیں وہ مسلمانانِ عالم کے لیے ایک عالمگیر انحطاط و انتشار کا زمانہ تھا، اقبال مسلمانانِ عالم کی اس عمومی صورتِ حال پر ہمہ وقت بے تاب و بے قرار رہتے تھے۔ جوابِ شکوہ لکھنے سے کچھ ہی عرصہ پیشتر اقبال نے طرابلس کے شہیدوں کے حوالے سے ایک نظم …’’حضورِ رسالت مآبؐ میں‘‘،…لکھی یہ نظم بارگاہِ نبویؐ میں شاعر کی ایک خیالی حضوری کو بیان کرتی ہے، فرشتے شاعر کو بزمِ رسالتؐ یعنی حضورِ آیۂِ رحمتؐ… میں لے جاتے ہیں، بارگاہِ نبویؐ سے شاعر سے خطاب کیا جاتا ہے:
کہا حضور ؐ نے اے عندلیبِ باغِ حجاز
کلی کلی ہے تری گرمیِ نوا سے گداز
ہمیشہ سر خوشِ جام وِلا ہے دل تیرا
فتادگی ہے تری غیرتِ سجودِ نیاز
اُڑا جو پستیِ دُنیا سے تو سوئے گردوں
سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز
نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بو آیا
ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟
حضورؐ! دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بو، وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے، جنت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تری اُمت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں‘‘
نظم ’جوابِ شکوہـ ‘ جو بارگاہِ ایزدی سے ’شکوہ‘ میں بیان کیے گئے خیالات و سوالات کا جواب ہے، اقبال کے عشقِ رسولؐ کی ایک بھر پور جھلک پیش کرتی ہے۔ اس میں خداوندِ قدوس کی طرف سے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تمھاری فوزوفلاح کا تمام تر انحصار اتباع و عشقِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے:
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کر دے
اگلے دو بندوں میں نظامِ تکوین میں ’اسمِ محمد‘ کے فیضان اور برکات کا تذکرہ کیا ہے:
ہو نہ یہ پھول، تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
دشت میں، دامنِ کہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراکش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ رَفَعنا لَکَ ذِکرک دیکھے
’جوابِ شکوہ‘ کا اختتام جس شعر پر ہوتا ہے وہ بھی اسی سلسلۂ خیال کا ایک نقطۂ عروج ہے، یعنی:
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
اسرارِ خودی، (مطبوعہ ۱۹۱۵ئ) اور رُمُوزِ بے خودی (مطبوعہ ۱۹۱۸ئ) اقبال کی فکری اور فنی پختگی کے اولیں شاہکار ہیں۔ یہی دو عظیم الشان مثنویاں ہیں جن میں اقبال کے تمام اہم خیالات و افکار یک جا اور مربوط انداز میں بیان ہوئے ہیں،…اگرچہ اقبال نے ان دو مثنویوں کے بعد بہت کچھ لکھا لیکن اُن کے فلسفۂ خودی اور نظریۂ حیات کی اساسی تشکیل انھی مثنویوں میں ہوئی۔ اُن کے فلسفیانہ فکر…اور فلسفۂ اجتماعیت کے تمام اساسی نکات ان مثنویوں میں موجود ہیں، آگے چل کر اقبال نے جو کچھ کہا، وہ ایک اعتبار سے انھی نکات کی تشریح و تفسیر ہے…یہی وہ مثنویاں ہیں جن کی بدولت اقبال…’رومیِ عصر‘ کہلائے، انھی میں اقبال کا وہ انقلاب آفریں پیغام ہے جس نے بیسویں صدی میں ملتِ اسلامیہ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک عظیم تغیر برپا کر دیا…ان مثنویوں کی تخلیق کے زمانے میں اقبال کے جذبۂ حُبِ رسولؐ میں مزید پختگی و گہرائی اور فکری و معنوی وسعت پیدا ہوئی…’اسرارِ خودی چونکہ خودی کے استحکام سے بحث کرتی تھی، اس لیے اس میں اس موضوع کا حوالہ صرف ایک جگہ موجود ہے یعنی خودی کی بقا و استحکام کے لیے ضبطِ نفس اور اطاعتِ شریعت کا حوالہ…لیکن رُمُوزِ بے خودیمیں اقبال نے اطاعتِ شریعت اور عشقِ رسولؐ کے نفسیاتی، فلسفیانہ، اخلاقی اور تمدنی مضمرات کو پہلی بار اس شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ رُمُوزِ بے خودی میں ارکانِ اساسیِ ملتِ اسلامیہ، کے عنوان سے رُکنِ اوّل کے ذیل میں توحید اور رُکنِ دوم کے ذیل میں رسالت کے مفہوم و معنویت کی تشریح کی ہے، ’رسالت‘کے تحت وہ لکھتے ہیں:
حق تعالیٰ پیکرِ ما آفرید
وزرسالت در تنِ ما جان دمید
حرفِ بے صوت اندرین عالم بُدیم
ازرسالت مصرعِ موزون شدیم
از رسالت درجہان تکوینِ ما
از رسالت دینِ ما آئینِ ما
از رسالت صد ہزارِ مایک است
جزوِ ما از جزوِ ما لاینفک است
آن کہ شانِ اوست یَھدِی مَن یُرید
از رسالت حلقہ گردِ ما کشید
حلقۂ ملت محیط افزاستے
مرکزِ او وادیِ بطحاستے
ما ز حکمِ نسبت اوملتیم
اہلِ عالم را پیامِ رحمتیم
ازمیانِ بحرِ او خیزیم ما
مثلِ موج از ھم نمی ریزیم ما
اُمتش در حرزِ دیوارِ حرم
نعرہ زن مانندِ شیران درا جم
اللہ تعالیٰ نے ہمارا پیکر تخلیق کیا، اور اس کے بعد رسالت کے ذریعے ہمارے جسم میں رُوح پھونکی۔ ہم اس دُنیا میں بے آواز الفاظ تھے۔ رسالت (کے فیض) سے ہم مصرعِ موزوں بن گئے۔ ہماری تشکیل و تکوین دُنیا میں رسالت ہی سے ہے، یہ رسالت ہی ہے جس سے ہمارا دین…ہمارا آئینِ زندگی بھی ہے۔ رسالت کے سبب ہم لاکھوں بھی ہوں تو ہم ایک ہیں، اور ہمارا ہر جزو دُوسرے جزو سے پیوست ہے۔ وہ خداوندِ قدوس کہ جس کی شان یَھدِی مَن یُرید ہے، یعنی جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اس نے (خطِ) رسالت سے ہمارے ارد گرد دائرہ کھینچ دیا ہے، ملت کا دائرہ اپنے محیط کو وسیع کرتا ہے اور اس کا مرکز وادیِ بطحا ہے، ہم اسی (مرکز) کی نسبت سے ایک قوم (ملت) ہیں اور اسی نسبت سے ہم دُنیا والوں کے لیے پیغامِ رحمت ہیں، ہم اس کے سمندر کے درمیان سے اُبھرتے ہیں۔ اور موج کی طرح بکھرتے نہیں، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت (کے افراد) دیوارِ حرم کی پناہ گاہ میں جنگل کے شیروں کی طرح گرجتے ہیں۔
اس شعر کا مضمون، جس میں اقبال نے افرادِ ملتِ اسلامیہ کو جنگل کے شیروں سے تشبیہ دی ہے حضرت امام بوصیری ۱۲؎ کے قصیدۂ بردہ کے ایک شعر سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس شعر کا حوالہ اقبال نے خود ہی حاشیے میں دے دیا ہے۔ جنگل کے معنوں میں لفظ اَجَم جو کہ ایک غریب لغت ہے، اسی شعر کے زیرِ اثر اختیار کیا گیا ہے، وہ شعر قصیدۂ بردہ، کی ’’الفصل الثامن فی ذکرِ جھاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ میں قصیدے کا ۱۳۹ واں شعر ہے:
اَحَلَّ اُمَّتَہ فِی حِرْز مِلَّتِہ
کَالَّلیثِ حَلَّ مَعَ الاَشبَالِ فِی اَجَم
آپ ّصلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی اُمت کو اپنی شریعتِ حقہ کے محفُوظ حصار میں اتارا (اور مخالفوں اور دُشمنوںسے اُن کی اس طرح حفاظت کی) جیسے وہ شیر (لیث) جو اپنے بچوں (اشبال جمع شبل بمعنی بچۂ شیر) کے ساتھ اپنے بیشے (اَجَم: گھنا جنگل) میں مقیم ہو۔
اس کے بعد اقبال کہتے ہیں:
معنیِ حرفم کنی تحقیق اگر
بنگری با دیدۂ صدیق اگر
قوتِ قلب و جگر گردد نبیؐ
از خدا محبوب تر گردد نبیؐ
قلبِ مومن راکتابش قوت است
حکمتش حبل لوریدِ ملت است
دامنش از دست داون مردن است
چو گل از بادِ خزان افسردن است
زندگی قوم از دمِ اُویافت است
ایں سحر از آفتابش تافت است
فرد از حق، ملت ازوی زندہ است
از شعاعِ مہرِ او تابندہ است
دینِ فطرت از نبیؐ آموختیم
در رہِ حق مِشعلے افروختیم
ایں گہر از بحرِ بے پایانِ اُوست
ماکہ یک جانیم، از احسانِ اُوست
تانہ ایں وحدت زدستِ ما ردو
ہستیِ ما با ابد ہمدم شود
پس خدا بر ما شریعت ختم کرد
بر رسولِؐ ما رسالت ختم کرد
رونق از ما محفلِ ایام را
او رُسل را ختم و ما اقوام را
اے مخاطب، اگر تو میرے الفاظ کی تحقیقی کرے، اور اگر تو صدیقِ اکبرؓ کی نظر سے دیکھے تو (تو دیکھے گا) کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام (مومن کے لیے) قلب و جگر کی قوت بن جاتے ہیں، بلکہ وہ خدا سے بھی زیادہ محبوب ہو جاتے ہیں۔آپؐ کی لائی ہوئی) کتاب مومن کے دل کے لیے قوت (کا سر چشمہ) ہے اور آپ کی حکمت (سنّت) مِلت کی رگِ زندگانی ہے۔ آپؐ کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دینا(فی الحقیقت) مر جانے کے مترادف ہے، یہ پھول کے خزاں کی ہوا سے مرجھانے کے مترادف ہے۔ قومِ (مسلم) نے آپؐ ہی کے نفسِ جانفرا سے زندگی پائی ہے (ملتِ اسلامیہ کی یہ) صبحِ درخشاں آپؐ (کی رحمت) کے سورج سے طلُوع ہوئی ہے۔ فرد حق تعالیٰ سے اور ملت آپؐ سے زندہ ہے، اور آپؐ ہی کے آفتابِ رحمت سے تابندہ ہے…ہم نے دینِ فطرت کی تعلیم آپؐ ہی سے حاصل کی ہے جس کے نتیجے میں ہم نے راہِ حق میں مشعل جلائی ہے۔ یہ موتی اُنھیں کی رحمت ور أفت کے بحرِ بے پایاں سے ہے، اور ہم (افرادِ اُمتِ مسلمہ) اگر ایک ہیں تو یہ بھی آپؐ ہی کا احسان ہے۔ اگر ہم اس وحدت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں، تو ہماری ہستی لازوال (ابد کی ہمسفر) ہو جائے گی۔ چنانچہ خداوند تعالیٰ نے ہم پر شریعت اور ہمارے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پر رسالت و نبوت ختم کردی، زمانے کی محفل کی رونق اب صرف ہمیں سے ہے۔ اس لیے کہ نبی اکرمؐ انبیا و رُسل کے خاتم ہیں اور ہم اقوام کیے!
ان شعروں میں آخری دو شعروں کا مضمُون بھی حضرت امام بوصیری کے ایک شعر سے لیا گیا ہے۔ جسے اقبال نے خود ہی حاشیے میں نقل کر دیا،…یہ شعر’’الفصل السابع فی ذِکرِ مِعراجِ النَبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘کا آخری اور قصیدے کا ایک سو انیسواں شعر ہے:
لَمَّا دَعَی اللہ دَاعِینَا لِطاعتِہٖ
بِاَکرَمِ الرُّسُلِ کنّا اَکرَمَ الاُمَم
چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے داعی (حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم) کو اکرم الرُسُل (نبیوں میں سب سے مکرم) کَہ کر اپنی طاعت کے لیے بلایا ہے اس لیے (اس نسبت سے) ہم (افرادِ اُمتِ مسلمہ) بھی تمام اُمتوں میں سب سے مکرم قرار پاتے ہیں۔
رُمُوزِ بے خودیکے ایک باب میں جس کا عنوان ہے: ’’در معنیِ این کہ چون ملتِ محمدیہ مؤسَّس بر توحید و رسالت است، پس نہایتِ مکانی ندارد‘‘۔ (اس مفہوم کی تشریح میں کہ چونکہ ملتِ محمدیہ توحید و رسالت کے تصورات پر استوار ہے، اس لیے اس کے لیے کوئی مکانی یعنی جغرافیائی حد نہیں ہے) کعبؓ بن زہیر کے مشہور قصیدۂِ نعت کے حوالے سے اقبال کہتے ہیں:
پیشِ پیغمبرؐ چو کعبؓ پاک زاد
ہدیۂ آورد از بَاَنتَ سُعاد
در ثنایش گوہرِ شب تاب سُفت
سیفِ مسلول از سیوف الہند گفت
آن مقامش بر تر از چرخِ بلند
نامدش نسبت بہ اقلیمی پسند
گفت سیفؓ من سیوف اللہ گو
حق پرستی، جز براہِ حق مپو
ہمچناں آن رازدارِ جزو و کل
گردِ پایش سرمۂِ چشمِ رُسل
گفت با اُمت، ’’ز دُنیائے شما
دوست دارم طاعت و طیب و نسا‘‘
گر ترا ذوقِ معانی رہ نما است
نکتۂ پوشیدہ در حرفِ ’’شما‘‘ست
یعنی آں شمعِ شبستانِ وجود
بود در دُنیا و از دُنیا نبود
جلوۂ او قدسیاں راسینہ سوز
بود اندر آب و گل آدم ہنوز
پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں جب پاک زاد کعبؓ (بن زہیر) اپنے قصیدے بَاَنتَ سُعاد کا تحفہ لائے، تو گویا اُنھوں نے مدحِ رسولؐ میں شب تاب موتی پروئے، اُنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سیوف الہند (ہندوستان کی تلواروں) میں سے سیفِ مسلول کہا۔ تو رسولِ اکرمؐ کہ جن کا مقام آسمانِ بلند سے بھی بلند تر ہے، اُنھیں ایک خطۂِ زمین سے اپنی نسبت پسند نہ آئی، چنانچہ آپؐ نے فرمایا کہ مُجھے اللہ کی تلواروں میں سے تلوار کہو، اور چونکہ تم حق پرست ہو، اس لیے سوائے حق پرستی کی راہ کے اور کوئی راہ اختیار نہ کرو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہر جزو و کل کے رازداں ہیں، اور آپؐ کے قدموں کی خاک انبیا کی آنکھوں کا سرمہ ہے، اُمت سے فرمایا کہ میں تمھاری دُنیا میں سے خوشبو اور عورت کو پسند کرتا ہوں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے، تو اے مخاطب، اگر ذوقِ معانی تیرا رہنما ہو تو حرفِ شما(تم یا تمھاری دُنیا) میں ایک نکتہ پوشیدہ ہے یعنی وہ شمعِ شبستانِ وجود، صلی اللہ علیہ وسلم، دُنیا میں تو تھے، لیکن دُنیا کے نہیں تھے۔ ابھی آدم، آب و گِل ہی میں تھے کہ آپ ؐ کا جلوہ قُدسیوں کے لیے سینہ سوز (آتشِ عشق کا باعث) بن چکا تھا۔
آخری شعر کی وضاحت کے لیے اقبال نے حاشیے میں اس حدیث کے الفاظ نقل کیے ہیں: کنتُ نبیّاً وَ آدَمَ بَینَ المَا ئِ والطِین۔ (آدم ابھی مٹی اور پانی کے درمیان تھے کہ میں نبی تھا) کعبؓ بن زہیر کے قصیدے کے حوالے کی تشریح اقبال نے حاشیے میں ان الفاظ میں کی ہے:
حضرت کعبؓ نبی کریمؐ کو بہت ایذا دیا کرتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد مکہ سے بھاگ کر طائف چلے گئے وہاں سے قصیدہ بَا نَت سُعاد لکھ کر حضورِ اکرمؐ کی خِدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے گذشتہ گناہوں کی معافی مانگی۔ حضور نے ان کو معاف کر دیا اور قصیدے کے صلے میں اپنی چادر عطا فرمائی، اس قصیدے میں کعبؓ نے حضورؐ کو ’’سیف مِن سیوف الہند‘‘ (ہندوستان کی تلواروں میں سے ایک تلوار) کے الفاظ سے مخاطب کیا۔ مگر حضورؐ نے کعبؓ کے مصرع میں اصلاح دے کر فرمایا ’’سیف مِن سیوفِ اللہ‘‘ کہنا چاہیے( یعنی اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار )‘‘ ۱۳؎ ــرُمُوزِ بے خودیکے ایک باب کا عنوان ہے ’’در معنیِ این کہ حسنِ سیرت ملیہ از تادُب بآداب محمدیہؐ است‘‘۔ (اس مفہوم کے بیان میں کہ…ملت اسلامیہ کا حسنِ سیرت نبیِ اکرمٔ کے آداب و اخلاق سے خود کو آراستہ کرنے میں ہے)… اس باب میں اقبال اپنی ذاتی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے جو اُن کے عنفوانِ شباب کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے، کہتے ہیں کہ ایک روز ایک سائل ہمارے گھر کے دروازے پر قضائے مبرم کی طرح آکھڑا ہوا اور پیہم صدائیں دینے لگا، میں نے غُصے میں آکر اس کے سر پر لکڑی دے ماری، جس سے اس کی دن بھر کی کمائی گر گئی۔ میرے والد اس پر بے حد آزُردہ ہوئے، اور اُن کے چہرے کا گلشن مرجھا گیا، اُن کے سینے میں دل تڑپنے لگا اور دم بدم آہِ سرد بھرنے لگے، اور اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ میں شدتِ انفعال سے لرزنے لگا۔ اور بے چین ہو گیا، میرے والد نے کہا: کل روزِ قیامت جب خیر الرُسل کی اُمت اُن کے گرد جمع ہو گی۔ نمازی اور علمائے اُمت، شہدائے اُمت جو دین کی حُجت اور آسمان ملت کے درخشندہ ستارے ہیں، زاہدانِ پاک باز، عاشقانِ دل فگار اور عاصیان شرمسار(سب جمع ہوں گے) اس وقت جب اس غم نصیب فقیر کی فریاد بلند ہو گی تو میں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کیا جواب دوں گا، جب وہ استفسار فرمائیں گے:
’’حق جوانے مسلمے با تو سپرد
کو نصیبے از دبستانم نبرد
از تو این یک کار آسان ہم نشد
یعنی آن انبارِ گِل آدم نشد‘‘
حق تعالیٰ نے ایک نوجوان مسلمان کو تیرے سپرد کیا تھا، جو میرے دبستان سے مستفید نہ ہو سکا۔ تجھ سے اتنا سا کام بھی نہ ہو سکا، یعنی اس مٹی کے تودے کو انسان بھی نہ بنا سکا!
اند کے اندیش و یاد آر اے پسر
اجتماعِ اُمتِ خیر البشرؐ
باز این ریشِ سفیدِ من نگر
لرزۂ بیم و امیدِ من نگر
بر پدر این جورِ نازیبا مکن
پیشِ مولا بندہ را رسوا مکن
غنچۂ از شاخسارِ مُصطفیٰؐ
گل شو از بادِ بہارِ مصطفیٰؐ
از بہارش رنگ و بو باید گرفت
بہرۂ از خُلقِ او باید گرفت
مرشدِ رُومی چہ خوش فرمُودہ است
آنکہ یم در قطرہ اش آسودہ است
’’مگسل از ختم الرسلؐ ایامِ خویش
تکیہ کم کن بر فن و بر گامِ خویش‘‘
فطرتِ مسلم سراپا شفقت است‘
در جہان دست و زبانش رحمت است
آنکہ مہتاب از سر انگشتش دونیم
رحمتِ اُو عام و اخلاقش عظیم
از مقامِ او اگر دور ایستی
از میانِ معشرِ ما نیستی
میرے بچے، کچھ سوچ اور روزِ جزا اُمتِ خیر البشرؐ کے اجتماع کو یاد رکھ، پھر میری سفید داڑھی کو بھی دیکھ، اور میری اس امید وبیم کو بھی نظر میں رکھ، باپ پر ایسا ستمِ ناروا نہ کر، ایک غلام کو اپنے آقاؐ کے سامنے رُسوا نہ کر، تو شاخسارِ مُصطفیٰ ؐ کا ایک غنچہ ہے، تو اس باغ کی بہار کی ہوا سے پھول بن جا۔ باغِ رسالت کی بہار سے رنگ و بو حاصل کرنا چاہیے اور آپؐ کے خلقِ عظیم سے بہرہ مند ہونا چاہیے۔ مر شدِ رُومی نے کیا اچھا کہا ہے، مرشدِ رُومی کہ اس کے قطرے میں سمندر سما گیا ہے، اُنھوں نے کہا ہے کہ اپنے زمانے کو ختم الرسلؐ سے منقطع نہ کر، اور اپنے علم و ہُنر اور اپنی رفتار و گام پر بھروسہ نہ کر، مسلمان کی فطرت سراپا شفقت ہے، دُنیا میں مسلمان کی زبان اور اس کے ہاتھ مخلوقاتِ عالم کے لیے باعثِ رحمت ہیں (باعثِ زحمت نہیں)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرِ انگشت سے چاند دو ٹکڑے ہو گیا،…اُن کی رحمت عام اور ان کے اخلاق عظیم ہیں۔ اگر تو اُن کے مقام سے دور جا کھڑا ہوگا تو تو ہم میں سے نہیں ہوگا۔
رُمُوزِ بے خودی کا اختتام، عرضِ حالِ مصنف بحضورِ رحمۃ للعالمینؐ پر ہوتا ہے، یہی وہ منظومۂ بے مثال ہے جس میں اقبال کا فکر اور فن دونوں تکمیل کی بلندی پر دکھائی دیتے ہیں، ان اشعار میں اقبال نے اپنے جذباتِ عقیدت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکارمِ اخلاق اور عالمِ کون و مکان میں آپ کے ظہور و بعثت کی معنویت کو کمالِ فن کے ساتھ پیش کیا ہے آپؐ کی ذاتِ گرامی وہ حقیقتِ منتظرہ تھی جس کی آمد کی نوید تمام آسمانی کتابیں دیتی چلی آرہی تھیں بحرِ امکان کی موج موج اس گوہرِ نایاب سراغ کی جستجو میں بے تاب تھی جو ابھی محیطِ کائنات کی پہنائیوں میں مضمر تھا، آپؐ کی ذاتِ مبارک آیۂ کائنات کا مفہومِ کلی تھی جو دیر یاب تھا :
آیۂ کائنات کا معنیِ دیر یاب تو
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو
اے ظہورِ تو شبابِ زندگی
جلوہ ات تعبیرِ خوابِ زندگی
اے زمین از بارگاہت ارجمند
آسمان از بوسۂ بامت بلند
شش جہت روشن زتابِ روئے تو
ترک و تاجیک و عرب ہندوئے تو
از تو بالا پایۂ این کائنات
فقرِ تو سرمایۂ این کائنات
درجہان شمعِ حیات افروختی
بندگان را خواجگی آموختی
بے تو از نابودمندی ہا خجل
پیکرانِ این سرائے آب و گل
تا دمِ تو آتشے از گِل کشود
تو دہ ہائے خاک را آدم نمود
ذرہ دامن گیرِ مہر و ماہ شد،
یعنی از نیروئے خویش آگاہ شد
تا مرا اُفتاد بر رویت نظر،
از اب و ام گشتۂ محبوب تر
اے بصیری را رِدا بخشندۂ
بربطِ سلما مرا بخشندۂ
ذوقِ حق دہ ایں خطا اندیش را
اینکہ نشناسد متاعِ خویش را
گر دلم آئینۂ بے جوہر است
ور بحرفم غیرِ قرآن مضمر است
اے فروغت صبحِ اعصار و دہور
چشمِ تو بینندۂ مَا فی الصدور
پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن
این خیابان را ز خارم پاک کن
اے وہ ہستی کہ آپؐ کا ظہور زندگی کا شباب ہے، آپؐ کا جلوہ زندگی کے خواب کی تعبیر ہے، اے وہ ہستی کہ زمین آپؐ کی بارگاہ کی بدولت ارجمند ہے، اور آسمان بھی آپ کے بامِ بلند کو بوسہ دینے سے ہی بلند ہوا ہے، شش جہت آپ کے رُوئے منور سے روشن ہوتے ہیں، (آپؐ آقا ہیں اور) ترک و تاجیک و عرب آپ کے غلام ہیں۔ کائنات کا مرتبہ آپؐ ہی سے بلند ہوا ہے، آپؐ کا فقر اس کائنات کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ آپؐ ہی نے دُنیا میں زندگی کا چراغ روشن کیا، آپ ہی نے غلاموں کو سرداری سکھائی ہے۔ آپؐ کے بغیر اس دُنیا ئے آب و گِل کے تمام پیکر اپنی بے بضاعتی پر نادم اور شرمندہ تھے۔ آپؐ نے اپنے نَفَسِ پاک سے مٹی میں آگ روشن کی ہے، اور تودۂ خاک کو آدم بنا دیا ہے، آپ ہی کے الطاف و عنایات سے ذرّوں نے مہرو ماہ کا دامن جا پکڑا ہے، یعنی ذرّہ اپنی حقیقت و قوت سے آگاہ ہو گیا ہے۔ جب سے آپؐ کے رُوئے منوّر پر میری نظر پڑی ہے، آپؐ مجھے ماں، باپ سے زیادہ محبوب ہو گئے ہیں…اے بو صیری کو چادر عطا کرنے والے۔ آپ ہی نے مُجھے بربطِ سلمیٰ (مراد ہے جوہرِ شاعری) عطا کیا ہے۔ آپ مُجھ غلط اندیش کو ذوقِ حق عطا فرمائیے اس لیے کہ میں اپنی متاع کو نہیں پہچانتا اگر میرا دل ایک آئینۂ بے جوہر ہے(یعنی روشن نہیں) اور اگر میرے حرف(میری شاعری) میں سوائے مطالبِ قرآن کے اور کوئی چیز مضمر ہے تو اے وہ ہستی کہ آپ کا جمال زمانوں کی صبح ہے اور آپ کی چشمِ مبارک سینے کے بھیدوں کو بھی دیکھ لیتی ہے، …میرے فکر کے ناموس کا پردہ چاک کر دیجیے، اور مُجھ ایسے کانٹے سے اس باغ (اُمتِ مسلمہ) کو پاک کر دیجیے‘‘۔
۲
تہذیبِ اسلامی کی تاریخ میں فکر و عمل کی سطح پر دو تحریکیں بے حد اہمیت کی حامل ہیں، ایک تصوّف کی ہمہ گیر تحریک جو قرونِ اولیٰ سے ہی مسلمانوں کی مذہبی زندگی کے انفرادی پہلو پر محیط ہو گئی تھی، اور دُوسرے وہ عقلی تحریک جو مسلمانوں میں یُونانی علوم کی اشاعت سے پیدا ہوئی، اور بالآخر مسلمانوں کے مخصوص دینی فلسفے، یعنی علم الکلام پر منتج ہوئی، یہ دونوں تحریکیں مسلمانوں کے دینی علُوم، تفسیر و حدیث، فقہ اور تاریخ و سیر پر مستزاد تھیں، اور فی الحقیقت(بعض عقلی تحریکوں کو چھوڑتے ہوئے) اسلامی طریقِ زندگانی اور اسلامی طرز فکر ہی میں پیوست تھیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ تصوف اور علم الکلام کو صرف دو تحریکیں قرار دینا بھی کچھ ایسا صحیح نہیں اس لیے کہ بہت جلد یہ دونوں تحریکیں بے شمار دُوسری تحریکوں اور دبستانوں میں منشعب ہوئیں، تاہم اس سے ہماری مراد دو اساسی طریقوں کی نشاندہی ہے۔ خود تصوّف نے بہت جلد فلسفے کے بے شمار تصورات و دقائق کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا،…بہر صورت تصوّف اور علم الکلام کی تحریکوں کے آغاز سے جہاں اور معتقدات کی عقلی توجیہات پیش کی گئیں وہاں مقامِ نبوّت، منصبِ رسالت اور حقیقتِ رسالت و نبوتِ محمدیہؐ کو بھی بعض عقلی ذرائع سے سمجھنے کی کوشش کی گئی، اگرچہ ان عقلی ذرائع کی تہ میں صوفیا کے رُوحانی واردات بھی یقیناً کار فرما تھے، اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس سلسلے میں فلاسفۂ متصوفین سب سے پیش پیش رہے،… چُنانچہ جُوں جُوں فلاسفۂ متصوفین اسلام کے اعتقادات کی عقلی اور نفسیاتی تو جیہوں کو ایک ما بعد الطبیعیاتی نظام میں ڈھالتے چلے گئے، ’’حقیقتِ محمدیہؐ‘‘ کا تصور اس نظام کا جزوِ اعظم بنتا چلا گیا۔ ’’حقیقتِ محمدیہؐ‘‘ کے تصور کی عقلی، نفسیاتی اور اعتقادی توجیہہ و تشریح سب سے پہلے اندلس کے صوفی مفکر اور فلسفۂ وحدت الوجود کے بانی شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن العربی نے کی، فی الحقیقت ’’حقیقتِ محمدیہؐ‘‘ کے تصور کے بانی ابن العربی ہی ہیں جن سے صدر الدین قونیوی یا قونوی کے ذریعے عبدالکریم الجیلی نے اثر قبول کرتے ہوئے ’اِنسانِ کامل‘ کا نظریہ پیش کیا۔ ایران کے مذہبی فلاسفۂ متاخرین میں میر باقر داماد، اور اُن کے شاگرد رشید مُلا صدر الدین شیرازی عرف مُلا صدر انے اس تصور کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ماہیّتِ وجود کی تشریح کے سلسلے میں (بالخصوص وحدت الوجود کے بعض اصطلاحی مباحث کے نقطۂ نظر سے) اقبال کو ابن العربی سے کتنے ہی فروعی یا بنیادی اختلافات کیوں نہ ہوں، …’’حقیقتِ محمدیہؐ‘‘ کے معاملے میں اُن سے (ابن العربی سے) کلیتہً متفق نظر آتے ہیں۔ اگرچہ اقبال نے نبوت و رسالتِ محمدؐیہ کی تشریح میں کہیں بھی حقیقتِ محمدیہؐ کی اصطلاح استعمال نہیں کی، لیکن جو کچھ اُنھوں نے اس سلسلے میں کہا ہے اسے ’حقیقتِ محمدیہؐ‘ کے تصور کے بہت قریب یا اس کی تشریح کہا جا سکتا ہے،… عر فا کے نزدیک حقیقتِ محمدیہؐ کی تشریحات کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب بے حد تفصیل طلب ہے اور اس مختصر مضمون کے دامنِ مطالب سے بہت حد تک افزوں بھی، اس لیے اس تصور کو اشارۃً مرزا عبدالقادربیدل کے ان اشعار کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے جو اُن کی مثنوی ’’طلسمِ حیرت‘‘ میں شامل ہیں:
محمدؐ…صافیِ آئینۂ قُدس!
ہمان سرمایۂِ گنجینۂ قُدس
نوای عشرتِ نُہ پردۂِ ساز
نشاطِ محفلِ انجام و آغاز
چہ واجب، نشۂ سرجوشِ نورش
چہ ممکن، دُردِ مینای ظہورش
خمِ امکان کہ ہستی نام دارد،
زجوش اومئے در جام دارد
ظہورش غازۂِ تقییدِ آفاق
بطونش بی نیازی ہائے اطلاق
جہان، مرآتِ انوارِ جمالش
دلِ ہر ذرّہ، فانوسِ خیالش
یقین تا بُرد در آئینہاش راہ،
نشد بے پردہ نقشے جز ہو اللہ
زبانم قابلِ حمدِ خدا شُد
کہ با نامِ محمدؐ آشناشد
زہے نامی کہ جان دیوانۂ اوست
بم و زیرِ جہان پروانۂ اوست
دران خلوت کہ دور ازکیف و کم بود
نگاہ و جلوہ در خوابِ عدم بود
چوشد حسنِ حققت جلوہ اندیش
محمد دید در آئینۂ خویش
زآغوشِ احد یک میم جوشید
کہ بیرنگی لباسِ رنگ پوشید
زاحمد بر احد چیزی نیفزود
اگر میمی فزود، آں ہم یکی بود
صدا و ساز یک تار است اینجا
گہریک موجِ ہموار است اینجا!۱۴؎
کائنات کی تشکیل و تکمیل… یعنی ارتقائی حرکت میں ایک حقیقتِ منتظرہ کے تلاش و انتظار کے خیال کو مرزا بیدل اشعار میں اس طرح بیان کرتے ہیں:
بحر بے تاب کہ آن گوہرِ نایاب کجاست
چرخ سرگشتہ کہ خورشیدِ جہان تاب کجاست
دَیر زین غصہ در آتش کہ چورنگ است صنم
کعبہ زین درد سیہ پوش کہ محراب کجا ست
اقبال نے ’حقیقتِ محمدؐیہ ‘ کے تصور اور اس سے متعلقہ دُوسرے تصورات کی طرف ان اشعار میں اشارہ کیا ہے:
لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ، تیرے محیط میں حباب
عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرّۂ ریگ کو دیا تو نے طلُوعِ آفتاب
شوکتِ سنجر و سلیم، تیرے جلال کی نمود
فقرِ جنید و بایزید تیرا جمالِ بے نقاب
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہِ ناز سے، دونوں مراد پا گئے
عقل غیاب و جستجُو عشق، حضور و اضطراب
’’عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ‘‘۔ کَہ کر اقبال نے نبوت اور بالخصوص ’نبوتِ محمدؐ‘ کی طرف ایک خاص اشارہ کیا ہے اس قسم کے اشارے اُن کی نعتیہ شاعری میں اور اُن کے کلام میں اکثر ملتے ہیں، ’اے مقام و منزلِ ہر راہرو‘۔ گردِ تو گردد حریمِ کائنات، ’اے وجودِ تو جہانِ نو بہار‘ ان اشارات کی تشریح گو کسی قدر تفصیل کی متقاضی ہے‘ تا ہم اجمالاً اتنا کہا جا سکتا ہے کہ زندگی اور کائنات کی حقیقت کو سمجھنے کے دو ہی راستے ہیں، ایک تو اُصولِ مادہ جسے قانونِ علت و معلول بھی کہا جا سکتا ہے اور دوسرا نفسِ انسانی!۔ اقبال کے تصوراتی نظام میں نفس انسانی کو۔ جس کا اصطلاحی نام اُنھوں نے ’خودی‘ رکھا ہے۔ مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اقبال ذہنِ انسانی یا نفسِ انسانی کو مادے پر مقدم سمجھتے ہیں اور حقیقت کی توجیہ (مادے کے مقابلے میں) ذہن ہی سے کرتے ہیں۔ عقل ان کے نزدیک محدُود ہے، اس لیے مطلق حقیقت کا علم اس کے بس کی بات نہیں، وجدان البتہ ایک ایسی صلاحیت ہے جس کے ذریعے مطلق حقیقت کا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وجدان کے سلسلے میں ان کے خیالات وہی ہیں جو مولانا رُوم اور برگساں کے ہیں لیکن وجدان بھی چونکہ محدود انا سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اس کی بھی حدُود ہیں۔ البتہ جب وجدان ’’عشق‘‘ کے درجے تک پہنچ جاتا ہے، تو اس میں انکشافِ حقیقت کی وسعتیں پیدا ہو جاتیں ہیں۔ عشق اور وحی کو اسی لیے اُنھوں نے بطورِ مترادف بھی استعمال کیا ہے:
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مُصطفیٰؐ
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
اگر فلاسفۂ متصوفین…اور بالخصوص شیخ اکبر ابن العربی کی اصطلاحات استعمال کریں۱۵؎ تو کہا جا سکتا ہے کہ زمانِ دہری۱۶؎ اور زمانِ عصری۱۷؎ …زمانِ سرمدی۱۸؎ کی اظہاری صورتیں ہیں، زمانِ سرمدی ایک مفہوم کلی ہے، اس کا اظہار واقعات و حوادثِ کائنات کی صورت میں ہو رہا ہے،…یہ اس کی تکوینی صورت ہے، تکمیلی صورت وہ ہے جس میں یہ موضوعی یا داخلی۱۹؎ صورت اختیار کرتا ہے، یہی داخلی یا موضوعی صورت نفسِ انسانی ہے۔ زمانہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے حیات و کائنات کے اغراض و مقاصد کا حامل ہے۔ زمانے کے ان تصورات کی روشنی میں اقبال کا ایک بیان ملاحظہ ہو۔ ’’تشکیلِ جدید‘‘ کے پانچویں خطبے میں اقبال لکھتے ہیں کہ’’…اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یُوں نظر آئے گا جیسے پیغمبرِ اسلامؐ کی ذاتِ گرامی کی حیثیت دُنیائے قدیم اور جدید کے درمیان ایک واسطے کی ہے۔ بہ اعتبار اپنے سر چشمۂ وحی کے آپؐ کا تعلق دُنیائے قدیم سے ہے، لیکن با عتبار اس کی رُوح کے دُنیائے جدید سے۔ یہ آپؐ ہی کا وجود ہے کہ زندگی پر علم و حکمت کے وہ تازہ سر چشمے منکشف ہوئے جو اس کے آئندہ رُخ کے عین مطابق تھے…اسلام میں چونکہ نبوت اپنے معراجِ کمال کو پہنچ گئی تھی، اس لیے اس کا خاتمہ ضروری ہو گیا‘‘۔ سلسلۂ وحی و ہدایت اور سیرت و اخلاق میں رسولِ اکرمؐ کی یگانہ اور بے مثال حیثیت کے علاوہ اقبال کو ’ختمِ نبوت‘ کے مسئلے سے ما بعدالطبیعیاتی نقطۂ نظر سے بھی دلچسپی تھی اور عمرانی نقطۂ نظر سے بھی! ’خاتم النبیین‘ یا تصورِ خاتمیت کا مسئلہ غالب کے زمانے کی الٰہیات کا بھی اہم ترین مسئلہ تھا، اس لیے اُنھوں نے ایک فارسی مثنوی میں اپنے نقطۂ نظر سے اس مسئلے کی تشریح کی، اس مثنوی کا ایک اہم شعر ہے:
ہر کجا ہنگامۂ عالم بود
رحمۃ للعالمینے ہم بود
یعنی جہاں کہیں بھی ہنگامۂ ہست و بود اور نظامِ وجود ہوگا، اس کی تکمیل کے لیے رحمۃ للعالمینؐ کا وجودِ مسعود بھی ہوگا۔ اقبال کو خاتمیت کے مسئلے سے مدت العمر دلچسپی رہی تھی، وہ ختمِ نبوت کے فلسفیانہ اور عمرانی بنیادوں پر قائل تھے۔ اس لیے اپنی عظیم مثنوی جاوید نامہ میں جسے اُنھوں نے پایانِ عمر میں تصنیف کیا، اور جو اُن کے فکر و فن کے کم و بیش تمام ارتقائی مراحل کا ما حصل بھی ہے، وہ زندہ رود کی صورت میں مسئلۂِ خاتمیت پر غالب کے ساتھ طالب علمانہ انداز میں مباحثہ کرتے نظر آتے ہیں، اور غالب سے مذکورہ با لا شعر کی وضاحت طلب کرتے ہیں، غالب کا کہنا ہے:
خلق و تقدیر و ہدایت ابتداست
رحمۃ للعالمینی انتہاست
یعنی ہر سلسلۂ تخلیق کی ابتدا تقدیر و ہدایت سے ہوتی ہے، تقدیر سے مراد قوانین فطرت اور ہدایت سے مراد سلسلۂ وحی و نبوّت، قوانین فطرت کائناتِ خارجی کی علامت ہیں اور ہدایت۔ حیات داخلی کی۔ غرض معروض و موضوع، مادہ اور ذہن…انفس و آفاق…کی تکمیلِ معنوی کا آخری نقطہ رحمۃ للعالمینی ہے، یہ شعر سن کر اقبال، غالب سے مزید تشریح کا مطالبہ کرتے ہیں، غالب اعتراف کرتے ہیں کہ اس نکتے کی مزید تشریح مُشکل ہے، اس کا اظہار خطا سے خالی نہیں(ایں سُخن رافاش تر گفتن خطاستـ، نکتہ رابر لب رسیدن مُشکل است) بلکہ کُفریات کی حدُود میں داخل ہو جاتا ہے(آنچہ توازمن بخواہی کا فری است)، اس پر حلاج واشگاف انداز میں کہتا ہے:
ہر کجا بینی جہانِ رنگِ و بو
آن کہ از خاکش بروید آرزو
یاز نُورِ مُصطفیٰ او را بہاست
یاہنوز اندر تلاشِ مُصطفیٰ است
جہاں کہیں بھی تم رنگ و بو (عالمِ امکاں) کا ہنگامہ دیکھو گے،…یعنی وہ دُنیا کہ جس کی خاک سے آرزو اُگتی ہے، تو تم دیکھو گے کہ یا تو وہ عالم نبوتِ مصطفیٰ کے نُور سے فیض یاب ہو چکا ہوگا۔ یا ابھی اس فیضان کی تلاش میں ہوگا‘‘۔
لیکن اقبال کی تسلی اس جواب سے بھی نہیں ہوتی،…اور وہ غالب کو چھوڑ کر حلاج سے پوچھتے ہیں:
از تو پرسم، گرچہ پرسیدن خطاست
سرِّ آن جوہر کہ نامش مُصطفیٰؐ است
آدمی یا جوھری اندر وجود،
آن کہ آید گاہے گاہے در وجود،
(اے حلاج)‘‘ میں تجھ سے پوچھتا ہوں، اگرچہ پوچھنا غلطی ہے(تاہم میں پوچھتا ہوں) کہ وہ جوہر جس کا نام مصطفیٰؐ ہے، کیا وہ آدمی(کوئی معین شخص) ہے یا وجود میں چھپا ہوا جوہر ہے جو کبھی کبھی وجود کے پردے میں ظاہر ہوتا ہے؟‘‘ (عبدالکریم الجیلی کے نزدیک حقیقتِ محمدؐیہ، ایک جوہر ہے جو کبھی کبھی معین اشخاص کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اقبال اسی تصور کے حوالے سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں)
اس سوال کے جواب میں ’حلاج ایک بلیغ اور پر زور جواب دیتا ہے‘ (جو فی الحقیقت اقبال ہی کے خیالات ہیں، یعنی تاریخی اعتبار سے ان خیالات کا حسین بن منصور حلاج کے خیالات سے کوئی تعلق نہیں، یا کم از کم حسین بن منصور حلاج نے ان خیالات کا کہیں اظہار نہیں کیا) حلاج کہتا ہے:
پیشِ او گیتی جبین فرسودہ است
خویش را خودعبدہ‘ فرمودہ است
عبدہ‘ از فہمِ تو بالا تر است
زانکہ او ہم آدم و ہم جوہراست
جوہرِ او نے عرب نے اعجم است
آدم است وہم زآدم اقدم است
عبدہ‘ صورت گرِ تقدیر ہا
اندرو ویرانہہا…تعمیر ہا
عبدہ‘ ہم جانفزا، ہم جانستان
عبدہ‘ ہم شیشہ ہم سنگِ گران
عبد دیگر، عبدہ‘ چیزے دگر
ما سراپا انتظار او منتظر
عبدہ‘ دہراست و دہر از عبدہ‘ ست
ماہمہ رنگیم، اوبے رنگ و بوست،
عبدہ‘ با ابتدا، بے انتہاست
عبدہ‘ راصبح و شامِ ما کجاست
کس زسرِّ عبدہ‘ آگاہ نیست
عبدہ جز سرِّ اِلا اللہ نیست
لا الٰہ تیغ و دمِ او عبدہ‘
فاش تر خواہی، بگو ھو عبدہ‘
عبدہ‘ چند و چگونِ کائنات،
عبدہ‘ رازِ درونِ کائنات
مدعا پیدا نگردد زین دو بیت
تا نہ بینی از مقامِ مارَمَیت!
اُس کے سامنے زمین نے اپنا ماتھا رگڑا ہے، اس نے اپنے آپ کو عبدہ‘ فرمایا ہے۔ عبدہ‘ تیرے فہم سے بالا تر ہے اس لیے کہ وہ آدم بھی ہے اور جوہر بھی۔ اس کا جوہر نہ عربی ہے نہ عجمی،…وہ آدمی بھی ہے، اور آدم سے پیش تر بھی، عبدہ‘ تقدیر کی صورت بناتا ہے، اس کے دائرۂِ فیضان میں ویرانے بھی تعمیر میں بدل جاتے ہیں۔ عبدہ‘ جانفزا بھی ہے، اور جاں ستاں(جان لینے والا) بھی، وہ شیشہ بھی ہے، اور سنگِ گراں بھی۔’عبد‘ اور چیز ہے اور عبدہ‘، اور چیز، …ہم اس کے لیے سراپا انتظار ہیں،…اور وہ منتظر ہے(یعنی جس کا انتظار کیا جا رہا ہے) عبدہ‘ دہر ہے، … اور دہر عبدہ سے ہے۔ ہم سراپا رنگ ہیں، اور وہ بے رنگ و بو ہے۔ عبدہ‘ کی ابتدا تو ہے، لیکن اس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ عبدہ کے صبح و شام ہمارے صبح و شام سے بہت مختلف ہیں۔ عبدہ‘ کے راز سے کوئی بھی آگاہ نہیں ہے۔ عبدہ الا اللہ کے بھید کے سوا اور کُچھ نہیں ہے۔ لاَ اِلٰہ اگر تلوار ہے تو عبدہ‘ اس کی دھار ہے۔ اور اگر اس سے بھی زیادہ کھلی ہوئی بات چاہتا ہے تو کَہ : وہی عبدہ‘ ہے، عبدہ‘ کائنات کا کیف و کم ہے۔ عبدہ ‘کائنات کا راز ِدرون ہے۔ اس کے باوجود ان چند شعروں سے مفہوم واقعی ظاہر نہیں ہو سکتا جب تک کہ ما رمیت اذ رمیت ولکن اللّٰہ رما (اے نبیؐ، آپ نے نہیں ماریں وہ کنکریاں جب کہ ماریں تھیں، بلکہ اللہ نے ماری تھیں)، کا مقام تری نظر میں نہ ہو۔
اس جواب کو سن کر اقبال نے ذوقِ دیدار کے تقاضوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حلاج کہتا ہے:
معنیِ دیدارِ آن آخر زمان
حکم اوبر خویشتن کردن روان
درجہان زی چون رسولؐ انس و جان
تاچون اوباشی قبولِ انس و جان
باز خود را بین، ہمیں دیدارِ اوست
سنتِ او سرِّ از اسرارِ اوست
اُس نبیِ آخر الزماںؐ کے دیدار سے مراد یہ ہے کہ تو اس کے حکم کو اپنی ذات پر نافذ کردے، تو دُنیا میں اس رسولؐ انس و جاں کی طرح زندگی بسر کر، تا کہ اسی کی طرح تو انس و جاں میں مقبول ہو جائے۔ (جب تو اس کے احکامات کو اپنے اُوپر نافذ کر چکے) تو پھر اپنے آپ کو دیکھ، یہی اس کا دیدار ہوگا، اس لیے کہ اس کی سنت بھی اس کے اسرار میں سے ایک سِرّ (بھید) ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رحمت و رأفت، اپنے مکارِم اخلاق اور اپنے اسوۂ حسنہ سے عالمِ انسانیت کو کیا کچھ عطا کیا، اس کی ایک جھلک اقبال نے ہمیں رُمُوزِ بے خودی کے ایک باب میں دکھائی ہے، اس باب کا عنوان ہے: ’’درمعنیِ ایں کہ مقصودِ رسالت محمدؐیہ تشکیل و تاسیسِ حُریت و مساوات و اخوتِ بنی نوعِ آدم است‘‘۔ اس باب کی تمہید میں اقبال کہتے ہیں کہ… انسان، اِنسان پرست تھا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ غلام و زیر دست تھا، قیصرو کسریٰ کی سطوت اس کے لیے (سفرِ حیات میں) رہزن تھی۔ اس کے ہاتھ پائوں میں غلامی کے حلقے تھے، کاہن، پادری، سلطان، بادشاہ یہ سب اس کے شکاری تھے اور وہ تنہا شکار تھا۔ بادشاہ بھی، اور کلیسا کا بوڑھا پادری بھی، اس کی کھیتی کے لیے خراج کے حکم نامے لکھتے تھے، اس ضعیف شکار کے لیے کلیسا کا جنت فروش اسقف جال بنتا تھا۔ برہمن اس کے باغ سے پھول لے جاتا تھا۔ اور مُغ زادہ اس کے خرمن کو آگ لگاتا تھا۔ غلامی سے اس کی فطرت پست ہو چکی تھی اور اس کی (فطرت کی) بانسری میں بے شمار نغمے خون ہو چکے تھے۔
تا امینے حق بحق داران سپرد
بندگان را مسندِ خاقان سپرد
شعلہ ہا از مردہ خاکستر کشاد
کوھکن را پایۂ پرویز داد
اعتبارِ کاربندان را فزود
خواجگی از کارفرمایان رلود
قوتِ او ہر کہن پیکر شکست
نوعِ انسان راحصارِ تازہ بست
تازہ جان اندر دِم آدم دمید
بندہ را باز از خداوندان خرید
زادنِ اُو مرگِ دُنیائے کُہن
مرگِ آتش خانہ و دیر و شمن
حریت زاد از ضمیرِ پاکِ اُو
ایں مَے نوشین چکید از تاکِ اُو
عصرِ نو کین صد چراغ آوردہ است
چشم در آغوشِ اُو وا کردہ است
نقشِ نَو بر صفحۂ ہستی کشید
اَمتے گیتی کشائے آفرید
اُمتے از ماسوا بیگانۂ
بر چراغِ مُصطفیٰ پروانۂ
اُمتے از گرمیِ حق سینہ تاب
ذرہ اش شمعِ حریمِ آفتاب
تب ایسا ہوا کہ ایک امین (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حق داروں کو ان کا حق دے دیا یعنی غلاموں کو خاقانوں (بادشاہوں) کی مسند عطا کر دی، اُسؐ نے ٹھنڈی راکھ سے شعلے اُٹھا دیے اور پہاڑ کاٹنے والے کو پرویز کا رُتبہ عطا کر دیا۔ اس نے کام کرنے والوں کی عزت کو بڑھا یا اور کارفرمائوں سے سرداری چھین لی۔ اُسؐ کی قوت نے ہر پرانے پیکر کو توڑ دیا، اُسؐ نے آدمیت کے گرد ایک تازہ حصار قائم کیا۔ اس نے آدم کے پیکرِ خاکی میں ایک نئی رُوح پھونک دی …اور غلاموں کو اُن کے آقائوں سے دوبارہ خرید لیا۔ اس کا ظہور دراصل پرانی دُنیا کی موت تھی، یعنی آتش کدوں اور بت کدوں کی موت، آزادی (کا تصور) اُسؐ کے ضمیرِ پاک سے پیدا ہوا۔ یہ حیات بخش شراب اُسی کے ہاں سے ٹپکی۔ عہد حاضر جو ہزاروں چراغ روشن کر لایا ہے، اس عہدِ نو نے بھی اُسؐ کے آغوشِ رحمت و حکمت میں پرورش پائی ہے۔ اُسؐ نے زندگی کے ورق پر ایک بالکل نئی تصویر کھینچ دی، اور ایک ایسی اُمت پیدا کی۔ جو زمین کی فاتح تھی، ایسی اُمت جو ماسویٰ اللہ سے بیگانہ تھی،…اور چراغِ مصطفیٰؐ کی پروانہ تھی۔ اس اُمت کا سینہ حق کی گرمی سے گرم تھا۔ اس کے ذرے کو بھی آفتاب کے گھر میں چراغ کی حیثیت حاصل تھی۔
مختصر یہ ہے کہ عشق رسولؐ کا جذبہ اقبال کے رگ و پے میں، اور اُن کی ساری زندگی کے تاروپود میں جاری تھا اور جاری و ساری رہا، … جاوید نامہ کی تکمیل کے بعد ۱۹۳۶ء میں اُنھوں نے جو دو فارسی مثنویاں لکھیں، …’’(پس چہ باید کرد اے اقومِ شرق،…اور مسافر) وہ بھی اس جذبے اور مسلسل فکری رَو کی گونج سے خالی نہیں،…’پس چہ باید کرداے اقوامِ شرق‘ کے اختتام پر اُنھوں نے اپنی نظم ’جواب شکوہ،…اور مسدسِ حالی، کے انداز میں مسلمانوں کی حالتِ زار پر آنسو بہائے ہیں، اور حضورِ رسالت مآبؐ میں اس صورتِ حال پر فریاد کی ہے۔ نظم کے اس حصے کا نام ہے ’’در حضورِ رسالت مآبؐ‘‘ اس پر ایک نوٹ بھی دیا ہے، جس کا مفہوم ہے کہ ۳ اپریل ۱۹۳۶ء کو میں دارالاقبال بھوپال میں تھا، سیّداحمد خاں کو خواب میں دیکھا اُنھوں نے فرمایا کہ اپنی بیماری کیے بارے میں حضورِ رسالت مآبؐ میں عرض کرو۔ نظم کا یہ حصہ گو یا خواب میں سر سیّداحمد خاں کے ایما کی تعمیل میں حضور رسالت مآبؐ میں ایک عرض داشت بلکہ فریاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن اس نظم میں بھی اقبال نے اپنی بیماری کے احوال کے بیان اور آرزوئے شفا پر اُمتِ مسلمہ کے احوالِ زبوں کے بیان کو مقدم رکھا ہے تاہم یہاں ہم صرف وہی اشعار نقل کرتے ہیں جنھیں نعت یا مدحت کہا جا سکتا ہے:
اے تو مابے چارگان را سازو برگ
وارہان این قوم را از ترسِ مرگ
سوختی لات و مناتِ کہنہ را
تازہ کردی کائناتِ کہنہ را
در جہانِ ذکر و فکرِ انس و جان
توصلوٰتِ صبح، تو بانگِ اذان
لذتِ سوزو سرور از لاالٰہ
در شبِ اندیشہ نُور از لااِلٰہ
نے خدا ہا ساختیم از گائوخر
نے حضورِ کاہنان افگندہ سر
نے سجودے پیش معبودانِ پیر
نے طوافِ کوشکِ سُلطان و میر
این ہمہ از لطف بے پایانِ تست
فکرِ ما پرور دۂِ احسانِ تست
ذکرِ تو سرمایۂ ذوق و سرور
قوم را دارد بہ فقر اندر غیور
اے مقام و منزلِ ہر راہرو
جذبِ تو اندر دلِ ہر راھرو
گردِ تو گردَد حریمِ کائنات
از تو خواہم یک نگاہِ التفات
اے پناہ من حریمِ کوئے تو
من بہ امیدی رمیدم سوئے تو
مہرِ تو بر عاصیان افزون تراست
در خطا بخشی چو مہرِ مادر است
با پرستارانِ شب دارم ستیز
باز روغن در چراغِ من بریز
اے وجودِ تو جہانِ نوبہار
پرتوِ خود را دریغ از من مدار
تا ز غیر اللہ ندارم، ہیچ امید
یا مرا شمشیر گردان یا کلید
گرچہ کشتِ عمرِ من بے حاصل است
چیزکے دارم کہ نامِ او دل است
دارمش پوشیدہ از چشمِ جہان
کز سُمِ شبدیزِ تو دارد نشان
اے کہ دادی کُرد را سوزِ عرب
بندۂ خود را حضورِ خود طلب!
اے وہ ہستی کہ ہم بے چاروں کے چارہ ساز اور متاعِ حیات ہیں۔ اس قوم کو خوفِ مرگ سے نجات عطا فرمائیے، آپ نے پرانے بتوں یعنی لات و منات کو جلا دیا اور پرانی دُنیا کو نیا بنا دیا، جنوں اور انسانوں کے ذکر و فکر کی دُنیا میں آپ ہی صبح کی نماز ہیں اور آپ ہی اذان کی آواز ہیں لا الٰہ ہی سے سوزو سرور کی ساری لذتیں ہیں، غم کی رات میں لا اِلٰہ ہی سے روشنی پھوٹتی ہے، ہم نے (آپ کی تعلیمات کی بدولت) نہ تو گائو، خر(جانوروں) کو اپنا خدا بنایا، نہ ہی کاہنوں اور جادوگروں کے آگے سرجھکایا۔ نہ ہم نے پرانے بتوں کے آگے سجدے کیے۔ نہ سُلطان و امیر کی کوشک کے گرد طواف کیا، لیکن یہ سب کچھ آپ ہی کے لطفِ بے پایاں سے ہے، ہماری سوچ آپ ہی کی پرور دۂ احسان ہے۔ آپ کا ذکر ذوق و سرور کا سرمایہ ہے جو آپ کی اُمت کے افراد کو فقر میں بھی غیور رکھتا ہے۔ اے وہ ہستی کہ آپ ہر راہرو کی منزل بھی ہیں اور مقام بھی، ہر مسافر کے دل میں آپ ہی کی کشش ہے، حریمِ کائنات آپ کے گرد طواف کرتا ہے، میں آپ سے صرف ایک نگاہِ التفات کا خواہاں ہوں، آپ کا کوچہ میری پناہ گاہ ہے، میں امیدِ کرم سے آپ کی طرف دوڑ کر آیا ہوں۔ گنہگاروں کے لیے آپ کی محبت کچھ زیادہ ہی ہے، خطائیں معاف کرنے میں آپ کی محبت ماں کی محبت سے بھی افزوں ہے، …میں دراصل رات (اندھیرے) کے پرستاروں (یعنی مغرب اور مغرب پرستوں) سے جنگ کر رہا ہوں، اس لیے میرے چراغ میں تھوڑا سا تیل اور ڈال دیجیے، چونکہ میں اللہ کے سوا کسی اور سے کوئی امید نہیں رکھتا، اس لیے یا مجھے تلوار بنا دیجیے یا کلید!اگرچہ میری ٍعمر کی کھیتی بے حاصل رہی ہے، لیکن میرے پاس ایک چھوٹی سی چیز ہے جسے دل کہتے ہیں، اسے میں نے دُنیا کی نظروں سے چھپا کر رکھا ہوا ہے، اس لیے کہ اس پر آپ کے گھوڑے کے سُم کا نشان ہے، اے وہ ہستی کہ آپ نے کُردوں کو بھی عربوں کا ساسوز عطا کر دیا ہے، مجھے بھی اپنے حضور میں طلب فرمائیے!
ان تمام مسلمان مفکرین کی طرح جو مختلف ادوار میں احیا و تجدیدِ رُوحِ اسلامی میں کوشاں رہے۔ اقبال کی بھی کوشش یہی رہی کہ انسانیتِ کبریٰ کے اس نصب العین کو جو رسولِ اکرمؐ کی ذاتِ گرامی میں مجسم ہوا۔ ایک دفعہ پھر مسلمانوں کے سامنے بالخصوص اور عالمِ انسانیت کے سامنے بالعموم پیش کریں۔ ان کی تمام فلسفیانہ، متصوفانہ اور مصلحانہ کاوشوں کا جوہر اصلی یہی ہے کہ صاحبِ قرآن کی عطا کردہ بصیرتوں کو عام کریں اور عصرِ حاضر کے اِنسان کو اس کی اصلی منزل سے روشناس کرائیں۔ اقبال کی انفرادیت اس میں نہیں کہ اُنھوں نے رسولِ اکرمؐ کی مدح کی۔ اُن کی انفرادیت اس میں ہے کہ اُنھوں نے مقامِ رسالت اور ہدایتِ نبوت کو جدید علوم کی روشنی میں نفسیاتی اور فلسفیانہ توجیہات کے ساتھ عصرِ نو کے درماندہ ذہن اور شکستہ و حیران دل کے سامنے پیش کیا۔ اقبال نے اپنے کلام میں با ختلافِ سیاق رسولِ اکرمؐ کو جن ناموں سے یاد کیا ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
لوح، قلم، الکتاب، آیۂِ کائنات کا معنیِ دیر یاب، جوہرے اندر وجود، مطافِ حریمِ کائنات، عبدہ، مقام و منزلِ ہرراہ رَو، صلوٰتِ صبح و بانگِ اذاں، نو بہارِ کائنات، حاملِ خلقِ عظیم، صاحبِ لولاک، سرِ اِلَّا اللہ، چند و چگونِ کائنات، رازِ درونِ کائنات، شہسوار، نُور، محیط، بصیر، بحر، آفتاب، عشق، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیّین …(صلی اللہ علیہ وسلم)
اقبال نے اپنے آخری لمحات میں جو قطعہ اپنے قریبی احباب کو سنایا۔ اس میں بھی حجاز کا لفظ موجود ہے، جو اُن کے عشقِ رسولؐ کی گواہی دی رہا ہے،…وہ قطعہ جو شہرۂِ آفاق ہو چکا ہے، اس عظیم شاعر اور محبِ رسولؐ کا آخری منظوم کلام ہے، اس لیے بار بار بڑھنے اور غور کرنے کے لائق ہے:
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سرآمد روزگارِ این فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
وہ نغمہ جو بکھر چکا، واپس آئے گا یا نہیں؟ سر زمینِ حجاز کی خنک اور مُشکبار ہوا پھر ادھر آئے گی یا نہیں؟…اس فقیر کا زمانۂ ٍعمر تو ختم ہو چکا، کوئی اور دانائے راز آئے گا…یا نہیں…؟؟
وہ سفر جو مدینے کے کبوتر کی یاد، فریادِ اُمت…اور دُوسرے نعتیہ اشعار سے شروع ہوا تھا، اس قطعے پر ختم ہوا، نواب مرزا داغ نے کہا تھا:
آغاز کو کون پوچھتا ہے
انجام اچھا ہو آدمی کا!
یہاں آغاز و انجام دونوں سعید و مسعُود رہے، ایک زندگی جو از ابتدا تا انتہا…اُمتِ مسلمہ کے غم میں محزوں اور اس کی اصلاح و ترقی کی کاوشوں میں صَرف ہوئی اور جس کے مضمُون ہی نہیں متون و جد اول پر بھی عشقِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا رنگ غالب و نقش آفریں رہا۔ اس کے سعید و مبارک ہونے میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے۔
///
حواشی
۱- بحوالہ بشریٰ، عنایت رسول چریا کوٹی، ص ۱۹،۲۰،۲۱۔
۲- ایضاً، ص ۲۵۔
۳- ایضاً، ص ۱۰۶، ۱۰۷۔
۴- تاج۔
۵- علامہ قاضی سلمان منصور پوری: رحمۃ للعالمین، جلدا، ص ۴۱ (بحوالہ ابو الفدائ، ص ۱۱۰)۔
۶- الملل والنحل لشھر ستانی (م ۵۴۸ھ)۔
۷- اقبال نامہ، مقالہ از مولانا عبدالمجید سالک۔
۸- ملفوظاتِ اقبال۔
۹- یہی وہ خیال ہے جس کی تشریح اقبال نے کئی سال بعد اپنے خطبات میں جا بجا علمی بنیادوں پر کی، اور جو اسلام کے علمی منہاج کے بارے میں عصرِ حاضر کے علمی انکشافات کی بنیاد بن گیا۔
۱۰- اخبارِ وطن، لاہور۔ جلد ۵ نمبر۳۹، اکتوبر ۱۹۰۵ئ۷۔
۱۱- عربی شعر و ادب میں نعت کے میدان میں حضرت حسان بن ثابتؓ کے بعد جس شاعر کو سب سے زیادہ شہرت و مقبولیت ملی وہ حضرامام محمد بن سعید بو صیری ہیں جو عام طور پر امام بوصیری کے نام سے جانے جاتے ہیں، یکم شوال ۶۰۸ھ مطابق ۷ مارچ ۱۲۱۳ء کو مصر کے ایک قصبہ ولاص میں پیدا ہوئے، سلسلۂ نسب مشہور بربر قبیلہ صنہاجہ تک پہنچتا ہے، کنیت ابو عبداللہ، خاندان کی نسبت سے صنہاجی، مقامِ ولادت کی نسبت سے دُلاصی اور مقامِ سکونت کے حوالے سے بوصیری کہلاتے ہیں، تمام ائمہ فن نے ان کے کمالِ فن کا اعتراف کیا ہے، اس عہد کے بزرگ اور نامور مصری صوفی حضرت ابوالعباس احمد المرسی (م۶۸۶ھ) کے مرید تھے، کہا جاتا ہے کہ ان کے کلام میں جو سوز و گداز ہے وہ حضرت المرسی کا فیضانِ نظر ہے۔ اُنھیں حضرت حسان بن ثابتؓ کے بعد عربی زبان کا سب سے بڑا نعت گو تسلیم کیا گیا ہے۔
۱۳- کعب بن زہیر: زمانۂ جاہلیت کے ایک نامور اور بلند پایہ شاعر زہیر بن ابی سُلمیٰ مُزنی کے بیٹے تھے، زہیر اس پائے کا شاعر تھا کہ اس کا ایک قصیدہ سبع معلقات میں شامل ہے، کعبؓ نے ایک بار اشعار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجوکہی، جس پر آنحضرتؐ نے اُن کا خون رواقرار دے دیا۔ اور لوگ اُن کے قتل کے درپے رہنے لگے، ان کے بھائی بجیرؓ نے جو مسلمان ہو گئے تھے، اُنھیں توبہ کی تلقین کی، لیکن یہ نہ مانے، آخر تمام دوستوں کی حمایت سے مایوس ہو کر حضرت ابو بکر صدیقؓ کے توسط سے آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مشہور ’قصیدۂ لامیہ‘ جو بَا نَت سُعاد کے الفاظ سے شروع ہوتا ہے پیش کیا، آنحضرتؐ نے نہ صرف اُنھیں معاف کر دیا، بلکہ اپنی چادر بھی عطا فرمائی اس ’لامیہ‘ کا مطلع، جو عاشقانہ تشبیب کا آغاز ہے، یہ ہے:
بانت سعاد و قلبی الیوم متبول
متیتم ئِ شرھا لم یُغدَ مکبول
’’سُعاد (محبوبہ کا نام) جُدا ہو گئی ہے، اس صدمے سے آج میرا دل محزوں ہے، اس کی محبت میں میرا دل اس قیدی کی طرح ہے جس کا کسی نے فدیہ ادا نہ کیا ہو اور وہ زنجیروں سے جکڑا ہوا ہو‘‘۔ یہ قصیدہ ہر دَور میں معروف اور متداول رہا ہے، کئی بانوں میں اس کے تراجم ہوئے ہیں اور کئی شرحیں لکھی گئی ہیں، یورپ کی کئی زبانوں میں بھی اس کے تراجم اور شرحیں موجود ہیں۔ اس قصیدۂ نعت کے صلے میں کعبؓ کو دربارِ رسالت مآبؐ سے جو چادر عطا ہوئی وہ اُن کے خاندان میں رہی، یہاں تک کہ امیر معاویہؓ نے چالیس ہزار درہم کے عوض اسے خرید لیا، پھر یہ چادر عہد بعہد اموی اور عباسی خلفا کے پاس رہی یہاں تک کہ خلفائے عثمانی کی ملکیت میں آ ئی۔ زہیر بن ابی سُلمیٰ( کعبؓ کا والد) جاہلی شعر ا میں اتنا ممتاز تھا کہ بعض لوگ اسے امراء القیس سے بھی بڑا شاعر قرار دیتے ہیں، حضرت ٍعمر فاروقؓ نے ایک بار زہیر کے ایک ممدوح کے ایک لڑکے سے کہا تھا: ’’اپنے باپ کی تعریف میں زہیر کے کچھ اشعار سنائو‘‘۔ اشعار سننے کے بعد حضرت عمرؓ نے کہا: تم نے اسے جو کچھ دیا تھا وہ تو ختم ہو چکا، اس نے جو کُچھ تم کو دیا، وہ ابھی باقی ہے‘‘۔ زہیر دولت مند ہونے کے باوجود بے حد خوش اخلاق، نرم خو، متحمل مزاج، صائب الرائے، پاک باز، صُلح پسند تھا اور خدا وندِ قدوس اور روزِ جزا پر مکمل طور پر ایمان رکھتا تھا۔ زہیر کا باپ، وہ خود، اس کی دونوں بہنیں سلمیٰ اور خنساء اور دونوں لڑکے کعبؓ اور بجیرؓ سب عر ب کے قابلِ ذکر شعرا تھے۔
۱۴- کلیاتِ بیدل، جلد سوم۔ مطبوعہ، پوہنی وزارت، کابل، ۱۳۴۲۔
۱۵- ان اصطلاحات و مباحث کے سلسلے میں شیخ اکبر کی تصنیفات (مثلاً فتوحاتِ مکیہ و فصوص الحکم) کے علاوہ حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات، مولانا محمد قاسم نانوتوی کی تصنیفات (بالخصوص آبِ حیات) سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ نیز اس سلسلے میں شیخ تاج الدین محمود کی کتاب غایۃ الامکان فی معرفۃ الزمان و المکان اور عین القضاۃ ہمدانی کی کتاب غایۃ الامکان فی درایۃ المکان کا مطالعہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
15- Universal Time.
16- Temporal Time.
17- Aboslute Time.
18- Subjective.