کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
فنونِ ادب میں شاعری کی ہمہ گیر تاثیر کو ہر عہد میں تسلیم کیا گیا ہے، شاعروں نے انفرادی اور اجتماعی زندگی پر بعض حیرت انگیز اثرات مرتب کیے ہیں، اسی لیے شاعروں کو انسانی تمدن کے معماروں میں شامل کیا جاتا ہے، اثرانگیزی کے اعتبار سے شاعری کو بعض صورتوں میں موسیقی پر بھی فوقیت حاصل ہے، موسیقی کا اثر کیفیات تک محدود ہے، شاعری انسانی زندگی میں جس نوع کے تحولات پیدا کرنے پر قادر ہے، اس کی کوئی مثال موسیقی کی تاریخ میں شاذ ہی ملے گی، شاعری انسان کے فکر، جذبے اور تخیل کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہے اور بعض اوقات غیرمعمولی محرکِ عمل کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے، دُنیا کے تمام بڑے شاعروں نے اپنے عہد کو کسی نہ کسی طرح ضرور متاثر کیا ہے، شاعری کی فوری اثرانگیزی کی جو مثالیں تاریخ میں محفوظ رہی ہیں، تاثیرِ شعرکے ثبوت میں بہت کافی ہیں، مثلاً امیر نصر بن احمد سامانی کارددکی کے اشعار سے متاثر ہو کر اپنے وطن بخارا کی محبت میں بے قرار ہوجانا اور عرب شاعر میمون بن قیس کے کلام کا لوگوں کے لیے شہرت یا رسوائی کا باعث ہونا وغیرہ، لیکن بلند پایہ شاعری کے اثرات اس سے کہیں زیادہ دیرپا اور دوررس ثابت ہوتے ہیں، فردوسی، سعدی، رُومی اور حافظ کئی صدیوں سے اہلِ مشرق کے دلوں پرحکمرانی کررہے ہیں، بقولِ کارلائل- اطالوی شاعر ڈانٹے نے اپنے شعری شاہکار ’’طربیۂ ایزدی‘‘ کے ذریعے عیسویت کی گیارہ گنگ اور بے زبان صدیوں کو زبان بخش دی۔ اکثر بڑے شعرا نے اپنے فکروتخیل اور حسنِ کلام کی بدولت انسانوں کے اذواق و اشواق کے ساتھ ساتھ فکروفن کے معائیر کو بھی متاثر کیا، نظامی عروضی سمرقندی نے شاعری کی جو تعریف وضع کی ہے، اس کی رُو سے شاعری اُن مقدماتِ موہومہ (متخیّلہ) سے عبارت ہے، جن کے ذریعے چھوٹی چیز کو بڑا، اور بڑی چیز کو چھوٹا، اور اسی طرح خوب کو زشت اور زشت کو خوب دکھایا جاسکتا ہے، اسی لیے شاعری دُنیا میں بڑے بڑے اُمور کے وجود میں آنے کا سبب بن جاتی ہے ( واُمورِ عظام رادر نظامِ عالم سبب شود۱؎) مشرق کے علمائے شاعری میں نظام عروضی سمرقندی پہلا نقاد ہے جس نے ’’نظامِ عالم‘‘ میں ’’اُمورِ عظام‘‘ کے اسباب میں شاعری کو بھی شامل کیا ہے، لیکن اس کی نظر میں بھی شاعری کے فوری اثرات ہیں جو قصیدہ گو شعرا بادشاہوں کی طبائع پر اپنی بدیہہ گوئی اور لطفِ کلام سے پیدا کردکھاتے تھے، البتہ بعض متقدمین نے عرب قبائل کی اجتماعی زندگی میں شاعر کی اہمیت اور تاثیر کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔۲؎ لیکن شاعری کی تاثیراتِ معنوی کو آج کے علوم و انتقاد کی روشنی میں زیادہ صراحت اور قطعیت کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے، شاعری تہذیبوں کے باطن کی رُونمائی ہے، یہ فرد کے باطن میں اجتمای لاشعور کی کارفرمائی ہے، یہ عکسِ حیات و نقدِ حیات ہی نہیں تخلیقِ حیات بھی ہے، اسی لیے تاریخِ انسانی کے بعض عظیم تحولات کے پس منظر میں دوسرے بڑے عوامل کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کارفرما نظرآتی ہے، بیشک شاعری نے انقلاب برپا کر دکھائے ہیں، لیکن دُنیا میں بہت کم شعرا ایسے گزرے ہیں جنھیں ہم… شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی طرح صحیح معنوں میں ’عہد آفریں‘ کَہ سکیں۔
یوں تو دُنیا کے اکثر بڑے شعرا اپنے عہد کی زندگی پر اثر انداز ہوئے ہیں، لیکن شعرِ اقبال نے بیسویں صدی میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر جو گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عصرِحاضر کے مسلمانوں کی ہیئتِ اجتماعیہ کی تشکیل میں جو اہم بنیادی کردار اداکیا ہے۔ اس کی مثالیں نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں، اقبال کے فکروفن نے تاریخ، سیاست اور ادب پر یکساں طور پر اثرات چھوڑے ہیں، اُنھوں نے اُردو شاعری میں ایک ایسی روش اختیار کی جس کی کوئی مثال اس سے پہلے موجود نہیں تھی، اُنھوں نے شاعری میں تاریخی شعور کو شامل کرکے زندگی اور شاعری دونوں کے آفاق کو حیرت انگیز طور پر وسیع کیا، اُنھوں نے اُردو شاعری کو اس رفعت وشکوہ سے آشنا کیا جو دُنیا کی بہت کم زبانوں کے حصے میں آسکے ہوں گے، اُنھوں نے اُردو نظم و غزل پر فکر، خیال، جذبے اور اظہار کے یکسر نئے ابواب وا کردیے، وہ اپنے ساتھ ایک نیا طرزِ فکر اور نیا طرزِ احساس لائے، اس فکر واحساس کی جڑیں تو ماضی کی علمی، ادبی اور تہذیبی روایات میں تھیں، لیکن اس کا دامن زندگی کے نئے سے نئے تجربے کے لیے وا تھا، اقبال نے اُردو شاعری کی لفظیات میں ایک عظیم تغیر پیدا کردیا، اور شعری معنویت کے رشتے عصری حقائق اور تاریخ و تہذیب کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ استوار کردیے، اُنھوں نے شاعری کو فلسفہ اور فلسفے کو زندگی عطا کی اور مغربی افکار کے مقابلے میں مشرقی فکر کے حیات بخش عناصر کو اس طرح نمایاں کیا کہ اس سے مشرق اور مغرب دونوں کو نئی روشنی میسر آسکے۔ اُنھوں نے شاعری کو استدلال دیا اور استدلال کو منطق کے بے جان کلیوں سے نکال کر زندگی کی حقیقتوں کے قریب لے آئے، شعری معنویت کے جن نئے امکانات کو اُنھوں نے اپنی شاعری میں منکشف کیا، وہ صرف اُردو شاعری ہی نہیں، پوری دُنیائے ادب میں کم نظیر ہیں، اقبال نے مشرقی ادب کی تاریخ میں شاید پہلی بار یہ تصورِ شعر پیش کیا کہ شاعری مقصود بالذات نہیں، بلکہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مقاصدِ عالیہ کی تشریح و تکمیل کا ایک مؤثر ذریعہ ہے…لیکن شاعری کو ایک وسیلہ یا ذریعہ قرار دینے کے باوجود اُنھوں نے شاعری کو فکروتخیل اور اُسلوبِ بیان کی جن بلندیوں سے آشنا کیا، اُنھیں اُردو شاعری میں یکسر ایک نئے جہانِ معنی کے انکشاف کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے۔ اُن کی شاعری کی اشاعت کے ساتھ ہی اُردو شاعری اور برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں بنیادی اور اُصولی تبدیلیاں رُونما ہونا شروع ہوگئیں، وہ ایک نئے جہانِ معنی کے پردہ کشا اور ایک نئے آہنگِ شاعری کے عَلم بردار تھے، اُنھوں نے اُردو شاعری کو فکروخیال اور اُسلوب و آہنگ کی اس بلندی سے مالامال کیا جسے صدیوں پہلے ایک رُومی نقاد لان جائی نس (longinus) نے ’’ارفعیت‘‘ (sublimity) سے تعبیر کیا تھا۔ اس ارفعیت نے شعروادب کو نئی جہتیں عطا کیں اور برِصغیر کے مسلمانوں کو ایک نیا تاریخی، علمی، انسانیاتی، تخلیقی اور سیاسی شعور عطا کیا، اُنھوں نے شاعری کو ایک ایسی علمی جہت عطا کی جو کلیتہً کم نظیر تھی، اُنھوں نے ثابت کردیا کہ عصرِحاضر میں ایک بہت وسیع اور رچے ہوئے علمی شعور کے بغیر بلندپایہ شاعری وجود میں نہیں آسکتی۔ اُنھوں نے شاعری کو علم کی وسعت کے ساتھ مشروط کردیا اور عصرِحاضر کی علمی صداقتوں کو اس فنی شعور کے ساتھ شاعری میں لے آئے کہ علم وفنون کے درمیان کوئی فاصلہ باقی نہ رہا۔ چھٹی صدی ہجری میں صاحبِ چہار مقالہ نے شاعری کو ’نظامِ عالم‘ میں جن ’اُمورِ عظام‘ کا سبب قرار دیا تھا وہ چودھویں صدی ہجری میں اقبال کی شاعری کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے۔
اقبال نے شاعری کی زبان کو بالخصوص اور علم و ادب کی زبان کو بالعموم ایک نئی تبدیلی سے روشناس کیا۔ اُردو زبان کو علمی طور پر جو قوت سرسیّداور اُن کے رفقائے نے عطا کی تھی، شاعری میں اس کا اثر ابھی اتنا نمایاں نہیں تھا۔ اگرچہ مولانا حالی نے شاعری کی زبان کو بہت حد تبدیل کیا، لیکن حالی کی زبان مجموعی طور پر کسی نئی لسانی تشکیل کے مترادف نہیں تھی۔ اقبال نے زبان میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت کا احساس پیدا کیا۔ اور اپنی شاعری کے ذریعے ایک ایسی شعری زبان تخلیق کی جو مستقبل کی علمی اور ادبی ضرورتوں کے علاوہ معاشرتی اور عمرانی تبدیلیوں کا ساتھ بھی دے سکتی تھی۔ اقبال نے اپنی لسانی تشکیل کی بنیاد محاورے اور قدیم تلازمات کی بجائے… زبان کے فطری عمل پر رکھی۔ اس نئی شاعرانہ زبان میں محسوسات اور خیالات (مجردات) کے ساتھ ساتھ خارجی حقائق کو بیان کرنے کی بھی پوری پوری صلاحیت تھی، اس کے باوجود یہ زبان علم و ادب کی قدیم روایات سے یکسر منقطع نہیں تھی۔ عصرِحاضر کی تمام بڑی شعری تحریکات میں اقبال کے اثر کو کسی نہ کسی صورت میں ضرور کارفرما دیکھا جاسکتا ہے۔
اقبال سے پیشتر اُردو میں بلندپایہ شاعری کے تمام تر اجزا غزل ہی میں ملتے ہیں۔ اقبال کے شاعرانہ نبوغ نے نظم کو غزل کے علاوہ دوسری تمام شعری اصناف کا ہم پلہ بنا دیا۔ اگرچہ اُردو نظم اقبال سے پہلے وجود میں آچکی تھی لیکن poem کے معنوں میں نظم کا جدید تصور اتنا واضح نہیں ہوا تھا۔ بلکہ نظم اپنی ہیئتوں سے پہچانی جاتی تھی، مثلاً قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، ترکیب بند، ترجیع بند، مسدس، مخمس، رُباعی اور قطعہ وغیرہ، البتہ قدیم شاعروں میں نظیراکبرآبادی ضرور ایک ایسے شاعری ہیں جو اِن تمام ہیئتوں کو نظم یا poem کے جدید تصور کے قریب لے آئے تھے، اسی لیے ان کی نظموں میں اصل اہمیت ہیئت کی نہیں بلکہ موضوع اور اس سے متعلقہ جذبات و احساسات کی ہے، یعنی نظیر کی نظم کے مختلف النوع اجزا میں ایک ایسی تعمیراتی وحدت ضرور پیدا ہوجاتی ہے جو نظم کا اصل فنی تقاضا ہے… یہی وجہ ہے کہ سودا کے قصائد یا میر حسن کی مثنویات کو ان معنوں میں نظم نہیں کیا جاسکتا جن معنوں میں نظیر کی نظمیں، نظمیں کہلاتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اُردو میں نظم کے جدید یا مغربی تصور کو رائج کرنے کا سہرا حالی اور آزاد کے سر ہے، جنھوں نے انجمنِ پنجاب کے زیراہتمام جدید مشاعروں کی بنیاد ڈالی، ان مشاعروں نے جدید نظم گوئی کے رجحان کو جس پرجوش ادبی تحریک کی صورت دے دی، اس کی رُوحِ رواں خود حالی اور آزاد تھے، جنھیں ہرحال میں جدید نظم کے اوّلیں معمار تسلیم کیا جانا چاہیے۔ حالی اور آزاد نے جدید نظم کو اس کا ابتدائی فنی تصور دیا، اس ابتدائی فنی تصور میں نظم کے لیے موزوں ترین ہیئت مثنوی ہی کو خیال کیا گیا… لیکن اقبال کی شاعری نے اُردو نظم کی دُنیا میں ایک حقیقی انقلاب برپا کردیا۔ جس طرح مرزا غالب نے اُردو غزل کو آفاقی شاعری کا لب ولہجہ عطا کیا تھا، اسی طرح اقبال نے بھی بیک جست اُردو نظم کو دُنیا کی بلندپایہ شاعری کا ہم عنان وہم زبان بنا دیا، اس کارنامے میں اُردو کا کوئی اور شاعر اُن کا شریک نہیں ہے، اُردو نظم جو ابھی یک رُخی، سادہ اور نقشِ معریّٰ تھی، اقبال کے ہاتھوں پہلودار، پیچیدہ اور رنگین بن گئی۔ اقبال نے نظم کو بیانِ واقعہ کی سادہ اور مستقیم صورتِ حال سے نکال کر اسے جذبے اور تخیل کی پیچیدہ تر صورتِ حال سے آشنا کیا اور نظم کے اجزا کو فنی تَہ داری کے ساتھ سہ ابعادی بنادیا۔ نظم جو اقبال سے پیشتر ایک حرفِ سادہ تھی۔ اقبال کے جوہرِ تخلیق کی بدولت ایک ایسا نغمہ بن گئی جس میں حیات و کائنات کی کئی صداقتوں کو سمودیا گیا تھا۔ اقبال نے نظم کو خطِ مستقیم کا مسافر ہونے کی بجائے نغماتی تحرک اور آہنگ کے خم و پیچ سے آشنا کیا۔ اور نظم کو ایک بیج کی طرح نقطۂ آغاز سے بڑھنا اور پھلنا پھولنا سکھایا، اُردو نظم پہلی بار اقبال ہی کے ہاں ایک نامیاتی وحدت کے طور پر رُونما ہوئی جس میں تعمیراتی وحدت کا حسن بھی موجود ہے۔ اقبال سے پہلے کی نظم، وہ جو کچھ بھی تھی، صرف خارج کی ترجمان تھی اور شاعری کی لطافت اور وسعت سے بہت حد تک عاری تھی، اقبال نے اسے خارج کے ساتھ ساتھ داخل کی دُنیا سے بھی آشنا کیا اور اسے ان شعری لطافتوں سے بھی مالامال کیا جن کے بغیر شاعری، شاعری کہلانے کی حق دار نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح اقبال نے نظم کو ایک ایسا ڈکشن عطا کیا جو اگرچہ بہت حد تک روایت کے ذخیروں سے مستفاد تھا تاہم وہ بحیثیتِ مجموعی زندگی کی نئی حقیقتوں کی ترجمانی کی صلاحیت بھی رکھتا تھا اور ایک نئے طرزِ احساس کا حامل تھا… یہی وہ حقیقت ہے جسے اقبال کے اوّلیں مبصر سرعبدالقادر نے اُن کی اوّلیں مقبول نظم ’ہمالہ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’اس میںانگریزی خیالات تھے اور فارسی بندشیں۔‘‘ انگریزی خیالات سے مراد مغربی افکار نہیں بلکہ ایک نیا طرزِ احساس ہے جو وجود میں نہ آتا اگر اقبال مغربی افکار اور انگریزی شاعری کی اسالیب سے متعارف نہ ہوتے۔ اقبال کے زیراثر اُردو نظم نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہمہ گیر ادبی تحریک کی صورت اختیار کرلی۔ نظم گوئی اور نظم نگاری کی جو متنوع صورتیں جوش ملیح آبادی، سیماب اکبرآبادی، ساغرنظامی، اختر شیرانی، احسان دانش اور اس عہد کے دوسرے شعرا کے ہاں نمودار ہوئیں اور ان سب کا رشتہ کسی نہ کسی شکل میں اقبال کے فنِ نظم سے جا ملتا ہے۔ اگرچہ نظم کے لیے مسدّس کی ہیئت کا احیا مولانا حالی نے کیا، لیکن یہ اقبال کی نظمیں ’شکوہ‘ اور ’جوابِ شکوہ‘ تھیں جن کی حیران کن مقبولیت نے مسدّس کو نظم کی ایک مصدقہ ہیئت بنا دیا تھا۔ اسی طرح اقبال نے نظم کو جو رفعتِ خیال اور لہجے کا شکوہ عطا کیا تھا، اس نے بھی نظم کے لیے ایک مروّجہ اور معیاری لہجے کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔ گویا اقبال نے اُردو نظم میں ایک پورے عہد کو جنم دیا۔ اور اُردو نظم کی تاریخ پر بہت گہرے اور دوررَس اثرات مرتب کیے۔ لیکن نظم کے عناصرِ ترکیبی میں جلال و جمال اور فکرو غنائیت کا جو خوبصورت امتزاج اقبال نے پیدا کیا، اس کی تقلید ایسی آسان نہ تھی، لیکن اقبال کے اثرات اس کے باوجود ہمہ گیر تھے، اور ان اثرات کی یہی ہمہ گیری تھی جس نے اقبال کے طرز کو واضح طور پر ایک دبستان نہ بننے دیا، وگرنہ جدید شاعری پر ان کے اثرات کا تجزیہ کیاجائے تو بیسویں صدی کی اُردو شاعری کا ایک معتدبہ حصہ ’دبستانِ اقبال‘ کی شاعری کہلانے کا مستحق ہے۔
کچھ ایسی ہی قلبِ ماہیت اقبال نے اُردو غزل کی بھی کی، جس کی تاریخ نظم کی تاریخ سے کہیں طویل اور تَہ دار تھی۔ غزل جس کی رمزیات کے رشتے ہمارے تمدن کی تاریخ میں بہت دور تک پھیلے ہوئے ہیں، دُنیا کی ایک انوکھی اور منفرد طرزِ شاعری ہے جس میں الفاظ لازمی طور پر تَہ دار معنویت کے حامل ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تلازمانی رشتوں میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ غزل کی اشاریت و رمزیت اور غنائیت و لطافت نے اسے ہر عہد کی مقبول ترین صنفِ سخن بنائے رکھا ہے، اس صنفِ شاعری میں، جس میں عمومیت کے امکانات ہر حال میں موجود رہتے ہیں، ایک انفرادی لب ولہجہ ہی نہیں بلکہ ایک نیا اُسلوب پیدا کرنا غیرمعمولی شاعرانہ صلاحیت کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ اقبال نے غزل میں ابتدائی طور پر جس شاعر سے اثر قبول کیا، اس کے اُسلوب کا طرۂ امتیاز ہی زبان تھا، یعنی داغ… جو لہجے کی کاٹ اور زبان کے معاشرتی اطلاقات کے اعتبار سے اپنے استاد ذوق سے بھی کچھ آگے ہی نظر آتے ہیں، اقبال نے آغاز میں اپنے استاد ہی کے لسانی دبستان کی پیروی کی، لیکن اُن کی ابتدائی غزلیں، جن پر روائتی غزل اور داغ کی زبان کا رنگ نمایاں ہے، اس حقیقت کی طرف ضرور اشارہ کرتی ہیں کہ اقبال زبان کے روائتی سانچوں کو نئی اطلاقی صورتوں میں برتنے کے خواہاں ہیں داغ سے اُنھوں نے زبان پر ماہرانہ گرفت حاصل کرنے کا ہنر ضرور سیکھا، اور وہ ارتجال و بداہت (spontaniety) جو داغ کی شاعری میں روانی پیدا کرتی ہے، اقبال کے ہاں اُسلوبِ بیان پر کامل گرفت کی صورت اختیار کر گئی۔ لیکن اقبال کی یہ کامل گرفت صناعانہ سے زیادہ خلاقانہ ہے جس کی بدولت اُنھوں نے اُردو غزل کو ایک نیا انبساط، ایک نئی وسعتِ خیال اور فکر کی ایک نئی جہت عطا کی۔ اس نئے اُسلوبِ غزل میں، جو اقبال کی اختراعی صلاحیتوں کا رہینِ منت ہے، اقبال نے غزل کے تمام اشارات اور رُموز و علائم کی ماہیت کو بدل کر رکھ دیا۔ غزل کا من و تو، جو صرف عاشق و معشوق کی طرف اشارہ کرتا تھا، نئی سے نئی انسانی صداقتوں کا آئینہ دار بن گیا۔ غزل کا ’میں‘ (من) جو صرف ایک ناکام عاشق تھا، اقبال کی غزل میں عشقِ جلیل کا نمائندہ ہونے کے ساتھ ساتھ عصرِحاضر کا انسان بن گیا جو کائنات کے حسن کا معترف بھی ہے اور اس کی قوتوں کا حریفِ بے باک بھی۔ یہ ’میں‘ وہ ہے جو آدم اور ابن آدم دونوں کی نمائندگی کا حق ادا کرتا ہے۔ یہ ’میں‘ مشرق کی انا بھی ہے، اور اسلامی تمدن کا نفسِ ناطقہ بھی۔ اسی واحد متکلم میں مشرق و مغرب کے انسان کی درماندگیاں بھی سمٹ آئی ہیں اور نوعِ انسانی کے تخلیقی امکانات بھی۔ واحد متکلم کے مطالب کی یہی بوقلمونی اور وسعت ہے جو اقبال کی غزل کو عصرِحاضر کے انسان کا نغمۂِ تخلیق بنا دیتی ہے۔ اقبال نے غزل کو ایک نئی جغرافیائی دُنیا عطا کی، جس کی وسعتوں میں کوہ الوند و کوہِ دماوند سے لے کر ساحلِ نیل و خاکِ کاشغر سمٹے ہوئے ہیں۔ یہ دُنیا بیک وقت اسلامی مشرق کی دُنیا بھی ہے، اور عصرِحاضر کے انسان کی رزم گاہِ فکروتخیل بھی۔ اقبال نے غزل کو دائروں میں تکرار کرتی ہوئی زبان کی بجائے ایک ایسی زبان دی جو آگے کی طرف پھیلتی اور حرکت کرتی ہے، خیال کی اس پیش قدمی (progression) نے غزل کی زبان کی قدیم گچھے دار صورتوں کو توڑ کر شعری زبان کا ایک نیا سانچہ تیار کیا۔ اقبال نے غزل میں الفاظ کی مرتکز تَہ داری (concentrated centrality) کی بجائے الفاظ کی نامیاتی پیش رفت (progressive organic growth) کو اہمیت دی، اور یوں اُردو غزل کو لسانی اور فکری پھیلائو کی نادر فنی صورتیں میسر آئیں۔ اقبال نے اُردو غزل کو لہجے کی تازگی، فکر کی بلندی، جذبے کی سچائی اور خارجی کائنات سے ایک نئی نسبت عطا کی، اُردو غزل جو اپنے تکراری پیمانوں کی بدولت ایک جوئے تنک آب بن کر رَہ گئی تھی اور جس میں عشق و عاشقی کے فرسودہ کھیل اور بے مایہ صوفیت کے سوا کچھ باقی نہیں رہا تھا، اقبال کی بدولت ایک دریائے تندوتیز بنی، جس نے عصرِحاضر کی تمام صداقتوں کو سینے سے لگایا اور اُنھیں ایک نئے نظامِ علائم میں منتقل کردیا۔
ایلیٹ نے کہا ہے کہ ہر بڑا شاعر ناگزیر طور پر اپنے لیے ایک نیا اُسلوب شاعری تخلیق کرتا ہے جو اس کی تخلیقی واردات کو بیان کرسکے، یوں شاعری میں ایک نئے معیار اور شاعری کی تعریف میں ایک نئے عنصر کا اضافہ ہوتا ہے اور ہمیں (یعنی نقادوں کو) شاعری کے مجموعی تصور میں تبدیلی اور شاعری کی تنقید کے معائیر میں ردّوبدل کرنا پڑتا ہے۔ اُردو شاعری میں غالب اور اقبال نے یقینا ایسا ہی کیا، اُنھوں نے اپنے لیے نئے اسالیبِ شاعری کی تخلیق کی، اُردو شاعری کے مروّجہ اسالیب و تصورات کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا… جب اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز کیا تو اُردو میں حالی اور آزاد کی بدولت قومی اور فطرت پسندی کی شاعری وجود میں آچکی تھی۔ اس روایت کو آگے بڑھا کر عظیم آفاقی شاعری کی وسعتوں اور عظمتوں سے آشنا کرنا ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس کے لیے اقبال جیسے خلاق شاعر کا فکروتخیل درکار تھا، جس میں زندگی کی بڑی سے بڑی صداقت بھی آسانی کے ساتھ طرزِ جلیل کی بلاغت اور شاعرانہ لطافت و نغمگی کے سانچے میں ڈھل جائے۔ اقبال نے اُردو شاعری کو زبان و بیان اور فکروتخیل کے اعتبار سے جو کچھ دیا، اس کی بدولت پوری اُردو شاعری دوحصوں میں منقسم نظر آتی ہے، ایک وہ جو اقبال سے پہلے تھی اور ایک وہ جو اقبال کے بعد صورت پذیر ہوئی۔
فکرِ مجرد کو شاعری سے ہمیشہ بُعد رہا ہے، اس لیے کہ فکرِ مجرد اپنی مصدقہ صورتوں کو منطق کے سانچوں میں ظاہر کرتی ہے۔ جب کہ شاعری تخیل کی آزاد پرواز سے وجود دمیں آتی ہے، اسی لیے شاعری کی ابتدائی تعریفوں میں فکر (thought) کو شاعری کے عناصرِترکیبی میں شامل نہیں کیا گیا۔ اگر فکروتخیل کی اس لفظی نزاع سے قطعِ نظر کرلیا جائے۔ اور ان میں بُعدالمشرقین تسلیم کرنے پر زور نہ دیا جائے تو اس حقیقت کو پہچاننے میں زیادہ دقت پیش نہیں آسکتی کہ شاعری بھی فکر کا ایک منفرد اُسلوب یا سانچہ ہے، جو منطق سے مختلف ضرور ہے، لیکن منطق اور اس شاعرانہ تفکر میں ضدین کا رشتہ نہیں، بلکہ ایک ہی قوت کے اظہار کے دو مختلف پیرائے ہیں البتہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کسی کو تأمل نہیں ہوسکتا کہ منطق فکر کی تنظیم ہے اور شاعری فکر کی تخلیقی حرکت ہے۔ بہرحال فلسفہ (جو فکر کے منطقی لوازمات سے مشروط ہے) اور شاعری کو کبھی ایک نہیں سمجھا گیا یہ اور بات ہے کہ دُنیا کی عظیم شاعری کا ایک بہت بڑا حصہ فلسفیانہ فکر کی دولت سے مالامال ہے، اس کے باوجود اگر ہم دُنیا کے بڑے شاعروں کو فلسفی یا مفکر کہیں تو یہ زیادہ تر مجازاً ہوگا حقیقتاً نہیں، جب کہ اقبال دُنیا کے وہ منفرد شاعر ہیں جو فی الحقیقت ایک مفکر بھی ہیں اور اُنھوں نے فلسفے کے فکرِبارد کو جس طرح شاعری کے تخیلِ رنگیں اور جذبۂ گرم کے ساتھ پیوند کیا ہے، اس کی صورت عالمی ادب میں صرف جرمن شاعر گوئٹے یا اقبال کے عظیم پیش رَو غالب کے ہاں نظرآتی ہے (اقبال نے غالب اور گوئٹے کی مشابہتوں پر خود بھی بہت زور دیا ہے)،… البتہ غالب کے برعکس اقبال کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ (اقبال) فلسفیانہ افکار کو تمثیل اور استعارے کی بجائے راست انداز میں بھی بیان کرنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کے ہاں تمثیل و استعارے کا پردہ موجود نہیں، بلکہ وہ جب چاہتے ہیں تمثیل و استعارہ کو چھوڑ کر راست اندازِ بیان اختیار کرلیتے ہیں، اور اس کے باوجود ان کے ہاں شعریت کی سطح برقرار رہتی ہے۔ اقبال کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُنھوں نے اُردو شاعری کے اجزائے ترکیبی میں سنجیدہ تفکر کا اضافہ کیا اور میتھیو آرنلڈ کے الفاظ میں شاعری کو نقدِ حیات کا ذریعہ بنایا۔ تنقیدِ حیات اور سنجیدہ تفکر کی اس خوبی نے اقبال کو بیک وقت ایک عظیم شاعر، ایک عظیم مفکر، تہذیب و تمدن کا ایک نقاد اور ایک معلمِ حیات بنا دیا۔
اگر تاریخِ فلسفہ کے مغربی مؤلفین اور مؤرخین کے معیارِ تدوین کو آخری اور قطعی نہ سمجھا جائے تو اقبال کو جدید فلسفے کی تاریخ میں بھی ایک ہم مقام ملنا چاہیے۔ یہ ایک ناخوشگوار حقیقت ہے کہ تاریخِ فلسفہ کے مغربی مؤلفین نے مسلمان مفکرین کے افکار کو انسانی فکر کی تاریخ کا حصہ کبھی نہ سمجھا۔ وہ سٹوری آف فلاسفی کے مصنف وِل ڈیوارنٹ ہوں یا تاریخِ فلسفہ کے مؤلف اسٹیس، مسلمان فلسفیوں کے خیالات یا فلسفیانہ نظاموں کو انسانی فکر کے رواں دھارے میں شامل نہیں سمجھتے اور اپنی تاریخِ فلسفہ میں جگہ دینے کے لیے تیار نہیں، یہاں تک کہ غزالی، ابن رشد، ابن عربی، ابن خلدون، بو علی سینا اور فارابی جیسے عظیم الشان مفکرین اور معلمین کو بھی انسانی فکر کے ارتقا کی تاریخ میں چنداں اہمیت کا حامل نہیں سمجھا جاتا، اس لیے اگر اقبال کو عصرِحاضر کے فلسفیوں میں شامل نہیں کیا جاتا تو اس میں حیرت کی بات نہیں، عام طور پر فلسفہ کے مغربی مؤرخین اپنی تالیفات کو مغربی فکر کی تاریخ تک محدود رکھتے ہیں اور اپنے موضوع کی حدود کو اپنے اس رویّے کا جواز بناتے ہیں۔ لیکن وہ تالیفات جو مغربی فکر کی تاریخ تک محدود نہیں رکھی جاتیں ان میں بھی مسلمانوں کے افکار کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ بہرحال بیسویں صدی کے مفکرین میں اقبال اُصولاً ایک امتیازی مقام کے مستحق ہیں۔ اس لیے کہ اُنھوں نے جدید فلسفے کے ارتقائی عمل کی آخری کڑی کو مکمل کیا ہے۔ دُنیا کے کسی بھی فلسفی کے تمام تر خیالات کلی طور پر طبع زاد نہیں ہوتے۔ ہر فلسفی اپنے خیالات کا تانا بانا اپنے پیش روئوں کے خیالات اور فلسفے کے مسلّمات سے تیار کرتا ہے۔ افلاطون یا ہیگل جیسے فلسفی دُنیا میں چند ایک ہی ہیں جنھوں نے انسانی فکر کی کایاپلٹ دی ہو یا ایسا نظامِ فکر پیش کیا ہو جس میں متقدمین و معاصرین سے استفادہ نہ ہونے کے برابر ہو۔ اسی لیے کسی بھی قابلِ ذکر یا بڑے فلسفی کی اصل اہمیت یہ ہوتی ہے کہ وہ انسانی فکر میں کسی نئے تصور کا اضافہ کردے۔ اس اعتبار سے اقبال کا شمار یقینا عصرِحاضر کے بڑے فلسفیوں میں ہونا چاہیے کہ اُنھوں نے فلسفے کو ایک نئی مابعدا لطبیعیاتی تعبیر کا مواد فراہم کیا اور انسانی فکر کی تاریخ میں ’خودی‘ یا ’انا‘ کی تخلیقی فعلیت کو اس قدر شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا۔ یہ کہنا تو مبالغہ ہوگا کہ اقبال سے پہلے خودی کا کوئی تصور موجود نہیں تھا، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اقبال سے پیشتر کسی مفکر نے اپنے فلسفے کی اساس خودی یا انا کی تخلیقی فعلیت کے تصور پر نہیں رکھی، اگرچہ اس تصور کے آثار ہمیں مغربی فکر کی تاریخ میں کانٹ ہی سے ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اسپینوزا کا تصورِ ارادہ بھی انا کی تخلیقی فعلیت ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے، برگسان کا عقلِ تجربی یا عقلِ منطقی کے مقابلے میں وجدان کو اہمیت دینا بھی اسی رجحان کا آئینہ دار ہے، لیکن مغربی فلسفے کے اس میلان یا رجحان کی منطقی تکمیل اقبال کے تصورِ خودی ہی میں ہوتی ہے، اسی طرح اقبال نے اسلامی تصورات کے حوالے سے زندگی اور کائنات کی رُوحانی اور اخلاقی تعبیر کا جو منہاج استوار کیا ہے، وہ انھیں عصرِحا ضر میں ایک مابعد الطبیعیاتی مفکر کے طور پر ضرور خصوصی اہمیت کا حامل بناتا ہے۔ اپنے انگریزی خطبات میں اقبال نے مذہب، فلسفہ اور سائنس کے درمیان مشترکہ اقدار اور خصوصیات تلاش کرنے اور اُنھیں بہت حد تک ہم آہنگ کرنے کی جو سعی کی ہے، وہ بھی بذاتِ خودکم اہمیت کاکارنامہ نہیں ہے۔ ان کی یہ سعی اُنھیں مذہبی مفکروں کی صف میں بھی ممتاز کرتی ہے۔ اور اسلامی فکر کی تاریخ میں اُنھیں غیرمعمولی امتیاز بھی عطا کرتی ہے،… حقیقت یہ ہے کہ مشرق میں اُن کے افکاروخیالات کی اصل اہمیت اور قدروقیمت زیادہ تر اسلامی افکار کے حوالے سے ہے، اور یہ حوالہ ایسا ہے جو اُنھیں غالباً دُنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز تھا۔ اسلامی مشرق میں ان کا اصل کارنامہ قدیم افکار کی تنقیح اور انتخاب کے علاوہ عصرِحاضر کے اسلامی تفکر کے لیے بعض اساسی خطوط فراہم کرنا ہے۔ اُن کے تفکر نے مسلمانوں کے فکر کے لیے مہمیز کاکام دیا ہے، اس میں شک نہیں کہ اُن کے بعد اسلامی مشرق کو ابھی تک اُن سے بڑا یا اُن جیسا کوئی مفکر نصیب نہیں ہوا۔ لیکن تفکر کے جس عمل کو اُنھوں نے جاری کیا ہے اسے ایک عظیم فکری کارنامے سے کم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جن عوامل نے جدید دُنیا میں اسلامی تمدن کے احیا اور اسلامی تفکر کی پیش رفت کو ایک ہمہ گیر تحریک کی صورت دے دی ہے ان میں اقبال کے فکر اور شاعری کو اوّلیں اور مؤثر ترین حیثیت حاصل ہے۔ مشرق اور اسلام سے محبت اور اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کی آرزو کو اقبال نے پوری دُنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک طرزِ احساس اور نصب العین بنا دیا ہے، ان کے عہدآفریں شاعر اور مفکر ہونے کے لیے اس سے بڑی شہادت کیا ہوگی کہ اُن کا فکر عصرِحاضر کے مسلمانوں کے طرزِفکر اور طرزِ احساس کی اساس بن گیا ہے۔
اقبال نے شاعری کو ایسے علوم وفنون کا حوالہ بنا دیا ہے، جن کے بغیر عصرِرواں میں انسانی زندگی کی کوئی تشریح یا تعبیر مکمل نہیں ہوسکتی، فلسفہ جو ہمارے قدیم مکتبوں میں اشاراتِ بوعلی سینا، شمسِ بازغہ یا سُلّم العلوم تک محدود تھا، اقبال اسے عملی زندگی کی بساط پر لے آئے اور ثمریت یا نتائجیت کا ایک ایسا منہاج پیدا کیا جو بیک وقت تصوریت یا عینیت (idealism) اور حقیقت پسندی (realism) کا ایک متوازن امتزاج پیش کرتا تھا۔ اُنھوں نے برصغیر کی علمی دُنیا میں فلسفے کے آفاق کو ایک طرف مولانا رُوم، بیدل، عراقی اور مجدد الف ثانی تک اور دوسری طرف برگساں، وہائٹ ہیڈ، نطشے اور گوئٹے تک وسیع کیا اور مسلمانوں کے لیے نیز انسانی فکر کے ارتقا کے ہر سنجیدہ طالب علم کے لیے مسائل و معارف کا ایک ایسا تناظر (perspective) فراہم کیا، جس کی روشنی میں حیاتِ انسانی کے دقیق اور اہم مسائل کو زیادہ آسانی اور صراحت کے ساتھ دیکھا اور سمجھا سکتا ہے۔ اسی طرح اُنھوں نے نفسیات میں میکڈوگل اور ولیم جیمز کے خیالات کو عام علمی دُنیا میں متعارف کرایا، اور وجدانی فلسفے کی مقبولیت اور تشریح کے لیے نئے خطوط و اشارات مرتب کیے۔ اُنھوں نے مذہب، سائنس اور فلسفے کی ممکنہ تطبیق تلاش کرتے ہوئے مذہبی واردات کو سمجھنے اور پرکھنے کے بعض معائیر بھی مقرر کیے اور عملاً فلسفے، نفسیات اور مذہب کے اُن مسائل کو چھؤا جن کا مسلمانوں کی تمدنی زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ اس خاص مقصد کے لیے اُنھوں نے مسلمانوں کے لیے ایک ایسا نظامِ حوالگی (frame of referces) ترتیب دیا، جس میں ماضی کے بعض ایسے فکری حوالوں کو زندہ کیا گیا تھا، جو عمومی فراموش گاری کا شکار ہوکر طاقِ نسیاں کی زینت بن چکے تھے۔ بالخصوص مولانا رُوم کے افکار پر اُن کا زور ایک ایسا عمل تھا جس نے مولانا رُوم ہی کو نہیں بلکہ اسلامی فکر کی پوری روایت کو ایک زندہ حوالے کے طور پر ذہنوں کے سامنے لاکھڑا کیا۔ اگرچہ مولانا کے کلام اور افکار سے دلچسپی اقبال کے افکار کی اشاعت سے پہلے بھی موجود تھی۔ اور مولانا شبلی نعمانی نے سوانح عمری مولانا رُوم، لکھ کر اس عمومی دلچسپی کو تاریخی اور فکری اساس بھی فراہم کردی۔ لیکن اقبال نے مولانا رُوم کو پورے اسلامی تمدن کے ایک عظیم اور مثالی شاعر کی حیثیت سے جدید اسلامی دُنیا کے سامنے پیش کیا اور فکرِ رُومی سے استفادے کی عملی صورتیں بھی پیش کیں، غرض اقبال نے جدید اسلامی فکر کو ایک نئی تحریک بھی دی اور اسے حوالوں کا نظام بھی دیا تاکہ وہ خود مکتفی بھی رہے اور اس کے رشتے اپنے اصلی سرچشموں کے ساتھ بھی برقرار رہیں۔ اقبال نے اپنی فارسی شاعری کے ذریعے برصغیر کے اسلامی تمدن کو اس کے قدیم تہذیبی اور علمی سرچشموں سے مربوط کیا اور اُردو شعر و ادب کو بھی دہلی، لکھنؤ اور اکبرآباد کی نفی کیے بغیر، شیراز و تبریز کی طویل شعری، ادبی اور فکری روایت کی یاد دلائی، اُنھوں نے ایشیا میں ایک عظیم تر اسلامی تمدن کے نشووارتقا کا خواب دیکھا اور اس خواب کو پیرایۂ تعبیر دینے کے لیے ایک ایسا فکری سانچہ بھی دیا جسے ہم اس مثالی اسلامی تمدن کی فکری اور تہذیبی اساس کَہ سکتے ہیں۔
اکثر فلسفیوں کو معلمین بھی کَہ دیا جاتا ہے، اقبال کو بھی اگر ایک معلم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا بلکہ لفظ کا صحیح ترین اطلاق ہوگا،… اگر برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی اور اجتماعی زندگی کی تشکیلِ نوکے طویل عمل میں اقبال کے کردار کا تجزیہ کریں تو وہ صحیح معنوں میں ایک معلمِ قوم کی حیثیت میں اپنا تاریخی کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں، بلکہ اگر اُنھیں عصرِحاضر کا ایک عظیم معلمِ قوم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اُنھوں نے ایک مثالی معلمِ قوم کی طرح اپنی قوم کی ذہنی، جذباتی، فکری اور اجتماعی ضرورتوں کو محسوس کیا، اُن کے مسائل کا دقتِ نظر سے تجزیہ کیا، اُن کے سردو خنک سینوں میں مقصدِ حیات کا شعلہ بھڑکایا، اُن کے دلوں میں زندہ رہنے کی اُمنگ بیدار کی، اُنھیں بتایا کہ جذبے کی حرارت، کردار کی صلابت… اور ارادے کی قوت قوموں کی زندگی میں کیا معنی رکھتی ہے۔ اُنھوں نے اپنی قوتِ تخلیق، تاثیرِ سخن اور اخلاصِ فکر سے ایک پوری قوم کی قلبِ ماہیت کردی۔ اُنھوں نے قوم کو جو نصب العین دیا وہ بیک وقت مثالی بھی تھا اور حقیقت پسندانہ بھی۔ جنوب مغربی ایشیا میں ایک آزاد اسلامی مملکت کی تشکیل، ایشیا میں ایک نئے اسلامی تمدن کی صورت پذیری اور عالمِ اسلام کا اتحاد۔ اقبال کے نصب العین کے تین بنیادی زاویے ہیں۔ جنوب مغربی ایشیا میں ایک آزاد اسلامی مملکت کاقیام اُن کی وفات کے صرف نوسال بعد عمل میں آگیا،… اور عالمِ اسلام کے واقعات کی رفتار اس حقیقت کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ اقبال کا مرتب کیا ہوا نصابِ فکروعمل شعوری اور لاشعوری، دونوں سطحوں پر، ایک نئی اسلامی دُنیا کی تشکیل میں نہایت گہرے اور دوررَرس اثرات کا حامل ثابت ہورہا ہے:
گمان مبر کہ بپایان رسید کارِ مغان
ہزار بادۂِ ناخوردہ در رگِ تاک است!
عصرِحاضر میں تاریخ کے عمل کی جدلیت کو سمجھنے میں اقبال نے جس بصیرت کا اظہار کیا، وہ حیران کن بھی ہے… اور سبق آموز بھی۔ وہ صمیمِ قلب سے مشرق اور ایشیا کی مظلوم و محکوم اقوام کی بیداری اور آزادی کے خواہاں تھے۔ اگرچہ اُن کا پیغام عالمگیر ہے، اور وہ ادبیاتِ عالم میں پورے مشرق کی نمائندگی کرتے ہیں، تاہم اُن کی نظریں خاص طور پر ایشیا کی بیدار ہوتی ہوئی اقوام کی صورتِ احوال پر مرکوز تھیں۔ اُن کی شاعری میں بیسویں صدی کے اوائل کے ایشیا کی بہت سے اہم تحریکات کا پرتَو ملتا ہے۔ وہ ایشیائی اقوام کے ہر نئے اقدام کو دلچسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ آزادی کی ہر تحریک میں اُنھیں ایشیائی تہذیب کی برتری اور تاریخِ عالم میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے امکانات کا سراغ ملتا ہے۔ ان کا یہ کارنامہ کم اہمیت کا حامل نہیں کہ اُنھوں نے بیسویں صدی میں اُردو شاعری کو پورے ایشیا کے احساسات اور اُمنگوں کا ترجمان بنا دیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُنھوں نے اسلامی دُنیا کو بالخصوص ایک نئی زندگی کا پیغام دینے کے علاوہ اسے ایک نیا فکری، انسانی اور تاریخی تناظر بھی عطا کیا۔ اُن کی شاعری میں اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کی آرزو کے ساتھ ساتھ مظلوموں اور محکموموں کی صورتِ حال کا تجزیہ بھی ملتا ہے۔ اُنھوں نے نہایت واضح انداز اور مؤثر ترین پیرائے میں مغرب کے استعماری نظاموں سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا، اُنھوں نے مشرقی اور ایشیائی اقوام کو خودشناسی، خودگری اور خودنگری کا سبق دیا اور اُنھیں قوت اور توانائی کے حصول کی راہ دکھائی، لیکن قوت اور توانائی کو عالمگیر انسانی اُخوت اور انسانی فوزوفلاح کے بلند تر مقاصد کے لیے صَرف کرنے کا سبق بھی صراحت کے ساتھ دیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس قوت پسندی کے باوجود اُنھوں نے ہر نوع کے استعمار و استبداد کو ردّ کردیا، اور صرف اُنھیں مقاصدِ عالیہ کی نشاندہی کی جو مجموعی طور پر پوری انسانیت کے لیے قابلِ آرزو ہوسکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال کا فکروفن آج بھی حیات آفریں تصورات کا سرچشمہ ہے۔ اُنھوں نے جس طرح مشرقی اور ایشیائی اقوام کو ایک نئے فکری انقلاب سے دوچار کیا۔ اس کی پیش بینی خود اُن کے ہاں بھی موجود تھی۔
پس از من شعرِ من خوانند و می رقصند و می گویند
جہانے را دگر گون کرد یک مردِ خود آگاہے!